Saturday, 9 May 2020

لاک ڈاؤن میں سونے چاندی کی کونسی قیمت سے زکوٰۃ ادا کی جائے؟

ایک ضروری وضاحت:
لاک ڈاؤن میں سونے چاندی کی کونسی قیمت سے زکوٰۃ ادا کی جائے؟

سونے چاندی کی زکوٰۃ نکالتے وقت کونسی قیمت کا اعتبار کریں خصوصا لاک ڈاؤن کے زمانے میں جب کہ مارکیٹ بند ہے اور انٹرنیٹ پر جو قیمت دی جارہی ہے وہ عام قیمت سے کافی زیادہ معلوم ہوتی ہے تو اس صورت کس قیمت کا اعتبار کریں؟ واٹس پر حضرت مفتی عزیز الرحمن فتحپوری صاحب کے نام کے ساتھ ایک آڈیو چل رہی ہے جس میں یہ بتایا جارہا ہے کہ لاک ڈاؤن سے پہلے کی قیمت کا اعتبار کرکے زکوٰۃ نکالی جائے کیا یہ صحیح ہے؟
حافظ اقبال چوناوالا
بسم الله الرحمن الرحیم
 الجواب وباللہ التوفیق:
سونے چاندی کی قیمت میں بازار کی اس قیمت کا اعتبار ہوتا ہے جو زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت ہوتی ہے۔ 
"لأن الواجب الأصلي عندهما هو ربع عشر العين، وإنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء؛ فيعتبر قيمتها يوم الأداء، والصحيح أن هذا مذهب جميع أصحابنا". (بدائع الصنائع: ۲/ ۲۲)
لاک ڈاؤن کی وجہ سے سونے چاندی کی دکانیں بند ضرور ہیں لیکن سونے چاندی کی قیمت معلوم کرنے کے جو ذرائع ہیں اس پر اعتماد کرکے ہمیں زکوٰۃ ادا کرنا ہوگا، مثلا اخبارات شائع ہورہے ہیں اور ان میں سونے چاندی کی موجودہ قیمت بھی آرہی ہے۔ انٹر نیٹ پہ انٹرنیشنل مارکیٹ کے اعتبار سے قیمت لکھی ہوتی ہے جبکہ مارکیٹ ویلو اس سے کچھ الگ ہوتی ہے، مثلا آج کل اخبارات میں 22 کیریٹ سونے کی قیمت تقریباً 40600 روپے دی جارہی ہے جبکہ انٹرنیٹ پر 47000 روپے قیمت لکھی ہوئی ہے، اس لئے اخبارات میں جو صرافہ بازار کے حساب سے سونے چاندی کی قیمت لکھی جارہی ہے اسی اعتبار سے زکوٰۃ کی ادائیگی کی جائے گی۔
حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب کے حوالے سے جو اڈیو کسی جیولرس نے چلا رکھا ہے   اس کی حیثیت فتوے کی نہیں ہے بلکہ سونے چاندی کی قیمت کے تعلق سے ایک ادھوری گفتگو ہوئی تھی وہ کوئی حتمی بات نہیں تھی لاک ڈاؤن کے مسائل میں حضرت مفتی صاحب کا معمول دیگر مفتیان سے مشورے کے بعد حتمی فیصلے کا ہے  نیز اڈیو کے متعلق نہ حضرت مفتی صاحب کو بتایا گیا نہ ان سے اجازت لی گئی لہذا اسے مفتی صاحب کی طرف سے نہ سمجھاجائے بلکہ  اِس فتویٰ کے مطابق عمل کا جائے ۔ نیز کسی نے لاک ڈاؤن کے دن کی قیمت کا حساب کرکے زکوٰۃ اداکی ہو تو اس میں اور اخباری قیمت میں جو فرق ہے اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے مزید جو حساب بنے اسکی ادائیگی بھی لازم ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
جسیم الدین قاسمی 
مفتی، مرکز المعارف، ممبئی 
بحکم مفتی عزیز الرحمن فتحپوری
(مفتی اعظم مہاراشٹر)
http://saagartimes.blogspot.com/2020/05/blog-post_91.html?m=1

لاک ڈاؤن کے دوران اعتکاف، شب قدر اور عید کے مسائل

لاک ڈاؤن کے دوران اعتکاف، شب قدر اور عید کے مسائل

السلام علیکم و رحمۃ اللہ 
اس سال رمضان جیسے مقدس مہینے میں ہماری مساجد بند ہیں، عام لوگوں کو اجازت نہیں ہے کہ مساجد میں جاکر عبادت کرسکیں تو ایسی صورت میں رمضان المبارک کے اخیر عشرے کے تعلق سے چند سوالات ہیں:
1. بہت سے لوگ ہر سال اعتکاف میں بیٹھا کرتے تھے لیکن اس سال مسجدیں بند ہیں تو جو لوگ اخیر عشرہ میں اعتکاف کی سنت ادا کرناچاہیں تو ان کے لئے کیا راستہ ہے کیا وہ اپنے گھروں میں اعتکاف کرسکتےہیں؟
2.  نیز شب قدر میں بھی لوگ عموما مساجد میں آکر عبادات کیا کرتے تھے اب اس سال اس کی کیا شکل ہوگی؟ 
3. اسی کے ساتھ ساتھ جو بہت ہی اہم مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ اگر لاک ڈاؤن کے چوتھے فیز کا اعلان ہوجاتا ہے جس کا قوی امکان بھی ہے خصوصا ممبئی میں تو پھر عید کی نماز کے تعلق سے شریعت کا کیا حکم ہوگا؟ عید کی نماز کا مختصر طریقہ بھی بتا دیں، براہ مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی ان سوالات کا جواب عنایت فرماکر ممنون ہوں۔
والسلام 
مولانا محمود دریابادی
حافظ اقبال چوناوالا 

بسم اللہ الرحمن الرحیم
 الجواب وباللہ التوفیق 
1. رمضان کے اخیر عشرے کا اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے یعنی محلے کا کوئی ایک شخص بھی اگر اعتکاف میں بیٹھ گیا تو سنت ادا ہوجائے گی اور اگر کسی ایک  نے بھی اعتکاف نہیں کیا تو سارے محلے والے سنت موکدہ کو ترک کرنےکے مرتکب قرار پائیں گے۔ اس لئے موجودہ حالت میں مساجد میں چونکہ محض چار  پانچ لوگوں کو نماز پڑھنے کی اجازت ہے اس لئے انہیں چار پانچ لوگوں میں سے جو صحت مند ہو وہ اعتکاف میں بیٹھ جائے یا محلے کا کوئی دوسرا دیندار صحت مند شخص عشرہ اخیرہ کا اعتکاف کرلے تاکہ اعتکاف کی سنت ادا ہوجائے اور اہل محلہ ترک سنت کے وبال سے بچ جائیں مردوں کا اعتکاف مسجد ہی میں مشروع ہے اس لئے گھروں میں اعتکاف کرنا سنت نہیں ہے۔ جو لوگ ہمیشہ رمضان کے اخیر عشرے میں اعتکاف میں بیٹھا کرتے تھے یا جن لوگوں نے اس سال اعتکاف میں بیٹھنے کی نیت کی تھی لیکن حالات کی وجہ سے وہ اعتکاف نہیں کر پارہے ہیں وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، گھر پر ہی رہ کر زیادہ سے زیادہ عبادت کریں، انہیں ان کی نیتوں کی وجہ سے اللہ تعالی اعتکاف کے اجر سے بھی نواز دینگے، انشآءاللہ۔
البتہ عورتیں گھر میں اعتکاف کریں گی، گھر کی وہ جگہ جس کو نماز کے لئے خاص کر رکھا ہے یا گھر کے کسی کونے میں اعتکاف کرسکتی ہیں۔
ثم الاعتكاف لا يصح إلا في مسجد الجماعة لقول حذيفة رضي الله عنه "لا اعتكاف إلا في مسجد جماعة" وعن أبي حنيفة رحمه الله: أنه لا يصح إلا في مسجد يصلى فيه الصلوات الخمس. (فتح القدير)
 2. جہاں تک شب قدر کی عبادت کا تعلق ہے تو شبِ قدر کے 27 رمضان کی شب کو ہونے کا زیادہ امکان ضرور ہے لیکن وہ رات شبِ قدر کے لئے متعین نہیں ہے نیز شب قدر میں نہ تو  کوئی خاص اجتماعی عمل مشروع ہے اور نہ ہی شب قدر میں عبادت کے لئے مسجد شرط ہے بلکہ انفرادی عبادات کے لئے تو گھر ہی بہتر جگہ ہے اگر خشوع و خضوع حاصل ہوجائے اس لئے ہمیں چاہئے کہ شب قدر کی تلاش میں بشمول ستائیسویں شب، پورے اخیر عشرے کی طاق راتوں میں خصوصا  زیادہ سے زیادہ عبادات گھر پر ہی رہ کر کریں۔
"والأفضل في النفل غير التراويح المنزل، إلا لخوف شغل عنها، والأصح أفضلية ما كان أخشع وأخلص". (ردالمحتار؛  2/22)
3۔ جہاں تک عید کی نماز کا سوال ہے تو عید کی نماز واجب ہے، اس میں چھ زائد تکبیریں واجب ہیں جبکہ خطبہ سنت ہے لیکن اس کا سننا واجب ہے۔ عید کی نماز صحیح ہونے کے لئے امام کے علاوہ کم ازکم تین بالغ مردوں کا ہونا ضروری ہے۔ لہذا اگر عید تک مسجدیں عوام کے لئے نہیں کھلتی ہیں تو عید کی نماز بھی گھر پر ہی ادا کریں، لیکن اگر چار مرد نہ ہوں تو پھر مستحب یہ ہے کہ چاشت کی نماز کی طرح چار رکعت تنہا تنہا پڑھ لے، لیکن یہ عید کی نماز کی قضا نہیں ہے فإن عجز صلى أربعاً كالضحى۔ (ردالمحتار) 
عید کی نماز کا طریقہ یہ ہے کہ امام تکبیر تحریمہ کے بعد ثنا پڑھے، پھر ہاتھ اُٹھاکر تین تکبیریں کہے اور ہاتھ چھوڑ دے، تیسری تکبیر کے بعد ناف کے نیچے ہاتھ باندھ لے، مقتدی بھی ایسا ہی کریں۔ پھر امام اعوذباللہ و بسم اللہ کے بعد بلندآواز سے قرات کرے۔ قرات کے بعد حسبِ معمول رکوع و سجود کیے جائیں۔ دوسری رکعت میں پہلے امام قرأت کرے، قرات کے بعد تین مرتبہ ہاتھ اُٹھاکر تکبیریں کہے اور ہاتھ چھوڑ دے، مقتدی بھی امام کے ساتھ ایسا ہی کریں اور چوتھی مرتبہ امام ہاتھ اُٹھائے بغیر تکبیر کہتے ہوئے رکوع کرے، مقتدی بھی ایسا ہی کریں، اس طرح دو رکعت نماز مکمل کی جائے گی۔
 نماز عیدین کا وقت آفتاب کے بلند ہوجانے کے بعد زوال سے پہلے تک ہے۔ اس کے بعد امام خطبہ دے۔
خطبہ زبانی یاد نہ ہو تو دیکھ کر پڑھ لے اور اگر خطبہ لکھا ہوا موجود نہ ہوتو پہلے خطبے میں سورہ فاتحہ جبکہ دوسرے خطبے میں درود شریف پڑھ لے۔
 (تجب صلاتهما) في الأصح (على من تجب عليه الجمعة بشرائطها) المتقدمة (سوى الخطبة) فإنها سنة بعدها". (رد المحتار: 2 / 166)
واللہ اعلم بالصواب 
 جسیم الدین قاسمی
مفتی مرکزالمعارف، ممبئی
15/ رمضان المبارک 1441ھ
بحکم حضرت 
مفتی عزیز الرحمن صاحب  فتحپوری
(مفتی اعظم مہاراشٹر) 
تائیدکنندگان: 
مفتی سعیدالرحمن فاروقی صدر مفتی دارالعلوم امدادیہ، مفتی سید حذیفہ قاسمی بھیونڈی، مفتی محمد آزاد بیگ صدر مفتی معراج العلوم چیتا کیمپ، مفتی محمد اشفاق دارالعلوم امدادیہ، مفتی جنید پالنپوری مسجد نور قلابہ، مفتی حارث پالنپوری، جوگیشوری، مفتی حسیب الرحمٰن فتح پوری، مفتی محمد انصار قاسمی دارالعلوم منہاج السنہ مالونی، مفتی افضل قاسمی
http://saagartimes.blogspot.com/2020/05/blog-post_9.html?m=1

Friday, 8 May 2020

کیا کورونا کے باعث رمضان کا اعتکاف مسنون گھروں میں کرنا جائز ہے؟


کیا کورونا کے باعث رمضان کا اعتکاف مسنون گھروں میں کرنا جائز ہے؟ 
 از: شکیل منصور القاسمی
————————

سوال 
کیا کورونا کے زمانے میں سماجی فاصلہ گیری کے پیش نظر مسجدوں کی بجائے گھروں رمضان کا اعتکاف مسنون کرنے کی گنجائش ہے کہ نہیں؟
جمعہ کے لئے بھی تو اذن عام شرط ہے؛ پر موجودہ حالات میں گھروں میں درست کہا گیا؟
تو اسی طرح اعتکاف کو گھروں میں نا درست کہنا کہاں تک صحیح ہے؟ 
الجواب وبا اللہ التوفیق: 
اعتکاف کی شرعی تعریف ہی میں مسجدیت کی قید مشروط رکھی گئی ہے 
ائمہ اربعہ کا اجماعی مسئلہ ہے کہ مرد کا اعتکاف مسجد کے علاوہ دوسری جگہوں پہ جائز نہیں ہے 
نفلی اعتکاف میں علامہ ابن حجر کی نقل کے بموجب مالکیہ کے یہاں تھوڑا توسع ملتا ہے؛ لیکن رمضان کے اعتکاف مسنون کے لئے مسجدیت کی شرط کو وہ بھی ضروری سمجھتے ہیں 
 چودہ سو سالوں سے اس اعتکاف کے لئے مسجد کو لازم گردان کر اس پہ عمل کیا گیا ہے، صاحب مذہب امام ابوحنیفہ (نہ کہ صاحبین) رحمہ اللہ کے یہاں تو ایک لمحہ کے لئے بھی بلا ضرورت مسجد سے خروج اعتکاف کو باطل کردیتا ہے، اعتکاف کا رکن رکین ہی حنفیہ کے یہاں 'اللبث في المسجد' ہے 
دیگر ائمہ تو عورتوں کے اعتکاف کے لئے بھی مسجدیت کو لازم قرار دیتے ہیں 
کورونا کے باعث مسجدوں میں جمعہ و جماعات کے حوالے سے رفع حرج کے مقصد سے بعض رخصت ضرور ملی ہے 
لیکن اس رخصت کا تعدیہ سنت کفائی اعتکاف مسنون تک کرنا درست نہیں ہے 
اس لئے کہ یہ کفائی عمل ہے 
اس کی تعریف ہی میں بنص قرآنی [وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ)، وقوله تعالى (وَعَهِدْنَا إلَى إبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِي   لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ] مسجدیت کی قید شامل ہے، جبکہ جمعہ فرض عین ہیں، وہاں اور پنج وقتہ جماعت میں مسجدیت کی شرط ملحوظ نہیں ہے 
بوجہ افتراق علت ایک کو دوسرے پہ قیاس کرنا درست نہیں ہوگا، اگر اعتکاف کے معاملے میں مسجدیت کی شرط کوئی خفیف ومعمولی نوعیت کی ہوتی تو چودہ سو سالوں میں اسلاف کرام کی جانب سے اس بابت اتنا اہتمام نہ ملتا، لیکن کہیں سے بھی ثابت نہیں ہے کہ مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ کبھی بھی اعتکاف مسنون کیا گیا ہو، کورونا وائرس کی وجہ سے مسجدوں میں محدود تعداد میں جماعت کرنے کی اجازت ہے 
تو اعتکاف کے لئے تو ایک آدمی ہی کی ضروت پڑتی ہے 
حلقہ مسجد میں رہائش پذیر امام یا خدام مسجد میں سے کوئی ایک مسجد میں بہ نیت اعتکاف بیٹھ جائے تو انتظامی طور پر بھی شاید اس کی ممانعت نہیں ہوگی 
ایک اجماعی و متفقہ مسئلے کو لغو کرکے بلاوجہ رخصت ڈھونڈنے کا جواز اس عاجز کی نظر میں درست نہیں ہے 
لہذا مرد کے لئے مسجد کے علاوہ گھروں میں اعتکاف مسنون کی گنجائش نہیں ہے 
واللہ اعلم 

Thursday, 7 May 2020

غلاف کعبہ کی تاریخ

غلاف کعبہ کی تاریخ 
کعبہ پر غلاف چڑھانے کی ابتدا کب ہوئی اور آج تک اس کی تاریخ کیا ہے ۔ اس بارے میں تاریخ کا کوئی مؤرخ اس کا قدیم ریکارڈ پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ لیکن جو روایات علماءاسلام تک پہنچی ہیں ان کے مطابق کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے کعبۃ اللہ پر غلاف حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے چڑھایا تھا ۔
اس کے بعد صدیوں تک تاریخ خاموش ہے پھر یہ ذکر ملتا ہے کہ عدنان نے کعبہ پر غلاف چڑھایا اس کے بعد پھر عرصہ بعید تک تاریخ خاموش ہے ۔ پھر یمن کا بادشاہ اسد جو زمانہ نبوت سے دو سو 200برس قبل گزرا ہے اس کے متعلق ذکر ملتا ہے کہ اس نے سرخ رنگ کا دھاری دار یمنی کپڑا ”الوسائل“ کا مکمل غلاف چڑھایا ۔ قریش کے انتظام سنبھالنے سے غلاف کعبہ کی مکمل تاریخ ملحق ہے اس قبیلہ کی روایات زمانہ اسلام تک محفوظ ہیں۔
بنی مخزوم کے ایک سردار بنو ربیعہ نے قریش سے یہ بات طے کی کہ ایک سال بنی مخزوم اور ایک سال قریش غلاف چڑھائیں گے ۔ اس کے علاوہ زمانہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ عرب کے مختلف قبیلے اور ان کے سردار جب بھی زیارت کے لئے آتے تو اپنے ساتھ قسم قسم کے پردے لاتے۔ جتنے لٹکائے جاسکتے وہ لٹکا دئیے جاتے باقی کعبۃ اللہ کے خزانے میں جمع کردئیے جاتے ۔ جب کوئی پردہ بوسیدہ ہوجاتا تو اس کی جگہ دوسرا پردہ لٹکا دیا جاتا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کا ایک واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دادی نے اپنے ایک صاحبزادے کے گم ہونے پر نذر مانی کہ اگر مل جائے تو کعبہ پر ریشمی غلاف چڑھائیں گی ۔ جب وہ مل گئے تو انہوں نے نذر پوری کرتے ہوئے سفید رنگ کا ریشمی غلاف چڑھایا ۔
زمانہ نبوت سے قبل کی قریش کی تعمیر جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بنفسِ نفیس شریک تھے ۔ تعمیر مکمل ہونے کے بعد اہل مکہ نے بڑے اہتمام کے ساتھ کعبہ پر غلاف چڑھایا ۔
فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا:
یہ وہ دن ہے کہ اللہ تعالیٰ کعبہ کی عظمت قائم فرمائے گا اور اب ہم اس پر غلاف چڑھائیں گے ۔ اس زمانے کا ایک یہ واقعہ بھی ملتا ہے کہ ایک عورت کعبہ میں خوشبو کی دھونی دے رہی تھی کہ ایک چنگاری اڑ کر ان غلافوں پر گری اور زمانہ جاہلیت کے تمام غلاف جل گئے ۔ تو مسلمانوں نے کعبۃ اللہ پر غلاف چڑھایا یہ دورِ اسلام کا پہلا غلاف ہے ۔ (فتح الباری بروایت سعید بن مسیب رحمہ اللہ)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے اپنے زمانہ میں کعبہ پر یمنی کپڑے کا دھاری دار غلاف چڑھایا۔ جب مصر فتح ہو گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے اپنے دور خلافت میں اعلیٰ مصری کپڑے (قباطی) کا غلاف بنوا کر چڑھایا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں غلاف کعبہ کے بارے میں روایت خاموش ہے ۔ زمانہ قدیم میں یہ دستور تھا کہ جب حجاج کرام دس محرم تک اپنے اپنے علاقوں کو واپس چلے جاتے تو تب کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا ۔
اسی طریقے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاءکے زمانے میں عمل ہوتا رہا ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں دس محرم کے علاوہ ایک اور غلاف عیدالفطر کے دن بھی چڑھایا پھر اسی طرح یزید اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے اپنے دور میں یہ عمل کیا ۔ خلیفہ عبدالملک بن مروان کے عہد میں یہی مستقل طریقہ بن گیا ۔ جو آج تک جاری ہے ۔
زمانہ جاہلیت میں مختلف لوگ اپنی اپنی طرف سے یہ عمل کرتے تھے لیکن اسلامی دور میں غلاف چڑھانا حکومت کی ذمہ داری قرار پایا ۔
مسند عبدالرزاق کی روایت کے مطابق ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا، کیا ہم کعبہ پر غلاف چڑھائیں؟ انہوں نے فرمایا کہ: اب تمہاری طرف سے اس خدمت کو حکمرانوں نے سنبھال لیا ہے ۔ ایک اور روایت میں ہے: کسوۃ البیت علی الامراء
”بیت اللہ کا غلاف حکمرانوں کے ذمے ہے۔“
عباسی خلافت کے زوال تک غلاف کی تیاری مرکزی حکومت کے زیراہتمام ہوتی تھی ۔ جب مرکزی حکومت کا خاتمہ ہو گیا تو مختلف علاقوں کے حکمران اپنی اپنی طرف سے غلاف بنوا کر بھیجتے رہے اور بسا اوقات ایک وقت میں کئی کئی غلاف چڑھائے جاتے۔
اس سلسلہ میں ایک مرتبہ 466 ھ میں ہندوستان سے غلاف بنواکر بھیجا گیا مصر کے فرماں روا الملک الصالح اسمٰعیل بن ناصر نے 750ھ میں غلاف کعبہ تیار کرانا اپنے ذمے لے لیا ۔ اور اس غرض سے تین گاؤں وقف کردئیے۔ مصر پر ترکوں کے قبضے کے بعد سلطان سلیمان اعظم نے ملک الصالح کے وقف میں سات گاؤں کا اور اضافہ کر دیا ۔ اس عظیم وقف کی آمدنی سے ہر سال کعبہ کا غلاف مصر سے بن کر آنے لگا ۔ اس کے علاوہ خانہ کعبہ کے اندر کے پردے بھی وقتاً فوقتاً اسی وقف سے بنا کر بھیجے جاتے رہے ۔ اس زمانہ میں اس وقف شدہ زمین کی کل آمدنی جو موجودہ زمانہ میں ایک لاکھ پچاس ہزار درہم مصری پونڈ تھے۔
جب مصر کے وائسرائے محمد علی پاشا نے ترکی سلطنت سے بغاوت کر کے خودمختاری حاصل کر لی تو اس نے یہ وقف منسوخ کر دیا اور غلاف کعبہ صرف حکومت مصر کے خرچ پر بنوا کر بھیجنا شروع کر دیا۔
پہلے غلاف مختلف رنگوں کے ہوتے تھے ۔ خلیفہ مامون الرشید کے دور میں سفید رنگ کا غلاف چڑھایا گیا ۔ سلطان محمود غزنوی نے زرد رنگ کا غلاف چڑھایا ۔
٭ خلیفہ ناصر عباسی نے 575ھ تا 622ھ کی ابتدا میں سبز اور پھر سیاہ ریشم کا غلاف بنوا کر بھیجا ۔ تب سے آج تک سیاہ غلاف ہی چڑھایا جا رہا ہے ۔ غلاف کعبہ کے چاروں طرف زری کے کام کی پٹی بنانے اور اس پر کعبۃ اللہ کے متعلق قرآن مجید کی آیات لکھوانے کا یہ سلسلہ سب سے پہلے 761ھ میں مصر کے سلطان حسن نے شروع کیا اس کے بعد سے آج تک یہ طریقہ جاری ہے ۔
ایک طرف آل عمران 97-96 لکھی جاتی ہے:
.ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبرکا وہدی للعلمین [96] فیہ ایت بینت مقام ابرہیم ومن دخلہ کان امنا وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا ومن کفر فان اللہ غنی عن العلمین : آل عمران :96,97
دوسری طرف المائدہ آیت نمبر97:
(( جعل اللہ الکعبۃ البیت الحرام قیما للناس والشہر الحرام والہدی والقلآئد ذلک لتعلموا ان اللہ یعلم ما فی السموت وما فی الارض وان اللہ بکل شیئ علیم)) (المائدہ : 97)
تیسری طرف سورۃ البقرہ آیت نمبر 127,128 :
((واذ یرفع ابرہم القواعد من البیت واسمعیل ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیمo ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنآ امۃ مسلمۃ لک ص وارنا مناسکنا وتب علینا انک انت التواب الرحیم )) (سورۃ البقرہ : 127, 128)
چوتھی جانب اس فرماں روا کا نام لکھا جاتا ہے جس کی طرف سے غلاف بنا کر بھیجا گیا۔ گزشتہ صدی کے آغاز تک غلاف کعبہ دنیا کے سیاسی حالات سے محفوظ رہا ۔ جنگیں ہوتی رہیں سلطنتوں کے تعلقات بنتے اور بگڑتے رہے ، مگر خانہ کعبہ کے لیے غلاف جہاں سے آیا کرتا تھا وہیں سے آتا رہا ۔ لیکن گزشتہ صدی کے آغاز میں دنیا کے سیاسی حالات اس پر بھی اثر انداز ہوئے ۔ جنگ عظیم اول میں جب ترکی سلطنت جرمنی کے ساتھ شریک جنگ ہوئی تو اسے اندیشہ ہوا کہ مصر سے غلاف کے آنے میں انگریز رکاوٹ بنے گا ۔ ایسے میں ترکی نے ایک شاندار غلاف استنبول سے تیار کرا کے حجاز ریلوے کے ذریعے مدینۃ منورہ بھیج دیا ۔
عین وقت پر مصر سے بھی غلاف پہنچ گیا ۔ تو ترکی سے آیا ہوا غلاف مدینۃ منورہ میں محفوظ کردیا گیا۔
٭ 1923ء میں شریف حسین اور مصر کے حالات آپس میں خراب ہو گئے اور مصری حکومت نے عین حج کے موقع پر جدہ پہنچے ہوئے غلاف کو واپس منگوالیا ۔ خوش قسمتی سے اس وقت جنگ کے زمانہ میں بھیجا ہوا ترکی غلاف کام آ گیا اسے فوری طور پر مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ پہنچایا گیا ۔
٭ 1925ء میں سلطان ابن سعود رحمہ اللہ اور شریف حسین کی لڑائی کے زمانے میں مصر سے پھر غلاف نہ آیا ۔ ابن سعود رحمہ اللہ نے عراق کا بنا ہوا ایک غلاف چڑھا دیا جو شریف حسین نے بنواکر رکھا ہوا تھا ۔
٭ 1927ء میں ٹھیک یکم ذوالحجہ کو حکومت مصر نے غلاف بھیجنے سے پھر انکار کر دیا اور ابن سعود کو فوراً مکہ مکرمہ سے ایک غلاف بنوانا پڑا ۔
٭ 1928ء میں مصر سے غلاف نہ آیا اور امرتسر سے مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ اور مولانا اسمٰعیل غزنوی رحمہ اللہ کے زیراہتمام غلاف بنواکر بھیجا گیا۔
ان تلخ تجربات کی بنا پر مکہ مکرمہ میں ایک دارالکسوۃ قائم کر دیا گیا تا کہ مصر سے آئے دن غلاف نہ آنے کی مصیبت کا مستقل حل کر دیا جائے ۔ اس کارخانے میں مولانا اسمٰعیل غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کی مدد سے ہندوستان کے بہت سے کاریگر فراہم کئے گئے ۔
٭ 1972ءمیں اس کارخانے کو جدید ترین بنانے اور اس کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے ایک جدید کارخانہ کی بنیاد 1392ھ کو خادم الحرمین الشریفین (شاہ فہد رحمہ اللہ) نے رکھی جو اس وقت وزیر داخلہ اور مجلس وزرا کے نائب تھے ۔
٭ 1975ءبمطابق 1395ھ میں اس جدید کارخانے کا افتتاح خادم الحرمین الشریفین جو اس وقت ولی عہد تھے نے اپنے ہاتھ سے کیا ۔ اب یہ کارخانہ بنائی اور رنگائی کے جدید ترین آلات سے مزین ہے ۔ لیکن اس کام کو مشین کی بجائے ہاتھ سے ہی انجام دیا جاتا ہے ۔ اس لیے کہ ہاتھ کی کاریگری انسانی کمال کا فنی ورثہ تصور کیا جاتا ہے ۔
غلاف کی لمبائی 14میٹر اور اس کے اوپر والے ایک تہائی حصہ میں غلاف کو باندھنے والی ڈوری ہوتی ہے جس کی چوڑائی سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ اور اس پر چاندی اور سونے کی پالش شدہ ڈوری سے قرآنی آیات لکھی جاتی ہیں ۔ اس ڈوری کی لمبائی 47 میٹر کے قریب ہوتی ہے جو 16 ٹکڑوں کا مجموعہ ہوتی ہے ۔ ڈوری والے حصے سے تھوڑا نیچے اسلامی آرٹ (خطاطی) میں سورہ الاخلاص اور چھ قرآنی آیات جن کا تذکرہ پہلے کر آئے ہیں لکھی جاتی ہیں ۔
بیچ والے حصہ میں چند آیات درج ہوتی ہیں یہ آیتیں خط ثلث میں لکھی جاتی ہیں جو عربی کا سب سے خوبصورت خط ہے ۔ کعبے کے دروازے کا غلاف جسے برقعہ کہتے ہیں جو عمدہ اور نفیس کالے ریشم سے بنایاجاتا ہے ۔ جبکہ باقی غلاف بھی اسی رنگ کا ہوتا ہے لیکن اس کی عمدہ اور جاذبِ نظر ترتیب و کتابت اس کو دوسرے حصے سے ممتاز بنا دیتی ہے ۔ ان آیات کے نیچے اسی خط اور انداز میں یہ عبارتیں درج ہوتی ہیں کہ یہ غلاف مکہ مکرمہ میں تیار ہوا اور خادم الحرمین الشریفین کی طرف سے اسے خانہ کعبہ کو بطور تحفہ پیش کیا گیا ۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے۔
اس عمدہ اور نفیس غلاف کی تیاری پر ایک کروڑ ستر لاکھ سعودی ریال خرچ آتا ہے۔ آیات و کلمات سے اس طرح مزین غلاف کعبہ سعودی عرب کی ایک یادگار ہے تاریخ میں اس انداز کا غلاف کعبہ کبھی تیار نہیں کیا گیا۔
http://saagartimes.blogspot.com/2020/05/blog-post_7.html?m=1

Wednesday, 6 May 2020

لاک ڈاؤن کی وجہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے عید کی نماز گھر پر پڑھنے کا حکم

لاک ڈاؤن کی وجہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے عید کی نماز گھر پر پڑھنے کا حکم

سوال: کیا عید کی نماز جماعت کے ساتھ  گھر  پر  پڑھ سکتے ہیں جمعہ کی نماز کی طرح،  جیسا کہ جامعہ کہ فتوی میں جمعہ کی نماز گھر میں پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے، اس طرح عید کی نماز بھی پڑھی جاسکتی ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
اللہ تعالیٰ سے خوب تضرع کے ساتھ دعا کرنی چاہئے کہ رمضان المبارک میں ہی یہ حالات بہتر ہوجائیں اور عید کی نماز باجماعت کی اجازت مل جائے، تاہم اگر عید کے موقع پر بھی یہی صورتِ حال رہی یعنی عید  کی نماز  مساجد یا عیدگاہ میں ادا کرنے پر پابندی کی صورت میں لوگوں کو  چاہئے کہ وہ مساجد کے علاوہ جہاں چار یا چار سے زیادہ بالغ مرد جمع ہوسکیں اور ان لوگوں کی طرف سے دوسرے لوگوں کی نماز میں شرکت کی ممانعت نہ ہو، عید کی نماز قائم کرنے کی کوشش کریں۔  شہر، فنائے شہر یا قصبہ میں عید کی نماز میں چوں کہ مسجد کا ہونا شرط نہیں ہے؛ لہٰذا امام کے علاوہ کم از کم تین مرد مقتدی ہوں تو  بھی عید کی نماز صحیح ہوجائے گی؛ چناں چہ عید کی نماز کا وقت (یعنی اشراق کا وقت) داخل ہوجانے کے بعد امام دو رکعت نماز پڑھادے اور خطبہ مسنونہ دے، چاہے گھر میں ہوں یا کسی اور جگہ جمع ہوکر نمازِ عید پڑھ لیں، عربی خطبہ اگر یاد نہ ہو تو  کوئی خطبہ دیکھ کر پڑھے، ورنہ عربی زبان میں حمد و صلاۃ اور قرآنِ پاک کی چند آیات پڑھ کر دونوں خطبے دے دیں۔ (امام کے بیٹھنے کے لئے اگر منبر موجود ہو تو بہتر، ورنہ کرسی پر بیٹھ جائے اور زمین پر کھڑے ہوکر خطبہ دے تو بھی جمعہ کی نماز صحیح ہوجائے گی۔)
اگر شہر یا فنائے شہر یا قصبہ میں چار  بالغ افراد جمع نہ ہوسکیں تو عید کی نماز ادا نہ کریں۔
واضح رہے کہ مذکورہ حکم مجبوری کی حالت کا ہے، ورنہ عید کی نماز میں یہی مطلوب ہے کہ مسلمانوں کا جتنا بڑا اجتماع ہو اور عید گاہ یا جامع مسجد میں عید کی نماز ادا کی جائے اتنا ہی زیادہ بہتر ہے، نیک لوگوں کا جتنا بڑا مجمع ہوگا اتنا ہی دعا کی قبولیت میں مؤثر ہوگا، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ وسلم نے بھی عید کے اجتماع کی اس خصوصیت کی طرف اشارہ فرمایا کہ مسلمانوں کی دعا کا موقع ہوتاہے، نیز عید کی نماز کے اس مجمع پر اللہ تعالیٰ بھی فرشتوں کے سامنے فخر فرماتے ہیں۔ لہٰذا صرف مجبوری کی صورت میں عید کی مختصر جماعتیں قائم کرنے کی اجازت ہوگی، حالات بہتر ہونے کے بعد اس فتوے کی بنیاد پر گھر گھر عید کی نماز قائم کرنا درست نہیں ہوگا۔ 
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 166):
"(تجب صلاتهما) في الأصح (على من تجب عليه الجمعة بشرائطها) المتقدمة (سوى الخطبة) فإنها سنة بعدها". فقط و الله أعلم
فتوی نمبر: 144108201830
دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
----
اس فتوی کوعام کریں ویسے چودہ سالہ اسلامی تاریخ میں عیدکی نماز گھر پرہوئی ہو اس کاثبوت نہیں ملتا، لیکن مجبورا اس سال گھر پر ہی عید کی نماز ادا کرناپڑے گا عید کی نماز عیدگاہ میں اداکرناسنت ہے لیکن عید کی نماز کے لئے عیدگاہ کاہوناشرط نہیں بلکہ گھروں پر عید کی نماز ہوسکتی ہے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام سے اس کاکوئی ثبوت نہیں ہے، اللہ سے دعاکریں وباسے نجات ملے اورعید کی نماز کی اجازت ملے ورنہ پھر مجبورا گھروں پر ہی عید کی نماز ادا کرنا پڑے گی، اور بہت سارے مسلمان بھائی عید کی بھی نماز سے محروم رہیں گے کیونکہ ہر گھر میں عید کی نماز پڑھانے والے موجود نہیں، اللہ رحم کامعاملہ فرمائے ہمارے گناہوں کو معاف کردے، اور اس مہلک وبا سے نجات عطاء فرمائے!
http://saagartimes.blogspot.com/2020/05/blog-post_6.html?m=1



Sunday, 3 May 2020

صدقہ فطر کی حقیقت، فضائل اور احکام ومسائل

صدقہ فطر کی حقیقت، فضائل اور احکام ومسائل 
——————-
عید کے دن رمضان المبارک کے روزوں کے تسلسل کے خاتمے  اور حسب سابق کھانے پینے کے نظام کے آغاز کی وجہ سے واجب ہونے والی زکات و صدقہ کو زکاۃ الفطر“ یا صدقۃ الفطر“ کہا جاتا ہے۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ صدقہ فطر فِطرۃ “ یعنی فطرت وخِلقتِ انسانی سے ماخوذ ہے، جو نفس انسانی کو پاک بنانے اور نفس کے اعمال کو پاکیزہ بنانے کے لئے  مشروع وواجب ہوا ہے. 
صدقہ فطر کب واجب ہوا؟
جس سال رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے یعنی ہجرت مدینہ کے دوسرے سال صدقہ فطر کا وجوب ہوا ہے. 
صدقہ فطر کیوں واجب ہوا؟
(زكاةُ الفطرِ طُهْرَةٌ للصائِمِ مِنَ اللغوِ والرفَثِ، و طُعْمَةٌ للمساكينِ). [سنن أبي داود: 1609]
صدقہ فطر روزہ داروں کی بے کار اور بے ہودہ باتوں سے پاکیزگی اور مساکین کو کھلانے یعنی مدد کی غرض سے (فرض) واجب کیا گیا ہے)
قالوا: وفی إخراجھا قبول الصوم، والنجاح، والفلاح، والنجاة من سکرات الموت، وعذاب القبر“․ (طحطاوی علی مراقی الفلاح)
(علما نے فرمایا کہ صدقہٴفطر کی ادائیگی سے روزے قبول ہوتے ہیں اور مشکل آسان ہوتی ہے اور کامیابی ملتی ہے اور موت کی سختی اور قبر کے عذاب سے نجات حاصل ہوتی ہے۔)
مشکوٰة شریف کی شرح مرقاة المفاتیح میں مذکور ہے کہ: ”یقال: صدقة الفطرة وزکاة الفطر أو الفطرة، کأنھا من الفطرة التی ھی الخلقة، فوجوبھا علیھا تزکیة للنفس أی تطھیراً لھا وتنقیة لعملھا“․ (مرقاة الفاتیح، 159/4)
(صدقہ فطر کو ”صدقہٴ فطرہ اور ”زکاة فطر“ یا ”زکاة فطرہ“ بھی کہا جاتا ہے، گویا صدقہٴ فطر اس فطرت سے تعلق رکھتا ہے جو کہ پیدائش ہے، لہٰذا صدقہٴ فطر کا اس پر واجب ہونا نفس کو پاک کرنے کے لیے اور نفس کے عمل کو پاکیزہ بنانے کے لیے ہے۔)
صدقہ فطر کی اہمیت وفضیلت: 
حضرت جریر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
صومُ شهرِ رمضانَ معلَّقٌ بين السَّماءِ والأرضِ ولا يُرفعُ إلَّا بزكاةِ الفطرِ
[الترغيب والترهيب: 2/157]
(رمضان کے روزے آسمان او رزمین کے درمیان معلق (لٹکے) رہتے ہیں، جنہیں (الله کی طرف) صدقہٴ فطر کے بغیر نہیں اٹھایا جاتا۔)
حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ارشاد فرمایا، ”فرض رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم زكاةَ الفِطْرِ، وقال: أَغْنُوهُم في هذا اليومِ۔
(تمام المنة: 388)
(الله کے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے صدقہٴ فطر کو فرض (یعنی واجب) قرار دیا اور فرمایا: ”غریبوں کو اس دن غنی کردو (یعنی ان کے ساتھ مالی معاونت کرو)
صدقہٴ فطر کی ادائی صرف حکم شرع ہی نہیں؛ بلکہ اس کے جلو میں بے شمار دنیا وآخرت کے فوائد مضمر ہیں، اکثر انسان سے روزے میں بھول چوک یا کوئی خطا دانستہ یا نادانستہ طور پر سرزد ہوجاتی ہے، جس کی  تلافی کا انتظام صدقہ فطر کردیتا ہے۔ اسی طرح وفقراء ومساکین جو نئے جوڑے اور کپڑے تو درکنار، اپنی دن بھر کی خوراک وغیرہ کا بھی انتظام نہیں کرسکتے، ان کے لئے خوراک وغیرہ کا انتظام بھی صدقہ فطر کے ذریعے ہوجاتا ہے اور وہ بھی کسی درجے میں عام مسلمانوں کے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک ہوجاتے ہیں۔ اس کے ذریعے انسان کے رزق میں برکت ہوتی ہے، مشکل آسان ہوتی ہے، کامیابی ملتی ہے، موت کی سختی دور ہوتی ہے اور قبر کی منزل آسان ہوجاتی ہے اور عذاب سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ گویا صدقہ فطر کی ادائی سے قبولیت روزہ کی راہ میں رکاوٹ سارے امور ختم ختم ہو کر رہ جاتے ہیں۔
صدقہ فطر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
مالکیہ کے یہاں صدقہ فطر سنت ہے، ان کے علاوہ باقی ائمہ ثلاثہ کے یہاں صدقہ فطر واجب ہے، مسلم شریف کی صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر آزاد، غلام، مرد، عورت مسلمان پر صدقہ فطر واجب کیا ہے، کھجور اور جو سے ایک صاع:
أنَّ رَسولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ فَرَضَ زَكَاةَ الفِطْرِ مِن رَمَضَانَ علَى النَّاسِ، صَاعًا* مِن تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِن شَعِيرٍ، علَى كُلِّ حُرٍّ، أَوْ عَبْدٍ، ذَكَرٍ، أَوْ أُنْثَى، مِنَ المُسْلِمِينَ۔ (صحيح مسلم، عن عبد الله بن عمر: 984، سنن النسائي، عن قيس بن سعد، الرقم: 2505، صحيح.)
کیا صدقہ فطر ہر مسلمان پہ واجب ہے یا زکاۃ کی طرح اس کے وجوب کا کوئی مالی نصاب بھی ہے؟
تمام ائمہ کے یہاں صدقہ فطر کے وجوب کے لئے مالی نصاب یا استطاعت ضروری ہے. اب یہ استطاعت کتنی ہونی چاہئے؟ اس کی تحدید میں ان کے مابین اختلاف ہوا ہے. امام شعبی، عطاء، ابن سیرین، زہری، عبداللہ بن مبارک، امام مالک، امام شافعی اوراحمد بن حنبل رحمہم اللہ  وغیرہ کے نزدیک اگر کسی کے پاس (عید کے) ایک دن اور رات کی خوراک سے فاضل غلہ موجود ہو تو یہی استطاعت ہے اور اب اس کے لئے صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے۔ مسند احمد کی ذیل کی ایک روایت سے یہ حضرات استدلال کرتے ہیں جس میں مالدار کے ساتھ غریب اور فقیر پر بھی صدقہ فطر کی بات آئی ہے:
عنْ أبي هريرةَ في زكاةِ الفطرِ على كلِ حرٍ وعبدٍ ذكرٍ أو أنثى صغيرٍ أو كبيرٍ فقيرٍ أو غني صاعٌ من تمرٍ أو نصفُ صاعٍ من قمحٍ: أخرجه أحمد (7724)، وعبدالرزاق (5761)، والطحاوي في (شرح معاني الآثار) (3126)
یہ روایت موقوف ہے، البانی نے اسے ضعیف کہا ہے, علامہ بیہقی اور محشی ابن الترکمانی  نے اسے مضطرب ثابت کیا ہے سنداً بھی اور متناً بھی! جس کی وجہ سے یہ روایت ناقابل استدلال واحتجاج ہے۔ جبکہ سیدنا الامام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ نے  یہاں بھی استطاعت کی مراد وہی لی ہے جو زکاۃ مالی میں مراد ہے. انہوں نے اُس شخص کیلئے صدقہ فطر ضروری قراردیا ہے جس کے پاس زکوٰۃ نکالنے کا نصاب یعنی ساڑھے 52 تولے چاندی (یا اس کی موجودہ قیمت کے برابر رقم) موجود ہو؛ البتہ دو معمولی فرق یہ ملحوظ رکھا گیا ہے کہ زکاۃ کے نصاب میں مال نامی یعنی سونا چاندی روپے متعینہ مقدار میں رکھنے پر زکاۃ فرض ہوتی ہے اور مالی سال پہ سال گزرنے پر ادائی واجب ہوتی ہے. جبکہ یہاں مال نامی ضروری نہیں؛ بلکہ ساڑھے باون تولے چاندی (نصاب زکوٰۃ) کی مالیات سے زائد گھریلو سامان رکھنے والے مسلمان پر بھی صدقہ فطر واجب ہے، اور یہاں سال گزرنا بھی ضروری نہیں. عید کی صبح تک اتنی مالیت کا مالک ہوگیا تو صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے. بس ان دو معمولی جزوی فرق کے سوا زکات اور صدقہ فطر کے نصاب میں حنفیہ کے یہاں کوئی فرق نہیں ہے۔ زکات کا نصاب ہی صدقہ فطر کا نصاب ہے، غیرصاحب نصاب یعنی فقیر پر ہمارے یہاں صدقہ فطر واجب نہیں ہے (ہاں ادا کردے تو بہت ثواب ہے بلکہ اس کی ترغیب بھی آئی ہے) امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے یہاں صدقہ فطر کے وجوب کے لئے غناے شرعی“ ہونا ضروری ہے. امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے 'کتاب الزکات' میں اسی نام سے باضابطہ ترجمۃ الباب قائم فرمایا ہے، جس میں صراحت ہے کہ صرف غنی پر ہی صدقہ فطر واجب ہے:  
بَاب لَا صَدَقَةَ إِلَّا عَنْ ظَهْرِ غِنًى وَمَنْ تَصَدَّقَ وَهُوَ مُحْتَاجٌ أَوْ أَهْلُهُ مُحْتَاجٌ أَوْ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَالدَّيْنُ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى مِنْ الصَّدَقَةِ وَالْعِتْقِ وَالْهِبَةِ وَهُوَ رَدٌّ عَلَيْهِ لَيْسَ لَهُ أَنْ يُتْلِفَ أَمْوَالَ النَّاسِ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ إِتْلَافَهَا أَتْلَفَهُ اللَّهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَعْرُوفًا بِالصَّبْرِ فَيُؤْثِرَ عَلَى نَفْسِهِ وَلَوْ كَانَ بِهِ خَصَاصَةٌ كَفِعْلِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ تَصَدَّقَ بِمَالِهِ وَكَذَلِكَ آثَرَ الْأَنْصَارُ الْمُهَاجِرِينَ وَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ إِضَاعَةِ الْمَالِ فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يُضَيِّعَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِعِلَّةِ الصَّدَقَةِ وَقَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ قُلْتُ فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِي الَّذِي بِخَيْبَرَ 
1360 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُاللَّهِ عَنْ يُونُسَ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَيْرُ الصَّدَقَةِ مَا كَانَ عَنْ ظَهْرِ غِنًى وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ [ص: 346]
(فتح الباري 345/3)
مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:
خيرُالصَّدقةِ ما كانَ عَن ظَهْرِ غنًى، وابدأ بِمَن تعولُ ، واليَدُ العليا خيرٌ منَ اليدِ السُّفلى قلتُ لأيُّوبَ: ما عَن ظَهْرِ غنًى؟ قالَ: عَن فضلِ غِناكَ. مسند أحمد (الصفحة: 14/162)
بخاری کی صحیح اور مشہور حدیث ہے کہ صدقات واجبہ مالداروں سے لئے جائیں گے اور غریبوں پہ تقسیم کئے جائیں گے، غریبوں سے بھی لینے کا قائل ہونا اس صحیح ومشہور حدیث کی صریح خلاف ورزی ہے:
فإنْ هُمْ أطَاعُوا لذلكَ، فأعْلِمْهُمْ أنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عليهم صَدَقَةً في أمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِن أغْنِيَائِهِمْ وتُرَدُّ علَى فُقَرَائِهِمْ. (عن عبدالله بن عباس.صحيح البخاري. 1395)
ان روایات کی بنیاد پر ہمارے یہاں نصاب زکات رکھنے والے شخص پر ہی صدقہ فطر بھی واجب ہے. اگر ایک دن رات کے اخراجات رکھنے والے غربا پر بھی صدقہ فطر واجب کردیں جیساکہ ائمہ ثلاثہ کا خیال ہے تو صدقہ فطر پھر لے گا کون؟ سب تو دینے ہی والے ہونگے، لینے والا کون ہوگا؟ جس روایت سے فقیر پر بھی صدقہ فطر کے وجوب  کے لئے استدلال کیا گیا تھا  علامہ بیہقی اور ابن الترکمانی نے اسے حدیث مضطرب ثابت کیا ہے:
"أما غنيكم فيزكيه الله وأما فقيركم فيرد الله عليه أكثر مما اعطی" اسی کو راوی سلیمان  نے اپنی حدیث میں "غني أو فقير" بڑھا دیا:
صاعٌ مِن بُرٍّ أو قَمحٍ على كلِّ اثنينِ؛ صغيرٍ أو كبيرٍ، حُرٍّ أو عَبدٍ، ذكَرٍ أو أُنْثى، أمَّا غَنِيُّكم فيُزكِّيه اللهُ، وأمَّا فَقيرُكم فيردُّ اللهُ تعالى عليه أكثَرَ ممَّا أَعطَى. زاد سُلَيمانُ في حديثِه: غَنِيٌّ أو فَقيرٌ. التخريج: أخرجه أبو داود (1619) واللفظ له، وأحمد (23664). (ہدایہ 118/1۔۔فتح القدیر 220/2، زیلعی 423/1، اعلاء السنن ج 9 حدیث نمبر 2445، کتاب الزکات) 
حدیث مضطرب قابل احتجاج واستناد نہیں  ہوتی! اس لئے فقیر والی روایت کو ہم ترغیب پہ محمول کرتے ہیں وجوب پر نہیں! یعنی صدقہٴفطر ادا کرنے کا حکم صرف مال داروں کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ فقراء کو بھی صدقہٴ فطر ادا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے (ہاں! ان پر وجوب نہیں ہے) چناں چہ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ ”غنی بھی صدقہٴ فطر ادا کرے اور فقیر بھی صدقہ دے“ پھران دونوں کے بارے میں فرمایا کہ: ”الله تعالیٰ اس مال دار کو تو صدقہ فطر ادا کرنے کی وجہ سے پاکیزہ بنا دیتا ہے اور فقیر (جو مالک نصاب نہ ہو) اس کو اس سے زیادہ عنایت فرماتا ہے، جتنا اس نے صدقہ فطر کے طور پر دیا ہےأمَّا غَنِيُّكم فيُزكِّيه اللهُ، وأمَّا فَقيرُكم فيردُّ اللهُ تعالى عليه أكثَرَ ممَّا أَعطَى. (سنن أبي داود: 1619) یہ بشارت اگرچہ مال دار کے لئے بھی ہے، مگر اس کو فقیر کے ساتھ اس لیے خاص فرمایا کہ اس کی ہمت افزائی ہو۔ (مظاہرحق جدید: 58/2)
صدقہ فطر کن چیزوں سے دے؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے عہد مبارک میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پانچ چیزوں سے صدقہ فطر ادا کرتے تھے: كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الفِطْرِ صَاعًا مِن طَعَامٍ، أوْ صَاعًا مِن شَعِيرٍ، أوْ صَاعًا مِن تَمْرٍ، أوْ صَاعًا مِن أقِطٍ، أوْ صَاعًا مِن زَبِيبٍ.عن أبی سعيد الخدري. (صحيح البخاري:1506) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضور کے زمانے میں صدقہ فطر گیہوں، جو، کھجور، پنیر اور کشمش سے ایک صاع نکالتے تھے، تو یہ پانچ چیزیں ہوئیں! جن سے صدقہ فطر نکالا جاسکتا ہے، فقہاء حنفیہ کا خیال ہے کہ گیہوں یا اس کے آٹا سے نکالنا ہو تو نصف صاع اور دوسری چیزوں سے نکالنا ہو تو ایک صاع دینا چاہیے. نصف صاع کی مقدار ایک کلو پانچ سو چھہتر گرام چھ سو چالیس ملی گرامجبکہ ایک صاع کی مقدار تین کلو ڈیڑھ سو گرام ہوتی ہے. صاحب حیثیت ووسعت اور مالداروں کی لئے بہتر یہ ہے کہ نصف صاع پہ تکیہ نہ کریں! آگے بڑھ کے ہر صنف میں ایک صاع یا اس کی قیمت صدقہ فطر میں ادا کریں تاکہ غریبوں کا بھلا ہوسکے۔ بذل المجہود میں ہے: قوله صاعًا من كل شيئ أي من الحنطة وغيرها لكان أحسن (454/6. ط بيروت)
صدقہ فطر کا مصرف: 
جن لوگوں کو زکات دینا جائز ہے، انہی کو صدقہ فطر بھی دینا جائز ہے ۔ متون حنفیہ میں صدقہ فطر محتاج ذمی کو دینے کی بات موجود ضرور ہے، امام ابوحنیفہ اورامام محمد رحمہم اللہ کا قول بھی یہی ہے، لیکن قاضی ابویوسف رحمہ اللہ  اسے ناجائز سمجھتے ہیں، عدم جواز کا قول ہی مشائخ حنفیہ کے ہاں مفتی بہ رہا ہے بہ یفتی“ کما فی الدر۔ جہاں تک ذمی کی بات ہے تو فقہاء کہتے ہیں: اہلِ ذمہ سے مراد وہ غیرمسلم افراد ہیں جوکسی اسلامی ملک میں اس ملک کے قوانین کی پاسداری کا عہد کرکے وہاں سکونت اختیار کرلیں۔ اس تعریف کے روء سے ہندوستان جیسے ملک کے کفار ذمی نہیں ہوئے. جب ذمی کا اطلاق ان پر درست نہیں تو صدقہ  فطر کے لئے ان کا استثناء بھی ثابت نہیں ہوگا. جب مشائخ حنفیہ کے یہاں امام ابویوسف کا قول مفتی بہ رہا ہے تو مفتی بہ قول سے عدول کی کون سی سخت اضطراری حالت آن پڑی ہے؟ کہ کفار (نہ کہ ذمی) کے لئے صدقہ فطر دینا جائز قرار دیا جائے؛ لہذا راجح یہی ہے کہ زکٰوۃ، عُشر اور دوسرے صدقاتِ واجبہ (صدقۂ فطر، نذر، کفارہ) بھی کسی کافرکو دینا جائز نہیں ہے؛ البتہ نفلی صدقات کافرکو دینےکی گنجائش ہے؛ لیکن کسی فقیر مسلمان کودینازیادہ بہترہے۔
الدرالمختار – (2 / 351)
(ولا) تدفع (إلى ذمي) لحديث معاذ (وجاز) دفع (غيرها وغيرالعشر) والخراج (إليه) أي الذمي ولو واجبا كنذر وكفارة وفطرةخلافا للثاني وبقوله يفتي حاوي القدسي وأما الحربي ولو مستأمنا فجميع الصدقات لا تجوز له اتفاقا بحر عن الغاية وغيرها، لكن جزم الزيلعي بجواز التطوع له.
حاشية ابن عابدين (ردالمحتار) – (2 / 352)
(قوله: وبقوله يفتي) الذي في حاشية الخير الرملي عن الحاوي وبقوله نأخذ.
قلت: لكن كلام الهداية وغيرها يفيد ترجيح قولهما وعليه المتون (قوله: لكن جزم الزيلعي بجواز التطوع له) أي للمستأمن كما تفيده عبارة النهر)
کیا صدقہ فطر میں اجناس کی بجائے قیمت اور نوٹ دئے جاسکتے ہیں؟
ہمارے اکابر میں حضرت مرشد و محقق تھانوی، مفتی عزیز الرحمن عثمانی اور مفتی محمد شفیع صاحب رحمہم اللہ جیسے اکابر کا میلان عدم جواز کی طرف تھا کیونکہ آپ کی نظر میں نوٹ کی حیثیت ثمن کی نہیں سند کی تھی (امدادالفتاویٰ: (5/ 2-6) (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:83/6)
جبکہ ہمارے استاذ اور مرشد ومربی، مرتب فتاوی دارالعلوم حضرت مفتی محمد ظفیرالدین  صاحب مفتاحی نوراللہ مرقدہ سابق مفتی دارالعلوم دیوبند، صاحب احسن الفتاوی اور مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی اور دیگر اکابر مفتیوں کا خیال ہے کہ فقرا کی سہولت اور عموم نفع کے لئے اجناس کے بدلے نوٹ اور قیمت بھی صدقہ فطر میں ادا کی جاسکتی ہے، یہ حضرات نوٹ کو عرفی ثمن تصور کرتے ہیں (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، حاشیہ: 83/6، احسن الفتاویٰ: 266/4) (کفایت المفتی: 278/4)
صدقہ فطر کب ادا کرے؟
فطر یعنی  کھانے پینے کی وجہ سے یہ صدقہ واجب ہوا ہے جیساکہ نام سے بھی واضح ہے. اس لئے ہمارے یہاں بہتر یہ ہے عیدالفطر کے دن نماز عید کے لئے جانے سے پہلے پہلے صدقۃ الفطر ادا کردیا جائے، یہ افضل وقت ہے:
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ كانَ يأمرُ بإخراجِ الزَّكاةِ قبلَ الغدوِّ للصَّلاةِ يومَ الفطرِ۔عن عبد اللہ عمر، صحيح الترمذي: 677)
والمستحب ان یخرج الناس الفطرۃ یوم الفطر قبل الخروج الی المصلی۔ (ہدایۃ 211/1، تاتارخانیۃ زکریا 451/3، ہندیۃ 192/1، خانیۃ 232/1)
تاہم ثواب میں اضافے کے پیش نظر رمضان میں پیشگی ادا کرنے کی بھی گنجائش ہے؛ لیکن رمضان المبارک سے قبل ادا کرنا مفتی بہ قول کے مطابق درست نہیں ہے:
والمختار إذا دخل شہر رمضان یجوز وقبلہ لا یجوز، وفی الظہیریۃ: وعلیہ الفتویٰ۔ (تاتارخانیۃ زکریا 452/3)
اگر کسی وجہ سے قبل نماز عید ادا نہ کرسکے تو بعد عید بھی ادا کرنا ضروری ہے، تاخیر کی وجہ سے ذمے سے ساقط نہیں ہوجاتا ہے۔ جب بھی اداکرے گا وہ ادا ہی کہلائے گا، اس کو قضاء نہیں کہا جائے گا:
ولا تسقط صدقۃ الفطر بالتاخیر وان طال وکان مؤدیاً لا قاضیاً۔ (مجمع الانہر 228/1، بدائع الصنائع 207/2،البحر الرائق زکریا 445/2)
صدقہ فطر کس کس کی طرف سے دینا واجب ہے؟
صدقہ فطر اپنی طرف سے اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بشرطیکہ وہ فقیر یعنی صاحب نصاب نہ ہو، اور خدمت گار خادم یا غلام کی طرف سے اگرچہ وہ کافر ہوں، واجب ہے ۔نابالغ اولاد اگر مالدار ہو تو ان کے مال سے ادا کرے اور اگر مالدار ہو تو ان کی طرف سے ادا کرنا والد پرچواجب نہیں ہے، ہاں اگر احساناً ادا کردے تو جائز ہے۔ عورت پر جب کہ وہ صاحب نصاب ہو تو صدقہ فطر اس پر خود واجب ہے، اگر شوہر ادا کرے گا تو احسان ہوگا اور ادا ہوجائے گا، عورت کا صدقہ اس کے باپ پر واجب نہیں ہے۔ عورت پر کسی اور کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب نہیں۔
صدقہ فطر کس طرح تقسیم کیا جائے؟
کم سے کم ایک آدمی کا صدقہ فطر ایک آدمی کو دینا چاہئے، ایک صدقہ دو محتاجوں پر تقسیم کر دینا بقول علامہ حصکفی جائز تو ہے؛ لیکن بہتر نہیں۔
ایک محتاج شخص کو ایک سے زیادہ راس کا صدقہ دیا جاسکتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے: أغنوهم عَن طوافِ هذا اليومِ ۔۔عن عبدالله بن عمر.السنن الكبرى للبيهقي.الصفحة : 4/175. {یعنی فقراء کو اس دن مختلف دروازے جانے سے بچاؤ}
صدقہ فطر کی اجتماعی وصولی؟ 
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب رقم فرماتے ہیں: صدقہ فطر کی وصولی کے لئے بہتر ہے کہ مختلف علاقوں میں اجتماعی نظام  قائم کیا جائے، ضرورت مندوں کا سروے کر کے ان تک پہنچایا جائے، بعض روایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اوائل اسلام میں بھی ایسا نظم ہوا کرتا تھا، مؤطا امام محمد میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  دو تین دنوں پہلے وہ صدقہ فطر اس شخص کے پاس بھیج دیتے جو اس کو جمع کیا کرتے۔ ابن خزیمہ نے بھی نقل کیا ہے کہ جب عامل بیٹھتا تو ابن عمر رضی اللہ عنہ اس کے پاس صدقہ فطر جمع کرادیتے اور یہ عامل عید سے ایک دو دن قبل بیٹھتا، علامہ شامی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو صدقہ جمع کرنے پر مامور فرما دیا تھا، پس معلوم ہوا کہ خود امیر تو اس کے لیے اپنے عامل نہ بھیجے گا، لیکن لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنا فطرہ بیت المال میں یا کسی اورنظم کے تحت اجتماعی طور پر جمع کریں۔ (کتاب الفتاوی)
صدقہ فطر دوسرے شہر میں ادا کرنا؟
جس کی جانب سے صدقۃ الفطر نکالنا ہو، وہ جہاں اور جس شہر میں ہو، وہیں صدقہ دینا بہتر ہے، اگر ایک شخص خود دور ہو، اور بال بچے گھر پر رہتے ہوں تو بچوں کا صدقہ وہاں ادا کرے جہاں وہ ہیں، اور اپنا صدقہ وہاں کے فقراء پر صرف کرے جہاں وہ خود مقیم ہے، البتہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ایک روایت ایسی بھی منقول ہے کہ وہ قرابت داروں تک صدقہ پہنچانے کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر صدقہ کی منتقلی میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ (بدائع الصنائع ۲/ ۷۵)
صدقہ فطر کی ادائی میں کس جگہ کی قیمت کا اعتبار ہو؟
صدقہ فطر کی قیمت نکالنے میں انفع للفقراء کا خیال کرے۔ جس شخص پہ صدقہ فطر واجب ہے وہاں کے لحاظ سے ادا کرنے میں انفع للفقراء ہو تو وہیں ادا کردے۔
اور اگر جہاں صدقہ فطر ادا کیا جارہا ہو وہاں کی قیمت سے واجب کروانے میں فقراء کو زیادہ فائدہ ہوتا ہو تو مکان مودی کی قیمت کا لحاظ کرلے۔غرضیکہ فقہ حنفی میں دونوں روایتیں ہیں اور دونوں صحیح ہیں. ایک روایت یہ ہے کہ جس شخص پر صدقۂ فطر واجب ہے اُس کی جگہ کا اعتبار ہوگا۔ اور دوسری روایت یہ ہے کہ جہاں صدقۂ فطر کی ادائیگی کی جارہی ہے اُس جگہ کی قیمت کا اعتبار ہوگا۔ پوچھی گئی صورت میں انفع للفقراء ہونے کے اعتبار سے پہلی روایت اَحوط ہے، جب کہ دوسری روایت میں سہولت زیادہ ہے، دونوں روایتیں قابل عمل ہیں۔
(امدادالاحکام ۳؍۴۱، فتاویٰ رحیمیہ ۳؍۱۱۳، فتاویٰ محمودیہ ۹؍۶۲۳ ڈابھیل، فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۶؍۳۱۶-۳۱۷)
وفي الفطر مکان المؤدي عند محمد وہو الأصح۔ (الدر المختار) بل صرح في العنایۃ والنہایۃ بأنہ ظاہر الروایۃ کما في الشرنبلالیۃ، وہو المذہب کما في البحر، فکان أولیٰ مما في الفتح من تصحیح قولہما باعتبار مکان المؤدي عنہ۔ قال الرحمتي: وقال في المنح: في أخر باب صدقۃ الفطر: الأفضل أن یؤدی عن عبیدہ وأولادہ وحشمۃ حیث ہم عند أبي یوسف وعلیہ الفتویٰ، وعند محمد حیث ہو، تأمل۔ قلت: لکن في التاتارخانیۃ: یؤدی عنہم حیث ہو، وعلیہ الفتویٰ وہو قول محمد، ومثلہ قول أبي حنیفۃ، وہو الصحیح۔ (الدرالمختار مع الشامي ۳؍۳۰۷ زکریا، بدائع الصنائع ۲؍۲۰۸ زکریا، الفتاویٰ التاتارخاینۃ ۲؍۴۲۴۔ کتاب النوازل جلد 17)
کن لوگوں کو صدقہ فطر دے سکتے ہیں اور کن لوگوں کو نہیں؟
جس غریب کے پاس بقدر نصاب مال نہ ہو اسے زکات وصدقہ فطر دے سکتے ہیں بشرطیکہ نیچے مذکور دیگر موانع موجود نہ ہوں۔ جن لوگوں سے انسان پیداہواہو جیسے ماں باپ، دادا، دادی، نانا، نانی اور اس طرح اس کی اولاد ہے جیسے بیٹی، بیٹا، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی ان کو صدقہ فطر نہیں دے سکتا، ایسے ہی بیوی اپنے شوہر کو اور شوہر اپنی بیوی کو بھی صدقہ فطر یا زکات نہیں دے سکتا۔ ولا إلى من بينهما زوجية (درمختار على ردالمحتار ٢/٢٨٦] بھائی، بہن، خالہ، خالو، ماموں، مامی، ساس، سسر، خسر، سالہ، بہنوئی، سوتیلی ماں، سوتیلا باپ سب کو صدقہ فطر دینا درست ہے۔ (شامی) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت جعفررضی اللہ عنہ اور حضرت عقیل رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ یا حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی اولاد کو صدقہ فطر دینا درست نہیں ہے۔ (درمختار) صدقہ فطر سے مسجد، مدرسہ، اسکول، غسل خانہ، کنواں، نلکا اور مسافر خانہ، پُل، سٹرک غرضیکہ کسی طرح کی عمارت بنانا یا کسی میت کے کفن دفن میں خرچ کرنا یا کسی میت کی طرف سے اس کا قرضہ ادا کرنا درست نہیں ہے، البتہ اگر کسی غریب کو اس کا مالک بنادیا جائے، پھر وہ اگر چاہے تو اپنی طرف سے کسی تعمیر یا کفن دفن وغیر ہ میں خرچ کردے تو جائز ہے۔ جب تک کسی شخص کے صدقہ فطر کے مستحق ہونے کی تحقیق نہ ہوجائے اس وقت تک اس کو صدقہ نہیں دیناچاہیے اگر بے تحقیق دے دیا پھر معلوم ہواکہ وہ غریب ہی ہے تو ادا ہوگیا ورنہ دیکھا جائے  کہ دل کیاگواہی دیتا ہے؟ اگر دل اس کے غریب ہونے کی گواہی دے تو ادا ہوگیا ورنہ پھر سے ادا کرے۔ درمختار میں ہے: دفع بتحرٍّ .......إلى أن قال :إن بان غناه .......لايعيد إلخ (رد المحتار ج٣ كتاب الزكوة . باب المصرف ص ٣٠٢)
ایک شہر سے دوسرے شہر میں صدقہ فطر بھیجنا؟
 ایک شہر سے دوسرے شہر میں صدقہ فطر بھیجنا مکروہ ہے۔ ہاں اگر دوسرے شہر میں اس کے غریب رشتہ دار رہتے ہوں یا وہاں کے لوگ زیادہ محتاج ہوں، یا وہ لوگ دین کے کام میں لگے ہوئے ہوں تو ان کو بھیج دیا تو مکروہ نہیں، کیونکہ طالب علموں اور دین دار غریب عالموں کو دینا بڑا ثواب ہے۔ صدقہ دینے میں اپنے غریب رشتہ داروں اور دینی علم کے سیکھنے سکھانے والوں کو مقدم رکھنا افضل ہے۔
غیرملک مقیم شخص کس قیمت سے اپنا صدقہ فطر ادا کرے؟
جو شخص جہاں مقیم ہے اگر وہ جائے اقامت چھوڑ کر  کسی  دوسرے ملک میں اپنا صدقہ فطر ادا کرنا چاہے تو جہاں وہ مقیم ہے وہاں صاع یا نصف صاع کی قیمت کے لحاظ سے صدقہ فطر نکالے، جہاں ادا کررہا ہے وہاں کی اجناس کی قیمت کا اعتبار نہ ہوگا: ویعتبر مکانہ لنفسہ الخ وعلیہ الفتویٰ۔ (الدر المنتقی 226/1 ، الولوالجیۃ 244/1)
واللہ اعلم بالصواب 
 بیگوسرائے. 9 رمضان المبارک 1441 ہجری
------------------------------------------------------------
اسی موضوع پر دیگر تحریر:


Friday, 1 May 2020

بالی ووڈ ایکٹر عرفان خان کیا تھے؟

بالی ووڈ ایکٹر عرفان خان کیا تھے؟
✏ فضیل احمد ناصری 
پرسوں بروز بدھ بتاریخ 29 اپریل 2020 کو فلمی دنیا کا ایک بندہ عرفان خان کینسر کے مرض میں آں جہانی ہوگیا۔ یہ جناب اپنے فن میں کیا تھے اور کیا نہیں تھے، ہم جیسے لوگوں کو اس سے کیا سروکار!! سوشل میڈیا پر بہت سے مسلمانوں کو دیکھا کہ ان کی موت کے غم میں دبلے ہورہے ہیں اور مغفرت کی دعا کر رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، ان کی اداکاری کی تعریف بھی کررہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت ایسے مسلمانوں کی تھی، جنہیں دین کے مسائل سے برائے نام ہی واقفیت ہے۔ عام مسلمان کسی بندے پر کوئی رائے قائم کرتے وقت صرف نام پر جاتے ہیں اور عربی فارسی نام دیکھ کر صاحبِ نام کے مومن ہونے کا فیصلہ کردیتے ہیں۔ اس لیے مجھے کوئی تعجب نہیں ہوا۔ حیرت ان نوجوانوں پر ہوئی جو مدارس کے فاضل اور علما کی صحبتیں اٹھائے ہوئے تھے اور اس فلم ادا کار کی تعریف وتحسین کررہے تھے۔ بعض فضلا نے انہیں فنکار اور مؤثر کردار سے یاد کیا۔ ان کی فلموں پر زوردار تبصرے کیے۔ یہ صورتِ حال میرے لیے بڑی درد ناک تھی۔ میں نے متوفیٰ کے احوال جاننے کی کوشش کی تو ایسا ایسا انکشاف ہوا کہ میں سر پکڑکر بیٹھ گیا، کہ ایسے دین بیزار کی تعریف فضلائے مدارس بھی کر رہے ہیں۔ آئیے ذرا عرفان خان کی مذہبی حالت پر ایک اچٹتی نظر ڈالتے ہیں: 
شادی کے لیے ہندو دھرم قبول کرنے کو تیار:
جناب کی شادی آسام کی باشندہ سُتاپا سِکدَر سے ہوئی، جس کا تعلق اسلام سے نہیں تھا۔ اسکول کے زمانے سے دونوں میں اس قدر قربت ہوئی کہ بات شادی تک پہونچ گئی۔ جناب کو لگا کہ ان کا اسلام اس شادی میں رکاوٹ بن سکتا ہے تو اپنی منگیتر سے کہہ بیٹھے: اگر آپ کے گھر والوں کو میرے مسلمان ہونے سے تکلیف ہے تو میں ہندو ہونے کو تیار ہوں۔ خیر ایسی نوبت نہیں آئی اور اپنے اپنے فکر و خیال پر رہتے ہوئے دونوں نے شادی رچالی۔
درد بڑا یا خدا؟
عرفان خان آنتوں کے کینسر میں مبتلا تھے۔ جس سے درد بار بار اٹھتا تھا اور وہ بے چین ہو جاتے تھے۔ اپنی اس تکلیف کا اظہار انہوں نے طویل مضمون میں کیا ہے۔ 2018 میں اپنی ایک تحریر میں انہوں نے لکھا ہے کہ: یہ معلوم تھا کہ درد ہوگا، مگر ایسا درد!! اب درد کی شدت محسوس ہو رہی ہے۔ نہ کوئی ڈھارس، نہ کوئی دلاسہ۔ ساری کائنات اس درد میں سمٹ آئی۔ درد خدا سے بھی بڑا محسوس ہوا۔
روزہ کی بجائے مسلمان اپنا احتساب کرے:
تین سال پہلے جے پور میں اپنی فلم مداری کی تشہیر کے دوران انہوں نے اسلام پر جیسے حملے کیے، وہ دل دہلانے والے ہیں۔ ذیل میں انہیں کی تفصیل پیش کی جا رہی ہے۔ رمضان کا مہینہ کتنا مقدس ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ نفل کو فرض کا اور فرض کو ستر فرائض کا مقام دے دیا جاتا ہے۔ ہر نیکی کی قیمت کئی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اس ماہ کی سب سے خاص عبادت روزہ ہے، جس میں مسلمان صبحِ صادق کی شروعات سے سورج ڈوبنے تک کھانے پینے اور بیوی سے تعلق بنانے سے بچتا ہے۔ دن کا وقت اس حالت میں گزارنا ہر شخص کے لیے آسان نہیں، بالخصوص دھوپ دھوپ چلنے والوں کے لیے، لیکن یہ سب اللّٰہ کو خوش کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس روزے کی جناب کے نزدیک کیا حیثیت ہے، اسے سنیے: رمضان میں بھوکے رہنے سے زیادہ بہتر ہے کہ انسان کو اپنا خود تجزیہ کرنا چاہیے کہ وہ کتنا خود دار ہے۔ مطلب یہ کہ آدمی روزہ نہ رکھے، بلکہ اپنا احتساب کر لے، یہ روزے سے اچھا عمل ہے۔
جانوروں کو ذبح کرنے کا نام قربانی نہیں:
عیدالاضحی کی سب سے بڑی عبادت قربانی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ محبوب اللّٰہ کے نزدیک کوئی اور عبادت نہیں۔ قربانی ایسی عبادت ہے، جسے چند مخصوص جانوروں کو مخصوص طریقے پر ذبح کر کے انجام دیا جاتا ہے۔ جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی بھی رکھی گئی ہے۔ اس قربانی کا مقام جناب کے نزدیک کیا ہے، سنیے:  قربانی کا مطلب اپنے قریبی اور پسندیدہ چیز کو قربان کرنا ہے۔ بھیڑ یا بکری کی قربانی سے کیسے ثواب ہوگا؟ جانوروں کو مارنا قربانی نہیں کہا جاسکتا۔
محرم کا مہینہ ماتم کرنے کے لیے ہے:
اپنے متنازع بیانات میں ایک اور بیان جڑتے ہوئے جناب فرماتے ہیں کہ: ہم مسلمانوں نے محرم کا مذاق بنا لیا ہے، اس ماہ میں غم منانا چاہیے، اور ہم کیا کرتے ہیں!! بس جلوس نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔
علمائے حق دقیانوسی اور جنونی ہیں:
ان تین بیانات سے علمائے امت ناراض ہوئے اور انہیں خاموش رہنے کی تلقین کی تو بجائے ندامت کے علما پر ہی برس پڑے اور سخت و سست سنا بیٹھے۔ جناب نے انہیں دقیانوسی اور جنونی اور نہ جانے کیا کیا کہہ دیا۔ فرمایا: میرے نزدیک مذہب دقیانوسیت اور جنونیت کا نام نہیں، بلکہ خود احتسابی، اعتدال پسندی، ہمدردی اور حکمت کا نام ہے۔ علمائے کرام! مجھے مت ڈرائیے! خدا کا شکر ہے کہ میں ایسے ملک میں نہیں رہتا جہاں دین کے ٹھیکیداروں کی حکومت ہو۔
شعائراللّٰہ کا انکار یا استخفاف کفر ہے:
جن باتوں کا عرفان خان نے مذاق اڑایا ہے، وہ اسلامی شعائر کہلاتے ہیں۔ اور اسلامی شعائر کی برائی کرنے، مذاق اڑانے یا نہ ماننے سے آدمی اسلام سے نکل جاتا ہے۔ 
رمضان میں مرنے کا فائدہ صرف مسلمانوں کو ملتا ہے:
موصوف کی وفات چوں کہ رمضان میں ہوئی ہے اور ان کا نام بھی عربی فارسی والا ہے، اس لیے بہت سے مسلمانوں کا خیال ہے کہ آں جہانی جنت میں چلے گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض کمزور احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے کہ رمضان میں وفات پانے والے مسلمان کو عذابِ قبر نہیں ہوتا، مگر اس کا فائدہ صرف مسلمانوں کو ملتا ہے، نہ کہ غیرمسلموں کو۔ اللّٰہ ہمیں حق بولنے اور حق سمجھنے کی توفیق بخشے۔
https://saagartimes.blogspot.com/2020/05/blog-post.html