فاطمہ زارا
دنیا کے کسی اور ملک میںدسترخوان کی ایسی وسعت درج نہیں کی گئی ہے جیسی کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دیکھنے میں آئی ہے۔ عالمی سطح پر روزہ افطار کرنے کے اتنے بڑے اجتماعات نہیں ہوتے جتنے یہاں ہوتے ہیں جبکہ سعودی شہر مدینہ منورہ میں واقع مسجد نبوی دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے انتہائی مقدس جگہ ہے۔ یہاں ہر سال پچاس لاکھ سے زائد افراد زیارت اور عبادات کی غرض سے پہنچتے ہیں۔ سب سے زیادہ افراد دوران حج یہاں کا سفر کرتے ہیں جبکہ دوسری بار رمضان کے مہینے میں یہاں سب سے زیادہ افراد آتے ہیں۔ اسی سبب رمضان میں یہاں صفائی ستھرائی سے لیکر لاکھوں افراد کے سحری اور افطار کے وسیع پیمانے پر انتظامات کئے جاتے ہیں۔ مکہ اور مدینہ کے علاوہ غالباً دنیا کے کسی اور ملک میں روزہ افطار کرنے کے اتنے بڑے اجتماعات نہیں ہوتے جتنے یہاں ہوتے ہیں۔ مسجد نبوی میں روزہ افطار کرنے والوں کی تعداد کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ افطار اجتماع کے انتظامات سنبھالنے والے خدام کی تعدداد پانچ ہزار سے زائدہوتی ہے۔ ملازمین کی تعیناتی کیلئے باقاعدہ ایک ایجنسی کام کرتی ہے جس کی خدمات میں مسجد نبوی کے امور کی دیکھ بھال شامل ہے۔ یہ ادارہ سعودی حکمراں شاہ عبداللہ کو جوابدہ ہے۔ شاہ عبداللہ خادم الحرمین شریفین کہلاتے ہیں یعنی مسجد نبوی اور مسجد الحرام مکہ کا’خادم ‘ یا خدمت گزار۔ مسجد نبوی میں 10ہزار سے زائد قالین بچھے ہوئے ہیں جن پر دوران رمضان ہر شام نہایت وسیع وعریض دسترخوان بچھائے جاتے ہیں جن پر بیٹھ کر لاکھو ں عمرہ زائرئن اور دیگر افراد بیک وقت زوہ افطار کرتے ہیں۔ یہ انتہائی پرلطف اور دلکش منظر ہوتا ہے۔ پوری مسجد اس کا صحن اور اردگرد کا تمام علاقہ زورافطار کرنے والوں سے کھچا کھچ بھرا ہوتا ہے۔ پانچ ہزار ملازمین کے علاوہ صاحب حیثیت سعودی شہری روزے کے انتظامات اپنی جیب سے بھی کرتے ہیں۔ایسے افراد کی تعداد میں سینکڑوں میں ہے۔ ان افراد کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ روزہ دار ان کے دسترخوان پر روزہ افطار کریں چنانچہ روزہ داروں کو مسجد کے گیٹ سے ہی باقاعدہ ہاتھ پکڑ پکڑ کر اپنے اپنے دسترخوان پر بیٹھایا جاتا ہے۔ اس کام کیلئے انہوں نے ملازمین بھی رکھے ہوئے ہیں جن کا کام صرف روزہ داروں کو دسترخوان تک لانا ہوتاہے۔ سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق مسجد نبوی میں یومیہ ایک لاکھ سے زائد افراد بیک وقت افطار کرتے ہیں۔ یہاں قدیم سعودی روایات کے مطابق افطار میں روٹی ، دہی، کھجوریں، پانی ، قہوہ اور قماش قماش کے جوسز اور پھل موجود ہوتے ہیں۔ کچھ افراد سموسوں ، سینڈ وچ اور دیگر اسی قسم کے دیگر لوازمات بھی رکھتے ہیں جبکہ بسکٹ، بریڈ اور چاکلیٹ تو عام بات ہے۔ روزہ کھلنے کے دس منٹ بعد ہی دسترخوان جس تیزی سے ہٹائے اور قالین صاف کئے جائے ہیں وہ منظر بھی قابل دید ہوتا ہے۔کئی کئی میٹر طویل پلاسکٹ کے دسترخوان اس تیزی اور نفاست سے سمیٹے جاتے ہیں کہ قالین یا فرش پر ایک چیز نہیں گرتی۔ ساری صاف ستھرائی منٹوں میں ہوتی ہے چونکہ چند لمحوں بعد ہی نماز مغرب اداکی جاتی ہے۔ پوری مسجد میں آب زم زم سپلائی کیا جاتا ہے۔ مسجد کے امور کی دیکھ بھال کرنے والے ادارے کے نائب چیئرمین عبدالعزیز الفالح کے مطابق مسجد میں ہر روز 300سے زائد آب زم زم سپلائی ہوتا ہے۔ زم زم براہ راست مکہ سے مدینہ لایاجاتا ہے۔ مسجد کے صحن میں نمازیوں کو دھوپ اور بارش سے بچانے کیلئے نہایت بڑی بڑی اور خودکار الیکٹرک چھتریاں لگائی گئی ہیں۔ ان چھتریوں کی تعداد 250سے زیادہ ہے۔ سن 2010میں پہلی مرتبہ ان کی تنصیب شروع ہوئی تھی۔ صحن میں چھتریوں کےساتھ ساتھ پنکھے بھی نصب ہیں جن کی تعداد تقریباً450ہے۔ نمازیوں کے جوتے رکھنے کیلئے مسجد میں جگہ جگہ لکڑی کے باکس اور الماریاں موجود ہیں تاہم اس سال جوتے رکھنے کیلئے المونیم کے بنے تین ہزار سے زائد نئے باکسز رکھے گئے ہیں۔اس سے قبل دنیا کا سب سے بڑا دسترخوان 1888کے دوران شکاگو میں لگایا گیا تھاجبکہ اس دسترخوان کی لمبائی2 کلو میٹر تھی اور ایک وقت میں 70ہزار آدمی کھانا کھا سکتے تھے۔
دنیا کے کسی اور ملک میںدسترخوان کی ایسی وسعت درج نہیں کی گئی ہے جیسی کہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دیکھنے میں آئی ہے۔ عالمی سطح پر روزہ افطار کرنے کے اتنے بڑے اجتماعات نہیں ہوتے جتنے یہاں ہوتے ہیں جبکہ سعودی شہر مدینہ منورہ میں واقع مسجد نبوی دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے انتہائی مقدس جگہ ہے۔ یہاں ہر سال پچاس لاکھ سے زائد افراد زیارت اور عبادات کی غرض سے پہنچتے ہیں۔ سب سے زیادہ افراد دوران حج یہاں کا سفر کرتے ہیں جبکہ دوسری بار رمضان کے مہینے میں یہاں سب سے زیادہ افراد آتے ہیں۔ اسی سبب رمضان میں یہاں صفائی ستھرائی سے لیکر لاکھوں افراد کے سحری اور افطار کے وسیع پیمانے پر انتظامات کئے جاتے ہیں۔ مکہ اور مدینہ کے علاوہ غالباً دنیا کے کسی اور ملک میں روزہ افطار کرنے کے اتنے بڑے اجتماعات نہیں ہوتے جتنے یہاں ہوتے ہیں۔ مسجد نبوی میں روزہ افطار کرنے والوں کی تعداد کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ افطار اجتماع کے انتظامات سنبھالنے والے خدام کی تعدداد پانچ ہزار سے زائدہوتی ہے۔ ملازمین کی تعیناتی کیلئے باقاعدہ ایک ایجنسی کام کرتی ہے جس کی خدمات میں مسجد نبوی کے امور کی دیکھ بھال شامل ہے۔ یہ ادارہ سعودی حکمراں شاہ عبداللہ کو جوابدہ ہے۔ شاہ عبداللہ خادم الحرمین شریفین کہلاتے ہیں یعنی مسجد نبوی اور مسجد الحرام مکہ کا’خادم ‘ یا خدمت گزار۔ مسجد نبوی میں 10ہزار سے زائد قالین بچھے ہوئے ہیں جن پر دوران رمضان ہر شام نہایت وسیع وعریض دسترخوان بچھائے جاتے ہیں جن پر بیٹھ کر لاکھو ں عمرہ زائرئن اور دیگر افراد بیک وقت زوہ افطار کرتے ہیں۔ یہ انتہائی پرلطف اور دلکش منظر ہوتا ہے۔ پوری مسجد اس کا صحن اور اردگرد کا تمام علاقہ زورافطار کرنے والوں سے کھچا کھچ بھرا ہوتا ہے۔ پانچ ہزار ملازمین کے علاوہ صاحب حیثیت سعودی شہری روزے کے انتظامات اپنی جیب سے بھی کرتے ہیں۔ایسے افراد کی تعداد میں سینکڑوں میں ہے۔ ان افراد کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ روزہ دار ان کے دسترخوان پر روزہ افطار کریں چنانچہ روزہ داروں کو مسجد کے گیٹ سے ہی باقاعدہ ہاتھ پکڑ پکڑ کر اپنے اپنے دسترخوان پر بیٹھایا جاتا ہے۔ اس کام کیلئے انہوں نے ملازمین بھی رکھے ہوئے ہیں جن کا کام صرف روزہ داروں کو دسترخوان تک لانا ہوتاہے۔ سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق مسجد نبوی میں یومیہ ایک لاکھ سے زائد افراد بیک وقت افطار کرتے ہیں۔ یہاں قدیم سعودی روایات کے مطابق افطار میں روٹی ، دہی، کھجوریں، پانی ، قہوہ اور قماش قماش کے جوسز اور پھل موجود ہوتے ہیں۔ کچھ افراد سموسوں ، سینڈ وچ اور دیگر اسی قسم کے دیگر لوازمات بھی رکھتے ہیں جبکہ بسکٹ، بریڈ اور چاکلیٹ تو عام بات ہے۔ روزہ کھلنے کے دس منٹ بعد ہی دسترخوان جس تیزی سے ہٹائے اور قالین صاف کئے جائے ہیں وہ منظر بھی قابل دید ہوتا ہے۔کئی کئی میٹر طویل پلاسکٹ کے دسترخوان اس تیزی اور نفاست سے سمیٹے جاتے ہیں کہ قالین یا فرش پر ایک چیز نہیں گرتی۔ ساری صاف ستھرائی منٹوں میں ہوتی ہے چونکہ چند لمحوں بعد ہی نماز مغرب اداکی جاتی ہے۔ پوری مسجد میں آب زم زم سپلائی کیا جاتا ہے۔ مسجد کے امور کی دیکھ بھال کرنے والے ادارے کے نائب چیئرمین عبدالعزیز الفالح کے مطابق مسجد میں ہر روز 300سے زائد آب زم زم سپلائی ہوتا ہے۔ زم زم براہ راست مکہ سے مدینہ لایاجاتا ہے۔ مسجد کے صحن میں نمازیوں کو دھوپ اور بارش سے بچانے کیلئے نہایت بڑی بڑی اور خودکار الیکٹرک چھتریاں لگائی گئی ہیں۔ ان چھتریوں کی تعداد 250سے زیادہ ہے۔ سن 2010میں پہلی مرتبہ ان کی تنصیب شروع ہوئی تھی۔ صحن میں چھتریوں کےساتھ ساتھ پنکھے بھی نصب ہیں جن کی تعداد تقریباً450ہے۔ نمازیوں کے جوتے رکھنے کیلئے مسجد میں جگہ جگہ لکڑی کے باکس اور الماریاں موجود ہیں تاہم اس سال جوتے رکھنے کیلئے المونیم کے بنے تین ہزار سے زائد نئے باکسز رکھے گئے ہیں۔اس سے قبل دنیا کا سب سے بڑا دسترخوان 1888کے دوران شکاگو میں لگایا گیا تھاجبکہ اس دسترخوان کی لمبائی2 کلو میٹر تھی اور ایک وقت میں 70ہزار آدمی کھانا کھا سکتے تھے۔
Ramadan : Iftar time at Masjid Nabawi
By: Fatima Zara
kis dastarkhaan ne tora hey aalimi record
No comments:
Post a Comment