Sunday 3 January 2016

ترقی کا دھوکہ

ایس اے ساگر

اپنے پاکستانی ہم منصب نواز شریف کو پگڑی پہنا کے ابھی ہفتہ بھر بھی نہیں گذرا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی کو اپنے طوفانی دورہ پر خجالت کا سامنا ہے. شاید اسی کو دور کرنے کیلئے انھوں نے  پٹھان کوٹ میں حملہ کے پس پشت ان 'طاقتوں' پر ٹھیکرا پھوڑا ہے جنھیں ہندوستان کی 'ترقی' سے 'پریشانی' ہورہی ہے.

ناکامی چھپانے کی کوشش ؟

مودی نے وزیرِ اعظم بننے کے بعد محض ڈیڑھ برس کی مدت میں جتنے ممالک کے دورے کئے ہیں، شاید ہی ملک کے کسی اور وزیر اعظم نے کبھی کئے ہوں ۔ مبصرین کے نذدیک جتنے کم وقفے میں وہ غیر ممالک کے دورے کرتے ہیں اس سے ان کی توانائی اور ذہنی چستی کا بھی پتہ جلتا ہے۔ گذشتہ برس میں موصوف نے بیرونی ممالک سے تعلقات میں یقیناً بڑی پیش رفت کی ہے لیکن اس کا کیا کیجئے کہ ملک کے اندر مودی کی مجموعی کارکردگی ان کے مخالفین کیلئے ہی نہیں ان کے حامیوں کیلئے بھی مایوس کن رہی ہے۔ مودی نے بڑے بڑے وعدوں کیساتھ عوام کی پہلے سے ہی بے چین تمناؤں کو آسمان پر پہنچا دیا تھا۔

مایوس کن کارکردگی :

گزرے ہوئے ایک برس میں مودی حکومت کسی بھی محاذ پر ایک بھی ایسا کام نہیں کر سکی جسے وہ عام آدمی کے سامنے اپنی کارکردگی کےطور پر پیش کر سکے۔ معیشت سست روی کا شکار ہے۔ حکومت اور نجی کمپنیاں ملازمتوں کے مواقع فراہم میں ناکام رہی ہیں۔ کھانے پینے اور ضروی اشیا کی قیمتوں میں اچھا خاصا اضافہ ہوا ہے۔ ملک کے بیشتر شعبے کساد بازاری اور مایوسی کا شکار ہیں۔ صنعت کاروں اور بڑی بڑی کمپنیوں کو مودی حکومت کے آنے سے جو بڑی امیدیں بندھی تھیں وہ اب ٹوٹنے لگی ہیں۔

دلی کے بعد بہار میں فضیحت :

سیاسی سطح پر مودی کو دلی کے بعد بہار میں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ مودی کی ذاتی شکست تھی .دنیا جانتی ہے کہ انھوں نے نتیش کمار کو وقار کا مسئلہ بنا لیا تھا۔ رواں برس کئی ریاستوں میں انتخابات ہونےوالےہیں ۔ بی جے پی بہار کے انتخابات سے قبل جتنے خم ٹھونکے گئے ،پر اعتمادی اور جوش کا مظاہرہ کیا گیا، وہ تیور اب کہیں نظر نہیں آتے۔ گزرا ہوا برس ملک میں ہر طرح کی عدم رواداری کیلئے بھی یاد کیا جائے گا۔ 2015 اس لئے بھی یاد کیا جائے گا کہ مودی حکومت، اس کے حامیوں اور میڈیا کی تمام کوششوں کے باوجود ملک کے اعتدال پسندوں نے عدم رواداری کی طاقتوں کو جھکنے کیلئے مجبور کیا۔

نفرت کی سیاست :

منافرت اور عدم رواداری کی طاقتیں بری طرح پسپا ہوئی ہیں لیکن وہ وقتاً فوقتاً اپنا سر اٹھاتی رہتی ہیں۔ نیا برس مودی حکومت کی امبیج کو بہتر کرنے کیلئے آخری موقع ہو گا۔ ڈیڑھ برس میں مودی نے صرف کچھ نعرے جاری  کئے ہیں اور تقاریر کا انبار ، لیکن اس کا کیا کیجئے کہ زمین پر کچھ بدلتا ہوا محسوس نہیں ہوا۔ کئی معنوں میں حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوئے ہیں۔لوگ اب نعروں اور تقاریر سے بیزار ہونے لگے ہیں۔

بے نقاب ہوئی بدعنوانی :

فروری میں ملک کا نیا بجٹ پیش ہونے والا ہے۔ اس بجٹ سے یہ اندازہ ہو سکے گا کہ حکومت کس طرف جا رہی ہے ؟ مودی کے مستقبل کی سیاست کیلئے یہ بجٹ انتہائی اہم ہے۔ مشکل یہ ہے کہ وزیرِ خزانہ ارون جیٹلی جو اس وقت اپنا بیشتر وقت بجٹ کی تیاریوں پر صرف کرتے ہیں، وہ دلی کے وزیرِ اعلی کیجریوال کی جانب سے عائد کردہ بد عنوانی کے الزامات کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں۔ دلی کے متمول طبقے کی سیاست کرنے والے جیٹلی کی شبیہ بد عنوانی کے الزامات سے بری طرح مجروح ہوئی ہے۔

نکل گئی ہوا!

گزرا ہوا برس مودی کیلئے کافی پریشان اور مایوس کن رہا ہے۔ وزیر اعظم مودی کا وہ تیکھا تیور بھی کمزور پڑ چکا ہے جو ان کےلب و لہجے کا خاصا ہوا کرتا تھا۔ حکومت کے بعض حالیہ اقدامات سے پتہ چلتا ہےکہ وزیر اعظم خود بھی اپنی حکومت کی کارکردگی سےمطمئن نہیں ہیں۔ اگر وہ نئے برس میں بھی خود کو ایک بہتر حکومت کے طور پر نہ پیش کر سکے تو پارٹی کے اندر ان کے مخالفین اور ہندوتوا کی وہ طاقتیں غالب ہونا شروع کردیں گی جو ابھی تک مودی کے ترقی کے ایجنڈے کے نیچے خاموش بھیٹھی ہوئی ہیں۔ رواں سال مودی کیلئے بہت چیلنجز بھرا ہوا سال ہو گا۔

No comments:

Post a Comment