Wednesday, 22 June 2022

سورۃ النمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے قصہ پر ایک استنباطی نظر اور تین کا عدد

سورۃ النمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے قصہ پر ایک استنباطی نظر اور تین کا عدد
بقلم: مولانا فخرالاسلام المدنی
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وَلَقَدْ أٰتَیْْنَا دَاوٗدَ وَسُلَیْْمَانَ عِلْمًا وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَوَرِثَ سُلَیْْمَانُ دَاوٗدَ وَقَالَ یَا أَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْْرِ وَأُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْْئٍ إِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ وَحُشِرَ لِسُلَیْْمَانَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّیْْرِ فَہُمْ یُوْزَعُوْنَ حَتّٰی إِذَا أَتَوْا عَلٰی وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَۃٌ یَّا أَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسَاکِنَکُمْ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْْمَانُ وَجُنُوْدُہٗ وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ۔‘‘ (النمل: ۱۵-۱۸) 
إلٰی قولہٖ تعالٰی: ’’قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔‘‘ (النمل: ۴۴)
مذکورہ آیات دو رکوع پر مشتمل ہیں، ان میں غوروفکر کرنے کے بعد حیرت انگیز طور پر ثلاثیات کی شکل میں فوائد کا ایک بڑا ذخیرہ سامنے آگیا، جو نذرِقارئین ہے۔ 
ہم سب اس بات کو جانتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں طاق عدد کو ایک بڑی اہمیت حاصل ہے، خاص طور پر تین کے عدد کو، مثلاً: نماز میں تسبیحات یا طہارت کے مسائل میں، اسی طرح وتر کی بھی تین رکعتیں ہیں، نیز نماز کے بعد تین قسم کی تسبیحات، وغیرہ۔
 البتہ جس طرح بلاغت کے فنِ بدیع میں محسناتِ معنویہ اور محسناتِ لفظیہ ہوتے ہیں، اسی طرح ان فوائد میں کچھ کا تعلق لفظ سے ہے، اور کچھ کا تعلق معنی سے ہے، تاہم ہمارے لیے قرآن کے الفاظ بھی اتنا اہم ہیں جتنا معنی ہے۔ 
مذکورہ آیاتِ کریمہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا قصہ تین قسم کی مخلوقات کے ساتھ متعلق ہے:
۱:- چیونٹی        
۲:- پرندہ (ھد ھد)        
۳:- انسان (بلقیس)
آیت کریمہ میں تین طرح کے لشکر کا تذکرہ ہے:
۱:- جن        
۲:- انس       
 ۳:- طیر 
’’وَحُشِرَ لِسُلَیْْمَانَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّیْْرِ فَہُمْ یُوزَعُوْنَ ۔‘‘
نیز ’’جُنُوْد‘‘ کا لفظ بھی تین مرتبہ استعمال ہوا ہے:
۱:-’’وَحُشِرَ لِسُلَیْْمَانَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّیْْرِ فَہُمْ یُوزَعُوْنَ۔‘‘
۲:- ’’لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْْمَانُ وَجُنُوْدُہٗ وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ۔‘‘
۳:- ’’اِرْجِعْ إِلَیْْہِمْ فَلَنَأْتِیَنَّہُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَہُم بِہَا.‘‘
’’جُنْد‘‘ کا معنی فوج اور لشکر، جس سے بری، بحری اور فضائی تین قسم کی فوج کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے: ’’وَحُشِرَ لِسُلَیْْمَانَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّیْْرِ فَہُمْ یُوزَعُوْنَ ۔‘‘
۱:- ’’الطَّیْْرِ‘‘ فضائی قوت کی طرف اشارہ ہے: ’’ثُمَّ تَوَلَّ عَنْہُمْ فَانْظُرْ مَاذَا یَرْجِعُوْنَ‘‘ جو ایک ڈرون کی طرح جاسوسی کا تصور ہے۔
۲:- ’’الْإِنْسِ‘‘ سے مراد بری فوج ہے۔ 
۳:- اور ’’الْجِنِّ‘‘ سے بحری قوت مراد ہے، اس لیے کہ ’’وَالشَّیَاطِیْنَ کُلَّ بَنَّائٍ وَّغَوَّاصٌ‘‘ فرمایا، نیز ’’وَالشَّیَاطِیْنَ یَغُوْصُوْنَ لَہٗ وَیَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِکَ۔‘‘ عربی میں غواص آج کل آبدوز کو کہتے ہیں، جو بحری قوت کا اہم حصہ شمار ہوتا ہے۔ 
 مذکورہ تینوں مخلوقات میں سے ہر ایک کی عملی مثال و نمونہ بھی پیش کیا گیا:
۱:- ’’وَحُشِرَ لِسُلَیْْمَانَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ‘‘ (عفریت کا تذکرہ)
۲:- ’’وَالْإِنْسِ‘‘ (آصف بن برخیا کا قصہ)
۳ :- ’’وَالطَّیْْرِ‘‘ (ھدھد کا واقعہ)
حضرت سلیمان علیہ السلام کا تذکرہ تین مرتبہ تبعاً اور تین مرتبہ قصہ کے ضمن میں اصالۃً (یعنی بنیادی طور پر) ہوا ہے، کیونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام قصہ کا محور ومرکز ہیں، تو ان کا تذکرہ نسبۃً دوگنا ہوا ہے:
۱:- ابتدائے قصہ میں: ’’وَحُشِرَ لِسُلَیْْمَانَ‘‘
۲:- درمیان میں: ’’فَلَمَّا جَائَ سُلَیْْمَانَ‘‘
۳:- آخر میں: ’’وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْْمَانَ لِلّٰہِ‘‘
علم (مصدر) کا لفظ تین مرتبہ آیا ہے:
۱:- ’’وَلَقَدْ أٰتَیْْنَا دَاوٗدَ وَسُلَیْْمَانَ عِلْمًا‘‘
۲:- ’’قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتَابِ‘‘
۳:- ’’وَأُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہَا وَکُنَّا مُسْلِمِیْنَ‘‘
کتاب کا لفظ تین مرتبہ آیا ہے:
۱:-’’اِذْہَبْ بِّکِتَابِیْ ہٰذَا‘‘
۲:- ’’قَالَتْ یَا أَیُّہَا الْمَلَأُ إِنِّیْ أُلْقِیَ إِلَیَّ کِتَابٌ کَرِیْمٌ‘‘
۳:- ’’قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتَابِ‘‘
 ان آیاتِ کریمہ میں تین مرتبہ فضل کا لفظ آیا ہے:
۱:- ’’وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ ‘‘
۲:- ’’وَأُوتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْْئٍ إِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْفَضْلُ الْمُبِیْنُ‘‘
۳:- ’’ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ لِیَبْلُوَنِیْ أَ أَشْکُرُ أَمْ أَکْفُرُ وَمَنْ شَکَرَ فَإِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ رَبِّيْ غَنِيٌّ کَرِیْمٌ۔‘‘
واضح رہے کہ مذکورہ آخری آیت میں شکر کا کلمہ بھی تین مرتبہ مذکور ہے، جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ فضل کا تذکرہ تین مرتبہ آیا ہے، شا ید اسی کی مناسبت سے حضرت سلیمان علیہ السلام نے تین انعامات کی بناپر تین مرتبہ شکر کے کلمات ادا کیے:
۱:- ابتدا میں: ’’یَا أَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْْرِ وَأُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْْئٍ ۔‘‘
۲:- درمیان میں: ’’فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنْ قَوْلِہَا وَقَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰی وَالِدَيَّ ۔‘‘
۳:- آخر میں: ’’فَلَمَّا رأَٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ۔‘‘
واضح رہے کہ ’’الطَّیْْرِ‘‘ کا لفظ بھی ان آیات کریمہ میں تین مرتبہ استعمال ہوا ہے:
۱:- ’’وَحُشِرَ لِسُلَیْْمَانَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّیْْرِ فَہُمْ یُوْزَعُوْنَ ۔‘‘
۲:- ’’ یَا أَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْْرِ وَأُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْْئٍ ۔‘‘
۳:- ’’وَتَفَقَّدَ الطَّیْْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَی الْہُدْہُدَ‘‘
آیت میں نمل کا لفظ تین مرتبہ استعمال ہوا ہے:
۱:- ’’حَتّٰی إِذَا أَتَوْا عَلٰی وَادِ النَّمْلِ‘‘
۲ ،۳:- ’’قَالَتْ نَمْلَۃٌ یَّا أَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسَاکِنَکُمْ ‘‘ (وادی نملہ، ملکہ نملہ، رعیت)
چیونٹی کے قصے سے تین چیزوں کی ضرورت اور اہمیت ثابت ہوتی ہے۔
۱:- راڈار سسٹم کا تصور (تین کلومیٹر کے فاصلہ سے لشکر کی آمد کا چیونٹی کو پتہ لگ گیا) ۔
۲ :- ٹیلی گراف (برقی لہروں کا تصور) تین کلومیٹر کے فاصلہ سے آواز کا حضرت سلیمان علیہ السلام تک پہنچنا۔
۳:- ٹرانسلیشن کی اہمیت (حضرت سلیمان علیہ السلام کا چیونٹی کی بات کو سمجھنا): ’’عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْْر‘‘
چیونٹی نے تین کام کیے جو کسی بھی قیادت کے حوالہ سے اہم ہیں:
۱:- بروقت خطرہ کی اطلاع (خطرہ کا الارم): ’’یَّا أَیُّہَا النَّمْلُ‘‘
۲:- خطرات کی نشاندہی: ’’لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْْمَانُ وَجُنُوْدُہٗ‘‘
۳ :- حفاظتی تدابیر: ’’ادْخُلُوْا مَسَاکِنَکُمْ‘‘
اس موقع پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو شکر کے کلمات ادا کیے ہیں، وہ تین دعاؤں پر مشتمل ہیں:
۱:- شکر کی توفیق: ’’رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلٰی وَالِدَيَّ‘‘
۲:- عمل صالح کی توفیق: ’’وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاہُ‘‘
۳:- حسنِ خاتمہ: ’’وَأَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصَّالِحِیْنَ‘‘
واضح رہے کہ حسن خاتمہ سے متعلق قرآن مجید میں تین انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ آیا ہے:
۱:- حضرت ابراہیم علیہ السلام: ’’رَبِّ ہَبْ لِیْ حُکْمًا وَّ أَلْحِقْنِیْ بِا الصَّالِحِیْنَ‘‘
۲:- یوسف علیہ السلام: ’’تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّأَلْحِقْنِیْ بِالصَّالِحِیْنَ‘‘
۳:- حضرت سلیمان علیہ السلام: ’’وَأَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصَّالِحِیْنَ‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہدہد پرندے سے متعلق تین ہدایات دیں:
۱:- ’’لَأُعَذِّبَنَّہٗ ‘‘    
۲:- ’’أَوْ لَأَذْبَحَنَّہٗ ‘‘     
۳:- ’’أَوْ لَیَأْتِیَنِّیْ بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ‘‘
 ملازمین کے لیے حاضری کے نظام سے متعلق تین اُمور معلوم ہوتے ہیں:
۱:- ضرورت کے مطابق وقتاً فوقتاً حاضری: ’’وَتَفَقَّدَ الطَّیْْرَ‘‘
۲:- غیر حاضری پر سزا: ’’لَأُعَذِّبَنَّہٗ عَذَاباً شَدِیْداً‘‘
۳:- مناسب عذر پر سزا معطل: ’’أَوْ لَیَأْتِیَنِّیْ بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ‘‘
 ہد ہد نے واپسی پر علاقہ کا سیاسی، فوجی اور اقتصادی نقشہ تین باتوں میں پیش کیا:
۱:- ’’إِنِّیْ وَجَدْتُّ امْرَأَۃً تَمْلِکُہُمْ‘‘    
۲:- ’’وَأُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْْئٍ‘‘
۳:- ’’وَلَہَا عَرْشٌ عَظِیْمٌ‘‘
پھر مذہبی نقشہ بھی تین باتوں میں پیش کیا:
۱:- ’’یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ‘‘ (فسادِ عقیدہ)
۲:-’’وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْْطَانُ أَعْمَالَہُمْ فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ‘‘ (سبب فساد)
۳:- ’’فَہُمْ لَا یَہْتَدُوْنَ‘‘ (امکان ہدایت)
حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہدہد کے واقعہ سے بھی سلطنت کی تین اہم چیزوں کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے:
۱:- ڈاک کا نظام: ’’اِذْہَبْ بِّکِتَابِیْ ہٰذَا‘‘
۲:- خفیہ جاسوسی نظام: ’’ثُمَّ تَوَلَّ عَنْہُمْ فَانظُرْ مَاذَا یَرْجِعُوْنَ‘‘
۳:- بیرونی ممالک کے ساتھ تعلقات (سفارتی نظام)
انہی آیات میں سنی سنائی باتوں سے متعلق تین احکام:
۱:- سنی سنائی بات نہیں کرنی چاہیے: ’’وَجِئْتُکَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ یَّقِیْنٍ‘‘
۲:- سنی سنائی بات پر یقین بھی نہیں کرنا چاہیے: ’’سَنَنْظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ کُنْتَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ‘‘
۳:- سنی سنائی بات کو بالکل نظر انداز نہیں کرنا چاہیے: ’’اِذْہَبْ بِّکِتَابِیْ ہٰذَا‘‘
خط کے مندرجات تین ہیں:
۱:- مرسل منہ:’’إِنَّہٗ مِنْ سُلَیْْمَانَ‘‘
۲:- ابتداء خط: ’’وَإِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘
۳:- مضمون: ’’أَلَّا تَعْلُوْا عَلَيَّ وَأْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ‘‘
 بلقیس کے قصہ سے تین باتیں واضح ہوتی ہیں:
۱:- قومی اسمبلی یعنی شورائی نظام: ’’مَا کُنْتُ قَاطِعَۃً أَمْرًا حَتّٰی تَشْہَدُوْنِ‘‘
۲ :- سیاست بلقیس: ’’وَإِنِّیْ مُرْسِلَۃٌ إِلَیْْہِمْ بِہَدِیَّۃٍ فَنَاظِرَۃٌ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ‘‘
۳:- مغربی امداد کی حقیقت: ’’أَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ‘‘
بلقیس کا خطاب قرآن کریم میں تین جگہ ’’قَالَتْ‘‘ کے صیغہ کے ساتھ مذکور ہے:
۱:- ’’قَالَتْ یَا أَیُّہَا الْمَلَأُ إِنِّيْ أُلْقِيَ إِلَيَّ کِتَابٌ کَرِیْمٌ‘‘
۲:- ’’قَالَتْ یَا أَیُّہَا الْمَلَأُ أَفْتُوْنِيْ فِیْ أَمْرِيْ مَا کُنْتُ قَاطِعَۃً أَمْرًا حَتّٰی تَشْہَدُوْنِ‘‘
۳:- ’’قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوْکَ إِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً أَفْسَدُوْہَا‘‘
بلقیس ایک عقلمند خاتون تھی، جس کے تین نتائج نکلے:
۱:- عقلمندی قیادت کا سبب ہے: ’’إِنِّیْ وَجَدتُّ امْرَأَۃً تَمْلِکُہُمْ‘‘
۲:- عقلمندی سیاست کا سبب ہے: ’’وَإِنِّیْ مُرْسِلَۃٌ إِلَیْْہِمْ بِہَدِیَّۃٍ فَنَاظِرَۃٌ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ‘‘
۳:-عقلمندی ہدایت کا سبب ہے: ’’قَالَتْ رَبِّ إِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام نے تین جملوں میں اپنا رد عمل پیش کیا:
۱:- ’’أَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ‘‘
۲:- ’’فَمَا أٰتَانِيَ اللّٰہُ خَیْْرٌ مِّمَّا أٰتَاکُمْ‘‘
۳:- ’’بَلْ أَنْتُمْ بِہَدِیَّتِکُمْ تَفْرَحُوْنَ‘‘
مغربی سیاست سے متعلق تین باتیں:
۱:- مغربی امداد کی حقیقت :ہمارا امتحان: ’’وَإِنِّيْ مُرْسِلَۃٌ إِلَیْْہِمْ بِہَدِیَّۃٍ فَنَاظِرَۃٌ بِمَ یَرْجِعُ الْمُرْسَلُوْنَ‘‘
۲:- مغربی امدا د کا حق: فوری مسترد اور اپنے وسائل پر انحصار: ’’أَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ‘فَمَا أٰتَانِيَ اللّٰہُ خَیْْرٌ مِّمَّا أٰتَاکُمْ‘‘
۳:- مغربی امداد کا متبادل: (روحانی قوت کی قدر وحفاظت جس کی بنیاد پر حضرت سلیمان علیہ السلام کو بلقیس پر ترجیح حاصل تھی، اور روحانیت کی حفاظت میں مدارس بنیادی طور پر سر فہرست ہیں) ’’قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتَابِ أَنَا أٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ أَنْ یَّرْتَدَّ إِلَیْْکَ طَرْفُکَ‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام نے قوم سبا کے متعلق دھمکی میں تین چیزوں کا ذکر کیا:
۱:- ’’ارْجِعْ إِلَیْْہِمْ‘‘ (ہدیہ کی واپسی)
۲:- ’’فَلَنَأْتِیَنَّہُمْ بِجُنُودٍ لَّا قِبَلَ لَہُم بِہَا‘‘ (فوجی کارروائی کی دھمکی)
۳:- ’’وَلَنُخْرِجَنَّہُم مِّنْہَا أَذِلَّۃً وَہُمْ صَاغِرُوْنَ‘‘ (کارروائی کا مقصد یا نتیجہ)
 ایک ملازم یا مزدور میں تین خصوصیات ہونی چاہئیں:
۱:- کام میں تاخیر نہ کرے: ’’آتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ أَنْ تَقُوْمَ‘‘
۲:- قوی ہو: ’’وَإِنِّيْ عَلَیْْہِ لَقَوِیٌّ أَمِیْنٌ‘‘
۳:- امانت دار ہو: ’’وَإِنِّيْ عَلَیْْہِ لَقَوِيٌّ أَمِیْنٌ‘‘
حضرت سلیمان علیہ السلام نے عرشِ بلقیس کا تذکرہ تین مرتبہ کیا ہے:
۱:- ’’أَیُّکُمْ یَأْتِیْنِيْ بِعَرْشِہَا‘‘
۲:- ’’قَالَ نَکِّرُوا لَہَا عَرْشَہَا‘‘
۳:-’’أَہٰکَذَا عَرْشُکَ‘‘
اس واقعہ میں مذکورہ تین قوتوں کے استعمال کی نوبت نہیں آئی :
۱:- ’’قَالُوْا نَحْنُ أُوْلُوْا قُوَّۃٍ وَأُولُوْا بَأْسٍ شَدِیْدٍ‘‘
۲:- ’’قَالَ عِفْریْتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا أٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ أَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِکَ‘‘
۳:- ’’ارْجِعْ إِلَیْْہِمْ فَلَنَأْتِیَنَّہُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَہُم بِہَا‘‘
سب سے پہلے بیرونِ ممالک کا تبلیغی سفر ھدھد نے کیا، جس کے کل تین مراحل ہیں:
۱:- تقاضائے دعوت و تبلیغ: ’’وَجَدْتُّہَا وَقَوْمَہَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ‘‘
۲:- دعوت و تبلیغ: ’’إِنَّہٗ مِنْ سُلَیْْمَانَ وَإِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘
۳:- نتیجۂ دعوت: ’’قَالَتْ رَبِّ إِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ یوں اللہ تعالیٰ نے ایک پرندہ کو ایک پوری قوم کی ہدایت کا سبب بنادیا۔
عام طور پر معاشرہ میں تین چیزوں کو کمزور سمجھا جاتا ہے، اس واقعہ میں اُن کا تذکرہ کرکے ان کی اہمیت کو بتایا گیا:
۱:- چیونٹی (نملۃ)        
۲:- پرندہ (ھدھد)        
۳:- عورت (ملکہ سبا)
یَا أَیُّہَا الْمَلَأُ  کا جملہ بھی تین مرتبہ استعمال ہوا ہے، دو مرتبہ بلقیس اور ایک مرتبہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے استعمال کیا:
۱:- ’’یَا أَیُّہَا الْمَلَأُ إِنِّیْ أُلْقِيَ إِلَيَّ کِتَابٌ کَرِیْمٌ‘‘
۲:- ’’یَا أَیُّہَا الْمَلَأُ أَفْتُوْنِیْ فِیْ أَمْرِیْ‘‘
۳:- ’’یَا أَیُّہَا الْمَلَأُ أَیُّکُمْ یَأْتِیْنِیْ بِعَرْشِہَا‘‘ 
’’مُسْلِمِیْنَ‘‘ کا کلمہ تین مرتبہ آیا ہے :
۱:- ’’أَلَّا تَعْلُوْا عَلَيَّ وَأْتُوْنِيْ مُسْلِمِیْنَ‘‘
۲:- ’’قَبْلَ أَنْ یَأْتُونِیْ مُسْلِمِیْنَ‘‘
۳:-’’وَأُوْتِیْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہَا وَکُنَّا مُسْلِمِیْنَ‘‘
پورے قصہ کاخلاصہ تین باتوں میں نکلتا ہے:
۱:- خلافتِ سلیمان 
۲:- قیادتِ نملہ    
۳:- سیاستِ بلقیس
مجموعی طور پر آیاتِ کریمہ میں دیگر فوائد ملاحظہ فرمائیں:
بلقیس کے عرش کے مقابلہ میں ھدھد نے اللہ کے عرش کا ذکر کیا: ’’اَللّٰہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ‘‘ اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں ’’وَأُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْْئٍ ‘‘ آیا ہے۔ اس کے مقابلہ میں بلقیس کے لیے ’’وَأُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْْئٍ‘‘ کا ذکر ہے۔ اور دونوں میں تقابل کیا گیا تو نتیجہ : ’’فَمَا أٰتَانِيَ اللّٰہُ خَیْْرٌ مِّمَّا أٰتَاکُمْ‘‘
اسباب کا بھرپور استعمال توکل کے منافی نہیں: ’’اِذْہَبْ بِّکِتَابِیْ ہٰذَا، أَیُّکُمْ یَأْتِیْنِیْ بِعَرْشِہَا‘‘
خلقِ خدا میں کسی چیز کو حقیر نہ سمجھیں (چیونٹی اور پرندہ کا کردار) 
کثرتِ شکر‘ کثرتِ نعمت کا سبب ہے: ’’ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْ‘‘
روحانی قوت مادی قوت پر حاوی ہے: ’’قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتَابِ‘‘
الہدایا قد تکون وراء ہا خبایا (ہدیہ قبول کرنے میں احتیاط): ’’وَإِنِّیْ مُرْسِلَۃٌ إِلَیْْہِمْ بِہَدِیَّۃٍ‘‘
حاملینِ علومِ نبوت کو احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہیے: ’’فَمَا أٰتَانِيَ اللّٰہُ خَیْْرٌ مِّمَّا أٰتَاکُمْ‘‘
جب بڑا کردار ادا کرنے کا موقع مل جائے تو عاجزی کا اظہار کرنا چاہیے: ’’ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْ‘‘
عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے: ’’مَالِيَ لَا أَرَی الْہُدْہُد‘‘، ’’أَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہ‘‘
عقیدۂ توحید کی اہمیت: ’’إِنَّہٗ مِنْ سُلَیْْمَانَ وَإِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘
بعض معاملات میں جلدی کرنا بہتر ہے: ’’أَیُّکُمْ یَأْتِیْنِیْ بِعَرْشِہَا قَبْلَ أَن یَّأْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ‘‘
مخالف کو کمزور نہ سمجھیں: ’’قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوْکَ إِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً أَفْسَدُوْہَا‘‘
خط کے مضمون میں اختصار سے کام لینا چاہیے: ’’أَلَّا تَعْلُوْا عَلَيَّ وَأْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ‘‘
بڑوں کو عزت کی فکر ہوتی ہے: ’’وَجَعَلُوْا أَعِزَّۃَ أَہْلِہَا أَذِلَّۃً‘‘
ہر عورت کم عقل نہیں ہوتی، جیسا کہ بلقیس کے اس واقعے سے اس کی سمجھداری کا پتہ چلتا ہے۔
وقتاً فوقتاً دشمن کے خلاف زبانی دھمکی کارگر ہوتی ہے: ’’فَلَنَأْتِیَنَّہُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَہُمْ بِہَا وَلَنُخْرِجَنَّہُمْ مِّنْہَا أَذِلَّۃً وَّہُمْ صَاغِرُوْنَ‘‘
دین کو عقل پر مقدم رکھنا چاہیے، جیسا کہ چیونٹی کا قصہ اور ہدہد پرندے کا جو بظاہر ہماری سمجھ میں نہیں آتا، مگر ہمارا ایمان ہے کہ یہ سچ ہے۔
علم‘ فضیلت کا سبب ہے: ’’وَلَقَدْ أٰتَیْْنَا دَاوٗدَ وَسُلَیْْمَانَ عِلْمًا وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘
’’إِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ‘‘ (جو ذات چیونٹی سے غافل نہیں، وہ ہم سے کیوں غافل ہوگی)
ملکۂ سبا اور ملکۂ نملہ میں ایک مناسبت: دونوں نے اپنی اپنی قوم کو خطرات سے بچانے کی کوشش کی۔
ہم چیونٹیوں کے بارے میں ’’لَا یَشْعُرُوْنَ‘‘ کی رائے رکھتے ہیں، جب کہ وہ ہمارے بارے میں کہتی ہیں: ’’وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ‘‘
نعمتوں کا برملا اظہار کرنا چاہیے: ’’یَا أَیُّہَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْْرِ‘‘
شکر توفیق کے بغیر نہیں ہوتا: ’’رَبِّ أَوْزِعْنِیْ أَنْ أَشْکُرَ نِعْمَتَکَ‘‘
ترتیب زمانی: پہلے حضرت داؤد علیہ السلام کا تذکرہ ہوا جو کہ باپ ہیں اور پھر حضرت سلیمان علیہ السلام کا تذکرہ ہوا جو اُن کے بیٹے ہیں، اسی طرح پہلے جن اور پھر انسان کا تذکرہ ہوا۔
واضح رہے کہ پورے قرآن کریم میں جہاں کہیں جن و انس کا تذکرہ ایک ساتھ ہوا، غالباً وہاں جن کو ان کی پیدائش کی وجہ سے مقد م کیا گیا ہے۔
توبہ سے پہلے گناہ کا اعتراف ہونا چاہیے: ’’رَبِّ إِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘
حکمرانوں کو دعوتی اور اصلاحی خط لکھنا ایک سنت عمل ہے: ’’اِذْہَبْ بِّکِتَابِیْ ہٰذَا‘‘
پہلی آیت میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا قول مذکورہے: ’’الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا‘‘ اور آخری آیت میں بلقیس کا قول: ’’وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ گویاکہ ہمارے مضمون کی ابتدا ’’الْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ اور انتہا ’’رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ پر ہے۔ اس فائدے کو آخر میں رکھنے کا مقصد بھی یہی ہے: وأٰخر دعوانا أن الحمد للّٰہ رب العالمین (S_A_Sagar#)
https://saagartimes.blogspot.com/2022/06/blog-post_22.html


 

No comments:

Post a Comment