Wednesday, 22 July 2015

پتھروں اور نگینوں کے اثرات

تمام اور خالص تعریف اللہ ھی کا حق ھے جِس نے اپنے رسول کو ھدایت کے ساتھ بھیجا اور اُسے اپنی وحی کے مطابق کلام کروایا اور اپنے رسول کے بارے میں گواھی دی کہ وہ اپنی خواھش کے مطابق بات نہیں کرتا اور ھمیں خبر دی کہ جو کوئی بھی اللہ کی بات کو جُھٹلائے گا اور اُس سے رُوگردانی کرے گا اور اُس کے رسول کی اطاعت نہیں کرے گا' اللہ ایسے ھر شخص کو بڑھکتی ھوئی آگ میں داخل کرے گا..
ھم مسلمانوں میں پائے جانے والے بہت سےعقائد ایسے ھیں جن کے ٹھیک ھونے کا اسلامی تعلیمات میں کوئی صحیح ثابت شدہ ثبوت نہیں ملتا.. یعنی نہ تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی کتاب میں ان عقائد کی درستگی کی کوئی دلیل ملتی ھے اور نہ ھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قولی' فعلی یا تقریری سُنّت میں سے اور نہ ھی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے اقوال و افعال میں.. بس لوگوں کی خود ساختہ من گھڑت روایات اور باتیں ھیں اور اسی طرح کے کچھ بے ثبوت قصے کہانیاں' خواب اور تخیلات ھیں..
ایسے ھی خود ساختہ' مَن گھڑت عقائد میں کچھ خاص پتھروں کے بارے میں اس قسم کے عقیدے بھی پائے جاتے ھیں کہ وہ پتھر انسان کے لیے روحانی یا مادی فائدہ یا نقصان پہچانے کی قدرت یا صلاحیت رکھتے ھیں یا اگر انہیں پہنا جائے تو وہ پتھر انسان کو کوئی فائدہ پہنچاتے ھیں یا مختلف قسم کی تکلیفوں ' بیماریوں اور پریشانیوں وغیرہ سے بچاتے ھیں.. ان خلاف اسلام عقائد کو کچھ مضبوط بنانے کے لیے اور ان کی گمراھی کو درست دکھانے کے لیے ان پتھروں کے اثرات کو ستاروں' سیاروں کے اثرات اور ان کی چالوں سے بھی جوڑا جاتا ھے جو کہ گمراھی پر گمراھی کے مصداق ھے..
معاملہ ان پتھروں اور دھاتوں کی مادی تاثیر پر مشتمل باتوں تک ھی محدود نہیں کہ یہ سمجھا جائے کہ دیگر ادویات یا طاقت پہنچانے والی خوراک کی طرح یہ بھی اثر رکھتے ھیں بلکہ معاملہ روحانی اور اللہ کی مقرر کردہ تقدیروں پر اثر انداز ھونے کی باتوں کا ھے.. آئیے اب ھم اللہ کی کتاب قران کریم اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سُنّت شریفہ کی کسوٹی پر پرکھ کر ان عقائد اورخبروں کی حقیقت جانتے ھیں..

سب سے پہلے ھم اللہ جلّ و علا کے کلام ' قران حکیم میں دیکھتے ھیں کہ کیا اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی کتاب شریف میں ان پتھروں یا کسی قسم کے پتھر کے بارے میں ایسی کوئی خبر دی ھے کہ وہ انسان کی زندگی پر کسی قسم کا کوئی اثر رکھتا ھے..؟؟؟
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اپنی کتاب قران مجید میں صرف چار مقامات پر ایسے پتھروں میں سے کچھ کا ذکر فرمایا ھے.. وہ مقامات درج ذیل ھیں..
گویا کہ وہ (حوریں) یاقوت اور مونگے ھیں.. سُورت الرحمٰن آیت 22..
اُن دونوں (سُمندورں ) میں سے موتی اور مونگے نکلتے ھیں.. سُورت الرحمٰن آیت 58..
(وہ حوریں ) چُھپے ھوئے موتی کی طرح (ھیں).. سُورت الواقعہ آیت 23..اور ان (جنّتیوں) کے اِرد گِرد ھمیشہ (ایک ھی عمر میں ) رھنے والے چھوٹی عمر کے لڑکے رھا کریں گے.. اگر آپ اُن (لڑکوں) کو دیکھیں تو بکھرے ھوئے موتی سمجھیں.. سُورت الانسان آیت 19..
ان سب ھی آیات مبارکہ میں جن پتھروں کا ذِکر فرمایا گیا ھے ان میں کسی کے بارے میں ایسی کوئی خبر نہیں بیان فرمائی گئی کہ یہ پتھر انسان کی دُنیاوی زندگی میں یا اُخروی زندگی میں اسے کوئی روحانی یا مادی فائدہ یا نقصان پہنچانے کی قدرت یا صلاحیت رکھتے ھیں بلکہ صِرف آخرت میں اھل جنّت کو دی جانے والی نعمتوں کے بارے میں کچھ اندازہ کرنے کے لیے ان پتھروں کو تشبیہ' مثال کے طور پر ذِکر فرمایا گیا ھے.. ان آیات شریفہ میں کہیں اِشارۃً بھی ایسا کوئی ذِکر نہیں جس کی بنا پر اِن پتھروں کو انسانی زندگی میں روحانی یا مادی طور پر کسی بھی قسم کا اثر رکھنے والا سمجھا جائے.. اور نہ ھی اللہ کے مقرر کردہ مفسر اور شارح قران نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اور نہ ھی اُن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شاگردوں صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف سے اور نہ ھی اُمت کے أئمہ کرام رحمہم اللہ کی طرف سے ان آیات شریفہ کی کوئی ایسی تفسیر بیان ھوئی ھے جس کی بنا پر ان آیات مبارکہ میں مذکور پتھروں یا ان جیسے دوسرے پتھروں یا کسی بھی اور پتھر کے بارے میں یہ سمجھا جا سکے کہ وہ انسانی زندگی میں کسی تاثیر کے حامل ھوتے ھیں.. لہذا اس قسم کے عقائد کی درستگی کے لیے اللہ کی کتاب قران مجید میں سے بھی کوئی دلیل میسر نہیں ھو پاتی..

قران کریم کے بعد اللہ کے دِین کے احکام ' معاملات اور اللہ کی رضا کے مطابق عقائد کا دوسرا ذریعہ اور دوسری کسوٹی اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قولی ' فعلی یا تقریری سُنّت مبارکہ ھے.. جب ھم سُنّت شریفہ کا مطالعہ کرتے ھیں تو ھمیں وھاں بھی کوئی ایسی صحیح' ثابت شدہ خبر نہیں ملتی جو کچھ خاص پتھروں کو یا کسی بھی پتھر کو انسان کی زندگی میں کسی بھی قسم کے اثر والا بتاتی ھو..
ایسی روایات جن میں کسی پتھر کے بارے میں کوئی ایسی خبر ھے کہ وہ پتھر انسان کو کسی قسم کا فائدہ دیتا ھے یا کسی قسم کے نقصان سے بچاتا ھے' وہ ساری ھی روایات خود ساختہ' من گھڑت اور جھوٹی ھیں جن کی حقیقت صدیوں پہلے حدیث شریف کی تحقیق کرنے والے أئمہ کرام رحمہم اللہ جمعیاً نے واضح کر دی ھے.. مثال کے طور پر چند ایک روایات کا ذِکر درج ذیل ھے..
"عقیق کی انگوٹھی پہنا کرو کیونکہ وہ مُبارک ھے.." إِمام العقیلی رحمہُ اللہ نے اس روایت کو ذِکر کرنے کے بعد کہا.. اس روایت کو ابن الجوزی نے "الموضوعات " میں ذِکر کیا ھے اور اس موضوع کے بارے میں (ملنے والی ساری ھی روایات میں سے) کچھ بھی ثابت نہیں ھوتا..
عقیق کی انگوٹھی پہنا کرو کہ عقیق غربت دور کرتا ھے.. (موضوع)
عقیق کی انگوٹھی پہنا کرو کہ عقیق کاموں میں کامیابی والا ھوتا ھے اور دائیں ھاتھ سجاوٹ کا زیادہ حقدار ھے.. (موضوع)
جس نے عقیق کی انگوٹھی پہنی اور اس پر یہ نقش کیا کہ "اور مجھے توفیق دینےو الا اللہ ھی ھے" تو اللہ اس کے لیے ھر خیر مہیا کر دیتا ھے اور دونوں مقرر فرشتے اس شخص سے محبت کرنے لگتے ھیں.. (موضوع)
جس نے عقیق کی انگوٹھی پہنی اس کے صِرف اسی کا فیصلہ کیا جاتا ھے جو بہترین ھوتا ھے.. (موضوع)
زمرد کی انگوٹھی پہنا کرو کہ زمرد آسانیوں والا ھے اور اس میں کوئی تنگی نہیں.. (موضوع)
زبرجد کی انگوٹھی پہنا کرو کہ زبرجد آسانیوں والا ھے اور اس میں کوئی تنگی نہیں.. (موضوع)
یہ اور اس قِسم کی دوسری روایات جن میں ان پتھروں کے بارے میں نفع پہنچانے یا تقصان دور کرنے والے ھونے کی خبریں ھیں' کوئی ایک روایت بھی سچی نہیں.. کوئی ایک روایت بھی حدیث کے طور پر تو کیا اُن بزرگوں سے بھی ثابت نہیں جن سے یہ منسوب کی جاتی ھیں.. جیسا کہ بعض حضرات اپنے اپنے اماموں اور سلسلوں کے بزرگوں سے اس قسم کی خبریں منسوب کیے ھوئے ھیں..
اس لیے کسی پتھر یا دھات کو کسی مادی ذریعے یا سبب کے بغیر ھی کسی طور کوئی نفع پہنچانے یا کسی نقصان سے بچانے والا سمجھنا سوائے گمراھی اور تباھی کے کچھ اور نہیں..
اللہ تعالیٰ ھم سب کو اور ھر ایک مسلمان کو وہ عقائد اپنانے اور وہ عمل کرنے کی ھمت دے جن پر اللہ راضی ھوتا ھے اور ھر گمراھی اور شر سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے.

No comments:

Post a Comment