Wednesday 13 January 2016

جنت کی ضمانت

ایس اے ساگر

انسانی زندگی کے ہر پہلو میں جِس بھی معاملے کی درستگی اور اچھے نتیجے کی ضمانت موجود ہو اُسے ہر کوئی پسند کرتا ہے، 
اور
اُس کی طرف مائل ہوتا ہے اور اُسے اپنانا چاہتا ہے ، پس ہر وہ چیز جِس کی ضمانت ہو اُس کوحاصل کرنے کے خواہش مند ہمیشہ زیادہ ہوتے ہیں اور وہ چیز جِس کی ضمانت نہ ہو اُس کی طرف کوئی کوئی ہی مائل ہوتا ہے ،
اور اگر ضمانت دینے والا کوئی ایسا ہو جِس کی شخصیت معروف ہو ، قابل أعتماد ہو ، اور وہ بات کا سچا ، عودے کا پکا ہو تو پھر تو ہر اچھی عقل والے کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اُس سچے اور وفادارشخص کی ضمانت والی چیز حاصل کر لے ، خواہ اِس میں اُسے مالی اور معاشرتی طور پر کچھ ظاہری نُقصان یا تنگی ہی برداشت کرنا پڑے ،
اور
اگر ضمانت انسانی تاریخ کے سب سے زیادہ سچے ، عہد اوروعدے کو ایفا کرنےوالے ، معصوم ، اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوں اور ضمانت اُس چیز کی دی جارہی جِس کے بارے میں اکیلے و تنہا خالق و مالک ، اللہ نے فرمایا
عَرضُہَا السَّمَوَاتُ وَالأَرض
اُس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین (سب کی چوڑائی ) جتنی ہے
سورت آل عِمران /آیت ١٣٣ ،
اور فرمایا
فَلَا تَعلَمُ نَفسٌ مَّا أُخفِیَ لَہُم مِّن قُرَّۃِ أَعیُنٍ
پس کوئی بھی(اِنسان) یہ نہیں جانتا کہ اُن کیلئے (وہاں جنّت میں ) آنکھوں کی کون کون سی ٹھنڈک چھپا رکھی ہے.
سورہ السجدہ /آیت ١٧،
اور حدیث قُدسی میں فرمایا،
أَعدَدتُ لِعِبَادِی الصَّالِحِینَ ما لَا عَینٌ رَأَت ولا أُذُنٌ سَمِعَت ولا خَطَرَ عَلَی قَلبِ بَشَرٍ
میں نے اپنے نیکو کار بندوں کیلئے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جِس کو کِسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور نہ کِسی کان نے سُنا اور نہ کِسی انسان کے دِل میں اُس کے (حُسن و جما ل اور انعام و اِکرام کے )بارے میں کوئی گُمان ہو سکتا ہے.
صحیح البُخاری /حدیث ٤٥٠١/کتاب التفسیر /باب ٢٧١ ، صحیح مُسلم /حدیث ٢٨٥٤/کتاب ٥١ ،
کون ایسا بد قسمت ہو گا جو اللہ کی جنّت ملنے کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دی گئی ضمانت حاصل کرنے کی پوری کوشش نہ کرے. حضرت عُبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا،
ضمَنُوا ليّ سِتًّا مِن أَنفُسِکُم أَضمَن لَکُمُ الجَنَّۃَ اصدُقُوا إذا حَدَّثتُم وَأَوفُوا إذا وَعَدتُم وَأَدُّوا إذا ائتُمِنتُم وَاحفَظُوا فُرُوجَکُم وَغُضُّوا أَبصَارَکُم وَکُفُّوا أَیدِیَکُم. مجھے تُم لوگ اپنی ذات میں چھ چیزوں کی ضمانت دو تو میں تُمہیں جنّت کی ضمانت دیتا ہوں ،
(١) جب بات کرو گے تو سچ کہو گے
(٢)جب وعدہ کرو گے تو پورا کرو گے
(٣) اگر تُمہیں امانت دی گئی تو امانت ادا کرو گے اور
(٤) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو گے اور
(٥) اپنی نگاہوں کو نیچا رکھو گے اور
(٦) اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو گے.
المستدرک الحاکم ، صحیح ابن حبان ، مُسند احمد ، السلسلۃ الصحیحۃ /حدیث ١٤٧٠،
سودا بہت ہی سستا اور معاہدہ بہت ہی آسان ہے ، صرف چھ کام ، اور بدلے میں اللہ کی جنّت ملنے کی یقنی ضمانت، سُبحان اللہ ، آئیے اِن چھ کاموں کے اہتمام  کا ارادہ کریں کہ جِن کے کرنے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے جنّت کی ضمانت دِی ہے ،

No comments:

Post a Comment