جی ایس ٹی میں سودی رقم صرف کرنا؟
جو شخص بھی دوسروں کا مال بلا عوض اس کی مرضی واجازت کے بغیر ناحق لے لے، جیسے چوری، غصب، دھوکہ دہی، رشوت، بینک انٹرسٹ وغیرہ کے ذریعے حاصل شدہ مال، تو اس مال کو اس کے مالک تک جیسے بھی ممکن ہو پہنچانا ضروری ہے، مالک تک پہنچائے بغیر وہ بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔ جس نام وعنوان سے بھی ممکن ہو مالک کو پہنچائے. مالک نہ رہے تو اس کے ورثاء کو دے ،یہ بھی ممکن نہ ہو تو اب مال حرام کے وبال سے جان چھڑانے کی نیت سے مستحقین زکات پہ صدقہ کردے۔ امام ابن قیم جوزیہ لکھتے ہیں:
"فَإِنْ كَانَ الْمَقْبُوضُ قَدْ أُخِذَ بِغَيْرِ رِضَى صَاحِبِهِ ، وَلَا اسْتَوْفَى عِوَضَهُ : رَدَّهُ عَلَيْهِ ، فَإِنْ تَعَذَّرَ رَدُّهُ عَلَيْهِ : قَضَى بِهِ دَيْنًا يَعْلَمُهُ عَلَيْهِ ، فَإِنْ تَعَذَّرَ ذَلِكَ : رَدَّهُ إِلَى وَرَثَتِه ِ، فَإِنْ تَعَذَّرَ ذَلِكَ: تَصَدَّقَ بِهِ عَنْهُ. فَإِنِ اخْتَارَ صَاحِبُ الْحَقِّ ثَوَابَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ : كَانَ لَهُ ، وَإِنْ أَبَى إِلَّا أَنْ يَأْخُذَ مِنْ حَسَنَاتِ الْقَابِضِ: اسْتَوْفَى مِنْهُ نَظِيرَ مَالِهِ ، وَكَانَ ثَوَابُ الصَّدَقَةِ لِلْمُتَصَدِّقِ بِهَا ، كَمَا ثَبَتَ عَنِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ"انتهى من "زاد المعاد" (5/690).
مال کی ذات میں کوئی قبح نہیں ہوتا ہے۔ مال میں خرابی خارجی چیز کی وجہ سے آتی ہے. سودی بنک میں حصول سود کے لئے ہی رقم رکھنا جائز نہیں ہے۔مال کے تحفظ کی مجبوری سے بینک میں رقم رکھنے کی گنجائش ہے، سیونگ اکاؤنٹ میں بینک کی طرف سے جو کچھ بھی انٹرسٹ ملتا ہے اس رقم کی ذات میں کوئی خرابی نہیں. اگر اسے نہ لیا جائے اور بینک میں ہی چھوڑ دیا جائے تو سودی ادارے کو سودی کاروبار میں ممد ومعاون بننا اور مفسدین کو فساد میں مدد فراہم کرنا لازم آئے گا؛ اس لئے اخف الضررین کے تحمل کے ساتھ بنک کے اضافے کو لینے کی گنجائش ہے، اسے سود وصولنا نہیں کہا جائے گا۔ یہ اضافی رقم شرعاً مال حرام و خبیث ہے۔ مال حرام کا شرعی مصرف بالترتیب اوپر مذکور ہوچکا، لینے والے شخص کا یا اس کے اہل وعیال کا اس مال سے شخصی انتفاع ناجائز ہے۔ بالترتیب مذکورہ تینوں مصارف میں سے کسی میں اسے صرف کرے۔
حکومت کی جانب سے جو ظالمانہ ٹیکس وصول کئے جاتے ہیں شرعاً وہ ظلم وجور ہے.
حکومتی بینک یا حکومتی ادارے کے طرف سے وصول کردہ سودی رقم کو ہر قسم کے ظالمانہ وغیر واجبی ٹیکس میں صرف کرنا جائز ہے، اس سے مال حرام کو اس کے مالک تک پہنچادینا پایا جائے گا ۔اور یوں آخذ فارغ الذمہ ہوجائے گا۔ جی ایس ٹی بھی ظالمانہ اور غیرواجبی ٹیکس ہے۔ سرکاری اداروں سے (نہ کہ پرائیویٹ سے) حاصل شدہ سودی رقم کو جی ایس ٹی میں ادا کرنا بھی درست ہے۔ حکومت جی ایس ٹی اصلاً دوکاندار یعنی بائع سے وصولتی ہے، لیکن بائع کو پھر بعد میں ریٹرن فائل کرنے کے بعد اتنی رقم واپس مل جاتی ہے. اگر ریٹرن فائل کرنے کے بعد بائع کو اتنی رقم واپس مل جاتی ہے تو یوں بائع کے حق میں جی ایس ٹی ناروا ٹیکس نہ ہوا، پھر اس کے لئے مال خبیث سے اس کی بھرپائی بھی جائز نہ ہوگی۔ جی ایس ٹی کی اصل مار آخری خریدار یعنی صارف کو پڑتی ہے، اسے حکومت کی طرف سے کوئی ریلیف نہیں ملتا، مہنگائی کی مار اصلاً اسی کو جھیلنا ہوتی ہے، تو جی ایس ٹی درحقیقت اسی کے لئے جابرانہ ٹیکس سمجھا جائے گا اور صرف اسی گاہک و صارف کے لئے یہ گنجائش ہوگی کہ سرکاری اداروں کے سودی رقوم اس میں صرف کرے. لیکن اس میں پھر دو خرابی لازم آتی ہے:
(۱) بائع حکومت کی طرف سے جی ایس ٹی وصولی کا مجاز نہیں ہوتا۔
(۲) گاہک سے جی ایس ٹی کے نام سے وصول کردہ اضافی رقم کی بھرپائی اگر سودی رقم سے کروائی جائے تو گاہک اس کے بدلے خرید کردہ ذاتی وشخصی سامان سے مستفید ہوتا ہے، پھر تو یک گونہ سودی رقم سے انتفاع لازم آتا ہے جو اکل اموال الناس بالباطل کے ذیل میں داخل ہوکر ممنوع قرار پاتا ہے۔
دوسری خرابی کے مدنظر جی ایس ٹی کے نام سے وصول کردہ اضافی رقم سامان کی مکمل قیمت قرار دی جانی چاہیے، یہ سمجھا جائے گا کہ اصل واضافی رقم سب من جملہ ثمن ہے، جس میں گاہک سودی رقم نہیں لگا سکتا، نیز بائع و دوکاندار اس اضافی رقم کو خود بھی رکھ سکتا ہے۔ ہاں! کذب بیانی کا وبال علیحدہ رہا، اگر دوکاندار جی ایس ٹی کی رقم کی پرچی کاٹ کر پکا بل بنادے تو اسے حکومتی مجاز قرار دیا جاسکتا ہے اور تب مشتری اس میں سودی رقم لگاسکتا ہے لیکن مال خبیث سے شخصی انتفاع کے شائبہ کی خرابی علی حالہ باقی رہے گی۔ سرکاری بینک یا ادارے کا سود ذاتی استعمال میں لانے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت نے انکم ٹیکس کے نام سے ناجائز طور پر انسان کی جو حلال رقم لے لی، اس نے دوسرے راستہ سے وہ رقم حکومت سے وصول کرلی، چنانچہ اگر کوئی شخص جی ایس ٹی پہلے جمع کردے اور بعد میں اس کے اکائونٹ میں سودی رقم حاصل ہوئی تو وہ جمع کی ہوئی جی ایس ٹی رقم کے بقدر سودی رقم سے استفادہ کرسکتا ہے؛ کیونکہ مالی معاملات میں "حسابی زر" ومالیت کا اعتبار ہے، بعینہ سودی مال کی ادائی لازم نہیں۔ سودی رقم سے استفادے کی حرمت ذمے سے متعلق تھی، عین مال سے نہیں، ذمہ پہ تفصیل اوپر کی سطروں میں آچکی ہے، الزامات و التزامات کے محل کو ذمہ کہتے ہیں۔ جی ایس ٹی جمع کردینے سے صارفِ بنک وکھاتہ دار بری الذمہ ہوگیا، لہذا اسی مقدار کی سودی رقم سے استفادہ شرعاً جائز ہوگا۔
وذهب الحنفية والمالكية في المشهور وهو رواية عن أحمد، إلى أن النقود لا تتعين بالتعيين في العقد، لأنه يجوز إطلاقها فيه، كالمكيال والصنجة، ولأن الثمن اسم لما في الذمة، فلا يكون محتملا للتعيين بالإشارة.
وهذا عندالحنفية في غير الصرف فتتعين الدراهم والدنانير في الصرف بالتعيين فيه لاشتراط القبض فيه في المجلس. وذكر الحنفية أيضا أنها تتعين في الصرف بعد فساده، وبعد هلاك المبيع، وفي الدين المشترك، فيؤمر القابض منهما بردّ نصف ما قبض على شريكه، وفيما إذا تبين بطلان قضاء الدين، فلو ادعى على آخر مالا، فأخذه ، ثم أقر أنه لم يكن له على خصمه حق، فعلى المدعي رد ما أخذه بعينه ما دام قائما.
ونقل ابن عابدين أن النقود لا تتعين في المهر ولو بعد الطلاق قبل الدخول فترد مثل نصفه، ولا في النذ، والوكالة قبل التسليم ، وأنها تتعين في الأمانات، والهبة، والصدقة، والشركة، والمضاربة، والغصب .وفي العقد الفاسد عند الحنفية روايتان، ورجح بعضهم تفصيلا أن ما فسد من أصله تتعين فيه، لا فيما انتقض بعد صحته.
وأما الفلوس فإنها لا تتعين بالتعيين عند الحنفية إن كانت رائجة لأنها بالاصطلاح صارت أثمانا. (الموسوعة الفقهية الكويتية: 6/129)
فإذا ظفر بمال مدیونه له الأخذ دیانة؛ بل له الأخذ من خلاف الجنس (رد المحتار، کتاب السرقة، مطلب في أخذ الدائن من مال مدیونه من خلاف جنسہ، 6: 157، ط: مکتبة زکریا دیوبند)
اس ضمن میں نوٹ کی شرعی حیثیت کا مختصر تذکرہ بھی مفید معلوم ہوتا ہے:
فرانسیسی زبان کی اصطلاح میں "نوٹ" بینک کے اس کاغذی ٹکڑے یا معدنیاتی سکے کو کہتے ہیں جس کے حامل کو اطلاع کے وقت بینک یا ملکی خزانہ نقد دینے کی ضمانت لیتا ہے:
ورقة البنك هى عملة قابلة لدفع قیمتها عیناً لدی الاطلاع لحاملها وهى یتعامل بها کما یتعامل بالعملة المعدنية نفسها غیر أنه ینبغی أن تکون مضمونة لیثق الناس بها. (بہجة المشتاق صفحہ ٤٨.....بحوالہ مفتی سعید احمد صاحب سہارنپوری رحمہ اللہ)
بنک کا کاغذ (عملہ) وسکہ معدنیہ کا کاغذ ہے. اس کی قیمت نقد اس کے حامل کو اطلاع کے وقت اداکرنے کے قابل ہے. اس کے ساتھ بالکل معدنی سکہ کی طرح معاملہ کیا جاتا ہے لیکن یہ بات ضروری ہے کہ اس کی ضمانت ہونی چاہئے تاکہ لوگ اس سے معاملہ کرنے میں بھروسہ کرسکیں۔"
اب کرنسی نوٹ سکہ ہے؟ مال متقوم؟ یا سند وحوالہ؟؟ یہ پرانا اختلافی موضوع ہے جس پر علماء کے مختلف نقطہائے نظر ہیں اور ہر فریق کے پاس اپنے موقف پر دلائل بھی ہیں، ہمیں یہاں اس کی فقہی حیثیت پہ بحث نہیں کرنی ہے۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ ہر ملک اپنی آسانی کی خاطر مختلف مالیت کے چھوٹے بڑے نوٹ چھاپتا ہے، ان تمام مختلف مالیت والے نوٹوں کے لئے ایک بنیادی اکائی مقرر ہوتی ہے، جسے حسابی زر' حسابی نوٹ' اور حسابی اکائی کہتے ہیں' اس حسابی اور بنیادی اکائی کے ذریعہ رقم کی گنتی ہوتی ہے ' چیزوں کی قیمت بتائی جاتی ہے' اسی طرح اشیاء وخدمات کا حساب کیا جاتا ہے، یہ بنیادی اور حسابی اکائی ایک روپیہ سے لیکر بڑے تمام نوٹوں میں موجود ہوتی ہے' اور نوٹوں کے ذریعہ لین دین میں یہی مالیت اور حسابی اکائی ملحوظ ہوتی ہے، متعینہ کاغذی پیپر یا معدنیاتی سکہ کسی کا مقصود نہیں ہوتا۔ احناف کا مسلک یہ ہے کہ عرض واجناس تو لین دین میں متعین ہوجاتے ہیں؛ لیکن کرنسی نوٹ وسکہ متعین نہیں ہوتے:
والأصل فیه أن المال نوعان نوع لا یتعین فی العقود کالدراھم والدنانیر و نوع یتعین کالعروض (البحرالرائق، شرح کنزالدقائق، کتاب البیع، فصل فی احکام البیع الفاسد، ج 6 ص 161)
غیرمشروع طریقے سے حاصل کردہ مال کے تئیں اولیں شرعی ضابطہ یہ ہے کہ جہاں سے مال ملا ہے وہیں پہونچادے یعنی اس کے مالک کو لوٹایا جائے، رد الی المالک ہی پہلے نمبر پر واجب ہے، جب کسی بھی وجہ سے مالک تک رسائی ممکن ہو تب دوسرے آپشن کی طرف عدول کیا جائے گا، یعنی تب مال حرام کا تصدق علی الفقراء بلا نیت ثواب علی اصح الاقاویل ضروری ہے اور صدقات واجبہ کی طرح اس میں بھی تملیک فقراء واجب ہے ۔بینک سے ملنے والے سود کو پہر بینک ہی میں لوٹانے یا چھوڑدینے سے بڑا مفسدہ لازم آئے گا، سودی کاروبار یا اسلام دشمن سرگرمیوں میں تعاون کو مستلزم ہوگا جوکہ حرام ہے اور تعاون علی الحرام بھی حرام ہے۔ لہذا بینک یا دیگر سرکاری اداروں سے موصول سودی رقومات کو کسی بھی نام وعنوان سے سرکاری خزانے میں پہنچانا (خواہ ناروا ٹیکس کی بھرپائی کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو) واجب ہے۔
پہلا اختیار ہوتے ہوئے دوسرے (تصدق علی الفقراء) کی طرف عدول جائز نہیں ہے، بلکہ رد الی المالک ہی واجب ہے. شامی میں ہے:
"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه". (5/99، مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)
’’الدر المختار مع رد المحتار‘‘: "غصب دراهم إنسان من کیسه، ثم ردها فیه بلا علمه برئ، وکذا لو سلمه إلیه بجهة أخری کهبة، أو إیداع، أو شراء، وکذا لو أطعمه فأکله خلافاً للشافعي. زیلعي". الدر (المختار مع رد المحتار 9/267) کتاب الغصب، مطلب في رد المغصوب وفیما لو أبی المالک قبوله)
یجب علیه أن یردہ إن وجد المالك وإلا ففي جمیع الصور یجب علیه أن یتصدق بمثل ملك الأموال علی الفقراء۔ (بذل المجہود، کتاب الطہارۃ / باب فرض الوضوء ۱؍۳۷ سہارنفور، ۱؍۳۵۹ مرکز الشیخ أبي الحسن الندوي)
الغرض ناروا ٹیکس میں لوٹانا ہی متعین نہیں، سرکاری خزانے میں کسی بھی طرح مال خبیث کو لوٹانا واجب ہے، اختیاری نہیں! ناروا ٹیکس کی بھرپائی اسی کی ایک شکل ہے، اس پہ منحصر نہیں، یہ آپشن کسی باعث ممکن نہ رہے تب تصدق علی الفقراء یا بعض علماء کے خیال کے مطابق وجوہ خیر میں صرف کرنا واجب ہوگا۔
واللہ اعلم
(S_A_Sagar#) https://saagartimes.blogspot.com/2022/06/blog-post_18.html
No comments:
Post a Comment