Saturday, 15 October 2022

نفسانی خواہشات سے نجات کیسے نصیب ہو؟

نفسانی خواہشات  سے نجات کیسے نصیب ہو؟

(تألیف: امام ابن القیم رحمہ اللہ)

نفسانی خواہشات کی پیروی دنیا وآخرت کی بہت ساری بلاؤں کا سبب ہے اور اس کی مخالفت بہت ساری بھلائیوں کا ضامن۔ ایسے لوگ جو نفسانی خواہشات کے جال میں گرفتار ہوجاتے ہیں اس سے آزادی بڑی مشکل ہوتی ہے لیکن اللہ کی توفیق پھر بندہ کی ہمت وعزیمت سے ہر کام آسان ہوجاتا ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے افادات علمیہ میں سے  ایک کاوش خواہشات کے دام فریب میں گرفتار لوگوں کے لئے علامہ کا نام لے لینا ہی کسی تحریر کی قیمت وافادیت بتلانے کے لئے کافی ہے۔

ترجمہ: عبدالہادی عبدالخالق مدنی

 خواہش کا مفہوم:

            اپنی طبیعت اور مزاج کے موافق کسی چیز کی طرف میلان کا نام خواہش ہے۔ انسانی بقا کے پیش نظر انسان کے اندر اس میلان اور خواہش کی تخلیق کی گئی ہے۔ کیونکہ اگر انسان کے اندر کھانے پینے اور نکاح کرنے کا میلان نہ ہو تو کھانے پینے اور نکاح سے رک جانے کی وجہ سے ہلاک ہوجائے۔

            خواہش انسان کو اپنا مقصد ومراد حاصل کرنے پر آمادہ کرتی ہے. جیسا کہ غصہ وغضب انسان سے اذیت رساں چیزوں کو دفع کرتا ہے. لہذا خواہش نہ ہی مطلقاً قابل مذمت ہے اور نہ ہی مطلقاً قابل تعریف۔ جیسا کہ غضب ہے کہ نہ وہ مطلقاً مذموم ہے اور نہ ہی مطلقاً محمود۔ بلکہ خواہش یا غضب دونوں کی برائی میں قدرے تفصیل ہے۔ وقت، حالات اور مواقع کے لحاظ سے کبھی یہ بہتر ہوتے ہیں اور کبھی بدتر۔

خواہش کی مذمت کیوں؟

            چونکہ بیشتر خواہشات کے پیچھے چلنے والے، شہوات کا اتباع کرنے والے، غضب پرست لوگ نفع بخش حد پر نہیں رکتے، اس لئےعمومی غلبۂ ضرر کو دیکھتے ہوئے خواہش، شہوت اور غضب کی مذمت مطلقاً کردی جاتی ہے کیونکہ بہت کم ایسے لوگ ہیں جو ان قوتوں میں عدل کرسکتے ہوں اور حدود پر ٹھہر جاتے ہوں۔ جیسا کہ مزاجوں میں ہوتا ہے کہ ہر طرح سے معتدل مزاج انسان کم یاب ہوتے ہیں، کسی نہ کسی خلط اور کیفیت کا غلبہ ضرور ہوتا ہے۔ لہذا ایک ناصح کو شہوت وغضب کی قوتوں کو اعتدال پر لانے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔

             چونکہ خواہش میں اعتدال افراد عالم کی اکثریت کے لئے نہایت ہی دشوار ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جب جب خواہش کا ذکر کیا تو اس کی مذمت فرمائی اور حدیث نبوی میں بھی اس کی مذمت ہی آئی ہے. البتہ جب کوئی قید اور تخصیص ہو تو معاملہ مختلف ہوجاتا ہے جیسا کہ نبی صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:

 ''تم میں سے اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہوجائیں.''  (شرح السنة)

 یہ مقولہ مشہور ہے کہ خواہش غیرمحفوظ جائے پناہ ہے۔ 

            امام شعبی فرماتے ہیں کہ خواہش، خواہش پرست کو پستی میں گرادیتی ہے۔ انجام کی فکر کے بغیر وقتی لذت کی طرف بلاتی اورفوری طور پر شہوت پوری کرنے کے لئے آمادہ کرتی ہے. خواہ اس کی بنا پر دنیا وآخرت میں عظیم آلام و مصائب کا سامنا کرنا پڑے۔ 

            واضح رہے کہ آخرت سے پہلے دنیا میں ہی ہر عمل کا ایک انجام ہوتا ہے لیکن خواہش انسان کی عاقبت اندیشی ختم کرکے اسے انجام کے دیکھنے سے اندھا کردیتی ہے۔ جبکہ عقل اور دین ومروت انسان کو ہر ایسی لذت وشہوت سے روکتے ہیں جن کا انجام ندامت وشرمندگی اور درد والم ہو۔ نفس جب ان لذتوں اور شہوتوں کی طرف بڑھتا ہے تو دین وعقل ومروت میں سے ہر ایک اس سے مخاطب ہوکےکہتے ہیں کہ ایسا نہ کر۔ لیکن اطاعت اسی کی ہوتی ہے جو غالب ہو۔ 

            آپ دیکھتے ہیں کہ ایک بچہ اپنی خواہش کو ترجیح دیتا ہے. خواہ اس کے نتیجے میں بربادی ہاتھ آئے کیونکہ وہ عقل کا کچا ہوتا ہے۔ ایک بے دین آدمی اپنی خواہش کو ترجیح دیتا ہے. خواہ اس کا نتیجہ آخرت کی تباہی ہو کیونکہ وہ دین کا کچا ہوتا ہے اور ایک بے مروت انسان اپنی خواہش کو ترجیح دیتا ہے خواہ اس کی مروت داغدار یا ختم ہوجائے کیونکہ وہ مروت کا کچا ہوتا ہے۔ 

            امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہے کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ ٹھنڈا پانی پینے سے میری مروت میں خلل پڑے گا تو میں اسے نہیں پی سکتا !!

خواہشات آزمائش ہیں:

            چونکہ انسان کا امتحان خواہشات کےذریعے رکھا گیا ہے اور وہ ہروقت کسی نہ کسی حادثہ سے دوچار ہوتا رہتا ہے، اس لئےاس کے وجود میں دوحاکم بنا دئیے گئے، ایک عقل اور دوسرا دین۔ پھرانسان کو حکم دیاگیا کہ خواہشات کے حوادث کو ہمیشہ ان دونوں حاکموں کے پاس لے جائے اور ان کےفیصلوں پر سر تسلیم خم کرے۔ انسان کو چاہئے کہ ایسی خواہشات کو بھی دبانے کی عادت ڈالے جن کا انجام مامون ومحفوظ ہو، تاکہ اس میں اذیت ناک انجام والی خواہشات کےچھوڑ دینے کی قوت پیدا ہو۔ 

خواہش کی غلامی سے نجات کیسے؟

            اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس شخص کےنجات کی کیا صورت ہے جو خواہشات کا غلام بن چکا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ الله  کی توفیق اور مدد سے آئندہ سطور میں ذکر کئےگئے چند امور کے اپنانے سے اس کی نجات ممکن ہے۔

آزادانہ عزیمت:

            ١۔ ایسی آزادانہ عزیمت جس میں اپنے نفس کے موافق ومخالف غیرت موجود ہو۔

صبرکا تلخ گھونٹ:

            ٢۔ صبر کا تلخ گھونٹ جس کی تلخی گوارہ کرنے پر اس گھڑی اپنے نفس کو آمادہ کرسکے۔

نفسانی قوت:

            ٣۔ وہ نفسانی قوت جو اس تلخ گھونٹ کے پینے پر حوصلہ افزائی کرے۔ درحقیقت شجاعت ایک گھڑی کی صبر ہی کا نام ہے۔ اور وہ زندگی کتنی پرکیف زندگی ہے جسے بندہ نے اپنے صبر سے پایا ہو۔

عاقبت اندیشی:

            ٤۔ حسن عاقبت اور خوش انجامی کو پیش نظر رکھنا اور اس کو تلخی کا علاج سمجھنا۔

لذت والم کا موازنہ:

            ٥۔ اس بات کو مدنظر رکھنا کہ خواہشات کی لذت سے وہ تکلیف اور سزا کہیں زیادہ ہے جو اس کے نتیجہ میں آتی ہے۔ 

اپنےمقام ومرتبہ کا خیال:

            ٦۔الله کے نزدیک اور اس کے بندوں کےدلوں میں موجود اپنے مقام ومرتبہ کو بچانے کی کوشش کرنا کیونکہ یہ چیز خواہشات کی لذت سے بہت بہتر اور زیادہ سودمند ہے۔ 

پاکدامنی کی مٹھاس کو ترجیح:

            ٧۔ عفت وپاکدامنی کی لذت ومٹھاس کوگناہ ومعصیت کی لذت پر ترجیح دینا۔

شیطان کی عداوت:

            ٨۔ اس بات پر خوش ہونا کہ اپنے دشمن(شیطان )پر غلبہ حاصل کرلیا اور اسے غیظ وغضب اور فکر وغم کے ساتھ ناکام ونامرادواپس کردیا اور اس کی امید وآرزو پوری نہ ہوسکی۔

            معلوم ہونا چاہئے کہ الله  تعالیٰ کو اپنے بندے سے متعلق یہ بات بہت پسند ہے کہ وہ اپنے دشمن کی ناک مٹی میں ملائے اور اسے غصہ دلائے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری ہے:

(وَلَا یَطَئُوْنَ مَوْطِئًا یَّغِیْظُ الْکُفَّارَ وَلَا یَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّنَّیْلاً اِلَّا کُتِبَ لَہُمْ بِہِ عَمَل صَالِح) التوبة١٢٠ 

(اورجو کسی ایسی جگہ چلے جو کفار کے لئے موجب غیظ ہوا ہو اور دشمنوں کی جوکچھ خبر لی ان سب پر ان کے نام ]ایک ایک[ نیک کام لکھا گیا۔) 

نیزفرمایا: 

(لِیَغِیْظَبِہِمُ الْکُفَّارَ) الفتح/ ٢٩ 

(تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے۔) 

نیزفرمایا: 

(وَمَنْیُّہَاجِرْ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِيْ الارْضِ مُرَاغَماً کَثِیْراًوَّسَعَةً ) النساء /١٠٠ 

(جوکوئی الله کی راہ میں وطن کو چھوڑے گا وہ زمین میں بہت سی قیام کی جگہیں بھی پائے گا اور کشادگی بھی۔) 

            قیام کی جگہوں سے مراد وہ جگہیں ہیںجن کے ذریعے الله کے دشمنوں کی ناک مٹی میں ملا سکے۔  

            سچی محبت کی علامت یہ ہے کہ محبوب کےدشمنوں کو مبتلائے غیظ کیا جائے اور ان کی ناک خاک آلود کی جائے۔

مقصدتخلیق پر غور:

            ٩۔ اس بات پر غور کرنا کہ اس کی تخلیق خواہشات کے پیچھے چلنے کے لئے نہیں ہوئی بلکہ ایسے عظیم کام کے لئے اسے وجود بخشاگیا ہے جس کا پانا خواہشات سے دوری کے بغیر ناممکن ہے۔

تمیزنفع وضرر:

            ١٠۔ اپنے نفس کو ایسی چیزوں کا خوگر نہ بنائے جس کی بنا پر ایک بے عقل چوپایہ اس سے بہتر قرار پائے کیونکہ حیوان طبعی طورپر اپنے نفع وضرر کی تمیز کرلیتا ہے اور نقصان پر فائدہ کو ترجیح دیتا ہے۔ انسان کو اسی مقصد کی خاطر عقل سے نوازا گیا،اگر وہ نفع وضرر میں تمیز نہ کرسکے یا تمیزومعرفت کے باوجود ضرر کو ترجیح دے تو ظاہر ہے کہ ایک بے خرد چوپائے کی حالت اس سےبہتر قرار پائے گی۔

برےانجام پر غور:

            ١١۔ اپنے دل میں خواہشات کے انجام پرغور کرے اور دیکھے کہ گناہوں اور نافرمانیوں کی بنا پر کتنی فضیلتیں فوت ہوگئیںاور کتنی ذلتوں سے ہمکنار ہونا پڑا۔ایک لقمہ نے کتنے لقموں سے محروم کردیا۔ ایکلذت نے کتنی لذتوں سے دور کردیا۔ 

            کتنی ہی خواہشات اور شہوتیں ایسی ہیںجو انسان کی شان وشوکت کو مٹی میں ملادیتی ہیں۔ اس کا سر جھکادیتی اور اس کی نیکنامی کو بدنامی سے بدل دیتی ہیں۔ اس کی رسوائی کا سامان فراہم کرتی اور اس کے وجودکو ایسی ذلت وعار سے لت پت کردیتی ہیں جسے پانی سے دھوکر صاف نہیں کیا جاسکتا مگرکیا کیا جائے کہ خواہش پرست کی آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں۔

کیا کھویا کیا پایا؟

            ١٢۔ جس سے اس کی خواہش متعلق ہے اس سےمقصد کی تکمیل کے بعد کا تصور کرے اور ضرورت پوری ہونے کے بعد اپنی حالت کا جائزہ لے اور غور کرے کہ اس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔

اپنی ذات شریف:

            ١٣۔ دوسروں کے بارے میں اس بات کا کماحقہ تصور کرے پھر اپنے آپ کو اس مقام پر لے جائے اور دیکھے :کیا دونوں معاملے میں اس کی عقل کا فیصلہ ایک ہی ہے ؟؟

عقل ودین کا فیصلہ:

            ١٤۔ اپنے نفس کے مطالبہ پر غور کرےاور اپنی عقل اور اپنے دین سے اس کے متعلق دریافت کرے، یہ دونوں اسے بتائیں گے کہیہ کوئی اہم بات نہیں ہے۔

             عبداللہ بن مسعود رضي الله عنه  فرماتے ہیں: جب تم میں سے کسی شخص کو کوئی عورت اچھی لگے تو اس کی گندی اور بدبودار جگہوں کا خیال کرے (وہ بری لگنے لگے گی)۔

ذلت سے برتری:

            ١٥۔ خواہش کی غلامی کی ذلت سے اپنے آپکو بلند تصور کرے۔ جو شخص ایک بار بھی اپنی خواہش کے پیچھے چلتا ہے لازمی طور پراپنے آپ میں ذلت محسوس کرتا ہے۔ بندگانِ خواہشات کے اکڑفوں اور کبر وغرور سے دھوکانہیں کھانا چاہئے کیونکہ وہ اندرونی طور پر کافی ذلیل اور پست ہوتے ہیں لیکن عجب انداز سے ذلت وغرور (احساس کمتری وبرتری) دونوں ان میں یکجا ہوتا ہے۔ 

خیروشر کا موازنہ:

            ١٦۔ دین وآبرو اور مال وجاہ کی سلامتی ایک طرف اور مطلوبہ لذت کا حصول ایک طرف، دونوں میں موازنہ کرے۔ان دونوں کے درمیان قطعی کوئی نسبت نہیں۔ اس سے بڑا نادان کون ہوگا جو ایک کے بدلہ میں دوسرے کو فروخت کرے!

بلند ہمتی:

            ١٧۔ اپنے دشمن کے زیر اقتدار اور اسکے قابو میں رہنے سے اپنے آپ کو بلند تصور کرے کیونکہ شیطان جب بندہ میں ہمتوعزیمت کی کمزوری اور خواہشات کی طرف جھکاؤ اور میلان دیکھتا ہے تو اس کو زیر کرنےکی لالچ کرتا ہے اور موقع پاتے ہی اسے چت کردیتا اور خواہشات کی لگام پہنا کر جہاں چاہتا ہے لے جاتا ہے۔ لیکن شیطان جب بندہ میں قوت وعزیمت، شرف نفس اور علو ہمتدیکھتا ہے تو اس کی اسیری کا حریص نہیں ہوتا البتہ چوری، چپکے اور دھوکے سے اسےضرور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ 

خواہش کے نقصانات:

            ١٨۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ خواہش جسچیز میں مل جاتی ہے اسے بگاڑ کے رکھ دیتی ہے۔

             اگر علم میں خواہش نفس کی ملاوٹ ہوجائے تو بدعتوضلالت جنم لیتی ہے اور ایسا عالم خواہش پرستوں کی صف میں شامل ہوجاتا ہے۔

             اگر زہد میں اس کی آمیزش ہوجائے تو ریاکاری اورسنت رسول سے روگردانی پیدا ہوجاتی ہے۔

            اگر فیصلہ کرنے میں اس کی ملاوٹہوجائے تو حق تلفی پر اکساتی ہے اور انسان کو ظالم بنادیتی ہے۔

            اگر تقسیم میں اس کی ملاوٹ ہوجائے توعادلانہ کے بجائے اسے ظالمانہ بنادیتی ہے۔ 

            اگر مناصب کی تولیت ومعزولی میں اس کیملاوٹ ہوجائے تو انسان الله تعالیٰ اور مسلمانوں کی خیانت میں مبتلا ہوجاتا ہے پھروہ اپنی خواہش سے اہلیت وصلاحیت کو دیکھے بغیر جسے چاہتا ہے عہدہ ومنصب سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس سے معزول کرتا ہے۔

            اگر عبادت میں خواہش کی ملاوٹ ہوجائے تو وہ اطاعت اور تقرب کا ذریعہ باقی نہیں رہ جاتی۔

             غرضیکہ جس چیز میں بھی خواہش نفس کی ملاوٹہوجاتی ہے اسے بگاڑ کے رکھ دیتی ہے۔

شیطان کا چور دروازہ:

            ١٩۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہنفسانی خواہشات ہی کے چور دروازے سے شیطان انسان پر داخل ہوتا ہے۔ انسان کے دلودماغ، فکرونظر، اور اعمال وکردار میں فساد اور بگاڑ پیدا کرنے کے لئے شیطاندروازے کی تلاش میں ہوتا ہے پھر جب خواہشات کا دروازہ پاجاتا ہے تو اس کے ذریعہداخل ہوکر تمام اعضاء میں زہر کی طرح پھیل جاتا ہے۔

شریعت کی خلاف ورزی:

            ٢٠۔ الله سبحانہ وتعالیٰ نے خواہشا ت کو اپنے رسول پر نازل کردہ شریعت کے منافی بنایا ہے اور خواہشات کی اتباع کو رسول کی اتباع کے مقابل قرار دیا ہے نیز لوگوں کی دو قسمیں بتائی ہیں: ایک وہ جو وحی کا اتباع کرتے ہیں، دوسرے وہ جو خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں۔ قرآن مجید میں اس کا ذکربکثرت ہوا ہے۔ فرمان باری ہے: 

(فَاِنْلَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ أَہْوَائَہُمْ) قصص/٥٠

(پھراگر یہ آپ کی بات نہ مانیں توآپ یقین کرلیں کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کررہے ہیں۔)

دوسریجگہ ارشاد ہے : 

(وَلَئِنِاتَّبَعْتَ أَہْوَائَہُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَآء کَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَاللّٰہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلاَ نَصِیْرٍ) البقرة١٢٠

(اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے کے پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو الله کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اور نہ مددگار) 

اس طرح کی اور بھی دیگر آیات ہیں۔

حیوانات کی مشابہت:

            ٢١۔ الله تعالیٰ نے خواہش پرستوں کیتشبیہ ان حیوانات سے دی ہے جو صورت ومعنی دونوں لحاظ سے سب سے حقیر اور خسیس مانے جاتے ہیں۔ کبھی کتے سے تشبیہ دی اور فرمایا: 

(وَلٰکِنَّہُأَخْلَدَ اِلَیٰ الارْضِ وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ الْکَلْب)ِ أعراف/١٧٦ 

(لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا سو اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی۔)

اور کبھی گدہے سے تشبیہ دی اور فرمایا: 

(کَأَنَّہُمْ حُمُر مُّسْتَنْفِرَة فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ) مدثر٥٠ـ٥١

(گویا کہ وہ بدکے ہوئے گدھے ہیں جو شیر سے بھاگے ہوں)۔

اورکبھی الله تعالیٰ نے ان کی صورتیں بندروں اور سوروں کی شکل میں تبدیل فرمادی۔

نااہلی ونالائقی:

            ٢٢۔ خواہش کا پیروکار قیادت وسیادتاور امامت وپیشوائی کا اہل نہیں ہوتااور نہ ہی اس لائق ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کیجائے اور بات مانی جائے اسی ناطے الله تعالیٰ نے ایسے شخص کو امامت سے معزولفرمایا ہے اور اس کی بات ماننے سے روکا ہے۔ الله تعالیٰ نے اپنے خلیل ابراہیم علیہالسلام کو مخاطب کرکے فرمایا : 

(ِانِّيْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماً قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتيِْ قَالَ لَایَنَالُ عَہْدِيْ الظَّالِمِیْنَ) البقرة ١٢٤

(میں تمھیں لوگوں کا امام بنادوں گا، عرض کرنے لگے اور میری اولاد کو، فرمایا: میرا وعدہ ظالموں سے نہیں۔)

            یعنی خواہش کے پیروکار سب کے سب ظالمہیں لہذا اس وعدہ کے مستحق نہیں ہیں جیسا کہ الله تعالیٰ نے مزید فرمایا: 

(بَلِاتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا أَہْوَآء ہُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ) روم/٢٩

(بلکہ بات یہ ہے کہ ظالم تو بغیر علم کے خواہش کے پیچھے چل رہے ہیں۔) 

            ایک اور مقام پر الله تعالیٰ نے ایسےلوگوں کی اطاعت سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

(وَلَاتُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ وَکَانَأَمْرُہُ فُرُطاً) الکہف/٢٨

(دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گذر چکا ہے۔)

بت پرستی:

            ٢٣۔ الله تعالیٰ نے خواہش پرست کو بتپرست کے درجہ میں رکھا ہے۔ فرمایا:

(أَرَأَیْتَمَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہُ ہَوَاہُ) فرقان٤٣ 

(کیاآپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے)۔

 الله تعالیٰ نے یہ بات دو مقامات پر ارشادفرمائی۔

            امام حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اسسے وہ منافق مراد ہے کہ جس چیز کی بھی خواہش کرتا ہے کربیٹھتا ہے۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ منافق اپنی خواہشات کا غلام ہوتا ہے، اس کا نفس جس بات کی خواہش کرتا ہے وہ کرتا جاتا ہے۔

جہنم کا باڑھ:

            ٢٤۔ نفسانی خواہشات ہی جہنم کا باڑھہیں، اسی سے جہنم گھری ہوئی ہے لہذا جو نفسانی خواہشات کا شکار ہوگا جہنم سے دوچارہوگا۔ جیسا کہ صحیحین میں نبی صلى الله عليه وسلم کاارشاد ہے: 

''جنت کو ناپسندیدہ چیزوں سے اور جہنم کو نفسانی خواہشات سے گھیردیا گیا ہے.''

ترمذی میں حضرت ابوہریرہ رضى الله عنه سے مرفوعاً روایت ہے کہ:

''جب الله تعالیٰ نے جنت کی تخلیق فرمائی، جبریل علیہ السلام کو  یہ حکم دے کر بھیجا کہ جنت کو اور اہل جنت کےلئے جو کچھ میں نے اس میں تیار کر رکھا ہے اس کو دیکھ کر آؤ۔ چنانچہ جب وہ جنت دیکھکر واپس ہوئے تو کہا: تیری عزت کی قسم! تیرا جو بندہ اس کے بارے میں سنے گا وہ ضرور اس میں داخل ہوگا۔ پھر الله تعالیٰ کے حکم سے جنت کو ناگوار چیزوں سے گھیردیا گیا۔ الله تعالیٰ نے جبریل کو دوبارہ جاکر دیکھنے کا حکم دیا. جب کہ اسے ناپسندیدہ چیزوں سے گھیرا جاچکا تھا. جبریل علیہ السلام نے واپس آکر کہا: تیری عزت کی قسم! مجھے اندیشہ ہے کہ اس میں کوئی نہ داخل ہوسکے گا۔ پھر الله تعالیٰ نے فرمایا: جہنم اور اہل جہنم کے لئے میں نے جو کچھ تیار کر رکھا ہے اس کو جاکر دیکھو،جبریل آئے اور دیکھا کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ پر چڑھا جاتا ہے۔ لوٹ کر آئے اورباری تعالیٰ سے عرض کیا: تیری عزت کی قسم! اس کا حال جو سنے گا ا س میں نہیں داخل ہوگا۔ پھر الله کے حکم سے اس کو نفسانی خواہشات سے گھیر دیا گیا۔ الله تعالیٰ نےفرمایا پھر جاکر دیکھو۔ اب دیکھا تو اسے شہوات سے گھیرا جاچکا تھا۔ لوٹ کرآئے اورکہا: تیری عزت کی قسم! مجھے اندیشہ ہے کہ اس سے کوئی نجات نہ پاسکے گا۔"  

(امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیحہے)۔

اندیشۂ کفر:

            ٢٥۔ نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنے والے کے بارے میں اسلام سے لاشعوری طور پر نکل جانے کا اندیشہ ہے۔ نبی صلى الله عليه وسلم کا یہ فرمان ثابت ہے:

 ''تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جبتک کہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ ہوجائے۔'' 

اورصحیح حدیث میں یہ بھی ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نےفرمایا : 

''مجھے تمھارے بارے میں جس چیز کا سب سے زیادہ ڈر ہے وہ تمھارے پیٹ اور شرمگاہ کی بہکا دینے والی شہوتیں اور نفسانی خواہشات کی گمراہ کن باتیں ہیں۔''

موجبِ ہلاکت:

             ٢٦۔ نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنا موجب ہلاکت ہے۔

 نبی صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے: 

''تین چیزیں باعث ِنجات اور تین چیزیں باعث ہلاکت ہیں: نجات دینے والی

1. پہلی چیز کھلے اور چھپے الله  کا تقوی ہے۔ 

2. دوسری چیز خوشی اور ناراضی ہرحال میں حق گوئی، 

3. تیسری چیز فقیری اور امیری ہر حال میں میانہ رویہ ہے۔ اور ہلاک کرنے والی 

1. پہلی چیز وہ نفسانی خواہش ہے جس کی اتباع کی جائے۔ 

2. دوسری چیز وہ بخل ہے جس کی بات مانی جائے اور 

3. تیسری چیز آدمی کی خودپسندی ہے''۔ 

باعث فتح وظفر:

            ٢٧۔ نفسانی خواہش کی مخالفت کرنے سے بندہ اپنے جسم اور دل وزبان میں قوت پاتا ہے۔ 

            بعض سلف کا قول ہے کہ اپنی خواہش پر غلبہ حاصل کرنے والا اس سے بھی زیادہ طاقتور ہے جو تنہا کسی ملک کو فتح کرتا ہے۔ صحیح حدیث میں نبی صلى الله عليه وسلم کافرمان ہے: 

''پہلوان وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو پالے۔'' 

            آدمی جب جب اپنی خواہش کی مخالفت کرتا ہے اپنی قوت میں برابر اضافہ کرتا جاتا ہے۔

اخلاق و مروت:

            ٢٨۔ اپنی خواہش کے خلاف چلنے والا سب سے زیادہ بامروت انسان ہوتا ہے۔ معاویہ رضى الله عنه فرماتے ہیں: خواہشات کوچھوڑدینا اور ہوائے نفس کی بات نہ ماننا یہی مروت ہے۔ خواہشات کے پیچھے چلنا مروتکو بیمار کردیتا ہے۔ اور اس کی مخالفت، مروت کو افاقہ عطا کرتی اور شفادیتی ہے۔

عقل اور خواہش کی جنگ:

            ٢٩۔ ہر دن خواہش اور عقل باہم دستوگریباں ہوتے ہیں جو جیت جاتا ہے شکست خوردہ کو بھگادیتا ہے اور خود حکومت و تصرفکرتا ہے۔ ابودرداء رضى الله عنه فرماتے ہیں: آدمی جب صبح کرتا ہے اس کی عقل اورخواہش اکٹھا ہوتی ہے۔ اگر اس کی عقل خواہش کے تابع ہوئی تو وہ ایک برا دن ہوتا ہےاور اگر خواہش عقل کے تابع ہوئی تو وہ ایک اچھا دن ہوتا ہے۔

غلطی کا امکان:

            ٣٠۔ الله تعالیٰ نے خطا اور اتباع ہوا(غلطی اورخواہش کی پیروی) کو ایک دوسرے کا ساتھی بنایا ہے۔ اسی طرح درستی اور خواہش کی مخالفت کو ایک دوسرے کا ساتھی بنایا ہے جیسا کہ بعض سلف کا قول ہے: جب تمھیں دو باتوں میں شبہ ہوجائے کہ زیادہ سخت کون ہے تو جو تمھاری خواہش کے قریب ہو اس کی مخالفت کرو کیونکہ خواہش کے پیچھے چلنے ہی میں غلطی کا زیادہ امکان ہے۔

بیماری اور علاج:

            ٣١۔ خواہش بیماری ہے اور اس کا علاجاس کی مخالفت ہے۔ کسی عارف کا قول ہے: اگر تم چاہو تو تم کو تمھارا مرض بتادوں اوراگر چاہو تو اس کی دوا بھی بتادوں؟ نفسانی خواہش تمھارامرض ہے، اس کو چھوڑ دینا اور اس کی مخالفت کرنا اس کی دوا ہے۔ 

            بشرحافی فرماتے ہیں: ساری بلائیں نفسانی خواہشات کی بنا پر ہیں اور سارا علاج اس کی مخالفت میں ہے۔

جہاد:

            ٣٢۔ خواہشات سے جہاد اگر جہادِکفارسے بڑھ کر نہیں تو اس سے کم تر بھی نہیں ہے۔

            ایک شخص نے حسن بصری سے کہا: اے ابوسعید! کون سا جہاد افضل ہے؟ فرمایا: خواہشات نفسانی سے جہاد کرنا۔

             شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتےہیں: نفس اور خواہش سے جہاد، کفار ومنافقین سے جہاد کی بنیاد ہے کیونکہ ان سے اس وقت تک کوئی جہاد نہیں کرسکتا جب تک کہ ان کی طرف نکلنے کے لئے اپنے نفس اور خواہش سے جہاد نہ کرے۔

مرض بڑھتا گیا:

            ٣٣۔ خواہش بیماری کو بڑھادینے والی چیز ہے اور اس کی مخالفت پرہیز ہے۔ ایسا شخص جو مرض بڑھانے والی چیز کا استعمال کرے اور پرہیز سے دور رہے اس کے انجام کے بارے میں خطرہ یہی ہے کہ بیماری اسے دبوچ لے گی۔

محرومی و بے توفیقی:

            ٣٤۔ خواہشات کی اتباع سے توفیق کے دروازے بند ہوجاتے اور محرومی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ایسے لوگ اپنی زبان سے کہتے رہتے ہیں کہ اگر الله توفیق دے تو ایسا اور ایسا کرگذریں مگرخواہشات کی اتباع کرکے انھوں نے اپنے لئے توفیق کے راستے مسدود کرلئے ہیں۔

            فضیل بن عیاض کا قول ہے: جس شخص پرشہوت اور خواہش  غالب آجاتی ہے توفیق اس سےمنقطع ہوجاتی ہے۔

            کسی عالم کا قول ہے کہ کفر چار چیزوں میں ہے: غضب اور شہوت میں، لالچ اور خوف میں۔ پھر فرمایا کہ دو کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا: ایک شخص غصہ میں آیا اور اس نے اپنی ماں کو قتل کرڈالا، دوسرا شخص مبتلائے عشق ہوکر نصرانی ہوگیا۔

فسادعقل وخرد:

            ٣٥۔ جو آدمی اپنی خواہشات کو ترجیح دیتا ہے اس کی عقل فاسد اور رائے بگڑجاتی ہے۔ اس لئے کہ اپنی عقل کے معاملے میں اس نے الله کی خیانت کی تو الله نے اس کی عقل کو فاسد کردیا۔ تمام امور میں  الله کی سنت یہی ہے کہ جو کوئی اس میں خیانت کرتا ہے الله تعالیٰ اسے فاسد کردیتا اور بگاڑدیتا ہے۔

قبروآخرت کی تنگی:

            ٣٦۔ جو اپنی خواہشات کی تکمیل میں اپنے نفس پر کشادگی کرتا ہے تو اس پر قبر اور آخرت میں تنگی ہوگی۔ اس کے برخلاف جونفس کی مخالفت کرکے اس پر تنگی کرتا ہے اس کی قبر اور آخرت میں اس پرفراخی ہوگی۔ الله تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں اسی طرف اشارہ کیا ہے:

(وَجَزَاہُمْبِمَاصَبَرُوْا جَنَّةً وَّحَرِیْراً) الدہر١٢

(اورانہیںان کے صبر کے بدلہ جنت اورریشمی لباس عطافرمائے۔) 

            چونکہ صبر جوکہ خواہشات سے نفس کوروکنے کانام ہے اس میں کھردرا پن اور تنگی ہے اس لئے بدلے میں نرم وگداز ریشم اورجنت کی وسعت عطافرمائی۔

             ابوسلیمان دارانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: شہوتوں سے صبر کرنے پر یہ بدلہ عطا فرمایا۔

رکاوٹ:

            ٣٧۔ نفسانی خواہشات قیامت کے دن نجات یافتہ بندوں کے ساتھ اٹھ کر دوڑنے سے رکاوٹ بن جائیں گے، جس طرح دنیا میں ان کا ساتھ دینے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ 

            محمد بن ابی الورد کا قول ہے کہ الله تعالیٰ نے ایک دن ایسا بنایا ہے جس کی مصیبت سے خواہشات کے پیچھے چلنے والا نجات نہیں پاسکتا۔ قیامت کے دن جو شخص سب سے دیر سے اٹھے گا وہ شہوتوں کا پٹخا ہوا ہوگا۔ عقلیں جب طلب کے میدان میں دوڑتی ہیں تو سب سے زیادہ حصہ کی مستحق وہ ہوتی ہے جس کے پاس سب سے زیادہ صبر ہو۔ عقل معدن ہے اور فکر اس معدن سے خزانے نکالنے کا آلہ ہے۔

عزائم کی پستی:

            ٣٨۔ خواہشات کی غلامی عزائم کی پستیاور کمزوری کا سبب ہے اور اس کی مخالفت عزائم کو مضبوطی اور طاقت عطا کرتی ہے۔عزموہ سواری ہے جس کے ذریعہ بندہ الله اور آخرت کی طرف سفر کرتا ہے، اگر سواری خرابہوجائے تو مسافر کی منزل بہت دور ہوجاتی ہے۔

             یحییٰ بن معاذ سے دریافت کیا گیا: عزم کےاعتبار سے صحیح ترین انسان کون ہے؟ فرمایا: وہ جو اپنی خواہشات پر غالب آجائے۔ 

بدترین سواری:

            ٣٩۔ خواہش پرست کی مثال اس گھڑ سوار کیسی ہے جس کا گھوڑا نہایت تیز رفتار، بے قابو، سرکش اور بے لگام ہو، دوڑنے کے دوران اپنے سوار کو پٹخ دے یا کسی ہلاکت کے مقام پر پہنچادے۔

            ایک عارف کا کلام ہے: جنت کو پہنچانے والی سب سے تیز رفتار سواری دنیا سے بے رغبتی ہے اور جہنم تک پہنچانے والی سب سے تیزرفتار سواری خواہشات کی محبت ہے۔ خواہشات کا سوار ہلاکتوں کی وادی میں نہایت تیزی کے ساتھ پہنچ جائے گا۔ 

            ایک دوسرے عارف کا کلام ہے کہ سب سے زیادہ صاحب شرف وہ عالم ہے جو اپنے دین کی حفاظت کے لئے دنیا سے بھاگے اور خواہشات کے پیچھے چلنا اس کے لئے دشوار ہو۔ 

            عطا فرماتے ہیں: جس کی خواہش اس کی  عقل پر اور بے قراری اس کے صبر پر غالب آجائے وہ رسوا ہوجائے گا۔

توحید کی ضد:

            ٤٠۔ توحید اور نفسانی خواہش کا اتباع ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ نفسانی خواہش ایک بت ہے اور ہر خواہش پرست کے دل میں اس کی خواہش کے مطابق بت موجود ہیں۔ الله تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو اسی لئے بھیجا کہ وہبتوں کو توڑیں اور ایک الله وحدہ' لاشریک کی عبادت کا غلغلہ بلند کریں۔ الله تعالیٰ کا یہ مقصود ہرگز نہیں کہ جسمانی اور ظاہری بتوں کو توڑ دیا جائے اور دلوں کے بتوں کو چھوڑ دیا جائے بلکہ دلوں کا بت ہی سب سے پہلے توڑنا ہے۔ 

            حسن بن علی مطوعی کا قول ہے: ہر انسان کا بت اس کی نفسانی خواہش ہے، جس نے خواہشات کی مخالفت کرکے اس بت کو توڑ دیا وہیجوان کہلانے کا مستحق ہے۔ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم سے جو بات کہی تھی ذرا اس پر غور کرو، فرمایا:

(مَاہٰذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِيْ أَنْتُمْ لَہَا عَاکِفُوْنَ) انبیاء/٥٢

(یہ مورتیاں کیا ہیں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو؟)

            ان کی بات ان بتوں پر کس قدر فٹ آتی ہے جنھیں خواہشات کی شکل میں انسان دل میں بٹھائے ہوتا ہے، ان میں منہمک رہتا اور الله کو چھوڑکر ان کی پرستش کرتا ہے۔ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

(أَرَأَیْتَمَنِ اتَّخَذَ ِالٰہَہُ ہَوَاہُ أَفَأَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلاً أَمْتَحْسَبُ أَنَّ أَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ أَوْ یَعْقِلُوْنَ اِنْ ہُمْ اِلاَّکَالانْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ سَبِیْلاً) فرقان/ ٤٣ـ٤٤

(کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے، کیا آپاس کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں؟ کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں، وہ تو نرے چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے)۔

بیماریوں کی جڑ:

            ٤١۔ خواہش کی مخالفت سے دل اور بدن کی بیماریاں ختم ہوتی ہیں۔ جہاں تک دل کی بیماریوں کا معاملہ ہے تو وہ ساری کی ساری خواہش پرستی ہی کا نتیجہ ہوتی ہیں اور اگر آپ تحقیق کریں تو معلوم ہوگا کہ بیشترجسمانی بیماریوں کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ کسی چیز کے چھوڑ دینے کے عقلی فیصلہ پرخواہش نفس کو ترجیح دی جاتی ہے۔ 

عداوتوں کی بنیاد:

            ٤٢۔ لوگوں کی آپسی عداوت اور شروحسد کی بنیاد خواہش پرستی ہے۔ جو شخص خواہش پرستی سے دور ہوتا ہے وہ اپنے قلب وجگر اورجسم واعضاء کو راحت پہنچاتا ہے۔ خود بھی آرام میں ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی اس سےآرام ہوتا ہے۔ 

            ابوبکر وراق کا قول ہے: جب خواہش غالب آتی ہے دل کو تاریک کردیتی ہے۔ جب دل تاریک ہوتا ہے سینہ تنگ ہوجاتا ہے۔ جب سینہ تنگ ہوجاتا ہے. اخلاق برے ہوجاتے ہیں۔ جب اخلاق برے ہوجاتے ہیں تو مخلوق اسے ناپسند کرنے لگتی ہے اور وہ بھی دوسروں کو ناپسند کرنے لگتا ہے اور جب نوبت اس باہمی بغض وعداوت تک پہنچ جاتی ہے تو اس کے نتیجہ میں انتہائی شروفساد اور ترک حقوق وغیرہ پیدا ہوتا ہے۔ 

ایک ہی فاتح:

            ٤٣۔ الله تعالیٰ نے انسان میں دو قوتیں پیدا فرمائی ہیں۔ ایک خواہش اور دوسری عقل۔ ان دونوں میں سے جب ایک قوت نمایاں ہوتی ہے تو دوسری قوت چھپ جاتی ہے۔ 

            ابوعلی ثقفی کا قول ہے: جس پر خواہش کا غلبہ ہوتا ہے. اس کی عقل چھپ جاتی ہے۔ بھلا اس کا انجام کیا ہوگا جس کی عقل غائب ہو اور بے عقلی ظاہر ہو!!

            علی بن سہل کا قول ہے: عقل اور خواہش باہم لڑتے ہیں۔ توفیق عقل کے ساتھ ہوتی ہے اور محرومی خواہش کے ساتھ۔ نفس ان دونوں کے بیچ ہوتی ہے۔ ان میں سے جس کی فتح ہوتی ہے نفس اسی کے ساتھ ہوجاتا ہے۔ 

شیطان کا ہتھیار:

            ٤٤۔ الله تعالیٰ نے دل کو اعضاء کا بادشاہ بنایا ہے اور اپنی محبت ومعرفت اور عبودیت کا معدن قرار دیا ہے اور دو بادشاہوں، دو لشکروں، دو مددگاروں اور دو ہتھیاروں سے اس کی آزمائش فرمائی ہے۔ حق وہدایت اور زہد وتقوی ایک بادشاہ ہے، جس کے مددگار ملائکہ ہیں، جس کا لشکر وہتھیار صدق واخلاص اور خواہشات سے دوری ہے۔ باطل دوسرا بادشاہ ہے، شیاطین اس کے مددگار ہیں، اس کا لشکر وہتھیار خواہشات کی اتباع ہے۔ نفس ان دونوں لشکروں کے درمیان کھڑا ہوتا ہے۔ دل پر باطل کے لشکروں کا حملہ اسی کی جانب اور اسی کی سرحد سے ہوتا ہے۔ نفس دل کو مدہوش کرکے اس کے خلاف اس کے دشمنوں سے مل جاتا ہے۔ نفس ہی دل کے دشمنوں کو ہتھیار اور سامان رسد پہنچاتا ہے اور قلعہ کا دروازہ ان کے لئے کھول دیتا ہے. چنانچہ دل بے سہارا ہوجاتا ہے اور باطل کی فتح ہوجاتی ہے۔

سب سے بڑا دشمن:

            ٤٥۔ انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کا شیطان اور خود اس کی اپنی خواہش ہے اور اس کا سب سے بڑا دوست اس کی عقل اور اس کا فرشتہ ہے۔ جب انسان اپنے خواہش کی پیروی کرتا ہے اور ہوائے نفس کا اسیر ہوجاتا ہےاور اپنے دشمن کو خوش ہونے کا موقع دیتا ہے تو اس کا دوست اور محبوب اس بات کو ناپسندکرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس سے الله کے نبی صلى الله عليه وسلم پناہ مانگا کرتے تھے۔ آپ فرماتے: 

''اَللّٰہُمَّ اِنِّيْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ جَہْدِالْبَلاَءِ وَدَرَکِ الشَّقَآءِ وَسُوْءِ الْقَضَآءِوَشَمَاتَةِ الاعْدَآءِ''

[اےالله میں تیری پناہ چاہتا ہوں سخت بلا سے اور بدبختی آنے سے اور بری قضا سے اور دشمنوں کی خوشی سے۔]

آغاز و انجام:

            ٤٦۔ ہر انسان کا ایک آغاز اور ایک انجام ہوتا ہے۔ جس کا آغاز خواہشات کی اتباع سے ہوگا اس کا انجام ذلت وحقارت، محرومی اور بلائیں ہوں گی۔ جس قدر وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلے گا اسی قدر دلی عذاب میں مبتلا رہے گا۔ کسی بھی بدحال شخص پر آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اس کا آغاز یہ تھا کہ وہ اپنی خواہشات کے پیچھے چلتا رہا اور اپنی عقل پر اسے ترجیح دیتارہا۔ اس کے برخلاف جس شخص کی ابتدا اپنی خواہشات کی مخالفت اور اپنی سوجھ بوجھ کی اطاعت سے ہوگی اس کا انجام عزوشرف، جاہ واقتدار اور مال ودولت ہوگا۔ لوگوں کےنزدیک بھی اور الله کے نزدیک بھی ہرجگہ اس کا ایک مقام ہوگا۔

            ابوعلی دقاق کا قول ہے کہ جو اپنی جوانی میں اپنی خواہشات پر قابو رکھتا ہے بڑھاپے میں الله تعالیٰ اسے عزت عطاء فرماتا ہے۔ 

            مہلب بن ابی صفرة سے پوچھا گیا کہ آپ اس مقام پر کس طرح پہنچے؟ فرمایا: ہوش و خرد کی اطاعت کرکے اور خواہشات کی نافرمانی کرکے۔

            یہ تو دنیا کا آغاز وانجام ہے۔ آخرت کا بھی یہی معاملہ ہے کہ خواہش کی مخالفت کرنے والوں کے لئے الله تعالیٰ نے جنت بنائی ہے اور اس کے پیچھے چلنے والوں کے لئے جہنم تیار کر رکھا ہے۔

پاؤں کی بیڑیاں:

            ٤٧۔ نفسانی خواہشات دل کی غلامی، گلےکا طوق اور پاؤں کی بیڑیاں ہیں۔ خواہش پرست ہربدکردار کا غلام ہوتا ہے لیکن خواہش کی مخالفت کرتے ہی اس کی غلامی سے نکل کر آزاد ہوجاتا ہے۔ گلے کا طوق اور پاؤں کیبیڑیاں نکال پھینکتا ہے۔

لید کے بدلے موتی:

            ٤٨۔ خواہش کی مخالفت بندہ کو اس مقامپر لا کھڑا کرتی ہے کہ اگر وہ الله کے نام کی قسم کھالے تو الله تعالیٰ اس کی قسم پوری فرماتا ہے۔ خواہشات کی جتنی لذت سے وہ محروم رہتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ الله تعالیٰ اس کی ضروریات کی تکمیل کرتا ہے۔ اس کی مثال اس شخص جیسی ہوتی ہے جس نےجانور کی لید سے اعراض کیا تو اس کے بدلہ اسے موتی سے نوازا گیا۔ 

            خواہش پرست اپنی خواہشات سے جتنی لذت نہیں پاتا. اس سے کہیں زیادہ دنیاوی اور اخروی مصلحتیں اور زندگی کی خوش گواریاں فوت کردیتا ہے۔ یوسف علیہ السلام نے جب اپنے آپ کو حرام سے بچایا تو قید سے نکلنے کے بعد ان کا دست وزبان اور نفس وقدم جس قدر آزاد تھا غور کرنے کی چیز ہے۔

            عبدالرحمن بن مہدی فرماتے ہیں: میں نے سفیان ثوری رحمہ اللہ کو خواب میں دیکھا۔ میں نے ان سے کہا: الله نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟ انھوں نے کہا: جوں ہی مجھے لحد میں رکھا گیا مجھے الله تبارک وتعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونا پڑا۔ الله تعالیٰ نے میرا ہلکا حساب لیا۔ پھر جنت کیطرف لے جانے کا حکم فرمایا۔ ایک دن جب کہ میں جنت کے درختوں اور نہروں کے درمیان گھوم رہا تھا، نہ کوئی آہٹ تھی نہ حرکت، اچانک میں نے ایک شخص کو سنا جو میرا نام لے کر پکار رہا تھا، سفیان بن سعید! تمھیں وہ دن یاد ہے جب تم نے اپنی خواہش کےخلاف الله تعالیٰ کے حکم کو ترجیح دی تھی۔ میں نے کہا: ہاں! الله کی قسم۔ پھر ہرطرف سے مجھ پر پھول برسنے لگے۔

مقامِ عزت:

            ٤٩۔ خواہش کی مخالفت دنیا وآخرت کےشرف کا باعث اور ظاہر وباطن کی عزت کا موجب ہے اور اس کی موافقت دنیا وآخرت کی پستی اور ظاہر وباطن کی ذلت کا باعث ہے۔ جب قیامت کے دن الله تعالیٰ تمام انسانوں کو ایک ہموار زمین پر اکٹھا فرمائے گا تو ایک پکارنے والا پکارے گا: آج محشر والوں کو معلوم ہوجائے گا کہ عزت والا کون ہے؟ متقی کھڑے ہوجائیں۔ چنانچہ وہ سب مقام عزت کی طرف چل پڑیں گے۔ خواہشات کی اتباع کرنے والے سروں کو جھکائے ہوئے خواہشات کی گرمی، اس کے پسینے او ر اس کی تکلیفوں میں پریشان ہوں گے جب کہ متقی عرش کے سایہ میں ہوں گے۔ 

عرش الٰہی کا سایہ:

            ٥٠۔ اگر آپ ان سات لوگوں کے بارے میں غور کریں جنھیں الله تعالیٰ اس دن عرش کا سایہ نصیب فرمائے گا جب اس کے سایہ کےسوا کوئی دوسرا سایہ نہ ہوگا تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کو عرش کا سایہ خواہشات کی مخالفت کی بنا پر حاصل ہوا ہے۔

            ایک حاکم جو مضبوط اقتدار اور مستحکم سلطنت کا مالک ہو اپنی خواہشات کی مخالفت کئے بغیر عدل نہیں کرسکتا۔ 

            ایک جوان خواہشات کی مخالفت کے بغیر اپنی جوانی کے جذبات پر عبادت الٰہی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ 

            ایک مسلمان لذت گاہوں کی طرف جانے پر آمادہ کرنے والی خواہشات کی مخالفت کے بغیر اپنا دل مساجد میں معلق نہیں رکھ سکتا۔

            ایک صدقہ دہندہ اگر اپنی خواہشات پرغالب نہ ہو تو اپنا صدقہ بائیں ہاتھ سے نہیں چھپاسکتا۔

            ایک مرد اپنی خواہشات کی مخالفت کے بغیر کسی خوبصورت اور صاحب منصب عورت کے بلانے پر الله عزوجل سے ڈر کر اسے نہیں چھوڑسکتا۔  

            ایک مسلمان اپنی خواہشات کی مخالفت کرکے ہی تنہائی میں ﷲ کو یاد کرتا ہے اور ﷲ کے خوف سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے ہیں۔ 

            یہ سب کچھ خواہشات کی مخالفت کی بنا پر ہی ہوسکتا ہے. لہذا ایسے لوگوں پر قیامت کے دن کی گرمی، شدت اور پسینہ کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ اس کے برعکس خواہش پرست انتہائی گرمی اور پسینہ میں شرابور ہوں گے اور خواہشات کے قید خانہ میں داخل ہونے کا انتظار کررہے ہوں گے۔ 

            الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم کواپنے نفس امارہ کی خواہشات سے اپنی پناہ میں رکھے اور ہماری خواہشات کو اپنی محبت ورضا کے تابع بنادے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور وہی دعائیں سنتا ہے۔

والحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ علی نبینا وسلم (صححہ: #ایس_اے_ساگر )

https://saagartimes.blogspot.com/2022/10/blog-post_15.html



No comments:

Post a Comment