Sunday, 30 October 2022

نجات کے تین ذرائع

نجات کے تین ذرائع:
1. اپنی زبان قابو میں رکھو
2. بلاضرورت گھر سے باہر نہ نکلو 
3. اپنے گناہوں پر رویا کرو
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تین نصائح: دنیا وآخرت میں نجات کا ذریعہ 
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں، کئی احادیث آپ سے منقول ہیں، ترمذی شریف میں آپ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث منقول ہے، اس میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
’’قُلْتُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا النَّجَاۃُ؟ قَالَ: أَمْسِکْ عَلَیْکَ لِسَانَکَ وَلْیَسَعْکَ بَیْتُکَ وَابْکِ عَلٰی خَطِیْئَتِکَ۔‘‘               
(سنن ترمذی، باب ماجاء فی حفظ اللسان)
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی: اے اللہ کے رسول! مجھے بتلایئے کہ دنیا اور آخرت میں نجات کا ذریعہ کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سوال کے جواب میں تین چیزوں کی نصیحت فرمائی، تین باتوں کو نجات کا سبب بتلایا:
۱:- اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔
۲:- تمہارا گھر تمہاری کفایت کرے، یعنی اپنے گھر میں رہا کرو۔ 
۳:- اپنے گناہوں پر رویا کرو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے سوال کے جواب میں نجات کا ذریعہ اور سبب جن تین چیزوں کو بتلایا ہے، ان میں سے ہر ایک  سے متعلق کچھ تفصیل درج ذیل ہے:
پہلی نصیحت: زبان کو قابومیں رکھنا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی چیز جس کو نجات کا سبب بتلایا ہے، وہ ہے:
’’أَمْسِکْ عَلَیْکَ لِسَانَکَ‘‘ 
ارشاد فرمایا: ’’اپنی زبان کو اپنے قابو میں رکھنا۔‘‘
یعنی اپنی زبان کو ایسی چیزوں اور ایسی باتوں سے پاک رکھوجن باتوں میں کوئی خیر اور بھلائی نہ ہو، لایعنی گفتگو سے اپنی زبان کو بند رکھو۔
انسانی اعضاء میں سے زبان بڑی اہمیت رکھتی ہے، اسے علماء نے دودھاری تلوار قرار دیا ہے، یہ حق میں بھی چلتی ہے اور باطل میں بھی۔ انسان کی زبان زندوں پر بھی چلتی ہے اور کبھی مُردوں کو بھی نہیں بخشتی. اس لئے انسان جوبول اپنی زبان سے نکالے، سوچ سمجھ کر نکالے، ساتھ ساتھ اپنی گفتگو کے بارے میں یہ سوچ بھی رکھے کہ میرا کہا ہوا سب کچھ لکھا جارہا ہے، مجھے اپنے ہر ایک بول کا حساب دینا ہوگا، جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، کیا میں اس کا حساب دے سکتا ہوں؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
’’مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ‘‘ 
کہ انسان کی زبان سے کوئی لفظ ایسا نہیں نکلتا جسے لکھنے کے لئے حاضرباش فرشتہ نگران موجود نہ ہو، یعنی میری اور آپ کی تمام تر گفتگو لکھی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے اس کے لئے مقرر کر رکھے ہیں، اس لئے ہمیں اپنی گفتگو میں، گپ شپ میں، ہنسی مذاق میں بھی احتیاط سے کام لینا چاہئے، زبان سے غلط بول نکل جائے تو بندہ اللہ کے حضور صدقِ دل سے معافی مانگے اور آئندہ کے لئے اپنی زبان کو فضولیات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا عجیب واقعہ:
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے عظیم محدث اور عالم تھے، ان کی دینِ اسلام پر استقامت بے مثل تھی، وقت کی تمام طاقتیں انہیں ان کے دینی موقف سے پیچھے نہ ہٹاسکیں، ان کا صبر بعد میں آنے والوں کے لئے ایک مثال بنا۔ ان کے بارے میں سورۂ 'ق' کی مذکورہ آیت کے تحت مفسرین نے ایک عجیب واقعہ نقل کیا ہے کہ: 
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنی حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام میں علیل تھے، بیمار تھے، اور عام طور پر بیماری میں انسان کراہتا ہے، کراہنے کی آواز منہ سے نکلتی ہے، جسے ہم آہ آہ کرنا کہتے ہیں، تو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کراہ رہے تھے، حضرت طاؤس رحمۃ اللہ علیہ بزرگ بھی ہیں اور محدث بھی ہیں، وہ اُن کے قریب تشریف فرما تھے، انہوں نے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ: 
’’یکتب الملک کل شیء حتی الأنین‘‘ 
یعنی فرشتے انسان کی زبان سے نکلا ہوا ہر کلام ہر لفظ لکھ لیتے ہیں، محفوظ کرلیتے ہیں، حتیٰ کہ مریض کا کراہنا بھی لکھ لیا جاتا ہے، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے جب یہ بات سنی تو:
’’فلم یئن أحمد حتی مات رحمہ اللّٰہ‘‘ 
یعنی ’’امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے کراہنا بھی ختم کردیا، یہاں تک کہ دنیا سے تشریف لے گئے۔‘‘
اس سے اندازہ لگائیں کہ یہ حضرات اپنی زبان کے معاملے میں کتنی احتیاط کرتے تھے، مباح باتیں بھی بلاضرورت اپنی زبان سے نہیں نکالتے تھے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بیماری اور مرض کی وجہ سے کراہنا بھی ختم کردیا کہ کہیں اس پر قیامت میں پوچھ گچھ نہ ہو۔
فسادات کا ایک بڑا سبب:
اگر ہم غور کریں تو ہمیں اکثر لڑائی، جھگڑوں اور فسادات کی بنیاد اور سبب انسانی زبان کی بے احتیاطی اور بے باکی نظر آئے گی۔ ہماری زبانیں آج بڑی بے احتیاط ہوچکی ہیں، جو کچھ ہماری زبانوں پر آتا ہے، ہم بولتے چلے جاتے ہیں، سوچتے بھی نہیں کہ ہماری یہ باتیں برائیوں کے پلڑے کو بھاری کرنے کا سبب بن رہی ہیں، ان پر قیامت میں ہماری سخت پکڑ ہوسکتی ہے اور ہماری غیرمحتاط باتیں ہمیں دوزخ کی آگ میں دھکیل سکتی ہیں۔
زبان کی بے احتیاطیوں کا نتیجہ:
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں، وہ ارشاد فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ: یا رسول اللہ! 
’’أَخْبِرْنِیْ بِعَمَلٍ یُدْخِلُنِی الْجَنَّۃَ وَیُبَاعِدُنِیْ مِنَ النَّارِ‘‘۔۔۔۔۔
’’مجھے ایسا عمل بتلادیجئے جس کی وجہ سے میں جنت میں داخل ہوسکوں اور جہنم سے دور کردیا جاؤں۔‘‘ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
’’لَقَدْ سَأَلْتَنِیْ عَنْ أَمْرٍ عَظِیْمٍ‘‘۔۔۔۔۔
’’اے معاذ! تم نے بہت بڑی بات پوچھی ہے۔‘‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عبادات بتلائیں کہ نماز کا اہتمام کرنا، زکوۃ ادا کرنا، حج کی استطاعت ہو تو حج کرنا، شرک سے بچنا اور ساتھ ساتھ کچھ نفلی عبادات سے بھی آگاہ فرمایا۔ اس روایت کے آخر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’أَلاَ أُخْبِرُکَ بِمَلاَکِ ذٰلِکَ کُلِّہٖ‘‘۔۔۔۔۔
’’اے معاذ! کیا میں تمہیں وہ چیز بھی بتلادوں جس پر گویا ان سب کا دارومدار ہے۔‘‘ یعنی ان عبادات کا مدار اس چیز پر ہے،جس کے بغیر یہ سب چیزیں ہیچ اور بے وزن ہیں، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا کہ: یارسول اللہ! ضرور وہ چیز بھی بتلادیں، 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک پکڑی اور ارشاد فرمایا: 
’’کُفَّ عَلَیْکَ ہٰذَا‘‘۔۔۔۔۔ 
’’اس کو روکو۔‘‘ یعنی زبان کو قابو میں رکھو، یہ چلنے میں بے احتیاط اور بے باک نہ ہو۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! 
’’وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُوْنَ بِمَا نَتَکَلَّمُ بِہٖ‘‘۔۔۔۔۔
’’ہم جو باتیں کرتے ہیں کیا ان پر بھی ہم سے مواخذہ ہوگا؟‘‘ 
بازپُرس کی جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
’’ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ یَا مُعَاذُ!‘‘ ۔۔۔۔۔
’’اے معاذ! تجھے تیری ماں روئے۔‘‘
(عربی زبان کے محاورہ میں یہ کلمہ یہاں پیار ومحبت کے لئے ہے) 
’’وَہَلْ یَکُبُّ النَّاسَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ إِلاَّ حَصَائِدُ أَلْسِنَتِہِمْ‘‘ 
لوگوں کو دوزخ میں ان کے منہ کے بل زیادہ تر ان کی زبانوں کی بے باکانہ باتیں ہی ڈلوائیں گی، یعنی آدمی جہنم میں اوندھے منہ زیادہ تر زبان کی بے احتیاطیوں کی وجہ سے ہی ڈالے جائیں گے۔
اس حدیث کو سامنے رکھ کر ہم اپنے آپ کو دیکھ سکتے ہیں کہ زبان سے سرزد ہونے والے بڑے بڑے گناہ آج ہمارے درمیان وبا کی طرح پھیل چکے ہیں اور ان گناہوں سے بچنے والے لوگ نہایت ہی کم ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدالانبیاء والمرسلین ہیں، قیامت تک کے لئے آخری پیغمبر ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا میں سب سے زیادہ بولنے کی حاجت وضرورت تھی، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے لئے مقتدیٰ اور پیشوا تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری انسانیت کو ہر لحاظ سے ہدایات دینی تھیں، اور اس ضرورت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بولنے میں کوئی کمی بھی نہیں فرماتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت کی ہر چھوٹی بڑی بات بتلائی اور زندگی کے ہر شعبے سے متعلق راہنمائی فراہم کی، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ارشاد فرماتے ہیں: 
’’کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم طویل الصَّمت ولا یتکلم إلا فیما یرجوا ثوابہ‘‘
کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ خاموش رہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف وہی بات فرماتے تھے جس پر ثواب کی امید ہوتی تھی، اس سے زبان کی احتیاط کا اندازہ لگائیں۔
زبان کی آفتیں:
زبان کے ذریعہ ہم سے بے شمار گناہ سرزد ہوتے ہیں، ان گناہوں میں غیبت، چغل خوری، گالم گلوچ، دوسرے مسلمانوں کو ایذاء رسانی شامل ہے، اس لئے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے: 
’’الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ‘‘ 
اصل حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، یعنی مسلمان کی زبان غیبت، چغلی، بدگوئی اور فحش باتوں سے محفوظ رہے۔ یہاں زبان کو پہلے ذکر فرمایا اور ہاتھ کو بعد میں، علماء لکھتے ہیں: 
’’قدم اللسان لأن التعرض بہٖ أسرع وقوعًا وأکثر‘‘ 
کہ زبان سے سرزد ہونے والی خطائیں جلدی بھی ہوتی ہیں اور اکثر بھی۔ عام طور پر دوسروں کو تکلیف دینے کے لیے انسان زبان کا استعمال زیادہ کرتاہے اور جوشخص دوسروں کو ہاتھ سے تکلیف نہیں دے سکتا، وہ بھی زبان کے ذریعہ ایذاء پہنچاتا ہے۔
آج ہماری مجلسیں اور بیٹھکیں غیبت سے بھری ہوتی ہیں، ہمیں یہ احساس بھی نہیں ہوتاکہ دوسروں کی غیبت کرکے ہم اپنے اعمال بھی ضائع کررہے ہیں اور گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہورہے ہیں، یعنی غیبت کے گناہ ہونے کا احساس بھی ہمارے دلوں سے رخصت ہوچکا ہے، اللہ تعالیٰ ہمارے حالات پر رحم فرمائے اور ہمیں سمجھ نصیب فرمائے ۔
حضرت داؤد الطائی رحمۃ اللہ علیہ کا غیبت کی وجہ سے بے ہوش ہونا:
ایک بزرگ گزرے ہیں جن کا نام ابوسلیمان داؤد الطائی ؒ ہے، یہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں میں سے ہیں، یہ بڑا عجیب ذوق رکھتے تھے، ساری زندگی انتہائی زہد واستغناء کے ساتھ گزاری، روٹی کو پانی میں بھگولیتے تھے، جب وہ گھل جاتی تو شربت کی طرح اسے پی لیتے اور فرماتے تھے: جتنے وقت میں میں ایک ایک لقمہ توڑ کر کھاؤں گا، اتنے عرصہ میں قرآن کریم کی پچاس آیتیں تلاوت کرسکتا ہوں، لہٰذا روٹی کھانے میں عمر کیوں ضائع کروں؟
ایک دن ایک شخص ان کے پاس آئے اور نصیحت کرنے کی درخواست کی، حضرت داؤدطائی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’دیکھوکہ اللہ تمہیں اس جگہ نہ دیکھے جہاں کا اس نے تمہیں منع فرمایا ہے، اور جہاں کا تمہیں حکم دیا ہے، وہاں تمہیں غیرحاضر نہ پائے۔‘‘ مختصر الفاظ میں کتنی عمدہ اور گہری بات فرمائی ہے۔
ان کے بارے میں بعض محدثین نے شروحاتِ حدیث میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ یہ ایک مرتبہ کسی جگہ سے گزررہے تھے، یکدم وہاں بے ہوش ہوکر گرپڑے، انہیں اُٹھاکران کے گھر لے جایا گیا، جب بے ہوشی سے افاقہ ہوا تو پوچھا گیا کہ اس جگہ آپ پر بے ہوشی کیوں طاری ہوئی اور آپ کیوں گرپڑے تھے؟
جواب میں انہوں نے کیا کہا؟ یہ سمجھنے کی بات ہے، ارشاد فرمایا: 
’’ذُکرتُ أنی اغتبتُ رجلاً فی ہذا الموضع، فذکرت مطالبتہٗ إیاي بین یدی اللّٰہ تعالی‘‘ 
جب میں اس جگہ پہنچا تو مجھے یاد آیا کہ اس مقام پر ایک مرتبہ کسی کی غیبت ہوگئی تھی، اور مجھے وہاں پہنچ کر یہ احساس پیدا ہوا کہ کل قیامت کے دن اللہ کے سامنے مجھ سے اس بارے میں مطالبہ ہوا، حساب کتاب کیا گیا، مجھ سے پوچھا گیا تو میں کیا جواب دوں گا؟ اس محاسبہ اور اللہ کے سامنے پیشی کے خوف نے مجھے بے ہوش کردیا۔
ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کا ایک دعوت میں شریک ہونا:
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ بڑے بزرگ گزرے ہیں، طویل واقعہ ہے کہ انہوں نے شہنشاہیت چھوڑ کر فقیری اختیار کرلی تھی اور اللہ تعالیٰ کے مقرب اور برگزیدہ بندے بن گئے۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کو ایک دعوت میں بلایا گیا، ضیافت کا اہتمام کیا گیا، آپ وہاں تشریف لے گئے۔ جب وہاں پہنچے اور بیٹھ گئے تو جو لوگ وہاں موجود تھے:
’’أخذوا فی الغیبۃ.‘‘ 
انہوں نے کسی کی  غیبت شروع کردی، ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ نے بڑے احسن انداز میں انہیں سمجھایا، ارشاد فرمایاکہ: دیکھو: 
’’عندنا یؤکل اللحم بعدالخبز‘‘ 
ہمارے ہاں پہلے لوگ روٹی کھاتے ہیں، پھر گوشت کھاتے ہیں، یعنی روٹی توڑ کر شوربے میں ڈالی، ثرید بنائی اور پھر بوٹیاں رکھ دیں، تو روٹی کے بعد لوگ گوشت کھالیتے ہیں اور تم لوگ ایسے ہو کہ: 
’’وأنتم ابتدأتم بأکل اللحم؟‘‘ 
تمہارے یہاں روٹی سے پہلے ہی گوشت خوری شروع ہوگئی، یعنی ابھی کھانا شروع بھی نہیں کیا اور گوشت کھانا شرع کردیا، یعنی تم لوگوں نے دوسروں کی غیبت شروع کردی، ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کا اشارہ قرآن کریم کی اس آیت کی طرف تھا کہ:
’’أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ یَّأْکُلَ لَحْمَ أَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ‘‘ 
’’کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ سو اس کو تو تم ناپسند کرتے ہو۔‘‘
یعنی غیبت کرنا مردہ بھائی کا گوشت کھانا ہے، لہٰذا جس طرح وہ تمہیں پسند نہیں، اسی طرح غیبت سے بھی اپنے آپ کو دور رکھو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی نصیحت کا حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ زبان اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، اس کا بے جا استعمال نہ کیا جائے۔ ہرانسان اپنی زبان کو قابو میں رکھے اور بلاضرورت، لایعنی کلام، فضول گفتگو، گپ شپ سے اپنے آپ کو بچائے۔ یہ نجات کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے اور فسادات، لڑائی اور جھگڑوں سے بچنے کے وسائل میں سے ایک اہم وسیلہ ہے۔
دوسری نصیحت: اپنے گھر میں رہنا:
سرکارِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری نصیحت یہ فرمائی کہ:
’’وَلْیَسَعْکَ بَیْتُکَ‘‘
تمہارے گھر میں تمہارے لئے گنجائش ہونی چاہئے. تمہارا گھر تمہاری کفایت کرے، یعنی بری مجلسوں اور برے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کی بجائے یکسوئی کے ساتھ اپنے گھر میں رہا کرو، اور اپنے گھر میں رہنے کو اپنے لیے غنیمت جانو، اس لیے کہ یکسوئی کے ساتھ گھر میں رہنا، بہت سارے فتنوں، فسادات اور برائیوں سے نجات پانے کا ذریعہ اور سبب ہے۔ جب انسان کا گھر سے باہر کوئی دینی یا دنیاوی کام نہ ہو، کوئی ضرورت اور حاجت نہ ہو تو اب بلاضرورت گھر سے باہر رہنا، بلاضرورت گھومتے پھرتے رہنا، یہ شریعت میں پسندیدہ عمل نہیں ہے، البتہ کسی کے جنازے میں شریک ہونا، عیادت کے لئے جانا،دینی محافل مجالس میں شریک ہونا، یہ چیزیں انسان کے لئے مفید اور باعث اجر وثواب ہیں، مطلقاً بلاکسی ضرورت اور حاجت کے گھومنا پھرنا اس کو اچھا نہیں سمجھا گیا۔ 
حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں، یہ اور اُن کے فرزند سائب ان افراد میں شامل ہیں جنہوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی، اور یہ مہاجرین میں سے پہلے صحابی ہیں جنہوں نے مدینہ منورہ میں سن ۲ ہجری میں وفات پائی تھی، اور ان کا یہ اعزاز ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نعش مبارک کو بوسہ دیا تھا۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چند سوالات کئے، ان سوالات میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ: اے اللہ کے رسول!
’’ائْذَنْ لَنَا فِی السِّیَاحَۃِ‘‘ 
یعنی ’’ہمیں سیر و سیاحت کی اجازت عنایت فرمائیے۔ گھومنے پھرنے کی اجازت عطا فرمائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا: 
’’إِنَّ سِیَاحَۃَ أُمَّتِی الْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔‘‘ 
یعنی ’’میری امت کے لئے سیر وسیاحت یہی ہے کہ: اللہ کے راستہ میں جہاد کیا جائے۔‘‘
دیکھئے! اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی منفعت کے سیر وسیاحت کرنے کی اجازت عنایت نہیں فرمائی، بلکہ اس سے  منع فرمایا، کیونکہ زمین پر گھومنا پھرنا اور دور دراز کا سفر اختیار کرنا جہاد فی سبیل اللہ میں مطلوب و محمود ہے۔ محض سیر و سیاحت کی خاطر خواہ مخواہ دنیا کے چکر کاٹنا، جیسا کہ بعض فقیر قسم کے لوگ کرتے ہیں، عقلمندی کی بات نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی اُخروی منفعت و بھلائی حاصل ہوتی ہے۔ بلاضرورت گھر سے باہر رہنے اور گھومنے پھرنے سے بہت سارے گناہوں میں مبتلا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے، خاص کر فتنے کے زمانے میں گھر میں رہناانسان کے لئے فتنوں اور پریشانیوں سے بچاؤ کی بہترین تدبیر ہے۔ فضول کی محافل اور مجلسیں لگانا اور ان میں دوسروں کی غیبت اور تبصروں میں مشغول ہونا اپنی زندگی کے قیمتی وقت کو ضائع کرنا ہے۔
 دوسری نصیحت میں ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ بری محافل، مجالس اور غلط دوستی، اور صحبت سے اپنے آپ کو دور رکھیں، باہر گھومنے پھرنے کی بہ نسبت اپنے گھر میں رہنا اسی میں عافیت ہے۔ بعض دوستیاں اور تعلقات انسان کو حق سے دور کردیتے ہیں اور انسان قیامت کے دن ایسے برے لوگوں کی دوستی پر افسوس اور ندامت کرے گا، مگر اس دن کی ندامت انسان کو نجات نہیں دلاسکے گی۔سورۂ فرقان میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 
’’وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یَا لَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلاً  یَا وَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلاً۔‘‘ (الفرقان: ۲۷،۲۸)
 ’’اور جس دن کاٹ کاٹ کھائے گا گناہ گار اپنے ہاتھوں کو، کہے گا: اے کاش! میں نے پکڑا ہوتا رسول کے ساتھ راستہ۔ ہائے افسوس! کاش! میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔‘‘
 اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نافرمانوں سے دوستی اور وابستگی نہیں رکھنی چاہئے اس لئے کہ اچھی صحبت سے انسان اچھا اور بری صحبت سے انسان برا بنتا ہے۔ اکثر لوگوں کی گمراہی کی وجہ غلط دوستوں کا انتخاب اور صحبتِ بد کا اختیار کرنا ہی ہے۔ اس لیے حدیث میں بھی صالحین کی صحبت کی تاکید اور بری صحبت سے اجتناب کا حکم دیاگیا ہے۔
تیسری نصیحت: اپنی خطاؤں اور گناہوں پر رونا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری نصیحت یہ فرمائی کہ:
’’وَابْکِ عَلٰی خَطِیْئَتِکَ‘‘
یعنی اپنی خطاؤں، اپنے گناہوں اور نافرمانیوں پر اللہ کے حضور شرمسار ہوکر گڑگڑاؤ، اشک بہایا کرو، رویا کرو۔
احساسِ ندامت اور خوفِ خدا میں بہنے والے آنسو اللہ تعالیٰ کو بڑے محبوب ہیں۔ مومن آدمی جتنا اشکِ ندامت گراتا ہے، اتناہی اللہ کے ہاں محبوب بنتا چلا جاتا ہے۔ تفسیر کبیر میں امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اور تفسیر روح المعانی میں علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث قدسی نقل کی ہے، یعنی اللہ رب العالمین کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ:
’’لَأَنِیْنُ الْمُذْنِبِیْنَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ زَجَلِ الْمُسَبِّحِیْنَ‘‘
کہ گناہگاروں کا رونا، احساسِ گناہ میں آنسو بہانا، اللہ کے سامنے عاجزی کرنا، یہ اللہ تعالیٰ کو تسبیح خوانوں کی آواز سے زیادہ پسندیدہ ہے، اس لئے ہمیں یہ نصیحت کی گئی ہے کہ اپنے پروردگار کے سامنے اپنی خطاؤں پر رویا کرو۔
کَھمَس بن حسن قیسی رحمۃ اللہ علیہ کا چالیس برس تک رونا:
حضرت کَھمَس بن حسن قیسی رحمۃ اللہ علیہ بصرہ میں ایک بڑے پایہ کے بزرگ گزرے ہیں، حدیث کی کتابوں میں ان کی سند سے کئی روایات بھی موجود ہیں، وہ مشہور روایت جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو شب قدر کی دعا سکھائی ہے: 
’’اللّٰہم إنک عفو کریم تحب العفو فاعف عنی.‘‘ 
یہ روایت ان ہی کی سند سے ترمذی شریف میں منقول ہے۔ ۱۴۹ ہجری میں ان کا انتقال ہوا ہے۔ انہوں نے اپنی والدہ کی بڑی خدمت کی ہے ۔ ان کی سوانح میں لکھا ہے کہ جب ٹھنڈا پانی پیتے تو یہ ایک نعمت بھی ان کے نزدیک اتنی بڑی قیمت رکھتی تھی کہ ٹھنڈا پانی پی کر اس کے بدلے میں، مصلی میں آنسو بہایا کرتے تھے، کہ: اے اللہ! آپ نے اپنے فضل سے ٹھنڈے پانی کی نعمت عطا کی۔
ان کے بارے میں کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک معمولی غلطی پر چالیس سال تک آنسو بہاتے رہے۔ ایک دن یہ بیٹھے ہوئے ایک دوسرے بزرگ ابوسلمہ رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے اپنے گناہوں کا شکوہ کرنے لگے، اور کہنے لگے: میں نے ایک ایسا گناہ کیا ہے جس پر چالیس سال سے رو رہا ہوں۔ ابوسلمہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات سنی تو حیران ہوئے اور پوچھا: ایسا کون سا گناہ سرزد ہوا ہے؟ کہمس رحمۃ اللہ علیہ کہنے لگے: ایک دن میرے بھائی مجھ سے ملنے آئے، میں نے ایک دینار کی مچھلی خریدی، چنانچہ میرے بھائی نے وہ مچھلی کھائی، میں نے اُٹھ کر اپنے پڑوسی کی دیوار سے مٹی کا ایک ٹکڑا اُٹھالیا، تاکہ وہ اس سے ہاتھ پونچھ لے، صاف کرلے۔ اس مٹی کے ٹکڑے کے اُٹھانے پر میں چالیس سال سے رو رہا ہوں، کیوں کہ وہ ٹکڑا میں نے اپنے پڑوسی کی اجازت اور اس کے علم میں لائے بغیر اُٹھالیا تھا۔ اللہ اکبر! کیسا احساس اور کیسا خدا کا خوف ان کے دلوں میں رچا بسا تھا، اور آخرت کا محاسبہ ہر وقت ان کی آنکھوں کے سامنے رہتا تھا، چڑھتے سورج کی طرح حساب کتاب اور پوچھ گچھ پر یقین واعتقاد تھا۔
ترمذی شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے، آپ صلی اللہ علیہ نے فرمایا: 
’’لاَ یَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَکٰی مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ۔‘‘ 
یعنی ’’اس آدمی کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی جو اللہ کے خوف سے روتا ہو۔‘‘
نیز ایک طویل روایت میں حضرت ابوہریرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’سَبْعَۃٌ یُظِلُّہُمْ اللّٰہُ فِی ظِلِّہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہٗ‘‘
کہ ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات آدمیوں کو اپنے سائے میں رکھے گا جس روز اللہ کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔‘‘ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے دامن رحمت میں جگہ دے گا اور انہیں آخرت کی سختیوں سے بچائے گا۔ قیامت کے روز جب کہ تمام لوگ پریشان و حیران ہوں گے تو یہ سات قسم کے لوگ عرش کے سائے میں رحمتِ الٰہی کی نعمت میں آرام وسکون سے ہوں گے۔ان سات آدمیوں میں ایک وہ آدمی بھی شامل ہے جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرتا ہے اور اللہ کے خوف سے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔
حضرت ثابت بنانی رحمۃ اللہ علیہ کا خوف خدا میں رونا:
حضرت ثابت بنانی رحمۃ اللہ علیہ تابعی ہیں، ائمہ حدیث میں سے ہیں، اللہ کے خوف اور خشیت سے بہت کثرت کے ساتھ رویا کرتے تھے، یہاں تک کہ ان کی آنکھیں دکھنے لگیں، طبیب نے کہاکہ ایک بات کاوعدہ کرلو، آنکھ اچھی ہوجائے گی، اور وہ بات یہ ہے کہ رویا نہ کرو۔ حضرت ثابت بنانی رحمۃ اللہ علیہ نے طبیب کی یہ بات سنی تو فرمایا: 
’’فَمَا خَیْرُہُمَا إِذَا لَمْ یَبْکِیَا۔‘‘ 
اس آنکھ میں کوئی خوبی ہی نہیں، اگر وہ روئے نہیں، وہ آنکھ ہی کیا جو اللہ کے خوف سے نہ روئے۔
حاصل یہ ہے کہ انسان اپنی خطاؤں پر رویا کرے، اور اگر رونا نہ آئے تو کم ازکم رونے کی شکل ہی بنالیا کرے، بتکلف رونے کی کوشش کیا کرے، اس سے دل کی سختی دور ہوتی ہے۔ آنکھوں کا خشک رہنا، جامد رہنا، آنکھوں سے اللہ کی یاد میں آنسوؤں کا نہ بہنا، یہ اچھی علامت نہیں ہے، ایک حدیث مبارکہ میں اس کو بدبختی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 
مفتی غلام مصطفی رفیق
https://saagartimes.blogspot.com/2022/10/blog-post_14.html


No comments:

Post a Comment