نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا اپنے کسی مرحوم کی طرف سے قربانی کرنا؟
جس صاحب استطاعت بندہ کے پاس گنجائش ہو وہ اپنے مرحوم بزرگوں کی طرف سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرے، یہ عمل بہت ہی مبارک اور موجب اجر و ثواب ہے، ان سب کو اس کا ثواب اِن شآءاللہ پہنچے گا ۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دو بھیڑ ذبح فرمائے ہیں، ایک اپنی طرف سے اور ایک اپنی ان تمام امتیوں کی طرف سے جہنوں نے توحید کا اقرار کیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دین پہنچا دینے کی گواہی دی۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ضَحَّى اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوأَيْنِ قَالَ فَيَذْبَحُ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ مِمَّنْ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ وَيَذْبَحُ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ (مسند أحمد: 25315) و(سنن ابن ماجہ: 3122)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانی اتنی پسند تھی کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایسا کرنے کی باضابطہ وصیت: یعنی یعنی تاکیدی حکم فرمایا؛ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بلا ناغہ دو بھیڑ ذبح فرماتے تھے، ایک اپنی طرف سے اور ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے۔ وہ فرماتے ہیں کہ پھر میں نے کبھی ناغہ نہ کیا۔
عَنْ حَنَشٍ قَالَ رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ مَا هَذَا فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ (سنن ابي داؤد: 2790، بَاب الْأُضْحِيَّةِ عَنْ الْمَيِّت)۔
عَنْ حَنَشٍ عَنْ عَلِيٍّ أَنَّهُ كَانَ يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ أَحَدُهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْآخَرُ عَنْ نَفْسِهِ فَقِيلَ لَهُ فَقَالَ أَمَرَنِي بِهِ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا أَدَعُهُ أَبَدًا قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ شَرِيكٍ وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُضَحَّى عَنْ الْمَيِّتِ وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُضَحَّى عَنْهُ وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُتَصَدَّقَ عَنْهُ وَلَا يُضَحَّى عَنْهُ وَإِنْ ضَحَّى فَلَا يَأْكُلُ [ص: 72] مِنْهَا شَيْئًا وَيَتَصَدَّقُ بِهَا كُلِّهَا قَالَ مُحَمَّدٌ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ شَرِيكٍ قُلْتُ لَهُ أَبُو الْحَسْنَاءِ مَا اسْمُهُ فَلَمْ يَعْرِفْهُ قَالَ مُسْلِمٌ اسْمُهُ الْحَسَنُ (سنن الترمذي: 1495، بَاب مَا جَاءَ فِي الْأُضْحِيَّةِ عَنْ الْمَيِّتِ ، مسند احمد 152/2)
یہ تمام احادیث اس باب میں صریح ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا اپنے کسی مرحوم شخص کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے اور ان کے نام سے قربانی کرنے سے انہیں ثواب پہنچے گا. امام ابوداؤد و ترمذی وغیرہما نے باضابطہ میت کی طرف سے قربانی کئے جانے کا باب قائم فرمایا یے اور اس کے تحت انہی احادیث سے استدلال فرمایا ہے. ائمہ متبوعین میں حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ کا یہی مذہب ہے۔ شافعیہ کے یہاں کراہت کے ساتھ میت کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت کے راوی شریک اور ابوالحسناء کے بارے میں بعض ائمہ جرح وتعدیل نے جو کلام کیا ہے اس سے کچھ لوگ، سادہ لوحوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرنا ضعیف روایت سے ثابت ہے؛ لہذا وہ ناقابل اعتبار ہے. اس سلسلہ میں یہ حضرات یہ کہتے ہیں کہ علامہ ابن حجر نے ابوالحسناء کو مجہول، اور ذہبی نے غیرمعروف کہا ہے؛ لہذا یہ حدیث ضعیف ہوگئی ۔الخ ..... تو اس کی حقیقیت یہ ہے کہ علامہ دولابی "الکنی" 151/1 میں فرماتے ہیں:
حدثنا العباس بن محمد عن یحی بن معین قال: ابوالحسناء: روی عنه شریك و الحسن بن صالح، كوفي.
فن اسماء الرجال سے اشتغال وآگاہی رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ یحییٰ بن معین اس فن کے امام ہی نہیں؛ بلکہ امام الائمہ سمجھے جاتے ہیں، ان کے عہد میں اس فن کے متعدد ائمہ تھے، مثلاً امام احمد بن حنبل، ابن مدینی، سعید القطان، ابن مہدی وغیرہم؛ مگر ابن معین کو ان سب بزرگوں میں ایک خاص امتیاز حاصل تھا۔ راوی کی عقل وفہم، خداترسی، قوت فہم، حافظہ، مبلغ علم، قابل اعتماد ہونے یا نہ ہونے کی جو تفصیلی خداداد صلاحیت ابن معین کو حاصل تھی وہ انہیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتی تھی۔ فن اسماء الرجال کے اتنے بڑے امام یحی ابن معین نے ابوالحسناء پہ کوئی جرح نہیں فرمائی. اتنے بڑے امام الجرح والتعدیل کا سکوت فرمانا اورجرح نہ کرنا بجائے خود دلیل ہے کہ ابو الحسناء معروف اور ثقہ راوی ہیں. ابن معین کی تعدیل کے بعد اب ذھبی کا اس راوی کے بارے میں "لایُعرَف" کہنا غیرمقبول ہے۔ بھلا جس راوی سے دو دو ثقہ راوی (شریک اور حسن بن صالح) روایت کریں کیا وہ مجہول رہ سکتا ہے؟ لہذا ابن حجر کا انہیں مجہول کہنا بھی ناقابل احتجاج ہے۔ ابن معین کی اس تعدیل کے بعد علامہ ہیتمی کا مجمع الزوائد میں "فیه ابو الحسناء ولا یعرف، روی عنه غیر شریک" ۔(23/4) کہنے کی اصلیت بھی واضح ہوگئی. مجمع الزوائد میں ہے:
أمَرَني رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم أنْ أُضَحِّيَ عنه بِكَبْشَيْنِ فَأَنَا أُحِبُّ أنْ أَفْعَلَهُ ، وقال المحَارِبِيُّ في حديثِهِ ضَحَّى عنه بكبشينِ واحدٍ عنِ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم والآخرِ عنه فقيل له فقال إنه أمَرَني فلَا أدَعُهُ أَبَدًا (مجمع الزوائد: 26-4 فيه أبو الحسنا ولا يعرف روي عنه غير شريك)۔
لیکن اوپر کی سطروں میں ابن معین کے حوالے سے ثابت کردیا گیا کہ ابوالحسناء سے شریک کے علاوہ حسن بن صالح نے بھی روایت کی ہے اور وہ دونوں ثقہ ہیں.
امام ابوداؤد نے اس روایت پہ سکوت فرمایا ہے. حدیث کے علل مخفیہ کے اتنے بڑے امام جس روایت پہ سکوت فرمائیں وہ قابل حجت ہوتی ہے:
رأيت عليا يضحي بكبشين فقلت له ما هذا فقال إن رسول اللهِ صلى الله عليه وسلم أوصاني أن أضحي عنه فأنا أضحي عنه، عن علي بن أبي طالب، سنن أبي داؤد: 2790، سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]
حافظ عسقلانی نے بھی تخریج مشکوة میں اسے حسن کہا ہے:
إنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أوصاني أن أضحِّيَ عنهُ فأنا أضحِّي عنهُ، عن علي بن أبي طالب، تخريج مشكاة المصابيح: 2/129 [حسن كما قال في المقدمة]
مسند احمد میں یہی روایت صحیح سند کے ساتھ آئی ہے:
أمرَني رَسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ أَن أُضحِّيَ عنهُ، فأَنا أضحِّي عنهُ أبدًا. (عن علي بن أبي طالب، أحمد شاكر - مسند أحمد: 2/152، إسناده صحيح)
امام حاکم نے بھی صحیح سند کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ والی روایت نقل فرمائی ہے. حاکم کی تصحیح کے بعد بھی اب کچھ باقی رہ جاتا ہے کیا؟ سیدہ عائشہ، حضرت ابوہریرہ، جابر اور ابو رافع رضی اللہ عنہم اجمعین کی روایت سے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت کی تائید ہوتی ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ضَحَّى اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوأَيْنِ قَالَ فَيَذْبَحُ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ مِمَّنْ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ وَيَذْبَحُ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ (مسند أحمد: 25315)
پھر سوچنے کی بات ہے کہ جب میت کی طرف سے حج، صدقہ اور خیرات جیسی عبادات انجام دی جاسکتی ہیں تو قربانی کیوں نہیں؟ حدیث کے لفظ "امرنی" غور طلب ہی نہیں، بلکہ اس بابت بمنزلہ نص صریح کے ہے کہ "میت کی طرف سے قربانی جائز ہے۔" عدم جواز کی سوائے تاویلات کے کوئی صریح دلیل نہیں۔ علامہ شمس الحق عظیم آبادی شرح میں لکھتے ہیں:
قال في غنية الألمعي: قول بعض أهل العلم الذي رخص في الأضحية عن الأموات مطابق للأدلة، وقول من منعها ليس فيه حجة فلا يقبل كلامه إلا بدليل أقوى منه ولا دليل عليه.
والثابت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يضحي عن أمته ممن شهد له بالتوحيد وشهد له بالبلاغ وعن نفسه وأهل بيته، ولا يخفى أن أمته صلى الله عليه وسلم ممن شهد له بالتوحيد وشهد له بالبلاغ كان كثير منهم موجودا زمن النبي صلى الله عليه وسلم ، وكثير منهم توفوا في عهده صلى الله عليه وسلم فالأموات والأحياء كلهم من أمته صلى الله عليه وسلم دخلوا في أضحية النبي صلى الله عليه وسلم.
والكبش الواحد كما كان للأحياء من أمته كذلك للأموات من أمته صلى الله عليه وسلم بلا تفرقة .
وهذا الحديث أخرجه الأئمة من حديث جماعات من الصحابة عائشة وجابر وأبي طلحة وأنس وأبي هريرة وأبي رافع وحذيفة عند مسلم والدارمي وأبي داود وابن ماجه وأحمد والحاكم وغيرهم.
ولم ينقل عن النبي صلى الله عليه وسلم أن الأضحية التي ضحى بهما رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نفسه وأهل بيته وعن أمته الأحياء والأموات تصدق بجميعها أو تصدق بجزء معين بقدر حصة الأموات بل قال أبو رافع " إن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، كان إذا ضحى اشترى كبشين سمينين أقرنين أملحين ، فإذا صلى وخطب الناس ، أتى بأحدهما وهو قائم في مصلاه فذبحه بنفسه بالمدية ثم يقول : اللهم هذا عن أمتي جميعا من شهد لك بالتوحيد وشهد لي بالبلاغ ، ثم يؤتى بالآخر فيذبحه بنفسه ويقول هذا عن محمد وآل محمد فيطعمهما جميعا المساكين ويأكل هو وأهله منهما ، فمكثنا سنين ليس الرجل من بني هاشم يضحي قد كفاه الله المؤنة برسول الله صلى الله عليه وسلم والغرم رواه أحمد وكان دأبه صلى الله عليه وسلم دائما الأكل بنفسه وبأهله من لحوم الأضحية وتصدقها للمساكين وأمر أمته بذلك ولم يحفظ عنه خلافه).
خلاصہ کلام یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی تمام امتی کی طرف سے قربانی کرنا جس میں آپ کی وفات یافتہ متعدد ازواج مطہرات کے علاوہ متعدد صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) بھی تھے۔ اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس عمل کی وصیت کرنا بتاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امتی کی طرف سے قربانی کرنا کتنا محبوب عمل ہے؟ ۔۔۔۔ اتنی کھلے اور بین ثبوتوں کے بعد اب کسی کا یہ کہنا کہ: "کیا حضور نے کبھی اپنی وفات یافتہ ازواج کی طرف سے قربانی فرمائی ہے؟؟؟" دریدہ دہنی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟؟؟؟ سند حدیث کے تعلق سے جو شبہات کے گرد اڑائے گئے تھے وہ کافور ہوگئے ۔۔۔۔اب ثابت یہ ہوا کہ صاحب استطاعت احباب ہرسال اپنی طرف سے بھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی، اہل بیت رسول کی طرف سے بھی مستقل جانور یا کم ازکم ساتویں حصے میں شریک ہوکے ضرور قربانی کریں. یہ بہت بڑے اجر وثواب کا باعث ہے۔ یہاں مسئلہ بھی ضرور ملحوظ رہے کہ اگر میت نے اپنی طرف سے قربانی کی وصیت کررکھی ہو اور اس کے لئے ثلث مال چھوڑ گیا ہو تو میت کے ثلث مال سے کی جانے والی قربانی کا مکمل گوشت واجب التصدق ہے۔ اگر وصیت تو کی ہو لیکن مال نہ چھوڑا ہو یا رشتہ دار اپنے نام سے قربانی کرکے صرف ثواب میت کو پہنچانا چاہے تو آخر کی ان دونوں صورتوں میں گوشت خود بھی کھاسکتا ہے. عام گوشتوں کی طرح اس کا حکم ہوگا۔ اس ضمن میں یاد رکھے جانے کے قابل یہ بات بھی ہے کہ اپنے نام سے قربانی کرکے متعدد اموات کو صرف ثواب میں شریک کیا جاسکتا یے لیکن میت کی طرف سے ان کے نام سے مستقلاً قربانی کرنا چاہیں تو ایک میت کی طرف سےایک چھوٹا جانور یا بڑے جانور میں ساتواں حصہ ضروری ہے. چھوٹے جانور یا ساتویں حصے میں قربانی کی نیت سے ایک سے زائد ناموں کی گنجائش نہیں ہے. خواہ ایک فیملی کے متعدد لوگ ہوں یا الگ الگ فیملی کے۔ ادائیِ سنت کے لئے ایک سے زیادہ کی شرکت جائز نہیں ہے. ہاں ثواب میں شرکت کے لئے تعدد کی گنجائش ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی طرف سے کی جانے والی قربانی اسی قبیل سے تھی۔
عَنْ عَائِشَةَ وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُضَحِّيَ اشْتَرَى كَبْشَيْنِ عَظِيمَيْنِ سَمِينَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مَوْجُوءَيْنِ فَذَبَحَ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ لِمَنْ شَهِدَ لِلَّهِ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ وَذَبَحَ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَعَنْ آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (سنن إبن ماجة 3122)
قوله: (موجوءين) تثنية موجوء اسم مفعول من وجأ مهموز اللام وروي بالإثبات للهمزة وقلبها ياء ، ثم قلب الواو ياء وإدغامها فيها كرمي، أي: منزوعتين قد نزع عرق الأنثيين منهما وذلك أسمن لهما (عن محمد وآل محمد) استدل به من يقول الشاة الواحدة تكفي لأهل البيت في أداء السنة ومن لا يقول به يحمل الحديث على الاشتراك في الثواب كيف وقد ضحى عن تمام الأمة بالشاة الواحدة وهي لا تكفي عن أهل البيوت المتعددة بالاتفاق، وفي الزوائد: في إسناده عبدالله بن محمد مختلف فيه. (حاشية السندي على إبن ماجة)
حضرات مالکیہ کا رجحان یہ ہے کہ ایک چھوٹے جانور میں ایک خانوادہ کے متعدد لوگوں کی شرکت ہوسکتی ہے جبکہ مختلف گھرانے کے لوگ ان کے یہاں بھی ایک چھوٹے جانور میں شریک نہیں ہوسکتے۔ ائمہ ثلاثہ کے یہاں کسی طرح سے بھی تعدد جائز نہیں ۔جواز کے قائلین یہ حدیث پیش تو فرمادیتے ہیں! لیکن انہیں اس پہ غور کرنے کی یا تو فرصت نہیں ملتی یا شاید غور وتدبر کی صلاحیت سے بہرہ ور نہیں! کہ حضور نے اپنی تمام کلمہ گو امتی کی طرف سے ایک دنبہ ذبح فرمایا. آیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ساری امت ایک خاندان سے ہیں یا مختلف خاندان سے؟؟؟ مختلف خانوادے کے کے متعدد لوگوں کے لئے ایک بھیڑ تو آپ کے یہاں یہاں بھی جائز نہیں؛ تو پھر یہاں ایسا کیوں ہوا؟؟؟ اصل بات یہی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ قربانی ایصال ثواب کے لئے تھی نہ کہ ادائی سنت کے لئے! اور ایصال ثواب کے لئے ایک جانور میں متعدد لوگوں کی شرکت ہمارے یہاں بھی جائز ہے جیساکہ اوپر مذکور ہوا.
واللہ اعلم بالصواب
پیر 20 ذی قعدہ 1443 ہجری، 20 جون 2022 عیسوی
https://saagartimes.blogspot.com/2022/06/blog-post_21.html (S_A_Sagar#)
No comments:
Post a Comment