Monday 25 January 2016

ارتداد سے بچنے کی فکر

ایس اے ساگر
مقالات شبلی، جلد ہشتم میں علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ نو مسلموں کو دوبارہ ہندو ہوجانے سے بچانے کیلئے تمام برادران اسلام کی خدمت میں فریاد کی ہے. جس ایک ایک لفظ بغور پڑھنے کی ضرورت ہے :
اے برادران اسلام! کبھی کبھی آپ کے کانوں میں بھنک پڑتی ہےکہ فلاں گاؤں میں مخالفوں نے نومسلموں کو آریہ بنالیا،آپ اس کو اتفاقی اور شاز واقعہ سمجھتے ہیں،لیکن واقعی حالت یہ ہے کہ خاموشی کے ساتھ اس قسم کی کوشش کاایک مسلسل باضابطہ اور عالم گیر سلسلہ جاری ہے،جس کے نتائج اسلام کے حق میں نہایت خطرناک نظرآتے ہیں،اس کوشش کی کامیابی اس وجہ سے زیادہ آسان معلوم ہوتی ہے کہ ہزاروں دیہات اور مواضع اس قسم کے ہیں،جہاں کے نو مسلم اسلام سے اس قدر بےخبر ہیں ان کے نام لچھن سنگھ اور دیال سنگھ ہوتے ہیں. انہوں نے عمر بھر کبھی کلمے کا لفظ نہیں سنا، ان کے گاؤں میں اگر کوئی مسجد ہے تو اس میں کبھی نماز نہیں ہوتی البتہ گوبرسے اس کی لپائی کردی جاتی ہے.اس قسم کے دیہات راجپوتانہ، بیکانیر، الور، بھرت پور، حصاراور سلطان پور وغیرہ میں کثرت سے پائےجاتے ہیں..
میں نےاس امر کی تحقیق کیلئے اخباروں میں اشتہاردیا، تو نہایت کثرت سے ان مقامات کے رہنے والوں کے کثرت سے خطوط آئے اور انہوں نے تفصیل سے واقعات لکھے..
یہ نومسلم اکثر راجپوت ہیں، وہ مسلمانوں کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھاتے، ان کے تمام رسمیں طور اور طریقے ہندوؤں کے ہیں، وہ صرف اس علامت سے مسلمان خیال کئے جاتے ہیں کہ مردوں کو دفن کرتے ہیں، آگ میں نہیں جلاتے، جب ان سے پوچھاجاتاہےتو اپنے آپ کو مسلمان کہتےہیں، اور ان سے کہتے ہیں کہ تمھارے باب دادا کو مسلمان بادشاہوں نے جبرا مسلمان بنالیاتھا، اب تم یہ ننگ کیوں گوارا کرتے ہو،
"یہ جادو ان پر آسانی سے چل جاتا ہے اور وہ ہندو ہوجاتےہیں."
اس حالت کا قوم کو احساس ہوا، اور جابجاانجمنیں قائم ہوئیں، لیکن انھوں نےجووعظ مقررکئے وہ صرف شہروں میں دورہ کرتےہیں، وعظ کہتےہیں، آریوں سے مناظرہ کااعلان دیتےہیں، دیہات میں وہ اس لئے نہیں جاسکتےکہ دیہات میں جانے اور رہنےکی سختیاں وہ برداشت کرنےکی عادی نہیں، اگر چہ مناظرہ بھی خالی ازفائدہ نہیں، یہ کام اس قدر دقت طلب ہے کہ ایک یا دو شخص کی رائےاس عقدہ کے حل کرنے کیلئےکافی نہیں، اس لئے ضروری ہےکہ اکثرمقامات صاحب تجربہ اور اہل الرائے اور واقف کارحضرات ایک مقام پرجمع ہوں اور آپس میں مشورہ اور غورو مبادلہ خیالات کے بعد ایک مفصل خاکہ تیارکریں، جس کے موافق باقعدہ اور وسیع کاروائی شروع کی جائے...
جو تدبیریں اس وقت خیال میں آئی ہیں،وہ اس غرض سے پیش کی جاتی ہے کہ تمام حضرات کو ان پر غوراورفکرکاموقع ملے.وہ تدبیریں حسب ذیل ہیں..
(1) اس قسم کے واعظ مقررکئے جائیں جو دو دو، چارچارمہینے ایک گاؤں میں رہ کرلوگوں کواسلام کے احکام سکھائیں،اس قسم کے واعظوں کے تیار کرنے کا خاص انتظام ہونا چاہئے..
(2) دو دو،چارچارگاؤں کے بیچ میں ابتدائی مدرسے قائم کئے جائیں،جن میں قرآن شریف اور اردو کی تعلیم دی جائے..
(3) صوفی وضع لوگ بھیجے جائیں،جن کااثرعوام پر خودبخودپڑتاہے.
(4) مسلمانوں کے دیہات میں جو سرکاری ابتدائی مدرسے ہیں کوشش کی جائے کہ ان کے مدرسین مسلمان مقرر ہوں،اب تک اکثرہندومدرس مقرر ہوتےہیں اور اس لئےبچوں کو اسلام کی طرف رغبت نہیں ہوسکتی،غرض یہ ایک نہایت اہم مذہبی اور قومی مسئلہ ہے،اس کو نہایت غور،فکر اور جدوجہد سے حل کرنا چاہئے،اگر مسلمان ایسے خطرہ کی پرواہ نہیں کرتےتو ان کو اسلام کا نام نہیں لینا چاہئے...
مسلم گزٹ، مارچ 1912
حالانکہ یہ مضمون علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے ایک صدی قبل تحریر کیا تھا ، واقعہ یہ ہے کہ آج بھی اسی طرح کی صورتحال ہے بلکہ اس سے بھی ابتر...
دشمن عناصر جس سرعت سے مسلمانوں کے خلاف زہرافشانی کررہے ہیں اور آئے دن تبدیلی مذہب اور گھر واپسی کے واقعات رونما ہورہے ہیں، اس سے انتہائی تشویشناک صورتحال کی جھلک نظر آتی ہے..اگر آج بھی شبلی رحمہ اللہ  کی ان باتوں پر غور کیا جائے اورہم سب اس پر عمل کرنے کا ارادہ کریں، تو دشمنوں کی دال کبھی نہیں گل سکتی اور وہ ذلیل و خوار ہوکر رہیں گے. اللہ جل شانہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو اپنے دین کی محنت کیلئے قبول اور ہمیں امت کا درد و غم عطا فرمائے.

No comments:

Post a Comment