Saturday, 16 May 2015

ڈاڑھ کا درد


ڈاڑھ کا درد وہ درد ہے، جسے انسان کا پورا جسم محسوس کرتا ہے،سوائے داڑھ کے !جب یہ ہوتا ہے تو انسان انسان نہیں رہتا ۔ سمٹ کرایک داڑھ بن جاتا ہے، جو یہاں سے وہاں لڑھکتی پھرتی ہے۔ اس مشاہدے کا بیان میں نے میاں عبدا لقدوس سے کیا توکہنے لگے کہ بات تم نے اچھی کہی ہے، لیکن یوں کہتے تو زیادہ اچھا رہتا کہ جب داڑھ میں درد جاگتا ہے تو وہ پھیل کر انسان بن جاتی ہے اور اس کے ساتھ وہی سلوک کرنے لگتی ہے جو وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ کرتا ہے۔ یعنی خود تو پتہ نہیں کس غرور میں پھولا رہتا ہے اور باقی سب کو دکھ پہنچائے جاتا ہے۔چنانچہ داڑھ اور اس کے درد کے لئے ہی علامتاًکہا گیا ہے کہ : سمٹے تو دلِ عاشق پھیلے تو زمانہ ہے!
مجھے ایک بار پھر ان کے حسنِ تحریف و تحذیف کی داد دینا پڑی کہ ذرا سے لفظی ہیر پھیر سے انہوں نے شاعر کے مصرعے کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا۔ ایک روز پھراُن کی رگِ فلسفہ پھڑکی تو فرمایا: انسان کی شخصیت میں دو چیزیں ایسی ہیں، جو اس کے کردار اور مستقبل پر دور تک اور دیر تک اثر ڈالتی ہیں۔ داڑھ اور داڑھی! مگر موخرالذکر صرف آدھی انسانیت پر اپنے نیک و بد اثرات مرتب کر سکتی ہے۔‘‘
’’آدھی انسانیت ! یعنی؟‘‘مجھے پوچھنا پڑا۔
’’بھئی عورتوں کی داڑھی نہیں ہوتی نا، اس لئے نصف انسانیت کہاہے۔ خواتین کو نیک و بد اثرات مرتب کرانے کے لئے داڑھی کا نہیں داڑھی والوں کا احسان اٹھانا پڑتا ہے۔‘‘ 
خاں صاحب کچھ بھی کہیں میرا بہرحال یہ عقیدہ ہے کہ داڑھ کے درد سے انسان کی شخصیت آدھی کیا چوتھائی بھی نہیں رہ جاتی۔البتہ خود میرا جب اس درد سے پہلی بار واسطہ پڑا تو بے اختیار مجتبیٰ حسین کی داڑھ کا درد یا د آگیا، جس کا بیان کرتے ہوئے انہوں نے لکھا تھا کہ داڑھ دُکھتے ہی یوں محسوس ہوا جیسے منھ میں درد کی قوسِ قزح کھل اٹھی ہے!درد کی ایسی جمالیات دنیا کی کسی داڑھ کو نصیب نہ ہوئی ہوگی۔ مجتبیٰ صاحب داڑھ کے درد پر پورا مضمون لکھنے کی بجائے بس یہ ایک جملہ لکھ د یتے تب بھی مضمون کی مقبولیت میں کمی نہ آتی۔ یقین کیجئے مجتبیٰ صاحب کا جملہ یاد کرکے اس کی لذت سے کچھ دیر کے لئے میں اپنی داڑھ کا درد بھی بھول گیاکہ ان کی داڑھ بہر حال اردو کے مزاحیہ ادب میں میری داڑھ سے کہیں زیادہ بڑی اور سینئرہے۔ آخر جب ڈاکٹر کی دی ہوئی دافع دردPain Killer گولی منھ میں ڈالی، تب جا کر درد کو ہوش آیا اور گھر والوں کوہی نہیں بلکہ کچھ دیر بعد پڑوسیوں کوبھی معلوم ہوگیا کہ ان کے آس پاس کوئی داڑھ درد میں مبتلا ہو چکی ہے اور یہ کوئی بھوکی بلی نہیں، بلکہ ایک انسانی داڑھ شور مچا رہی ہے۔ 
یوں تو دنیا میں طرح طرح کے درد پائے جاتے ہیں۔ پیٹ کا درد، گردے کا درد، گھٹنے کا درد،گردن کا درد، سر کا درد، دل کا درد جیسے انفرادی دردوں کے علاوہ ایک اجتماعی درد موسوم بہ’ ملت کا درد‘ بھی ہے جو عام طور سے مسلم قائدین میں پایا جاتا ہے اور جسے قائدِ ملت کے ساتھ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لیکن درد کی نوعیت کو ملحوظ رکھا جائے تو یہ تمام درد، داڑھ کے درد کے آگے دودھ پیتے بچے ہیں، یعنی داڑھ کے درد کو آپ بابائے درد یا دردِ اعظم بھی کہہ سکتے ہیں۔یہ ٹھیک نہ لگے تو دردوں کا مغل اعظم کہہ لیجئے۔ 
یوں تو درد کی طرح داڑھوں کی بھی کئی قسمیں ہو تی ہیں۔ پہلی داڑھ ، دوسری داڑھ اور تیسری داڑھ تو نام سے ظاہر ہے کہ کن داڑھوں کو کہتے ہیں۔ ایک عقل داڑھ ہوتی ہے جو بالعموم جوانی میں نکلتی ہے۔ عقل داڑھ کے نکلتے ہی آدمی بے وقوفیاں شروع کر دیتا ہے۔وہ بے وقوفیاں جنہیں وہ تمام عمر جھیلتا اور ڈھوتا ہے۔ شادی بالعموم عقل داڑھ نکلنے کے بعدانسان کی پہلی ایسی حماقت ہوتی ہے، جس کاوہ بڑی شان، بڑی آرزو اور بڑی دھوم دھام سے ارتکاب کرتا ہے اور مسلمانوں میں تویہ حماقت، صاحبِ داڑھ و داڑھی کے باقاعدہ ایجاب و قبول اور گواہان کی موجودگی میں کرائی جاتی ہے تاکہ بعد میں وہ حماقت سے منحرف نہ ہو سکے۔داڑھ کے باقی درد تو اپنی اپنی طے شدہ مدت پوری کرکے رفع دفع ہو جاتے ہیں، لیکن عقل داڑھ کایہ منکوحہ دردانسان کا تب تک پیچھانہیں چھوڑتا، جب تک وہ نوبت نہ آجائے جس کی آرزو مرزا غالب نے اپنے ایک خط میں حبسِ دم کے اور ایک شعر میں قیدِ حیات و بندِ غم کے حوالوں سے کی تھی۔ یا پھر وہ صورت نہ پیداہوجائے، جس کا جشن مناتے ہوئے مزاح کے ایک شاعر نے مرزا کے شعر پر اپنا مصرعہ چپکاکرکہا تھا کہ:
بیویاں مرتی گئیں میں شادیاں کرتا گیا
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں
داڑھ کے درد میں مختلف لوگوں کے مختلف ردِّ عمل ہوا کرتے ہیں۔تاہم ایک مشترک ردِّ عمل یہ ہے کہ لوگ کان اور گال پر ہاتھ یا رومال رکھ کر علامہ اقبال کی تصویر بنے دنیا کی بے ثباتی پر غور کرتے رہتے ہیں۔کئی بار موبائل فون پر دیر تک باتیں سننے والی لڑکیوں کو دیکھ کر بھی یہ شبہ ہوجاتا ہے۔
ایک مرتبہ دفتر کے ایک ساتھی اسی طرح بڑی دیر سے ایک کان کو رومال سے دبائے بیٹھے تھے۔موصوف کرکٹ کے کم اور اس کی کمنٹری کے زیادہ شوقین تھے، اس لئے فوراً سمجھ میں آگیا کہ پاکٹ ٹرانزسٹر کان سے لگائے کرکٹ کمنٹری سن رہے ہیں اور ٹرانزسٹر کو رومال سے اس لئے چھپا رکھا ہے تاکہ ہر آنے جانے والابار بار اسکور پوچھ کر مزہ خراب نہ کرسکے۔ چہرے پر درد اور تکلیف کے جو آثار تھے، ان سے تازہ اسکور صاف پڑھا جارہا تھا کہ یقیناان کی محبوب ٹیم اس وقت خطرے میں تھی۔یہ دیکھ کرمیرے دل میں پورا اسکور جاننے کی ایسی تڑپ اٹھی کہ ان کے پاس جاکر بیٹھ گیا۔
’’مجھے افسوس ہے‘‘ میں نے کہا۔
’’شکریہ!‘‘ وہ بولے۔
’’غم نہ کیجئے یہ سب تو ہوتا ہی رہتاہے۔‘‘ میں نے تسلی دی۔
’’جی ہاں! آپ ٹھیک کہتے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا۔
جی تو چاہتا تھا کہ اب فوراً ان سے اسکور پوچھ لوں، مگروہ اتنے غمزدہ لگ رہے تھے کہ ہمت نہ ہوئی، اس لئے سوچا کہ انھیں باتوں میں لگا کر دھیرے دھیرے مطلب کی بات پر آنا چاہیے۔’’ویسے شروع کب ہو اتھا؟‘‘ میں نے میچ کے بارے میں پوچھا۔
’’آج صبح ہی، جب دفتر آرہا تھا تو راستے میں ا چانک شروع ہوگیا۔‘‘ وہ باقاعدہ کراہ کر بولے۔
’’اوہ! اب تو لنچ ہونے والا ہوگا۔‘‘
’’جی ہاں! دس منٹ اور ہیں۔‘‘ انھوں نے دفتر کی گھڑی دیکھ کر کہا۔
’’کون سا اوور چل رہاہے‘‘ میں نے دھیرے سے پوچھا۔
وہ عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگے، پھر آپ ہی بولے۔ ’’مگر اوور ٹائم تو میں کرتا ہی نہیں۔‘‘
’’میں اوور ٹائم کی نہیں، اوور کی بات کررہاہوں۔ اب تک تو پینتالیس اوور ہوگئے ہوں گے۔‘‘
’’کیا مطلب!؟‘‘ ان کی آنکھوں سے غصہ جھلکنے لگا۔
’’مم... میرا مطلب ہے کہ ...اس وقت کیا اسکور ہواہے۔‘‘
’’اسکور!‘‘ وہ دہاڑے۔’’ آپ کو کرکٹ سوجھ رہا ہے؟ اور میں داڑھ کے درد سے مرا جارہاہوں، یہ دیکھئے پوری داڑھ پھولی ہوئی ہے۔‘‘انھوں نے منہ کھول دیا اور تب سمجھ میں آیا کہ انھوں نے رومال سے دایاں کان اور گال کیوں دبا رکھا تھا۔
اتفاق دیکھئے کہ ایک ہفتے بعد وہ پھر حکیم الامت کے پوز میں دکھائی دئیے۔ دیر سے دائیں کان اور گال پر رومال رکھے افسردہ بیٹھے تھے۔میں نے سوچا عیادت ہی کرلی جائے۔’’مجھے افسوس ہے‘‘میں نے کہا۔
’’شکریہ!‘‘ وہ گھور کر بولے۔
’’داڑھ تو آپ نے نکلوادی تھی نا۔‘‘
’’جی ہاں نکلوادی تھی۔‘‘
’’چلیے گھبرانے کی کوئی بات نہیں، کبھی کبھی داڑھ نکلوانے کے بعد بھی درد ہوجاتاہے۔‘‘
’’کیا مطلب!؟‘‘
’’مطلب یہ کہ ہمارے خالونے بھی ایک مرتبہ داڑھ نکلوائی تھی، مگر بعد میں اس میں مواد پڑ گیا اور سپٹک ہوگیا۔ خدا مغفرت کرے!‘‘
یہ سنتے ہی ان کی آنکھوں سے خوف جھلکنے لگا۔ بار بار گال دباکرداڑھ والی جگہ کو ٹٹولنے لگے، بلکہ بعد میں تو منہ میں ا نگلی ڈال کر بھی مرحومہ کی جڑ کو زور سے دبایا۔’’مگر مجھے تو کوئی درد نہیں ہورہاہے۔‘‘ انھوں نے کہا ’’ آپ مجھے خواہ مخواہ ڈرا رہے ہیں۔‘‘ 
’’درد نہیں ہورہاہے تو گال کو رومال سے دبائے کیوں بیٹھے ہیں۔‘‘
’’گال...رومال۔ لاحول ولاقوۃ۔ یہ تو ٹرانزسٹر ہے جناب، کمنٹری سن رہاہوں۔ ہماری ٹیم کی حالت بہت خراب ہے۔‘‘انھوں نے رومال سے ٹرانزسٹر نکال کر آنکھوں کے آگے لہرادیا اور میں خفیف ہو کر رہ گیا۔

نصرت ظہیر

No comments:

Post a Comment