Monday 25 January 2016

طلاق کی کیا ہیں وجوہات ؟


ایس اے ساگر
دنیا میں جہاں طلاق دینے کی شرح میں کمی آ رہی ہے وہیں عمر رسیدہ افراد میں طلاق لینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔’جب میں نے اس سے شادی کی درخواست کی تو مجھے فوراً ہی احساس ہوا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔ لیکن انتظامیہ نے منگنی کا اعلان مقامی اخبار کے پہلے صفحے پر کر دیا اور میرے لیے اس سے پیچھے ہٹنا مشکل ہو گیا۔‘ یہ کہنا تھا زید کا جنھوں نے 28 سال کی عمر میں شادی کر لی، لیکن 36 سال بعد وہ واقعی پیچھے ہٹ گئے۔
کیا کہتے ہیں اہل علم حضرات ؟
نکاح عظیم نعمت ہے،اس کے ذریعہ آدمی عفت وعصمت اور پاکدامنی حاصل کرتا ہے، زنا جیسی قبیح حرکت سے محفوظ رہتا ہے، اسی پاکیزہ رشتہ کی برکت سے نسلِ انسانی کی بقا ہے، یہ انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت ہے، ایران کے مانی فرقہ کے لوگ، اسی طرح عیسائی راہب اور سادھو سنت؛ اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے نکاح نہیں کرتے تھے، اس طریقہ کو اسلام نے بالکلیہ رد کردیا اور سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ”النکاح من سنتی“ (ابن ماجہ:۱/۳۴۰) کی صراحت فرمائی اور دوسری حدیث میں حضرت عثمان بن مظعون کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا کہ: جو شخص میری سنت سے اعراض کرے، وہ میرا نہیں۔ (بخاری:۵۰۶۳)
          یہ پاکیزہ رشتہ حضرتِ آدم علی نبینا علیہ الصلاة والسلام سے شروع ہوا جو آج تک جاری ہے اور جنت میں بھی باقی رہے گا، دوسرے کسی رشتہ کو یہ خصوصیت حاصل نہیں (الدرالمختار علی ہامش رد المحتار ۲/۲۸۰) یہ رشتہ جب قائم ہوجاتاہے تو اس میں پائداری اور ہمیشگی مقصود ہوتی ہے؛ تاکہ مرد وعورت باہم وابستہ رہ کر عفت وپاکبازی کے ساتھ مسرت وشادمانی کی زندگی گذارسکیں، جس طرح وہ کسی کی اولاد ہیں، اسی طرح ان سے بھی اولاد کا سلسلہ چلے اور اولاد اُن کے لیے دنیا میں آنکھوں کی ٹھنڈک، دلوں کا سرور اور آخرت میں حصولِ جنت کا وسیلہ بنیں، گویا نکاح کے مقاصد پر غور کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ رشتہ باقی رہے، اسے باقی رکھنے کی ساری اور آخری کوشش کرنا لازم وواجب ہے۔
زوجین کا اختلاف کوئی انہونی بات نہیں:
          میاں بیوی میں کبھی کبھار ناراضگی، بحث وتکرار اور جھگڑے ہوجانا یہ کوئی نئی بات نہیں، یہ تو ہوگا، جب بھی چند لوگ ایک جگہ رہتے ہیں تو اُن کے درمیان اختلاف ہوتا ہی ہے، تو تو، میں میں ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے، جب چند برتنوں کو ایک ساتھ رکھا جاتا ہے تو وہ کھڑکتے ضرور ہیں، ہمیں سوچنا چاہیے اور اپنے آپسی اختلاف پر تعجب نہیں کرنا چاہیے، میاں بیوی کا اختلاف تو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی تھا، خود بارہا سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ازواج کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا، ”واقعہٴ اِفک اور واقعہٴ مغافیر“ کا تذکرہ تو خود قرآن پاک میں موجود ہے، ان سب کے باوجود ازواج کے درمیان جدائیگی نہیں ہوئی، طلاق وخلع کی نوبت نہیں آئی، سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کی زندگی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جب بھی میاں بیوی کے درمیان تلخی پیدا ہوجائے دونوں مل کر، ناگواریوں کو جھیلیں اور تعلقات کو خوشگوار بنانے کی کوشش کریں، میاں بیوی کے بہت سے اختلافات ایسے ہوتے ہیں جن کو کسی تیسرے کے سامنے نہ تو ظاہر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے اور نہ کوئی تیسرا اُسے حل کرسکتا ہے؛ اس لیے آپسی اختلاف کو خود حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک بڑے بزرگ نے اس کا ایک طریقہ یہ لکھا ہے کہ: دن بھر اختلاف رہے، رہنے دو؛ لیکن رات کو بستر پر اس اختلاف کو ختم کرلو اور آپس میں یہ طے کرلو کہ ہم لوگ بستر پر کوئی اختلاف باقی نہیں رکھیں گے، پھر جو صبح ہوگی وہ نہایت خوش گوار اور مسرت وشادمانی لیے ہوگی۔
طلاق کی قباحت:
          رشتہٴ نکاح کو ختم کرنا کوئی اچھی بات نہیں ہے، حدیث شریف میں ہے: ”أَبْغَضُ الْحَلَالِ الی اللّٰہِ الطَّلَاقُ“ (ابوداؤد بحوالہ مشکوٰة ص:۲۹۳): جائز کاموں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسند طلاق ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے: لاَ خَلَقَ اللّٰہُ شَیْئاً عَلٰی وَجہِ الأرْضِ أبْغَضَ الیہ مِنَ الطَّلاَقِ (دارقطنی بحوالہ مشکوٰة ص:۸۴) کہ روئے زمین پر اللہ تعالیٰ نے طلاق سے زیادہ ناپسندچیز کو پیدا نہیں فرمایا۔ طلاق ایسا غیرمعمولی اقدام ہے کہ جب کوئی آدمی، اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا عرش ہل جاتا ہے۔ (عمدة القاری۳۰/۴۵) ایک روایت میں ہے کہ جو عورت کسی سخت تکلیف کے بغیر اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی بحوالہ مشکوٰة ص:۲۸۳)
کثرتِ طلاق کے نقصانات:
          طلاق کوبُرا نہ سمجھنا اور کثرت سے اس کا ارتکاب کرنا بہت سی خرابیوں کو سامنے لاتا ہے، خاندان میں بہت سی مشکلات اُٹھ کھڑی ہوتی ہیں، چند نقصانات کو ذیل میں لکھا جاتا ہے:
۱- نفس کا بگاڑ: سب سے پہلی خرابی یہ ہے کہ طلاق کی کثرت سے طلاق دینے والوں کا راست نقصان ہوتا ہے، اُن کا نفس بگڑجاتا ہے، آدمی میں انسانیت کے بجائے حیوانیت آجاتی ہے، وہ شرم گاہ کی شہوت کا غلام ہوجاتا ہے، وہ نکاح کے ذریعہ محض لطف اندوز ہونا چاہتا ہے، نکاح سے نظام خانہ داری قائم کرنے کا ارادہ نہیں کرتا، نہ معاشی معاملات میں معاونت کا ارادہ کرتا ہے، اور نہ ہی شرم گاہ کی حفاظت اس کے پیش نظر ہوتی ہے، وہ ہر شب کو شبِ زفاف ہی بنانا چاہتا ہے، اس لیے شہوت رانی کے لیے کثرت سے نکاح کرتا اور طلاق دیتا رہتا ہے، وہ عورتوں کو کمپنی کا مال سمجھتا ہے، اور ان کے ساتھ یوز اینڈ تھرو(Use and Throw) جیسا معاملہ کرتا ہے۔
          ایسے آدمی کے نکاح اور زنا میں کوئی فرق نہیں، صرف ظاہری اور قانونی فرق ہے، ایسے آدمی سے اللہ تعالیٰ کو بہت ہی نفرت ہے، حدیث شریف میں ہے: انَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الذَّوَّاقِیْنَ وَالذَّوَّقَاتِ․ (کنزالعُمّال حدیث ۲۷۸۷۳ بحوالہ رحمة اللہ الواسعہ/۱۳۹) کہ اللہ تبارک وتعالیٰ چکھنے والے مرد اور چکھنے والی عورتوں کو پسند نہیں فرماتے ہیں۔
          بعض عورتیں بھی اسی مزاج کی ہوتی ہیں، وہ ایک سے زائد شوہروں کا مزہ چاہتی ہیں، اس کے لیے ایک سے نکاح کے بعد مختلف قسم کے اعذار بتاکر، یا شوہر کو مختلف تدبیروں سے ناک میں دم کرکے طلاق لیتی رہتی ہیں، اور پھر دوسرے اور تیسرے سے نکاح کرتی رہتی ہیں، ایک سے طلاق لیتے وقت دوسرے سے بات پکی کیے ہوتی ہیں اور کبھی مُکَرْجانے کی وجہ سے سخت شرمندہ ہوتی ہیں، دارالافتاؤں میں اس قسم کے تجربات بارہا سامنے آتے ہیں، شوہر کو مختلف تدبیروں سے مجبور کرکے طلاق لینے کے بعد رو روکر اپنی غلطی کا اعتراف اور عاشق کے دھوکے کا ذکر کرتی ہیں یہ تو قانون کے دائرے میں رہنے کی بات ہے۔
          اس سے آگے بڑھ کر ایک ایسا واقعہ بھی میرے سامنے آیا کہ ایک ہی خاتون نے نام بدل کر بیک وقت دو مردوں سے نکاح کررکھا تھا اور دونوں کے نکاح نامے اس کے پاس موجود تھے، اللہ جانے کیا مقصد تھا؟ لاحول ولا قوة الاّ باللہ، خلاصہ یہ کہ آدمی نفس کے بگاڑ کی وجہ سے کثرت سے نکاح اور طلاق کا ارتکاب کرتا ہے، یا یوں کہیے کہ کثرتِ نکاح وطلاق سے انسان کا نفس مزید بگڑ جاتا ہے، وہ حیوانوں سے بدتر ہونے لگتا ہے۔
۲- معاشرتی بگاڑ: نکاح کا مقصد پاکبازی کے ساتھ خوشیوں کی زندگی بسر کرنا ہے، اور یہ مقصد اس وقت حاصل ہوتا ہے، جب میاں بیوی دائمی رفاقت ومعاونت پر آمادہ ہوں اور اپنے آپ کو اس کا خوگر بنائیں؛ لیکن جب طلاق کا رواج چل پڑتا ہے تو یہ بات باقی نہیں رہتی، میاں بیوی کے دل میں چند روزہ رفاقت کا تصور رہتا ہے؛ اس لیے معمولی معمولی باتیں رنجش کا سبب بن جاتی ہیں، دونوں ناگواریوں کو جھیلنے اور تعلقات کو خوش گوار بنانے کے بجائے طلاق کی سوچنے لگتے ہیں، زود رنجیوں اور جھٹ خفگیوں کے خوگر ہوجاتے ہیں۔ (رحمة اللہ الواسعہ ۵/۱۳۹ ملخصاً)
۳- اولاد کی پرورش بے لطف: جب زوجین جدائی کا فیصلہ کرلیتے ہیں تو اولاد کی پرورش کے لیے یا تو دونوں میں سے کوئی تیار نہیں ہوتے، یا دونوں کے دونوں اولاد کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں، اس کے لیے اگر شرعی حل نکالا جاتا ہے تو بھی اولاد کی تعلیم وتربیت، اس کی صحت وصحبت اور اس کے مستقبل کے لیے لائحہٴ عمل طے کرنے میں مختلف قسم کی دشواریاں پیش آتی ہیں، بسا اوقات ایسی اولاد جرائم کی خوگر ہوجاتی ہیں اور معاشرہ کے لیے ضرر رساں ثابت ہوتی ہیں۔
۴- بے حیائی کا فروغ: کثرتِ طلاق کی وجہ سے برائیوں کا فروغ ہوتا ہے، جن کو آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ ”رحمة اللہ الواسعہ شرح حجة اللہ البالغہ“ میں ہے:
          ”اگر عورتیں اس چیز کی عادی بن جائیں کہ وہ ذائقہ چکھ کر چل دیں اور لوگ بُرا نہ سمجھیں اور نہ اس پر افسوس کریں، نہ نکیر؛ تو بے حیائی کو فروغ ملے گا، اور کوئی دوسرے کے گھر کی بربادی کو اپنے گھر کی بربادی نہیں سمجھے گا، اور خیانت کی طرح پڑے گی؛ ہر ایک اس فکر میں رہے گا کہ جدائی ہوئی تو فلاں سے نکاح کروں گا، اور اس میں جو مفاسد ہیں وہ ظاہر ہیں۔“ (۵/۱۳۹)
طلاق کی ضرورت:
          اپنی اصل کے اعتبار سے طلاق ایک ناپسندیدہ عمل ہے؛ لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ کبھی یہ رشتہ کسی آدمی کے لیے عذاب بن جاتا ہے، اور ایسے حالات میں نکاح کو برقرار رکھنا اور قانونی پابندیوں کے ذریعہ مرد وعورت کو رشتہٴ ازدواج سے جوڑے رکھنا معاشرے کے لیے بڑے فساد کا موجب ہوجاتا ہے، اس لیے شریعت نے طلاق کو ایک ناپسندیدہ عمل ہونے کے باوجود ”مباح“ قرار دیا ہے، اس کی مثال مجبوری کی صورت میں جسم کے سڑے ہوئے کسی عضو کے کاٹنے کی طرح ہے، کہ اس پر آدمی خواہی نہ خواہی راضی ہوہی جاتا ہے۔
اسبابِ طلاق:
          ۱-       میاں بیوی کے مزاج میں ہم آہنگی نہ ہو، دونوں ایک دوسرے نفرت کرتے ہوں، اور اختلاف شدت پکڑلے، حل کی کوئی شکل نہ ہو۔
          ۲-       دونوں معیشت میں تنگی محسوس کرتے ہوں، شوہر کھانا، خرچہ اور مکان نہ دے سکتا ہو۔
          ۳-       شوہر حقوق کی ادائیگی پر قادر نہ ہو مثلاً: اس کا آلہٴ تناسل کٹا ہوا ہو، یا آلہٴ تناسل تو ہو مگر جماع کی طاقت و صلاحیت نہ ہو۔
          ۴-       یا کسی ایک میں حُمق (بے وقوفی) یا کم عقلی ہو، جسے دوسرا برداشت کرنے سے قاصر ہو۔
          ۵-       بیوی کسی وجہ سے قابلِ جماع نہ ہو یا اس سے اولاد کی امید ختم ہوگئی ہو اور وہ سوکن کو برداشت کرنے پر راضی نہ ہو۔
          مذکورہ بالا تمام صورتوں میں اگر علاحدگی کی راہ نہ اپنائی جائے تو زندگی اجیرن ہوکر رہ جائے گی اور رشتہٴ ازدواج عذاب اور وبال بن جائے گا۔ ان صورتوں میں شوہر کو خوب سوچ سمجھ کر طلاق کی صورت اختیار کرنی چاہیے۔
 طلاق کا بے جا استعمال:
          طلاق کا بے محابا، بے دھڑک اور بے جا استعمال گناہ ہے، اسی طرح جب شوہر کو یقین ہوکہ ازدواجی زندگی خوش گوار نہیں رہے گی، بیوی کو نکاح کے باقی رہنے کی وجہ سے شدید پریشانی کاسامنا ہوگا پھر بھی وہ طلاق نہ دے، تکلیف دینے کے لیے نکاح میں باقی رکھے، یہ جائز نہیں ہے۔ (مستفاد از: مجموعہ قوانینِ اسلامی ص۱۲۵)
          یہ فیصلہ کہ مرد اپنی بیوی کے ساتھ خوش گوار زندگی گذارسکتا ہے یا نہیں؟ اور طلاق کی ضرورت ہے یا نہیں؟ شوہر کے احساسات سے متعلق ہے؛ اس لیے اس کا فیصلہ خود شوہر ہی کرسکتا ہے، اگر شوہر کو یقین ہو کہ وہ اچھی طرح بیوی کو نہیں رکھ سکتا، اس کے حقوق ادا نہیں ہوں گے تو اس پر واجب ہے کہ وہ طلاق دے دے۔
          بلا سبب محض ایذا رسانی کے لیے طلاق دینا، اسی طرح بیوی اور اس کے اولیاء کی طرف سے شوہر کے ناجائز مطالبات پورے نہیں ہونے کی صورت میں طلاق دینا، ناجائز اور حرام ہے۔ (ایضاً ص۱۲۶)
نکاح ختم کرنے کا اختیار:
          نکاح ختم کرنے کا اختیار صرف مرد ہی کو حاصل نہیں ہے؛ بلکہ بعض صورتوں میں عورت بھی حاکمِ وقت اور قاضی شریعت کے ذریعہ رشتہٴ نکاح کو ختم کرسکتی ہے۔ عورت کو اجازت ہے کہ وہ ان اسباب کو بتائے جو رشتہ کے ختم کرنے میں موٴثر ہوں، اسلامی ملک میں قاضی اپنے اختیار سے اور غیراسلامی ممالک میں اگر دارالقضا ہے تو اس کے ذریعہ یا ”شرعی پنچایت“ یا ”علماء کی مجلس“ کے ذریعہ تفریق کراسکتی ہے۔
اسبابِ تفریق:
          جن اسباب کی وجہ سے بیوی تفریق کا مطالبہ کرسکتی ہے، وہ درج ذیل ہیں:
          ۱-       شوہر مفقود الخبر ہو، لاپتہ ہو معلوم نہیں، زندہ ہے یا مردہ۔
          ۲-       یہ تو معلوم ہوکہ فلاں جگہ ہے؛ لیکن نہ خود آتا ہو، نہ بیوی کو بلاتا ہو اور نہ ہی خرچہ دیتا ہو اور نہ طلاق دیتا ہو۔
          ۳-       شوہر نفقہ دینے سے عاجز ہو۔
          ۴-       شوہر استطاعت کے باوجود نفقہ نہ دیتا ہو۔
          ۵-       شوہر حقوقِ زوجیت ادا نہ کرتا ہو۔
          ۶-       شوہر کا آلہٴ تناسل پورا کٹا ہوا ہو یا اس کا بعض حصہ کٹا ہوا ہو۔
          ۷-       شوہر کو آلہٴ تناسل تو ہو، مگر وہ جماع کرنے پر قادر نہ ہو۔
          ۸-       شوہر پاگل ہو۔
          ۹-       شوہر ایسے مرض میں مبتلا ہو کہ بیوی کا ساتھ رہنا ممکن نہ ہو۔
          ۱۰-      شوہر تکلیف دہ حد تک مارتا پیٹتا ہو۔
          ۱۱-      شوہر سے ایسا شدید اختلاف ہوجائے کہ حَکَمْ وغیرہ سے بھی حل نہ ہوسکے۔
(کتاب الفسخ والتفریق ص۶۰، مزید اسباب کے لیے مذکورہ کتاب دیکھیے)
          مذکورہ بالا تمام صورتوں میں بیوی شوہر سے علیحدہ ہونے کا دعویٰ دارالقضاء یا شرعی پنچایت میں پیش کرسکتی ہے، پھر علماء کی جماعت اس پر غور و خوض کرکے اگر مناسب سمجھے گی تو تفریق کردے گی اور تفریق ”فسخ“ کہلائے گی۔ فسخ کی صورت میں عددِ طلاق میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے، اگر دوبارہ نکاح ہوجائے تو شوہر تین طلاق کا مالک رہتا ہے۔ (الدرالمختار باب الولی ۲/۴۲)
طلاق، خلع اور فسخ:
          اگر جدائی مرد کے اختیار سے ہوتو ”طلاق“ ہے، اور بیوی کے مطالبہ پر باہمی رضامندی سے ہوتو ”خلع“ ہے اور اگر بیوی کے مطالبہ پر ”قاضی“ یا ”شرعی پنچایت“ کے فیصلے سے ہوتو ”فسخ“ ہے۔ (مجموعہ قوانین اسلامی ص۱۲۶)
طلاق دینے کا بہتر طریقہ:
          طلاق دینے کا وہ طریقہ جو سب سے بہتر ہے، حدیث شریف سے ثابت ہے، جسے ”طلاقِ سنت“ بھی کہا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ: مدخولہ بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق نہ دی جائے؛ بلکہ ایسے طہر (پاکی) کی حالت میں دی جائے جس میں شوہر نے بیوی سے جماع نہ کیا ہو، اور ایک ہی طلاق رجعی دی جائے؛ تاکہ زمانہٴ عدت (تین حیض آنے تک) رجوع کرلینے کی گنجائش باقی رہے، پھر اگر شوہر رجوع کرنے کا فیصلہ نہ کرسکے تو عدت کی مدت گزرجانے دے، اس سے رجعت کی گنجائش تو نہیں رہے گی؛ البتہ دونوں کی رضامندی سے دوبارہ نکاح کا رشتہ قائم ہوسکے گا۔ اس کو ”طلاقِ احسن“ بھی کہا جاتا ہے۔
طلاق کا دوسرا صحیح طریقہ:
          ایک طریقہ یہ ہے کہ: آدمی اپنی مدخولہ بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق نہ دے؛ بلکہ ایسے طہر کی حالت میں طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو، پھر دوبارہ حیض کے بعد طہر کی حالت آئے اس میں دوسری طلاق دے، پھر حیض کے بعد تیسرے طہر میں، تیسری طلاق دے۔ یہ طریقہ بھی ٹھیک ہے، اسے ”طلاقِ حسن“ کہا جاتا ہے اور ”طلاقِ سنت“ بھی۔
          اور بیوی سے ملاقات اور خلوتِ صحیحہ نہیں ہوئی ہے تو حالتِ حیض میں بھی ایک طلاق دینا ٹھیک ہے، اسے بھی طلاقِ حسن کہا جاتا ہے۔
          اور بیوی اگر چھوٹی نابالغہ ہو یا کافی عمر ہونے کی وجہ سے حیض آنا بند ہوگیا ہو تو اس کو مہینہ کے لحاظ سے ہر ماہ ایک طلاق دینا بھی ”طلاقِ حسن“ کہلاتاہے۔
طلاق دینے کے ممنوع طریقے:
          مذکورہ بالا طریقوں کے علاوہ طلاق کے دوسرے طریقے بدعت اور ممنوع ہیں؛ لیکن اُن صورتوں میں بھی طلاق ہوجاتی ہے۔
          مثال کے طور پر:
          ۱-       مدخولہ بیوی کو حالتِ حیض میں طلاق دینا، حیض کی حالت میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے؛ لیکن ایسی حالت میں اگر ایک یا دو طلاقِ رجعی دی ہے تو رجوع کرلینا مستحب ہے۔ (ہدایہ ۲/۳۵۷)
          ۲-       ایسے طہر میں طلاق دینا جس میں صحبت کرچکا ہو، یہ طریقہ بھی بہتر نہیں ہے؛ لیکن اس میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
          ۳-       طلاقِ بائن دینا۔
          ۴-       ایک ہی طہر میں ایک سے زائد بار (دو یا تین) طلاق دینا، یا ایک جملہ میں تینوں طلاق دینا۔ ان میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ (ہدایہ ۲/۳۳۴)
          ۵-       نابالغہ بیوی کو یا بڑی عمر والی بیوی کو جس کو حیض نہ آتا ہو ایک مہینہ میں ایک سے زائد طلاق دینا، یہ سب طریقے ”طلاقِ بدعت“ کے ہیں، جو ممنوع ہیں۔ (الدرالمختار ۲/۵۷۴تا۵۷۸)
          خلاصہ یہ کہ طلاق دینے کے مذکورہ بالا سارے طریقے بدعت اور ممنوع ہیں، اگر کسی نے ایسی طلاق دے دی تو طلاق دینے والا سخت گنہگار ہوگا؛ لیکن طلاق واقع ہوجائے گی۔
صریح اور رجعی طلاق:
          اگر آدمی لفظِ ”طلاق“ بول کر طلاق دے تو لفظ کے صریح اور واضح ہونے کی وجہ سے طلاق رجعی واقع ہوگی؛ لیکن شرط یہ ہے کہ ایک یا دو طلاق ہو؛ اس لیے کہ تین طلاق کے استعمال کرنے کی وجہ سے رجوع کی کوئی شکل نہیں رہ جاتی اور طلاق مُغَلَّظْ ہوجاتی ہے۔ قرآنِ پاک میں ہے: الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَامْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِاحْسَان (بقرہ:۲۲۹) یعنی ایسی طلاق جس میں رجوع ہوسکتا ہے، دو ہی بار ہے، اب چاہے تو معروف طریقے سے رکھے یا خوبی کے ساتھ رخصت کردے۔
          طلاقِ رجعی میں عدت کے اندر شوہر رجوع کرسکتا ہے، اس میں بیوی کی رضامندی کی ضرورت نہیں ہے؛ لیکن اگر عدت ختم ہوجائے یعنی اگر حیض والی عورت ہوتو تین حیض اور حیض والی نہ ہو تو تین مہینے گذرجائیں تو عورت ”بائنہ“ ہوجائے گی، یعنی طلاق رجعی، طلاقِ بائن میں تبدیل ہوجائے گی، اب دوبارہ نکاح میں لوٹنے اور ایک ساتھ رہنے کے لیے تجدیدِ نکاح ضروری ہوگا، باہمی رضامندی کے ساتھ نکاح کے بغیر حلال نہیں ہوگی۔ (ہدایہ ۲/۳۷۴، ۳۷۹)
رجعت کا طریقہ:
          رَجْعت قول اور عمل دونوں سے ہوتی ہے، ”قولی رجعت“ کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ: شوہر دومرد یا ایک مرد اور دو عورت گواہ کے سامنے کہے کہ: میں نے اپنی بیو کو لوٹالیا، پھر اس کی اطلاع بیوی کو کردے۔
          اگر گواہ نہ بھی بنائے، ویسے ہی بیوی کو کہہ دے کہ: میں نے تم کو نکاح میں لوٹالیا تو رجعت صحیح اور درست ہوجائے گی؛ البتہ گواہ کا ہونا بہتر ہے۔ (ہدایہ۲/۳۹۵) اور رجعت کا ”فعلی طریقہ“ یہ ہے کہ: شوہر بلا کچھ بولے بیوی سے وطی کرلے یا بوس وکنار کرلے، بس رجوع ہوجائے گا؛ البتہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ رجوع کرنے سے بیوی تو نکاح میں لوٹ آتی ہے؛ مگر دی ہوئی طلاق واپس نہیں ہوتی؛ اس لیے اگر ایک طلاق دے کر رجوع کیا تو اب دو طلاق کا مالک ہے اور اگر دو طلاق کے بعد رجوع کیا تو بس ایک ہی طلاق کا مالک ہے، تیسری کے بعد رجوع کا اختیار ختم ہوجاتا ہے۔
کنائی الفاظ سے بائن طلاق:
          اگر آدمی ایسے الفاظ سے طلاق دے جو طلاق اور غیرطلاق دونوں کے لیے استعمال ہوتے ہوں تو وہ الفاظ کنائی کہلاتے ہیں مثلاً: طلاق کی نیت سے کہے کہ: ”تم مجھ سے جدا ہو“ تو ”طلاقِ بائن“ واقع ہوجائے گی، طلاقِ باطن میں بلانکاح رجوع کرنا جائز نہیں ہے، نکاح کے بعد ہی رجوع ممکن ہے خواہ عدت کے اندر ہو یا عدت گذر جانے کے بعد۔

از: مفتی اشتیاق احمد قاسمی استاذ دارالعلوم دیوبند

http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/03-Talaq%20Shariah%20rahnumai_MDU_5_May_12.htm

تحریری طلاق کی کیا شرطیں ہیں؟
  Aug 25,2008  Answer: 6891
فتوی: 806=806/ م
تحریری طلاق دینے کی شرط یہ ہے کہ بیوی سامنے موجود نہ ہو، تحریری طلاق شوہر خود لکھے، یا دوسرے سے لکھوائے اوراس پر شوہر اپنا دستخط یا مہر وغیرہ ثبت کردے، دونوں صورت میں طلاق واقع ہوجاتی ہے، شوہر نے تحریری طلاق نامہ بیوی کے پاس بھیجا اور اس میں یہ شرط لگادی کہ میرا خط جب پہنچ جائے تو تم پر طلاق، ایسی صورت میں خط پہنچنے پر طلاق واقع ہوگی۔ اور اگر طلاق کو خط پہنچنے پر معلق نہیں کیا تھا تو جس وقت طلاق کا لفظ لکھا، اسی وقت طلاق پڑگئی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
تین طلاق کا حکم:
           بہ یک وقت ”تین طلاق“ دینا سخت گناہ ہے، قرآنِ پاک کے بتائے ہوئے طریقے کے خلاف؛ بلکہ قرآنِ پاک کے ساتھ ایک طرح کا کھیل اور مذاق ہے؛ لیکن جس طرح حالتِ حیض میں دی ہوئی طلاق سخت گناہ اور معصیت ہونے کے باوجود پڑ جاتی ہے، اسی طرح ایک دفعہ میں دی ہوئی تین طلاق بھی جمہورِ امت کے نزدیک واقع ہوجاتی ہے، اس پر ائمہٴ اربعہ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ متفق ہیں۔
          بعض لوگ ایسی صورت میں غیرمقلدین علماء کے پاس چلے جاتے ہیں؛ اس لیے کہ وہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق کو ایک مانتے ہیں؛ حالاں کہ ائمہٴ اربعہ کے اتفاق اور اجماع کی صورت میں ان کے اختلاف کی کوئی اہمیت نہیں۔ کوئی چیز حرام ہوتو کسی کے کہنے سے حلال نہیں ہوسکتی، حدیث شریف میں ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص کے متعلق یہ اطلاع ملی کہ اس نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دے دی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غصہ کی حالت میں کھڑے ہوگئے اورارشاد فرمایا کہ: ابھی جب کہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں، کیا کتاب اللہ سے کھیلا جائے گا؟ (یعنی ایک ساتھ تین طلاق دینا قرآنِ پاک کے بتائے ہوئے طریقہٴ طلاق سے مذاق ہے) اس وقت ایک صحابی کھڑے ہوگئے، اور عرض کیا کہ: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں اس آدمی کو قتل ہی نہ کردوں، جس نے یہ حرکت کی ہے؟ (سنن نسائی)
          اس حدیث شریف میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں فرمایا کہ: تین طلاق ایک ہی کے برابر ہے؛ بلکہ اگر ایک کے حکم میں ہوتی تو آپ علیہ السلام کو غصہ ہی نہ آتا، غصہ اس بات پر آیا کہ قرآنِ پاک میں ”الطلاق مرتان الخ“ میں الگ الگ طلاق استعمال کرنے کی تلقین ہے۔
          تیسری طلاق دینے سے پہلے اچھی طرح سوچ لے کہ رکھنا ہے یا چھوڑنا؟ جیسا ارادہ ہو ویسا عمل کرے؛ لیکن اس آدمی نے ایسا نہیں کیا، اسی وجہ سے سرکارِ دوعالم  صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آیا۔
          غرض یہ کہ اگر کوئی آدمی تین طلاق دے دے تو تینوں طلاق واقع ہوجاتی ہیں، اور دوبارہ اس شوہر کے پاس رجوع ہونے کی صورت صرف یہ ہوتی ہے کہ عورت عدتِ طلاق گذرنے کے بعد دوسرے مرد سے نکاح کرلے اور وہ دوسرا مرد اس کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کے بعد مرجائے یا اُسے طلاق دے دے تو پھر عدتِ وفات یا عدتِ طلاق گذرجانے کے بعد پہلے شوہر سے باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرے، تبھی تین طلاق دینے والے شوہر سے رشتہٴ زوجیت قائم ہوسکتا ہے۔ (ہدایہ ۲/۳۹۹، مشکوٰة، ص:۲۸۴)
طلاق واقع ہونے کی شرطیں:
          وقوعِ طلاق کے لیے شوہر کا عاقل بالغ ہونا، بیداری اور ہوش وحواس کی حالت میں ہونا شرط ہے، یہی وجہ ہے کہ:
          (۱) ”نابالغ“ کی طلاق واقع نہیں ہوتی، یعنی اسلامی کلینڈر سے پندرہ سال کا لڑکا شرعی لحاظ سے بالغ کہلاتا ہے، جب کہ پندرہ سال سے پہلے بلوغ کی علامت ظاہر نہ ہوئی ہو، اگر بلوغ کی علامت (احتلام وانزال) پندرہ سال سے کم میں ظاہر ہوجائے تو وہ شریعت میں بالغ کہلائے گا، اس کی طلاق واقع ہوجائے گی۔ (الدرالمختار علی ہامش رد المحتار، فصل فی بلوغ الغلام بالاحتلام ۵/۱۳۲، ۲/۵۷۶)
          (۲) ”پاگل یا کم عقل (معتوہ) کی طلاق“ بھی واقع نہیں ہوتی؛ اس لیے کہ اِن کے تصرفات، عقل وشعور سے خالی ہوتے ہیں، ان کے ارادے کا شریعت نے اعتبار نہیں کیا ہے۔
          اس صورت میں بیوی دارالقضاء یا شرعی پنچایت سے رجوع ہوکر اپنی پریشانی رکھ سکتی ہے؛ تاکہ وہاں شرعی لحاظ سے فسخِ نکاح کی کارروائی عمل میں آسکے۔
          (۳) ”بے ہوش“ آدمی کی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی ہے؛ اس لیے کہ اس وقت سوچنے سمجھنے کی قوت معطل رہتی ہے۔
          (۴) ”نیند کی حالت“ میں دی ہوئی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی۔
          (۵) خوف ودہشت کی وہ کیفیت جس میں انسان عقل کھوبیٹھے اس حالت کی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی۔
          (۶) اسی طرح غصہ کی وہ حالت جس میں انسان پاگل ہونے کی حد کو پہنچ جاتا ہے، عقل مغلوب ہوجاتی ہے، وہ یہ بھی نہیں سمجھتا کہ کیاکہہ رہا ہے، کیا کررہا ہے؟ اس طرح کی کیفیت ہزاروں میں ایک آدھ کی ہوسکتی ہے۔ اس حالت کی طلاق بھی واقع نہیں ہوتی ہے۔
          عام طور سے لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں بہت زیادہ غصہ کی حالت میں ہوش وحواس کھوگیا تھا، اس حالت میں میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ غصہ کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی ہے؛ حالاں کہ سوچنے کی بات ہے کہ کیا آدمی طلاق خوشی کی حالت میں دیتا ہے؟ طلاق تو ہمیشہ غصہ کی حالت ہی میں دیتا ہے؛ اس لیے محض غصہ ہونا، طلاق کے عدمِ وقوع کے لیے کافی نہیں ہے؛ بلکہ عقل وحواس کھوکر جنون کی حد میں داخل ہونے کی حالت میں بے اختیار طلاق کا زبان سے نکل جانا مراد ہے۔
          ایک بار ایک صاحب سے میں نے پوچھا کہ: اس حالت میں آپ نے کتنی طلاق دی؟ کچھ یاد ہے؟ انھوں نے کہا کہ: ہاں، تین طلاق دی تھی! ظاہر سی بات ہے کہ اگر ”تین طلاق“ یاد ہے تو وہ حواس باختہ ہونے کی حالت کیسے کہی جاسکتی ہے؟ دارالافتاء کے ماحول میں چودہ سال میں صرف ایک واقعہ ایسا آیا، جس میں واقعتا صاحبِ واقعہ غصہ کی اس حد میں پہنچا ہوا معلوم ہوا۔
          اس موقع پر مفتیوں کو بہت ہی گہرائی سے جائزہ لینا چاہیے، عموماً لوگ حیلہ کرنے کے لیے، اور طلاق کے واقع نہ ہونے کا فتویٰ حاصل کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں؛ حالاں کہ لوگوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ اگر کوئی چیز حرام ہوگئی ہے تو مفتیوں کے کہنے سے حلال نہیں ہوسکتی؛ اس لیے سچ کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
          (۷) نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ (ہدایہ ۲/۳۵۹) البتہ درج ذیل صورتیں مستثنیٰ ہیں:
          (الف) بطور دوا وعلاج نشہ آور شے استعمال کی گئی، تو طلاق واقع نہ ہوگی۔
          (ب) اگر کوئی بھوک کی وجہ سے مرنے کے قریب تھا، اس حالت میں جان بچانے کے لیے شراب اور نشہ آور چیز کے علاوہ کوئی چیز نہیں تھی، اس نے مجبور ہوکر نشہ آور چیز استعمال کی تو اس حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
          (ج) اگر کسی کو جان سے مارنے کی دھمکی کے ساتھ نشہ آور چیز استعمال کرائی گئی، اس وقت غالب گمان ہوکہ اگر وہ استعمال نہیں کرے گا تو سخت جسمانی مضرت یا کوئی ناقابل برداشت نقصان پہنچ سکتا ہے تو اس حالت میں دی گئی طلاق واقع نہ ہوگی۔
          (د) کوئی چیز استعمال کرلی جس سے نشہ ہوگیا؛ لیکن استعمال سے پہلے اس کے نشہ آور ہونے کا علم نہیں تھا، اتفاق سے وہ نشہ آور نکلی تو اس حالت میں دی گئی طلاق واقع نہ ہوگی، جب کہ نشہ بہت زیادہ ہوگیا ہو، زمین وآسمان کا فرق بھی اس حالت میں نہ ہو۔ (مستفاد از: مجموعہ قوانین اسلامی ص:۱۳۴، حسامی ص:۱۵۷، رد المحتار ۲/۵۸۷، ۳/۲۴۰، ۳/۳۴۰ مطبوعہ کراچی)
          (۸) جبر واکراہ کی حالت میں اگر کسی نے مجبور ہوکر زبان سے طلاق دی تو طلاق واقع ہوگی ورنہ نہیں، اگر کسی نے مجبور کرکے طلاق نامہ لکھوایا یا طلاق نامہ تیار کرکے دستخط پر مجبور کیا، تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ (ایضاً بحوالہ ردالمحتار ۲/۵۷۹)
          (۹) ہنسی مذاق میں طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ (مشکوٰة ص:۲۸۴)
          (۱۰) اگر مریض بحالتِ ہوش وحواس طلاق دے تو واقع ہوجائے گی۔ (بدائع الصنائع ۳/۱۰۰)
          (۱۱) گونگا اگر لکھ کر طلاق دے، یا اشارہ سے طلاق دے تو اس کی طلاق بھی واقع ہوجائے گی۔ (ہدایہ ۲/۳۵۹)
تحریری طلاق:
          جس طرح زبان سے طلاق واقع ہوتی ہے، اسی طرح تحریر لکھ کر طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، اس کی درج ذیل صورتیں ہیں:
          ۱-       باضابطہ طلاق نامہ، یا خط پتہ اور مخاطب کی صراحت کے ساتھ تیار کیاگیا تو طلاق واقع ہوگئی؛ اس لیے کہ اس صورت میں تحریر، تلفظ کے قائم مقام ہوتی ہے۔
          ۲-       اگر یوں ہی کسی کاغذ یا دیوار پر لکھے کہ ”طلاق ہے، یا طلاق دی“ اور نیت اس سے بیوی کو طلاق دینا ہوتو بھی طلاق واقع ہوجائے گی۔
          ۳-       پانی یا ہوا میں ”طلاق“ لکھنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، چاہے نیت کرلے۔ (مجموعہ قوانین اسلامی ص۱۳۰، بحوالہ الدرالمختار مع رد المحتار ۲/۵۸۹)
فون پر طلاق:
          فون پر طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
عورت اگر طلاق منظور نہ کرے:
          بعض لوگوں کو غلط فہمی رہتی ہے کہ بیوی طلاق کو قبول کرے تب ہی طلاق واقع ہوگی، ایسی بات نہیں، طلاق میں بیوی کی رضامندی اور عدمِ رضامندی کو کوئی دخل نہیں ہے۔
بیوی کی طلاق:
          طلاق کا حق شوہر کو ہے بیوی کو نہیں؛ اس لیے اگر بیوی اپنے اوپر طلاق لے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اور اگر وہ شوہر کو طلاق دے تو بھی طلاق نہیں ہوتی، یہ جہالت کی بات ہے۔
حمل کی حالت میں طلاق:
          بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ حمل کی حالت میں طلاق نہیں ہوتی؛ حالاں کہ یہ صحیح نہیں ہے، صحیح بات یہ ہے کہ حمل کی حالت میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے؛ البتہ طلاق کی عدت، ولادت کے بعد پوری ہوجاتی ہے۔
بلاگواہ طلاق:
          بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ بلا گواہ طلاق واقع نہیں ہوتی؛ حالاں کہ ایسا نہیں، طلاق کے لیے گواہ کی ضرورت نہیں، بلاگواہ طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
بیوی کی موجودگی میں طلاق:
          بیوی موجود نہ ہو تب بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ یہ خیال نہیں رکھنا چاہیے کہ بیوی اگر موجود ہے تو ہی طلاق واقع ہوگی ورنہ نہیں۔
ایک طلاق بھی کافی:
          جیساکہ اوپر بتایاگیا کہ ایک طلاق بھی طلاق مانی جاتی ہے اور واقع ہوجاتی ہے، یہ خیال رکھنا کہ تین سے کم طلاق واقع نہیں ہوتی غلط ہے، لوگ نادانی میں تین ہی کو طلاق سمجھتے ہیں؛ اس لیے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ایک طلاق سے بھی بیوی جدا ہوجاتی ہے، مزید یہ کہ اس صورت میں سوچنے کا پورا موقع رہتا ہے۔
طویل جدائی کے باوجود نکاح کی بقا:
          بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ طویل جدائی کے بعد نکاح خود بخود ختم ہوجاتا ہے، بیوی شوہر سے قانوناً الگ سمجھی جاتی ہے، یہ بات صحیح نہیں ہے؛ اس لیے کہ اچھی طرح سمجھے رہنا چاہیے کہ شوہر چاہے پوری عمر جدا رہے، اس کے طلاق دیے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی۔
          ایسی عورتیں جو اس طرح کی آزمائش میں ہوں، ان کو دارالقضاء یا شرعی پنچایت سے رجوع ہوکر اپنا حل تلاشنا چاہیے۔
          اب اس طرح کے واقعات بھی پیش آنے لگے ہیں کہ عورتیں طویل جدائی کے بعد اپنے کو مطلقہ سمجھ کر دوسری جگہ نکاح کرلیتی ہیں، اس طرح وہ صاحبِ اولاد بھی ہوجاتی ہیں؛ حالاں کہ ایک نکاح کے باقی رہتے ہوئے دوسرا نکاح منعقد ہوتاہی نہیں؛ اس لیے اولاد بھی حرام ہی پیدا ہوتی ہے۔
وکیل کے ذریعہ طلاق:
          شوہر کو طلاق دینے کا حق ہے؛ لیکن اگر وہ حق کسی دوسرے کو دینا چاہے تو دے سکتا ہے، مثلاً: اگر وہ وکیل کے ذریعہ اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو دے سکتا ہے، وکیل کو جتنی طلاق کا وکیل بنائے گا اتنی ہی دے سکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں۔
          اگر وکیل کو ایک طلاق کی وکالت کی اجازت دی اور اس نے تین طلاق دے دی، تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔
          اگر وکیل نے تین طلاق کا طلاق نامہ بناکر پڑھ کر سنادیا، اوراس پر شوہر نے دستخط کیا تو تینوں طلاق واقع ہوجائیں گی۔ اکثر وکلاء طلاق کا وکالت نامہ تیار کرنا نہیں جانتے؛ اس لیے جب بھی ان سے طلاق نامہ تیار کرایا جاتا ہے، وہ تین طلاق لکھ دیتے ہیں، ایسی صورت میں موٴکل مصیبت میں پھنس جاتا ہے۔
بیوی کو تفویضِ طلاق:
          اگر کوئی شخص بیوی کو طلاق لے لینے کا اختیار سپرد کردے، تو بھی طلاق واقع ہوجائے گی، اگر ایک طلاق کا اختیار دیا اوراس نے ایک سے زیادہ طلاق اپنے اوپر واقع کرلی تو زائد کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا، ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔
          تفویضِ طلاق کے بعد شوہر اس سے رجوع نہیں کرسکتا ہے۔ (مجموعہ قوانین اسلامی ص:۱۵۴، بحوالہ الدرالمختار علی ہامش رد المحتار ۲/۶۶۹)
انشاء اللہ کے ساتھ طلاق:
          اگر کوئی آدمی بیوی کو طلاق دینے کے ساتھ ہی ”انشاء اللہ“ کہہ دے تو طلاق واقع نہیں ہوگی؛ اس لیے کہ انشاء اللہ کا مطلب ہے کہ ”اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا“ تو اللہ تعالیٰ کا چاہنا کیسے معلوم ہوگا؟ لہٰذا طلاق واقع نہیں ہوگی۔ (ہدایہ ۲/۳۸۸)
تعلیقِ طلاق:
          اگر کوئی شوہر اپنی بیوی سے کہے: ”اگر تم نے نماز نہیں پڑھی تو تم کو طلاق ہے“ یا ”اگر تم آج پانچ بجے شام تک میرے گھر نہ آئی تو تم کو طلاق ہے“ تو پہلی صورت میں اگر بیوی نماز نہیں پڑھے گی تو طلاق واقع ہوجائے گی، اور دوسری صورت میں پانچ بجے شام کے بعد آئے گی یا نہیں آئے گی تو اس پر طلاق واقع ہوجائے گی۔
          حاصل یہ کہ طلاق کو کسی کام یا وقت پر معلق کرنے سے طلاق معلق ہوجاتی ہے، اور اس چیز کے واقع ہونے کی صورت میں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
طلاق کے بعد افسوس یا کفارہ:
          بعض لوگ کہتے ہیں کہ طلاق دینے کے بعد مجھے بہت افسوس ہوا، میں نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی، تو کیا افسوس کرنے اور توبہ کرنے کے بعد بھی طلاق واقع ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح بندوق کی گولی چل جانے کے بعد افسوس کرنے سے اور توبہ کرنے سے دوبارہ واپس نہیں آتی، اسی طرح طلاق بھی دوبارہ واپس نہیں ہوتی۔
          بعض لوگ طلاق کا کفارہ پوچھتے ہیں، یا طلاق دینے کے بعد چند مسکینوں کو کھانا کھلاکر دوبارہ ساتھ رہنے لگتے ہیں، یہ طریقہ بھی جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ شریعت میں طلاق کا کوئی کفارہ مقرر نہیں ہے؛ اس لیے اگر تین طلاق دے کر اس طرح کے ڈھونگ رچتا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں، بیوی ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی۔ کفارہ سے حلال نہیں ہوگی۔
ایک مشورہ:
          جب بھی میاں بیوی کے درمیان ایسا شدید اختلاف ہوجائے کہ ایک ساتھ رہنا ناممکن سمجھ میں آرہا ہوتو دونوں طرف کے ایک ایک یا چند افراد جمع ہوکر اختلاف کی وجوہات پر محض اللہ واسطے غور کریں، اگر اتفاق کی کوئی صورت سمجھ میں آجائے تو ملادیں، یہ مضمون قرآنِ پاک میں وضاحت سے بیان ہوا ہے۔ (نساء ۳۵)
          اگر اس طرح بھی اتفاق نہ ہوسکے تو شوہر کو کسی بڑے عالم یا قریبی دارالافتاء سے رجوع ہوکر طلاق کی سب سے اچھی اور بہتر صورت معلوم کرنی چاہیے، اس طرح طلاق دینے کے ناجائز اور مکروہ طریقے سے بچنا ممکن ہوگا، اپنی مرضی سے طلاق دینے میں عام آدمی اکثر غلط طریقہ ہی اپنا لیتا ہے۔ یا اکٹھے تین طلاق دے کر ایسی شرمندگی اور گناہ اپنے سر لاد لیتا ہے، جس کی تلافی کی کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی۔ اللہ تعالیٰ طلاق جیسے منحوس ومکروہ عمل سے محفوظ رکھے۔ (آمین)

از: مفتی اشتیاق احمد قاسمی استاذ دارالعلوم دیوبند

http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/05-Talaq-Sharai%20Rahnumai_MDU_6_June_12.htm

طلاقِ معلق کا مسئلہ
س … میرے میاں نے مجھے میری بہن کے گھر جانے سے منع کیا اور کہا کہ: ”تم وہاں گئیں تو تم مجھ پر طلاق ہوجاوٴگی“ اور تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے کہ: ”میں تمہیں طلاق دے دُوں گا۔“ اور اس کے دُوسرے تیسرے دن ہی ہم وہاں چلے گئے، پہلے مجھے معلوم نہیں تھا کہ زبان سے کہنے سے طلاق ہوجاتی ہے، لوگوں سے معلوم ہوا کہ اس طرح بھی طلاق ہوجاتی ہے، جبکہ میاں نہیں مان رہے اور کہہ رہے ہیں کہ: ”طلاق دینے کا میں نے وعدہ کیا ہے، اور طلاق نہیں دی“ جبکہ یہی الفاظ جو اَبھی لکھے ہیں، میرے میاں نے مجھے کہے تھے، کیا اس صورت میں طلاق ہوئی یا نہیں؟ اگر ہوئی تو اس کا حل کیا ہے؟

ج… آپ کے وہاں جانے کے بعد شوہر نے دو لفظ استعمال کئے ہیں، ایک یہ کہ: ”اگر تم وہاں گئیں تو مجھ پر طلاق ہوجاوٴگی“ اس سے ایک طلاق ہوگئی، مگر شوہر عدّت کے اندر اگر زبان سے کہہ دے کہ: ”میں نے طلاق واپس لے لی“ یا میاں بیوی کا تعلق قائم کرلے تو رُجوع ہوجائے گا، دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں۔ دُوسرا فقرہ آپ کے شوہر کا جسے انہوں نے تین بار دہرایا، یہ تھا کہ: ”میں تمہیں طلاق دے دُوں گا“ یہ طلاق دینے کی دھمکی ہے، ان الفاظ سے طلاق نہیں ہوئی۔

طلاق اور شرط بیک وقت جملے میں ہونے سے طلاق معلق ہوگئی

س… ایک شخص نے اپنی بیوی کو لکھ کر طلاق اس طرح دی: ”میں انہیں طلاقِ بائن دیتا ہوں، تین طلاقوں کے ساتھ یہ سب مسائل میں نے بہشتی زیور میں بغور پڑھ کر حاصل کئے ہیں۔“ اس کے ساتھ ہی اس شخص نے یہ شرط بھی عائد کردی کہ طلاق کا اطلاق اس وقت ہوگا جب فلیٹ جو کہ بیوی کی ملکیت ہے وہ فروخت کردیا جائے گا۔ واضح رہے کہ شوہر نے پُرسکون زندگی گزارنے کے وعدے پر مہر کی رقم معاف کرالی اور اس ضمن میں اپنی بیوی کا حلفیہ بیان مجسٹریٹ کے رُوبرو دِلوادیا۔ اس کے فوراً بعد ہی دو تین روز کے وقفے کے بعد طلاق مندرجہ بالا طریق پر دے دی۔ براہِ کرم از رُوئے شرع وضاحت و رہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ طلاق ہوگئی یا فلیٹ فروخت کرنے کے ساتھ مشروط رہے گی؟ جبکہ فلیٹ بیوی کے نام الاٹ شدہ ہے۔

ج… اگر طلاق اور اس کی شرط ایک ہی جملے میں لکھی تھی، مثلاً یہ کہ: ”اگر فلیٹ فروخت کرے گی تو اس کو تین طلاق“ اس صورت میں فلیٹ کے فروخت ہونے پر طلاق ہوگی، جب تک فلیٹ فروخت نہیں ہوتا طلاق نہیں ہوگی، اور اگر طلاق پہلے دے دی بعد میں وضاحت کرتے ہوئے شرط لگائی تو طلاق فوراً واقع ہوگئی اور بعد کی وضاحت کا کوئی اعتبار نہیں۔

”اگر میں فلاں کام کروں تو مجھ پر عورت طلاق“ کا حکم

س… ایک شخص نے اپنی والدہ سے غصّے میں آکر کہا کہ: ”اگر میں تیرے پاس آوٴں تو مجھ پر عورت طلاق ہوگی“ اور یہ لفظ اس نے صرف ایک ہی مرتبہ کہا ہے، اب وہ شخص اپنی والدہ کے پاس آنا چاہتا ہے تو اس کے لئے کیا صورت ہوگی؟

ج… اس صورت میں وہ شخص زندگی میں جب کبھی اپنی والدہ کے پاس جائے گا تو بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگی، جس کا حکمِ شرعی یہ ہے کہ عدّت کے اندر بغیر تجدیدِ نکاح کے شوہر رُجوع کرسکتا ہے۔ البتہ عدّت کے بعد عورت کی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔ بہتر یہ ہے کہ یہ شخص والدہ کے پاس چلا جائے، اس سے ایک طلاق رجعی ہوجائے گی، اس کے بعد یہ شخص بیوی سے رُجوع کرے اور ”رُجوع“ سے مراد یہ ہے کہ یا تو زبان سے کہہ دے کہ میں نے طلاق واپس لے لی، یا بیوی کو ہاتھ لگادے، یا اس سے صحبت کرلے۔ زبان سے یا فعل سے رُجوع کرلینے کے بعد طلاق کا اثر ختم ہوجائے گا۔ لیکن اس شخص نے تین طلاقوں میں سے ایک طلاق کا حق استعمال کرلیا، اب اس کے پاس صرف دو طلاقوں کا حق باقی رہ گیا، آئندہ اگر دو طلاقیں دے دیں تو بیوی حرام ہوجائے گی، اس لئے آئندہ احتیاط کرے۔

”جس روز میری بیوی نے ان کے گھر کا ایک لقمہ بھی کھایا اسی دن اس کو تین طلاق“ کے الفاظ کا حکم

س… کچھ عرصہ قبل زید کی اپنے سسرال والوں سے کسی بات پر ناراضگی ہوگئی، کچھ لوگوں نے ان کا میل ملاپ کرانا چاہا، غصّے کی حالت میں زید نے دو اشخاص کی موجودگی میں یہ الفاظ ادا کئے: ”جس روز اس (میری بیوی) نے ان کے گھر (لڑکی کے والدین کا) کا ایک نوالہ بھی کھایا اسی دن اس کو تین طلاق“ اس کے بعد ابھی چند دن قبل زید کی اس کے سسرال والوں سے صلح کروادی گئی ہے، لیکن زید کی بیوی کو اپنے والدین کے گھر کا کھانا کھانے سے منع کردیا گیا ہے۔

          آیا زید کی بیوی اپنے ماں باپ کے گھر کا ساری عمر کچھ نہیں کھاسکتی؟ اور اگر کبھی بھولے سے ہی کھالے تو کیا طلاق واقع ہوجائے گی؟ کیا یہ شرط کسی صورت میں ختم ہوسکتی ہے؟ اگر ایسا ممکن ہے تو وہ کیا صورت ہوگی؟

ج… اس شرط کو ختم کرنے کی ایک صورت ہوسکتی ہے کہ زید اپنی بیوی کو ایک طلاق بائن دے دے، طلاق کی عدّت ختم ہونے کے بعد عورت اپنے والدین کے گھر کھانا کھاکر اس شرط کو توڑ دے، اس کے بعد زید اور اس کی بیوی کا دوبارہ نکاح کردیا جائے۔

”اگر والدین کے گھر گئی تو طلاق سمجھنا“

س… میرا سسرال والوں سے جھگڑا ہوگیا تھا، میں نے غصّے میں اپنی بیوی پر شرط رکھ دی تھی کہ: ”تو میرے بغیر اپنے ماں باپ کے گھر گئی تو میری طرف سے طلاق سمجھنا“ اب تک وہ نہیں گئی، اگر وہ چلی جائے تو اس پر طلاق ہوگی، اب اگر میں خود اجازت دُوں تو وہ میرے بغیر جاسکتی ہے یا نہیں؟ دُوسری بات یہ ہے کہ اگر وہ اپنے ماں باپ کے گھر چلی جائے تو میں دوبارہ کس طرح رُجوع کرسکتا ہوں؟

ج… آپ طلاق واپس نہیں لے سکتے، اگر وہ بغیر آپ کے میکے جائے گی تو طلاق تو واقع ہوجائے گی، مگر یہ رجعی طلاق ہوگی، آپ کو عدّت کے اندر رُجوع کا حق ہوگا۔ رُجوع کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے کہہ دیا جائے کہ: ”میں نے طلاق واپس لی“ یا میاں بیوی کا تعلق قائم کرلیا جائے۔


طلاقِ معلق کو واپس لینے کا اختیار نہیں

س… اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے غصّے میں یہ کہہ دے کہ: ”اگر تم نے میری مرضی کے خلاف کام کیا تو تم میرے نکاح سے باہر ہوجاوٴگی“ اگر شوہر اس شرط کو ختم کرنا چاہے تو کیا وہ ختم ہوسکتی ہے؟ اور کس طرح؟ دُوسری بات یہ ہے کہ فرض کرو اگر بیوی اس کام کو کرلیتی ہے تو کیا وہ نکاح سے باہر ہوجاتی ہے؟

ج… طلاق کو کسی شرط پر معلق کردینے کے بعد اسے واپس لینے کا اختیار نہیں، اس لئے اس شخص کی بیوی اگر اس کی مرضی کے خلاف وہ کام کرے گی تو طلاقِ بائن واقع ہوجائے گی، مگر دوبارہ نکاح ہوسکے گا۔

کیا دو طلاقیں دینے کے بعد طلاقِ معلق واقع ہوسکتی ہے؟

س… زید نے اپنی بیوی کو کہا: ”اگر میری اجازت کے بغیر میکے گئی تو تمہیں طلاق ہے“ مگر چند دنوں کے بعد دُوسری وجہ سے دو طلاقیں دے دیتا ہے، اور اپنی بیوی سے الگ ہوجاتا ہے، اور اپنی مطلقہ بیوی کو میکے بھیج دیتا ہے یا وہ عورت اپنے والدین کے گھر چلی جاتی ہے، تو کیا اس عورت کو صرف دو طلاقیں واقع ہوں گی یا وہ طلاق بھی واقع ہوجائے گی جو زید نے اس شرط پر دی کہ میری بغیر اجازت اپنے والدین کے گھر گئی تو ایک طلاق ہے۔ کیا زید اپنی بیوی کو دوبارہ نکاح میں لاسکتا ہے؟

ج… طلاقِ معلق نکاح یا عدّت میں شرط کے پائے جانے سے واقع ہوجاتی ہے، پس صورتِ مسئولہ میں دو طلاق کے بعد بیوی کا میکے جانا اگر عدّت ختم ہونے کے بعد تھا تو طلاقِ معلق واقع نہیں ہوئی، اور اگر عدّت کے اندر تھا اور شوہر نے خود اسے بھیجا تب بھی تیسری طلاق واقع نہیں ہوئی، کیونکہ شرط بلااجازت جانے کی تھی، اور یہ جانا بغیر اجازت کے نہیں بلکہ اس کے حکم سے ہوا۔ اور اگر عورت عدّت کے اندر شوہر کی اجازت کے بغیر چلی گئی تو تیسری طلاق بھی واقع ہوجائے گی اور حلالہ شرعی کے بغیر دوبارہ نکاح صحیح نہیں ہوگا۔

”اگر تم مہمان کے سامنے آئیں تو تین طلاق“

س… میرے شوہر معمولی سی باتوں پر جھگڑا کرنے لگتے ہیں، ایک دفعہ جھگڑے کے دوران کہنے لگے کہ: ”اگر تم میرے یا اپنے رشتہ داروں کے سامنے آئیں تو تمہیں میری طرف سے تین طلاق“ یہ کہہ کر چلے گئے، جبکہ انہیں معلوم تھا کہ مہمان آنے والے ہیں جو کہ ان کے اور میرے دونوں کے یکساں رشتہ دار ہیں۔ تھوڑی دیر بعد مہمان آگئے اور مجھے مجبوراً ان کے سامنے جانا پڑا۔ آپ یہ تحریر فرمائیں کہ کیا ان کے اس طرح کہنے سے طلاق ہوجاتی ہے یا نہیں؟ اور ہمارا ایک ساتھ رہنا ٹھیک ہے یا نہیں؟ میرے شوہر اس سے پہلے بھی اکثر لڑائیوں میں طلاق کا لفظ نکال چکے ہیں، برائے مہربانی جواب ضرور عنایت فرمائیں۔

ج… ان الفاظ سے تین طلاقیں ہوگئیں، اور اگر وہ اس سے پہلے بھی اکثر لڑائیوں میں طلاق کا لفظ نکال چکے ہیں تو طلاق پہلے ہی واقع ہوچکی ہے۔ بہرحال اب تم دونوں کا تعلق میاں بیوی کا نہیں بلکہ ایک دُوسرے پر قطعی حرام ہو، حلالہ شرعی کے بغیر دوبارہ نکاح کی بھی گنجائش نہیں۔

”اگر دُوسری شادی کی تو بیوی کو طلاق“

س… ایک لڑکے کی ۱۸ سال قبل اس وقت شادی ہوئی، جب وہ حدودِ لڑکپن میں تھا، اس کے سسر نے اس سے ایسی تحریر پر دستخط لے لئے جس میں تحریر تھا کہ: ”اگر دُوسری شادی کی تو میری بیٹی کو طلاق ہوجائے گی“ جبکہ وہ لڑکا اس تحریر کو نہ سمجھ سکا تھا، ایسی صورت میں اس کے لئے دُوسری شادی کا کیا حکم ہے؟

ج… آپ کے سوال میں دو اَمر تنقیح طلب ہیں۔ ایک یہ کہ آپ نے ”حدودِ لڑکپن“ کا جو لفظ لکھا ہے اس سے کیا مراد ہے؟ اگر اس سے یہ مراد ہے کہ وہ لڑکا اس وقت ”نابالغ“ تھا تو نابالغ کی تحریر کا اعتبار نہیں، اس لئے دُوسری شادی پر طلاق نہیں ہوگی۔ اور اگر اس لفظ سے یہ مراد ہے کہ لڑکا تھا تو بالغ، مگر بے سمجھ تھا، تو یہ تحریر معتبر ہے، اور دُوسری شادی کرنے پر پہلی بیوی کو طلاق ہوجائے گی۔

          دُوسرا اَمر تنقیح یہ ہے کہ آیا تحریر میں یہی الفاظ تھے جو سوال میں نقل کئے گئے ہیں، یعنی: ”اگر دُوسری شادی کی تو میری بیٹی کو طلاق ہوجائے گی“ یا تین طلاق کے الفاظ تھے؟ اگر یہی الفاظ لکھے تھے جو آپ نے سوال میں نقل کئے ہیں تو دُوسری شادی کرنے پر پہلی بیوی کو صرف ایک طلاق ہوگی، اور وہ بھی رجعی۔ ”رجعی“ کا مطلب یہ ہے کہ عدّت ختم ہونے سے پہلے پہلے شوہر زبان سے یہ کہہ دے کہ: میں نے طلاق واپس لے لی اور بیوی سے رُجوع کرلیا، یا مطلقہ کو ہاتھ لگادے یا اس سے میاں بیوی کا تعلق قائم کرلے۔ غرضیکہ اپنے قول یا فعل سے طلاق کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلے تو طلاق موٴثر نہیں ہوتی، اور نکاح بدستور قائم رہتا ہے۔ اور اگر عدّت ختم ہوجائے تو دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے۔ اور اگر طلاق کے الفاظ تین مرتبہ استعمال کئے گئے تھے تو اس میں رُجوع کی گنجائش نہیں رہتی، اور بغیر شرعی حلالہ کے دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔

”جب تک تمہارے بہن بہنوئی گھر میں رہیں گے تمہیں طلاق رہے گی“

س… میری ایک سہیلی اپنی دو بچیوں کے ساتھ اپنے شوہر کے گھر میں رہ رہی تھی، کچھ عرصے سے میری سہیلی کی بہن بہنوئی بھی گھر میں ساتھ آکر رہنے لگے، جو کہ اس کے شوہر کو ناپسند تھے، لیکن سہیلی بہن بہنوئی کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتی تھی۔ جب جھگڑا زیادہ بڑھ گیا تو سہیلی کے شوہر نے اپنی بیوی سے یہ کہا کہ: ”جب تک تمہارے بہن بہنوئی اس گھر میں رہیں گے، تم پر طلاق رہے گی اور جب یہ گھر سے چلے جائیں گے تو یہ طلاق ختم ہوجائے گی اور تم دوبارہ میرے ساتھ بیوی کی حیثیت سے رہ سکوگی“ برائے مہربانی آپ یہ بتلائیں کہ سہیلی کے بہن بہنوئی کے گھر سے چلے جانے کے بعد کیا میری سہیلی شوہر کے ساتھ دوبارہ رہ سکتی ہے یا نہیں؟ اور وہ دُوسرا نکاح کرسکتی ہے یا نہیں؟

ج… آپ کی سہیلی کو ایک طلاق ہوگئی، اب اگر اس کی بہن اور بہنوئی عدّت کے اندر چلے گئے تو گویا شوہر نے طلاق سے رُجوع کرلیا اور نکاح قائم رہا، اور اگر عدّت ختم ہونے کے بعد گئے تو نکاح ختم ہوگیا، دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔

اگر بھائی کے گھر آنے سے طلاق کو معلق کیا تو اَب کیا کرے؟

س… میں ایک کرائے کے مکان میں رہ رہا تھا، آج سے پانچ سال پہلے ہم دونوں بھائیوں کی آپس میں باتیں ہو رہی تھیں، تو باتوں باتوں میں تلخ کلامی ہوگئی اور بہت زیادہ ہوئی، اسی دوران بھائی باہر نکل گیا، کافی دُور جاکر اس نے کہا کہ میں اپنے بھائی کے گھر آوٴں تو میری بیوی پر تیرہ دفعہ طلاق ہے۔ اب وہ بھائی عرصہ ۵ سال سے میرے گھر نہیں آیا، اب وہ میرے گھر کس صورت میں آسکتا ہے؟ اور ان باتوں کا کیا حل ہے؟

ج… آپ کا بھائی جب بھی آپ کے گھر آئے گا اس کی بیوی کو تین طلاق ہوجائیں گی۔ اگر وہ اپنی قسم توڑنا چاہتا ہے تو اس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کو ”ایک طلاق بائن“ دے دے، پھر جب بیوی کی عدّت ختم ہوجائے تو آپ کے گھر چلا جائے، اس کی قسم ٹوٹ جائے گی، دوبارہ اپنی بیوی سے نکاح کرلے۔

غیر شادی شدہ اگر طلاقِ کل کی قسم کھالے تو کیا شادی کے بعد طلاق ہوجائے گی؟

س… ایک شخص عاقل بالغ یہ کہہ دے کہ: ”آئندہ میں اگر سگریٹ نوشی کروں تو مسلمان نہیں۔ آئندہ اگر میں سگریٹ نوشی کروں تو مجھ پر (طلاق کل ہے) یعنی دُنیا کی تمام عورتیں مجھ پر طلاق ہیں۔“ یاد رہے کہ یہ شخص غیرشادی شدہ ہے، پھر اگر یہ سگریٹ نوشی ترک نہ کرسکے تو کیا کافر ہوجائے گا یا پھر اس کا نکاح کسی عورت کے ساتھ ہوسکے گا یا نہیں؟

ج… ایسی قسمیں کھانا، کہ فلاں کام کروں تو مسلمان نہیں، نہایت بیہودی قسم اور گناہ ہے، اس سے توبہ کرنی چاہئے، مگر اس قسم کو توڑنے سے یہ شخص کافر نہیں ہوگا، بلکہ اس کو توبہ کرکے قسم کا کفارہ ادا کرنا چاہئے۔ اور یہ کہنا کہ: ”اگر میں فلاں کام کروں تو مجھ پر تمام عورتوں کو طلاق“ جبکہ وہ شادی شدہ نہیں، تو قسم لغو ہے اس سے کچھ نہیں ہوا۔

          البتہ اگر یوں کہا کہ میں جس عورت سے نکاح کروں اس کو طلاق تو نکاح کرتے ہی اس کو طلاق ہوجائے گی، لیکن صرف ایک دفعہ طلاق ہوگی، اس عورت سے دوبارہ نکاح کرنے پر طلاق نہیں ہوگی۔

”اگر باپ کے گھر گئیں تو مجھ پر تین طلاق“ کہنے کا حکم

س… میرا اپنے سسر سے جھگڑا ہوگیا، اور میں نے گھر آتے ہی بیوی کو کہا کہ: ”آج کے بعد تم اگر باپ کے گھر گئی تو تم مجھ پر تین شرط طلاق ہو“ خیر اس کے بعد وہ تو باپ کے گھر نہ گئی، مگر آج کل سسر صاحب سخت بیمار ہیں اور میں یہ سوال لے کر بڑے بڑے علمائے کرام کے پاس گیا ہوں، مگر مطمئن نہیں ہوں، آپ بتائیے کہ میری بیوی کس طرح باپ کے گھر جائے؟

ج… آپ کی بیوی اپنے والد کے گھر نہیں جاسکتی، اگر جائے گی تو اسے تین طلاقیں ہوجائیں گی۔ اس کی تدبیر یہ ہوسکتی ہے کہ اس کو ایک بائن طلاق دے کر اپنے نکاح سے خارج کردیں، پھر وہ عدّت ختم ہونے کے بعد اپنے باپ کے گھر چلی جائے، چونکہ اس وقت وہ آپ کے نکاح میں نہیں ہوگی اس لئے تین طلاقیں واقع نہیں ہوں گی، اور شرط پوری ہوجائے گی۔ اب اگر دونوں کی رضامندی ہو تو دوبارہ نکاح کرلیا جائے، اس کے بعد اگر اپنے باپ کے گھر آجائے تو طلاق واقع نہیں ہوگی۔

http://shaheedeislam.com/aap-k-masaul-or-un-ka-hal/ap-k-masail-or-unka-hal-jild-5/1419-talaq-mualaq

طلاقِ مغلّظہ
http://shaheedeislam.com/aap-k-masaul-or-un-ka-hal/ap-k-masail-or-unka-hal-jild-5/1418-talaq-mugalaza

No comments:

Post a Comment