Friday 24 July 2015

ہوشیار!!!

برمنگھم یونیورسٹی سے ملنے والا قرآن کریم جعلی ہے، کفار کی سازش ہے، وہ قرآن موجودہ قرآن سے تھوڑا مختلف ہے، احتیاط کریں یہ قرآن کو متنازعہ بنانے کی سازش کا ابتدائی مرحلہ ہے ۔۔۔!!
برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کے ایک حالیہ اعلامیے میں برطانیہ کی برمنگهم یونیورسٹی کی جانب سے انکی لائبریری میں سو سال سے موجود ایک مخطوطے کے متعلق یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ قرآن کریم کا قدیم ترین نسخہ ہوسکتا ہے لیکن اس نسخے کی جو تصویر اور ویڈیو منسلک ہے اس سے یہ خبر کلی طور سے مطابقت نہیں رکهتی جسکی مکمل تحقیق تو ماہرین فن ہی پیش کر سکتے ہیں تاہم فی الوقت چند طالبعلمانہ نکات پیش خدمت ہیں .
1- اس نسخے میں نقطے موجود ہیں جبکہ میری ناقص معلومات کے مطابق عہد عثمانی کے آخر تک قرآنی رسم الخط میں نقطے نہیں تهے ،نقطوں کی ابتداء میری ناقص معلومات کے مطابق بظاہر حضرت معاویہ رضى الله عنه کے دور میں ذیاد بن ابیہ حاکم بصرہ کے حکم سے ابوالاسود الدؤلى نے کی یا عبدالملک بن مروان کے دور میں انکے شاگرد نصر بن عاصم اللیثی اور یحیی بن یعمر العدوانی نے کی لهذا یہ نسخہ بظاہر عهد نبوی سے بعد کا ہے جب رسم الخط قدرے ترقی کر چکا تها -
2- اس نسخے میں دو سورتوں کے درمیان نیز آیات کے درمیان فاصلہ بیان کرنے کیلئے سہ نقطی اور چهار نقطی علامات موجود ہیں جبکہ ابتدائی دور میں یہ طریقہ متداول نہیں تها ، نیز سرخ روشنائی کا استعمال برتا گیا ہے جوکہ قدیم طرز میں نہیں تها بلکہ دوسری صدی کے اواخر اور تیسری صدی کی ابتدا میں رائج ہوا
3- انکی ریڈیو کاربن ٹیسٹ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ نسخہ عیسوی تقویم کے سن 568 سے سن 645 کے درمیان کا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ایک قول کے مطابق 568 اور راجح قول کے مطابق 571 ہے اور نبوت چالیس سال کی عمر میں ملی ہے تو وحی کی ابتدا 608 اور 611 کے درمیان ہوگی اور تئیس سال تک وحی نازل ہوتی رہی اس اعتبار سے مکمل نسخہ 631 اور 634 کے درمیان ہی وجود میں آسکتا ہے اس سے پہلے نہیں، جبکہ دیگر علامات سے اس کا کم از کم دوسری صدی کے اواخر کا ہونا ثابت ہوتا ہے
4- یہ رسم الخط توپ قاپی میں محفوظ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نسخے سے ذیادہ ترقی یافتہ بهی ہے لهذا توپ قاپی میں محفوظ نسخہ قدیم تر ہے اور موجودہ رائج قرآن کے مطابق بهی اور حال ہی میں وہ نسخہ اب من وعن چهپ چکا ہے اور موجودہ رسم الخط کا صفحہ اس کے بالمقابل اس کے ساته چهاپا گیا ہے ،
ا 5- ریڈیو کاربن ٹیسٹ سے اگر اس کی کهال کا زمانہ عهد نبوی فرض کر بهی لیا جائے تب بهی اس سے نسخے کا عهد نبوی میں تحریر کیا جانا ثابت نہیں ہوتا بلکہ ممکن ہے کہ قدیم کهال پر بعد کے زمانے میں تحریر کی گئی ہو جیسا کہ یہ طریقہ نادر نہیں ہے ،
6- قرآن کا واحد اور قدیم ترین نسخہ وہی ہے جو اہل علم کے سینوں میں روز اول سے تا قیامت عزیز وحکیم ذات کی تائید سے محفوظ ہے اور رہے گا .
7- اسلامی اصول تحقیق کی رو سے کوئی تحریر اس وقت تک معتبر قرار نہیں پاتی جب تک اس کے کاتب کا تعین نہ ہو اور وقت تحریر سے وقت دریافت تک ہر دور میں اس کی حفاظت کی یقینی تفصیل اس پر مذکور نہ ہو -
8- قرآن کا ثبوت تواتر کی یقینی اور قوی ترین قسم تواتر طبقہ سے ہے جو اپنی ابتدا سے تا قیامت نسل در نسل سینہ بسینہ منتقل ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا لہذا ہر نئی تحریر اور مخطوطہ اپنے معتبر ہونے میں اس قرآن کی مطابقت کی محتاج ہے لیکن قرآن اپنے معتبر ہونے میں کسی مخطوطے کے مطابق ہونے کا محتاج نہیں .
ان امور کو مد نظر رکهتے ہوئے محض ان ماہرین کی تحقیق پر سر تسلیم خم کرنے کے بجائے درایت کے اصولوں کی کسوٹی پر بهی پرکهنا مطلوب ہے .

No comments:

Post a Comment