Thursday 23 June 2022

لباس التقویٰ: اسلام میں لباس کے احکام

لباس التقویٰ 
اسلام میں لباس کے احکام
سوال: "لباس کے سلسلہ میں اصل حکم 
یہ ہے کہ مرد کا لباس عورتوں کے لباس کے مشابہ 
نہ ہو اور نہ عورتوں کا لباس مرد کے لباس کے مشابہ ہو۔ 
نیز ایسا لباس نہ ہو جو غیرمسلموں کا شعار شمار ہوتا ہو۔ اسی طرح لباس کا ساتر ہونا (ستر چھپانے والا ہونا) اور چست نہ ہونا شرعاً ضروری ہے، پس صورتِ مسئولہ میں ایسے کڑھائی یا ڈیزائن والے کپڑے جو عورتوں کے مشابہ نہ ہوں مردوں کے لئے پہننا شرعاً جائز ہے۔"
مذکورہ فتوی کا حوالہ مطلوب ہے؟
جواب: لباس کے سلسلے میں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوالِ مبارکہ ہیں ان کو محدثینِ کرام نے  جمع کیا ہے اور  فقہاءِ کرام نے ان ہی احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں مرد اور عورت  کے  لباس اور مسلم  و غیرمسلم کے لباس کے احکام بتلائے ہیں۔ ان احادیثِ مبارکہ میں غور کرنے سے چند اَحکام  معلوم ہوتے ہیں:
1- لباس کا  سب سے اولین مقصد ستر کو چھپانا ہے، اسی لیے اگر لباس ایسا ہو کہ وہ سترپوشی کا کام نہیں دیتا، خواہ ناقص لباس ہو یا  لباس  تو پورا ہو  لیکن اتنا تنگ اور چست لباس ہو جس سے اعضاء مستورہ کی حکایت اور ان کی تصویر  سامنے آتی ہو تو ایسا لباس خواہ مرد کا ہو یا عورت کا، سب کے لئے ناجائز ہے۔
اسی وجہ سے الله تعالیٰ نے انسانوں كو مخاطب كركے فرمايا هے:
{يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ} [الأعراف: 26]
ترجمه: اے اولاد آدم كي هم نے اتاري تم پر پوشاك جو  ڈھانكے تمہاری شرمگاہیں اور اتارے آرائش کے کپڑے اور لباس پرہیزگاری کا وہ سب سے بہتر  ہے، یہ نشانیاں ہیں اللہ کی قدرت کی؛ تاکہ وہ لوگ غور کریں۔
اس آیت کی تفسیر میں تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے:
"یمتنّ تبارك و تعالى على عباده بما جعل لهم من اللباس و الريش، فاللباس المذكور هاهنا لستر العورات -و هي السوءات- و الرياش و الريش: هو ما يتجمل به ظاهرًا، فالأول من الضروريات، و الريش من التكملات و الزيادات."
ترجمہ: اللہ تبارک وتعالی (اس آیتِ مبارکہ میں) اپنے بندوں پر  اپنا احسان بیان کر رہے ہیں،بوجہ  لباس اور آرائش کے کپڑوں کے جو  اُن کو عطا فرمائے ہیں، اور لباس جس کا یہاں پر بیان ہے، اس کے دو مقصد ہیں: قابلِ شرم اعضاء  (یعنی شرم گاہوں) کو چھپانا  اور "ریاش" یعنی ظاہری زینت و جمال، پہلا مقصد (ستر چھپانا) ضروریات میں سے ہے اور دوسرا اضافی زینت کے لئے۔"
2- اسی طرح مرد اور عورت یا کافر اور مسلمان کے درمیان ظاہری فرق لباس سے حاصل ہوتا ہے اور اگر ایک دوسرے کا لباس پہنا جائے تو  مشابہت کی وجہ سے امتیاز ختم ہونے کا اندیشہ ہے؛ اس لئے ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ حدیثِ مبارک  میں ہے:
"لعَنَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْه وَسَلَّمَ الْمُتَخَنِّثِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالْمُتَرَجّلاَتِ مِنَ النِّسَاءِ، وَ قَالَ: أخْرِجُوْهمْ مِنْ بُیُوْتِکُمْ." (صحيح البخاری، رقم الحدیث: 5547)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں اور مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ: تم ایسے لوگوں کو اپنے گھروں سے نکال دو۔
3- جب ممانعت کی بنیادی علت مشابہت ہے اور اور جہاں یہ علت نہیں ہوگی وہاں ممانعت بھی نہیں ہوگی؛ اس لیے ایسی کڑھائی یا ڈیزائن والے کپڑے جو عورتوں کے کپڑوں کے مشابہ نہ ہوں (اور ان میں کفار کی مشابہت بھی نہ ہو)،  ایسے کپڑوں کا مردوں کے  لیے پہننا جائز ہوگا۔
صحیح بخاری کی حدیث ہے:
"عنْ عائِشَةَ أنَّ النبيَّ صلَّى فِي خمِيصةٍ لَها أعْلاَمٌ فَنَظَرَ إِلَى أعْلاَمِها نَظْرَةً  فَلَمَّا انْصَرَف، قالَ: اذْهَبُوا بِخَمِيصَتِي هَذِهِ إِلَى أبي جَهْمٍ، وأتُونِي بأنْبِجانِيَّةِ أبي جَهْمٍ، فإِنَّهَا ألْهَتْنِي آنِفاً عنْ صَلاَتي."
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے دھاری دار چادر میں نماز پڑھی جس میں نقش ونگار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ان نقش و نگار کو دیکھا، پھر جب آپ نماز سے فارغ  ہوئےتو فرمایا: اسے لے جا کر ابوجہم کوواپس کردو اور ان سے (بجائے اس کے) سادی چادرلاؤ، اس نے مجھے میری نماز سے ابھی غافل کردیا ۔
اس کی شرح میں علامہ عینی عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں:
"ذكر مَا يستنبط مِنْهُ من الْأَحْكَام فِيهِ: جَوَاز لبس الثَّوْب الْمعلم وَ جَوَاز الصَّلَاة فِيهِ. وَ فِيه: أَن اشْتِغَال الْفِكر الْيَسِير فِي الصَّلَاة غير قَادِح فِيهَا، وَهُوَ مجمع عَلَيْهِ ..."
اس حدیث سے جو احکام مستنبط ہوئے ہیں: ان (میں  ایک یہ کہ) نقش ونگار والے کپڑوں کا پہننا ہے اور ان میں نماز کا درست ہونا ہے اور  یہ کہ نماز سے ہٹ کر  معمولی سے مشغولیت  نماز میں مضر نہیں اور اسی پر اتفاق ہے۔
اس کے علاوہ دیگر احادیث سے لباس کے بارے میں مزید درج ذیل احکام بھی ثابت ہیں:
4- مرد شلوار، پائجامہ یا تہبند وغیرہ اتنا نیچے نہ پہنیں کہ ٹخنے یا ٹخنوں کا کچھ حصہ چھپ جائے اور نہ ہی خواتین شلوار وغیرہ اتنی اونچی پہنیں کہ ان کے ٹخنے ظاہر ہوجائیں۔
5-  لباس میں سادگی ہو، تصنع، بناوٹ یا نمائش مقصود نہ ہو۔
6-  مال دار شخص نہ تو فاخرانہ لباس پہنے اور نہ ہی ایسا لباس پہنے کہ اس سے مفلسی جھلکتی ہو۔
7-  اپنی مالی استطاعت کے مطابق ہی لباس کا اہتمام ہونا چاہئے۔
8-  مرد کے لیے خالص ریشم (یا جس کپڑے کا بانا ریشم کا ہو) پہننا حرام ہے۔
9-  مرد کے لیے خالص سرخ یا زعفرانی رنگ مکروہ ہے، البتہ سرخ کے ساتھ کسی اور رنگ کی بھی آمیزش ہو تو جائز ہے۔
10لباس صاف ستھرا ہو، نیز مردوں کے لئے سفید رنگ پسندیدہ ہے۔
شرح ابن بطال لصحیح البخاری (9/140):
"قال الطبرى: فيه من الفقه أنه لايجوز للرجال التشبه بالنساء في اللباس و الزينة التي هي للنساء خاصة، و لايجوز للنساء التشبه بالرجال فيما كان ذلك للرجال خاصة. فمما يحرم على الرجال لبسه مما هو من لباس النساء: البراقع و القالائد و المخانق و الأسورة و الخلاخل، و مما لايحل له التشبه بهنّ من الأفعال التي هنّ بها مخصوصات فانخناث في الأجسام، و التأنيث في الكلام. و مما يحرم على المرأة لبسه مما هو من لباس الرجال: النعال و الرقاق التي هي نعال الحد و المشي بها في محافل الرجال، و الأردية و الطيالسة على نحو لبس الرجال لها في محافل الرجال و شبه ذلك من لباس الرجال، و لايحلّ لها التشبه بالرجال من الأفعال في إعطائها نفسها مما أمرت بلبسه من القلائد و القرط و الخلاخل و السورة، و نحو ذلك مما ليس للرجل لبسه، و ترك تغيير اليدي و الأرجل من الخضاب الذي أمرن بتغييرها به."
 مرقاۃ المفاتیح (7/2782):
"وَعَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "«مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ»" رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُودَاوُدَ.
(4347- وَعَنْهُ) : أَيْ عَنِ ابْنِ عُمَرَ (قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  (مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ): أَيْ مَنْ شَبَّهَ نَفْسَهُ بِالْكُفَّارِ مَثَلًا فِي اللِّبَاسِ وَغَيْرِهِ، أَوْ بِالْفُسَّاقِ أَوِ الْفُجَّارِ أَوْ بِأَهْلِ التَّصَوُّفِ وَالصُّلَحَاءِ الْأَبْرَارِ. (فَهُوَ مِنْهُمْ): أَيْ فِي الْإِثْمِ وَالْخَيْرِ. قَالَ الطِّيبِيُّ: هَذَا عَامٌّ فِي الْخَلْقِ وَالْخُلُقِ وَالشِّعَارِ، وَلِمَا كَانَ الشِّعَارُ أَظْهَرُ فِي التَّشَبُّهِ ذُكِرَ فِي هَذَا الْبَابِ."
فقط واللہ اعلم 
فتوی نمبر : 144203200495
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن (S_A_Sagar#)
https://saagartimes.blogspot.com/2022/06/blog-post_23.html

No comments:

Post a Comment