سارہ الیاسی
اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ عورت اپنے ہر رنگ میںنہ صرف کائنات کا حسن اور قدرت کا قیمتی تحفہ ہے بلکہ وہ ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کی حیثیت سے کائنات کی ہر سرگرمی کا ایسا جزو لازم ہے کہ جس کے بغیر انسانی جدوجہد کی ہرسعی پھیکی اور ماند ہے۔ انہی کاوشوں میں اللہ تعالیٰ نے مرد کو اس کا محافظ اور سائبان بنایا ہے لیکن عورت اپنی ذات میں مستحکم سہارے کی مانند ہے۔وہ مخالف طوفانی ہواو ں اورناموافق حالات کی زد میں آنے کے باوجود نہایت ہمت اور حوصلہ سے ثابت قدم رہتی ہے جبکہ ہر قسم کے سرد و گرم حالات کا دلیری سے مقابلہ کرنے پراسی عزم و ہمت، حوصلہ اور استقامت کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو اس کے قدموں تلے بچھادیا۔ عورت اگرچہ صنف نازک ہے مگر اپنی صلاحیت، ذہانت اور سمجھ بوجھ میں صنف قوی سے کسی طور پر بھی کم نہیں۔ تاریخ انسانی اس بات کی گواہ ہے کہ ملک و قوم کو جب بھی کسی مہم جوئی کا سامنا ہوا تو عورت نے مردوں کے شانہ بشانہ رہ کر ملک و قوم کی ترقی ہی نہیں بلکہ غیروں کے پنجے سے آزاد کروانے میں بھی پور کردار ادا کیا۔67ویں یو م آزادی کے موقع پر بھلا بیگم حضرت محل کو کیسے فراموش کیا جاسکتا جبکہ جنگ آزادی کا تصوران کے بغیر نامکمل ہے۔ حضرت محل کا نام ہندوستان کی جنگ آزادی میں پہلی سرگرم عمل خاتون رہنما کے نام سے معروف ہے۔ 1857تا1858 کی جنگ آزادی میں صوبہ اودھ سے حضرت محل کی نہ قابل فراموش جدو جہد تاریخ کے صفحات میںطلائی الفاظ میں درج ہے جبکہ حضرت محل نے صنف نازک ہونے کے باوجود بر طانوی سامراج ایسٹ انڈیا کمپنی سے مقابلہ کیا۔ برطانوی حکومت کی’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘کی حکمت عملی کے دانت کھٹے کرتے ہوئے انہوں نے ہندو ¿ں اور مسلمانوں میں اتحادکونئی قوت بخشی ۔ تحریک جنگ آزادی ہند 1857 کوان کی کوششوں سے ایک نیا ر خ ملا۔ بیگم حضرت محل پہلی ایسی قائدہ تھیں جنہوں نے برطانوی حکومت کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے بلکہ 20برس جلا وطنی اور اپنی موت 1879 تک لگاتار برطانوی حکومت کی مخالفت کی۔ حالانکہ حضرت محل کے متعلق مورخین کو بھی زیادہ پختہ معلومات میسر نہیں ہیں۔کہا جاتا ہے کہ وہ فیض آباد کے ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔بعض انگریزی مصنفین کے بقول ان کا نام افتخار النساء تھاجس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے آباو اجداد ایران سے یہاں آکر اودھ میں بس گئے تھے۔ ان کی تعلیم ایک رقاصہ کی شکل میں ہوئی جس کا مقصد واجد علی شاہ کو متاثر کرنا تھا۔ نواب صاحب نے ان کو اپنے حرم میں جگہ دی۔ پی جے او ٹیلر کے مطابق جب افتخار النسائ کے یہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی تو ان کا رتبہ بڑھا اور انہیں نواب صاحب نے اپنی ازواج میں شامل کرکے حضرت محل کا لقب دیا اور انہیں شاہی خاندان میں ملکہ کا درجہ ملا۔ اپنے بیٹے برجیس قدر کی ولادت کے بعد حضرت محل کی شخصیت میں انقلاب آگیا اور ان کی تنظیمی صلاحیتوں کو جلا ملی۔ 1856میں برطانوی حکومت نے نواب واجد علی شاہ کو جلا وطن کر کے کلکتہ بھیج دیاتو حضرت محل نے اودھ کی باگ ڈور سنبھال لی ۔وہ ایک نئی شخصیت کے طور پرمنظر عام پر آئیں۔ ان کا یہ رخ نہ صرف حب الوطنی سے معمور ہے بلکہ اس کے ذریعہ ان کا مقصد اپنے ملک سے انگریزوں کو باہردھکیلنا تھا جبکہ سبھی کے دل میں شمع آزادی روشن ہوچکی تھی۔ بیگم حضرت محل نے اسے جلا بخشنے اور جنون میں بدلنے میں اہم اور خصوصی کردارادا کیا۔ انہوں نے یہ ثابت کردیاکہ خاتون خانہ محض ف گھر کی چہار دیواری کا نظام ہی خوبی سے نہیں سنبھال سکتی بلکہ نازک وقت میں اپنی بلند حوصلگی کی بدولت ایسے جوہر دکھاسکتی ہے جس سے دشمنوں کے دانت کھٹے کئے جاسکیں۔ اپنے حامیوں کے دلوں میں انھوں نے ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کے دوران اپنے ملک سے انگریزوں کے ناپاک قدموں کو دور کرنے کے جذبہ کو مہمیز کیا ۔ انگریزی حکومت کے خلاف منظم کوششوں کے دوران ان سے اودھ کا نظام چھین لیا گیاجس پر حضرت محل نے اپنے بیٹے برجیس قدر کو ولی عہد بنا دیا۔وہ جنگ آزادی میں دیگر مجاہدین آزادی کیساتھ مل کر چلنے کی حامی تھیں جس میں نانا صاحب بھی شامل تھے۔ برطانوی فوج نے جب لکھنو ¿پر دوبارہ قبضہ کیااور ان کے سارے حقوق سلب کرلئے تو انہوں نے برطانوی حکومت کی طرف سے عطا کردہ کسی بھی قسم کی عنایت کودرکنارکردیاجس سے ان کی غیرت وطنی اور خود داری کا احساس ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف بہترین پالیسی ساز تھیں بلکہ میدان جنگ میں بھی انہوں نے اپنی بہادری اور جرا ت کے جوہر دکھائے۔ ان کی فوج جب ہزیمت سے دوچار ہوئی تو انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا بلکہ دیگر مقامات پر فوج کو منظم کیا۔ بیگم حضرت محل کا اپنے ملک کیلئے خدمت کرنا بے شک کوئی نیا کارنامہ نہیں تھابلکہ ایک عورت ہونے کے باوجود انہوں نے جس خوبی سے انگریزوں سے ٹکر لی وہ اپنے آپ میں ایسی مثال ہے جس کی روشنی1947تک پھیلتی چلی گئی جبکہ 1857کی جدوجہد آزادی کی چنگاریاں تو ملک کے کونے کونے تک پھیلتی چلی گئیں۔ ملک کے ہر کونے میں اس کی تپش سے انکار کرنا دوبھر ہوگیاجس کا سہرہ بیگم حضرت محل کے سر جاتا ہے۔ اترپردیش کے اودھ علاقہ میں بھی آزادی کا جوش و خرو ش تھا۔ بغاوتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا جبکہ بیگم حضرت محل نے لکھنو کے علاقوں میں گھوم پھر کر انقلابیوں اور اپنی فوج کی مسلسل حوصلہ افزائی کرنے میں دن رات ایک کر دئے۔صنف نازک کا یہ حوصلہ اور ہمت دیکھ کر فوج اور باغیوں کاحوصلہ دوچند ہو جاتاتھا۔ انہوں نے انگریزوں کے خلاف آس پاس کے جاگیر داروں کو بھی ملالیا اور ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بیگم حضرت محل کا کردار جنگ آزادی کی اس پہلی جنگ میں نا قابل فرامو ش ہے۔ جب بھی جنگ آزادی کا ذکر آتا ہے تو 1857کے اس روشن باب کی تابانیاں تاریخ کے ماہرین کے دلوں میں حقائق کو تازہ کردیتی ہیں۔ انگریزی عیاری‘ مکاری اور چالاکی کو حضرت محل بخوبی سمجھ چکی تھیں۔ وہ ایک دور اندیش خاتون شمار کی جاتی تھیں۔ انگریز سے ٹکر لینے کے دوران انہوں نے اپنی صلاحیتوں کاشاندار مظاہرہ کیا۔ حکومت کے انتظامی فیصلوں میں بیگم حضرت محل کی صلاحیت سے تاریخ کے ماہرین دل سے معترف ہیںجبھی توبیگم حضرت محل کے فیصلوں کونہ صرف اس دور میں قبول کیا گیابلکہ ان کے ہاتھوں بڑے بڑے عہدوں پر قابل عہد یدار مقررکرنے کی آج بھی ستائش کی جاتی ہے۔ناقابل بیان دشواریاں اور محدود وسائل درپیش ہونے کے باوجود بیگم حضرت محل عوام الناس کی حوصلہ افزائی کرتی رہیں‘حتی کہ انھوںنے خواتین کی ایک ایسی فوج بھی تیار کی جس میں کچھ ماہرخواتین کو جاسوسی کے کام پر لگایاگیا۔ان فوجی خواتین نے محل کی حفاظت کیلئے اپنی جان تک کی پروا نہیں کی جبکہ انگریزی فوج مسلسل ریزی ڈینسی کے ذریعہ اپنے ساتھیوں کو آزاد کروانے کیلئے کوشش کرر ہی تھی۔شدید مخالفت کے دوران انگریزوں کو لکھنو میں فوج بھیجنادوبھر ہو گیا تھا۔دوسری جانب ریزی ڈینسی پر ناموں کو بنیاد بناکر حملے کئے جارہے تھے۔ ایسے نامساعد حالات میں بیگم حضرت محل لکھنو کے مختلف علاقوں میںتن تنہا فوجیوں کے حوصلہ کوتقویت بخش رہی تھیں ‘یہ الگ بات ہے کہ قسمت کو کچھ اور ہی منظورتھا۔ مرکزی دارالحکومت دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔آخری مغل شاہ بہادر شاہ ظفرکے نظر بند ہوتے ہی انقلابیوں کے حوصلے ٹوٹنے لگے۔ حتی کہ لکھنو ¿ بھی بتدریج انگریزوں کے قبضہ میں آنے لگا۔نوبت یہاں پہنچی کہ ہینری ہیولاک اور جیمز آوٹ رام کی فوجیں لکھنو پہنچ گئیں۔ بیگم حضرت محل نے قیصر باغ کے دروازے پر تالے لٹکوا دئے جبکہ انگریزی فوج بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی۔ بیگم نے اپنے فوجیوں میں جوش بھرتے ہوئے کہاکہ’ اب سب کچھ قربان کرنے کا وقت آگیا ہے جبکہ‘انگریزی فوج کا افسر ہینری ہیولاک عالم باغ تک پہنچ چکا تھا‘دریں اثناءکیمپ ویل بھی کچھ اور فوج لے کر اس کے ساتھ جا ملا۔ بہت ساہجوم عالم باغ میںمجتمع ہو گیا تھا۔ عوام کے علاوہ محل کے سپاہی شہر کی حفاظت کیلئے ٹوٹ پڑے۔شدید موسلا دھار بارش کے دوران دونوں جانب سے تیروں کی بوچھارجا ری تھی جبکہ بیگم حضرت محل کو قرار نہیں تھا‘ وہ چاروں طرف گھوم کر سرداروں میں جوش پیداکر رہی تھیںجس کی بدولت انقلابیوں کو نئی توانائی نصیب ہوتی تھی۔ سب کچھ فراموش کرکے بھوکے پیاسے انقلابی اپنے وطن کے ذرہ ذرہ کیلئے مرمٹنے کو تیار تھے۔ بالآخر وہ بدنصیب لمحہ بھی آپہنچا جب فرنگیوں نے اپنے ساتھیوں کو ریزیڈنسی سے آزاد وکروا لیا اور لکھنو ¿ پر انگریزوں کاتسلط ہو گیا۔
بیگم حضرت محل کی شخصیت ہندوستان کے نسوانی معاشرہ کی شخصیت ہونے کے ناطے بے حد خوبصورت رحم دل اوربے خوف خاتون تھیں‘ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف اودھ کی پوری قوم ، عہدیدار ، فوج ان کی عزت کرتی تھی بلکہ آج بھی ان کی جسارت قابل تقلید سمجھی جاتی ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ عوام میںان کے ایک اشارے پر اپنی جان تک قربان کرنے کا جذبہ تھا۔ انہیں کبھی اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ وہ کسی خاتون کی سر براہی میں جدوجہد کررہے ہیں‘ انہیں اپنی قائد پربے پناہ اعتماد تھاجسے بیگم حضرت محل نے متزلزل نہیں ہونے دیا۔جب باغیوں کے سردار دلپت سنگھ محل میں پہنچے توانھوں نے بیگم حضرت محل سے کہاکہ’بیگم حضور‘ آپ سے ایک التجا کرنے آیا ہوں۔‘ جب انھوںنے دریافت کیاتو اس نے کہاکہ’ آپ اپنے فرنگی قیدیوں کو مجھے سونپ دیجئے‘ میں اس میں سے ایک ایک کا ہاتھ پیر کاٹ کر انگریزوں کی چھاونی میں بھیجوں گا۔‘ اس پربیگم حضرت محل کے لہجہ میں سختی آگئی‘ انھوں نے کہا کہ’ نہیں ہرگز نہیں‘ ہم قیدیوں کیساتھ ایسا سلوک نہ تو خود کر سکتے ہیں اور نہ کسی کو اس کی اجازت دے سکتے ہیں‘ قیدیوں پر ظلم کرنے کی روایت ہم میں نہیں ہے۔ ہمارے جتنے بھی فرنگی قیدی اور ان کی عورتیں ہیں‘ ان پر کبھی ظلم نہیں ہوگا۔‘اس موقف سے پتہ چلتا ہے کہ بیگم حضرت محل کس قدر انصاف پسند اور حسن سلوک کی مالک تھیں۔انھوں نے جن حالات اورنازک وقت میں ہمت و حوصلہ کے ساتھ اپنے فرائض انجام دئے وہ آزادی کے متوالوں کیلئے مثال ہے ۔ جب بھی کوئی جنگ چھڑی ہے‘ ہمیشہ ظلم کرنے والوںکو شکست نصیب ہوئی ہے۔جنگ کے بعد آخر کار بیگم حضرت محل نے نیپال میں پناہ لی۔ ابتدا میں نیپال کے رانا جنگ بہادر نے انکار کر دیاتھا لیکن بعد میں اجازت دے دی جبکہ 1879 کے دوران ان کا انتقال ہوگیا۔ کٹھمنڈو کی جامع مسجد کے قبرستان میں گمنام طور پر ان کو دفنا دیا گیا جبکہ15 اگست 1962 میں ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ریاستی حکومت نے وکٹوریہ پارک میں ان کی یادمیں سنگ مر مر کا مقبرہ تعمیر کراو کے بیگم حضرت محل پارک سے موسوم کیا۔جدوجہد سے مزین حضرت محل کی حیات اس امر کا ثبوت ہے کہ عورت لاچاربے بس نہیںہے بلکہ وقت پڑنے پروہ مردوں کیساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چل بھی سکتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ 1947کی جنگ آزادی میں وہ عزم تھا جس نے غیر ملکی طاقتوں کے قدم اکھاڑ دئے۔
بیگم حضرت محل کی شخصیت ہندوستان کے نسوانی معاشرہ کی شخصیت ہونے کے ناطے بے حد خوبصورت رحم دل اوربے خوف خاتون تھیں‘ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف اودھ کی پوری قوم ، عہدیدار ، فوج ان کی عزت کرتی تھی بلکہ آج بھی ان کی جسارت قابل تقلید سمجھی جاتی ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ عوام میںان کے ایک اشارے پر اپنی جان تک قربان کرنے کا جذبہ تھا۔ انہیں کبھی اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ وہ کسی خاتون کی سر براہی میں جدوجہد کررہے ہیں‘ انہیں اپنی قائد پربے پناہ اعتماد تھاجسے بیگم حضرت محل نے متزلزل نہیں ہونے دیا۔جب باغیوں کے سردار دلپت سنگھ محل میں پہنچے توانھوں نے بیگم حضرت محل سے کہاکہ’بیگم حضور‘ آپ سے ایک التجا کرنے آیا ہوں۔‘ جب انھوںنے دریافت کیاتو اس نے کہاکہ’ آپ اپنے فرنگی قیدیوں کو مجھے سونپ دیجئے‘ میں اس میں سے ایک ایک کا ہاتھ پیر کاٹ کر انگریزوں کی چھاونی میں بھیجوں گا۔‘ اس پربیگم حضرت محل کے لہجہ میں سختی آگئی‘ انھوں نے کہا کہ’ نہیں ہرگز نہیں‘ ہم قیدیوں کیساتھ ایسا سلوک نہ تو خود کر سکتے ہیں اور نہ کسی کو اس کی اجازت دے سکتے ہیں‘ قیدیوں پر ظلم کرنے کی روایت ہم میں نہیں ہے۔ ہمارے جتنے بھی فرنگی قیدی اور ان کی عورتیں ہیں‘ ان پر کبھی ظلم نہیں ہوگا۔‘اس موقف سے پتہ چلتا ہے کہ بیگم حضرت محل کس قدر انصاف پسند اور حسن سلوک کی مالک تھیں۔انھوں نے جن حالات اورنازک وقت میں ہمت و حوصلہ کے ساتھ اپنے فرائض انجام دئے وہ آزادی کے متوالوں کیلئے مثال ہے ۔ جب بھی کوئی جنگ چھڑی ہے‘ ہمیشہ ظلم کرنے والوںکو شکست نصیب ہوئی ہے۔جنگ کے بعد آخر کار بیگم حضرت محل نے نیپال میں پناہ لی۔ ابتدا میں نیپال کے رانا جنگ بہادر نے انکار کر دیاتھا لیکن بعد میں اجازت دے دی جبکہ 1879 کے دوران ان کا انتقال ہوگیا۔ کٹھمنڈو کی جامع مسجد کے قبرستان میں گمنام طور پر ان کو دفنا دیا گیا جبکہ15 اگست 1962 میں ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ریاستی حکومت نے وکٹوریہ پارک میں ان کی یادمیں سنگ مر مر کا مقبرہ تعمیر کراو کے بیگم حضرت محل پارک سے موسوم کیا۔جدوجہد سے مزین حضرت محل کی حیات اس امر کا ثبوت ہے کہ عورت لاچاربے بس نہیںہے بلکہ وقت پڑنے پروہ مردوں کیساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چل بھی سکتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ 1947کی جنگ آزادی میں وہ عزم تھا جس نے غیر ملکی طاقتوں کے قدم اکھاڑ دئے۔
Begum Hazrat Mahal
By: Sara Iliyasi
Begum Hazrat Mahal, born c. 1820, also known as Begum of Awadh, was the first wife of Nawab Wajid Ali Shah. She rebelled against the British East India Company during the Indian Rebellion of 1857. After her husband had been exiled to Calcutta, she took charge of the affairs of the state of Awadh and seized control of Lucknow. She also set up her son, Prince Birjis Qadir, as the Wali or ruler of Awadh, but he was soon forced to abandon this role. She rejected the promises of allowance and status held out to her by the British. She finally found asylum in Nepal where she died in 1879.
Her maiden name was Muhammadi Khanum, she was born at Faizabad, Awadh, India. She was a courtesan by profession and had been taken into the royal harem as a Khawasin after being sold by her parents to Royal agents and later promoted to a Pari. She became a Begum after being accepted as a royal concubine of the King of Oudh, and the title 'Hazrat Mahal' was bestowed on her after the birth of their son, Birjis Qadra.
She was a junior wife of the last Tajdaar-e-Awadh, Wajid Ali Shah. The British had annexed Oudh in 1856 and Wajid Ali Shah was exiled to Calcutta. After her husband was exiled to Calcutta, she took charge of the affairs of the state of Awadh despite her divorce from the Nawab which then was a large part of the current state of Uttar Pradesh, India.
During the first independence war of 1857–1858, Begum Hazrat Mahal's band of supporters led by Raja Jailal Singh against the forces of the British East India Company, and was even able to seize control of Lucknow. She declared her son Birjis Qadar as the Wali of Oudh. When the forces under the command of the British re-captured Lucknow and most of Oudh, she was forced to retreat. Hazrat Mahal worked in association with Nana Saheb but later joined the Maulavi of Faizabad in the attack on Shajahanpur.
One of the principal complaints of Begum Hazrat Mahal was that the East India Company had casually demolished temples and mosques in order to make way for roads. In a proclamation issued during the final days of the revolt, she mocked the British claim to allow freedom of worship:
"To eat pigs and drink wine, to bite greased cartridges and to mix pig's fat with sweetmeats, to destroy Hindu and Mussalman temples on pretense of making roads, to build churches, to send clergymen into the streets to preach the Christian religion, to institute English schools, and pay people a monthly stipend for learning the English sciences, while the places of worship of Hindus and Mussalmans are to this day entirely neglected; with all this, how can people believe that religion will not be interfered with?"
Ultimately, she had to retreat to Nepal, where she was initially refused asylum by the Rana prime minister Jang Bahadur but was later allowed to stay. She died there in 1879 and was buried in a nameless grave in the grounds of Kathmandu's Jama Masjid.
On August 15th, 1962, she was honored at a ceremony in the old Victoria Park. The state government built a marble memorial here to commemorate the Begum's role in the uprising of 1857. A marble tablet with four round brass plaques bearing the coat of arms of Awadh royal family has also been installed.
Located in the heart of the city, the Begum Hazrat Mahal Park was a rally ground originally. It has been witness to many Ramlilas and bonfires during Dusshera. A number of Lucknow Mahotsavas have also been hosted here. However, the park, with interwoven pathways and beautiful, green landscaping, is a walker’s paradise today after the remodeling. It is located at the B.H.M. Crossing and is opposite hotel Clarks Avadh.
Begum Hazrat Mahal, born c. 1820, also known as Begum of Awadh, was the first wife of Nawab Wajid Ali Shah. She rebelled against the British East India Company during the Indian Rebellion of 1857. After her husband had been exiled to Calcutta, she took charge of the affairs of the state of Awadh and seized control of Lucknow. She also set up her son, Prince Birjis Qadir, as the Wali or ruler of Awadh, but he was soon forced to abandon this role. She rejected the promises of allowance and status held out to her by the British. She finally found asylum in Nepal where she died in 1879.
Her maiden name was Muhammadi Khanum, she was born at Faizabad, Awadh, India. She was a courtesan by profession and had been taken into the royal harem as a Khawasin after being sold by her parents to Royal agents and later promoted to a Pari. She became a Begum after being accepted as a royal concubine of the King of Oudh, and the title 'Hazrat Mahal' was bestowed on her after the birth of their son, Birjis Qadra.
She was a junior wife of the last Tajdaar-e-Awadh, Wajid Ali Shah. The British had annexed Oudh in 1856 and Wajid Ali Shah was exiled to Calcutta. After her husband was exiled to Calcutta, she took charge of the affairs of the state of Awadh despite her divorce from the Nawab which then was a large part of the current state of Uttar Pradesh, India.
During the first independence war of 1857–1858, Begum Hazrat Mahal's band of supporters led by Raja Jailal Singh against the forces of the British East India Company, and was even able to seize control of Lucknow. She declared her son Birjis Qadar as the Wali of Oudh. When the forces under the command of the British re-captured Lucknow and most of Oudh, she was forced to retreat. Hazrat Mahal worked in association with Nana Saheb but later joined the Maulavi of Faizabad in the attack on Shajahanpur.
One of the principal complaints of Begum Hazrat Mahal was that the East India Company had casually demolished temples and mosques in order to make way for roads. In a proclamation issued during the final days of the revolt, she mocked the British claim to allow freedom of worship:
"To eat pigs and drink wine, to bite greased cartridges and to mix pig's fat with sweetmeats, to destroy Hindu and Mussalman temples on pretense of making roads, to build churches, to send clergymen into the streets to preach the Christian religion, to institute English schools, and pay people a monthly stipend for learning the English sciences, while the places of worship of Hindus and Mussalmans are to this day entirely neglected; with all this, how can people believe that religion will not be interfered with?"
Ultimately, she had to retreat to Nepal, where she was initially refused asylum by the Rana prime minister Jang Bahadur but was later allowed to stay. She died there in 1879 and was buried in a nameless grave in the grounds of Kathmandu's Jama Masjid.
On August 15th, 1962, she was honored at a ceremony in the old Victoria Park. The state government built a marble memorial here to commemorate the Begum's role in the uprising of 1857. A marble tablet with four round brass plaques bearing the coat of arms of Awadh royal family has also been installed.
Located in the heart of the city, the Begum Hazrat Mahal Park was a rally ground originally. It has been witness to many Ramlilas and bonfires during Dusshera. A number of Lucknow Mahotsavas have also been hosted here. However, the park, with interwoven pathways and beautiful, green landscaping, is a walker’s paradise today after the remodeling. It is located at the B.H.M. Crossing and is opposite hotel Clarks Avadh.
140813 begum hazrat mahal jaddo jahad aazaadi ki roshan misaal by sara ilyasi
No comments:
Post a Comment