مدرسین حضرات کیلئے دس نصیحتیں:
وعظ بقیہ السلف حضرت مولانا قاری امیر
حسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ شیخ الحدیث
حضرت مولانا محمد زکریا صاحب مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ
نحمده و نصلى على رسوله الكريم، امام بعد! "خيركم من تعلم القران وعلمه" او كما قال النبى صلي الله عليه وسلم
(۱) استحضارِنعمت:
میرے محترم دوستو اور بزرگو! اللہ پاک نے ہمیں یہ خدمت دین کی دولت عطا فرمائی ہے ۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے. آج کل لوگ حافظ بن جاتے ہیں، عالم بن جاتے ہیں مگر دین کی خدمت میں نہیں لگتے ہیں. مال کمانے کی فکر ہے۔ کوئی کویت سعودی عرب جارہا ہے کوئی امریکہ جارہا ہے. بس سب اسی چکر میں ہیں۔ ایسے حالات میں جن لوگوں کو مدارس و مکاتب میں معصوم بچوں کی خدمت اور قرآن مجید کی تعلیم و تعلم یا فقہ و حدیث کا درس دینے کی توفیق مل گئی ہے گویا کہ انہیں حق تعالیٰ نے قبول فرمالیا ہے۔ اس لئے دین کی خدمت لے رہے ہیں. آپ حضرات اس توفیق کی قدر کیجئے اور یکسوئی کے ساتھ لگے رہئے۔ اللہ تعالیٰ کسی کے عمل کو ضائع نہیں فرماتا۔ روزی ہر شخص کی مقرر ہے ۔ انشاءاللہ مقدر مل کر رہےگا ۔ آدمی چاہے کتنا ہاتھ پیر مارلے ،تقدیر سے بڑھ کر نہیں پاسکتا ۔۔
دوستو! اصل میں دین کی حفاظت اور دین کا کام مل جانا، بہت بڑی نعمت ہے اس سے ہم لوگ بہت غافل ہیں اور اسی غفلت کی وجہ سے بہت کم شکرکی توفیق ملتی ہے. آج ہم کھانے پینے کی چیزوں کو نعمت سمجھتے ہیں، لیکن دین و ایمان کا نعمت ہونا بہت کم لوگوں کو معلوم ہے. پہلے زمانہ میں لوگ ایک مرتبہ اللہ کا نام لینے کی توفیق کو دنیا و مافیہا سے بہتر سمجھتے تھے ۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ خيركم من تعلم القران وعلمه ـ تم سب میں بہترین وہ ہے جو قرآن پاک سیکھے اور سکھاۓ (ہاں حسن نیت شرط ہے)
( ٢ ) اخلاص:
امام اعظم ؒ نے پانچ لاکھ احادیث میں سے پانچ حدیثیں منتخب کی ہیں. ان میں ایک "انما الأعمال بالنىات" ہے یعنی سارے اعمال کا دارومدار نیت پر ہے. اس لئے اپنی نیت درست کرلینی چاہئے. اس کام سے صرف اللہ کی رضاجوئی مقصود ہو. کسی اور غرض سے دین کا کام نہ کریں. اس کو دنیا کمانے اور پیٹ پالنے کا ذریعہ نہ بنائیں. اخلاص بہت بڑی دولت ہے۔ اس کی برکت سے اعمال قبول ہوتے ہیں. ان میں جان آتی ہے. ان میں زبان آجاتی ہے. یہاں تک کہ میں نے آپ حضرات کو اس کام کی عظمت و اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے اب چند تجربہ اور اصول کی باتیں بتلاتا ہوں، جن سے کام مین رہبری ملے گی۔
(۳ ) استغنا و یکسوئی:
حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ کو حیدرآباد بلایا گیا تھا. حضرت اس وقت سہارنپور میں تھے. اس وقت سہارنپور میں حضرت کی تنخواہ ٢٠/ ٢٥ روپے ہوگی، حیدرآباد میں رہنے کیلئے بارہ سو روپیہ ماہانہ، گاڑی اور بنگلہ پیش کیا گیا. حضرت نے اس وقیع پیش کش کو (جو اس زمانے میں کسی کسی کو مقدر سے ہاتھ آتی تھی) مسترد فرمادیا اور فرمایا: میں اپنے حضرت (یعنی حضرت خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ) کو اور اپنے مدرسہ (یعنی مظاہر علوم) کو نہیں چھوڑ سکتا۔ میں ابھی مدینہ منورہ میں تھا۔ وہاں کے لوگوں نے کہا کہ ہم اقامہ دلادیں گے اور فلاں فلاں سہولت بھی دے دیں گے، مگر میں نے یہی سوچ کر انکار کردیا کہ حضرت کے ہاں (اشرف المدارس ہردوئی) برسوں سے پڑھاتا ہوں، چھٹی لے کر گیا تھا، اگر وہیں رہ جاؤں تو حضرت (مولانا ابرارالحق صاحب نوراللہ مرقدہ) کیا سمجھیں گے؟ مدرسہ سے کس قدر بے وفائی ہوگی، یعنی کتنی انتظامی دشواری پیش آئے گی. یہی سوچ کر میں نے ان حضرات سے معزرت کردی، ورنہ بتایئے مدینہ منورہ میں رہنے کا موقع مل جائے تو کون نہیں رہنا چاہتا؟ لوگ ہزاروں ریال خرچ کررہے ہیں، برسوں سے تمنائیں کررہے ہیں مگر موقع نہیں ملتا.
( ٤ ) تادیب میں احتیاط:
بچوں کو جس طرح چاہے پٹائی نہیں کرنی چاہئے. کیوں کہ ایک تو اب قویٰ کمزور ہوں گے ہیں. بچوں میں تحمل نہیں رہا۔ ایک آدھ چھڑی لگادی تو الگ بات ہے، مگر ان پر غصہ نہیں نکالنا چاہۓ۔ آج کل یہ مرض عام ہوگیا ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں اس کا حساب ہوگا. حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو ایک صاحب نے لکھا کہ میں بچوں کو بہت مارتا ہوں، حضرت نے جواب لکھ دیا. "قیامت کا انتظار کرو" کیا مطلب؟ قیامت کے دن تو حساب دینا پڑے گا، اس کی نافرمانی اور تمہاری سزا دونوں تولے جائیں گے اور انصاف کیا جائے گا. اس لئے بہت ڈرنے کا مقام ہے۔
( ٥ ) دعا کا اہتمام:
اسی طرح طلبہ کے لئے اور اپنے لئے گڑ گڑا کر دعاء مانگنے کا اہتمام کرنا چاہئے یہ بھی سنت ہے، لوگ اس سنت سے غافل ہیں. علماء نے لکھا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت "ابہتال" بھی ہے. یعنی گڑگڑانا، اس سے بہت کام نکلتے ہیں اور کچھ نہیں تو دل کو سکون ہی مل جاتا ہے، یہ کتنی بڑی نعمت ہے؟
( ٦ ) توکل اور اعتماد:
اسی طرح بھائیو! مقصد بس دین کو بناؤ، دنیا کو مقصود نہ نباؤ جو مقدر کا ہے مل کررہے گا اور جو مقدر نہیں ہے وہ تم چاہے کچھ کرلو ملنے والا نہیں شیخ العرب والعجم حاجی امداد اللہ صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ دین مثال پرندہ کی سی ہے اور دنیا کی مثال جیسے سایہ، پرندہ کو پکڑوگے تو سایہ خودبخود آجائے گا اور سایہ کے پیچھے پڑوگے تو نہ وہ ملے گا نہ یہ.
(۷) معاملات کی صفائی:
ایک بات آپ حضرات سے یہ عرض کرنی ہے کہ اپنے معاملات درست رکھیں۔ آپ کے معاملات درست نہ ہوں گے تو آپ دوسروں کو کیا دین سکھائیں گے؟ مگر آج لوگ دین بھی نہیں سمجھتے۔ نماز روزہ ادا کررہے ہیں، مگر معاملات غیر شرعی ہیں. معاملات خلاف سنت ہیں. امام محمد رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے اتنی ساری کتابیں لکھیں، مگر تصوف پر کوئی کتاب نہیں لکھی؟ فرمایا: میں نے کتاب البیوع لکھ دی ہے، جس کے معاملات درست ہوں وہ سب سے بڑا صوفی ہے. معاملات کی درستگی سے بڑی برکت ہوتی ہے۔ آمدنی اگر صیحح ہو تو تھوڑے میں بھی کام نکل جاتا ہے۔ برکت کے معنی یہ نہیں کہ ایک ہزار کے دو ہزار ہوجائیں ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ تھوڑے میں بھی کام نکل جاۓ۔
( ٨ ) حکمت عملی کا لحاظ:
اسی طرح ایک بات یہ یاد رکھنے کی ہے کہ طلبہ کو افہام وتفہیم اور نصیحت موقع محل دیکھ کریں، بعض مرتبہ یہ سلیقہ نہ ہونے کی وجہ سے اچھی بات بھی ضائع ہو جاتی ہے اور نفع کے بجائے نقصان ہوجاتا ہے، نصیحت کو یوں سمجھئے جیسے انجکشن دینا، بغیر سیکھے انجکشن نہیں دے سکتے اور ہر جگہ نہیں دے سکتے، بس یہی حال نصیحت کا ہے کہاں کی جائے اور کہاں نہیں؟ کیا کیا جائے اور کیا نہیں؟ اور کس طرح کی جاۓ کس طرح نہیں؟ سب سیکھنے سے تعلق رکھتا ہے.
( ٩ ) خدمت خلق:
ایک بات یہ ہے کہ ہمیں کبھی کبھی اپنے چھوٹوں اور عوام الناس کی خدمت بھی کردینی چاہئے۔ اس سے ایک طرف سارے نفس کا علاج ہوتا ہے، دوسری طرف سامنے والا متاثر و مانوس ہوتا ہے. جب ہماری ذات سے متاثر ہوگا تو ہماری بات کا بھی اثر لے گا. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دیکھا کہ ایک یہودی بچہ ہے اس کے پاس برتن میں پانی بھرا ہوا ہے مگر وزن اس قدر ہے کہ لے کر جا نہیں سکتا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی سے بھرا ہوا برتن اٹھاکر اس کے گھر پہنچادیا اورچلے گئے، جب اس کے باپ نے دیکھا کہ بچہ اتنا بڑا برتن لے آیا تو حیرت سے پوچھا کہ کیسے لے آیا ؟ اس نے بتلایا کہ کوئی صاحب پہنچاگۓ ، اس کو بڑا اثر ہوا اور سوچا کہ کون آدمی ہے جو اس قدر مخلص اور اخلاق مند ہے ؟ باہر آکر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں بس فوراً پکار اٹھا: "ماهذا الاشفقة الانبياء والمرسلىن"۔ یہ تو بس انبیاء اور مرسلین ہی کی شفقت ہوسکتی ہے.
( ١٠ ) اپنی اصلاح کی فکر:
اسی طرح ہم لوگوں میں اب ایک غفلت عام ہوگئی ہے کہ ذرا پڑھنا لکھنا شروع کیا امام بن گئے اور کچھ کام شروع کیا، تو بس اپنے آپ کو کامل سمجھ بیٹھے ایسا نہ ہونا چاہئے، بلکہ ہر وقت اپنی اصلاح و تربیت کی فکر میں بھی لگے رہیں. پہلے زمانہ میں لوگ جب تک کامل نہ ہوجاتے دین کی خدمت میں نہ لگتے تھے ، لیکن آج کل کے حالات ایسے نہیں ہیں. اس لئے کام کے ساتھ ساتھ اصلاح کی بھی فکر کرتا رہے، مایوس نہ ہو، ایک دن کامیاب ہوجاۓ گا.
خواجہ صاحب فرماتے ہیں:
نہ چت کرسکتے نفس کے پہلوان کو
تو یوں ہاتھ پیر بھی ڈھیلے نہ ڈالے
ارے اس سے تو ہے کشتی عمر بھر کی۔
کبھی وہ دبالے کبھی تو دبالے
اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ فرصت عمر کو غنیمت سمجھ لے اور زندگی پر اعتبار اور بھروسہ نہ کرے، نہ معلوم کب یہ نعمت ختم ہوجائے اور کب آدمی عمل سے روک دیا جائے. حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کو لکھا کہ کوئی خاص نصیحت جو نافع سلوک ہو تحریر فرمادیجئے. اس کے جواب میں حضرت نے لکھا کہ: "اس کا استحضار ہو کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں" حضرت شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ جب کسی کام سے فارغ ہوتے تو فرماتے اے اللہ تیرا شکر ہے کہ اسباب ہلاکت سے ہم بچ گئے، بس ان چند باتوں کو یاد رکھ لیجئے اور عمل کرتے رہئے. ان شآءاللہ دنیا وآخرت کا بھلا گا ۔ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حسن نیت، حسن عمل اور حسن خاتمہ کی دولت سے سرفراز فرمادیں۔ آمین (صححہ: #S_A_Sagar )
--------
میرے سابق شیخ اور استاد حضرت مولانا امیر حسن صاحب نوراللہ مرقدہ کو اللہ تعالی نے بہت سی ایسی خوبیوں سے نوازا تھا جو اس دور پر فتن میں کمیاب؛ بلکہ تقریبا نایاب ہیں، پروفیسر نادر علی صاحب علی گڑھی نور اللہ مرقدہ (جن کا ابھی قریب میں انتقال ہوا ہے) فرمایا کرتے تھے کہ حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ نے فرمایا کہ میں نے خلافت تو بہت سے حضرات کو دی ہے؛ لیکن خلافت کے لئے جو اوصاف ہونے چاہیئے وہ مکمل طور پر دو لوگوں میں دیکھے ہیں، ایک حضرت مولانا امیر حسن صاحب، دوسرے مولانا منور حسین صاحب بجنوری۔ میں نے پروفیسر صاحب سے ازخود سنا ہے۔
میل وشارم، خانقاہ محمودیہ میں حضرت قاری صاحب ماہ رمضان گزارتے تھے، میں نے بھی ایک رمضان وہاں گزارا ہے، پروفیسر صاحب نے یہ بات وہیں ایک سے زائد مرتبہ فرمائی تھی۔
بندہ محمد مدثر قاسمی
خادم دارالافتاء شہر کاسگنج و خادم شعبہ عربی و فارسی جامعہ اشرف العلوم کاسگنج (صححہ: #S_A_Sagar )
https://saagartimes.blogspot.com/2022/06/blog-post.html
No comments:
Post a Comment