ایس اے ساگر
قدرتی گیس کی قیمتیں بڑھانے کے حکومت کے متنازع فیصلے پر نوٹس لیتے ہوئے پیر کو سپریم کورٹ نے 29جولائی کونہ صرف مرکزبلکہ ریلائنس انڈسٹریز لمیٹڈکیخلاف بھی نوٹس جاری کر دئے۔ یہ سب یونہی نہیں ہوگیا بلکہ چیف جسٹس پی سداشوم کی صدارت والی بنچ نے کمیونسٹ لیڈر گروداس داس گپتا Gurudas Dasgupta کی مفاد عامہ کی عرضی پر مرکز اور ریلائنس انڈسٹریز سے جواب طلب کئے ہیں۔ درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ قدرتی گیس کی قیمتوں بڑھاتے وقت حکومت نے سنجیدگی سے غور نہیں کیا ۔سپریم کورٹ نے کہا کہ ایک سینئر رہنما نے یہ مسئلہ اٹھایا ہے جس پر غور کی ضرورت ہے جبکہ یہ درخواست ابتدائی مرحلہ میں ہی مسترد نہیں کی جا سکتی ۔ عدالت نے متعلقہ فریقین کو 4ہفتے کے اندر اندر جواب داخل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے یہ مفاد عامہ کی عرضی 6 ستمبر کو سماعت کیلئے درج کرنے کی ہدایت دی‘ اس سے قبل ضروری ہوگا کہ اس پورے معاملہ کا جائزہ لیا جائے۔
کیا ہے قصہ گیس کا؟
حکومت نے ایک اپریل 2014 سے قدرتی گیس کی قیمت 4.2 امریکی ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ سے بڑھاکر 8.4 ایم بی ٹی یوکرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ گیس کی نئی قیمت 8.4 امریکی ڈالر کا ہر تیسرے ماہ جائزہ لیا جائے گا اور یہ قیمت تمام گیس مصنوعات پر ایک یکساں طور پرنافذ ہوگی۔اس میں آئل انڈیا لمیٹڈ اور او این جی سی اور ریلائنس انڈسٹریز لمیٹڈ جیسی نجی کمپنیاں شامل ہیں۔ کمیونسٹ رہنما کی جانب سے سینئر وکیل کولن گنسالوج نے کہا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے فیصلہ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ وزارت پٹرولیم نے اپنے پیشرو وزیر اور وزارت کے سینئر حکام کے مشورہ کو درکنار کر دیا ہے۔ کورٹ سے باہر نکلنے پرگوروداس داس گپتانے کہا کہ چونکہ ان کی شکایت پر وزیراعظم کارروائی کرنے میں ناکام رہے، اس لئے انہوں نے یہ پٹیشن دائر کی ۔
باقی ہے ابھی ہوشمندی :
سپریم کورٹ کے عنایت کردہ 4ہفتے گذرنے سے قبل یہاں یہ سمجھنا ہوگا کہ کرشنا - گوداوری عرف ’کے جی بیسن‘ Krishna Godavari Basin سے نکالی جا نے والی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے فیصلہ کی مخالفت ہونے کے باوجود حکومت کے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ ہربارکی طرح اس مرتبہ بھی حکومت کی جانب سے اس فیصلہ کے بعد ماحول سونگھنے کے درمیان دو چار بیان دئے گئے، ایسا لگا کہ اس عوام مخالف فیصلے کو روکا جا سکتا ہے لیکن بالآخر قدرتی گیس کی بڑھی ہوئی قیمت کو جائز قرار دے دیا گیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ یو پی اے حکومت کو گھیرنے کا کوئی موقع نہ چھوڑنے والی بی جے پی کے جی بیسن میں کھلی لوٹ کے اس فرمان پر سوچی سمجھی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔حکومت کی رضامندی سے جی بیسن میں جاری اس لوٹ کی تہہ میں جانے سے قبل کیوں نہ اس کے ماضی پر نظر ڈالتے ہیں۔یہ امر واضح ہے کہ قدرتی وسائل ملک کی املاک تسلیم کئے جاتے ہیں جبکہ سرپرست ہونے کے ناطے حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان وسائل کو ترقی اور فروغ بخشے گی۔ جی بیسن میں موجود قدرتی گیس پر بھی یہ بات نافذ ہوتی ہے لیکن یہاں تین بڑی سرکاری گیس کمپنیوں کو قدرتی گیس وسائل کی ترقی میں تعاون کرنے کی بجائے حکومت نے ایک نئی پالیسی کا اعلان کیاجبکہ ان اداروںمیں او این جی سی، گیل اور اوآئی اےل ONGC, GAIL, OIL شامل ہیں۔نہ جانے کیوں نئی پالیسی‘ نیو ایکس پلورےشن لائسنسنگ پالیسی یانیلپ کے تحت قدرتی گیس کے وسائل کی تلاش اورفروغ کا حق نجی کمپنیوں کو دیا گیا!
ٹیکنالوجی اور پیسہ سے خالی ہے حکومت؟
نیلپ کے مطابق حکومت کے پاس گیس کے وسائل کی تلاش اور ترقی کیلئے ضروری ٹیکنالوجی اور پیسہ میسر نہیں ہے۔ 1999 کے دوران ہندوستان کے سب سے بڑے گیس کے ذخائر والے علاقے کے جی بیسن میں گیس تلاش کرنے اور ترقی کرنے کا حق نیلپ کے ذریعہ ریلائنس انڈسٹریز کو دیا گیا۔ 2005 آتے آتے یہ واضح ہو چکا تھا کہ جی بیسن میں قدرتی گیس کے 18 سے زیادہ علاقے ہیں جبکہ ایک گیس پر مشتمل ایک علاقہ کو تیار کرنے کا ٹھیکہ لینے والی ریلائنس کیلئے یہ شہد کے سمندر میں کودنے جیسا تھا۔نیلپ پالیسی میں صاف طور پر کہا گیا تھا کہ ملک کے قدرتی گیس کے وسائل پرنہ صرف کسی کمپنی کی اجارہ داری نہیں ہونے دی جائے گی بلکہ اس پر قابو پانے کی غرض سے حکومت مختلف گیس علاقوں کو تیار کرنے کیلئے الگ الگ کمپنیوں کو ٹھیکہ بھی دے گی۔ لیکن عملی طور پر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ جی بیسن میں یکے بعد دیگرے قدرتی گیس کے ذخائر ملتے گئے جبکہ ریلائنس کی اجارہ داری بڑھتی چلی گئی۔ ریلائنس کے قبضہ والے جی بیسن کے جس ڈی سکس علاقے میں زیادہ سے زیادہ 40 ایم ایم ایس سے ایم ڈی‘پیٹرولیم کے برعکس وہ قدرتی گیس کی پیمائش کا یونٹ‘ گیس کا اندازہ لگایاگیا تھا، وہاں 80 ایم ایم ایس سے ایم ڈی گیس کی پیداوار ہونے لگی۔ظاہر ہے کہ کے جی بیسن میں قدرتی گیس کے وسیع ذخائر ہونے کی بات پختہ ہو چکی تھی جبکہ نیلپ پالیسی کے مطابق حکومت کو بین الاقوامی بولی کے توسط سے کم قیمت پر گیس پیدا کرنے والی کئی کمپنیوں کو لائسنس دینے چاہئیں تھے لیکن عجیب بات ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا حالانکہ کیگ نے بھی اپنی رپورٹ میں اس کا انکشاف کیا ہے۔ نتیجہ کے طور پر آج ریلائنس کے جی بیسن کے جتنے علاقے میں قدرتی گیس کی پیداوار پر قبضہ کئے بیٹھی ہے، اس علاقے کی محض5 فیصد جگہ پر ہی اس کمپنی کو قدرتی گیس کی پیداوار کا حق نیلپ بولی کے ذریعہ دیا گیا تھا۔
قدرتی گیس پر ریلائنس کا وار:
جی بیسن ہاتھ میں آنے کے بعد ریلائنس نے دوسرا حملہ قدرتی گیس کی قیمتوں پر کیا۔ جی بیسن میں قدرتی گیس کی پیداوار کی رفتارحاصل کرنے کے بعد ریلائنس نے سرکاری بجلی کمپنی نیشنل تھرمل پاور کارپوریشن عرف این ٹی پی سی کے ساتھ گیس فراہمی کا معاہدہ کیا۔ 2004 کے دوران منعقد اس معاہدہ کے مطابق ریلائنس 17سال تک این ٹی پی سی کو 2.34 ڈالر فی یونٹ کی شرح سے این ٹی پی سی کو قدرتی گیس کی فراہمی کرنے پر اتفاق ہوا۔دنیا کے کسی بھی ملک میں اس وقت قدرتی گیس ریلائنس کی مجوزہ قیمت کی شرح سے نہیں فروخت ہو رہی تھی۔ اس لئے اس معاہدہ پر بے شمار سوالیہ نشان قائم ہوئے لیکن حکومت اور ریلائنس کی طرف سے کہا گیا کہ سمجھوتہ 17 سال کے اخراجات کو ذہن میں رکھ کر کیا گیا ہے، لہذا طویل مدت تک میں سرکاری کمپنی این ٹی پی سی فائدہ میں رہے گی۔ اس درمیان مرکز میں حکومت بدل گئی، ایسی حکومت آ گئی جس نے ریلائنس پر مہربان ہونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 2005 کے دوران ریلائنس نے گیس کی پیداوار کے بڑھتے ہوئے اخراجات کا حوالہ پیش کرتے ہوئے حکومت کے سامنے جی بیسن میں پیدا قدرتی گیس کی قیمت میں اضافہ کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس کیساتھ ہی ریلائنس نے این ٹی پی سی کو قرار میں طے شدہ قیمت پر قدرتی گیس دینے سے انکار کر دیا۔ 2007 کے دوران پرنب مکھرجی کی صدارت والے ای جی او ایم EGoM یعنی اعلی اختیاراتی وزراکے گروپ Empowered Group of Ministers نے ریلائنس کی درخواست پر جی بیسن سے پیداپونے والی گیس کی قیمت 4.2 ڈالر فی یونٹ طے کر دی۔ ریلائنس کی من مانی گیس کی قیمتوں کے خلاف عدالت میں مقدمہ لڑنے میں مصروف این ٹی پی سی کی قابل رحم حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جبکہ اس کمپنی کی مالک یعنی حکومت نے خود ہی ریلائنس کیلئے معاہدہ کی دگننی گیس قیمتوں پر مہرتصدیق ثبت کر دی۔
کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہیں قدرتی وسائل:
غور طلب ہے کہ 2008 تک سرکاری کمپنی او این جی سی محض 1.83 ڈالر فی یونٹ کی شرح سے قدرتی گیس فروخت کر رہی تھی لیکن ریلائنس کو پہلے دگنی اور بعد میں4 گنی قیمتوں پر گیس فروخت کا حق تفویض کیا گیا۔ ریلائنس یہ گیس اپنے ذاتی کھیت سے کھود کر نہیں بلکہ اس ملک کی املاک کرشنا گوداوری وادی سے نکال کر فروخت کر رہی تھی۔لوٹ کا یہ سلسلہ تھمنے کی بجائے بڑھتا ہی گیا، کیونکہ بقول مشہور ماہر اقتصادیات پال کروگ مینPaul Krugman منافع کی ایک دقت یہ ہے کہ اس سے منافع کی ہوس میں مزید آگ لگ جاتی ہے۔ مکیش امبانی نے مختصر مدت کے بعد بڑھتی ہوئی قیمت کا حوالہ دے کر پھر سے حکومت پرشکنجہ کسا اور جی بیسن کی قدرتی گیس کیلئے 14 ڈالر فی یونٹ کا مطالبہ کرڈالا۔منصوبہ بندی کمیشن کے نائب صدر اور کارپوریٹ دنیا کی آنکھوں کے تارے مونٹیک سنگھ اہلووالیہ نے ریلائنس کے اس مطالبہ پر مہرثبت کرنے میں دیر نہیں لگائی لیکن اس مرتبہ ایس جے پال رےڈی S. Jaipal Reddy کے طور پر چھوٹا سا روڑا سامنے تھا۔ کابینہ کی تشکیل نو ہوئی اور ریلائنس کے مطالبہ کی مخالفت کرنے کی جرات کرنے والے رےڈی کی پیٹرولیم اور قدرتی گیس کی وزارت سے الوداعی ہو گئی۔ حکومت پر دباو ¿ بنانے کیلئے ریلائنس نے جی بیسن میں گیس کی پیداوار 80 ایم ایم ایس سی ایم ڈی یومیہ سے کم کر محض 16 ایم ایم ایس سی ایم ڈی کر دیا جبکہ اس کیلئے تکنیکی خامیوں کا حوالہ دیاگیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب جی بیسن میں ریلائنس اتنی بڑی تکنیکی خامیوں کا سامنا کر رہی تھی تو برطانیہ کی بی پی کمپنی نے جی بیسن کے گیس علاقوں میں 7.2 ارب ڈالر کی خطیر رقم کیوں جھونک دی؟ اگر ریلائنس اس تکنیکی خامی کو 10 سال سے بھی زیادہ مدت میں دور نہیں کرسکی تھی تو اس نے جی بیسن کی بولی میں حصہ کیوں لیا تھا؟ آخر سرکاری کمپنیوں کو کنارے لگا کر ریلائنس کو جی بیسن کا ٹھیکہ دینے کا مقصد ہی یہ تھا کہ کمپنی اپنے مالی وسائل سے بہتر ٹیکنالوجی خرید کر گیس کی پیداوار کرے گی۔طے شدہ مقدار میں گیس کی پیداوار کرنے میں ناکام ہونے پر حکومت نے جی بیسن کو یرلائنس سے واپس لے کر کسی دوسری کمپنی کو کیوں نہیں دیا؟ ریلائنس پر مہربان یو پی اے حکومت نے منصفانہ ہونے کا دکھاوا کرنے کیلئے گیس کی قیمتوں پر رنگ راجن کمیٹی تشکیل دی ہے۔
کارپوریٹ شعبہ کی دادا گری:
کارپوریٹ دبدبے کی حدود ا اندازہ لگائیے کہ رنگ راجن کمیٹی نے حکومت سے کہا کہ جی بیسن میں گیس کی قیمت موجودہ سطح سے دگنی کرتے ہوئے 8.8 ڈالر فی یونٹ کر دی جائے۔ دلیل یہ پیش کی ہے کہ جاپان میں گیس کی قیمت یہی ہے۔رنگ راجن کمیٹی نے جاپان کی قیمتوں کو ہی بنیاد بنایا ہے لیکن قدرتی گیس کے لحاظ سے دنیا کے سب سے مہنگے ملک جاپان کے فارمولہ کو ہی کیوں بنیاد بنایا گیا؟ امریکہ یا دیگر سستی گیس کی قیمتوں والے بازاروں سے ہندوستان کا تقابل کیوں نہیں کیا گیا؟حالانکہ جاپان میں قدرتی گیس سمندری کان کنی سے حاصل ہوتی ہے جبکہ ہندوستان میں دریا گھاٹیوں سے۔ ایسی صورتحال میں جاپانی قیمتوںسے مقابلہ کا مکمل فارمولہ ہی مطابقت سے خارج ہو جاتا ہے۔تاہم، تمام مخالفت کے باوجود یو پی اے حکومت نے ریلائنس کو 8.4 ڈالر فی یونٹ کی شرح سے گیس کی قیمت وصول کرنے کی منظوری عطا کر دی ہے۔ یہ جبکہ یہ پوری دنیا میں قدرتی گیس کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔ یاد رہے کہ اس مرتبہ حکومت نے ریلائنس کی طرف سے گھریلو کمپنیوں سے وصول کیا جانے والی گیس کی ادائیگی ڈالر سے وابستہ کر دی ہے جس ا واضح مطلب یہ ہوتا ہے کہ این ٹی پی سی اگر ریلائنس سے گیس خریدتی ہے تو اسے ڈالر میں ادائیگی کرنی ہوگی جبکہ ڈالر کے مقابلہ روپے کے کمزور ہونے پر بھی روپے میں کاروبار کرنے والی این ٹی پی سی کو ڈالر میں ادائیگی کرتے ہوئے زیادہ رقم ادا کرنی ہوگی۔ اس طرح ریلائنس کی لوٹ میںمزید اضافہ ہوگا۔قدرتی گیس کی بڑھی ہوئی قیمت کا خمیازہ ملک کے ہر شہری کو بھگتنا پڑ رہاہے ۔ این ٹی پی سی جیسی بجلی کمپنیاں گیس کا استعمال کرکے بجلی پیدا کرتی ہیں، لہذا خام مال یعنی گیس کی قیمت بڑھنے سے بجلی کے دام بڑھ جائیں گے۔ ہر کمپنی کے اخراجات کا اہم حصہ بجلی ہے، اس لئے کمپنیاں اس بڑھی ہوئی قیمت کو اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر صارفین پر لاد دیں گی۔ ملک کی معیشت کے ایک زوال پذیر شعبہ زراعت میں کام آنے والی کھاد کی قیمتیں بڑھیں کیونکہ کھادکے بناے میںاستعمال ہونے والا اہم خام مال دراصل گیس ہی ہے۔
اپنوں کے ہاتھوں لٹنے کا سماں:
ماضی میں انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی ملک کو لوٹ رہی تھی، آج کچھ بڑی کمپنیاں ملک کے وسائل لوٹ رہی ہیں۔ گوروداس داس گپتا نے قدرتی گیس کی قیمت میں اضافہ کے عمل پر سوالیہ نشان قائم کرتے ہوئے وزیر اعظم کو خط لکھاجس کے بعد نوبت سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی بھی آگئی جبکہ مخالفت میں کچھ اور بھی اکا دکا آوازیں بلند ہوئیں لیکن کل ملا کر سیاسی طبقہ نے خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا ہے۔ کیا اس وجہ سے کہ انہیں ملنے والا بھاری بھرکم اور ’معقول چندہ‘ کہیں بند نہ ہو ہے؟ملک کی تقدیر بدل ڈالنے کی دعوی دار بی جے پی کے نریندر مودی کو مکیش امبانی نے ملک کے اگلے وزیر اعظم کے طور پر دیکھنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ اس لئے یو پی اے حکومت پر ہلہ بولنے کا کوئی موقع نہ گنوانے والے مودی قدرتی گیس کی قیمت کے مددے پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مہنگائی پر رسمی تشویش اور مخالفت جتانی ہو تو کوئی بھی پارٹی پیچھے نہیں رہتی لیکن مہنگائی بڑھانے والے ایک بڑے فیصلہ کی مخالفت آخر یہ پارٹیاں کیوں نہیں کر رہی ہیں؟وہ وقت دور نہیں ہے جب سپریم کورٹ اس مخمصہ سے ملک کے عوام کو نجات نصیب کرے گی............
Why gas prices rise in india?
By: S. A. Sgar
The Supreme Court on July 29 issued notices to the government, Reliance Industries (RIL) and Oil Minister Veerappa Moily on a petition that challenges the Cabinet decision to raise natural gas prices and seeks a bigger financial penalty on RIL for alleged suppression of gas output in anticipation of higher prices. According to reports, Jul 31, 2013, the apex court bench headed by Chief Justice P Sathasivam, Ranjana Desai and Ranjan Gogoi on Monday heard the petition filed by leftist leader Gurudas Dasgupta and EAS Sarma, former power secretary. Dasgupta had earlier written to Prime Minister Manmohan Singh against the Cabinet decision which would raise gas prices from the current $4.2 per unit to an estimated $8.4 next April. "We can't dismiss the assertions made by a senior member of parliament in limine (at the outset)," Justice P Sathasivam said. "We will examine the reliefs." The petition against the government as well as RIL's partners BP and Niko Resources seeks an additional penalty of $4.1 billion on the stakeholders in the KG D6 Block. When Jaipal Reddy was oil minister, the government withheld recovery of $1 billion of field-development costs saying the relatively small quantity of gas produced did not justify the expenditure. RIL initiated arbitration proceedings against the decision saying its contract allows full cost recovery and that output fell because of geological complexity. Arguing for Dasgupta, senior advocate Colin Gonsalves, said that the new minister had also put an end to arbitration seeking recovery of huge penalties from RIL. Moily and Finance Minister P Chidambaram have defended higher gas prices saying it would attract investment and make several fields viable. Officials said the government would respond to the notice. "The government has received the notice and it will send an appropriate reply to the honorable court," a government official said. He said the decision was a "collective policy decision" of the government, not an individual's." The petition alleged the Cabinet hastily raised prices from next April as it would put an unreasonable burden on the next government after general elections.
How gas price hike may impact RIL, ONGC, GAIL, OIL earnings?
Unlike Reliance, ONGC and Oil India are not neat beneficiaries of this price hike as the government may choose to take back a part of this benefit . A sharp hike in gas price makes a strong case for Gail to be exempted from subsidy burden. According to reports, June 28, 2013, Reliance Industries is seen as benefitting most from the government's decision to double the price of natural gas with effect from April 1, 2014. In a note to clients, brokerage house CLSA has analysed the likely impact of the move on the earnings of oil & gas majors.
Excerpts from the report:
Reliance Industries: This price hike will make the FY15 EPS growth of 19 percent more believable and could take the stock near our target of Rs 930/share, which nearly corresponds to its historical average PE of 11.8 times. More importantly, this gas price hike should make some of Reliance’s discoveries commercial and accelerate approvals for developing nearly 4 TCF(trillion cubic feet) of discoveries. q At the same time, this should also incentivise Reliance to carry production improvement programmes in its producing fields in D6. ONGC, OIL: Unlike Reliance, ONGC and Oil India are not neat beneficiaries of this price hike as the government may choose to take back a part of this benefit by increasing subsidy burden of these companies. Nonetheless, even under an oppressive scenario of continuation of FY12/13 subsidy formula of USD56/bbl subsidy on liquid production, we expect ONGC/OIL's fair value to settle 6/4% higher than the current market price.
GAIL: A price hike to USD 8/mmbtu gas used as feedstock for LPG and petchem production by GAIL lower its EPS by Rs 9.4 (31%) and fair value to Rs 295/share. In our opinion, Gail bears subsidy on LPG production on the logic that it benefits from using controlled price gas as input. Therefore, a sharp hike in gas price makes a strong case for Gail to be exempted from subsidy burden which could boost fair value to Rs 445/sh (+49%) and this could be a blessing in disguise for Gail. Any increase in gas production outlook should be a boost for Gail's core gas transmission business, which has been impacted by four years of decline. The Cabinet Committee for Economic Affairs (CCEA) on Thursday night approved the Rangarajan panel’s proposal to hike the natural gas price to USD 8.4 per mmbtu (metric million British thermal units) from April 1, 2014. According to reports, Jun 28, 2013, shares of gas exploring companies like ONGC , Reliance Industries and Oil India rose anything between 5-8 percent after an expert panel approved gas price hike, a move that could boost bottomlines of these companies by atleast 10 percent. While ONGC rose the highest at 7.63 percent to Rs 345 post the announcement, Oil India followed trend and rose 5.35 percent to Rs 603.65. Private upstream player Reliance Industries also surged over 4 percent to Rs 866.40. The CCEA or Cabinet Committee for Economic Affairs on Thursday night approved the Rangarajan panel's proposal to hike the natural gas price to USD 8.4 per mmbtu (metric million British thermal units) from April 1, 2014. The committee has further noted that Rangarajan panel's formula for gas pricing would be valid for five years and gas prices will be revised quarterly. The oil ministry in its final proposal had suggested to increase gas price to above USD 6.7 per mmBtu level from current USD 4.2 currently. The natural gas prices have not been increased since past three years as the oil ministry faced stiff resistance from power and fertiliser ministry. Following gas price hike fuel cost of gas based power plant is likely to double and average power cost is seen rising by 16 paise per kwh. The Rangarajan formula uses long-term and spot liquid gas (LNG) import contracts as well as international trading benchmarks to arrive at a competitive price for India. While the Rangarajan panel had recommended revising domestic gas prices every month based, the Oil Ministry changed it to a quarterly revision. Though the average of the two currently comes to USD 6.775, the price of gas in April next year when these guidelines will come into effect would be around USD 8.42 and over USD 10 in the following year. This is because Petronet's deal with Qatar's RasGas (India's only functional long-term LNG contract) has a price-cap which lifts in January 2014, linking gas prices fully with crude.
060813 kiya hey gas ka gorakh dhanda by s a sagar
No comments:
Post a Comment