Thursday, 16 December 2021

شریعت اسلامیہ میں مرد وعورت کلئے ”غض بصر“ کے حکم کا تحقیقی جائزہ

شریعت اسلامیہ میں مرد وعورت کیلئے ”غض بصر“ کے حکم کا تحقیقی جائزہ

 اسلام پاک وصاف معاشرے کی تعمیر اور انسانی اخلاق وعادات کی تہذیب کرتا ہے اور اپنے ماننے والوں کی تہذیب اور پُرامن معاشرے کے قیام کے لیے جو اہم تدیبر کرتا ہے، وہ انسانی جذبات کو ہر قسم کے ہیجان سے بچاکر پاکیزہ زندگی کا قیام ہے. چنانچہ اسی سلسلے میں اسلام نے حفاظتِ نظر پر زور دیا ہے؛ چونکہ بدنظری تمام فواحش کی بنیاد ہے، اس لئے قران وحدیث سب سے پہلے اس کی گرفت کرتے ہیں۔

ارشاد باری تعالی ہے:

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ (۱)

ترجمہ: ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کو بھی محفوظ رکھیں، یہ ان کے لئے بہت پاکیزہ ہے، بیشک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔ اور اسی طرح عورتوں کو بھی غض بصر کا حکم دیاگیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ (۲)

ترجمہ: اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں!

حقیقت یہ ہے کہ ”بدنظری“ ہی ”بدکاری“ کے راستے کی پہلی سیڑھی ہے۔ اسی وجہ سے ان آیات میں نظروں کی حفاظت کے حکم کو ”حفاظتِ فرج“ کے حکم پر مقدم رکھا گیا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ نے ”بدنظری” سے منع کیا اور اس کا فائدہ یہ بتایا کہ اس سے شہوت کی جگہوں کی حفاظت ہوگی نیز یہ چیز تزکیہٴ قلوب میں بھی معاون ہوگی ۔ ”غضِ بصر“ کا حکم ہر مسلمان کو دیا گیا ہے۔ نگاہ نیچی رکھنا فطرت اور حکمتِ الٰہی کے تقاضے کے مطابق ہے؛ اس لئے کہ عورتوں کی محبت اور دل میں ان کی طرف خواہش فطرت کا تقاضا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاءِ (۳)

”لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت نے فریفتہ کیا ہوا ہے جیسے عورتیں“۔ آنکھوں کی آزادی اور بے باکی خواہشات میں انتشار پیدا کرتی ہے۔ ایک حدیث میں بدنظری کو آنکھو ں کا زنا قرار دیا گیا. ارشاد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

فَزِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ (۴) ”آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے“۔

راستے میں مجلس جماکر بیٹھنے سے اسی وجہ سے منع کیا گیا ہے کہ وہ عام گزر گاہ ہے، ہرطرح کے آدمی گزرتے ہیں، نظر بے باک ہوتی ہے ،ایسا نہ ہو کہ کسی پر نظر پڑے اور وہ برائی کا باعث بن جائے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ایک دفعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ راستوں پر بیٹھنے سے پرہیز کرو! صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنی مجبوری پیش کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تم کو جب کوئی مجبوری ہو تو راستہ کا حق ادا کرو! صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سوال کیا راستہ کا حق کیا ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

غَضُّ الْبَصَرِ وَکَفُّ الْأَذَی وَرَدُّ السَّلَامِ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیُ عَنْ الْمُنْکَرِ (۵)

”نگاہ نیچی رکھنا، اذیت کا رد کرنا، سلام کا جواب دینا، اور بھلی بات کاحکم دینا اور بری بات سے منع کرنا“۔ حدیث میں نظر کو شیطانی زہرآلود تیر قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

النَّظْرَةُ سَہْمٌ مَسْمُومٌ مِنْ سِہَامِ إبْلِیسَ مَنْ تَرَکَہَا مِنْ مَخَافَتِی أَبْدَلْتہ إیمَانًا یَجِدُ حَلَاوَتَہُ فِی قَلْبِہِ (۶)

”بدنظری شیطان کے زہرآلود تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے، جو شخص اس کو میرے خوف کی وجہ سے چھوڑ دے، میں اس کو ایک ایسی ایمانی قوت دوں گا، جس کی شیرینی وہ اپنے دل میں پائے گا“۔ نگاہ کا غلط استعمال بہت سارے فتنوں اور آفتوں کا بنیادی سبب ہے ۔چونکہ دل میں تمام قسم کے خیالات و تصورات اور اچھے بُرے جذبات کا برانگیختہ و محرک ہونا، اسی کے تابع ہے؛ اس لئے اسلام میں نگاہوں کو نیچا رکھنا اور ان کی حفاظت کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ بدنظری کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس سے حسرت وافسوس اور رنج وغم کی کیفیت ہوجاتی ہے۔ کئی دفعہ نظر کا تیر دیکھنے والے کو خود ہی لگ کر اس کے دل ودماغ کو زخمی کردیتا ہے۔

حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ (م ۷۵۱ھ) لکھتے ہیں:

کُلُّ الْحَوَادِثِ مَبْدَاُہَا مِنَ النَّظَرِ

وَمُعْظَمُ النَّارِ مِنْ مُسْتَصْغَرِ الشَّرَرِ

کَمْ نَظْرَةٍ بَلَغَتْ فِی قَلْبِ صَاحِبِہَا

کَمَبْلَغِ السَّہْمِ بَیْنَ الْقَوْسِ وَالْوَتَرِ

یَسُرُّ مُقْلَتَہُ مَا ضَرَّ مُہْجَتَہُ

لَا مَرْحَبًا بِسُرُورٍ عَادَ بِالضَّرَرِ

یَا رَامِیًا بِسِہَامِ اللَّحْظِ مُجْتَہِدًا 

أَنْتَ الْقَتِیلُ بِمَا تَرْمِی فَلَا تُصِبِ

یَا بَاعِثَ الطَّرْفِ یَرْتَادُ الشِّفَاءَ لَہُ        

اِحْبِسْ رَسُولَکَ لَا یَأْتِیکَ بِالْعَطَبِ (۷)

ترجمہ: تمام حادثات کی ابتدا نظر سے ہوتی ہے، اور بڑی آگ چھوٹی چنگاریوں سے ہوتی ہے، کتنی ہی نظریں ہیں جو نظروالے کے دل میں چبھ جاتی ہیں، جیساکہ کمان اور تانت کے درمیان تیر ہوتا ہے، اس کی آنکھ ایسی چیز سے خوش ہورہی ہے جو اس کی روح کے لئے نقصان دہ ہے۔ ایسی خوشی جو ضرر کو لائے، اس کے لئے خوش آمدید نہیں ہے۔ اے نظر کا تیر چلانے میں کوشش کرنے والے! اپنے چلائے ہوئے تیر سے توہی قتل ہوگا! اے نظر باز! تو جس نظر سے شفا کا متلاشی ہے، اپنے قاصد کو روک! کہیں یہ تجھی کو ہلاک نہ کردے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کا کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا کہ نگاہ کا غلط استعمال انسان کے لئے نقصان دہ ہے۔ اسی لئے شریعت نے عفت وعصمت کی حفاظت کے لئے ”غضِ بصر“ کا حکم دیا ہے۔ قرآن کریم میں مردوں اور عورتوں دونوں کو ”غضِ بصر“ کا حکم دیا گیا؛ مگر جمہور فقہا ء نے اس حکم میں مرد وعورت کے درمیان فرق کیا ہے. پہلے مردوں کے لئے غض بصر کے حکم میں اہل علم کا موقف ذکر کرکے پھر عورتوں کے لئے اس حکم کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔

مردوں کے لئے غضِ بصر کا حکم:

(۱) اس پر اجماع ہے کہ مرد کے لئے دوسرے مرد کے ستر کے علاوہ پورے جسم کی طرف نظر کرنا جائز ہے۔(۸)

(۲) اس پر بھی اہل علم کا اجماع ہے کہ بے ریش لڑکے کو لذت اور اس کی خوبصورتی سے متمتع ہونے کے ارادہ سے دیکھنا حرام ہے۔ (۹)

مردوں کا عورتوں کی طرف دیکھنے کی تین صورتیں ہیں:

(۱) مرد کا اپنی بیوی کو دیکھنا جائز ہے۔

(۲) مرد اپنی ذی محرم عورتوں کے مواضع زینت کو دیکھ سکتا ہے اور حنفیہ کے نزدیک مواضعِ زینت میں، سر، چہرہ، کان، گلا، سینہ، بازو، کلائی، پنڈلی، ہتھیلی اور پاؤں شامل ہے۔ (۱۰)

(۳) مرد کا اجنبیہ عورت کی طرف نظر کرنا، اس میں تفصیل ہے:

$   اگر مرد کسی عورت سے شادی کا ارادہ رکھتا ہے تو اُس کے لئے اس عورت کا چہرہ دیکھنا جائز ہے.

امام کاسانی رحمۃ اللہ علیہ (م ۵۸۷ھ) لکھتے ہیں:

وکذا إذا أراد أن یتزوج امرأة فلا بأس أن ینظر إلی وجہہا (۱۱)

”اور اسی طر ح جو شخص کسی عورت سے شادی کرنا چاہتا ہو تو اس کے لئے کوئی حرج نہیں کہ وہ اس عورت کے چہرے کی طرف دیکھے“؛ بلکہ ایسی عورت کے چہرہ کی طرف نظر کرنے میں جمہور فقہاء کا اتفاق ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ (م ۶۷۶ ھ) مخطوبہ کی طرف جواز نظر والی حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

وفیہ استحباب النظر إلی وجہ من یرید تزوجہا وہو مذہبنا ومذہب مالک وأبی حنیفة وسائر الکوفیین وأحمد وجماہیر العلماء (۱۲)

”اور اس حدیث میں اس عورت کے چہرے کی طرف نظر کرنا اس شخص کے لئے مستحب ہے جو نکاح کا ارادہ رکھتا ہو اور یہی ہمارا مذہب ہے اور مالک، ابوحنیفہ، تمام اہلِ کوفہ اور احمد سمیت جمہور علماء کا ہے.

$   طبیب بغرضِ علاج اجنبیہ کو دیکھ سکتا ہے۔

امام رازی رحمۃ اللہ علیہ (م ۶۰۶ ھ) لکھتے ہیں:       

یجوز للطبیب الأمین أن ینظر إلیہا للمعالجة (۱۳)

”شریف الطبع طبیب کے لئے عورت کی طرف بغرضِ علاج نظر کرنا جائز ہے“۔  

$   گواہ عورت کے خلاف گواہی دیتے وقت اور قاضی عورت کے خلاف فیصلہ کرتے وقت اس کا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔ علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ (م ۱۰۸۸ ھ) لکھتے ہیں:

فإن خاف الشہوة أو شک امتنع نظرہ إلی وجہہا ․․․․․․․․ إلا النظر لحاجة کقاض وشاہد یحکم ویشہد علیہا (۱۴)

”پس اگر شہوت کا خوف ہو یا شہوت کا شک ہو تو اس صورت میں عورت کے چہرے کی طرف دیکھنا ممنوع ہے؛ البتہ ضرورت کے وقت، دیکھنا جائز ہے، مثلا قاضی کا فیصلہ سناتے یا گواہ کا گواہی دیتے وقت دیکھنا“۔

$   ہنگامی حالات میں، مثلا کوئی عورت پانی میں ڈوب رہی ہے یا آگ میں جل رہی ہے تو اس کی جان بچان کے لئے اس کی طرف دیکھا جاسکتا ہے۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

لو وقعت فی غرق أو حرق فلہ أن ینظر إلی بدنہا لیخلصہا (۱۵)

”اگر عورت پانی میں ڈوب رہی ہو یا آگ میں جل رہی ہو تو اس کی جان بچانے کے لئے اس کے بدن کی طرف دیکھنا جائز ہے.“ اور اسی کے ساتھ لاحق کرتے ہوئے مزید یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ زلزلہ وسیلاب، چھتوں کا گرجانا، آسمانی بجلی کا گرنا، چوری ڈکیتی کے وقت بھی افراتفری کے عالم میں یہی حکم ہوگا۔

 $   معاملہ کرتے وقت یعنی، اشیاء کے لینے و دینے اور خریدوفروخت کے وقت بھی عورت کے چہرے کی طرف نظر کی جاسکتی ہے۔ امام کاسانی لکھتے ہیں:

لأن إباحة النظر إلی وجہ الأجنبیة وکفیہا للحاجة إلی کشفہا فی الأخذ والعطاء (۱۶)

”اشیاء کے لینے اور دینے کی ضرورت کی وجہ سے اجنبیہ کے چہرے کی طرف نظر کرنا جائز ہے“۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

جواز النظر للحاجة عند البیع والشراء (۱۷)

”خرید وفروخت کی ضرورت کے وقت عورت کی طرف نظر کرنا جائز ہے“۔ اور اس کی وجہ یہی ہے کہ بائع یا مشتری معاملہ کرتے وقت اس عورت کو پہچان لے؛ تاکہ اگر کسی وجہ سے چیز واپس کرنی پڑے کسی نقصان وضرر کے وقت، یا بعد میں قیمت وصول کرنی ہو تو دوسر ی عورتوں سے الگ شناخت کی جاسکے۔ (۱۸) جبکہ بعض اہل علم کی رائے میں خرید وفروخت کے وقت عورت کا چہرہ کھولنا یا مرد کا دیکھنا جائز نہیں ہے؛ اس لئے کہ یہ ایسی ضرورت نہیں ہے کہ جس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو؛ چونکہ عورتیں بیع وشرا نقاب وحجاب کے ساتھ بھی کرسکتی ہیں (۱۹)۔ اور یہی بات عصرِحاضر کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہے؛ اس لئے کہ آج کل تو باقاعدہ خریدی ہوئی چیز کی رسید مل جاتی ہے، جس سے اس چیز کے واپس کرنے میں مزید کسی شناخت کی ضرورت نہیں ہے. مذکورہ بالا صورتوں کے علاوہ بغیر کسی حاجت اور ضرورت کے اجنبیہ کی طرف دیکھنے میں جمہور فقہاء اور حنفیہ کے درمیان اختلاف ہے۔ حنفیہ کے نزدیک فتنہ اور شہوت سے بے خوف ہونے کی صورت میں اجنبیہ عورت کی طرف دیکھنا جائز ہے؛ مگر ائمہٴ ثلاثہ کے نزدیک فتنہ اور شہوت کا خوف ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں بلاضرورت اجنبیہ عورت کی طرف دیکھنا ناجائز ہے۔ ائمہ کے موقف کی تفصیل اور دلائل کے نقل کرنے سے پہلے ضرور ی ہے کہ فتنہ اور شہوت کا مفہوم واضح کیا جائے؛ تاکہ با ت کا سمجھنا آسان ہو۔

فتنہ کا معنی:

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ (م ۱۲۵۲ ھ) لکھتے ہیں:

(قولہ بل لخوف الفتنة) أی الفجور بہا قاموس أو الشہوة (۲۰) فتنہ سے مراد گناہ یا شہوت ہے۔

شہوت کی تعریف:

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

أنہا میل القلب مطلقا (۲۱)

”شہوت دل کے مائل ہونے کا نام ہے.“ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

بیان الشہوة التی ہی مناط الحرمةأن یتحرک قلبُ الإنسان ویمیلَ بطبعہ إلی اللذة (۲۲)

”شہوت کا بیان جس پر حرمت کا مدار ہے، وہ یہ کہ انسان کے دل میں حرکت پیدا ہو اور طبیعت لذت کی طرف مائل ہوجائے“ ۔

مذکورہ بالا تعریفات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ کسی خوبصورت چہرے کی طرف دیکھنے سے (خواہ وہ عورت کا ہو یا بے ریش لڑکے کا) دل کی کیفیات کا متحرک ہونا اور قلبی میلان ورجحان کے ساتھ طبیعت کا حصول لذت کی طرف مائل ہونا شہوت کہلاتا ہے۔ جمہور علماء کا تفصیلی موقف درج ذیل ہے۔

مالکیہ کاموقف:

علامہ ابن رشد مالکی (م ۵۲۰ ھ)

ولا یجوز لہ أن ینظر إلی الشابة إلا لعذر من شہادة أو علاج (۲۳)

”اور مرد کے لئے جائز نہیں کہ وہ نوجوان عورت کی طرف نظر کرے سوائے گواہی یا علاج وغیرہ کی مجبوری حالت کے۔

قاضی امام ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ مالکی (م ۵۴۳ھ) لکھتے ہیں:

لا یحل للرجل ان ینظر الی المرأة (۲۴)

” آدمی کے لئے حلال نہیں کہ وہ عورت کی طرف دیکھے“۔

شوافع کا موقف:

امام ابواسحاق شیرازی رحمۃ اللہ علیہ (م ۴۷۶ھ) لکھتے ہیں:

وأما من غیر حاجة فلا یجوز للأجنبی أن ینظر إلی الأجنبیة (۲۵)

”اور بہرحال بلاضرورت اجنبی کے لئے جائز نہیں کہ وہ اجنبیہ کی طرف دیکھے“۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ (م ۵۰۵ ھ) لکھتے ہیں:

نظر الرجل الی المراة․․․․ وان کانت اجنبیة حرم النظرالیہا مطلقا (۲۶)

”اگر عورت اجنبیہ ہو تو اس کی طرف نظر کرنا مطلقاً حرام ہے.“

حنابلہ کا موقف:

شیخ الاسلام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ (م۶۲۰ھ) لکھتے ہیں:

فأما نظر الرجل إلی الأجنبیة من غیر سبب فإنہ محرم إلی جمیعہا فی ظاہر کلام أحمد (۲۷)

”امام احمد کے ظاہری کلام کے مطابق آدمی کا اجنبیہ عورت کے پورے جسم کی طرف بلاوجہ دیکھنا حرام ہے.“ 

جمہور فقہاء کے دلائل:

۱- آیت کریمہ:

ِقُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ (۲۸)

”ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں“۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ (م ۲۰۴ھ ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

فرض اللہ علی العینین أن لا ینظر بہما إلی ماحرم اللّٰہ، وأن یغضہما عما نہاہ (۲۹)

”اللہ تعالی نے آنکھوں پر فرض کیا کہ وہ نہ دیکھیں اس چیز کو جس کا دیکھنا اللہ نے حرام قرار دیا، اور جس کے دیکھنے سے منع کیا، وہاں آنکھوں کو جھکایا جائے“۔

۲- آیت کریمہ:

وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسَْلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَاء ِ حِجَابٍ (۳۰)

”اور جب تمہیں ان (نبی کی بیویوں) سے کوئی چیز مانگنا (یا کچھ پوچھنا) ہو تو تم پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ امام قرطبی (م ۶۷۱ ھ) لکھتے ہیں:

فی ہذہ الآیة دلیل علی أن اللّٰہ تعالی أذن فی مسألتہن من وراء حجاب، فی حاجة تعرض، أو مسألة یستفتین فیہا، ویدخل فی ذلک جمیع النساء بالمعنی (۳۱)

”یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی نے ازواج مطہرات سے ضرورت پڑنے پر پردے کے پیچھے سے سوال کرنے یا مسئلہ پوچھنے کی اجازت دی ہے۔ اور اس حکم میں تمام مسلمان عورتیں داخل ہیں“۔ معلوم ہوا مردوں کے لئے عورتوں کو دیکھنا جائز نہیں؛ اسی لئے پردے کی آڑ میں عورتوں سے سوال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

۳- حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ کی روایت:

إنَّ اللَّہَ إذَا کَتَبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ حَظَّہُ مِنْ الزِّنَا أَدْرَکَ ذَلِکَ لَا مَحَالَةَ فَالْعَیْنَانِ تَزْنِیَانِ، وَزِنَاہُمَا النَّظَرُ، وَالْیَدَانِ تَزْنِیَانِ وَزِنَاہُمَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلَانِ تَزْنِیَانِ وَزِنَاہُمَا الْمَشْیُ؛ وَالنَّفْسُ تَمَنَّی وَتَشْتَہِی وَالْفَرْجُ یُصَدِّقُ ذَلِکَ أَوْ یُکَذِّبُہُ (۳۲)

”بے شک اللہ تعالی نے ابن آدم پر زنا کا حصہ لکھ دیاہے جس کو وہ یقینا پائے گا ۔پس آنکھیں زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا دیکھنا ہے اور ہاتھ زنا کرتے ہیں ان کا زنا پکڑنا ہے۔ اور پاؤں زنا کرتے ہیں ان کا زنا چلنا ہے اور نفس زنا کی تمنا کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب“ ۔

۴- نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:       

یَا عَلِیُّ لَا تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ، فَإِنَّ لَکَ الْأُولَی وَلَیْسَتْ لَکَ الآخِرَةُ (۳۳)

”اے علی! نظر کی پیروی مت کر؛ اس لئے کہ پہلی نظر تو جائز ہے؛ مگر دوسری نگاہ جائز نہیں“۔ 

۵- حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:

أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم َأَرْدَفَ الْفَضْلَ فَاسْتَقْبَلَتْہُ جَارِیَةٌ مِنْ خَثْعَمٍ فَلَوَی عُنُقَ الْفَضْلِ فقَالَ اَبوُہ الْعَبَّاسُ لَوَیْتَ عُنُقَ ابْنِ عَمِّکَ قَالَ رَأَیْتُ شَابًّا وَشَابَّةً فَلَمْ آمَنِ الشَّیْطَانَ عَلَیْہِمَا (۳۴)

”بے شک نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھایا آپ کو قبیلہ خثعم کی ایک لڑکی ملی، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل رضی اللہ عنہ کی گردن دوسری طرف پھیردی، اس پر ان کے والد عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے اپنے چچازاد بھائی کی گردن کیوں پھیردی؟ آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا میں نے نوجوان مرد اور عورت کو دیکھا تو میں ان پر شیطان سے بے خوف نہیں ہوا۔

۶- حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اچانک نظر پڑجائے تو کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا:

أَنْ أَصْرِفَ بَصَرِی (۳۵)

”میں اپنی نظر پھیرلوں“ 

۷- وہ احادیث جن میں نکاح سے پہلے عورت کی طرف دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ (۳۶) اگر عورتوں کی طرف نظر کرنا مطلقاً مباح ہوتا تو پھر نکاح کے ارادہ کے ساتھ دیکھنے کی تخصیص کیوں کی گئی؟ (۳۷)

یہ تمام دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اجنبیہ عورت کی طرف بلاضرورت دیکھنا ناجائز ہے؛ چنانچہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مردوں کے لئے غض بصر کا حکم لازمی ہے. اور استثنائی صورتوں کے علاوہ اجنبیہ عورت کے چہرے کی طرف دیکھنا مطلقاً حرام ہے۔ فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

ومنہم من جوز النظر الی الوجہ حیث تومن الفتنة․․․․․ وہو بعید لان الشہوة وخوف الفتنة امر باطن فالضبط بالأنوثة التی ہی من الاسباب الظاہرة أقرب الی المصلحة (۳۸)

”بعض حضرات نے فتنہ سے امن میں ہونے کی صورت میں عورت کا چہرہ دیکھنے کو جائز قرار دیا ہے اور وہ بعید ہے؛ اس لئے کہ شہوت اور فتنہ کا خوف باطنی معاملہ ہے، لہٰذا موٴنث کے ساتھ حکم کو منضبط کرنا یہ اسباب ظاہرہ میں سے ہے اور مصلحت کے زیادہ قریب ہے“۔ اما م غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی مذکورہ عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر عورت کی طرف نظر کرنے کو فتنہ سے امن میں ہونے کی صورت میں جائز قرار دیا جائے تو ایسا ممکن نہیں ہے؛ اس لئے کہ شہوت اور فتنہ کے خوف کا تعلق انسان کے ظاہر سے نہیں؛ بلکہ باطن سے ہے اور کسی کے باطن میں کیا ہے؟ کو ئی دوسرا فرد نہیں جانتا؛ چنانچہ فتنہ کے خوف کو ضابطہ بنانے کی بجائے اگر یہ ضابطہ بنایا جائے کہ عورت کی طرف بلاوجہ نظر کرنا ہی جائز نہیں، یہ اسباب ظاہرہ اور مصلحت کے زیادہ قریب ہے۔ مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ دیوبندی احکام القرآن للتھانوی میں لکھتے ہیں:

”اور اجنبیہ عورت کے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف نظر کرنا، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک حرام ہے۔ خواہ فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو۔ اور ان حضرات کا خیال ہے کہ خوبصورت چہرے کی طرف دیکھنا فتنہ کو لازم کرتا ہے اور عام طور پر دل میں میلان پیدا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا، اجنبیہ کی طرف نظر کرنا، خود فتنہ کے قائم مقام ہے. جس طرح کہ نیند کو خروج ریح کے احتمال کی وجہ سے اس کے قائم مقام کردیا گیا ہے. اور محض سونے سے وضو کے ٹوٹنے کا حکم لگادیا جاتا ہے خواہ ریح کا خرو ج ہو یا نہ ہو اور اسی طرح خلوت صحیحہ عورت کے ساتھ وطی کے قائم مقام ہے تمام احکام میں (۳۹) عام ازیں کہ اس خلوت میں وطی پائی گئی ہو یا نہ پائی گئی ہو“ (۴۰)۔ 

(’’خلوتِ صحیحہ‘‘  بعض احکام میں وطی (صحبت) کے قائم مقام ہے اور بعض میں نہیں ہے، خلوتِ صحیحہ مہر کی تاکد، نسب کے ثبوت، عدت، نفقہ، سکنی، منکوحہ کی بہن سے نکاح کی حرمت، چار عورتوں کی موجودگی میں پانچویں سے نکاح، عورت کے حق میں طلاق کے وقت کی رعایت، خلوت کے بعد عدت میں دوسری طلاق کے واقع ہونے وغیرہ میں وطی (صحبت) کے قائم مقام ہے۔ جب کہ غسل کے وجوب، زنا میں محصن ہونے کے لئے، منکوحہ کی بیٹیوں سے نکاح حرام ہونے میں، تین طلاق کے بعد پہلے شوہر کے لئے حلال ہونے میں، رجوع اور میراث وغیرہ میں ’’خلوتِ صحیحہ‘‘ وطی کے قائم مقام نہیں ہے. حوالہ: ▪الفتاوى الهندية (1/ 306) ▪الدرالمختار مع ردالمحتار 3/117 ▪فتوی جامعہ بنوری ٹاون کراچی 144008201307 (صححہ: #ایس_اے_ساگر) معلوم ہوکہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مرد کے لئے عورت کے چہرے کی طرف بلاضرورت نظر کرنا جائز نہیں، اور اس کی وجہ یہ ذکر کی گئی ہے کہ اکثر حالات میں خوبصورت عورت کا چہرہ دیکھ کر انسان اس کی طرف مائل ہوکر فتنہ میں واقع ہوسکتا ہے۔ لہٰذا جس طرح، نیند کو خروج ریح کے قائم مقام قرار دے کر وضو ٹوٹنے کا حکم لگادیا جاتا ہے خواہ ہوا خارج ہو یا نہ ہو۔ اور خلوت صحیحہ (۴۱) میں وطی نہ پائی گئی ہو؛ مگر اس خلوت کو وطی کے قائم مقام کرکے احکام جاری کئے جاتے ہیں (۴۲) اسی طرح عورت کی طرف نظر کرنے سے انسان فتنہ میں پڑسکتا ہے، لہٰذا اجنبیہ کی طرف نظر کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص فتنہ میں واقع ہوجائے۔

حنفیہ کا مؤقف:

حنفیہ کے نزدیک بلاشہوت اجنبیہ عورت کے چہرہ اور ہتھیلی کی طرف نظر کرنا جائز ہے۔ امام ابوبکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ (م۳۷۰ھ) لکھتے ہیں:

جاز للأجنبی أن ینظر من المرأة إلی وجہہا ویدیہا بغیر شہوة (۴۳)

”اجنبی کے لئے جائز ہے کہ وہ بغیر شہوت کے عورت کے چہرہ اور ہتھیلیوں کی طرف دیکھے“۔ امام کاسانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

فلا یحل النظر للأجنبی من الأجنبیة الحرة إلی سائر بدنہا إلا الوجہ والکفین (۴۴)

”اجنبی کے لئے آزاد جنبیہ کے چہرہ اور ہتھیلیوں کے علاوہ باقی بدن کی طرف نظر کرنا حلال نہیں ہے“۔ صاحب ہدایہ علامہ مرغینانی رحمۃ اللہ علیہ (م ۵۹۳ ھ) لکھتے ہیں:

ولا یجوز أن ینظر الرجل إلی الأجنبیة إلا وجہہا وکفیہا (۴۵)

”اور آدمی کے لئے جائز نہیں کہ وہ اجنبیہ کی طرف دیکھے سوائے چہرہ اور ہتھیلی کے“۔

حنفیہ کے دلائل:

۱- ارشاد باری تعالی ہے:

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ (۴۶)

”ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں“۔ اس آیت میں مردوں کو غض بصر کا حکم دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اجنبیہ کی طرف دیکھنا بالکل جائز نہیں؛ مگر حنفیہ نے سورة النور کی درج ذیل آیت کی وجہ سے چہرے اور ہتھیلیوں کا استثناء کیا ہے۔

وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا (۴۷)

”اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں؛ مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے“۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ”اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا“ کی تفسیر سرمہ اور انگوٹھی سے کی ہے (۴۸)۔ سرمہ چونکہ آنکھ میں ڈالا جاتا ہے اور انگوٹھی ہاتھ میں ہوتی ہے؛ لہٰذا زینت ظاہر ہ سے مراد چہرہ اور ہتھیلی ہے۔ اور حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ سے دوسری روایت بھی ہے جس میں آپ نے ”اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا“ کی تفسیر ہتھیلی اور چہرہ سے کی ہے (۴۹)۔ چہرہ اور ہتھیلیوں کے علاوہ باقی اعضاء اسی نہی کے حکم میں داخل ہیں (۵۰)۔ چنانچہ اجنبی مرد کے لئے اجنبیہ کے چہرے اور ہتھیلیوں کے علاوہ باقی جسم کی طرف نظر کرنا حلال نہیں؛ لیکن اگر عورت کی طرف نظر کرنے میں شہوت کا اندیشہ ہو تو پھر عورت کے چہرے کو دیکھنا حلال نہ ہوگا۔ امام شمس الائمہ سرخسی (م ۴۸۳ ھ) اس مسئلہ پر بڑی تفصیلی بحث کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

وہذا کلہ إذا لم یکن النظر عن شہوة فإن کان یعلم أنہ إن نظر اشتہی لم یحل لہ النظر إلی شیء منہا․․․․․ وکذلک إن کان أکبر رأیہ أنہ إن نظر اشتہی لأن أکبر الرأی فیما لا یتوقف علی حقیقتہ کالیقین (۵۱)

”اور یہ ساری تفصیل اس وقت ہے جب مرد کی وہ نظر شہوت سے نہ ہو؛ لیکن اگر وہ یہ جانتا ہو کہ اگر اس نے عورت کی طرف نظر کی تو اس کے دل میں اس کی طرف رغبت پیدا ہوجائے گی تو ایسی صورت میں اس مرد کے لئے عورت کے کسی عضو کو بھی دیکھنا حلال نہ ہوگا۔ یہی حکم اس صورت میں ہے جب مرد کی غالب رائے یہ ہو کہ اگر اس نے عورت کی طرف نظر کی تو اس کے دل میں اس کی طرف میلان ہوجائے گا؛ کیونکہ جس چیز کی حقیقت پر مطلع نہ ہوسکتے ہوں، اس کے اندر غالب رائے یقین کا درجہ رکھتی ہے“۔ امام کاسانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

إنما یحل النظر إلی مواضع الزینة الظاہرة منہا من غیر شہوة فأما عن شہوة فلا یحل لقولہ علیہ الصلاة والسلام اَلْعَیْنَانِ تَزْنِیَانِ (۵۲) ولیس زنا العینین إلا النظر عن شہوة ولأن النظر عن شہوة سبب الوقوع فی الحرام فیکون حراما إلا فی حالة الضرورة (۵۳)

”بے شک زینت ظاہرہ کی جگہوں کی طرف نظر اس وقت حلال ہے جب وہ بغیر شہوت کے ہو اور اگر وہ نظر شہوت سے ہو تو پھر حلال نہ ہوگی ،اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آنکھیں زنا کرتی ہیں“ اور آنکھوں کا زنا شہوت والی نظر سے ہوتا ہے۔ اور شہوت بھری نظر حرام میں واقع ہونے کا سبب ہے، لہٰذا وہ حرام ہوگی سوائے مجبوری کی حالت میں۔

۲- نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من نَظرَ إِلَی محَاسِن امْرَأَة أَجْنَبِیَّة عَن شَہْوَة صُبَّ فِی عَیْنَیْہِ الآنک یَوْمَ القِیَامَةِ (۵۴)

”جس شخص نے شہوت کے ساتھ کسی اجنبی عورت کے محاسن کی طرف نظر کی تو قیامت کے دن اس کی آنکھوں میں سیسہ ڈالا جائے گا“۔ مذکورہ بالا دلائل کی بناء پر حنفیہ کے نزدیک فتنہ اور شہوت کا خوف نہ ہونے کی صورت میں عورت کے چہرہ کی طرف نظر کی جاسکتی ہے. اور اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو پھر عورت کا چہرہ دیکھنا منع ہوگا اس لئے کہ عورت کی اصل خوبصورتی تو اس کے چہرہ میں ہوتی ہے۔ امام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

ولأن حرمة النظر لخوف الفتنة وعامة محاسنہا فی وجہہا فخوف الفتنة فی النظر إلی وجہہا أکثر منہ إلی سائر الأعضاء (۵۵)

”اور بے شک دیکھنے کی حرمت فتنہ کے خوف کی وجہ سے ہے اور عورت کے اکثر محاسن اس کے چہرے ہی میں ہوتے ہیں؛ اس لئے دوسرے اعضاء کی طرف دیکھنے کے مقابلے میں چہرہ کی طرف دیکھنے میں فتنہ کا خوف زیادہ ہے“۔ اور اگر فتنہ کاخوف نہیں ہے تو پھر عورت کی طرف دیکھنا بھی حرام نہیں ہے؛ مگر چونکہ اس زمانے میں بے راہ روی اور عریانی وفحاشی کاسیلاب نہایت تیزی کے ساتھ بڑھتاجارہا ہے اور اس شرط کا فی زمانہ پایا جانا مشکل ہے؛ اس لئے متاخرین حنفیہ (۵۶) نے مطلقاً عورت کے چہرے کی طرف دیکھنے سے منع کیا ہے۔ علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

فإن خاف الشہوة أو شک امتنع نظرہ إلی وجہہا فحل النظر مقید بعدم الشہوة وإلا فحرام وہذا فی زمانہم وأما فی زماننا فمنع من الشابة قہستانی وغیرہ إلا النظر لحاجة کقاض وشاہد یحکم ویشہد علیہا (۵۷)

”پس اگر شہوت کا خوف ہو یا شہوت کا شک ہو تو اس صورت میں عورت کے چہرے کی طرف دیکھنا ممنوع ہے۔ پس نظر کاحلال ہونا مقید ہے شہوت نہ ہونے کے ساتھ وگرنہ حرام ہے۔ یہ حکم ان پہلے فقہاء کے زمانے کا ہے۔ اور جہاں تک ہمارے اس دور کا تعلق ہے، اس میں تو نوجوان عورت کی طرف نظر کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے. قہستانی وغیرہ؛ البتہ ضرورت کے وقت، دیکھنا جائز ہے، مثلا قاضی کا فیصلہ سناتے وقت دیکھنا یا گواہ کا عورت کے خلاف گواہی دیتے وقت دیکھنا “۔ مذکورہ بالا بحث سے معلوم ہوا کہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مرد کے لئے عورت کی طرف بلاضرورت دیکھنا ناجائز نہیں، اور متقدمین حنفیہ کے نزدیک فتنہ سے مامون ہونے کی صورت میں مرد کے لئے عورت کی طرف دیکھنا جائز ہے؛ مگر چونکہ اب وہ حالات نہیں رہے، عریانی اور فحاشی بڑھتی جارہی ہے؛ اس لئے متاخرین حنفیہ کے نزدیک بلاضرورت مرد کا اجنبی عورت کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے؛چنانچہ اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب جمہور فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مرد کے لئے بلاضرورت عورت کی طرف دیکھنا ناجائز ہے۔

--------------------------

حواشی وحوالہ جات:

(۱) القرآن، النو:۳۰۔

(۲) القرآن، النور۳۱۔

(۳) القرآن،آل عمران:۱۴۔

(۴) البخاری ،محمد بن اسماعیل ا، الجامع الصحیح، بیروت، دار ابن کثیر الیمامہ ،۱۴۰۷ھ، جلد۵ ، صفحہ ۲۳۰۴۔

(۵) مسلم بن حجاج، امام، الصحیح، بیروت ،داراحیاء التراث العربی، جلد۴،صفحہ ۱۷۰۴۲۳۰۴۔

(۶) المنذری، عبدالعظیم، الترغیب والترھیب، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۷ھ ، جلد۳، صفحہ ۱۵۳۔

(۷) ابن قیم الجوزیہ، الجواب الکافی لمن سال عن الدواء الشافی، دارالمعرفت، ۱۴۱۸ھ، جلد۱، صفحہ ۱۵۳-۱۵۴۔

(۸) عبداللہ بن محمود الموصلی الحنفی ، الاختیار لتعلیل المختار، قاہرہ، مطبعہ الحلبی، ۱۳۵۶ ھ، جلد ۴، صفحہ ۱۵۴۔

الغزالی، محمد بن محمد، ابوحامد، الوسیط فی المذھب، قاہرہ، دارالسلام، ۱۴۱۷ھ، جلد ۵، صفحہ۲۹۔

(۹) شامی ابن عابدین، محمدامین، رد المحتار (حاشیہ ابن عابدین) بیروت، دارلفکرللطباعةوالنشر، جلد ۶، صفحہ ۳۷۱۔

(۱۰) برہان الدین محمود بن احمد، المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی، بیروت، دارلکتب العلمیہ، ۱۴۲۴ھ، جلد ۵، صفحہ ۳۳۱-۳۳۲، ابن قدامہ، عبداللہ بن احمد، المغنی، مکتبة القاہرہ، ۱۳۸۸ھ، جلد ۷، صفحہ ۹۸-۱۰۰، الخطیب الشربینی، محمد بن احمد الشافعی، مغنی المحتاج الی معرفة معانی الفاظ المنہاج، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ھ، جلد۴، صفحہ۲۱۴،۲۱۷۔الغزالی، الوسیط فی المذھب، جلد۵،صفحہ۳۱-۳۲، ابن جزی کلبی، محمد بن احمد،القوانین الفقیہ،ناشر نامعلوم، س ن، جلداول، صفحہ۲۹۴، محمد بن محمدالطرابلسی، المالکی، مواھب الجلیل فی شرح مختصر خلیل،بیروت، دارالفکر،۱۴۱۲ھ، جلد۳، صفحہ۴۰۶۔

(۱۱) الکاسانی، علاوالدین، البدائع والصنائع فی ترتیب الشرائع، بیروت، دارالکتاب العربی، ۱۹۸۲/، جلد ۵، صفحہ ۱۲۲، ابن قدامہ، المغنی، جلد ۷، صفحہ ۹۶، الطرابلسی، المالکی، مواھب الجلیل فی شرح مختصر خلیل، جلد ۳، صفحہ ۴۰۵، الشیرازی، ابراہیم بن علی، ابواسحاق، المہذب فی فقہ الامام الشافعی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، س ن، جلد۲، صفحہ ۴۲۴۔

(۱۲) لنووی، شرح صحیح مسلم، جلد ۹، صفحہ ۲۱۰۔

(۱۳) رازی، محمد بن عمر بن حسین ، ابوعبداللہ ، تفسیرالفخرالرازی، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ھ، جلد۲۳،صفحہ۳۶۲، الطرابلسی،المالکی، مواھب الجلیل فی شرح مختصر خلیل،جلد۳،صفحہ۴۰۵، حصکفی، علاوالدین ،درمختار ،بیروت، دارالفکر، ۱۳۸۶ ھ، جلد۶، صفحہ۳۷۰، ابن قدامہ،المغنی،جلد۷،صفحہ۱۰۱۔

(۱۴) حصکفی، الدرالمختار، جلد۶، صفحہ۳۷۰، الطرابلسی، المالکی، مواھب الجلیل فی شرح مختصر خلیل،جلد۳،صفحہ۴۰۵، الشیرازی، ابواسحاق ، المھذب، جلد ۲، صفحہ۴۲۵، ابن قدامہ، المغنی،جلد۷،صفحہ۱۰۱۔

(۱۵) رازی، تفسیر الفخرالرازی، جلد۲۳، صفحہ۳۶۲۔

(۱۶) الکاسانی، البدائع والصنائع ،جلد۵،صفحہ۱۲۲۔

(۱۷) النووی ،شرح صحیح مسلم ،جلد۹،صفحہ۲۱۰۔

(۱۸) درویش مصطفی حسن،فصل الخطاب فی مسئلة الحجاب والنقاب،قاہرہ ،دارالاعتصام،س ن،صفحہ ۷۳۔

(۱۹) ایضا، صفحہ ۷۳۔

(۲۰) شامی، ردالمحتارعلی الدرالمختار، جلد۱، صفحہ ۴۰۷۔

(۲۱) شامی، ردالمحتار علی الدرالمختار، جلد۱، صفحہ ۴۰۶۔

(۲۲) شامی،ردالمحتارعلی الدرالمختار،جلد۱،صفحہ۴۰۷۔

(۲۳) ابن رشد الجد،محمدبن احمد،المقدمات المھدات، بیروت، دارالغرب الاسلامی،۱۴۰۸ھ،جلد۳،صفحہ۴۶۰۔

(۲۴) ابن عربی،محمدبن عبداللہ، احکام القرآن، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۲۴ھ، جلد۳، صفحہ ۳۸۰۔

(۲۵) الشیرازی،ابو اسحاق ، المھذب ، جلد۲، صفحہ ۴۲۵۔

(۲۶) الغزالی، الوسیط فی المذھب، جلد۵، صفحہ۳۲۔

(۲۷) ابن قدامہ، المغنی،جلد۷، صفحہ۱۰۲۔

(۲۸) القرآن، النور:۳۰، الشیرازی،ابو اسحاق، المھذب، جلد ۲، صفحہ۴۲۵، ابن عربی، احکام القرآن، جلد ۳، صفحہ ۳۷۹، ابن رشد، البیان والتحصیل، جل د۱۸، صفحہ ۵۵۹۔

(۲۹) الشافعی، محمد بن ادریس ،تفسیرالامام الشافعی، المملکة العربیہ السعودیہ، دارالتدمریة، ۱۴۲۷ھ، جلد ۳، صفحہ ۱۱۳۷۔

(۳۰) القرآن، الاحزاب: ابن قدامہ، عبداللہ بن احمد، ابومحمد، المغنی، مکتبة القاہرہ، ۱۳۸۸ھ، جلد ۷، صفحہ ۱۰۲۔

(۳۱) القرطبی، محمد بن احمد بن ابی بکر، الجامع لاحکام القرآن، قاہرہ، دارالکتب المصریہ، ۱۳۸۴ھ، جلد ۱۴، صفحہ ۲۲۷۔

(۳۲) ابن عربی،احکام القرآن، جلد۳، صفحہ۳۸۰؛  مسلم، الصحیح، جلد۴، صفحہ ۲۰۴۷۔

(۳۳) ابن قدامہ، المغنی، جلد۷،صفحہ۱۰۲؛ ابن عربی،احکام القرآن،جلد۳،صفحہ۳۸۰؛ ابوداؤد،جلد۲،صفحہ۲۴۶؛ ابن ابی شیبہ، عبداللہ بن محمد،الکتاب المصنف فی الاحادیث والآثار، ریاض، مکتبة الرشید، ۱۴۰۹ھ،جلد۶،صفحہ۳۶۷۔

(۳۴) الشیرازی، ابواسحاق ، المھذب ، جلد۲،صفحہ۴۲۵؛ ابن رشد، البیان والتحصیل،جلد۱۸،صفحہ۵۵۹؛ ابن قدامہ، المغنی، جلد۷، صفحہ ۱۰۲؛ الترمذی ،ابوعیسی محمد بن عیسی،السنن،مصر،مطبع مصطفی البابی الحلبی،۱۳۹۵ھ، جلد۳،صفحہ۲۲۳؛ احمد بن حنبل، المسند، بیروت،موسسہ الرسالة، ۱۴۲۱ھ، جلد۲، صفحہ۶۔

(۳۵) ابن قدامہ، المغنی، جلد۷، صفحہ ۱۰۲؛ مسلم، جلد۳، صفحہ ۱۶۹۹۔

(۳۶) ابوداؤد، السجستانی، سلیمان بن اشعث ،بیروت، المکتبہ العصریہ ،جلد۲، صفحہ۲۲۸۔ ابن ماجہ ، محمد بن یزید ،دار احیاء الکتب العربیہ، جلد۱،صفحہ۶۰۰۔

(۳۷) ابن قدامہ،المغنی،جلد۷، صفحہ۱۰۲۔

(۳۸) الوسیط فی المذھب،جلد۵،صفحہ۳۲۔

(۳۹) مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ”سائرالاحکام“ لکھنا ”تسامح“ہے؛ اس لیے کہ خلوت صحیحہ تمام احکام میں وطی کے قائم مقام نہیں ہے؛بلکہ بعض احکا م میں ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ (۴۰) مفتی محمدشفیع دیوبندی، احکام القرآن، جلد ۳، صفحہ ۴۶۸۔

(۴۱) خلوت صحیحہ سے مراد نکاح کے بعد مرد وعورت کی ایسی تنہائی کی ملاقات ہے، جہاں پر وطی سے کوئی حسی، شرعی اور طبعی مانع نہ ہو، حسی سے مراد وہاں پر کوئی اور ان کے علاوہ موجود نہ ہو اور شرعی سے مراد عور ت ماہواری کے ایام میں نہ ہو یا فرض روزہ نہ رکھا ہو ،اور طبعی سے مراد مردوعورت دونوں میں سے کسی کو ایسی بیماری نہ ہو جو وطی کرنے سے مانع ہویا ضرر کااندیشہ ہو،جس خلوت میں یہ رکاوٹیں موجود نہ ہوں، وہ خلوت صحیحہ کہلاتی ہے۔ فتاوی ہندیہ المعروف عالمگیریہ میں یہی تعریف کی گئی ہے: والخلوة الصحیحة أن یجتمعا فی مکان لیس ہناک مانع یمنعہ من الوطء حسا أو شرعا أو طبعا (فتاوی ہندیہ ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۱ھ ، جلداول ،صفحہ۳۰۴)

(۴۲) ایسی خلوت صحیحہ جس میں مرد نے عورت سے وطی نہ کی تو اس عورت پر بعض احکام وہ لاگو ہونگے جو ایسی عورت پر لاگوہوتے ہیں جس کے ساتھ خلوت صحیحہ میں وطی ہوچکی ہو ،فتاوی ہندیہ میں ہے: وأصحابناأقاموا الخلوة الصحیحة مقام الوطء فی حق بعض الاحکام دون البعض فاقاموہا مقامہ فی حق تاکد المہر وثبوت النسب والعدة والنفقة والسکنی فی ہذہ العدة وحرمة نکاح اختہاواربع سواہا (جلد اول ،صفحہ۳۰۶) ہمارے اصحاب رحمہم اللہ نے کہا خلوت صحیحہ (جس میں وطی نہ ہوئی ہو) بعض احکام میں وطی کے قائم مقام ہے اور بعض میں نہیں ہے۔ پس وہ وطی کے قائم مقام ہے مہرکے لازم ہونے میں، ثبوت نسب میں، اور عدت میں ، اور دوران عدت نفقہ اور سکنی کی مستحق ہونے میں ،اور عدت کے دوران اس کی بہن سے نکاح کے حرام ہونے میں ،اور اس کی عدت میں مزید چار عورتوں کے ساتھ نکاح کی حرمت میں۔ اور خلوت صحیحہ بعض احکام میں وطی کے قائم مقام نہیں ہے۔ مثلا وطی کے بعد غسل فرض ہوتاہے؛ مگر ایسی خلوت جس میں وطی نہ ہو اس کے بعد غسل فرض نہیں ہوگا، اور ایسی خلوت کے بعد اگر طلاق ہوگئی تو وہ زوج اول کے لیے حلا ل نہیں ہوگی ،مرد یا عورت محصن نہ ہونگے،رجعت کا حق نہ ہوگا ،وغیرہ اور بھی مسائل ہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں۔ (فتاوی ہندیہ ، جلداول ، صفحہ۳۰۶ ) حالانکہ جب اس عورت کے ساتھ وطی نہیں کی گئی تو اس پر یہ احکام لاگو نہیں ہونے چاہئیں؛ مگر فقہاء نے خلوت صحیحہ کو وطی کے قائم مقام کرکے وہی احکام جاری کیے ہیں ۔ائمہ ثلاثہ کہتے ہیں اسی طرح بدنظری چونکہ عورت کی طرف میلان اور وقوع فتنہ کا سبب ہے؛ اس لیے یہ فتنہ کے قائم مقام ہے اورحرام ہے ۔

(۴۳) الجصاص، ابوبکر، احکام القرآن، بیروت، دارالکتب العلمیہ ،۱۴۱۵ھ ،جلد۵،صفحہ۱۷۳۔

(۴۴) کاسانی، بدائع الصنائع ،جلد۵،صفحہ۱۲۲۔

(۴۵)المرغینانی ،علی بن ابی بکر ، الہدایہ فی شرح بدایة المبتدی، بیروت، داراحیاء التراث العربی، س ن، جلد ۴، صفحہ ۳۶۸۔

(۴۶) القرآن،النور:۳۰۔

(۴۷) القرآن، النور:۳۱۔

(۴۸) الطبری، محمد بن جریر ،جامع البیان فی تاویل القرآن، ھ، بیروت، موسسة الرسالہ، ۱۴۲۰ھ، جلد ۱۹، صفحہ ۱۵۶۔

(۴۹) ابن ابی شیبہ،ا المصنف ،جلد۳،صفحہ۵۴۶۔

(۵۰) کاسانی،بدائع الصنائع ،جلد۵، صفحہ۱۲۱، ۱۲۲۔

(۵۱) السرخسی ،محمد بن ابی سھل ،المبسوط،بیروت ، دارالمعرفت، ۱۴۱۴ھ ،جلد۱۰،صفحہ۱۵۳۔

(۵۲) ابوبکر احمد بن عمروالبزار،مسند البزارالمنشور باسم البحرالزخار،المدینة المنورة ،المکتبة العلوم والحکم،۱۹۸۸/، جلد۵، صفحہ۳۳۲۔

(۵۳) کاسانی، بدائع الصنائع ، جلد۵، صفحہ۱۲۲۔

(۵۴) السرخسی، المبسوط، جلد ۱۰، صفحہ ۱۵۳؛ المرغینانی، الہدایہ، جلد۴، صفحہ ۳۶۸۔

(۵۵) السرخسی، المبسوط، جلد ۱۰، صفحہ ۱۵۔

(۵۶) متقدمین سے مراد وہ حضرات ہیں جنہوں نے امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کا زمانہ پایا، اور ان سے فیض حاصل کیا اور جنہوں نے ان ائمہ ثلاثہ کا زمانہ نہیں پایا وہ متاخرین کہلاتے ہیں۔ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے میزان میں، متقدمین اور متاخرین کے درمیان حد فاصل تیسری صدی کا شروع قرار دیا ہے۔ تیسری صدی ہجری سے پہلے تک کہ علماء متقدمین اور تیسری صدی کے آغاز سے متاخرین کہلاتے ہیں۔ (مشتاق علی شاہ، تعارف فقہ، گوجرانوالہ، مکتبہ حنفیہ، س ن، صفحہ۶۳)

(۵۷) حصکفی، الدرالمختار، جلد۶، صفحہ ۳۷۰۔

از: غازی عبدالرحمن قاسمی

لیکچرار گورنمنٹ ولایت حسین اسلامیہ ڈگری کالج S_A_Sagar# 

https://saagartimes.blogspot.com/2021/12/blog-post_16.html



No comments:

Post a Comment