Wednesday 6 May 2015

کرنسی کارڈز کے شرعی احکام

کرنسی کارڈز کی اقسام اور ان کے شرعی احکام

مولانا محمد نعمان خالد 

ایک وقت تھا کہ دنیا میں اشیا کا تبادلہ اشیاء Barter)) کے ذریعے ہوتا تھا، لیکن اس طرح کے تبادلے میں بہت سے نقائص اور نقل و حمل کی بہت سی مشکلات تھیں، اس لیے کچھ عرصے بعد لوگوں نے چند مخصوص چیزوں مثلاً گندم اور چاول وغیرہ کو بطور کرنسی استعمال کرنا شروع کر دیا، لیکن ضرورتوں کے بڑھنے کے ساتھ اس میں بھی لوگوں کو مشکلات پیش آنے لگیں، تو اس کی جگہ سونے، چاندی اور دوسری دھاتوں کے سکوں کے ذریعے

خریدو فروخت ہونے لگی۔ چونکہ اس کرنسی کی نقل و حمل میں لوگوں کو آسانی تھی، اس لیے سونے، چاندی اور تانبے وغیرہ کے سکے پوری دنیا میں رائج ہو گئے اور دنیا کے ہر خطے میں سکوں کی کرنسی عروج پر پہنچ گئی، لیکن کرنسی کے ارتقاء کا معاملہ یہاں تک رکا نہیں، بلکہ گردشِ دوراں کے ساتھ ساتھ کرنسی نے اپنی مزید شکلیں بدلیں اور سترہویں صدی عیسوی میں سکوں کی جگہ کاغذی نوٹ Paper Money)) وجود میں آگئے ۔پھر جب دنیا میں دھوکہ، فراڈ اور ڈاکہ زنی جیسے جرائم حدسے تجاوز کرنے لگے تو ماضی قریب میں 1970ء سے مختلف اقسام کے کارڈز
PlasticMoney)) کرنسی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بازار میں چلنے شروع ہو گئے۔ آج کل عالمی تجارت (International Trading)، ہوٹل، ریسٹورنٹ، ہسپتال اور پٹرول پمپ وغیرہ میں رقوم کی ادائیگی کارڈز کے ذریعے ہی کی جاتی ہے، کیونکہ اس میں دھوکے اور فراڈ کا امکان کم ہوتا ہے، مغربی ممالک میں تو ان کارڈز کا اتنا رواج ہو گیا ہے کہ کوئی شخص نقد رقم کی صورت میں ادائیگی قبول ہی نہیں کرتا، اب تو بعض ممالک میں برقی ہندسے Electronic Money))بھی رقوم کی ادائیگی کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔
چونکہ غیر مسلم ادارے، مثلاً: ویزہ، ماسٹر، ڈائنس کلب اور امریکن ایکسپریس وغیرہ ان کارڈز کے انتظام کو کنٹرول کر رہے ہیں، اس لیے ان میں سے بعض کارڈز ایسے ہیں، جن کے استعمال کرنے کی صورت میں سودی معاملہ ضرور کرنا پڑتا ہے، آج کل ویزہ کمپنی کا کارڈ سب سے زیادہ استعمال ہو رہا ہے، لہذا بحیثیت مسلمان ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان کارڈز کو استعمال کرنے سے پہلے ان کے شرعی احکام سے واقفیت حاصل کرے، تاکہ قدم کہیں سود کے ممنوع باب میں نہ داخل ہو جائے۔

اس وقت انٹر نیشنل سطح پر مندرجہ ذیل کارڈز کسی بھی خدمت کے معاوضے اور اشیاء کی خریدوفرخت وغیرہ کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں:
1 ڈیبٹ کارڈ(Dabit Card)
2 چارج کارڈ (Charge Card)
3 کریڈٹ کارڈ (Credit Card)
4 اے، ٹی، ایم کارڈ (Automated Transfer Machine)
5 ریٹیل کارڈ (Retail Card)
ڈیبٹ کارڈ (Dabit Card)
یہ کارڈ جاری کروانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی جس ادارے کا کارڈ جاری کروانا چاہتا ہے، اس ادارے میں پہلے سے اس کا اکاؤنٹ موجود ہو، کیونکہ اس کارڈ کے اجراء کی صورت میں کارڈ ہو لڈر(Card Holder) کو صرف یہ سہولت حاصل ہوتی ہے کہ جب وہ اس کارڈ کو استعمال کرتا ہے تو ادارہ اس کے اکاؤنٹ سے مطلوبہ رقم نکال کر فوراً ادا کر دیتا ہے، اکاؤنٹ سے رقم ختم ہو جانے پر یہ کارڈ اس وقت تک ناقابل استعمال رہتا ہے جب تک کارڈ ہولڈر اپنے اکاؤنٹ میں دوبارہ رقم نہ ڈال دے اور اس میں کارڈ ہولڈر کو قرض وغیرہ کی کوئی سہولت نہیں دی جاتی۔گویا کہ یہ صرف رقم ادا کرنے کا کارڈ) (Card of Payment ہے، اور ادارہ اس کارڈ کو جاری کرنے کی کارڈ ہولڈر سے 2 طرح کی فیسیں وصول کرتا ہے، ایک کارڈ جاری کرتے وقت، جو متعین رقم کی صورت میں ہوتی ہے اور دوسری سالانہ فیس، جو ہر سال کارڈ کی تجدید کرنے کے لیے وصول کی جاتی ہے، اگر کوئی شخص سالانہ فیس کی ادائیگی میں تاخیر کرے تو اس سے اضافی رقم بطور سود لی جاتی ہے، اس کے علاوہ ادارہ اس تاجرسے بھی کمیشن لیتا ہے، جس سے اس کارڈ کے ذریعے خریداری کی گئی ہو، اور یہ کمیشن ایک فیصد سے 4 فیصد تک ہوتا ہے۔ شرعی حکم:
اس کارڈ کو استعمال کرنے میں قرض کا کوئی معاملہ ہوتا ہے نہ سود کا،اور نہ ہی غیر شرعی معاہدہ کرنا پڑتا ہے، بلکہ شرعی نقطہ نظر سے اس میں ’’حوالہ محضہ‘‘ کی صورت ہوتی ہے، یعنی کارڈ ہولڈر دکان دار کو یہ کارڈ دے کر کہتا ہے کہ خریدی گئی چیز کی قیمت میرے اکاؤنٹ سے وصول کر لیں، اور دکان دار اس کے اکاؤنٹ میں موجود رقم سے قیمت وصول کر لیتا ہے، لہذا اس کارڈ کو استعمال کرنا بلاشبہ جائز ہے، بشرطیکہ کارڈ ہولڈر اس کو غیر شرعی امور کی سہولت حاصل کرنے یا خریداری کے لیے استعمال نہ کرے۔                                                               (٭…کریڈٹ کارڈ کو بلا ضرورتِ شدیدہ استعمال کرنا جائز نہیں، کیونکہ اس میں سودی معاہدے پر دستخط کرنا ضروری ہوتا ہے ٭…کریڈٹ کارڈ کا جائز متبادل الحمدللہ اسلامی بینکوں کی طرف سے جاری کیا گیا ہے ٭…اے ٹی ایم کارڈ کی دونوں قسموں کا استعما ل شرعاً جائز ہے، اس کارڈ میں کوئی غیر شرعی کام یا معاہدہ نہیں کرنا پڑتا ٭…ڈیبٹ کارڈ کی طرح ریٹیل کارڈ کا استعمال بھی جائز ہے، بشرطیکہ کارڈ ہولڈر کسی غیر شرعی کام میں استعمال نہ کرے ٭)

No comments:

Post a Comment