نعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس گھرپر لگانا
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے ایسی نعلین کا کوئی ثبوت نہیں ہے
اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے برکت حاصل کرنے کے قول سے رجوع کرلیا تھا۔
تحفۃ الالمعی
نعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس گھرپر لگانا
سوال: آج کل آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف نعلین پاک کی ایک مخصوص شبیہ منسوب ہے، کیا درست ہے کہ آپ علیہ السلام کے نعلین اسی طرح تھے؟ اور اگر کوئی اس کو بطورِ تبرک گھر وغیرہ میں لگائے ربیع الاول کے بارہ دن کی تخصیص کیے بغیر کیا یہ درست ہے؟ اور کسی شخص نے یہ کہا کہ تاریخ کی تعیین کے بغیر سارا سال گھر وغیرہ میں لگانا بغیر تبرک کے درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیا اس شخص کا یہ قول درست ہے؟
جواب: جہاں تک آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان آثارِمتبرکہ کا تعلق ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر استعمال رہے ہوں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمِ اطہر سے مس ہوئے ہوں، ان سے تبرک یا انہیں بوسہ دینا یا سر پر رکھنا متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علمائے متقدمین سے ثابت ہے۔ البتہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان آثار متبرکہ کی کوئی تصویر بنائی جائے یا اس کا کوئی نقشہ بنایا جائے تو وہ اگرچہ اصل آثار کے مساوی نہ ہوگا، لیکن چوں کہ اصل کے ساتھ مشابہت اورمشاکلت کی وجہ سے اس کو حضورِاقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے فی الجملہ ایک نسبت حاصل ہے؛ اس لیے اگر کوئی شخص اپنے شوقِ طبعی اور محبت کے داعیہ سے اسے بوسہ دے، یا آنکھوں سے لگائے تو فی نفسہ اس کی ممانعت پر بھی کوئی دلیل نہیں، لہذا فی نفسہ ایسا کرنا مباح ہوگا، بلکہ جس محبت کے داعیہ سے ایسا کیا جارہا ہے وہ محبت ان شاء اللہ موجبِ اجر بھی ہوگی، بشرطیکہ اس خاص عمل کو بذاتہ عبادت نہ سمجھا جائے، کیوں کہ عبادت کے لیے ثبوت شرعی درکار ہے۔
یہ تو مسئلہ کی اصل حقیقت تھی، لیکن چوں کہ ان نازک حدود کو سمجھنا اور ان نزاکتوں کو ملحوظ رکھنا عوام کے لیے مشکل معلوم ہوتا ہے، اور اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس میں حدود سے تجاوز نہ ہو جائے، مثلاً یہ کہ ان اعمال کو بذاتہ عبادت سمجھا جانے لگے یا ادب و تعظیم میں حدود سے تجاوز ہوکر مشرکانہ افعال یا اعتقادات اس کے ساتھ نہ مل جائیں۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ ان نقشوں کی عمومی تشہیر اور ان کی طرف ترغیب وغیرہ سے اجتناب ہی کرنا چاہئے۔ البتہ اگر کوئی اپنے عقیدے کو درست رکھ کر اور تاریخ کی تعیین کے بغیر اپنے پاس یہ نقشہ رکھے یا گھر میں لگائے خواہ تبرک کے لئے ہو، لیکن لازم اور عبادت نہ سمجھے تو اسے بدعت نہیں کہا جائے گا۔
’’کفایت المفتی‘‘ میں نعلِ مبارک کے نقشہ پر حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور حضرت مفتی کفایت اللہؒ کی تفصیلی خط و کتابت کے بعد حضرت مفتی کفایت اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ لکھا ہے:
’’حضرت اقدس حکیم الامت مولانا تھانوی مدظلہ کے رسالہ ’’نیل الشفا‘‘ سے اس اعلانِ رجوع کا مطلب یہ ہے کہ رسالہ نیل الشفا سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ نقشہ نعل شریف سے استبراک و توسل کی مسلمانوں کو تلقین و ترغیب اور نقشہ کی تشہیر و اشاعت کی تحریض مقصود ہے۔ اب حضرت مولانا دام فیوضہم نے عوام کے تجاوز عن الحد اور غلو کو مدنظر رکھ کر استبراک و توسل کی ترغیب اور تشہیر و اشاعت کی تلقین سے رجوع فرمالیا ہے۔ رہا کسی عاشقِ صادق اور مجذوبِ محبت کا والہانہ طرزِعمل تو وہ بجائے خود مذموم نہیں، بلکہ مسکوت عنہ ہے۔ اسی طرح نفسِ مسئلہ میں تردد پیدا ہوجانے کا جو ذکر ہے، اس کا حاصل بھی بجائے جزمِ جوازِ سابق کے عدمِ جزمِ جواز ہے، نہ کہ جزمِ عدمِ جواز، پس عشاق پر طعن نہ کیا جائے‘‘۔ (کفایت المفتی، ۲ / ۹۸، دارالاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144103200274: دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن (صححہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/12/blog-post_70.html
No comments:
Post a Comment