Friday 16 June 2017

خلیفۂ رابع حضرت علی رضی اللہ عنہ

ایس اے ساگر
اکیس رمضان المبارک حضرت علی ابن ابی طالب عمزاد پیغمبر ﷺ، حیدرؓ، دامادِ رسولﷺ، زوجِ بتولؓ، ہم زلفِ عثمانؓ، پدر حسنینؓ، خلیفۂ راشدؓ، خلیفہ چہارمؓ، امیرالمؤمنین سیدنا و مولانا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کا یوم شہادت ہے. سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین آسمان ہدایت پر ستاروں کی مانند ہیں ..... اللہ ان سبھوں سے راضی ہوا ....
خدمات و کمالات:
عبدالرشید طلحہ نعمانی رقمطراز ہیں؛ 
"مدتِ دراز تک آغوشِ نبوت میں پرورش پانے والے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ اسلام پر سب سے پہلے صدائے لبیک بلند کرنے والے، سخت گیر اور جاں گسل حالات میں سفرِ ہجرت کی رات فراش نبی کو اپنا بستر بنانے کی سعادت حاصل کرنے والے، غزوہ تبوک میں مملکتِ اسلامیہ کے دارالخلافہ ’مدینہ طیبہ‘ میں نیابتِ نبی کے فرائض انجام دینے والے، فصاحت وبلاغت کے امام، علم وادب کے منبع ، حکمت ودانائی کے مخزن، جرأ ت و شجاعت اور ذہانت وفطانت کے حسین امتزاج، جگرگوشہ رسول ’’فاطمۃ الزھرا‘‘ کے سرتاج، کمالِ تقویٰ اور غایتِ زہد کے باوجود خندہ رو اور شگفتہ مزاج، سطوت وحکومت، جاہ وحشمت اور سامان کروفر کی بہتات وفراوانی کے زمانہ میں بھی حلۂ خسروی کے بجائے پیوند دار پیراھن، تاجِ سروری کے مقابلہ میں بوسیدہ عمامہ، اور مسند جہاں بانی کی جگہ فرش خاکی کو پسند کرنے والے، خلیفۂ رابع امیر المؤمنین سیدنا علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ، جو مختلف خصائل وفضائل کے حامل، متعدد محاسن واخلاق کا مجموعہ اور کئی ایک کمالات وصفات کا ایسا حسین پیکر تھے گویا ان کی ایک زندگی کئی زندگیوں کا خلاصہ ونچوڑ اور حیات کا ہر شعبہ صفتِ کمال کا وہ نادر مرقع تھیں، جس سے فضیلت وخصوصیت کے بے داغ خدوخال ابھر کر سامنے آتے تھے اور جس کے ہر کمال پر نظریں جم کر رہ جاتی تھیں
زفرق تا بقدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا ایں جا است
عہدِ نبوی میں آپ کے کارناموں کا سرسری جائزہ:
تقریباً دس سال کی عمر میں اللہ رب العزت نے معرفتِ حق اور پھر قبولیتِ حق کی دولتِ گراں مایہ سے سرفراز فرمایا، پھر کیا تھا؟ دن و رات سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی معیتِ صادقہ میں گزرنے لگے، مشوروں کی مجلسوں میں، تعلیم وارشاد کے مجمعوں میں، کفار ومشرکین کے مباحثوں میں معبود ِحقیقی کی یادوں اور عبادتوں میں غرضیکہ ہر قسم کی صحبتوں میں شرکت کی سعادت سے بہرور ہونے لگے، خود حضرت علیؓ کا بیان ہے کہ میں محسنِ انسانیت کے پیچھے ایسے چلتا تھا جیسے اونٹ کا بچہ اونٹ کے پیچھے چلتا ہے۔
مدینہ طیبہ آنے کے بعد  ۱۱  ھ؁ میں آں حضرتﷺ نے حضرت علیؓ کو دامادی کا شرف بخشا؛ اس طرح جگر گوشۂ نبی حضرت فاطمۃ الزھراءؓ آپ کے نکاح میں آئیں۔
مدنی زندگی کے تمام غزوات میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضور ﷺ کے دستِ راست بنے رہے، غزوہ بدر، احد، خندق، بنی قریظہ، اور حنین وغیرہ میں آپ نے عزم و ہمت جرأت وشجاعت اور بے باکی و جواں مردی کے ایسے جوہر دکھلائے کہ ’’اسد اللہ‘‘ آپ کے نام کا جزو لاینفک ہوگیا، ان کے علاوہ متعدد سرایا بھی آپ کی ماتحتی میں بھیجے گئے جنہیں آپ نے کامیابی کے ساتھ سرانجام دیا اور قدم قدم پر اسلام کی سربلندی و اشاعت میں بھر پور حصہ لیا، صلح حدیبیہ کا معاہدہ آپ ہی نے تحریر کیا، معرکۂ خبیر کی فتح و ظفر مندی تو آپ ہی کے نام سے معنون ہے اسی طرح مکہ پر چڑھائی کے وقت جاسوسی کا خط لے کر جانے والی عورت کا پردہ بھی آپ ہی نے فاش کیا، غزوہ تبوک کے موقع پر آپ ہی نے جانشین نبی کے فرائض انجام دیئے اور جب آں حضرتﷺ اس دار ِفانی سے پردہ فرما گئے تو آپ کے غسل اور تجہیز وتکفین کی سعادت بھی آپ ہی کے حصہ میں آئی۔
علاوہ ازیں خلفاء ثلثہ کے بابرکت زمانوں میں بھی آپ ان اکابر کے دست راست اور مشیرِ خاص رہے، وفاتِ نبی کے بعد بنو ہاشم خلافت کو اپنا حق سمجھنے لگے، حتی کہ  رؤساء قریش نے تو حضرت کو آگے آنے کا باصرار مشورہ دیا مگر حضرت علیؓ نے دانائی اور دور اندیشی سے اس عظیم فتنہ کا خاتمہ فرمایا عہد فاروقی میں ایران پر چڑھائی کے وقت آپ ہی نے حضرت عمرؓ کو مدینہ نہ چھوڑنے کا صائب مشورہ دیا، ایک مرتبہ کسی شخص نے پیش رو خلفاء کے زمانہ میں پر امن حالات اور آپ کے زمانہ میں بپا شورش کا شکوہ کیا تو یوں ارشاد فرمایا کہ ہمیں مشورہ دینے والے تم ہو اور انہیں مشورہ دینے والے ہم تھے۔
حضرت عثمانؓ کی وفات کے بعد تقریباً ایک ہفتہ تک مسند ِخلافت خالی رہی، کوئی بھی نامور شخصیت بارِ حکومت اٹھانے کو تیار نہ ہوئی ان حالات میں انصار و مہاجرین کے بزرگ جمع ہو کر آپ کے پاس تشریف لائے اور خلافت کے اس عظیم منصب کو ۔۔۔ جس کے بلاشبہ آپ ہی حقدار تھے۔۔۔ قبول کرنے پر اصرار کیا، ابتداً آپ نے انکار کیا اور فرمایا کہ مجھے امیر بننے کے بہ نسبت وزیر بننا زیادہ پسند ہے، لیکن حالات کا بگاڑ اور امت کا اجماع دونوں آپ ہی کی شخصیت پر جمع ہوگئے، تب آپ کی ہمت عالیہ نے ۲۴؍ذی الحجہ   ۳۵ ھ؁کو امت کی باگ ڈور سنبھالی اور پیش رو خلفاء کی سنت کے عین مطابق مسلمانوں کے مجمع سے خطاب فرمایا جس میں حمد وثنا کے بعد ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کی جان ہر چیز سے زیادہ قیمتی ہے اس لئے تم سب متحد ومتفق ہوکر رہو، کیونکہ حقیقی مسلمان وہی ہے جس کے زبان و ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے، اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اس کے احکامات کی خلاف ورزی سے بچو، جہاں کہیں بھلائی کی بات دیکھو اسے قبول کرو اور جہاں بدی نظر آئے اس سے پر ہیز کرو۔
جن حالات میں حضرت علیؓ سریر آرئے خلافت ہوئے وہ غیر معمولی قسم کے نہایت پر آشوب حالات تھے، ایک طرف قصاص عثمانؓ کا سنگین مسئلہ درپیش  تھا تو دوسری طرف امیر معاویہؓ کی معزولی نے ایک نئی شورش برپا کر رکھی تھی، اس کے بعد بھی یکے بعد دیگرے سخت حالات آتے رہے مگر عزم و استقامت کا یہ کوہ ہمالیہ انتہائی جرأت و شجاعت کے ساتھ دیوانہ وار ان کا مقابلہ کرتا رہا بالخصوص جنگ جمل اور جنگ صفین (جو مشاجرات صحابہؓ کے عنوان سے معنون ہے) میں جس زبردست دور اندیشی اور حکمت و دانائی سے کام لیا وہ واقعۃً آپ ہی کا حق تھا۔
جنگ جمل:
حضرت عثمانؓ کی المناک شہادت کے وقت ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ مکہ معظمہ میں تھیں جب انہوں نے یہ اندوہناک خبر سنی تو غمگین ہوئیں، کبار صحابہؓ نے قاتلین عثمانؓ سے قصاص کا مطالبہ کیا، حضرت طلحہؓ اور زبیرؓ غم و اندوہ کی تصویر بنے ہوئے ام المؤمنین کی خدمت میں مکہ مکرمہ پہونچے، باہمی مشورے سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ بصرہ پہنچ کر حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا پر زور مطالبہ کیا جائے کیونکہ وہاں اسباب و وسائل مہیا تھے اس لئے حضرت عائشہؓ اس قافلہ کے ہمراہ تشریف لے گئیں جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ ام المؤمنین کے وجودِ باجود کے بناء پر لوگ ٹکراؤ اور تضاد سے باز رہیں، لیکن جب یہ قافلہ بصرہ پہنچا تو وہاں عثمان بن حنیف (جو حضرت علیؓ کی جانب سے بصرے کا گورنر تھا) ایک لشکر کی قیادت کرتا ہوا مقابلہ کے لئے آدھمکا لیکن شکست سے دوچار ہونا پڑا، اس کو پکڑ کر حضرت عائشہؓ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو لجاجت کے ساتھ معافی مانگی اور باعزت رہا کر دیا گیا، ان حالات کا علم جب حضرت علیؓ کو ہوا تو آپ ایک لشکر کے ساتھ بصر ہ پہونچے اور ام المؤمنین سے بصرہ آمد کا مقصد پوچھا آپ نے فرمایا کہ میں تو صرف یہ چاہتی ہوں کہ مظلوم خلیفہ عثمانؓ بن عفان کے قتل کا بدلہ لیا جائے حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میں بھی اسی حق میں ہوں کہ قاتلانِ عثمانؓ سے قصاص لیا جائے مگر ابھی حالات سازگار نہیں ہے، سب سے پہلے مملکتِ اسلامیہ میں امن وسکون کی فضاء قائم ہونے دیں اور اتفاقِ رائے کے ساتھ استحکامِ خلافت کا اہم کام نمٹ جائے
حضرت عائشہؓ نے اس بات پر اتفاق کرلیا مگر کچھ شرپسند عناصر نے مل کر رات کی تاریکی میں اہل بصرہ پر حملہ کر دیا اور مشہور یہ ہوا کہ حملہ کرنے میں فریق مخالف نے پہل کی تھی دونوں فریق ایک دوسرے سے بدظن ہوگئے اور تاریخ کا وہ اندوہناک واقعہ پیش آیا جو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا چنانچہ بدحواسی کے عالم میں جنگ شروع ہوئی اور طرفین سے دس ہزار افراد موت کی آغوش میں چلے گئے، حضرت عائشہؓ جس اونٹ پر سوار تھیں اس کی ٹانگیں کاٹ دی گئیں، حضرت طلحہؓ و زبیرؓ بھی اسی کے نتیجہ میں شہید ہوگئے، جب جنگ ختم ہوئی تو حضرت علیؓ نے ام المؤمنین کو پورے اعزاز و اکرام کے ساتھ چالیس خواتین کے جلو میں مدینہ منور ہ روانہ کیا اور مال کی بہت بڑی مقدار ان کے ہمراہ کردی کہ راستہ میں تکلیف نہ ہو۔
جنگ صفین:
جب حضرت علیؓ جنگ جمل سے فارغ ہوئے تو حضرت امیر معاویہؓ کو اپنی بیعت پر آمادہ کرنے کے لئے پیغام بھیجا، انہوں نے بیعت کرنے سے صاف انکار کر دیا ساتھ ہی انہیں شام کی گورنری سے معزول کرنے کا حکم صادر فرمایا لیکن حضرت معاویہؓ نے تسلیم نہیں کیا، حضرت علیؓ نے۸۰ہزار مجاہدین کی قیادت کرتے ہوئے شام کی طرف پیش قدمی کی، جب حضرت معاویہؓ کو پتہ چلا تو وہ بھی ساٹھ ہزار فوج لے کر دریائے فرات کے کنارے مقام صفین پر خیمہ زن ہوگئے، حضرت علیؓ کی فوج بھی دریا عبور کر کے میدان میں اتر آئی، امیر معاویہؓ کا کہنا تھا کہ حضرت علیؓ نے قاتلینِ عثمانؓ کو اپنے یہاں پناہ دے رکھی ہے کیونکہ حضرت علیؓ کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے میں بلوائیوں نے بھی پیش قدمی کی تھی اور حضرت علیؓ کے لئے سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ قتلِ عثمانؓ میں ملوث افراد کی شناخت کیسے کی جائے؟ ان کا تعین کر کے شرعی شہادت کی بنیاد پر ان کی گرفت یا ان پر قصاص کا اجراء ایک دشوار گذار امر بن چکا تھا، حضرت علیؓ کا کہنا تھا کہ قتل عثمانؓ میں میرا کوئی ہاتھ نہیں ہے؛ بلکہ میں نے خود متعدد بار بلوائیوں کو سمجھایا، میرے بیٹے قصر عثمانی کا پہرہ دیتے رہے وغیرہ، تین ماہ مسلسل دونوں فوجیں آمنے سامنے رہیں، مصالحت کے متعدد بار کوششیں کی گئیں جو نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکیں، ۲۷ ہجری ماہ شعبان کے اوائل میں دونوں فوجوں کے مابین خون ریز جنگ شروع ہوئی اور کئی دن بغیر کسی غلبۂ فریق کے جاری رہی، طرفین کے ہزاروں آدمی موت کی آغوش میں پہونچا دئے گئے، بالآخر حضرت عمرو بن العاصؓ نے حضرت امیر معاویہؓ کو مشورہ دیا کہ جنگ روکنے کے لئے میری تجویز یہ ہے کہ نیزوں پر قرآن اٹھا لیا جائے اور کتاب اللہ کو فیصل وحکم بنالیا جائے۔
جب مدمقابل قرآن حکیم کو سامنے دیکھا تو خاموش ہوگئے لڑائی سے ہاتھ روک لئے اور صلح کے لئے طرفین سے ایک نمائندہ مقرر کر دیا گیا، حضرت امیر معاویہؓ کی جانب سے حضرت عمرو بن العاصؓ اور حضرت علیؓ کی طرف سے حضرت ابوموسی اشعریؓ مصالحت کے لئے آگے آئے؛ مگر حضرت علیؓ کی فوج سے ۱۲ ہزار افراد ان الحکم الاللہ کا نعرہ لگا کر الگ ہوگئے جو خارجی کے نام سے معروف ہوئے اور یہیں سے امت میں افتراق و انتشار کا سلسلہ شروع ہوگیا، حکمین میں شامیوں (حضرت معاویہؓ) کی جانب سے مقرر کردہ حکم حضرت عمروبن العاصؓ، حضرت معاویہؓ کو معزول کرنے پر راضی نہ ہوئے اور نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں حکم اپنی اپنی رائے پر ڈٹے رہے اس موقع پر پھر کچھ صحابہؓ درمیان میں آگئے اور طئے کیا کہ دونوں اپنے اپنے علاقوں پر حکومت کریں کوئی دوسرے کے معاملہ میں دخل اندازی نہ کرے۔
خدمات پر ایک نظر:
سابقہ تفصیلات سے اتنا معلوم ہوگیا کہ حضرت علی مرتضیؓ کو اندرونی شورشوں اور خانگی جھگڑوں کو دبانے سے اتنی فرصت نہ مل سکی کہ وہ فتوحاتِ اسلامیہ کے دائرہ کو وسیع کرسکیں، تاہم آپ بیرونی امور سے کبھی غافل نہ رہے چنانچہ سیستاں اور کامل کی سمت میں بعض عرب خود مختار ہو گئے تھے ان کو قابو میں کرکے قدم آگے بڑھایا اور ۸۳؁ھ میں بعض مسلمانوں کو بحری راستہ سے ہندوستان پر حملہ کرنے کی اجازت دی، علاوہ ازیں انتظام مملکت میں حتی الوسع حضرت فاروق اعظم ؓ کے نقشِ قدم کی پیروی کی، اعمال کے محاسبے کا فاروقی نظام بحال کیا، رات کو شہروں کی گشت کا معمول بنایا، آپ سے پہلے جنگل سے کسی قسم کا مالی فائدہ نہیں لیا جاتا تھا آپ کے عہد میں جنگلات کو بھی محاصل ملکی کے ضمن میں داخل کیا گیا علاوہ ازیں حضرت علیؓ نے مسلمانوں کی اخلاقی نگرانی کا بھی نہایت سختی کے ساتھ خیال رکھا، مجرموں کو عبرت انگیز سزائیں دیں، ایران اور آرمینیہ میں بعض نو مسلم عیسائی مرتد ہوگئے تھے حضرت علیؓ نے نہایت سختی سے ان کی سرکوبی کی پھر خارجیوں اور ان سبائیوں کی بھی خوب خوب خبر لی، جنہوں نے حضرت علیؓ کی شان میں شدتِ غلو سے کام لیا ان سب کے باوجود آپ ایک بڑے تجربہ کار جنگ آز ما تھے، جنگی امور میں آپ کو بھر پور بصیرت حاصل تھی، اس لئے اس سلسلہ میں آپ نے بہت سی فوجی اصلاحات کیں جو آپ کی نکتہ سنجی اور دقیقہ رسی کی بین دلیل ہے۔
ایک شبہ کا ازالہ:
بعض وہ حضرات جو مزاجِ قدرت سے ناآشنا اور اسلام کی ہمہ گیریت وجامعیت سے ناواقف ہیں وہ خلافت راشدہ کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، پہلے دور کو اسلام کی ترقی وپیش قدمی اور دوسرے دور کو زوال وتنزلی سے تعبیر کرتے ہیں، پہلے دور کا امام؛ صدیق اکبر ؓ اور فاروق اعظم ؓ کو مانتے ہیں جب کہ دوسرے دور کی قیادت حضرت عثمانؓ و علیؓ کے سپرد کرتے ہیں، مفکر اسلام علی میاں ندویؓ نے اس تقسیم کو جسارت و جرأت قرار دیتے ہوئے ارقام فرمایا ’’میرے نزدیک یہ چاروں حضرات فرداً فرداً خلافتِ نبوی کا مظہر اتم اور مصداق کامل تھے، ذاتی فضائل ومناقب اور ان کی بناء پر تفاوتِ درجات کو الگ کرکے خلافتِ راشدہ کا مزاج اور اس کی روح ان میں سے ہر ایک میں بدرجہ اتم پائی جاتی تھی، میرے نزدیک اسلام کی زندگی میں پیش آنے والے تمام ادوار و مراحل کی نمائندگی خلافتِ راشدہ کے اس مختصر سے دور میں۔۔۔ جو ۴۰ سال سے متجاوز نہیں۔۔۔۔ کر دی گئی ہے اور ہر آنے والے ناگزیر دور کے لئے اس میں رہنمائی کا سامان ہے،
آغازِکار اور اقبال وترقی کے زمانہ میں کس استقامت اور ایمان ویقین کا مظاہرہ کرنا چاہئے اس کی رہنمائی ہم کو ابوبکرؓ کی حیات طیبہ سے حاصل ہوتی ہے، عروج و شباب اور امن و نظام کے زمانہ میں کس استقامت اور ایمان ویقین کا مظاہرہ کرنا چاہئے اس کی رہنمائی ہم کو فاروق اعظمؓ کے دور خلافت سے ملتی ہے، مخالفتوں، شورشوں، فتنوں، بے نظمی اور انتشار کے وقت کس ثبات واستقامت، کس پامردی اور دلیری اورکس ایمان ویقین کی ضرورت ہے اس کا نمونہ ہم کو حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کی زندگی میں ملتا ہے‘‘۔
وفات: 
مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت خوارج کے ہاتھوں ہوئی، یہ وہی گروہ ہے جو حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ کے قاتلوں میں شامل تھا، بعد میں اس پارٹی میں اختلافات پیدا ہو گئے اور خوارج نے اپنی جماعت الگ بنا لی۔
چنانچہ سترہ رمضان المبارک ۴۰/ہجری بروز جمعہ فجر کے وقت خارجی عبدالرحمن ابن ملجم مرادی اپنے دو ساتھی شبیب اور وردان کے ہمراہ جامع مسجد کوفہ پہنچا اور تینوں مسجد کے ایک کونے میں چھپ گئے۔ جس وقت آپؓ نماز فجر کے لئے تشریف لے آئے تھے اس وقت شبیب نے آپؓ پر پہلا وار کیا اوراس کے بعد عبدالرحمٰن ابن ملجم نے دوسرا وار کیا، واردن یہ دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا تھا شبیب بھی وار کرنے کے بعد بھاگ نکلا؛ مگرخارجی عبدالرحمن ابن ملجم مرادی پکڑا گیا۔
حضرت علیؓ نے اپنے بھانجے حضرت ام ہانیؓ کے بیٹے حضرت جعدہؓ کو نماز پڑھانے کاحکم دیا اس دوران سورج طلوع ہوچکا تھا، لوگ آپؓ کو زخمی حالت میں گھرلے گئے اور خارجی عبدالرحمن ابن ملجم مرادی کو آپؓ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپؓ نے اس بدبخت سے پوچھا کہ تجھے کس چیز نے مجھے مارنے پر آمادہ کیا؟ خارجی عبدالرحمن ابن ملجم مرادی نے آپؓ کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس تلوارکو چالیس روز تک تیز کیا اور ﷲ تعالیٰ سے دعا کی کہ اس سے وہ شخص مارا جائے جو خلق کے لئے شر کا باعث ہو آپؓ نے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں تو اس تلوار سے مارا جائے گا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وفات سے پہلے کچھ وقت مل گیا؛ جسے آپ نے اپنے بیٹوں کو وصیت کرنے  میں صرف کیا۔ جانکنی کے اس عالم میں بھی آپ نے جو باتیں ارشاد فرمائیں، وہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں۔
آپ نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو بلوایا اور ان سے فرمایا: “میں تم دونوں کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ دنیا کے پیچھے ہرگز نہ لگنا خواہ دنیا تم سے بغاوت  ہی کیوں نہ کر دے۔ جو چیز تمہیں نہ ملے، اس پر رونا نہیں۔ ہمیشہ حق بات کہنا، یتیموں  سے شفقت کرنا، پریشان کی مدد کرنا، آخرت کی تیاری میں مصروف رہنا، ہمیشہ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے حامی رہنا اور کتاب اللہ کے احکامات پر عمل کرتے رہنا۔ اللہ کے دین کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے مت گھبرانا۔
 آپ رضی اللہ عنہ شدید زخمی حالت میں تھے یہاں تک کہ ۲۱/ویں رمضان المبارک کی شب کا دو تہائی گذرنے پر مزید طبیعت خراب ہو گئی اور اسی اثناء کلمہ شہادت کا ورد کرتے ہوئے اپنی جان خالق حقیقی کے سپرد کر دی۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون۔"
نصیحت آمیز وصیت: 
ضربت کے بعد حسنین شریفین اور ان کے چاہنے والوں کے نام حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی وصیت:
اُوْصِیْکُمَا بِتَقْوَی اللّٰہِ۔
میں تم دونوں کو خدا سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں۔
وَاِنْ لَا تَبْغِیَاالدُّنْیَا وَاِنْ بَغَتْکُمَا۔
اور دنیا کی طرف مائل نہ ہونا خواہ وہ تمہاری طرف مائل ہو۔
وَلَا تَأَسَفًا عَلیٰ شَیْ ءٍ مِنْھَا زُوِیَ عَنْکُمَا۔
اور دنیا کی جو چیز تم سے روک لی جائے اس پر افسوس نہ کرنا۔
وَقُوْلَا بِالْحَقِّ۔
اور جو بھی کہنا حق کے لئے کہنا۔
وَاعْمَلَا لِلْاَجْرِ۔
اور جو کچھ کرنا ثواب کے لئے کرنا۔
وَکُوْنَا لِلظَالِمِ خَصْمًا وَلِلمَظْلُوْمِ عَوْنًا۔
اور ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا۔
اُوْصِیْکُمَا وَجَمِیْعَ وَلَدِیْ وَاَھْلِیْ وَمَنْ بَلَغَہُ کِتَابِیْ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَنَظْمِ اَمْرِکُمْ۔
میں تم دونوں کو، اپنی دوسری اولادوں کو، اپنے کنبے کے افراد کو اور جن لوگوں تک میرا یہ نوشتہ پہنچے، اُن سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اپنے امور کو منظم رکھنا۔
وَصَلَاحِ ذَاتِ بَیْنِکُمْ۔ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ جَدَّکُمَاصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ یَقُوْلُ:صَلَاحُ ذَاتِ الْبَیْنِ اَفْضَلُ مِنْ عَامَۃِ الصَّلٰوۃِ وَالصِّیَامِ۔
اور باہمی تعلقات کو سلجھائے رکھنا، کیونکہ میں نے تمہارے نانا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ :
" آپس کی کشیدگیوں کو مٹانا عام نماز روزے سے افضل ہے "
وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْاَیْتَامِ، فَلاَ تُغِبُّوْاأَفْوَاہَہُمْ وَلَا یَضِیْعُوْا بِحَضْرَتِکُمْ۔
دیکھو ...! یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، ان پر فاقے کی نوبت نہ آئے اور تمہارے ہوتے ہوئے وہ برباد نہ ہوں۔
وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ جِیْرَانِکُمْ، فَاِنَّھُمْ وَصِیَّۃُ نَبِیِّکُمْ، مَازَالَ یُوْصِیْ بِھِمْ، حَتَّی ظََنَنَّا أَنَّہُ سَیُوَرِّثُھُمْ۔
دیکھو ...! اپنے ہمسایوں کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا، کیونکہ ان کے بارے میں تمہارے نبیؐ نے برابر ہدایت کی ہےآپ ؐان کے بارے میں اس قدر تاکید فرماتے تھے کہ ہمیں یہ گمان ہونے لگا تھا کہ آپ ؐاُنھیں بھی ورثہ دلائیں گے۔
وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الْقُرْاٰنِ، لَا یَسْبِقُکُمْ بِالْعَمَلِ بِہٖ غَیْرُکُمْ۔
اور قرآن کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں۔
وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ الصَّلوٰۃِ، فَاِنَّھَاعَمُودُ دِیْنِکُمْ۔
نماز کے بارے میں اللہ سے ڈرنا کیونکہ وہ تمہارے دین کا ستون ہے۔
وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْ بیْتِ رَبِّکُمْ، لَا تُخْلُوْہُ مَابَقِیْتُمْ۔
اور اپنے رب کے گھر کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا، جیتے جی اسے خالی نہ چھوڑنا۔
فَاِنَّہُ اِنْ تُرِکَ لَمْ تُناظَرُوْا۔
کیونکہ اگر یہ خالی چھوڑ دیا گیا تو پھر (عذاب سے) مہلت نہ پاؤ گے۔
وَاللّٰہَ اللّٰہَ فِی الْجِہَادِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ وَاَلْسِنَتِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ۔
اپنے اموال، جان اور زبان سے راہِ خدا میں جہاد کے سلسلے میں خدا سے ڈرتے رہنا۔
وَعَلَیْکُمْ بِالتَّوَاصُلِ وَالتَّبَاذُلِ، وَاِیَّاکُمْ وَالتَّدَابُرَوَالتَّقَاطُعَ۔
تم پر لازم ہے کہ ایک دوسرے سے میل ملاپ رکھنا اور ایک دوسرے کی اعانت کرنا، خبردار ایک دوسرے سے قطع تعلق سے پرہیز کرنا۔
لَا تَتْْرُکُواالْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّہْیَ عَنِ الْمُنْکَرِ، فَیُوَلَّیٰ عَلَیْکُمْ شِرَارُکُمْ، ثُمَّ تَدْعُوْنَ فَلَا یُسْتَجَابُ لَکُمْ۔
دیکھو ...!امربالمعروف اور نہی عن المنکرکو ترک نہ کرنا، ورنہ بد کردار تم پر مسلّط ہوجائیں گے اور پھر اگر تم دعا مانگوگے تو وہ قبول نہ ہوگی۔
یَا بَنِیْ عَبْدِالْمُطَّلِبِ! لَا اُلْفِیَنَّکُمْ تَخُوْضُوْنَ دِمَآءَ الْمُسْلِمِیْنَ، خَوْضًا تَقُوْلُوْنَ: قُتِلَ اَمِیْرُالْمُؤْمِنِیْنَ۔
اے عبدالمطلب کے بیٹو! ایسا نہ ہو کہ تم، امیرالمو منین قتل ہو گئے، امیر المومنین قتل ہوگئے کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے لگو۔
أَلاَ لاَ تَقْتُلُنَّ بِیْ اِلَّا قَاتِلِیْ۔
دیکھو ...! میرے بدلے میں صرف میرا قاتل ہی قتل کیاجائے۔
اُنْظُرُوْااِذَاأَ نَامُتُّ مِنْ ضَرْبَتِہِ ہٰذِہٖ، فَاضْرِبُوْہُ ضَرْبَۃً بِضَرْبَۃٍ، وَلَا تُمَثِّلُ بِالرَّجُلِ، فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہُ (صَلّی اللّٰہ عَلیْہِ وَآلِہِ وَسَلَّمَ) یَقُوْلُ: ”
اِیَّاکُمْ وَالْمُثْلَۃَ وَلَوْبِالْکَلْبِ الْعَقُوْرِ۔
دیکھو ...! اگر میں اس ضرب سے مر جاؤں، تو تم اس ایک ضرب کے بدلے میں اسے ایک ہی ضرب لگانا، اور اس شخص کے ہاتھ پیرنہ کاٹنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ(صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے سنا ہے کہ :
" خبردار کسی کے ہاتھ پیر نہ کاٹنا، خواہ وہ کاٹنے والا کتّا ہی کیوں نہ ہو "

1 comment:

  1. مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت خوارج کے ہاتھوں ہوئی۔ یہ وہی گروہ ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں میں شامل تھا۔تین خارجی ابن ملجم، برک بن عبداللہ اور عمرو بن بکر تیمی اکٹھے ہوئے اور انہوں نے منصوبہ بنایا حضرت علیؓ، حضرت معاویہ ؓ اور حضرت عمرو بن عاصؓ کو ایک ہی رات میں قتل کر دیا جائے۔ ان لوگوں نے اپنی تلواریں زہر میں بجھا لیں۔ ابن ملجم کوفہ آ کر دیگر خوارج سے ملا جو خاموشی سے مسلمانوں کے اندر رہ رہے تھے۔ 19 رمضان المبارک کوحضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نماز فجر کیلے کوفہ کی مسجد میں داخل ہوئے اور سوئے ہوے افراد کو نماز کیلے بیدار کیا، جب آپؓ محراب میں داخل ہوئے اور نماز شروع کی تو پہلے سجدے سے ابھی سر اٹھا ہی رہے تھے کہ ابن ملجم نے اپنی شمشیر سے حضرت علی ؓ پر قاتلانہ حملہ کیااور آپ کا سر سجدے کی جگہ( ماتھے ) تک زخمی ہوگیا،اور وہی پرابن ملجم کو پکڑ لیا اور فرمایا کہ ”اگر میں زندہ رہا تو اسے خود سزا دوں گا اور مناسب فیصلہ کروں گا اور اگر جانبر نہ ہو سکا تو اسے قتل کردینا“۔ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اکیس رمضان40 ھ کوحضرت علی المرتضیٰؓنے جام شہادت نوش فرمایا

    ReplyDelete