روزی کے وعدہ اور ایک غلط فہمی کا ازالہ
بعض لوگ وعظ تقریر میں کہا کرتے ہیں کہ روزی پہنچانے کا خدا نے وعدہ کیا ہے، لیکن مسلمانوں کو اللہ پر بھروسہ نہیں اور گھبراتے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ ضعف ایمان کا حکم لگاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی مخلوق دعوت کر دے تو اس پر تو پورا بھروسہ ہوتا ہے اور اس وقت کے رزق سے بے فکری ہوجاتی ہے۔ اور حق تعالٰی کے وعدے پر بھروسہ نہیں سو خوب سمجھ لینا چاہئے کہ یہ ایمان کی کمزوری نہیں بلکہ طبیعت کی کمزوری ہے، کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کو خدا پر بھروسہ نہ ہو، اور یہ جو مثال بیان کی جاتی ہے وہ بالکل غلط ہے اور اللہ تعالٰی کے وعدہ کا قیاس مخلوق کے وعدہ پر صحیح نہیں، کیونکہ جو شخص وعدہ کرتا ہے وہ یہ بتلادیتا ہے کہ فلاں وقت کی دعوت ہے جس سے پورے طور پر یہ حال معلوم ہوجاتا ہے کہ ہمارے کھانے کا اس وقت پورا انتظام ہوگیا ہے۔ اور اگر ایسا ہی تفصیلی وعدہ اللہ تعالٰی کا ہوتا تو مسلمان کو مخلوق سے زیادہ اللہ پر اعتماد ہوتا۔ مگر خداوند تعالٰی کا یہ وعدہ نہیں ہے کہ دونوں وقت دیں گے، پاؤ بھر دیں گے، ناغہ نہ کریں گے بلکہ مبہم وعدہ ہے کہ روزی دیں گے، اس کی کیفیت (کہ کیسے دیں گے) اور کمیت (کہ کتنا دیں گے) نہیں بتلائی گئی ـ ممکن ہے کہ تیسرے روز ملےـ
اور اس شخص کا وعدہ اس طرح کا ہے کہ اس نے شام کا وقت بتلادیا ہے تو یہ ایمان کی کمزوری کی وجہ سے تردد نہیں بلکہ اس کی کیفیت اور مقدار نہ معلوم ہونے کی وجہ سے تردد ہےـ جس کی وجہ طبعی کمزوری ہے ـ اگر دعوت کرنے والے کا بھی ایسا وعدہ ہو تو اس سے زیادہ تردد ہوجائےـ البتہ اگر یہ وعدہ ہوتا کہ دونوں وقت پکی پکائی مل جایا کرے گی اور پھر بھی تردد ہوتا تب بے شک ایمان کی کمزوری سمجھی جاتی....ہاں ایک ایمان کی کمزوری اور ہے وہ یہ کہ معصیت سے رزق ملے گا اور نیکی سے نہ ملے گاـ باقی طبعی طور پر اللہ کے بہت سے بندے بھی تنگی میں پریشان ہوجاتے ہیں اور بعض کافر تنگی کے باوجود بالکل مستقل مزاج بے فکر ہوتے ہیں ان پر اثر بھی نہیں ہوتا سو یہ طبعی ضعف اور طبعی قوت ہے نہ کہ ایمانی ضعف اور ایمانی قوت ـ
بعض اولیاء اللہ نے اسباب معیشت اختیار فرمائے ہیں اس لئے کہ وہ کمزور طبعیت کے تھے، ایمان کا قوی ہونا اور چیز ہے طبیعت کا قوی ہونا اور چیز ہےـ
(شعبان ملحقہ حقیقت عبادت ص: ۴۷۸)
رزق کے باب میں جس قدر طبیعت ضعیف ہوگی تردد اور احتمالات بہت ہوں گے، اور یہ ایمان کمزور ہونے کی دلیل نہیں، ہاں ایمان کمزور ہونے کی یہ دلیل ہے کہ رزق حاصل کرنے میں اس طرح منہمک ہو کہ حلال و حرام کی پروا نہ کرے ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کتاب: مال کمانے اور خرچ کرنے کے شرعی احکام (صفحہ ۴۲، ۴۴ )
انتخاب و ترتیب: محمد زید مظاہری ندوی
ناقل: عبدالرحمن
بسلسلہ: کتب سے اقتباسات ٹیلی گرام چینل
ناقل: دلاورحسین
-----------------------------
اس دنیا کو اللہ نے ترتیب سے بنایا ہے اللہ چاہتا تو ایک ہی امر کن سے اس دنیا کو قائم کرتا لیکن انسانوں کے لیے یہ مثال ہے کہ ہر کام ترتیب سے کیا جائے۔ بلا ترتیب کام کا کوئی معیار نہیں ہوتا۔ اپنے وقت کو منظم کریں اور کاموں کو ترتیب وار کریں۔۔
https://saagartimes.blogspot.com/2021/12/blog-post_88.html
No comments:
Post a Comment