اعضاءِ وضو سے پانی کے قطرات ٹپکنا ضروری ہے
سوال: مفتی صاحب ایک ویڈیو آپ کو بھیجا ہوں دیکھ کر بتائیں کیا اس طرح وضو ہوجائے گا؟ جیسا اس ویڈیو میں بتایا گیا ہے، یہ تو مسح کی صورت سمجھ آرہی ہے۔ (المستفتی: مولوی سفیان، مالیگاؤں)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق:
قرآنِ کریم میں اعضاء وضو کو دھونے کا حکم دیا گیا ہے اور شرعاً دھونے کا مفہوم اس وقت تک متحقق نہ ہوگا جب تک کہ کم از کم وضو کے عضو کو تر کرنے کے بعد اس سے دو قطرے نہ ٹپکیں، اگر اس قدر بھی تقاطر نہیں ہوا تو دھونے کا فرض ادا نہیں ہوگا۔ مثلاً کسی شخص نے برف وغیرہ سے ہاتھ پیر کو تر کرلیا اور کوئی قطرہ نہیں ٹپکا تو یہ کافی نہیں۔ آپ کی ارسال کردہ ویڈیو بغور دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ اُن صاحب نے نصف گلاس پانی میں جو وضو کیا ہے وہ درست نہیں ہے، اس لئے کہ اس میں اعضاء وضو پر صرف پانی مَل لیا گیا ہے، اعضاء وضو سے پانی کے قطرات بالکل بھی ٹپکے نہیں ہیں، لہٰذا اگر کوئی اس طرح وضو کرلے تو اس کا وضو ہوگا ہی نہیں اور نہ ہی اس وضو سے پڑھی گئی نماز ہوگی۔
نوٹ : یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی دنوں سے گردش میں ہے، لہٰذا حتی الامکان اس کی تردید کرنا اور صحیح مسئلہ سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہم سب کی شرعی ذمہ داری ہے۔
قَالَ اللہُ تَعَالٰی : یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِذَا قُمْتُمْ إِلیَ الصَّلوٰۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلیَ الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُؤُوْسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ إِلیَ الْکَعْبَیْنِ۔ (سورۃ المائدہ، آیت: ٦)
غسل الوجہ أی إسالۃ الماء مع التقاطر ولو قطرۃ۔ وفی الفیض : أقلہ قطرتان فی الأصح۔ (درمختار) وفی الشامی: یدل علیہ صیغۃ التفاعل ثم لا یخفیٰ أن ہٰذا بیان للفرض الذی لا یجزئ أقل منہ لأنہ فی صدد بیان الغسل المفروض۔ (شامی زکریا ۱؍۲۰۹ بیروت ۱؍۱۸۷-۱۸۸، مراقی الفلاح ۳۲/ بحوالہ کتاب المسائل)
فقط واللہ تعالٰی اعلم محمد عامر عثمانی ملی (#S_A_Sagar)
13 رمضان المبارک 1440 - مئی 19, 2019سوال: برفیلے علاقوں میں برف باری کے بعد اگر پانی میسر نہ ہو یا بہت ٹھنڈا ہو، تو پانی کے بجائے برف سے وضو یا تیمم کرنا جائز ہے؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیراجواب: سوال میں پوچھی گئی صورت میں برف سے عضو کو دھوتے ہوئے، اگر برف جسم سے لگنے کے بعد جسم کی حرارت کی وجہ سے پگھل جائے، اور عضو گیلا ہونے کے بعد اس سے کم از کم دو قطرے ٹپک جائیں، تو اس برف سے وضو کرنا صحیح ہوگا، لیکن اگر جسم پر برف ملنے سے جسم گیلا ہوکر اس سے پانی نہیں ٹپکتا، تو اس برف سے وضو کرنا صحیح نہیں ہوگا، اس صورت میں اگر پانی کا متبادل انتظام نہ ہوسکے، یا پانی تو موجود ہو، لیکن بہت ٹھنڈا ہو، اور گرم کرنے کا کوئی انتظام نہ ہو، اور اس ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے میں بیماری یا ہلاکت کا قوی اندیشہ ہو، تو اس صورت میں تیمم کرنا جائز ہوگا۔
دلائل
الدرالمختار: (95/1،ط: سعید)
(غسل الوجه) أي إسالة الماء مع التقاطر ولو قطرة. وفي الفيض أقله قطرتان في الأصح.
الدرالمختار وردالمحتار: (234/1،ط: دارالفکر)
أو برد) يهلك الجنب أو يمرضه ولو في المصر إذا لم تكن له أجرة حمام ولا ما يدفئه، وما قيل إنه في زماننا يتحيل بالعدة فمما لم يأذن به الشرع، نعم إن كان له مال غائب يلزمه الشراء نسيئة وإلا لا.
(قوله يهلك الجنب أو يمرضه) قيد بالجنب؛ لأن المحدث لا يجوز له التيمم للبرد في الصحيح خلافا لبعض المشايخ كما في الخانية والخلاصة وغيرهما. وفي المصفى أنه بالإجماع على الأصح، قال في الفتح وكأنه لعدم تحقيق ذلك في الوضوء عادة. اه. ....
أقول: المختار في مسألة الخف هو المسح لا التيمم كما سيأتي في محله - إن شاء الله تعالى - نعم مفاد التعليل بعدم تحقيق الضرر في الوضوء عادة أنه لو تحقق جاز فيه أيضا اتفاقا، ولذا مشى عليه في الإمداد؛ لأن الحرج مدفوع بالنص، هو ظاهر إطلاق المتون.
الفتاوی الھندیۃ:(28/1، ط: دارالفکر)
وإذا خاف المحدث إن توضأ أن يقتله البرد أو يمرضه يتيمم. هكذا في الكافي واختاره في الأسرار لكن الأصح عدم جوازه إجماعا كذا في النهر الفائق والصحيح أنه لا يباح له التيمم. كذا في الخلاصة وفتاوى قاضي خان.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی (صححہ: #ایس_اے_ساگر)
سوال: برفیلے علاقوں میں برف باری کے بعد اگر پانی میسر نہ ہو یا بہت ٹھنڈا ہو، تو پانی کے بجائے برف سے وضو یا تیمم کرنا جائز ہے؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا
جواب: سوال میں پوچھی گئی صورت میں برف سے عضو کو دھوتے ہوئے، اگر برف جسم سے لگنے کے بعد جسم کی حرارت کی وجہ سے پگھل جائے، اور عضو گیلا ہونے کے بعد اس سے کم از کم دو قطرے ٹپک جائیں، تو اس برف سے وضو کرنا صحیح ہوگا، لیکن اگر جسم پر برف ملنے سے جسم گیلا ہو کر اس سے پانی نہیں ٹپکتا، تو اس برف سے وضو کرنا صحیح نہیں ہوگا، اس صورت میں اگر پانی کا متبادل انتظام نہ ہوسکے، یا پانی تو موجود ہو، لیکن بہت ٹھنڈا ہو، اور گرم کرنے کا کوئی انتظام نہ ہو، اور اس ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے میں بیماری یا ہلاکت کا قوی اندیشہ ہو، تو اس صورت میں تیمم کرنا جائز ہوگا۔
دلائل:
الدرالمختار:(95/1،ط:سعید)
(غسل الوجه) أي إسالة الماء مع التقاطر ولو قطرة. وفي الفيض أقله قطرتان في الأصح.
الدرالمختار وردالمحتار:(234/1،ط:دارالفکر)
أو برد) يهلك الجنب أو يمرضه ولو في المصر إذا لم تكن له أجرة حمام ولا ما يدفئه، وما قيل إنه في زماننا يتحيل بالعدة فمما لم يأذن به الشرع، نعم إن كان له مال غائب يلزمه الشراء نسيئة وإلا لا.
(قوله يهلك الجنب أو يمرضه) قيد بالجنب؛ لأن المحدث لا يجوز له التيمم للبرد في الصحيح خلافا لبعض المشايخ كما في الخانية والخلاصة وغيرهما. وفي المصفى أنه بالإجماع على الأصح، قال في الفتح وكأنه لعدم تحقيق ذلك في الوضوء عادة. اه. ....
أقول: المختار في مسألة الخف هو المسح لا التيمم كما سيأتي في محله - إن شاء الله تعالى - نعم مفاد التعليل بعدم تحقيق الضرر في الوضوء عادة أنه لو تحقق جاز فيه أيضا اتفاقا، ولذا مشى عليه في الإمداد؛ لأن الحرج مدفوع بالنص، هو ظاهر إطلاق المتون.
الفتاوی الھندیۃ:(28/1،ط:دارالفکر)
وإذا خاف المحدث إن توضأ أن يقتله البرد أو يمرضه يتيمم. هكذا في الكافي واختاره في الأسرار لكن الأصح عدم جوازه إجماعا كذا في النهر الفائق والصحيح أنه لا يباح له التيمم. كذا في الخلاصة وفتاوى قاضي خان.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی
سوال: برفیلے علاقوں میں برف باری کے بعد اگر پانی میسر نہ ہو یا بہت ٹھنڈا ہو، تو پانی کے بجائے برف سے وضو یا تیمم کرنا جائز ہے؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا
جواب: سوال میں پوچھی گئی صورت میں برف سے عضو کو دھوتے ہوئے، اگر برف جسم سے لگنے کے بعد جسم کی حرارت کی وجہ سے پگھل جائے، اور عضو گیلا ہونے کے بعد اس سے کم از کم دو قطرے ٹپک جائیں، تو اس برف سے وضو کرنا صحیح ہوگا، لیکن اگر جسم پر برف ملنے سے جسم گیلا ہو کر اس سے پانی نہیں ٹپکتا، تو اس برف سے وضو کرنا صحیح نہیں ہوگا، اس صورت میں اگر پانی کا متبادل انتظام نہ ہوسکے، یا پانی تو موجود ہو، لیکن بہت ٹھنڈا ہو، اور گرم کرنے کا کوئی انتظام نہ ہو، اور اس ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے میں بیماری یا ہلاکت کا قوی اندیشہ ہو، تو اس صورت میں تیمم کرنا جائز ہوگا۔
دلائل:
الدرالمختار:(95/1،ط:سعید)
(غسل الوجه) أي إسالة الماء مع التقاطر ولو قطرة. وفي الفيض أقله قطرتان في الأصح.
الدرالمختار وردالمحتار:(234/1،ط:دارالفکر)
أو برد) يهلك الجنب أو يمرضه ولو في المصر إذا لم تكن له أجرة حمام ولا ما يدفئه، وما قيل إنه في زماننا يتحيل بالعدة فمما لم يأذن به الشرع، نعم إن كان له مال غائب يلزمه الشراء نسيئة وإلا لا.
(قوله يهلك الجنب أو يمرضه) قيد بالجنب؛ لأن المحدث لا يجوز له التيمم للبرد في الصحيح خلافا لبعض المشايخ كما في الخانية والخلاصة وغيرهما. وفي المصفى أنه بالإجماع على الأصح، قال في الفتح وكأنه لعدم تحقيق ذلك في الوضوء عادة. اه. ....
أقول: المختار في مسألة الخف هو المسح لا التيمم كما سيأتي في محله - إن شاء الله تعالى - نعم مفاد التعليل بعدم تحقيق الضرر في الوضوء عادة أنه لو تحقق جاز فيه أيضا اتفاقا، ولذا مشى عليه في الإمداد؛ لأن الحرج مدفوع بالنص، هو ظاهر إطلاق المتون.
الفتاوی الھندیۃ:(28/1،ط:دارالفکر)
وإذا خاف المحدث إن توضأ أن يقتله البرد أو يمرضه يتيمم. هكذا في الكافي واختاره في الأسرار لكن الأصح عدم جوازه إجماعا كذا في النهر الفائق والصحيح أنه لا يباح له التيمم. كذا في الخلاصة وفتاوى قاضي خان.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی
https://saagartimes.blogspot.com/2021/12/blog-post_90.html
No comments:
Post a Comment