Friday 23 June 2017

عیدالفطر اور نماز عید

ایس اے ساگر
امت مسلمہ کے لئے عید الفطر نہایت خوشی کا دن ہے، اس خوشی کی وجہ یہ ہے کہ اس دن مسلمان اللہ جل شانہ کی توفیق اور اس کے فضل وکرم سے اپنے ذمہ عائد ایک بہت بڑے فریضے کی تکمیل کرچکے ہوتے ہیں، پورا مہینہ دن کو روزہ اور شب میں تراویح کی ادائیگی اور اس میں کلامِ الہی کے پڑھنے اور اس کے سننے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ اس محنت کا بدلہ یا مزدوری اس عید الفطر کے دن دیا جاتا ہے، اہل علم نے کے متعدد فضائل کئے ہیں؛ اس دن کو آسمانوں میں ”یوم الجائزة“ یعنی انعام کا دن اور اس کی رات کو ”لیلة الجائزة“ یعنی انعام کی رات کہہ کر پکارا جاتا ہے، عید کے دن اور اس کی رات کی اللہ تعالی کے نزدیک بہت بڑی فضیلت اور اہمیت ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے 'شعب الایمان' میں ایک لمبی حدیث نقل کی ہے، جس کے کچھ حصے کا ترجمہ ذیل میں نقل کیا جاتاہے، جس سے اس دن اور رات میں اللہ تعالی کی طرف سے اس کے بندوں کے ساتھ ہونے والے معاملے کا اندازہ ہو سکتا ہے:
”پھر جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو (آسمانوں میں) اس کا نام ”لیلة الجائزة“ (انعام کی رات) سے لیاجاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ رب العزت فرشتوں کو تمام شہروں کی طرف بھیجتے ہیں، وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں (راستوں) کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسی آواز سے، جس کو جن و انس کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے، پُکارتے ہیں کہ اے امتِ محمدیہ، اُس ربِ کریم کی (بارگاہ کی) طرف چلو، جو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے،
پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالی شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں:
کیا بدلہ ہے اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کر چکا ہو؟
وہ عرض کرتے ہیں کہ، اے ہمارے معبود اور مالک، اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کو اس کی مزدوری پوری پوری ادا کر دی جائے،
تو اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
”فإني أشھدکم یا ملائکتي! إنيقد جعلتُ ثوابھم من صیامھم شھر رمَضان وقیامھم رضائي ومغفرتي“
فرشتو! میں تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کردی۔
اس کے بعد اللہ تعالی اپنے بندوں سے خطاب فرما کر ارشاد فرماتے ہیں:
”یا عبادي! سلُوني، فوعزّتي وجلاليلا تسئَلونِي الیومَ شیئاً في جَمْعِکم لِاٰخِرَتِکم إلا أعطیتُکم، ولا لِدُنیاکم إلا نَظرتُ لکم، فوَعِزّتِيْ، لأستُرنَّ علیکم عَثَراتِکُم ما راقَبتُموني، وعزّتي وجلالي، لَا أُخْزیکم ولا أفضَحُکم بین أصحاب الحدود، وانْصَرِفُوا مَغْفُوْراً لکم، قد أرضَیتموني ورضیتُ عنکم، فتَفرَحُ الملائکةُ وتَستبشِرُ بما یُعطِي اللهُ عزَّوجلّ ھٰذہ الأمةَ، إذا أفطروا مِن شھرِ رمَضَان“․
اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزت کی قسم! میرے جلال کی قسم! آج کے دن اپنے اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے عطا کروں گا او ردنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے اس میں تمھاری مصلحت پر غور کروں گا، میری عزت کی قسم! جب تک تم میرا خیال رکھوگے میں تمھاری لغزشوں کی ستاری کرتا رہوں گا (اور ان کو چُھپاتا رہوں گا)۔ میری عزت کی قسم! میرے جلال کی قسم! میں تمھیں مجرموں (اور کافروں) کے سامنے رُسوا نہیں کروں گا، بس! اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاوٴ، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا،
پس فرشتے اس اجرو ثواب کو دیکھ کر، جو اس امت کو افطار کے دن ملتا ہے، خوشیاں مناتے ہیں اورکھِل جاتے ہیں۔
(اللھم اجعلنا منھم،آمین)․
لہٰذا اللہ رب العزت کی (عطایا کی) طرف دیکھتے ہوئے ہمیں بھی چاہئے کہ اس دن کو بھی اور اس بعد کے ایام کو بھی اس کی منشا کے مطابق گذارنے کی کوشش کریں کہ یہی اس کی عطایا کی قدردانی ہے، چناں چہ ذیل میں عید الفطر کے دن کے مسنون اور مستحب اعمال تحریر کئے جاتے ہیں:
عید کے دن کے اعمال
*   عید کے دن صبح سویرے اٹھنا۔
”ویستحب التبکیر وہو سرعة الانتباہ“․(العالمگیریة:1/149، رشیدیة)
*   نمازِ فجر اپنے محلے کی مسجد میں پڑھنا۔
”ومن المندوبات صلاة الصبح في مسجد حیہ“․
(ردالمحتار:۳/۵۶، دارالمعرفة)
*   جسم کے زائد بال اور ناخن وغیرہ کاٹنا۔
”ویتطیب بإزالة الشعر وقلم الأظفار“․(حلبي کبیر، ص:566، سھیل اکیڈمی)
*   غسل کرنا۔
*   مسواک کرنا (یہ اس مسواک کرنے کے علاوہ ہے جو وضو میں کی جاتی ہے، نیز مسواک کرنا خواتین کے لئے بھی مسنون ہے)۔
*   جو کپڑے پاس ہوں اُن میں سے اچھے عمدہ کپڑے پہننا، نئے ہوں تو نئے پہن لئے جائیں، ورنہ دُھلے ہوئے پہنے جائیں۔
*   خوشبو لگانا (لیکن خواتین تیز خوشبو نہ لگائیں)۔
”ثم یستحب لصلاة العید ما یستحب لصلاة الجمعة مِنَ الِاغتسال، والاِستیاک، والتطیُّب، ولُبس أحسنِ الثیابِ، والتبکیرِ إلی المُصلّیٰ لأنہ یوم اجتماع للعبادة کالجُمعة فیستحبُ التَنظِیف وإِظھار النِعْمة والمُسَارعة“ (حلبی کبیر، ص:566، سھیل اکیڈمی)
*   انگوٹھی پہننا (مَردوں کے لئے زیادہ سے زیادہ ساڑھے چار ماشہ چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے، اس سے زیادہ یا کسی اور دھات کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں)۔
”في النَھْر عن الدِرایة: أَنَّ مَنْ کان لا یختم مِنَ الصحابةِ کان یختم یومَ العید“․(ردالمحتار:3/56،دارالمعرفة)․
*   اگر صدقہ فطر ابھی تک ادا نہ کیا ہو تو عید کی نماز سے پہلے پہلے ادا کرنا۔
”ویوٴدّي صدقة الفطرإِغناءً لِلفقیرِ لِیَتَفَرَّغ قلبُہ للصلاة“․ (فتح القدیر:2/70، دارالکتب العلمیة)
*   عید گاہ کی طرف جلدی جانا۔
”ویَستحِب․․الِابتکارُ وہو المُسارعة إلیٰ المُصَلّیٰ“․ (العالمگیریة:1 /149، رشیدیة)
*   پیدل چل کر عید گا ہ جانا، البتہ اگر کوئی عذر ہو تو سواری پر جانے میں مضائقہ نہیں۔
”ثُمّ خُروجُہ ماشیاً إلیٰ الجَبَانةِ“․ (ردالمحتار: 3/56، دارالمعرفة)․
*   نمازِعید ،عید گاہ میں ادا کرنا، البتہ اگر کوئی عذر ہو (مثلاً: بارش ہو، دشمن کا خوف ہو یاعید گاہ میں امام صحیح العقیدہ نہ ہو) تو مسجدِمحلہ میں ہی نمازِ عید ادا کرلی جائے۔ (کذا فی امداد الاحکام: 1/733)
*   عید گاہ کی طرف جاتے ہوئے آہستہ آواز میں تکبیرات تشریق کہتے ہوئے جانا اور عید گاہ پہنچ کر تکبیرات بند کر دینا، تکبیرات تشریق یہ ہیں
”اَللّٰہُ أَکبَر، اَللّٰہُ أکبر، لآإلٰہ إلا اللّٰہُ واللّٰہُ أکبر، اللّٰہُ أکبر ولِلّٰہِ الحمد“۔
”ویُستَحبُّ التکبیرُ جھراً في طَریق المُصلّیٰ یومَ الأضحیٰ إِتّفاقاً للإِجماع، وأَمّا یوم الفطر فقال أبو حنِیفة: لایُجھَرُ بِہ“․
(حلبي کبیر، ص:566، سھیل اکیڈمی)
*   عید الفطر کی نماز کے لئے جانے سے پہلے کچھ کھا لینا، اگر کوئی میٹھی چیز ہو (کھجور، چھوہارے یا کوئی اور چیز) تو طاق عدد میں کھانا بہتر ہے اور اگر میٹھی چیز نہ ہو تو کوئی بھی چیز کھالی جائے۔
”ویستحب في یوم الفطر اَٴنْ یطعم قبل أن یَخْرُجَ إلی المُصَلّیٰ“․
(فتح القدیر:2/69، دارالکتب العلمیة)
*   نمازِ عید ادا کرنے کے بعد واپسی پر راستہ بدل کر آنا۔ (مرقاة:3/290،رشیدیہ)
*   ہر کسی سے خوش اخلاقی سے پیش آنا، بشاشت کا اظہار کرنا اور غیض و غضب سے پرہیز کرنا۔ ”وندُب․․․․․․إِظھارُ البَشاشَة“․ (ردالمحتار: 3/56،دارالمعرفة)
*   اپنی وسعت کے مطابق مستحقین اور مساکین کی مدد کرنا۔
”وندُب․․․․إِکثارُ الصَّدَقَة“․ (ردالمحتار:3/56، دارالمعرفة)․
*   اپنی حیثیت کے مطابق اپنے گھر والوں پر کھانے وغیرہ کے اعتبار سے کشادگی کرنا۔
*   اگر ممکن ہو تو عید کے دن جبہ پہننا۔
”ویندُب للرّجال وکان للنبياجُبَّةُ فَنَکٍ یلبَسُھا في الجُمَع والأعیاد“․(حاشیة الطحطاوي علی مراقی الفلاح:289، دارالکتب العلمیة)۔
*   ایک دوسرے کو مبارک باد دینا (بشرطیکہ اس کو لازم نہ سمجھا جائے)۔
”وندُب․․․․․التَھنِئَةبتقبَّل اللّٰہُ منَّا ومِنْکُم“․ (ردالمحتار: 3/56، دارالمعرفة)․ (عمدة الفقہ:2/259 ،260 ملخصاً)۔

 عید کی نماز کے بعد گھر میں چار رکعت نفل۔
قَالَ (وَإِنْ تَطَوَّعَ بَعْدَهَا بِأَرْبَعِ رَكَعَاتٍ بِتَسْلِيمَةٍ فَحَسَنٌ) لِحَدِيثِ عَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «مَنْ صَلَّى بَعْدَ الْعِيدِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِكُلِّ نَبْتٍ نَبَتَ وَبِكُلِّ وَرَقَةٍ حَسَنَةً»
المبسوط السرخسی
......
 هل ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه صلى ركعتين بعد صلاة العيد؟
الإجابــة
 الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:
فإنا لم نعثر على ما يفيد صحة صلاة الرسول صلى الله عليه وسلم ركعتين بعد صلاة العيد، وإنما ثبت من هديه أنه كان إذا خطب بعد الركعتين يمشي إلى النساء فيذكرهن ويحثهن على الصدقات. وأحيانا يشتغل بتجهيز بعث يريد أن يبعثه، ولم يثبت فيما اطلعنا عليه أنه صلى في المصلى غير ركعتي العيد.
والله أعلم.
.....
00والخلاصة أنه لم يثبت في استحباب الركعتين بعد صلاة العيد في البيت شيء[وهذه هي مسألتنا الأصلية المبحوثة هنا] ، وأما الصلاة قبل العيد أو بعدها[من غير تقييد بالبيت،وهي أعم من مسألتنا الأصلية] ، فكما يقول ابن حجر:"الحاصل أن صلاة العيد لم يثبت لها سنة قبلها ولابعدها...،وأما مطلق النفل فلم يثبت فيه منع بدليل خاص".<الفتح2/476> ، وقال ابن جريج:قلت لعطاء:هل بلغك من شيء من الصلاة كان يسبح به بعد صلاة الفطر ؟
قال عطاء بن أبي رباح: "لا".
قلت:إلا بما أكثرت أحب إليك ؟
 قال"نعم". [أي:وإن لم تبلغني سنة مخصوصة بعد صلاة العيد،فإن ذلك لا يعني عدم مشروعية النوافل المطلقة،بل كلما أكثرت منها كان ذلك أحب]
رواه عبدالرزاق56233 وإسناده صحيح على رسم الصحيحين.
- ومن المسائل التي لها علاقة بالموضوع أيضا: التفريق بين صلاة النفل المطلق في مصلى العيد و صلاة النفل المطلق في غير مصلى العيد[وحكى ابن رجب<الفتح6/186> عن أكثر العلماء أنه لابأس بذلك في غير مصلى العيد لمن صلى فيه ، والتفريق بين الإمام وغيره[أما الإمام فقد ذكر ابن رجب6/186 أنه لايعلم خلافا في كراهة صلاته قبل العيد أو بعدها(يعني:في الموضع الذي يصلي فيه العيد)].
- تنبيه: يظهر من سياق بعض الروايات عن بعض السلف في الصلاة قبل العيد أو بعدها أن كلامهم منزل على صلاتها في المصلى أو المسجد. [راجع أحكام العيدين للفريابي(باب ماروي أنه لا صلاة يوم العيد قبل صلاة العيد ولا بعدها)] ؛ فإدخال هؤلاء في المانعين منعا مطلقا فيه نظر.
والله أعلم
......
 _الجواب الخاص:
أ‌- أما أثر ابن مسعود
فرواه ابن أبي شيبة58022-طبعة دارالقبلة- عن مروان بن معاوية عن صالح بن حي عن الشعبي:"كان عبدالله إذا رجع يوم العيد صلى في أهله أربعا".
 ورجاله ثقات حفاظ من رجال الصحيحين، ولكنه منقطع بين الشعبي وعبدالله بن مسعود[انظر: كتاب<التابعون الثقات2/458>] ، ثم إن أثر ابن مسعود هذا قد رواه عبدالرزاق5620 من نفس الطريق-عن الثوري عن صالح عن الشعبي به ، دون القيد الذي في رواية ابن أبي شيبة(إذا رجع...في أهله) ، والثوري أوثق من مروان بن معاوية، ثم إن مروان بن معاوية الفزاري يكثر من تدليس الشيوخ، فيحتمل أنه دلس اسم شيخه هنا[ولم أجد في تهذيب الكمال7/75 ذكرا لصالح بن حي في شيوخ مروان بن معاوية]، وإن كان الأظهر أنه صالح بن صالح بن حي؛ فإن روايته عن الشعبي مشهورة وهي في الكتب الستة،ولكن قد يؤخذ بالاحتمال الأبعد في بعض الأحوال[بضوابط معروفة،وتطبيقات ذلك مبثوثة في كتب العلل،وقد اشتهر هذا عن ابن خزيمة في بعض الأمثلة المتداولة]، ولكن يبعده هنا جدا=متابعة الثوري له عن صالح بن صالح بن حي. والله أعلم
 [تنبيه: وجدت بعض الباحثين يضعف هذا السند بعنعنة مروان بن معاوية! وهذا خطأ؛فإن مروان بن معاوية إنما اشتهر عند الحفاظ المتقدمين بتدليس الشيوخ(انظر:معجم المدلسين ص436-443)،لا تدليس الإسناد؛ فلا دخل للعنعنة بهذا القسم من التدليس-أعني:تدليس الشيوخ-. والله أعلم]
 ثم إنه روي عن الشعبي[راوي الرواية السابقة عن ابن مسعود] أنه سمع أصحاب رسول الله-كذا دون استثناء- يقولون:"لا صلاة قبل الأضحى ولا بعدها ، ولا قبل صلاة الفطر ولا بعدها، حتى تزيغ الشمس". رواه عبدالرزاق5625 ولا يصح؛ ففي السند راو مبهم.
 ثم إن جميع الروايات[غير الرواية السابقة] التي جاءت في الباب الذي عقده ابن أبي شيبة لهذه المسألة عن جماعة من أصحاب ابن مسعود ليس فيها هذا القيد، وكذا ليس في ما روى5804-بإسناد على رسم الصحيحين- عن إبراهيم النخعي عن(أصحاب عبدالله...)،وكذا ليس في ما روى5805-بإسناد على رسم الصحيحين- عن إبراهيم النخعي قال: (كانوا...)، وكذا ليس هذا القيد في شيء من الروايات في هذا الباب عن غيرهم، بل في بعض الروايات عن بعض أصحاب ابن مسعود وغيرهم ما يخالف هذا القيد[يظهر منها الصلاة قبل الرجوع إلى المنزل].
 وكذا ليس في شيء من الروايات التي عند عبدالرزاق في الباب الطويل الذي عقده لمسألة الصلاة بعد صلاة العيد3/271-277 هذا القيد عن ابن مسعود[ روى عنه ثلاث روايات؛رواية الشعبي،ومرسلي ابن سيرين وقتادة عنه5621] ولا عن أصحاب ابن مسعود ولا عن غيرهم، بل في بعض الروايات عن بعض أصحابه وغيرهم ما يخالف هذا القيد[يظهر منها الصلاة قبل الرجوع إلى المنزل] ، وكذا لم تأت في طريقين آخرين ضعيفين عن ابن مسعود في<المعجم الكبير>للطبراني9528،9531.
وَمِنْهَا) أَنْ يَتَطَوَّعَ بَعْدَ صَلَاةِ الْعِيدِ أَيْ بَعْدَ الْفَرَاغِ مِنْ الْخُطْبَةِ؛ لِمَا رُوِيَ عَنْ عَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - عَنْ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنَّهُ قَالَ: «مَنْ صَلَّى بَعْدَ الْعِيدِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِكُلِّ نَبْتٍ نَبَتَ، وَبِكُلِّ وَرَقَةٍ حَسَنَةً» .
بدائع الصنائع
.....
- وأما أثر بريدة
فرواه البيهقي في سننه الكبير3/3044 عن عون الحارثي عن عبدالله بن بريدة قال:"رأيت أبي توضأ في يوم عيد...،ثم صلى في أهله أربع ركعات لما رجع".
 وإسناده صحيح رجاله ثقات، سوى عون الحارثي فإنه مجهول. [انظر:<التاريخ الكبير7/17>وحاشيته،<الجرح والتعديل6/388>،<الرواة الذين سكت عليهم أئمة الجرح والتعديل>ص244]
0ثم إنه مع ضعف رواية البيهقي هذه فإن ابن أبي شيبة58077 قد روى أثر ابن بريدة هذا عن أبيه-بإسناد جيد- دون القيد المذكور في رواية البيهقي(في أهله...لما رجع). وسنده جيد[ولاوجه لإيراد كلام أحمد-رواية الجوزجاني- في أحاديث عبدالله عن أبيه هنا،بل روايته هنا عن أبيه قوية دون شك(ويضيق المقام عن شرح ذلك). والله أعلم]
0بل إن الإمام أحمد-كما في رواية ابنه عبدالله(4699)- عد بريدة رضي الله عنه في الصحابة الذين لم يكونوا يصلون قبلها ولا بعدها.
9/ قال ابن جريج:قلت لعطاء:هل بلغك من شيء من الصلاة كان يُسبح به بعد صلاة الفطر ؟
قال عطاء بن أبي رباح: "لا".
رواه عبدالرزاق56233 وإسناده صحيح على رسم الصحيحين.
10/ قال الزهري: "ما علمنا أحدا كان يصلي قبل خروج الإمام يوم العيد ، ولا بعده".
رواه عبدالرزاق56155 وإسناده صحيح على رسم الصحيحين. [وقد أغرب جدا محقق مصنف عبدالرزاق حين عزاه للصحيحين!]
11/ قال الشعبي: "أتيت المدينة وهم متوافرون فما رأيت أحدا من الفقهاء يصلي قبله ولا بعده".
رواه الفريابي في<أحكام العيدين1799> بسند صحيح رجاله رجال الصحيحين.
12/ وروى عبدالرزاق أيضا5625 عن ابن جريج قال:حدثت حديثا رفع إلى الشعبي أنه سمع أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يقولون: " لا صلاة قبل الأضحى ولا بعدها ، ولا قبل صلاة الفطر ولا بعدها، حتى تزيغ الشمس". رواه عبدالرزاق5625 ولا يصح؛ففي السند راو مبهم.
13/ لم يذكر عامة أهل العلم استحباب هاتين الركعتين[=الركعتين بعد العيد في البيت]، ولذلك قال الحاكم بأنها(سنة عزيز)،ولم ينقل ابن حجر في الفتح2/476 القول بها إلا عن إسحاق بن راهويه فقط! [ونقل ابن المنذر في<الأوسط4/270> عن إسحاق بن راهويه صلاة "أربع" ركعات في البيت ، مع أن الذي في مسائل الكوسج766 أن إسحاق بن راهويه جزم بأنه لا صلاة بعد صلاة العيد-دون استثناء-(وهو الذي نقله الترمذي عنه،على جادته في جامعه من الاعتماد على مسائل الكوسج في نقل أقوال إسحاق) ، وتقديم رواية الكوسج أولى إلا أن يستظهر مستظهر بأن جواب إسحاق في رواية الكوسج متوجه لصورة خاصة؛وهي صلاتها في مصلى العيد،ولكن هذا خلاف الأصل. والله أعلم]
-وسبق أنه ممن نص على استحبابها-من غير المتأخرين- : ابن خزيمة والحاكم.
نمازِ عید کا طریقہ:
عیدکی نماز دو رکعت ہے ،اس کا طریقہ عام نمازوں کی ہی طرح ہے، البتہ اس نماز میں چھ تکبیریں زائد ہوتی ہیں (تین پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے اور تین دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے) یہ تکبیرات واجب ہیں، اور ان کا ثبوت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور کئی تابعین کرام سے ہے۔ (مسند احمد، شرح معانی الآثار، مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبد الرزاق، مبسوط سرخسی، کتاب الآثار، اوجز المسالک وغیرہ)
نماز کا طریقہ یہ ہے؛
سب سے پہلے دل میں یا زبان سے نیت کرلے کہ،
”دو رکعت عید کی واجب نماز، چھ واجب تکبیروں کے ساتھ اس امام کے پیچھے پڑھتا ہوں.“
اس کے بعد تکبیر تحریمہ یعنی”اللّٰہ أکبر“ کہہ کر ہاتھ باندھ لے،
پھر ثناء، یعنی:”سبحٰنک اللہم․․․الخ“
پڑھ کے تین بار ”اللّٰہ أکبر“ کہے، پہلی اور دوسری بار کانوں تک ہاتھ اُٹھا کر نیچے لٹکا دے، البتہ تیسری بار ہاتھ نہ لٹکائے، بلکہ باندھ لے، اس کے بعد امام ”أعوذ باللّٰہ“ اور ”بسم الله“ پڑھ کے قرات کرے اور حسبِ قاعدہ پہلی رکعت پوری کرے، دوسری رکعت میں قرات کرنے کے بعد رکوع سے پہلے اسی طرح تین مرتبہ ”اللّٰہ أکبر“ کہے جیسے پہلی رکعت میں کیا تھا، البتہ یہاں تینوں مرتبہ ہاتھ اُٹھا کر چھوڑ دے اور چوتھی بار رکوع کی تکبیر ”اللّٰہ أکبر“ کہہ کر رکوع میں چلاجائے اور حسبِ قاعدہ نماز مکمل کرے۔
اگر کچھ رکعتیں چھوٹ جائیں تونمازِعید میں ملنے کا طریقہ:
”نماز عید“ میں مسبوق (یعنی وہ افراد جن کی کوئی رکعت یا تکبیرات رہ گئی ہوں) کی جتنی بھی صورتیں بن سکتی ہوں ان کو تفصیل سے بیان کر دیا جائے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ علمائے کرام وائمہ مساجد انھیں عید المبارک سے چند روز قبل تفصیل سے بیان کر دیں، تاکہ بہت سے صوم وصلوة کے پابند حضرات کی نماز ِعید خراب ہونے سے بچ سکے۔
ذیل میں وہ تمام (متوقع) صورتیں جو پیش آسکتی ہیں، ان کا حکم ذکر کیا جاتا ہے:
اگر کوئی شخص ایسے وقت نماز میں شریک ہوا جب امام تکبیراتِ زوائد کہہ چکا تھا، تو ایسے شخص کے لئے حکم یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھنے کے بعد فورا تین تکبیراتِ زوائد کہے اور اس کے بعد خاموشی سے امام کی قرات سنے۔
(ردالمحتار: 3/64، دارالمعرفہ، بیروت)
....
نمازعید کے احکام
نماز عید واجب یا سنت؟
  فقہ حنفی میں عید ین  کی نماز واجب ہے،سنت نہیں۔
نماز عید کس پر واجب ہے؟
عید کی نماز شہر کے مردوں پر واجب ہے۔عورتوں پر نماز عید واجب نہیں، اسی طرح گاؤں دیہات  کے  لوگوں پر نماز عیدواجب  نہیں۔
خطبہ:
عیدین میں  خطبہ پڑھنا سنت ہے، واجب نہیں، لیکن جب خطبہ شروع ہوجائے تو مقتدیوں پر  اسے سننا  واجب ہے۔
خطبہ نماز کے بعد پڑھے:
نماز کے بعدامام  منبر پر کھڑے ہو کر دو خطبے پڑھے اور دونوں خطبوں کے درمیان اتنی دیر بیٹھتے جتنی دیر جمعہ کے دوخطبوں کے درمیان بیٹھتے ہیں۔
دعا:
عیدین کی نماز کے بعد دُعا مانگنا جائز بلکہ مستحب  ہے،لیکن یہ دعا نماز کے بعد ہونی چاہیے، خطبوں کے بعد دعا کرنا بے اصل ہے۔(محمودیہ، احسن الفتاوی ، فتاوی دارالعلوم زکریا)
اگر تکبیرات نکل جائیں:
اگر کوئی شخص عید کی نماز میں ایسے وقت آکر شریک ہوا کہ امام تکبیریں پڑھ چکا تھا تو اگر قیام میں آکر شریک ہوا ہو تو نیت باندھنے کے بعد فوراً تکبیریں کہہ لے، اگر چہ امام قرات شروع کرچکا ہو اور اگر رکوع میں آکر شریک ہوا ہو تو اگر غالب گمان یہ ہو کہ تکبیروں سے فارغ ہونے کے بعد امام کے ساتھ رکوع مل جائے گا تو نیت باندھ کر تکبیر کہہ لے، اس کے بعد رکوع میں جائے،رکوع نہ ملنے کا خوف ہوتو رکوع میں شریک ہوجائے اور حالت رکوع میں بجائے تسبیح کے تکبیریں کہہ لے مگر حالت ِ رکوع میں تکبیریں کہتے وقت ہاتھ نہ اٹھائے اور اگر اس کی تکبیریں پوری ہونے سے پہلے امام رکوع سے سر اُٹھالے تو یہ بھی کھڑا ہوجائے اور اس صورت میں جتنی تکبیریں رہ گئی ہیں وہ معاف ہیں۔
عیدین میں سجدہ سہو نہیں:
عیدین کی نماز میں کوئی ایسی غلطی ہوجائے جس سے سجدہ سہو واجب ہوتا ہے تویہ سجدۂ سہوواجب نہیں۔یہ گنجائش ہر ایسی نماز میں ہے جس میں نمازیوں کی تعداد بہت زیادہ ہو۔
نماز عید سے پہلے اشراق ونوافل:
جو مسلمان عید کی نماز پڑھنے والے یا پڑھنے کا ارادہ رکھنے والے ہیں ان کے لیے نماز عید سے پہلے کسی بھی طرح کے نوافل مکروہ ہیں، عید گاہ میں بھی اور گھر میں بھی؛نماز عید کے بعد عید گاہ میں مکروہ ہے گھر وں میں نماز عید کے بعد نوافل درست ہیں؛ لہٰذا دیہات میں نمازعید کے وقت نفل نماز پڑھنا ممنوع نہ ہوگا؛ کیونکہ دیہات میں عید ہوتی ہی نہیں۔
حوالہ جات:
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 275)
وَتَجِبُ صَلَاةُ الْعِيدَيْنِ عَلَى أَهْلِ الْأَمْصَارِ كَمَا تَجِبُ الْجُمُعَةُ وَهَكَذَا رَوَى الْحَسَنُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ تَجِبُ صَلَاةُ الْعِيدِ عَلَى مَنْ تَجِبُ عَلَيْهِ صَلَاةُ الْجُمُعَةِ۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 275)
حَتَّى لَا تَجِبَ عَلَى النِّسْوَانِ وَالصِّبْيَانِ وَالْمَجَانِينِ
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 277)
 وَكَيْفِيَّةِ أَدَائِهَا فَنَقُولُ: يُصَلِّي الْإِمَامُ رَكْعَتَيْنِ: فَيُكَبِّرُ تَكْبِيرَةَ الِافْتِتَاحِ، ثُمَّ يَسْتَفْتِحُ فَيَقُولُ: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِك إلَى آخِرِهِ عِنْدَ عَامَّةِ الْعُلَمَاءِ، وَعِنْدَ ابْنِ أَبِي لَيْلَى يَأْتِي بِالثَّنَاءِ بَعْدَ التَّكْبِيرَاتِ وَهَذَا غَيْرُ سَدِيدٍ؛ لِأَنَّ الِاسْتِفْتَاحَ كَاسْمِهِ وُضِعَ لِافْتِتَاحِ الصَّلَاةِ فَكَانَ مَحِلُّهُ ابْتِدَاءَ الصَّلَاةِ، ثُمَّ يَتَعَوَّذُ عِنْدَ أَبِي يُوسُفَ، ثُمَّ يُكَبِّرُ ثَلَاثًا، وَعِنْدَ مُحَمَّدٍ يُؤَخِّرُ التَّعَوُّذَ عَنْ التَّكْبِيرَاتِ بِنَاءً عَلَى أَنَّ التَّعَوُّذَ سُنَّةُ الِافْتِتَاحِ، أَوْ سُنَّةُ الْقِرَاءَةِ عَلَى مَا ذَكَرْنَا، ثُمَّ يَقْرَأُ ثُمَّ يُكَبِّرُ تَكْبِيرَةَ الرُّكُوعِ فَإِذَا قَامَ إلَى الثَّانِيَةِ يَقْرَأُ أَوَّلًا، ثُمَّ يُكَبِّرُ ثَلَاثًا، وَيَرْكَعُ بِالرَّابِعَةِ فَحَاصِلُ الْجَوَابِ أَنَّ عِنْدَنَا يُكَبِّرُ فِي صَلَاةِ الْعِيدَيْنِ تِسْعَ تَكْبِيرَاتٍ: سِتَّةٌ مِنْ الزَّوَائِدِ وَثَلَاثَةٌ أَصْلِيَّاتٌ: تَكْبِيرَةُ الِافْتِتَاحِ، وَتَكْبِيرَتَا الرُّكُوعِ وَيُوَالِي بَيْنَ الْقِرَاءَتَيْنِ فَيَقْرَأُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى بَعْدَ التَّكْبِيرَاتِ وَفِي الثَّانِيَةِ قَبْلَ التَّكْبِيرَاتِ.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 277)
 وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ يَسْكُتُ بَيْنَ كُلِّ تَكْبِيرَتَيْنِ قَدْرَ ثَلَاثِ تَسْبِيحَاتٍ
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 276)
وَأَمَّا الْخُطْبَةُ فَلَيْسَتْ بِشَرْطٍ؛ لِأَنَّهَا تُؤَدَّى بَعْدَ الصَّلَاةِ وَشَرْطُ الشَّيْءِ يَكُونُ سَابِقًا عَلَيْهِ أَوْ مُقَارِنًا لَهُ
(أوجز المسالک ۳/ ۴۲۴)
ولأن المبادرۃ إلی صلاۃ العید مسنونۃ ، وفي الاشتغال بالتطوع تاخیرہا … وعامۃ أصحابنا علی أنہ لایتطوع قبل صلاۃ العید لا فی المصلی، ولا فی البیت، فأول الصلاۃ في ہذا الیوم صلاۃ العید۔ 
ترتیب وپیشکش:                                                                                                                محمد انس عبدالرحیم
دارالافتاء جامعة السعید نرسری کراچی
۲۸ رمضان ۱۴۳۸ ہجری
......
تقبل الله منا ومنكم:
عید کے دن معانقے اور مصافحے کے ساتھ مبارکبادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہ تھا ، جیسے کہ ہمارے علاقوں میں عادت ہے اور اس قسم کا ہر کام بدعت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر وہ عمل جس پر ہمارا امر نہیں وہ مردود ہے (مسلم)۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب عید پڑھ کر واپس آتے تو ایک دوسرے کو "تقبل الله منا ومنكم" کہتے جیسے کہ الجوهر النقى (3/319) باب قول الناس في العيد تقبل الله منا ومنك میں ہے ، محمد بن زیاد سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں ابو امامہ باھلی اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ تھا جب وہ عید کی نماز پڑھ کر لوٹتے تو ایک دوسرے کو کہتے، اللہ تعالی ہم سے بھی قبول کرے اور آپ سے بھی۔
’عید مبارک‘ کہنا:
مسئلہ(۱۷۲): نمازِ عید کے بعد مصافحہ کرنا اور گلے ملنا ناجائز وبدعت ہے، شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں،
(۲) البتہ ’عید مبارک‘ کہنا جائز ودرست ہے، علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے محقق امیرِ حاج سے اس کا جواز بلکہ استحباب ثابت فرمایا ہے۔
 (المسائل المہمۃ)
.....
نماز عید کے بعد مصافحہ و معانقہ کرنے کا حکم

سوال : عید کی نماز کے بعد گلے ملنا کیسا ہے ؟

الجواب حامداًومصلیاً
نماز عید کے بعد مصافحہ و معانقہ کرنے کا حکم:
جن مواقع میں حضور ﷺ سے مصافحہ ثابت اور منقول ہے مثلاً ملاقات کے وقت بالاتفاق یا وداع کے وقت علیٰ الاختلاف ان مواقع میں تو مصافحہ و معانقہ سنت ہے اور جن مواقع میں مصافحہ و معانقہ ثابت نہیں ان مواقع میں مصافحہ و معانقہ کرنا فی نفسہ نہ سنت ہے اور نہ ناجائز بلکہ مباح ہے۔
اور عیدین کے بعد بھی حضور ﷺ سے مصافحہ و معانقہ کسی صحیح اور مستند حدیث سے ثابت نہیں لہٰذا جن علاقوں میں اس کو عید کی سنت سمجھا جاتا ہو اور اسی وجہ سے اس کا اہتمام و التزام کیا جاتا ہو یا اتنا ضروری سمجھا جاتا ہو کہ نہ کرنے والے کو ملامت کی جاتی ہو تو ایسی صورت میں یہ بدعت اور ناجائز ہو گا جو کہ واجب الترک ہے۔
لیکن مسلمانوں کی کثیر تعداد ایسی بھی ہے جو محض عید کی خوشی اور مسرت کی وجہ سے آپس میں معانقہ و مصافحہ کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو عید مبارک کہتے ہیں وہ اس کو عید کی سنت نہیں سمجھتے بلکہ محض محبت اور تعلق کا اظہار مقصود ہوتا ہے لہٰذا ایسی صورت میں مصافحہ ومعانقہ اور عید مبارک کہنا مباح اور جائز ہے۔
اور اگر بطور رسم و رواج کے کیا جائے جیسے ایک ہی گھر کے افراد یا بعض دوست اکٹھے آتے ہیں اور پھر نماز کے بعدبطورِ رسم مصافحہ و معانقہ کرتے ہیں تو اس سے بھی اجتناب کیا جائے کیونکہ شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں۔(مأخذ بتصرف فتوی جامعہ دارالعلوم کراچی :220/33)
===================
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (6 / 381)
(قوله كما أفاده النووي في أذكاره) حيث قال اعلم أن المصافحة مستحبة عند كل لقاء، وأما ما اعتاده الناس من المصافحة بعد صلاة الصبح والعصر، فلا أصل له في الشرع على هذا الوجه ولكن لا بأس به فإن أصل المصافحة سنة وكونهم حافظوا عليها في بعض الأحوال، وفرطوا في كثير من الأحوال أو أكثرها لا يخرج ذلك البعض عن كونه من المصافحة التي ورد الشرع بأصلها اهـ قال الشيخ أبو الحسن البكري: وتقييده بما بعد الصبح والعصر على عادة كانت في زمنه، وإلا فعقب الصلوات كلها كذلك كذا في رسالة الشرنبلالي في المصافحة، ونقل مثله عن الشمس الحانوتي، وأنه أفتى به مستدلا بعموم النصوص الواردة في مشروعيتها وهو الموافق لما ذكره الشارح من إطلاق المتون، لكن قد يقال إن المواظبة عليها بعد الصلوات خاصة قد يؤدي الجهلة إلى اعتقاد سنيتها في خصوص هذه المواضع وأن لها خصوصية زائدة على غيرها مع أن ظاهر كلامهم أنه لم يفعلها أحد من السلف في هذه المواضع، وكذا قالوا بسنية قراءة السور الثلاثة في الوتر مع الترك أحيانا لئلا يعتقد وجوبها ونقل في تبيين المحارم عن الملتقط أنه تكره المصافحة بعد أداء الصلاة بكل حال، لأن الصحابة – رضي الله تعالى عنهم – ما صافحوا بعد أداء الصلاة، ولأنها من سنن الروافض اهـ ثم نقل عن ابن حجر عن الشافعية أنها بدعة مكروهة لا أصل لها في الشرع، وأنه ينبه فاعلها أولا ويعزر ثانيا ثم قال: وقال ابن الحاج من المالكية في المدخل إنها من البدع، وموضع المصافحة في الشرع، إنما هو عند لقاء المسلم لأخيه لا في أدبار الصلوات فحيث وضعها الشرع يضعها فينهى عن ذلك ويزجر فاعله لما أتى به من خلاف السنة اهـ.
ثم أطال في ذلك فراجعه
===================
مشكاة المصابيح (باب الاعتصام بالکتاب و السنة):
عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد».
===================
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1 / 222):
المعنى من أحدث في الإسلام رأيا لم يكن له من الكتاب والسنة سند ظاهر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فهو مردود عليه، قيل: في وصف الأمر بهذا إشارة إلى أن أمر الإسلام كمل وانتهى وشاع وظهر ظهور المحسوس بحيث لا يخفى على كل ذي بصر وبصيرة، فمن حاول الزيادة فقد حاول أمرا غير مرضي لأنه من قصور فهمه رآه ناقصا.
===================
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2 / 755):
قال الطيبي: وفيه أن من أصر على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟
===================

واللہ تعالی اعلم بالصواب
سوال # 7376
کیا عید کے دن گلے ملنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے؟ اگر کوئی ہم سے گلے ملنے کے لیے آگے بڑھے تو کیا گلنے ملنا چاہئے؟
Published on: Sep 15, 2008 جواب # 7376
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 895=895/ م
خاص عید کے دن گلے ملنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام سے ثابت نہیں، اس لیے اس کا التزام بدعت ہے، ہاں اگر کسی سے بہت دنوں پر اُسی دن ملاقات ہوئی ہو تو فرطِ محبت میں اس سے گلے ملنے میں مضائقہ نہیں بشرطیکہ اس دن (عید کے دن) گلے ملنے کو مسنون یا ضروری نہ سمجھتا ہو، اور اگر کوئی گلے ملنے کے لئے آگے بڑھے تو حکمت وحسن تدبیر سے منع کردینا چاہئے لیکن فتنے کی شکل نہ پیدا ہونی چاہئے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء 

دارالعلوم دیوبند
........
فتوی: 895=895/ م
خاص عید کے دن گلے ملنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام سے ثابت نہیں، اس لیے اس کا التزام بدعت ہے، ہاں اگر کسی سے بہت دنوں پر اُسی دن ملاقات ہوئی ہو تو فرطِ محبت میں اس سے گلے ملنے میں مضائقہ نہیں بشرطیکہ اس دن (عید کے دن) گلے ملنے کو مسنون یا ضروری نہ سمجھتا ہو، اور اگر کوئی گلے ملنے کے لئے آگے بڑھے تو حکمت وحسن تدبیر سے منع کردینا چاہئے لیکن فتنے کی شکل نہ پیدا ہونی چاہئے۔
واللہ تعالیٰ اعلم 
دارالافتاء 
دارالعلوم دیوبند 
....
سوال # 41654
کیا عید کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا، گلے ملنا اور عید مبارک کہنا بدعت اور ناجائز ہے؟
Published on: Sep 22, 2012 جواب # 41654
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 912-908/N=10/1433
نماز عید کے بعد مصافحہ کرنا اور گلے ملنا ناجائز وبدعت ہے، شریعت سے اس کا کوئی ثبوت نہیں، البتہ عید مبارک کہنا جائز و درست ہے، علامہ شامی نے محقق ابن امیر حاج کے حوالہ سے اس کا جواز بلکہ استحباب ثابت فرمایا ہے۔ (رد المحتار کتاب الصلاة باب صلاة العیدین: ۳/۵۰، مکتبہ زکریا دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم 
دارالافتاء 
دارالعلوم دیوبند 
......
عبادات - جمعہ و عیدین
Indiaسوال # 60669
عید کے دن ہاتھ ملانا، گلے ملنا کیوں منع کرتے ہیں؟ لوگ خوشی سے ہی تو ملتے ہیں؟
Published on: Aug 13, 2015 جواب # 60669
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 724-689/Sn=10/1436-U
ابتدائے ملاقات کے وقت گلے ملنا اور مصافحہ ملانا مسنون ہے، خواہ عید کا روز ہو یا کوئی اور، اس سے کوئی منع نہیں کرتا؛ لیکن اپنی طرف سے مصافحہ اور معانقہ کو عید کے روز کے ساتھ یا عید کی نماز کے بعد کے ساتھ خاص کرلینا یہ صحیح نہیں ہے، مصافحہ یا معانقہ کی تخصیص عید کے روز کے ساتھ نہ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ صحابہٴ کرام سے؛ اس لیے ہمیں بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس طرح کی تخصیص اور التزام سے احتراز کرنا چاہئے۔ (رد المحتار، ۹/۵۴۷، باب الاستبراء وغیرہ، ط: زکریا، وفتاوی محمودیہ: ۳/ ۱۴۵)
واللہ تعالیٰ اعلم 
دارالافتاء 
دارالعلوم دیوبند 
.....
عید کے احکام تفصیل سے کتب حدیث شروحِ حدیث، کتب فقہ وفتاویٰ میں مذکور ہیں، عید پر گلے ملنے کا کہیں ثبوت نہیں، نہ اس کو واجباتِ عید میں سے کسی فقیہ نے شمار کیا ہے، نہ مستحبات میں لکھا ہے، نہ حضرت نبی اکرم فخر عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور جاں نثار حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم سے قولاً وعملاً اس کا ثبوت ملتا ہے، نیز معانقہ اور مصافحہ کا جو موقعہ احادیثِ مبارکہ میں تجویز ہے، اس میں عید پر گلے ملنا نہیں ہے، پس معانقہ ومصافحہ اس موقعہ پر شریعت کا حکم نہیں، اس لیے درست نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم 
دارالافتاء 
دارالعلوم دیوبند  
......
عید کے دن قبرستان جانے کی حقیقت
سوال: عید کے دن قبرستان جانے کی کیا حقیقت ہے ؟
الجواب حامدًا ومصلّياً
بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ عید کے دن نمازِ عید کے فوراً بعد قبرستان جانے کو ضروری خیال کیا جاتا ہے اور اس دن قبروں کی زیارت نہ کرنے والوں پر طعن کی جاتی ہے، یہ بدعت اور ناجائز ہے جس کو ترک کرنا لازم ہے، تاہم اگر اس کا التزام نہ کیا جائے اور اسے مسنون اور ضروری نہ سمجھا جائے تو فی نفسہٖ عید کے دن قبرستان جانا جائز ہے، اس کی کوئی ممانعت بھی نہیں ہے، نیز عام دنوں میں مردوں کیلئے قبرستان کی زیارت کرنا مستحب ہے، بہتر یہ ہے کہ ہر ہفتہ میں کم از کم ایک بار قبروں کی زیارت کی جائے اور زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ دن جمعہ کا ہو۔
(احکام میت:۹۹)
============
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) – (2 / 120)
وَمَا يُفْعَلُ عَقِيبَ الصَّلَاةِ فَمَكْرُوهٌ لِأَنَّ الْجُهَّالَ يَعْتَقِدُونَهَا سُنَّةً أَوْ وَاجِبَةً وَكُلُّ مُبَاحٍ يُؤَدِّي إلَيْهِ فَمَكْرُوهٌ
============
الفتاوى الهندية – (5 / 350)
وَأَفْضَلُ أَيَّامِ الزِّيَارَةِ أَرْبَعَةٌ يَوْمُ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ وَالْجُمُعَةِ وَالسَّبْتِ وَالزِّيَارَةُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ حَسَنٌ …. وَكَذَلِكَ فِي الْأَزْمِنَةِ الْمُتَبَرَّكَةِ كَعَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ وَالْعِيدَيْنِ وَعَاشُورَاءَ وَسَائِرِ الْمَوَاسِمِ.
============
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2 / 755)
قال الطيبي: وفيه أن من أصر على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟
============
والله أعلم بالصواب
محمدعاصم عصمہ اللہ تعالٰی
....
س… قبرستان جانے کے لئے سب سے بہتر وقت اور دن کون سے ہیں؟
ج… قطعی طور پر کسی خاص وقت اور دن کی تعلیم نہیں دی گئی، آپ جب چاہیں جاسکتے ہیں، وہاں جانے سے اصل مقصود عبرت حاصل کرنا ہے، موت و آخرت کو یاد کرنا ہے، البتہ بعض روایات میں شبِ برأت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ طیبہ کے قبرستان (بقیع) میں تشریف لے جانا اور ان کے لئے دُعائے مغفرت فرمانا آیا ہے، بعض حضرات نے ان روایات پر کلام فرمایا ہے، اور ان کو ضعیف کہا ہے۔ ایک مرسل روایت میں ہے کہ جس نے اپنے والدین کی یا ان میں سے کسی ایک کی قبر کی ہر جمعہ کو زیارت کی، اس کی بخشش ہوجائے گی اور اسے ماں باپ سے حسنِ سلوک کرنے والا لکھ دیا جائے گا۔ 
(مشکوٰة از شعب الایمان بیہقی)
فی الجملہ ان روایات سے متبرک دن میں قبرستان جانے کا اہتمام معلوم ہوتا ہے، علامہ شامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: 
“ہر ہفتے میں قبروں کی زیارت کی جائے، جیسا کہ “مختارات النوازل” میں ہے، اور “شرح لباب المناسک” میں لکھا ہے کہ: جمعہ، ہفتہ، پیر اور جمعرات کا دن افضل ہے۔ محمد بن واسع رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مردے اپنے زائرین کو پہچانتے ہیں جمعہ کے دن، اور ایک دن پہلے اور ایک دن بعد، اس سے معلوم ہوا کہ جمعہ کا دن افضل ہے۔” 
(رد المحتار ج:۲ ص:۲۴۲)
........
عورتیں عیدگاہ میں نہ جائیں:
عن أم عطیة قالت کنا نؤمر أن نخرج یوم العید حتی نخرج البکر من خدرها حتی نخرج الحیض فیکن خلف الناس فیکبرن بتکبیرهم ویدعون بدعائهم (صحیح بخاری ۲؍۴۶۱)
’’حضرت اُمّ عطیہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے ہمیں عید کے دن نکلنے کا حکم ہوتا۔ یہاں تک کہ ہم کنواری عورت او رحیض والی عورتوں کو بھی ساتھ لے جائیں۔ وہ لوگوں سے پیچھے مردوں کے ساتھ تکبیریں کہتیں اور ان کی دعا میں شریک ہوتی تھیں.
عورتوں کا عید کی نماز کے لئے جانا فرض نہیں بلکہ سنت ہے۔
عورتوں کو عید کی نماز مسلمانوں کے ساتھ ادا کرنی چاہئے کونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ نے اس کا حکم دیا ہے۔ ام عطیہ فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی  اللہ علیہ و سلم عیدین کے لئے کنواری لڑکیوں جوان و پردہدار اور حائضہ عورتوں کو نکلنے کا حکم دیتے تھے حائضہ عورتیں عید گاہ سے باہر رہتیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوتیں ان میں سے ایک نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر کسی کے پاس چادر نہ ہو تو؟ 
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
”تو اس کی بہن اسے چادر ادھار دیدے۔“
(ترمذی جلد ۱، ۵۲۲)
اس سے یہ ثابت ہے کہ عورتوں کے لئے باہر جاکر 
عید کی نماز میں شریک ہونا سنت ہے،شرط یہ ہے کہ وہ بغیر پردہ کے یا اپنے آپ کو ظاہر کرتے نہ جائیں۔
اَلْجَواب حَامِدَاوَّمُصَلِّیا
جمعہ، جماعت اور عیدین کی نماز عورتوں کے ذمہ نہیں ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بابرکت زمانہ چونکہ شر و فساد سے خالی تھا، ادھر عورتوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اَحکام سیکھنے کی ضرورت تھی، اس لئے عورتوں کو مساجد میں حاضری کی اجازت تھی، اور اس میں بھی یہ قیود تھیں کہ باپردہ جائیں، میلی کچیلی جائیں، زینت نہ لگائیں، اس کے باوجود عورتوں کو ترغیب دی جاتی تھی کہ وہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں۔
چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”لا تمنعوا نسائکم المساجد، وبیوتھن خیر لھن۔“ (رواہ ابوداوٴد، مشکوٰة ص:۹۶)
ترجمہ:…”اپنی عورتوں کو مسجدوں سے نہ روکو، اور ان کے گھر ان کے لئے زیادہ بہتر ہیں۔“
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا:
”صلٰوة المرأة فی بیتھا افضل من صلٰوتھا فی حجرتھا، وصلٰوتھا فی مخدعھا افضل من صلٰوتھا فی بیتھا۔“ (رواہ ابوداوٴد، مشکوٰة ص:۹۶)
ترجمہ:…”عورت کا اپنے کمرے میں نماز پڑھنا، اپنے گھر کی چاردیواری میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور اس کا پچھلے کمرے میں نماز پڑھنا اگلے کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔“
مسندِ احمد میں حضرت اُمِّ حمید ساعدیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”قد علمت انک تحبین الصلٰوة معی وصلٰوتک فی بیتک خیر لک من صلٰوتک فی حجرتک، وصلٰوتک فی حجرتک خیر من صلٰوتک فی دارک، وصلٰوتک فی دارک خیر لک من مسجد قومک، وصلٰوتک فی مسجد قومک خیر لک من صلٰوتک فی مسجدی۔ قال: فأمرت فبنی لھا مسجد فی اقصی شیٴ من بیتھا واظلمہ، فکانت تصلی فیہ حتی لقیت الله عز وجل۔“ (مسندِ احمد ج:۱ ص:۳۷۱، وقال الھیثمی ورجالہ رجال الصحیح غیر عبدالله بن سوید الأنصاری، وثقہ ابن حبان، مجمع الزوائد ج:۲ ص:۳۴)
ترجمہ:…ی”مجھے معلوم ہے کہ تم کو میرے ساتھ نماز پڑھنا محبوب ہے، مگر تمہارا اپنے گھر کے کمرے میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور گھر کے صحن میں نماز پڑھنا گھر کے احاطے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور احاطے میں نماز پڑھنا اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں (میرے ساتھ) نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ راوی کہتےu ہیں کہ: حضرت اُمِّ حمید رضی اللہ عنہا نے یہ ارشاد سن کر اپنے گھر کے لوگوں کو حکم دیا کہ گھر کے سب سے دُور اور تاریک ترین کونے میں ان کے لئے نماز کی جگہ بنادی جائے، چنانچہ ان کی ہدایت کے مطابق جگہ بنادی گئی، وہ اسی جگہ نماز پڑھا کرتی تھیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے جاملیں۔“
ان احادیث میں عورتوں کے مساجد میں آنے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منشائے مبارک بھی معلوم ہوجاتا ہے اور حضراتِ صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذوق بھی۔
یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ سعادت کی بات تھی، لیکن بعد میں جب عورتوں نے ان قیود میں کوتاہی شروع کردی جن کے ساتھ ان کو مساجد میں جانے کی اجازت دی گئی تو فقہائے اُمت نے ان کے جانے کو مکروہ قرار دیا۔
اُمّ الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے:
”لو ادرک رسول الله صلی الله علیہ وسلم ما احدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل۔“ (صحیح بخاری ج:۱ ص:۱۲۰، صحیح مسلم ج:۱ ص:۱۸۳، موٴطا امام مالک ص:۱۸۴)
ترجمہ:…”عورتوں نے جو نئی رَوش اختراع کرلی ہے، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دیکھ لیتے تو عورتوں کو مسجد سے روک دیتے، جس طرح بنواسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔“
حضرت اُمّ الموٴمنین رضی اللہ عنہا کا یہ ارشاد ان کے زمانے کی عورتوں کے بارے میں ہے، اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے زمانے کی عورتوں کا کیا حال ہوگا․․․؟
خلاصہ یہ کہ شریعت نہیں بدلی، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو شریعت کے بدلنے کا اختیار نہیں، لیکن جن قیود و شرائط کو ملحوظ رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو مساجد میں جانے کی اجازت دی، جب عورتوں نے ان قیود و شرائط کو ملحوظ نہیں رکھا تو اجازت بھی باقی نہیں رہے گی، اس بنا پر فقہائے اُمت نے، جو درحقیقت حکمائے اُمت ہیں، عورتوں کی مساجد میں حاضری کو مکروہ قرار دیا، گویا یہ چیز اپنی اصل کے اعتبار سے جائز ہے، مگر کسی عارضے کی وجہ سے ممنوع ہوگئی ہے۔ اور اس کی مثال ایسی ہے کہ وبا کے زمانے میں کوئی طبیب امرود کھانے سے منع کردے، اب اس کے یہ معنی نہیں کہ اس نے شریعت کے حلال و حرام کو تبدیل کردیا، بلکہ یہ مطلب ہے کہ ایک چیز جو جائز و حلال ہے، وہ ایک خاص موسم اور ماحول کے لحاظ سے مضرِ صحت ہے، اسی لئے اس سے منع کیا جاتا ہے۔
واللہ اعلم
عورت کے مسائل اور انکا حل

 

No comments:

Post a Comment