Tuesday 26 January 2016

امام اعظم ابو حنیفہ اور تصوف

امام اعظم ابو حنیفہ بلند پایہ محدث بھی تھے اور فقہ کے امام اعظم بھی، اسی کے ساتھ آپ طریقت وتصوف کے عظیم مرد میدان بھی تھے، لیکن آپ نے روایت حدیث اور سلوک وطریقت کی ظاہری ترویج کی بجائے صرف فقہ کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا، آپ نے اپنی ساری زندگی امت مسلمہ کی بھلائی کی خاطر وقف کردی اور فقہ حنفی کی صورت میں امت کو اسلامی قانون کا مجموعہ عطا کیا، شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں ، میں نے عارف ربانی شیخ نصر اللہ شیرازی مہاجر مکی کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو معارف اور حقائق شیخ ابو یزید بسطامی اور حضرت جنید بغدادی کو حاصل تھے وہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کو بھی حاصل تھے، شریعت اور اس کے احکام کا علم اس کے علاوہ تھا، ان کا مقصد یہ تھا کہ فقہ کے ائمہ، فقہ اور تصوف دونوں کے ساتھ متصف تھے اور دونوں کے جامع تھے اور انصاف یہ ہے کہ ائمہ تصوف بھی دونوں کو جامع تھے، فرق غالب اور مغلوب کا تھا(یعنی ائمہ فقہ پر فقہ کا اور ائمہ تصوف پر تصوف کا غلبہ تھا)۔(سیدنا امام اعظم 125)

مفتی ابو الحسن شریف الکوثری نے لکھا ہے کہ 
امام مناوی سمیت صوفیاء کے کئی سوانح نگارمصنفین نے امام صاحب کو تصوف وسلوک کے بڑے مشائخ میں شمار کیا ہے۔

شریک نخعی کا بیان ہے:
ابو حنیفہ کی طویل خاموشی، دائمی فکر اور لوگوں سے کم کلام کرنا یہ سب واضح علامت ہے علم باطن اور دین کے اہم امور میں مشغولی کی اور پھر یہ کہ جس کو خاموشی اور زہد دیا گیا اس کو کل کا کل علم دے دیا گیا۔(امام اعظم ابوحنیفہ، حالات ، کمالات، ملفوظات ص:94)

شیخ علی ہجویری اپنی کتاب کشف المحجوب میں لکھتے ہیں:
اور انہی بزرگوں میں امامِ جہاں،مقتدائے خلق، زینت وشرف فقہاء، باعث شان علماء، حضرت ابو حنیفہ نعمان بن ثابت الخزاز بھی شامل تھے، عبادت ومجاہدہ میں انتہائی ثابت قدم تھے اور اس طریقت کے اصولوں میں شان عظیم کے مالک تھے، ابتدائے حال میں گوشہ نشینی کا ارادہ رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ تمام مخلوق سے کنارہ کش رہیں، یوں کہ گویا ان کے درمیان میں ہیں ہی نہیں، کیوں کہ ان کا دل امارت وجاہ وحشم سے پاک ہوچکا تھا اور وہ اپنے آپ کو شائستہ درگاہ الہٰی بنا چکے تھے۔(گنج مطلوب، ترجمہ کشف المحجوب ص:149)

حضرت فریدالدین اولیاء نے تذکرة الاولیاء میں امام صاحب کے تصوف میں بلند مقام کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے:
عارف، عامل صوفی، فقیہ، محدث، عالم دنیا ابو حنیفہ کوفی کے ریاضات ومجاہدات اور ان کے مشاہدات کی انتہا نہ تھی، شریعت وطریقت میں نظر غائر رکھتے تھے، باطن میں صاحب بصیرت تھے، امام ہمام جعفر صادق کے مرید خاص اور فیض یاب تھے، ابو حنیفہ کے مرید فضیل بن عیاض بن ابراہیم، بشرحافی ،داوٴد طائی جیسے اقطاب تھے۔(تذکرة الاولیاء ص:18)

امام صاحب طریقت کے امام اعظم تھے
امام صاحب جس طرح حدیث اور فقہ میں امامت کے منصب جلیل پر فائز تھے اسی طرح طریقت وتصوف میں بھی آپ اپنے ہم عصروں میں امام اعظم تھے،امام صاحب کے بعض شاگردوں نے طریقت میں خوب شہرت حاصل کی تھی، پہلے بھی گزرچکا کہ داوٴد طائی نے شریعت کے ساتھ ساتھ طریقت کا علم بھی امام صاحب سے حاصل کیا تھا اور وہ امام صاحب کے بھی خلیفہ ومجاز تھے، علامہ حصکفی نے در مختارمیں لکھا ہے:

استاذ ابو القاسم القشیری اپنے رسالہ میں، باوجود اپنے مذہب (شافعی) میں سخت ہونے کے اور طریقت میں پیش پیش ہونے کے، فرماتے ہیں: میں نے استاذ ابوعلی دقاق سے سنا فرماتے تھے، میں نے طریقت کو حضرت ابو القاسم نصرباذی سے حاصل کیا اور ا بو القاسم فرماتے تھے کہ میں نے حضرت شبلی سے حاصل کیا اور انہوں نے سری سقطی سے اخذ کیا تھااور انہوں نے معروف کرخی سے اور انہوں نے حضرت داوٴد طائی سے اور انہوں نے علم شریعت اورطریقت دونوں امام اعظم ابو حنیفہ سے حاصل کیا تھا۔(در مختار1/12 مکتبہ زکریا)

حضرت شبلی اور ان کے پیر حضرت سری سقطی کی بزرگی اور طریقت کا اعلیٰ ترین درجہ سب کو معلوم ہے تو جن حضرات سے ان کو یہ درجے حاصل ہوئے خیال کیجیے وہ کیا ہوں گے!! علامہ حصکفی لکھتے ہیں کہ امام صاحب علم ظاہر وباطن میں اعظم ترین تھے، بہت سے معروف اولیاء اللہ آپ کے متبع ہوئے ہیں، اگر ان حضرات اولیاء اللہ کو کسی بھی بات میں ذرا سا بھی شبہ پیش آتا تو وہ کبھی بھی ان کا اتباع نہ کرتے، نہ اقتدا کرتے، نہ موافقت کرتے۔

واقعہ یہ ہے کہ آپ کے اخلاص، صداقت ودیانت، عبادت وریاضت اور زہد وتقویٰ کے باعث اللہ تعالیٰ نے آپ کو تصوف وطریقت میں بلند درجہ عطا کیا اور امامت واجتہاد کے مقام پر فائز فرمایا، اس کی تائید حضرت شیخ علی ہجویر کی اس تحریر سے بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے خواب میں آقا ومولیٰ صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی اور دیکھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم امام اعظم ابو حنیفہ کو اپنی گود میں اٹھائے ہوئے تشریف لارہے ہیں، آپ لکھتے ہیں خواب سے ظاہر ہوگیا کہ امام ابوحنیفہ ان پاک لوگوں میں سے تھے جو اوصاف طبع میں فانی اور احکام شرع میں باقی ہیں، اس لیے کہ حضور آپ کو اٹھا کر لائے، یعنی آپ کے چلانے والے سید عالم ہیں، اگر آپ خود چل کر آتے تو باقی الصفت ہوتے، باقی الصفت لوگ منزل کو پابھی سکتے ہیں اور منزل سے بھٹک بھی سکتے ہیں، چوں کہ رسول اللہ نے آپ کو اٹھایا ہوا تھا، اس لیے یقینا آپ کی ذاتی صفات فنا ہوچکی تھیں اور وہ آقا کریم کی صفات کے ساتھ صاحب بقا تھے۔(کشف المحجوب 165)

امام صاحب کے صوفیاء تلامذہ
امام صاحب طریقت وتصوف میں اپنے ہم عصروں پر فوقیت رکھتے تھے اور فقہ وحدیث کی طرح وہ اس میدان کے بھی شہباز تھے اور اس میں انہوں نے بلندی ورفعت کے آسمان کو چھولیا تھا،اس فن میں امام صاحب کی عظمت شان کا اندازہ ان تلامذہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے، جنہوں نے اس میدان میں خوب شہرت حاصل کی ہے، امام صاحب کے ان صوفیاء تلامذہ کے مقام ومرتبہ اور لوگوں کے دلوں میں ان کی عظمت ومحبت، خدمت خلق میں ان کی جانفشانی کو دیکھ کر امام صاحب کی عظمت ورفعت کا اعتراف کیا جاسکتا ہے، چندمشہور تلامذہ کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے:

حضرت براہیم بن ا دھم:آپ بادشاہوں کی اولاد میں سے تھے ایک روز شکار کے لیے نکلے اور ایک لومڑی یا خرگوش کو ہنکایا ،آپ اس کا پیچھا کررہے تھے کہ غیب سے آواز آئی اے ابراہیم! کیا تو اس لیے پیدا کیا گیا ہے، چناں چہ آپ اپنی سواری سے ا تر پڑے، ایک مویشی کا معمولی جبہ پہن لیا اور جنگل کی راہ لی، کچھ عرصے بعد مکہ مکرمہ پہنچے وہاں سفیان ثوری اور فضیل بن عیاض کی صحبت اختیار کی، حضرت خضر علیہ السلام کے مرید تھے اور بے شمار مشائخ متقدمین کی صحبت اٹھا چکے تھے،امام ابو حنیفہ سے ربط خاص تھا، انہی سے تحصیل بھی کی تھی، حقائق تصوف کے بیان میں ان کے نادر مقولے اور لطائف نفیس خاص مقام رکھتے ہیں، حضرت جنید بغدادی کہتے ہیں علوم طریقت کی کنجیاں ابراہیم بن ادھم کے پاس ہیں۔(گنج مطلوب ترجمہ کشف المحجوب 165)

ابراہیم بن ادھم تقویٰ وپرہیزگاری میں بلند مقام پر فائز تھے، ان سے منقول ہے کہ اپنی روزی کو پاکیزہ بنالو، پھر کوئی مضائقہ نہیں کہ تم رات کو تہجد نہ پڑھو اور دن میں نفلی روزہ نہ رکھو، آپ عام طور پر یہ دعا کرتے تھے اے اللہ! مجھے اپنی معصیت کی ذلت سے اپنی طاعت کی عزت کی طرف پہنچادے۔ ابراہیم بن ادھم سے کہا گیا کہ گوشت مہنگا ہوگیا ہے تو آپ نے فرمایا: اسے سستا کردو یعنی اسے مت خریدو اور یہ شعر پڑھا: وإذا غلا شئ عليّ ترکتہ فیکون ارخص ما یکون إذا غلا اور جب کوئی چیز مہنگی ہوتی ہے تو میں اس کو ترک کردیتا ہوں اور اس طرح وہ باوجود مہنگی ہونے کے سب سے سستی ہوجاتی ہے۔

ایک مرتبہ طواف کے دوران انہوں نے ایک شخص سے فرمایا خوب سمجھ لو تمہیں صالحین کا درجہ نصیب نہیں ہوسکتا جب تک تم چھ گھاٹیاں طے نہ کرلو، اول یہ کہ اپنے اوپر عیش وعشرت کا دروازہ بند کرلو اور مشقت کا دروازہ کھول لو، دوسری یہ کہ عزت کا دروازہ بند کرلو اور ذلت کا دروازہ کھول لو، تیسری یہ کہ راحت کا دروازہ بند کرلو اور محنت کا دروازہ کھول لو، چوتھی یہ کہ نیند کا دروازہ بند کرلو اور شب بیداری کا دروازہ کھول لو، پانچویں یہ کہ غناء کا دروازہ بند کرلو اور فقر کا دروازہ کھول لو، چھٹی یہ کہ امیدوں کا دروازہ بند کرلو اور موت کی تیاری کا دروازہ کھول لو۔(روح تصوف ص:28)

داوٴد طائی:کبار مشائخ اور اہل تصوف کے سرداروں میں ان کا شمار ہوتا ہے، امام اعظم کے شاگرد اور ابراہیم بن ادھم اور فضیل بن عیاض کے ہم عصر تھے، شریعت وطریقت کا علم امام صاحب سے حاصل کیا تھا، جملہ علوم وفنون پربڑی دست رس رکھتے تھے، فقہ میں تو فقہاء کے استاذ اور رہنما تھے، گوشہ نشینی اختیار کرلی اور دنیاوی جاہ وحشم سے اعراض کرتے ہوئے طریق زہد وتقویٰ کو اختیار کرلیا تھا، معروف کرخی کہتے ہیں: میں نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو داوٴد طائی کی طرح دنیا کو بالکل بے وقعت اور بے قیمت تصور کرتا ہو، یہاں تک کہ تمام دنیا اور سارے دنیا دار ان کے نزدیک مچھر کے برابر بھی قدروقیمت نہ رکھتے تھے۔(گنج مطلوب173) محارب بن دثار جو مشہور محدث تھے، کہا کرتے تھے اگر داوٴد اگلے زمانہ میں ہوتے تو خدا قرآن مجید میں ان کا قصہ بیان کرتا،160ھ میں ان کا انتقال ہوا۔(رد المحتار1/154 ) 

فضیل بن عیاض:- ان کا شمار طریقت کے مشہور بزرگوں میں ہوتا ہے، سمر قند میں پیدا ہوئے اور مکہ میں 187ھ میں وفات پائی، شریک بن عبد اللہ کا قول ہے ، ہمیشہ ہر قوم کے لیے ان کے زمانہ میں کوئی حجت ہوا کرتا ہے ، فضیل بن عیاض اپنے زمانے والوں کے لیے حجت ہیں۔(تہذیب الکمال 23/208ڈیجیٹل لائبریری) عبد اللہ بن مبارک کا قول ہے کہ حجاز میں فضیل بن عیاض اور ان کے بیٹے علی بن فضیل کے علاوہ کوئی ابدال باقی نہیں رہا۔ (سیراعلام النبلاء، ترجمہ فضیل بن عیاض 7/395) اوائل عمر میں ٹھگ پیشہ تھے اور راہ زنی کیا کرتے تھے، لیکن اس حالت میں بھی طبیعت نیکی وصلاح کی طرف مائل تھی، یہاں تک کہ اگر کسی قافلہ میں کوئی عورت ہوتی تو اس کے قریب تک نہ جاتے اور اگر اس کے پاس سرمایہ قلیل ہوتا تو اس سے بھی ہرگزنہ چھینتے تھے، بلکہ ہر شخص کے پاس کچھ نہ کچھ باقی رہنے دیتے ، ایک مرتبہ ایک سوداگر مرو سے روانہ ہوا تو لوگوں نے اسے کہا کہ حفاظتی دستہ ساتھ لیتے جاوٴ، کیوں کہ راستہ میں فضیل موجود ہے، اس نے کہا میں نے سنا ہے وہ ایک خدا ترس انسان ہے، لہٰذا مجھے اس کا خوف نہیں، اس نے ایک قاری کو ہم راہ کرلیا اور اسے اونٹ پر بٹھادیا، جہاں سے وہ شب وروز قرآن پڑھتا رہتا تھا، حتی کہ قافلہ اس جگہ پہنچ گیا جہاں فضیل گھات میں بیٹھا تھا، عین اس وقت قاری یہ آیت پڑھ رہا تھا ”کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت قریب نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر کے سامنے جھگ جائیں(سورة الحدید16) یہ سنتے ہی ان کے دل پر رقت طاری ہوگئی اور اس کا ر مذموم سے توبہ کرلی اور جن لوگوں کا مال لوٹ رکھا تھا ا نہیں خطوط لکھ لکھ کر مال واپس کردیا، پھر مکہ چلے گئے، کچھ مدت وہاں قیام رہا، بعض اولیاء اللہ سے ملاقات کی ،پھر وہاں سے کوفہ چلے گئے اور امام اعظم ابو حنیفہ سے جاملے اور ایک عرصہ تک ان کی خدمت میں رہ کر علم شریعت وطریقت حاصل کیا۔(گنج مطلوب ص: 156) تصوف کے باب میں ان کے اقوال کو بڑی اہمیت حاصل ہے، ان کا قول ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے کوئی اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ہے اور جو غیر اللہ سے ڈرے کوئی اس کو نفع نہیں پہنچا سکتا ہے۔(سیر اعلام النبلاء ترجمہ فضیل بن عیاض 7/395)

بشرحافی:بشر بن الحارث حافی کا شمار انہی بزرگوں میں ہوتا ہے جو مجاہدات میں نرالی شان کے مالک تھے، فضیل بن عیاض کی صحبت سے مستفیض تھے، تصوف کے متعدد مصنفین نے آپ کو امام صاحب کے تلامذہ میں شمار کیا ہے، آپ کا اصل وطن مروتھا،لیکن بغداد میں سکونت اختیار کی تھی اور وہیں 227ھ میں وفات پائی، آپ کی توبہ اور زہد وتقویٰ کا واقعہ یہ ہوا کہ ایک بار راستے میں آپ کو کاغذ کا ایک پرزہ ملا، جس پر بسم اللہ ا لرحمن الرحیم لکھا ہوا تھا اور وہ پیروں کے نیچے پڑتا تھا، آپ نے اسے ا ٹھالیا اور آپ کے پاس ایک درہم تھا، اس سے عطر خریدا اور اس پرزے کو معطر کرکے ا یک دیوار کے شگاف میں رکھ دیا، اسی رات اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا ،جوا ن سے فرما رہا تھا اے بشر! تو نے مرے نام کو خوش بو دار کیا مجھے اپنے نام کی قسم! میں بھی دنیا اور آخرت میں تیرے نام کو خوش بودار کروں گا، اسی و قت تو بہ کی اور زہد کا راستہ اختیار کیا، ان کے زہدوتقویٰ کے حکایات اور بزرگی کا چرچا لوگوں میں بہت زیادہ تھا، شیخ ابو علی دقاق کا بیان ہے کہ بشرحافی کا کچھ لوگوں کے پاس سے گزر ہوا، آپ کو دیکھ کر وہ کہنے لگے یہ وہ شخص ہے جو ساری رات عبادت کرتا ہے اور تین تین دن پر افطار کرتا ہے۔ یہ سن کر بشر روپڑے، آپ سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا مجھے یاد نہیں ہے کہ میں کبھی بھی پوری رات جاگا ہوں یا کسی دن بھی روزہ رکھا ہواور رات کو افطار نہ کیا ہو، لیکن بندہ جتنا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے لطف وکرم سے اس سے کہیں زیادہ لوگوں کے دل میں ڈال دیتا ہے۔(روح تصوف ترجمہ الرسالة القشیریة ص:38)

یہ حضرت امام ابو حنیفہ کے بعض تلامذہ ہیں، جنہوں نے آپ سے کسب فیض کیا ،آپ کے دامن تربیت میں رہ کر اصلاح ظاہر وباطن میں کمال حاصل کیا، یہ حضرات تصوف کے اساطین شمار کیے جاتے ہیں، ان کی باتوں کو ارباب تصوف کے یہاں کافی استناد حاصل ہے، ان کی زندگی نے نہ جانے کتنے لوگوں کی زندگیوں کے دھارے کو اعمال واخلاق کی طرف موڑ دیا، مشہور ہے کہ پھل کو درخت سے اور خوش بو کو پھول سے پہچانا جاتا ہے، ان حضرات کی زندگی اور تصوف کے مقام بلند کو دیکھ کر امام صاحب کے مقام ومرتبہ اور تصوف میں ان کی امامت کا کھلے دل سے اعتراف کیا جاسکتا ہے۔

مفتی امانت علی قاسمی

No comments:

Post a Comment