Saturday 17 June 2017

وَّ اَرۡسَلَ عَلَیۡہِمۡ طَیۡرًا اَبَابِیۡلَ ۙ

ایس اے ساگر

بات 570ء یا 571ء کی ہے جب یمن کا فرمانروا ابرہہ ساٹھ ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی، بعض روایات کے مطابق نو ہاتھی لے کر کعبہ کو ڈھانے کے لئے مکہ پر حملہ آور ہوا۔ اہل مکہ اس خیال سے کہ وہ اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبے کو بچانے کی طاقت نہیں رکھتے، اپنے سردار عبدالمطلب کی قیادت میں پہاڑوں پر چلے گئے۔ اس پر اللہ تعالٰیٰ کے حکم سے ہزاروں پرندے جنھیں عام طور پر ابابیل کا نام دیا جاتا ہے چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے لئے ہوئے نمودار ہوئے اور انھوں نے ابرہہ کے لشکر پر ان سنگریزوں کی بارش کر دی، چنانچہ یہ سارا لشکر منیٰ کے قریب وادی محسر میں بالکل کھائے ہوئے بھوسے کی طرح ہو کر رہ گیا۔
تو اس طرح یہ مکمل لشکر اللہ تعالٰی کے حکم سے تباہ و برباد ہوگیا اللہ تعالٰی نے اس حادثے کا قرآن مجید میں کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے:
سورہ الفِیل آیت نمبر 1
اَلَمۡ  تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ  بِاَصۡحٰبِ الۡفِیۡلِ ؕ﴿۱﴾
ترجمہ:
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیسا معاملہ کیا ؟ (١)
تفسیر:
1: یہ ابرہہ کے لشکر کی طرف اشارہ ہے جو کعبے پر چڑھائی کرنے کے لئے ہاتھیوں پر سوار ہو کر آیا تھا۔ ابرہہ یمن کا حکمران تھا۔ اور اس نے یمن میں ایک عالیشان کلیسا تعمیر کرکے یمن کے لوگوں میں یہ اعلان کرادیا کہ آئندہ کوئی شخص حج کے لئے مکہ مکرمہ نہ جائے اور اسی کلیسا کو بیت اللہ سمجھے، عرب کے لوگ اگرچہ بت پرست تھے؛ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تعلیم وتبلیغ سے کعبے کی عظمت ان کے دلوں میں پیوست تھی، اس اعلان سے ان میں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی اور ان میں سے کسی نے رات کے وقت اس کلیسا میں جاکر گندگی پھیلادی اور بعض روایتوں میں ہے کہ اس کے کچھ حصہ میں آگ بھی لگائی، ابرہہ کو جب یہ معلوم ہوا تو اس نے ایک بڑا لشکر تیار کرکے مکہ مکرمہ کا رخ کیا، راستہ میں عرب کے کئی قبیلوں نے اس سے جنگ کی ؛ لیکن ابرہہ کے لشکر کے ہاتھوں انہیں شکست ہوئی، آخر کار یہ لشکر مکہ مکرمہ کے قریب مغمس نامی ایک جگہ تک پہنچ گیا، لیکن اگلی صبح اس نے بیت اللہ کی طرف بڑھنا چاہا تو اس کے ہاتھی نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا اور اسی وقت سمندر کی طرف سے عجیب و غریب قسم کے پرندوں کا ایک غول آیا اور پورے لشکر پر چھا گیا، ہر پرندے کی چونچ میں تین تین کنکر تھے جو انھوں نے لشکر کے لوگوں پر برسائے، ان کنکروں نے لشکر کے لوگوں پر وہ کام کیا جو بارودی گولی بھی نہیں کرسکتی، جس پر بھی یہ کنکری لگتی اس کے پورے جسم کو چھیدتی ہوئی زمین میں گھس جاتی تھی، یہ عذاب دیکھ کر سارے ہاتھی بھاگ کھڑے ہوئے، لشکر کے سپاہیوں میں کچھ وہیں ہلاک ہوگئے اور کچھ جو بھاگ نکلے وہ راستہ میں مرے، اور ابرہہ کے جسم میں ایسا زہر سرایت کرگیا کہ اس کا ایک ایک جوڑ گل سڑ کر گرنے لگا اسی حالت میں اسے یمن لایا گیا اور وہاں اس کا سارا بدن بہہ کر ختم ہوگیا اور اس کی موت سب سے زیادہ عبرتناک ہوئی، یہ واقعہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت باسعادت سے کچھ ہی روز پہلے پیش آیا تھا، اور حضرت عائشہ اور ان کی بہن حضرت اسماء (رضی اللہ عنہا) نے ان دو اندھے اپاہجوں کو دیکھا ہے۔ (تفصیلی واقعات کے لئے ملاحظہ ہو معارف القرآن) ۔ اس سورت میں اس واقعے کا تذکرہ فرما کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت بہت بڑی ہے، اس لئے جو لوگ آپ کی دشمنی پر کمر باندھے ہوئے ہیں آخر میں وہ بھی اصحاب الفیل کی طرح منہ کی کھائیں گے۔
آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی
https://goo.gl/2ga2EU
یہ ایسا واقعہ جس نے ایک چھوٹے سے پرندے ابابیل کو نمایاں کردیا، جس نے ابرہہ کے لشکر پر کنکریاں مار مار کر نیست و نابود  کر دیا تھا  جو  بد بخت  کعبہ ڈھانے کیلئے ہاتھیوں  کا لشکر لے کر آیا تھا  اللہ نے برباد چھوٹی سی مخلوق سے کروا دیا ۔۔۔۔

زبردست صلاحیت:

ابابیل اپنا گھونسلہ کنوئیں میں بناتی ھے.. اس کے پاس اپنے بچوں کو اڑنے کی عملی تربیت دینے کے لئے نہ تو کوئی اسپیس یا سہولت دستیاب ھوتی ھے اور نہ ھی وہ کچی تربیت کے ساتھ بچوں کو اڑنے کا کہہ سکتی ھے کیونکہ پہلی اڑان میں ناکامی کا مطلب پانی کی دردناک موت ھے.. مزید کسی ٹرائی کے امکانات زیرو ھیں..
آج تک اگر کسی نے ابابیل کے کسی مرے ھوئے بچے کو کنوئیں میں دیکھا ھے تو بتا دے..ابابیل بچوں کے حصے کی تربیت بھی اپنی ذات پر کرتی ھے.. بچوں سے پہلے اگر وہ اپنے گھونسلے سے دن بھر میں 25 اڑانیں لیتی تھی تو بچے انڈوں سے نکلنے کے بعد 75 اڑانیں لیتی ھے.. یوں ماں اور باپ 150 اڑانیں لیتے ھیں تا آنکہ اپنے بچوں کا دل و دماغ اس یقین سے بھر دیتے ھیں کہ یہاں سے اڑ کر سیدھا باھر جانا ھے اور بس !! اور کوئی آپشن نہیں ھے.. ایک دن آتا ھے کہ بچہ ھاتھ سےنکلے ھوئے پتھر کی طرح گھونسلے سے نکلتا ھے اور سیدھا جاکر کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ جاتا ھے!

جہد مسلسل:

مزید یہ کہ ابابیل زمین پر اترے بغیر مسلسل 10 ماہ تک پرواز کرسکتا ہے. ماہرین کے مطابق ابابیل یا کامن سوئفٹ 10 ماہ تک مسلسل پرواز کرسکتی ہے جبکہ اپنے اس پورے سفر میں وہ ایک لمحے کے لئے بھی زمین پر نہیں اُترتا اور اُڑنے کے دوران ہی اپنی غذا بھی حاصل کرتا ہے۔

بلندی پرواز:

چھوٹی جسامت ہونے کے باوجود ابابیل کا شمار دنیا کے بلند پرواز اور تیز رفتار پرندوں میں کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے مسلسل طویل ترین مدت تک پرواز کا ریکارڈ 6 ماہ تھا جو ابابیل ہی کی ایک قسم ’الپائن سوئفٹ‘ کے پاس تھا۔ عام ابابیل نے، جسے سائنسی زبان میں ’ایپس ایپس‘ (Apus Apus) کہا جاتا ہے، یہ ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔ یوروپ سے افریقہ تک موسمی نقل مکانی یا سیزنل مائیگریشن کرتے ہوئے یہ ابابیل مسلسل 10 ماہ تک بغیر رُکے اور بغیر زمین پر اُترے پرواز کرتا ہے۔

قوت و صلاحیت:

سویڈن کی لیونڈ یونیورسٹی نے ڈاٹا حاصل کرنے کا ایک نیا طریقہ اختیار کرتے ہوئے 19 سوئفٹ پرندوں کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ جب یہ پرندہ اپنی نسل نہیں بڑھاتا تو اس دوران 10 ماہ کے عرصے میں 99 فیصد وقت میں پرواز ہی کرتا رہتا ہے۔ ایکولوجی کے پروفیسر اینڈرس ہیڈینسٹروئم کے مطابق عام سوئفٹ پرندے اگست میں اپنا گھر چھوڑ کر وسط افریقہ کے جنگلات کی جانب پرواز کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض رات کچھ کئی دن اور کچھ مہینوں تک زمین کو نہیں چھوتے۔

توانائی کا استعمال:

کرنٹ بائیالوجی میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق رات کو وہ کم بلندی پر پرواز کرتے ہیں اور اس سے اپنی توانائی بچاتے ہیں۔ دن میں گرم ہوا کے مرغولوں پر تیرتے رہتے ہیں اور اس طرح دن میں بھی اپنی قوت کو جمع رکھتےہیں۔ لیکن یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ پرندے سوتے بھی ہیں یا نہیں۔ یہ اڑان کے دوران ہی کھانا جمع کرکے کھاتے رہتے ہیں۔ شاید یہ رات کو کچھ وقت کے لئے آرام کرتے ہوں گے مگر بہت ہی تھوڑے وقفے کے لئے۔

طویل العمری:

عجیب بات یہ ہے کہ سوئفٹ پرندوں کی زندگی بھی طویل ہوتی ہے اور ایک پرندہ اوسطاً 20 سال تک زندہ رہتا ہے۔ ان کے مسلسل سفر کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ایلپائن سوئفٹ اور عام ابابیل، دونوں پرندے ہی اپنی 20 سالہ زندگی میں اتنے فاصلے تک پرواز کرلیتے ہیں جو چاند تک آنے اور جانے کے 7 چکروں جتنا طویل ہوتا ہے۔

بھوپال کے افتخار اجمل کے مطابق "ابابیل میں نے جموں اور سیالکوٹ میں دیکھے تھے ۔ پھر کہیں نظر نہیں آئے،
ابابیل کو قریب سے بھی دیکھا تھا یعنی زخمی ابابیل کو ہتھیلی پر رکھ کر دیکھیی تو پتہ چلے گا کہ ابابیل کی ٹانگیں بہت نازک ہوتی ہیں اور وہ ان پر چڑیا کی طرح کھڑی نہیں ہو پاتا. سیالکوٹ میں ابابیل کے گھر جنھیں وہاں کی مقامی زبان میں آلنا کہتے ہیں دریا کے قریب کچی پہاڑی یعنی مٹی کی پہاڑی کے سوراخوں میں تھے. میں نے صرف ایک مرتبہ ابابیل کا بچہ دیکھا جسے ایک لڑکے نے ہتھیلی پر رکھا ہوا تھا اور اُس پر ترس کھا رہا تھا کہ بیچارہ نہ معلوم کیسے زمین پر گِر گیا۔ اُسے آلنے میں کیسے پہنچایا جائے ؟ کیونکہ آلنے بہت اُونچے تھے اور پہاڑی تقریباً عمودی تھی ۔ کچی ہونے کی وجہ سے اس پر چڑھنے کی کوشش بڑی حماقت تھی۔"
سنتے ہیں کہ مسجد الحرام میں ابابیل کعبے کا طواف بھی کرتے ہیں .... ابابیل کی کچھ اقسام درختوں کی کھوہ میں بھی اپنا گھر بناتے ہیں۔ وکشنری کے مطابق 'ابابیل' ایک چھوٹی سی چڑیا ہے جس کے پر سیاہ اور سینہ سفید ہوتا ہے۔ پرانے گنبدوں، کھنڈروں اور تاریک مقامات پر مٹی کا گھونسلا بنا کر رہتا ہے۔

No comments:

Post a Comment