Wednesday 14 June 2017

کیا تعویذ پہننا شرک ہے؟

ایس اے ساگر 
اہل علم کے نزدیک تعویذ کی لغوی معنی "حفاظت کی دعا کرنا" ہے. (مصباح اللغات : ٥٨٣) فعل کے حساب سے (عربی میں) مادہ عوذ کے تحت "عَوَّذَ تَعوِِِيذًا وِ أعَاذَ" باب تفعيل کے وزن سے تعویذ بنتا ہے. (المنجد : صفحہ ٥٩٣) دوسرے لفظوں میں آپ اسے اسم کے حساب سے "تحریری دعا" کہہ لیجئے. جس طرح زبانی دعا کی قبولیت و اثرپذیری الله تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے، ٹھیک اسی طرح پر قرآن کی آیات پر مشتمل تعویذ یعنی "تحریری دعا" کے اثرات و فوائد بھی الله تعالیٰ کی مشیت و مرضی پر ہی منحصر ہے. مَثَلاً : حدیثِ بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) پر لبید بن اعصم یہودی کے کیے ہوۓ سحر (جادو) کے اثرات ختم کرنے کے لئے وحی الہی کی ہدایت پر آپ (صلی الله علیہ وسلم) پر "معوذتين" یعنی سوره الفلق اور سوره الناس کا تلاوت کرنا، (تفسیر ابن عباس) صحابی رسول حضرت ابو سعید خدری (رضی الله عنہ) سے مروی وہ حدیث جس میں انہوں ایک سفر میں سورہ الفاتحہ پڑھ کر دم کرنے کے عمل سے سانپ کے کاٹے ہوۓ ایک مریض کا علاج کیا تھا اور وہ تندرست ہوگیا تھا اور بعد میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سارا واقعہ سنکر سورہ الفاتحہ کی اس تاثیر کی تصدیق فرمائی تھی. 
لیکن اس کا کیا کیجئے کہ سماجی روابط کی ویب سائٹس پر دھڑلے سے گمراہ کن پوسٹس شائع ہورہی ہیں؛ 
"کیا تعویذ پہننا شرک اصغر ہے۔؟ کیا قرآنی آیات پر مشتمل تعویذات پہننا جائز ہے۔؟ تعویذ اگر شرکیہ الفاظ پر مشتمل اور آدمی اس کی عبادت کرتا ہو تو تعویذ پہننا شرک اکبر ہے، اور اگر اس تعویذ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے کہ یہ سلامتی کا ایک ذریعہ ہے تو شرک اصغر ہے۔ قرآنی آیات پر مشتمل تعویذات کے بارے میں اہل علم کے ما بین دو موقف پائے جاتے ہیں،لیکن راجح اور مبنی بر احتیاط موقف یہی ہے کہ اس سے بھی اجتناب کیا جائے۔ کیونکہ نہی پر مبنی احادیث عام ہیں جو قرآنی اور غیر قرآنی تمام قسم کے تعویذات کو شامل ہیں۔نہی پر مبنی احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں۔
'' قال النبي صلى الله عليه سلم " من علق تميمة فلا أتم الله له " 
(رواه أحمد , أبو داؤد , ابن ماجه وصححه الشيخ الألباني رحمه الله )''
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے تعویذ لٹکایا (پہنا) اللہ تعالی اسکی مراد پوری نہ کرے ۔
'' قال النبي صلى الله عليه سلم " من تعلق تميمة فقد أشرك " (رواه أحمد والحاكم ) و وصححه الشيخ الألباني رحمه الله )''
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے تعویذ لٹکایا (پہنا) اس نے شرک کیا ۔
'' عن عقبة بن عامر الجهني رضي الله عنه أن رسول الله أقبل إليه رهط فبايع تسعة وأمسك عن واحد فقالوا يا رسول الله بايعت تسعة وتركت هذا ؟ قال إن عليه تميمة فأدخل يده فقطعها فبايعه وقال من علق تميمة فقد أشرك .(مسند أحمد )''
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ راوی حدیث ہیں وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جماعت آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان میں سے ) نو سے بیعت لی اور ایک کو چھوڑ دیا ، انھوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول آپ نے نو سے بیعت لی اور اسکو چھوڑ دیا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس پر تعویذ ہے (وہ تعویذ پہنے ہوۓ ہے ) چنانچہ اپنے ہاتھ کو داخل کیا اور اس (تعویذ) کو کاٹ دیا اور فرمایا جس نے تعویذ پہنا اس نے شرک کیا ۔
'' وقال النبي صلى الله عليه سلم للذي رأي في يده حلقة من صفر ماهذا ؟ فقال من الواهنة , قال انزعها فإنها لا تزيدك إلا وهنا فإنك لو مت وهي عليك ما أفلحت أبدا .( رواه أحمد والحاكم وصححه الشيخ الألباني رحمه الله ) ''
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں پیتل کا ایک چھلہ دیکھا تو کہا۔ یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا واہنہ (ایک مرض )کی وجہ سے پہنے ہوئے ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے اتار دو یہ تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا بلکہ تمہاری کمزوری میں مزید اضافہ کرے گا اور اگر اس چھلے کو پہنے ہوئے موت ہوگئی تو تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکوگے۔
'' وقال سعيد بن جبير رحمه الله من قطع تميمة من إنسان كان كعدل رقبة ) '' 
(رواه إبن أبي شيبة 7/375)
سعيد بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس نے کسی انسان سے تعویذ کاٹ دی تو یہ ایک گردن آزاد کرنے کے برابر ہے ۔
مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شرکیہ الفاظ پر مبنی تعویذ شرک ہے ،لہذا اس سے بچنا ضروری ہے اسی طرح بعض وہ کتابیں جو تعویذ وں کے بارے میں لکھی گئی ہیں جن پر بدعتی اور علماء سوء اعتماد کرتے ہیں اور انہی کتابوں سے تعویذ لکھ لکھ کر لوگوں میں تقسیم کرتے رہتے ہیں ان سے بچنا اور دور رہنا بھی ضروری ہے۔
اسی طرح قرآنی آیات پر مشتمل تعویذ بھی صحیح قول کے مطابق ناجائز ہے ۔
باقی رہا مسئلہ دم جھاڑے کا تو جھاڑ پھونک اگر قرآنی آیات یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ صحیح دعا‌ؤں سے کیا جائے تو یہ جائز ہے، لیکن اگر شرکیہ کلمات یا ایسے مبہم الفاظ سے جن کا معنیٰ ومطلب سمجھ میں نہ آئے ان سے کیا جائے تو ناجا‌ئز ہے۔"
اس سلسلہ میں 'احناف' کے مولانا محمد اسحاق رقمطراز ہیں کہ "ہر انسان کے ذمہ کچھ دنیا کی ذمہ داریاں ہیں اور کچھ آخرت کی اس لیے ہم جو کام موت سے پہلے کی زندگی کیلیے کرتے ہیں ان کاموں کو دنیا کے کام کہا جاتا ہے اور جو کام موت کے بعد آخرت کی زندگی کیلیے کرتے ہیں ان کو دین کا کام کہا جاتا ہے۔
مثلاً ہم ارکان اسلام پر عمل کرتے ہیں تاکہ آخرت کا گھر آباد ہو جائے اس لیے ان کو دین کا کام اور ان کے احکام کو دینی احکام کہا جاتا ہے۔ دینی احکام کا مآخذ قرآن و سنت اجماع و قیاس ہیں۔ ہم روز مرہ کے جتنے دنیاوی کام کرتے ہیں مثلاً کھیتی باڑی ، تجارت، سیر وسیاحت، کھیل کود وغیرہ تو صحت و تندرستی سے کرتے ہیں یا کبھی ہمیں بیماری بھی گھیر لیتی ہے اس کے لئے ہم دوائی لیتے ہیں یا دم تعویذ وغیرہ کراتے ہیں ان سب امور کا نفع یا نقصان موت سے پہلے والی زندگی کے لیے ہے۔ اور یہ سب دنیاوی کام ہیں دوائی، دم اور تعویذ وغیرہ طریق علاج ہیں۔ جس طرح بخار کی دوا کے لئے اس کا نسخہ، وزن، ترکیب استعمال اور پرہیز کا دلائل اربعہ میں مکمل تفصیلات کا مذکور ہونا ضروری نہیں اس طرح بخار کے دم اور تعویذ کا بھی قرآن پاک میں مذکور ہونا ضروری نہیں۔ جس طرح بعض بیماریوں کی دواؤں کا ذکر بعض احادیث میں ہے لیکن بہت ساری دواؤں کا ذکر احادیث میں نہیں ملتا اس طرح بعض دم و تعویذ احادیث میں مذکور ہیں بعض مذکور نہیں۔
باقی یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ کوئی بھی شخص اس نیت اور غرض کے لئے تعویذ نہیں پہن لیتا کہ پل صراط سے آسانی کے ساتھ گزر جائے۔ نہ اس لئے تعویذ پہنتا ہے کہ منکر نکیر کے سوالات کا جواب آسان ہوجائے اور نہ ہی دوزخ سے بچنے کا تعویذ مانگتا ہے۔ جب دوا اور دم دنیوی طریقہ علاج ہیں تو دنیاوی امور کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تابیر نخل کے قصہ کے ضمن میں یہ قاعدہ ارشاد فرمایا ہے کہ
انتم اعلم بامر دنیاکم۔
(صحیح مسلم ج 1 ص 264)
کہ تم لوگ اپنے دنیاوی امور کو اپنے تجربات کی بنیاد پر بہتر سمجھتے ہو۔
اس حدیث مبارک میں ثابت ہو گیا کہ دنیاوی امور کی مکمل تفصیلات کا ادلہ اربعہ میں مذکور ہونا ضروری نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کتاب وسنت کی صحیح تفسیر و تشریح اسلاف اور خدائی انعام یافتہ طبقات کا متوارث عمل ہے ہر وہ تفسیر و تشریح جو اللہ تعالی کے انعام یافتہ بندوں کی تشریح و عمل کے خلاف ہو وہ قابل تردید ہے۔
دم اور تعویذ وغیرہ کا جواز قرآن و سنت سے ثابت ہے۔
1: قرآن پاک میں ہے،
و ننزل من القرآن ما ھوشفاء ورحمۃللمومنین۔
(سورۃ بنی اسرائیل)
اور ہم نے قرآن نازل کیا جو کہ مومنین کے لیے سراپا شفا اور رحمت ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بہترین دوا قرآن ہے۔
(سنن ابن ماجہ)
دم کرنا اورتعویذات لکھ کر استعمال کرانا امت کے تواتر سے ثابت ہے
1: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ تعویذات لکھا کرتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 75 ابوداود ج 2 ص 543)
2: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بچے کی پیدائش کے لیے دو آیات قرآنی لکھ کر دیتے تھے کہ ان کو دھو کر مریضہ کو پلا دو
(مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 60)
بلکہ طبرانی شریف میں اس حدیث کے بعض الفاظ یوں بھی ملتے ہیں کہ کچھ پانی اس کے پیٹ اور منہ پر چھڑک دو۔
3: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی اس کی قائل تھیں کہ پانی میں تعویذ ڈال کر وہ پانی مریض پر چھڑکا جائے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص60)
4: حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ قرآنی آیات کو لکھ کر ڈرنے والے مریض کو پلائی جائیں۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 74)
5: حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے ہاں چمڑے میں مڑھ کر تعویذ پہننا جائز ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 74)
6: حجاج بن اسود کہتے ہیں میں نے مکہ مکرمہ کے مفتی حضرت عطاء سے اس بارے میں پوچھا تو وہ فرمانے لگے ہم نے تو نہیں سنا کہ کوئی اس کام کو مکروہ کہتا ہو۔ ہاں تمہارے بعض عراقی مکروہ کہتے ہیں۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 60)
7: امام باقر رحمہ اللہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ قران کریم کی آیات چمڑے پر لکھ کر لٹکایا جائے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج 12 ص 74)
8: خود غیر مقلد علماء میں سے محترم داؤد غزنوی، سید ابو بکر غزنوی ، نواب صدیق حسن خان ، مفتی ابوالبرکات احمد ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، عبدالرحمان مبارکپوری، حکیم صادق سیالکوٹی، ، میاں نذیر حسین دہلوی سمیت غزنوی ، لکھوی ، گیلانی ، قلعوی اور روپڑی خاندان کے نامی گرامی حضرات تعویزات و عملیات کے نہ صرف جواز کے قائل تھے بلکہ خود بھی بڑے عامل تھے۔ چنانچہ سید نذیر حسین دہلوی سے سوال ہوا کہ گلے میں تعویذ لٹکانا جائز ہے یا نہیں ؟
جواب میں فرماتے ہیں:تعویذ نوشتہ در گلو انداختن مضائقہ ندارد۔ مگر اشہر و اصح جواز است۔
(فتاویٰ نذیریہ ج3 ص 298)
لکھے ہوئے تعویذ کو گلے میں لٹکانا درست ہے کوئی حرج کی بات نہیں زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ جائز ہے۔
اس فتویٰ کی تائید غیر مقلدین کے محدث مولانا عبدالرحمان مبارکپوی لکھتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے بالغ لڑکوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے کلمات یاد کراتے تھے اور نابالغ لڑکوں کے لئے ان کلمات کو ایک کاغذ پر لکھ کر ان کے گلے میں لٹکا دیتے تھے۔ ) ابوداود ترمذی(مزید لکھتے ہیں کہ شراح حدیث اس روایت کے تحت لکھتے ہیں کہ جس تعویذ میں اللہ کا نام لکھا ہوا ہو یا قرآن کی کوئی آیت یا کوئی دعا ماثورہ لکھی ہوئی ہو، ایسے تعویذ کا کا بالغ لڑکوں کے گلے میں لٹکانا درست ہے۔
(فتاویٰ نذیریہ ج 3 ص 299)
تمیمہ والی حدیث کا صحیح مطلب:
منکرین تعویذ غیر مقلدین جو حدیث پیش کرتے ہیں اس میں تمیمہ سے منع کیا گیا ہے یہ زمانہ جاہلیت میں دعا اور دوا کے علاوہ نقصان سے بچنے کا ایک مزعومہ طریقہ تھا۔ تمیمہ در حقیقت ایک منکا ہوتا تھا جس کو مریض کے گلے میں لٹکایا جاتا تھا اور وہ لوگ تمیمہ کو نقصان سے بچنے کے لیے مستقل موثر بالذات اور علت تامہ قرار دیتے تھے۔ جو کہ شرک کے ضمن میں آتا ہے اس لیے اسلام نے اس سے منع کر دیا۔ تعویذات کو تمیمہ قرار دے کر تمیمہ کا حکم لگانا درست نہیں۔ یہ حدیث پاک کی ایسی غلط تشریح ہے جو مزاج نبوت اور اسلاف کی تعبیرات سے میل نہیں کھاتی۔ اس لئے اس تشریح کا سرے سے کوئی اعتبار ہی نہیں۔
معلوم ہوا کہ دم ، جھاڑ ، تعویذ کو شرک کہنا کم علمی اور جہالت ہے.
.......

دم اور تعویذ کی شرعی حیثیت

جائز کام کے لئے تعویذ جائز ہے اور ناجائز کام کے لئے ناجائز۔ ناجائز تعویذ کرنے اور کرانے والے دونوں برابر کے گناہ گار ہیں۔
دم اور تعویذ شرک نہیں بلکہ جائز ہیں اور اسی پر اجماع ہے۔ البتہ دم اورتعویذ کے لئے تین شرطوں کا تحقق لازمی ہے‘ اگر وہ تین شرطیں مفقود ہوجائیں تو پھر اس کے عدم جواز میں کوئی شک و شبہ نہیں مطلقاً دم اور تعویذ کو شرک کہنا غلط ہے۔ وہ شرائط یہ ہیں:
۱…تعویذات اللہ کے کلام یعنی قرآن کریم سے ہوں یا اللہ کے اسماء و صفات سے ہوں۔
۲…عربی زبان میں ہوں اور اگر کسی عجمی زبان میں ہوں تو اسکے الفاظ کے معانی معلوم ہوں۔
۳…دم کرنے اور کرانے والا دونوں یہ اعتقاد رکھتے ہوں کہ دم اور تعویذ میں بذاتہ کوئی تاثیر نہیں بلکہ مؤثرحقیقی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ یہ دم اور تعویذ صرف سبب اور ذریعہ ہیں۔
جیسا کہ ’فتح الباری‘ میں ہے:
 ’’وقد اجمع العلماء علی جواز الرقی عند اجتماع ثلاثۃ شروط: ان یکون بکلام اللّٰہ تعالیٰ، اوباسمائہ وصفاتہ وباللسان العربی او بما یعرف معناہ من غیرہ، وان یعتقد ان الرقیۃ لا توثر بذاتھا بل بذات اللہ تعالیٰ……‘‘ الخ۔
)فتح الباری شرح صحیح البخاری -کتاب الطب -باب الرقی -۱۰؍۱۹۵- رقم الحدیث:۵۷۳۵- رقم الباب:۳۲-ط: رئاسۃ ادارات البحوث العلمیۃ بالمملکۃ السعودیہ
اور مسلم شریف میں ہے کہ جس دم اور تعویذ میں شرک نہ ہو وہ جائز ہے اس میں ممانعت نہیں۔ جیسا کہ فرماتے ہیں:
’’لابأس بالرقی مالم یکن فیہ شرک…‘‘
الصحیح لمسلم -کتاب السلام -باب استحباب الرقیۃ من العین والنملۃ -۲؍۲۲۴-ط:قدیمی کراچی الطبعۃ الثانیہ ۱۳۷۵ھ بمطابق ۱۹۵۶ء۔
مذکورہ شرائط کے ساتھ دم اور تعویذ کے جواز پر چاروں ائمہ متفق ہیں، 
جیسا کہ ’کتاب الاثار‘ میں ہے:
’’قال محمد: وبہ نأخذ إذا کان من ذکر اﷲ أو من کتاب اﷲ وھو قول أبی حنیفۃ ‘‘

کتاب الاثار للإمام الأعظم أبی حنیفۃ نعمان بن ثابت -
کتاب الحظر والاباحۃ-باب الرقیۃ من العین والاکتواء -رقم الحدیث:۸۸۹-ص:۳۷۶-۳۷۷،ط: الرحیم اکیڈمی بار اول ۱۴۱۰ھ۔
وکذا فی مؤطا امام محمد ص: ۳۷۳،باب الرقی ،ابواب السیر ،ط: میر محمد کراچی۔۱۳۸۱ھ بمطابق ۱۹۶۱ء۔
اور بخاری کے حاشیہ میں ہے:
 ’’فیہ جواز الرقیۃ وبہ قالت الائمۃ الاربعۃ وفیہ جواز اخذ الاجرۃ‘‘…الخ

حاشیۃ البخاری لأحمد علی السھارنفوری-کتاب الاجارۃ-باب یعطی فی الرقیۃ-۱؍۳۰۴-حاشیۃ:۸،ط: قدیمی کراچی،الطبعۃ الثانیہ ۱۳۸۱ھ بمطابق ۱۹۶۱ء۔
متعدد اسلافؒ سے دم کرنا اور تعویذ لکھنا ثابت ہے۔
 حضرت عبد اللہ بن عمروؓ کا تعویذ لکھ کر دینا ثابت ہے۔
حضرت عبد اﷲ بن عباسؓ بچے کی پیدائش کے لئے دو آیات قرآنی لکھ کر دیتے تھے ملاحظہ ہومصنف ابن ابی شیبہ۔   
غرضیکہ مذکورہ شروط پائے جانے کے وقت جائز دم اور جائز تعویذ جائز ہے، جیسے جائز علاج جائز ہے اور ناجائز علاج ناجائز ہے۔
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ تعویذات وغیرہ بطور علاج کے لٹکائے جاتے ہیں، تو ظاہر سی بات ہے انسان کے جس حصہ اور عضو میں تکلیف ہوگی اسی حصہ اور عضو میں وہ تعویذ بطور علاج و دوا کے باندھا جائیگا، اور اس طرح باندھنا جائز ہے، اور یہی تعویذ وغیرہ اگر کپڑے یا چمڑے میں لپٹاہوا ہو تو اسے ناف‘ران‘اور جسم کے کسی بھی دوسرے حصے میں باندھنے سے اسکی اہانت نہیں ہوتی 
جیسا کہ انسان کے جسم کے کسی بھی حصے میں اگر درد ہوا اور اس پر کچھ پڑھ کر پھونک دینے سے اسکی اہانت نہیں ہوتی، تو اسی طرح قرآنی آیات کو اگر بطور علاج کے باندھا جائے تو اسکی اہانت نہیں ہوگی۔ 
البتہ کپڑے یا چمڑے میں لپیٹے بغیر تعویذ کو ران وغیرہ کے قریب باندھنا درست نہیں ہے، اس لئے کہ اس صورت میں قرآن کریم کی اہانت لازم آتی ہے۔ 
جیسا کہ ’’فتاوی شامی ‘‘میں ہے:  ’’ولا بأس بان یشد الجنب والحائض التعاویذ علی العضد إذا کانت ملفوفۃ‘‘
ایک اشکال اور اس کا جواب
اشکال ۔  حدیث مبارک میں تعویذ کو شرک فرمایا گیا ہے۔ 
الجواب بعون الملک الوہاب
; من علق تمیمۃ فقد آشرک:  یہ حدیث صحیح ہے مگر اس میں تعویذ سے مطلق تعویذ مراد نہیں، بلکہ وہ تعویذ مراد ہے جو جاہلیت کے زمانے میں کئے جاتے تھے اور جو شرکیہ الفاظ پر مشتمل ہوتے تھے پوری حدیث پڑھنے سے یہ مطلب بالکل واضح ہو جاتا ہے،
چنانچہ حدیث کا ترجمہ یہ ہے :
" حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کی خدمت میں ایک گروہ (بیعت کیلئے) حاضر ہوا. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نو کو بیعت فرمالیا اور ایک کو نہیں فرمایا  عرض کیا گیا : یا رسول اللہ آپ نے نو کو بیعت کر لیا اور ایک کو چھوڑ دیا ؟ فرمایا  اس نے تعویذ لٹکا رکھا ہے ! یہ سن کر اس شخص نے ہاتھ ڈالا اور تعویذ کو تعویذ کو توڑ دیا  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بیعت فرمالیا اور فرمایا : " من علق تمیمۃ فقد آشرک "  ترجمہ: جس نے تعویذ باندھا اس نے شرک کا ارتکاب کیا: 
 اس سے معلوم ہوا کہ یہاں ہر تعویذ مراد نہیں، بلکہ جاہلیت کے تعویذ مراد ہیں اور دور جاہلیت میں کاہن لوگ شیطان کی مدد کے الفاظ لکھا کرتے تھے.
عن عوف بن مالک الاشجعی قال : کنا نرقی فی الجاھلیۃ فقلنا : یا رسول اللہ ! کیف تری فی ذالک ؟ فقال : اعرضوا علی رقاکم  لا بآس بالرقی مالم یکن فیہ شرک.
( رواہ مسلم.  مشکوۃ ص 388 کتاب الطب والرقی)
احادیث سے تعویذ ات کا ثبوت:
مصنف ابن أبی شیبۃ میں ہے:
حدثنا عبدۃ عن محمد بن اسحاق عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ قال: قال رسول اﷲااذا فزع أحدکم فی نومہ فلیقل:’’أعوذ بکلمات اﷲ التامات من غضبہ و سوء عقابہ ومن شرعبادہ ومن شرالشیاطین وما یحضرون‘‘ فکان عبد اﷲ یعلّمھا ولدہ من أدرک منھم،ومن لم یدرک،کتبھا وعلقھا علیہ۔
قال الشیخ محمد عوّامہ فی تعلیقہ علی المصنف:
واسناد المصنف حسن،وفیہ عنعنۃ ابن اسحاق،و مع ذلک حسنہ الحافظ فی ’’نتائج الأفکار‘‘
وقد رواہ الطبرانی فی الدعاء(۱۰۸۶)من طریق المصنف بلفظ تلک الروایۃ،

ورواہ أبو داؤد(۳۸۸۹)،
والترمذی(۲۵۲۸)و قال:حسن غریب،

والنسائی (۱۰۶۰۱،۱۰۶۰۲)،
وأحمد(۲/۱۸۱) 
والحاکم(۱/۵۴۸)
 وصححہ،جمیعھم من طریق محمد بن اسحاقبہ۔(المصنف لابن أبی شیبۃ ۱۲/۷۴/۲۴۰۱۳ کتاب الطب باب من رخص فی تعلیق التعویذ ۲۱)

وقال الالبانی فی تعلیقہ علی الکلم الطیب : حسن لغیرہ ، وہوکما قال لان لہ شاہداً مرسلاً عند ابن السنی۔(تعلیق الالبانی علی الکلم الطیب ص۴۵)
مزید ملاحظہ ہو: 
خلق افعال العباد۱/۹۶، باب ما کان النبی یستعیذ بکلمات اﷲ لا بکلام غیرہ۔
و نوادر الأصول۱/۶۰۔  وسلاح المؤمن فی الدعاء۱/۲۹۷،قال المؤلفؒ:رواہ أبو داؤد و الترمذی والنسائی والحاکم فی المستدرک وقال الترمذی واللفظ لہ حسن غریب، 
و قال الحاکم صحیح الاسناد۔
نیز اس روایت کی تائید آثار سے بھی ہوتی ہے
۔
ملاحظہ ہو:مصنف ابن أبی شیبۃ میں ہے:

1. عن أبی عصمۃ قال :سألت سعید بن المسیب عن التعویذ؟فقال لا بأس بہ اذا کان فی أدیم۔

2. عن عطاء ؒفی الحائض یکون علیھا التعویذ قال:ان کان فی أدیم فلتنزعہ،و ان کانت فی قصبۃ فضۃ فان شاء ت وضعتہ ،و ان شاء ت لم تضعہ۔

3. عن جعفرعن أبیہ:انہ کان لا یری بأسا أن یکتب القرآن فی أدیم ثم یعلّقہ۔

4. عن ابن سرینؒ:انہ کا ن لا یری بأسا بالشیء من القرآن۔

5. قال وھیب حدثنا أیوب:أنہ رأی فی عضد عبید اﷲ بن عبد اﷲ بن عمرخیطا۔ 

6. عن لیث عن عطاء قال:لا بأس أن یعلق القرآن۔

7. عن یونس بن خباب قال:سألت أبا جعفرعن التعویذ یعلق علی الصبیان؟ فرخص فیہ۔

8. عن الضحاک: أنہ لم یکن یری بأسا أن یعلق الرجل الشیء من کتاب اﷲ اذا وضعہ عند الغسل وعند الغائط
(مصنف ابن أبی شیبۃ ۱۲/۷۶،۷۷)

علماء کے اقوال سے تعویذات کاثبوت: 

علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں:
و یجوز أن یکتب للمصاب و غیرہ من المرضی شیئا من کتاب اﷲ و ذکرہ بالمداد المباح و یغسل و یسقی،کما نص علی ذلک أحمد و غیرہ ،قال عبد اﷲ بن أحمد :قرأت علی أبی ثنا یعلی بن عبید ثنا سفیان عن محمد بن أبی لیلیٰ عن الحکم عن سعید بن جبیرعن ابن عباس قال :اذا عسرعلی المرأۃ ولادتھا فلیکتب :’’بسم اﷲ لا الہ الا اﷲ الحلیم الکریم…‘‘الخ۔ 
قال أبی ثنا أسود بن عامر باسنادہ بمعناہ وقال :یکتب فی اناء نظیف فیسقی،قال أبی:و زاد فیہ و کیع فتسقی و ینضح ما دون سترھا ،قال عبد اﷲ:رأیت أبی یکتب للمرأۃ فی جام أو شیء نظیف۔
عن ابن عباس قال:اذا عسر علی المرأۃ ولادھا فلیکتب:’’بسم اﷲ لا الہ الا اﷲ العلی العظیم لا الہ الا اﷲ الحلیم الکریم…‘‘الخ ، 
قال علی:یکتب فی کاغدۃ فیعلق علی عضد المرأۃ ، قال علی:و قد جربناہ فلم نر شیئا أعجب منہ،فاذا وضعت تحلہ سریعا ثم تجعلہ فی خرقۃ أو تحرقہ( مجموعۃ فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیۃ۱۹ /۶۴،۶۵)

علامہ ابن قیم ؒ فرماتے ہیں:
ورخّص جماعۃ من السلف فی کتابۃ بعض القرآن وشربہ، وجعل ذلک من الشفاء الذی جعل اﷲ فیہ۔

قال المروزی:بلغ أبا عبد اﷲ أنی حممت ،فکتب لی من الحمّی رقعۃ فیھا:بسم اﷲ الرحمن الرحیم،بسم اﷲ،و باﷲ،محمد رسول اﷲ…‘‘الخ، (زاد المعاد۴/۳۵۶)

قال یونس بن حبان:سألت أبا جعفر محمد بن علی أن أعلّق التعویذ،فقال:ان کان من کتاب اﷲ أوکلام عن نبی اﷲﷺ فعلِّقہ وستشف بہ مااستطعت ، قلت:أکتب ھذہ من حمّی الرِّبع:باسم اﷲ،وباﷲ،ومحمد رسول اﷲ الی آخرہ؟ قال:أی نعم۔
وذکرأحمد عن عائشۃ ؓوغیرھا،أنھم سھّلوا فی ذلک۔
قال حرب:و لم یشدّد فیہ أحمد بن حنبل،
 قال أحمد:وکان ابن مسعودؓ یکرھہ کراھۃ شدیدۃجدا۔
وقال أحمد وقد سئل عن التمائم تُعَلَّقُ بعد نزول البلاء؟قال:أرجوأن لا یکون بہ بأس۔قال الخلال:و حدثنا عبد اﷲ بن أحمد،قال:رأیت أبی یکتب التعویذ للذی یفزع،و للحمی بعد وقوع البلاء۔ 
کتاب للرعاف:
کان شیخ الاسلام ابن تیمیۃ ؒیکتب علی جبھتہ{و قیل یا ارض ابلعی مائک ،و یا سماء اقلعی و غیض الماء و قضی الامر} 
(ھود۴۴)و سمعتہ یقول:کتبتھا لغیر واحد فبرأ،فقال و لا یجوز کتابتھا بدم الرعاف،کما یفعلہ الجھال،فان الدم نجس،فلا یجوز أن یکتب بہ کلام اﷲ تعالی۔ 
ویکتب علی ثلاث ورقات لطاف:بسم اﷲ فرَّت،بسم اﷲ مرَّت،بسم اﷲقلَّت،و یأخذ کلّ یوم ورقۃ،ویجعلھا فی فمہ،ویبتلعھا بماء۔ (زاد المعاد۴/ ۳۵۶۔۳۵۸)

تحقیق المقالمیں ہے:
نسخۃ لوجع الغرس : یقول الشیخ ابن قیم الجوریۃ ؒ فی الطب النبوی ص ۲۷۹: یکتب علی الخد الذی یلی الوجع :{ بسم اللہ الرحمن الرحیم قل ہو الذی انشأکم وجعل لکم السمع والابصار والا فئدۃ قلیلا ما تشکرون } 
وان شاء کتب {ولہ ما سکن فی اللیل والنہار وہو السمیع العلیم 

ونسخۃ للخراج : یقول ؒ تکتب علیہ : {یسئلونک عن الجبال فقل ینسفہا ربی نسفاً فیذرہا قاعاً صفصفاً لا تری فیہا عوجاولا امتا } 
نسخۃ للحزار : یقول ؒ فی الطب النبوی ص ۲۷۸: یکتب علیہ{ فاصابہا اعصار فیہ نار فاحترقت} 
بحول اللّٰہ وقوتہ۔کتاب آخر لہ : عند اصفرار الشمس یکتب علیہ {یا ایہا الذین آمنوا اتقوا اللہ وآمنوا برسولہ یؤتکم کفلین من رحمتہ ویجعل لکم نورا تمشون بہ ویغفرلکم واللہ غفوررحیم } 

💜منہج الشیخ ابن قیم الجوریۃ ؒ فی بیان منافع کتابہ التعاویذ : یقول الشیخ : فی الطب النبوی ص ۲۷۷ :
 کل ماتقدم من الرقی فان کتابتہ نافعۃ ورخص جماعۃ من السلف فی کتابۃ بعض القرآن وشربہ وجعل ذلک من الشفاء الذی جعل اللہ فیہ۔
نسخۃ لعسر الولادۃ : 
یذکرعن عکرمۃ عن ابن عباسؓ قال:مرعیسیں علی بقرۃ وقد اعترض ولدہا فی بطنہا فقالت : یا کلمۃ اللّٰہ ادع اللّٰہ لی ان یخلصنی مما انا فیہ،فقال:یا خالق النفس من النفس ویا مخلص النفس من النفس ویا مخرج النفس من النفس خلصہا ، قال: فرمت بولدہا فاذا ہی قائمۃ تشمہ قال: اذا عسر علی المرأۃ ولدہا فاکتبہ لہا۔
کتاب آخرلذلک:یکتب فی أناء نظیف:{اذا السماء انشقت واذنت لربہا وحقت واذا الارض مدت والقت ما فیہا وتخلت} 
وتشرب منہ الحامل ویرش علی بطنہا۔

الامام احمد بن حنبل ؒوکتابتہ التعاویذ:

کتابتہ التعویذ لعسرالولادۃ وطلبہ الزعفران والجامع الواسع: یقول الشیخ ابن قیم الجوریۃؒ فی الطب النبوی ص۲۷۷: قال الخلال انبأنا ابو بکر المروزی: ان ابا عبد اللّٰہ جاء ہ رجل فقال یا ابا عبد اللّٰہ تکتب لامرأۃ عسرعلیہاولادتہا فی جامع،بیض وشیء نظیف یکتب حدیث ابن عباسؓ لا الہ اللّٰہ الحلیم الکریم سبحان اللّٰہ ربّ ا لعرش العظیم الحمد للّٰہ ربّ العٰلمین{کأنہم یوم یرون ما یوعدون لم یلبثوا الاساعۃ من نہاربلاغ فہل یہلک الا القوم الفاسقون} 
کتابۃ الامام احمد بن حنبلؒ التعویذ لازالۃ البلاء: یقول ابن قیم ؒ فی الطب النبویص ۲۷۷: قال احمد : وقد سئل عن التمائم تعلق بعد نزول البلاء ؟ قال : ارجو ان لا یکون بہ باس قال الخلال:
وحدثنا عبد اللّٰہ بن احمد قال: رایت ابی یکتب التعویذ للذی یفزع وللحمی بعد وقوع البلاء۔انتہیٰ۔
فتوی عطاء فی التعویذ: اخرجہ الدارمی فی السنن برقم۱۱۷۷: اخبرنا یعلی بن عبید ثنا عبد الملک عن عطاء فی المرأۃ الحائض فی عنقہا التعویذ اوالکتاب قال: 
ان کان فی ادیم فلتزعہ، وان کان فی قصبۃ مصاغۃ من فضۃ فلا باس ان شاء ت وضعت وان شاء ت لم تفعل،قیل لعبد اللّٰہ: تقول بھذا؟ قال نعم۔
تعویذ پر بدعت کی تعریف صادق نہیں آتی ۔
بدعت کی تعریف رد المحتار میں یہ ذکر کی گئی ہے:
بأنھا ما أحدث علی خلاف الحق الملتقی عن رسول اﷲامن علم أو عمل أو حال بنوع شبھۃ أو استحسان و جعل دیناً قویما و صراطاً مستقیماً فافھم۔(رد المحتار ۱/۵۶۰،۵۶۱) 
اگر تعویذ کا استعمال درست عقیدہ اور بیان کردہ شروط و ضوابط کے مطابق ہو تو بدعت کی تعریف کے دونوں جزو اس پر صادق نہیں آتے ۔اول تو اس لئے کہ یہ (خلاف الحق الملتقی عن رسول اﷲا)نہیں ہے کیونکہ یہ سلف الصالحین من الصحابۃ و التابعین سے ثابت ہے۔مثلاً عبد اللہ ا بن عمر،حضرت علی ،عبد اللہ ابن عباس ،امام احمد و غرہم سے۔

 نیز بدعت کی تعریف کا دوسرا جزو(وجعل دیناً قویماً و صراطا مستقیماً)بھی یہاں مفقود ہے اس لئے کہ کوئی بھی اسے دین کا جز وِلازم نہیں سمجھتا۔بلکہ ہم اسے صرف مباح سمجھتے ہیں ۔فلا یکون استعمالہ بدعۃ۔
......
کیا کہتے ہیں فقہاء کرام؟ 
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ گلے میں تعویذ پہننا شرک ہے اور پر زور انداز میں کہتے ہیں کہ یہ ہمارے عقید ہ کے خلاف ہے۔ ہندوستان میں ہم اپنے بچوں کے گلے میں یہ بری نظر سے بچانے کی غرض سے باندھتے ہیں۔ براہ کرم، بتائیں کہ کیا قرآ ن وحدیث کی روشنی میں تعویذ پہننا جائز ہے؟

Published on: Mar 11, 2008 جواب # 4576
بسم الله الرحمن الرحيم
مطلقاً شرک قرار دینا تو غلط ہے، البتہ کسی تعویذ میں کلماتِ شرکیہ ہوں یااس کو لینے دینے والے موٴثر بالذات سمجھتے ہوں یا ٹوٹکا اور جادو وغیرہ کے قبیل سے ہو تو بلاشبہ شرک وحرام ہے، لیکن جس تعویذ میں اسماء اللہ تعالیٰ یا ادعیہٴ ماثورہ ہوں اوراس کو موٴثر حقیقی نہ سمجھا جاتا ہو تو اس قسم کے تعویذ کو بھی شرک قراردینا تحکم و زیادتی ہے، اس لئے کہ اس قسم کے تعویذ کے لینے دینے اور استعمال کی اجازت کتب حدیث اور کتبِ فقہ و فتاویٰ سے ملتی ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، مرقات شرح المشکاة، ص:۳۲۱ و ۳۲۲، ج۸، الترغیب والترہیب، ج۵ ص۲۷۱، ابوداوٴد شریف، ج۲، ص۹۲، الفتاویٰ رد المحتار، ج۵ ص۲۳۲ وغیرہا، جو لوگ علی الاطلاق شرک قراردے کر اپنے عقیدہ کے خلاف بتلاتے ہیں، معلوم نہیں ان کا عقیدہ کیا ہے؟ آپ ان سے کہئے کہ شرک کی ایسی تعریف کرو کہ تمہارا عقیدہ بھی ثابت ہوجائے اور ہرقسم کا تعویذ حدودِ شرک میں داخل ہوجائے نیز دعاء دوا رقیہ (جھاڑ پھونک) سب خارج ہوجائیں اور اس تعریف پر حدیث و فتاویٰ کی روشنی میں کوئی اشکال بھی وارد نہ ہو، وہ لوگ جو تعریف بھی آپ کو لکھ کر دیں اس کو یہاں بھیج کر آپ تحقیق مزید کرلیں، اس وقت ان شاء اللہ مزید تفصیل تحریر کردی جائے گی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند








No comments:

Post a Comment