محمد بن سلمان مصطفی کمال اتاتُرک کے نقشِ قدم پر!
---------------------------------
بقلم: مفتی شکیل منصور القاسمی
----------------------------------
معتدل اور لچکدار اسلام کے بانی مبانی محمد بن سلمان مصطفی کمال اتاتُرک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سالوں پہلے سے دینی روح اور اسلامی جذبہ رکھنے والی تحریکوں کو پابند سلاسل کرنے اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کے گھناؤنے کھیل و منصوبے کا آغاز کردیا تھا، جبکہ خالص ہندو کلچر "یوگا" کھیل کو قومی طور پر منظوری دی گئی۔ سعودی عرب کو نئے شہزادے نے ببانگ دہل تمام مذاہب کے پیروکاروں اور دنیا کے ہر فرد کے لئے کھلا رکھنے کا اعلان کردیا؛ لیکن سیاست، فرقہ واریت، مسلکی اختلافات وتنگ نائیوں سے مکمل عاری و خالی، صرف کلمے کی بنیاد پر دنیا کے تمام مسلمانوں کو سو فیصد اللہ کے احکام اور پیغمبراسلام کے طریقوں کے مطابق زندگی گزارنے کی محنت کرنے والی بے لوث تحریک "تبلیغی جماعت" پہ پابندی عائد کردی گئی۔ کس قدر شرمناک امر ہے کہ وہاں ایسے ایسے ریستوران کھل چکے ہیں جہاں عورتیں اور مرد مخلوط طور پر بلا روک ٹوک بیٹھ کے عیاشیاں کرسکتے ہیں۔ وہاں تیز موسیقی بھی بجتی ہے۔ مغربی معاشرے میں پروان چڑھنے والے اور وہاں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے واپس آنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اب سعودی عرب میں بلا روک ٹوک گاڑیاں چلارہے ہیں، مدینہ منورہ میں سینما ہالز بھی کھل چکے ہیں، 'صحرائی ریس' میں عورتیں اور مرد دونوں شریک ہورہے ہیں۔
کرونا کا بہانہ بناکر حرمین شریفین کو تو لمبے عرصے تک بند کردیا گیا؛ لیکن بے حیاء رقاصاؤں کو بلابلاکر، کرونا ایس او پیز کا خیال کئے بغیر، حرمین کی مقدس سرزمین میں رقص وسرود کی محافل منعقد کی گئیں۔ احادیث رسول کی ایسی من مانی اور مغربی آقاؤں کی من پسند تشریح وتوضیح کرنے کی اکیڈمی قائم کی گئی جس سے 'سخت گیر' اور 'اسلام پسند نظریہ' کا 'قلع قمع' کیا جاسکے۔ نہی عن المنکر کے لئے سعودی عرب کی گلیوں میں جو مذہبی پولیس (المطوع) گشت کرتی نظر آتی تھی۔ اس ٹیم کو بھی اب معتدل اسلام کے بانی مبانی شہزادے نے "غار سر من رأی" میں بھیج دیا ہے۔ یعنی امربالمعروف ونہی عن المنکر کے ادارے کو کالعدم کرکے اس کو "جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی" کے گھٹیا ادارے سے بدل دیا گیا ہے۔ ارض توحید پہ الحاد جدید کی چوطرفہ یلغار ہے۔ دین بیزار وزارت مذہبی امور نے امن وآشتی کی داعی تبلیغی جماعت پہ جو حالیہ پابندی عائد کی ہے اس کے اس شرمناک و گھناؤنے کرتوت اور خطرناکیوں کو سوشلستان میں اجاگر کرنے کے ساتھ مساجد کے ائمہ وخطباء جمعہ کے خطبوں میں بیان کریں، ملی ومذہبی قائدین متحد ہوکے سعودی سفارت خانے کے سامنے پرامن مظاہرہ کرکے اپنا احتجاج درج کروائیں، اس شرمناک اقدام کی مذمت کریں، عربی وانگریزی میں مذمتی تحریر وکلپس تیار کرکے سماجی رابطے کی سائیٹس پہ عام کی جائیں۔ یہ سب کچھ صہیونیوں کی منظم سازش کے زیراثر ممکن ہوا ہے، اسے دلیل بناکر اب موقع پرست عناصر بھی اندرون ملک اس پہ شکنجہ کسنے کی تیاری میں ہوگی، وقت کا تقاضہ ہے اصحاب قلم وملی تنظیموں کے قائدین معاملے کی نزاکت وحساسیت کا بروقت ادراک کرتے ہوئے متحد ہوکر اس کے خلاف آواز بلند کریں؛ تاکہ سعودی حکومت کو اس پہ نظرثانی کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔
۵ جمادی الاولی 1443 ہجری
بروز جمعہ
https://saagartimes.blogspot.com/2021/12/blog-post_10.html
-------
ممکن ہے آپ کو یہ تحریر بھی پسند آئے......
--------------------------------
ابن سلمان على خُطا مصطفى كمال أتاتورك!
في محاولات شنيعة ماكرة لصناعة الإسلام المعتدل ذي المرونة والنعومة، بدأ الأمير ابن سلمان السعودي منذ سنين سيرًا على خطوات سلفه الراحل مصطفى كمال أتاتورك، حظرَ الجماعات والحركات ذات السمة الإسلاميّة والحَدَّ من نشاطاتها الدينية وأعمالها التوعوية وتهميش مشاريعها الإصلاحية وسط المجتمع، بينما فَسَحَ المجالَ في أرض المملكة رحبًا واسعًا لليوغا التي هي مجموعة من الطقوس الرياضيّة القديمة الموغلة في أوحال الثقافة الهندوسيّة الوثنيّة المشركة؛ إعلانًا صارخًا منه على مرأى ومسمع من الناس بفتح بوابة المملكة العربيّة السعوديّة لجميع أتباع الديانات والكيانات الوطنيّة ممن أراد الولوج في دارها والنزول في ساحتها، إلا أنه ضَيَّقَ الخناق على جماعة الدعوة والتبليغ التي تمثل جماعةً دعويّةً إسلاميّةً بحتةً، بعيدةً عن الشؤون السياسيّة والحزبيّة والخلافات المذهبيّة، ولا ترمي بتاتًا من وراء أنشطتها الدينية إلا إلى العمل بالكتاب والسنة ونهج السلف الصالح وجمع أفراد الأمة على أساس لا إله إلا الله وسيرة رسول الله صلى الله عليه وسلم.
أليس من دواعي الخزي والعار أن تفتح المملكةُ فنادقَ تشهد الاختلاطَ بين الذكور والإناث، والرقصَ والمجونَ، والأغانيَ الخليعة والمسلسلاتِ الهابطة التي تبعث على الفجور والرذيلة؟!
أليس من الذل والهوان أن تصدر المملكة رخصة قيادة السيارات للفتيات والنساء دون وجل ولا حظر؟!
أليس من المنكر أن تشهد المدينة المنورة- على منوِّرها ألف تحية وسلام- دورَ سينما وصالات الأفلام العربية و الأجنبية؟! وكأنّ المجتمع السعودي بِفِئَتَيْهِ: الفتيان والفتيات يزاحم المناكب ليدفع عجلة التنمية في صحراء الجزيرة العربيّة!
لقد شهد العالم بعينيه أن أبواب الحرمين الشريفين ظلت مُوصَدَةً أمدًا مديدًا على الزُّوَّار والمعتمرين تحت حجة كورونا الجائحة المهلكة، بينمااسْتُقْدِمَتْ راقصات متبرجات سافرات لإحياء حفلات الرقص والغناء في وقاحة، على أرض الحرمين الشريفين دون الالتزام بالاشتراطات الصحية. و في جانب آخر، تم تأسيس أكاديمية تتولى شرح أحاديث رسول الله صلى الله عليه وسلم على ما يرضاه الضمير الغربيّ، بُغيةَ محاربة الفكر الإسلاميّ المتشدد، كما ألغى الأمير ابن سلمان مؤسسُ الإسلام المعتدل نظامَ المطوّع عن آخره، واستبدل، هيئةَ الترفيه العامة بهيئة الأمر بالمعروف والنهى عن المنكر. وعلى كل فإن أرض التوحيد مُعَرَّضَةٌ لخطر الإلحاد والزندقة من جهاتها الأربعة.
مما يستدعي من الخطباء ووعاظ المنابر أن يتناولوا القرار الوزاري الأسود ببيان مخاطره ومعايبه في منصات التواصل الاجتماعي بالإضافة إلى النقد والتحليل في خطبة الجمعة أمام جماهير الشعب المسلم. ويجب على زعماء الأمة الإسلاميّة أن ينهضوا محتجين آمنين، معتصمين أمام سفارة المملكة العربية السعودية في مدينة دهلي إعرابًا عن استيائهم وسخطهم البالغين إزاء التعميم الصادرة من وزارة الشؤون الإسلامية والدعوة والإرشاد للسعودية، ويقوموا بتعليق كلمات التنديد والشجب في مواقع التواصل الاجتماعي. أرى أن القرار الأسود ما جاء إلا تحت خطة مدروسة شاملة؛ ليخدم مصالح الصهيونيّة الماكرة، الذي ربما تستند الحكومة الهنديّة الفاشية الحاقدة إليه في قادم الأيام من أجل حظر جماعة الدعوة والتبليغ وتهوين شأنها داخل بلاد الهند.
من هنا أرجو الكتاب ورؤساء المنظمات والجمعيات المليّة الإسلاميّة أن يكونوا يدًا واحدةً في تضامن شامل، واعين لخطورة الموقف وعظم المسؤولية قبل فوات الأوان، رافضين لنشرة التعميم رفضًا باتًّا، حتى ترجع الحكومة السعودية عن القرار المجحف الظالم.
١٠/ ١٢/ ٢٠٢١
سورينام .أمريكا الجنوبية
+5978836887
No comments:
Post a Comment