Wednesday 14 June 2017

تنعیم کو کیا افضیلت حاصل ہے؟

جبل حرا وہ پہاڑ ہے جس میں ایک غار ہے جو ’غارِ حرا‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس غار میں وحی کے نزول کا آغاز ہوا۔ رسول اﷲ ﷺ اس غار میں نزول وحی سے قبل بھی عبادت کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے۔
حضرت عائشہؓ کی ایک حدیث میں ہے ’’ آپؐ غار حرا ہی میں تھے کہ اچانک فرشتہ آگیا اور کہنے لگا ’’پڑھو! آپؐ نے فرمایا ’’میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں ‘‘ آپؐ فرماتے ہیں اس پر فرشتے نے مجھے پکڑ کر زور سے بھینچا حتیٰ کہ مجھے سخت تکلیف ہوئی پھر اس نے مجھے چھوڑا اور فرمایا ’’پڑھو! میں نے پھر کہا ’’میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں ‘‘ اس نے مجھے پھر پکڑ کر بھینچا پھر چھوڑ کر کہا ’’پڑھو ‘‘ میں نے پھر کہا ’’میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ‘‘ اس نے تیسری دفعہ مجھے پکڑ کر بھینچا حتیٰ کہ اس نے پورا زور لگایا، پھر چھوڑا اور کہا اَب پڑھو۔‘‘ ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ سیدنا ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہم پہاڑ کی ایک چٹان پر بیٹھے تھے تو چٹان نے ہلنا شروع کیا۔ رسول اﷲ ﷺ فرمانے لگے ’’ رُک جا! اس وقت تجھ پر ایک نبی اور صدیق اور ایک شہید بیٹھے ہیں۔ ‘‘
٭ جبل ثور: یہ پہاڑ مکہ مکرمہ کے جنوب میں واقع ہے۔ ہجرت کے موقع پر نبی کریم ﷺ اور ابوبکر صدیقؓ اس پہاڑ کے مشہور غار میں چھپے تھے۔ یہ وہی غار ہے جس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مشرکین نے ارادہ کیا تھا کہ آپؐ کو قتل کردیں، قید کردیں یا جلاوطن کردیں۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیقؓ نے مجھے بیان فرمایا ’’جب ہم غار میں تھے تو میں نے نبی کریم ﷺ سے گزارش کی کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنے پاؤں کی طرف نظر کی تو وہ ہمیں دیکھ لے گا ‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ ابوبکر! تیرا کیا گمان ہے ان دو کے بارے میں جن کے ساتھ تیسرا اﷲ تعالیٰ ہے۔‘‘

٭ مسجد خیف اور اس کی فضیلت: یہ ان مساجد میں سے ہے جن کی فضیلت بعض احادیث اور آثار صحابہؓ سے ثابت ہے۔ ابن عباسؓ کی ایک حدیث میں ہے ’’ مسجد خیف میں ستّر انبیاء علیہم السلام نے نماز پڑھی ہے۔‘‘ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے بھی اس میں نمازیں ادا کیں۔ صحابہ کرامؓ اس مسجد کی فضیلت کے قائل تھے اور اس کا ذکرِخیر کرتے رہتے تھے۔ نیز مناسک حج کی ادائی کے موقع پر اس میں نما ز پڑھنے کی طرف رغبت دلاتے تھے۔
٭ منیٰ : یہ وہ مقام ہے جہاں عرفہ کے دن طلوع شمس تک اور یوم نحر اور بعد والے ایام تشریق میں حاجیوں کو جانے اور ٹھہرنے کا حکم ہے۔ یہاں رات ٹھہرنے کا حکم بھی ہے اور یہیں حاجی جمرات کو کنکریاں مارتے ہیں۔ منیٰ کی حد وادیٔ مُحَسِّر کے کنارے سے لے کر اس گھا ٹی تک ہے جس کے پا س مکہ کی طرف والا آخری جمرہ ہے، اسے جمرۂ عقبہ کہا جاتا ہے۔ اسی کے پاس انصار نے رسول اﷲ ﷺ کی بیعت کی تھی۔ منیٰ کی ایک فضیلت یہ ہے کہ مسجد خیف یہیں واقع ہے نیز اﷲ تعالیٰ نے اسی وادی میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ان کے بیٹے کے فدیے کے طو ر پر مینڈھا عطا فرمایا تھا۔
٭ عرفہ : عرفہ کو عرفات بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں ٹھہرنا حاجیوں کے لیے فرض ہے جو عرفات میں وقوف نہ کرسکے اس کا حج نہیں ہو تا۔ کیو ں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ’’حج، وقوف عرفہ کا نا م ہے۔ ‘‘ یوم عرفہ کی فضیلت بہت سی احادیث میں مذکور ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ’’کسی بھی دن اﷲ تعالیٰ اتنے افراد آگ سے آزاد نہیں فرماتا، جتنے عرفہ کے روز آزاد کرتا ہے اس دن اﷲ تعالیٰ حاجیوں کے قریب ہو تا ہے پھر ان کی وجہ سے فرشتوں کے ساتھ اظہار فخر کرتا ہے اور پوچھتا ہے ان کا کیا مقصد ہے ؟ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ’’ کسی بھی دن شیطان اتنا چھوٹا، ذلیل، حقیر اور ناراض نہیں ہوتا جتنا عرفہ کے دن۔ کیوں کہ اس دن اﷲ تعالیٰ کی رحمت کثرت کے ساتھ نازل ہوتی ہے اور اﷲتعالیٰ بڑے بڑے گناہ معاف فرماتا ہے۔‘‘
٭ مزدلفہ : مزدلفہ وہ جگہ ہے جہاں عرفات سے واپسی پر حاجیوں کو جانے اور رات ٹھہرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ عرفہ اور وادی مُحسِر کے دو تنگ پہاڑی راستوں کا درمیانی علاقہ ہے۔ عرفہ کے اس تنگ راستے کو مَضِیق کہا جاتا ہے۔ مزدلفہ عرفات کی تنگ گھاٹی سے وادی ٔ مُحَسّر کے کنارے تک ہے۔ جتنا بھی دائیں بائیں میدان ہے اونچا ہے یا نیچا، آگے یا پیچھے یا وادی، یہ سب مزدلفہ ہے۔ کتاب اﷲ میں اس کا ذکر ’’ المشعر الحرام ‘‘ کے نام سے کیا گیا ہے۔ ’’جب تم عرفات سے واپس آؤ تو مشعر حرام کے پاس ٹھہر کر اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرو۔‘‘ (سورۃ البقرہ )
٭ وادی مُحسِّر : یہ وہ جگہ ہے جہاں سے تیزی کے ساتھ گزر جا نا ضروری ہے۔ مُحَسّر، منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان ایک وادی ہے۔ یہ منیٰ میں شامل ہے نہ مزدلفہ میں، اسے وادی ’’مُھَلَّل‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ حج کے دوران لوگ جب یہاں پہنچتے ہیں تو تکبیر پڑھتے ہوئے تیزی سے گزر جاتے ہیں۔ ا س مقام پر یہی عمل پسندیدہ ہے کیوں کہ نبی کریم ﷺ کا اپنا عمل بھی یہی تھا کہ آپ یہاں سے تیزی کے ساتھ اس لیے گزرے تھے کہ یہ شیاطین کا ٹھکانا ہے۔
٭ مُحصّب : حاجی کے لیے مستحب ہے کہ وہ منیٰ سے واپسی پر یہاں ٹھہرے۔ یہ وادی مکہ میں منیٰ کے راستے پر واقع ہے۔ رسول اﷲ ﷺ یہاں ٹھہرے تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ’’ نبی کریم ﷺ اس لیے یہاں ٹھہرے تھے کہ مدینہ واپسی کے لیے یہاں ٹھہرنا زیادہ مفید تھا۔ اب جو شخص چاہے یہاں ٹھہر ے کہ مدینہ واپسی کے لیے یہاں ٹھہرنا زیادہ مفید تھا۔ اب جو شخص چاہے یہاں ٹھہرے، جو نہ چاہے نہ ٹھہرے۔‘‘
مسجد تنعیم ام المومنین حضرت عائشہؓ کی نسبت سے ’مسجد عائشہ ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ کیوں کہ یہ اس جگہ واقع ہے جہاں حضرت عائشہؓ عمر ے کے احرام کے لیے تشریف لے گئی تھیں۔
اصول کے اعتبار ایک گونہ فضیلت تنعیم کو حاصل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو وہیں سے عمرہ کروایا تھا، 
اور ایک گونہ جعرانہ کو کہ آپ نے حنین سے واپسی پر وہیں سے عمرہ فرمایا تھا، اور اس میں مشقت و وبارخرچ زیادہ ہے۔
تنعیم سے احرام باندھنا افضل ہے ۱۰؎ یعنی احناف کے نزدیک مکی (یعنی اہلِ حرم) کا تنعیم سے عمرہ کا احرام باندھنا افضل ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک عمرہ کااحرام جعرانہ سے باندھنا افضل ہے ۱۱؎ تنعیم حدِّحرم سے باہر حلّ کی حد میں مدینہ طیبہ کے راستہ پر مکہ مکرمہ سے تین میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے جو مسجدِ عائشہ رضی اللہ  عنہا کے نزدیک ہے اور یہ مقام حلّ کے تمام مقامات میں مکہ مکرمہ سے زیادہ قریب ہے اور احناف کے نزدیک جعرانہ یادوسرے مقاماتِ حل کی بہ نسبت یہاں سے عمرہ کا حرام باندھنا افضل ہے اور جعرانہ جیم و عین کی زیر اور را کی تشدید کے ساتھ ہے اور زیادہ فصیح عین کے سکون اور را کی تخفیف یعنی بغیر تشدید کے ہے۔ اگر چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بنفس نفیس جعرانہ سے عمرہ کا حرام باندھا تھا لیکن حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ کو ارشاد فرمایا تھا کہ وہ اپنی بہن حضرت عائشہ رضی اللہ  عنہا کے ساتھ تنعیم جائے تاکہ وہ وہاں سے عمرہ کااحرام باندھ لیں، اور احناف کے نزدیک قولی دلیل فعلی دلیل پر مقدم ہے لیکن امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک فعلی دلیل قولی دلیل سے اقویٰ ہے اس لئے ان کے نزدیک جعرانہ سے عمرہ کا احرام باندھنا افضل ہے ۱۲؎ نیز ہم یہ کہتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جعرانہ سے احرام باندھنا بطریق قصد واقع نہیں ہوا بلکہ طائف سے واپسی کے وقت جعرانہ سے گزرتے ہوئے واقع ہوا تھا، اس لئے بھی تنعیم پر اس کی افضیلت لازم نہیں آتی نیز امام محمد بن سیرین سے بطریق مرسل روایت کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ مکہ کے لئے تنعیم کو میقات مقرر فرمایا ہے ،اس کو امام ابوداؤد نے مراسل میں روایت کیا ہے پس اس روایت سے بھی تنعیم کی افضلیت کو تقویت پہنچتی ہے کمالا یخفی ۱؎ پس عمرہ کا احرام تنعیم میں اس جگہ سے باندھنا افضل ہے جہاں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے عمرہ کااحرام باندھا تھا۔ بعض نے کہا کہ یہ وہ مسجد ہے جو حدودِ حل میں حرم سے قریب ہے اور بعض نے کہا کہ یہ وہ مسجد ہے جو حدودِ حل میں پہلی مسجد سے دور ہے اور بعض نے کہا کہ یہی اظہر ہے تنعیم کے بعد جعرانہ سے عمرہ کا احرام باندھنا افضل ہے۔ امام طحاوی ؒ نے اس کے برعکس اختیار کیا ہے جیسا کہ امام مالک و امام شافعی ؒ کا مذہب بھی یہی ہے
از عمدۃ الفقہ
العبد محمد عفی عنہ
٭ مسجد جعرانہ : جعرانہ، طائف اور مکہ مکرمہ کے درمیان ایک کنویں کا نام تھا۔ یہ مکہ مکرمہ سے زیادہ قریب ہے۔ جب نبی کریم ﷺ نے حُنین سے واپسی پر بنو ہَوازن سے ملنے والا مالِ غنیمت تقسیم فرمایا تھا تو آپؐ یہاں ٹھہرے تھے اور رات کے وقت یہاں سے احرام باندھ کر عمرہ ادا فرمایا تھا۔ اس مقام پر ایک مسجد بنائی گئی جو مسجد جعرانہ کے نام سے مشہور ہے۔ قاضی ابُوالعباس فرماتے ہیں ’’ مکہ مکرمہ اور اس کے قریب و جوار میں رہنے والوں کے لیے افضل عمرہ یہ ہے کہ وہ جعرانہ سے احرام باندھیں۔ کیوں کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے یہاں سے عمرے کا احرام باندھا تھا۔‘‘
٭ مسجد جِنّ : یہ مسجد حجون کے کنارے میں ہے اور یہ عین اس جگہ بنائی گئی ہے جہاں رسول اﷲ ﷺ نے حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کے بیٹھنے کے لیے خط کھینچا تھا۔ نبی کریم ﷺ کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا تھا کہ آپؐ جنوں کو قرآن مجید سنائیں۔ آپؐ نے اپنے ساتھ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کو لیا اور چل پڑے حتیٰ کہ آپؐ حجون میں شعب ابی دُب کے پاس پہنچے۔ حضرت عبد اﷲ بن مسعودؓ اس واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’جناب رسول اﷲ ﷺ نے عشاء کی نماز پڑھی پھر باہر نکلے اور میرا ہاتھ پکڑ کر چل پڑے حتیٰ کہ بطحائے مکہ میں پہنچ کر مجھے بٹھا دیا، پھر ایک خط کھینچ کر مجھ سے فرمایا ’’ اس خط سے قطعا باہر نہ نکلنا، تیرے پاس کچھ لوگ آئیں گے تو ان سے کوئی بات نہ کرنا، وہ تجھے کچھ نہیں کہیں گے۔

No comments:

Post a Comment