صدقۂ فطر ————معیار ومقدار
اسلام قیامت تک کے لئے دائمی اور ابدی مذہب ہے، اِس کے جملہ اَحکام میں الوہی حِکم ومصالح، بندوں کی دنیاوی بہتری اور اُخروی فلاح، نرمی، یسر وسہولت، تقاضاے دہر وعصر کی رعایت، بدلتے حالات، ازمنہ و امکنہ، ان کے تغیر وتبدل اور حوادث وواقعات کو اپنے اندر سمو لینے کی زبردست اِستعداد موجود ہے۔اسی باعث اسلامی احکام شرع دائمی بھی ہیں اور ہمہ گیر بھی ۔زمانے کے کسی بھی موڑ پہ وہ انسانیت کی کامل رہبری سے قاصر نہیں ہیں. دیگر شرعی احکام کی طرح زکاتِ اموال وابدان میں بھی اسی یسر وسہولت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسے معیارات متعین کئے گئے ہیں جو، ہر زمانے میں ہر کسی کے دسترس میں ہو اور ممکن العمل بھی ہو، نقود اور دراہم ودنانیر کے بالمقابل اوقیہ اور صاع وغیرہ کے ذریعے تحدید زکات اسی لئے ہوئی ہے کہ زمانے کی معاشی ترقی اور کساد بازاری کے باوجود ان پیمانوں میں کوئی فرق نہ پڑسکے اور ہر جگہ کے لوگ بآسانی اس فریضے کو ادا کرسکیں؛ کیونکہ وزن اور کیل کے پیمانے تغیرات زمانہ سے متاثر نہیں ہوتے جبکہ نقود کی مالیت زمانے و حالات کے اختلاف و تغیرات سے بری طرح متاثر ہوتی رہتی ہے.
بدنی زکات: یعنی صدقہ فطر کا وجوب بھی
شریعت اسلامیہ کے ضابطۂ یسر وسہولت پر مبنی ہے۔ عہدنبوی میں صحابہ کرام کی جو عمومی غذائی اجناس دست یاب اور فراہم تھیں انہی غالب ومروج غذاء و خوراک کو صدقہ فطر کا معیار بنایا گیا؛ تاکہ فطرہ دینے والے کو بھی سہولت ہو اور لینے والے فقراء ومساکین کے لیے بھی غذائی ضرورت کی تکمیل ہو اور جورِ شکم نمٹانے کے لئے انہیں در بدر دست سوال دراز نہ کرنا پڑے؛ یعنی معطی کے لئے بھی آسانی ہو اور فقراء کے لئے بھی انفع ہو. عہدصحابہ میں، خصوصاً مدینہ منورہ میں کھجور کی کاشت سب سے زیادہ تھی، زیادہ گزران اسی پہ ہوتا تھا ، یہی عمومی غذاء تھی، اس لئے سب سے پہلے نمبر پہ سب سے زیادہ تکرار کے ساتھ احادیث میں اسی کو معیار صدقہ فطر بنایا گیا، اس کے بعد جَو کی کاشت بھی ہوتی تھی اور مویشی پالن کا رواج بھی زیادہ تھا، جانور پالنے والوں کی سہولت کے لئے جمے ہوئے دودھ یعنی پنیر کو، جبکہ جَو اور انگور کاشت کرنے والوں کی سہولت کے لئے جو اور کشمش کو معیار صدقہ فطر بنایا گیا۔ اور دوسرے شہروں سے ایمپورٹ کرنے والوں یا خرید کرنے والوں کے لیے گیہوں کو معیار بنایا گیا، لیکن چونکہ عہد نبوی میں مدینہ پاک میں گیہوں کی پیداوار نہیں ہوتی تھی، گیہوں شام یا یمن سے در آمد کیا جاتا تھا؛ اس لئے بعض صحابہ سے گیہوں کا معیار ہونا مستور و مخفی رہ گیا، اور انہوں نے گیہوں سے تحدید فطرہ کو بعض صحابہ کی طرف منسوب کردیا؛ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کھجور و کشمش وجو جیسی اجناس کی طرح گیہوں کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی معیار مقرر فرمایا اور باضابطہ اس کے ذریعے فطرے کی ادائی کی منادی کروائی، جیساکہ ہم آگے بیان کریں گے۔ ان شآءاللہ!
جن غذائی اشیا کو منصوص طور پہ صدقۃ الفطر کا معیار بنایا گیا تھا، یعنی کھجور، کشمش، جو، پنیر اور گندم، تو ان کی تعیین وتنصیص کا مناط یسر وسہولت ہے، اہل علم کے علم میں یہ بات یقیناً ہے کہ احکام شرع اسباب وعلل سے مربوط ہوتے ہیں، احادیث میں منصوص اجناس کی تحقیق مناط اُس وقت علاقے میں دست یاب ومروج خوراک کو متعین کرنا ہے، گیہوں کے علاوہ باقی اجناس تو مدینہ والوں کی غذاء تھی، اہل مدینہ و حجاز کے لئے اس میں سہولت تھی، جبکہ گندم شام والوں کی مروج غذاء تھی، اس لئے گندم کو معیار بنانا منشاء نبوی کی تکمیل اور مناط حدیث کی تحقیق ہے. دیگر اجناس کے بالمقابل گندم کو دو مد یعنی نصف صاع اس لئے طے کیا گیا کہ اُس وقت یہ سب سے مہنگی چیز بھی تھی اور کمیاب بھی تھی، ایک صاع طے کرنے میں معطیین کے لئے دشواری تھی اس لئے معطی کی سہولت کے پیش نظر بطور خاص اسے نصف صاع رکھا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اشیائے منصوصہ کو معیار فطرہ بنانے میں نفع فقراء کے ساتھ معطی کی سہولت زیادہ ملحوظ رکھی گئی ہے، اسی لئے متعدد اجناس واصناف میں اختیار دیا گیا ہے، صرف نفع فقراء ہی ملحوظ ہوتا تو اختیار دینے کے بجائے کسی ایک قیمتی جنس کو محدّد کردیا جاتا.
کن چیزوں سے عہد نبوی و صحابہ میں صدقہ فطر ادا کیا جاتا تھا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مدینہ پاک میں عموماً کھجور، جو، کشمش، پنیر اور گندم (اس کا استعمال عہدفاروقی تک قلیل تھا) بطور خوراک مستعمل تھیں، عید کے دن فقراء کا اشتہاء ومیلان بھی انہی مروج ومعتاد خوردنی اشیاء کی طرف ہوتا تھا، انہی اجناس سے ان کی خوراکی ضرورت بھی وابستہ تھی ، انہیں ذخیرہ کرنا بھی سہل و ممکن تھا؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معطیین کی سہولت اور فقراء کے میلان واشتہاء (نفع) کے پیش نظر انہی اجناس خمسہ میں سے کسی ایک سے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم فرمایا، چنانچہ متعدد احادیث میں پانچ اجناس: کھجور، جو، منقی، پنیر اور گندم کا بیان آیا ہے، ان پانچ اجناس کی تحدید کی علت یہ ہے کہ اُس وقت اہل حجاز کی یہی عموماً خوراک تھی، اس لئے انہیں معیار فطرہ بنایا گیا۔ ان اجناس خمسہ میں سے حسب سہولت جس جنس سے بھی فطرہ ادا کرے وجوب ساقط ہوجائے گا، کسی ایک جنس کو دوسری پہ ترجیح و برتری حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ درج ذیل احادیث میں ان اجناس کو مقرر کیا گیا ہے:
عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما قال: {فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر صاعاً من تمر، أو صاعاً من شعير، على العبدِ والحرِّ، والذكرِ والأنثى، والصغيرِ والكبير من المسلمين ... } . رواه البخاري (1503—
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجور کا یاایک صاع جو (وغیرہ) کا صدقہء فطر کے طور پر مسلمان غلام، آزاد، مرد، عورت، بچے اور بالغ پر فرض قراردیا ہے۔")
عن أبي سعيدالخدري رضي الله عنه يقول: {کنا نُخْرِج زكاة الفطر صاعاً من طعام أو صاعاً من شعير أو صاعاً من تمر أو صاعاً من أقِط أو صاعاً من زبيب} رواه البخاري (1506 ومسلم والطحاوي والدارمي .—-
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ہم لوگ خوردنی اشیاء: جو، کھجور، پنیر اور کشمش سے ایک صاع صدقہ فطر نکالتے تھے)
عن معمر عن الزهري عن عبد الرحمن الأعرج عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: {زكاة الفطر عن كل حرٍّ وعبدٍ، ذكرٍ أو أنثى، صغيرٍ أو كبيرٍ، غنيٍّ أو فقيرٍ، صاعٌ من تمر، أو نصفُ صاع من قمح}. رواه الطحاوي (2/45 وعبدالرزاق والبيهقي ورواه أحمد (7710) بلفظ {عن أبي هريرة في زكاة الفطر: على كل حرٍ وعبدٍ، ذكرٍ أو أنثى، صغيرٍ أو كبيرٍ، فقيرٍ أو غنيٍ، صاعٌ من تمر، أو نصف صاع من قمح قال معمر: وبلغني أن الزُّهري كان يرفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم} . وسنده صحيح .—-
حضرت ابوہریرہ ارشاد فرماتے ہیں ہر آزاد وغلام، مذکر ومؤنث ، چھوٹے یا بڑے ، مالدار وفقیر پر کھجور سے ایک صاع اور گیہوں سے آدھا صاع صدقہ فطر واجب ہے، حضرت معمر فرماتے ہیں مجھے معلوم ہوا ہے کہ امام زہری اس حدیث کو مرفوعاً بیان کرتے تھے؛ یعنی نصف صاع گیہوں سے فطرہ کی ادائی حضور کا ارشاد مبارک ہے)
وروی الدارَقُطني (2/141) والترمذي (674) من طريق عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله عنه{ أن النبي صلى الله عليه وسلم بعث منادياً ينادي في فِجاج مكة: ألا إنَّ زكاة الفطر واجبة على كل مسلم على كل ذكرٍ وأنثى، حرٍّ وعبدٍ، وصغيرٍ وكبيرٍ مُدَّان من قمح، أو صاع مما سواه من الطعام ۔۔۔۔عمر بن شعیب عن ابیہ عن جدہ
سے مروی ہے حضور نے مکہ کی گلیوں میں یہ اعلان کروایا تھا کہ صدقہ فطر ہر مسلمان مرد وعورت ،آزاد وغلام اور بالغ ونابالغ پر گیہوں سے نصف صاع اور دیگر خوردنی اجناس سے ایک صاع واجب ہے}
عن أسماء بنت أبي بكر الصديق رضي الله عنهما قالت: "كُنا نُؤدي زكاة الفِطر على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم مُدَّين مِن قمْح بالمدِّ الذي تُقتاتون به" (رواه أحمد (26396)، وحميد في الأموال (2377)، والطحاوي في شرح معاني الآثار (2/ 43— حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہم لوگ حضور کے زمانے میں گیہوں سے صدقہ فطر دو مد یعنی نصف صاع نکالتے تھے، وہی مد جس سے تم لوگ غلہ و خوردنی اشیاء کی پیمائش کرتے ہو)۔
قال رسول اللہ ﷺ أدّوا زکوٰۃ الفطر صاعاً من تمر أو صاعاً من شعیر أو نصف صاع من بر، الحدیث: (طحاوی شریف، المکتبۃ الاشرفیہ دیوبند۱/۳۵۰—
حضور کا ارشاد گرامی ہے صدقہ فطر کھجور اور جو سے ایک صاع اور گیہوں سے آدھا صاع نکالو)
صدقہ فطر کی مقدار کیا ہے؟
صحابہ، تابعین، ائمہ مجتہدین اور جملہ فقہاء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ احادیث میں منصوص صدقہ فطر کی اصناف میں گیہوں کے سوا بقیہ اجناس میں قدیم پیمانے کے لحاظ سے ایک صاع نکالنا واجب ہے، البتہ گیہوں میں صدقہ فطر کی مقدار کے تئیں ائمہ کے مابین اختلاف ہوا ہے. امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کے نزدیک گیہوں میں بھی صدقۃ الفطر ایک صاع ہی واجب ہے؛ کیونکہ حضرت ابوسعید خدریؓ سے منقول ہے کہ کوئی بھی کھانے کی چیز ہو، ہم لوگ اس میں ایک صاع صدقۃ الفطر کے طورپر نکالا کرتے تھے:
كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الفِطْرِ صَاعًا مِن طَعَامٍ، أوْ صَاعًا مِن شَعِيرٍ، أوْ صَاعًا مِن تَمْرٍ، أوْ صَاعًا مِن أقِطٍ، أوْ صَاعًا مِن زَبِيبٍ. صحيح البخاري: 1506. وصحیح مسلم: 985
عن عياض بن عبدالله عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال {كنا نخرج ، إذ كان فينا رسولُ الله صلى الله عليه وسلم، زكاةَ الفطر عن كل صغير وكبير، حرٍّ أو مملوكٍ، صاعاً من طعام، أو صاعاً من أَقِطٍ، أو صاعاً من شعير، أو صاعاً من تمر، أو صاعاً من زبيب، فلم نزل نخرجه حتى قدم علينا معاوية بن أبي سفيان حاجاً، أو معتمراً، فكلَّم الناس على المنبر، فكان فيما كلَّم به الناس أن قال: إني أرى مُدَّين من سمراء الشام تعدل صاعاً من تمر، فأخذ الناس بذلك، قال أبو سعيد: فأما أنا فلا أزال أُخْرِجُه كما كنت أُخْرِجه أبداً ما عشتُ} رواه الإمام مسلم (2284) وأبوداود والترمذي وابن ماجة وابن خُزيمة وابن حِبَّان.
(حضرت ابوسعید خدری کا بیان ہے، ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنے ملک کی خوراک سے جو، کجھور، منقی، جو اور پنیر وغیرہ پر مشتمل تھی، ایک صاع ہی صدقۃ الفطر ادا کیا کرتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی ہمارا یہ معمول تھا، تاآنکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حج یا عمرہ کے لیے آئے، تو انہوں نے منبر پر خطبہ کے دوران کہا، میری رائے میں شامی گیہوں کے دو مد (نصف صاع قیمت میں) کھجور کے ایک صاع کے برابر ہیں، چنانچہ لوگوں نے اس پر عمل شروع کردیا، مگر میں توجب تک زندہ ہوں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے دستور کے مطابق (جس جنس سے بھی دوں گا) ایک صاع ہی دوں گا)۔‘‘
جبکہ خلفاے اربعہ سیدنا أبوبكر الصِّدِّيق، عمر بن الخطاب، عثمان بن عفان، علي بن أبي طالب، عبدالله بن عباس، عبدالله بن مسعود، جابر بن عبدالله، أبوهريرة، امیرمعاویہ، عبدالله ابن الزبير اور ان کی ماں أسماء بنت أبي بكر، أبو قلابة، جمہور صحابہ، امام ابوحنیفہ، سعيد بن المسيِّب، سعيد بن جبير، سفيان الثوري، عبدالله بن المبارك، عروة بن الزبير، عطاء، طاووس مجاھد، عمر بن عبدالعزيز، علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن قیم جوزیہ، قاسم بن سلام، ناصر الدین البانی رضي الله عنهم اجمعین کے نزدیک نصف صاع گیہوں کا نکالنا کافی ہے. اس موقف کی تائید میں بیشمار صحیح احادیث وآثار وارد ہوئے ہیں، ہم ان میں سے چند صحیح و متصل الاسناد روایت نقل کررہے ہیں:
۱: حضرت عبداللہ ثعلبہ کی حدیث ہے، جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر سے دو دن قبل خطبہ دیا اور گیہوں سے ایک صاع دو آدمیوں کا فطرہ ادا کرنے کا حکم فرمایا (تو ایک آدمی کا فطرہ نصف صاع گیہوں ہوا):
{حدثنا عبدالرزاق حدثنا ابن جُرَيج قال: وقال ابن شهاب: قال عبدالله بن ثعلبة بن صُعَير العُذْري {خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس قبل الفطر بيومين، فقال: أدُّوا صاعاً من بُرٍّ أو قمحٍ بين اثنين، أو صاعاً من تمر أو صاعاً من شعير، على كل حرٍّ وعبدٍ، وصغيرٍ وكبيرٍ} رواه أحمد (24063) وأبو داود وعبد الرزاق بإسنادٍ رجالُه ثِقات. ورواه الدارَقُطني (2/148) من عدَّة طرق بلفظ - عن عبد الله بن ثعلبة بن صُعَير عن أبيه - فصار مُسنداً متصلاً. وكذا رواه ابن خُزيمة – عن أبيه – (2410)
اس روایت کے کئی طرق ہیں، نعمان بن راشد ائمہ جرح وتعدیل کے یہاں ضعیف ہیں، ان کے طریق سے جب یہ روایت آئے گی تو ضعیف ہوگی، مسند احمد میں (24064) کی حدیث اور ابودائود میں (1619) کی حدیث اسی سند سے آئی ہے ؛اس لئے ضعف کا حکم لگا ہے، لیکن ہم نے جو مسند احمد کی 24063 کی حدیث نقل کی ہے اس کی سند میں نعمان بن راشد نہیں ہیں، بقیہ تمام رواۃ ثقہ ہیں؛ لہذا یہ سند بالکل صحیح اور عمدہ ہے، اس سند سے مروی نصف صاع گندم والی حدیث صحیح الاسناد اور قابل احتجاج واستناد ہے، سنن ابی دائود حدیث نمبر (1621) اور مصنف عبد الرزاق حدیث نمبر (5785 ) میں اسی صحیح سند سے حدیث مروی ہے. سنن دار قطنی (2/148) میں اس روایت کو صحیح سند سے مسنداً بھی بیان کیا گیا ہے. اب اس کے بعد یہ کہنا کہ صدقہ فطر میں نصف صاع گندم کا کافی ہوجانا حضور سے ثابت نہیں یا ضعیف روایت سے ثابت ہے کس قدر حیران کُن بلکہ افسوسناک بات ہے؟
۲: مکہ کی گلیوں میں نصف صاع گندم نکالنے کی منادی کروانے والی حدیث اوپر آچکی ہے:
عن عمرو بن شعيب، عن أبيه عن جده رضي الله عنه {أن النبي صلى الله عليه وسلم بعث منادياً في فِجاج مكة: ألا إن صدقة الفطر واجبةٌ على كل مسلمٍ ، ذكرٍ أو أنثى، حرٍّ أو عبدٍ، صغيرٍ أو كبيرٍ، مُدَّان من قمحٍ، أو سواه صاع من طعام} رواه الترمذي (669) والدارَقُطني . قال الترمذي [هذا حديث غريبٌ حسن]
اس روایت کی سند میں سالم بن نوح ہیں جو ابن حِبَّان، اور أبو زُرعة کے ہاں ثقہ اور امام أحمد بن حنبل کے یہاں مقبول راوی ہیں؛ لہذا یہ روایت بھی قابل احتجاج ہوئی، اس کی تضعیف ناقابل تسلیم ہے۔
۳: ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب گیہوں کی ارزانی وفراوانی ہوگئی تو انہوں نے نصف صاع کو صدقہ فطر کا معیار قرار دیا:
اس کی سند میں عبدالعزيز بن أبي رواد ہیں، جنہیں يحيى القطان، يحيى بن معين اور أبو حاتم الرازي نے ثقہ مانا ہے، لہذا یہ روایت بھی قابل احتجاج واستدلال ہوئی.
گیہوں سے نصف صاع فطرے کی ادائی سے متعلق آثار صحابہ:
۱: خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہی موقف تھا، دیکھئے: مصنف عبدالرزاق (5774)، (5776)، مصنف ابن أبي شيبة (3/ 170)، کتاب الأموال لحميد بن مخلد (2372)، شرح معاني الآثار للطحاوی (2/ 46)
۲: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہی موقف تھا، دیکھئے: کتاب الأموال لحميد بن مخلد (2373)، شرح معاني الآثار للطحاوی (2/ 46)
۳: حضرت عثمان بن عفان رضي الله عنه کا یہی موقف تھا: دیکھئے مصنف ابن أبي شيبة (3/ 170)، کتاب الأموال لحميد بن مخلد (2374)، شرح معاني الآثار للطحاوی (2/ 47)
٤: حضرت علي بن أبي طالب رضي الله عنه کا یہی موقف تھا، دیکھئے: مصنف عبدالرزاق (5772)، مصنف ابن أبي شيبة (3/ 172)، کتاب الأموال لحميد بن مخلد (2375)
۵: حضرت عبدالله بن زبير رضي الله عنهما بھی اسی کے قائل تھے، دیکھئے: مصنف عبدالرزاق (5766)، مصنف ابن أبي شيبة (3/ 171)، کتاب الأموال لحميد بن مخلد (2380)
٦: حضرت جابر بن عبدالله رضي الله عنهما کا بھی یہی موقف تھا دیکھئے: مصنف عبدالرزاق (5772)
۷: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اسی کے قائل تھے، دیکھئے: مصنف عبدالرزاق (5761)
۸: حضرت عبداللہ بن مسعود رضي الله عنه کا یہی خیال تھا، دیکھئے مصنف عبدالرزاق (5769)، مصنف ابن أبي شيبة (3/ 171)
۹: حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہی منسوب ہے، دیکھئے: کتاب الأموال لحميد بن مخلد (2379)، شرح معاني الآثار للطحاوی (2/ 47)،مصنف عبدالرزاق (5768). مزید تفصیلات کے لئے دیکھیں: التمهيد (4/ 137)، المحلى (6/ 130 - 131)، الأموال؛ لأبي عبيد (ص: 521)، وشرح معاني الآثار (2/ 4 - 47)، بدائع الصنائع (2/ 72)، الاختيارات (ص: 102)، زاد المعاد (2/ 19)، تنقيح التحقيق (2/ 1472)، عمدة القاري (7/ 377)، تمام المنة (ص: 387)
کیا نصف صاع کو معیار فطرہ بنانا تنہا امیر معاویہ کا اجتہاد تھا؟
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنے ملک کی خوراک سے جو، کجھور، منقی، جَو اور پنیر وغیرہ پر مشتمل تھی، ایک صاع ہی صدقۃ الفطر ادا کیا کرتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی ہمارا یہ معمول تھا، تاآنکہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ حج یا عمرہ کے لئے آئے، تو انہوں نے منبر پر خطبہ کے دوران کہا، میری رائے میں شامی گیہوں کے دو (نصف صاع قیمت میں) کھجور کے ایک صاع کے برابر ہیں، چنانچہ لوگوں نے اس پر عمل شروع کردیا، مگر میں تو جب تک زندہ ہوں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے دستور کے مطابق (جس جنس سے بھی دوں گا) ایک صاع ہی دوں گا۔‘‘ (صحيح مسلم: 985).
یہ حدیث صاف بتارہی ہے بطورخاص (فَاَخَذ النَّاسُ بِذالِكَ) کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع قائم تھا کہ گیہوں کا معیار نصف صاع تھا، جمہور صحابہ کے بالمقابل اکیلے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی رائے جداگانہ تھی۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت نے کھجور سے ایک صاع صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، لیکن بعد میں لوگوں نے ایک صاع کے بدلے گیہوں کے دو مد (نصف صاع) دینے شروع کردئیے۔‘‘
(أَمَرَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بزَكَاةِ الفِطْرِ صَاعًا مِن تَمْرٍ، أوْ صَاعًا مِن شَعِيرٍ قالَ عبدُ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عنْه: فَجَعَلَ النَّاسُ عِدْلَهُ مُدَّيْنِ مِن حِنْطَةٍ. صحيح البخاري: 1507).
یہ بھی صریح ہے کہ عہدنبوی کے بعد سارے لوگوں (فجعل الناس عدلہ) یعنی تمام صحابہ کرام کا عمل اجماعی طور پر نصف صاع سے ادائی پر تھا. غور کیا جاسکتا ہے کہ جب تک صحابہ کرام کی نظروں میں نصف صاع ادائی کی کوئی نبوی ہدایت ورہنمائی نہ ہوگی یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک صاع چھوڑ کے نصف صاع پہ سب کے سب آجائیں؟ کیا یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ اصحاب رسول نے معاذ اللہ سنت کے خلاف عمل کیا؟ لامحالہ ان کے پیش نظر کوئی ٹھوس اور ثابت ارشاد نبوی ہوگا جس کی بنیاد پر وہ گندم میں ایک صاع کی بجائے نصف صاع پہ اکٹھے ہوگئے، اور یہ وہی نبوی ارشادات وآثار صحابہ ہیں جو اوپر مذکور ہوئے ہیں، علاوہ ازیں اجماع صحابہ بذات خود حجت ہے، جمہور صحابہ کے اجماع میں ایک یا دو صحابی کا شذوذ وتفرد قادح نہیں ہے. جہاں تک حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کا ایک صاع کو نصف صاع گندم سے معادلہ کی بات ہے تو جیساکہ اوپر اشارہ کیا گیا کہ اصناف خمسہ منصوصہ میں مناط حکم علاقے کی عام خوراک (غالب قوت البلد) تھا، حجاز مقدس کی عام خوراک کھجور، جو، کشمش پنیر وغیرہ تھی جبکہ ملک شام کی عام خوراک دور معاویہ میں گیہوں تھی، لہذا تحقیق مناط کے تحت نصف صاع سے معادلہ کرکے انہوں نے عین ارشاد نبوی کی حسین تطبیق وتعمیل پیش کی، وہ بھی اجلاء صحابہ کے اقوال اور بعض نبوی ارشادات کے تناظر میں. اس تطبیق وتحقیق مناط کو نرا اجتہاد کہنا جیساکہ ابن المنذر، ڈاکٹر یوسف قرضاوی اور ان کی اتباع وتقلید میں آج کل کے بعض فضلاء لکھتے آئے ہیں اور نصف صاع گندم سے ادائی فطرہ والی تمام صحیح وثابت روایات وآثار کو بیک جنبش قلم ضعیف و ساقط الاعتبار قرار دینے کی روش انتہا درجے کی تفریط ہے جو کسی طور لائق اعتناء اور علمی دیانت وانصاف کے ملائم نہیں۔
صدقہ فطر میں اجناس کی بجائے قیمت دینا؟
ائمہ مجتہدین کے مابین امام ابوحنیفہ، سفیان ثوری، عمر بن عبدالعزیز، اور حسن بصری وغیرہم کا خیال یہ ہے کہ صدقہ فطر کی منصوص اجناس کی بجائے مقدار محدّد کی قیمت دینا بھی جائز ہے. امام سرخسی نے فقیہ ابو جعفر کے حوالے سے اجناس کے بالمقابل قیمت دینے کو افضل بتایا ہے کہ اس سے فقراء کی حاجت روائی زیادہ بہتر طریقے سے ہوسکتی ہے جوکہ وجوب فطرہ کی غرض وغایت بھی ہے تاکہ نقود سے اشیائے مایحتاج خرید کرسکیں، عہدنبوی میں مدینہ پاک میں نقود کا رواج کم تھا. اشیاء خوردنی سے لین دین کا رواج زیادہ تھا، زمانے کے حالات و تقاضے کی رعایت میں زبان رسالت مآب سے اجناس خمسہ کو معیار فطرہ بنایا گیا ؛ تاکہ ادائی بھی آسان ہو اور فقراء کی حاجت روائی بھی بہتر طور پہ ہوسکے
جبکہ آج کے زمانے کا عرف یکسر تبدیل ہوگیا ، نقود نے اجناس کی جگہ لے لی. نہ اب فقراء کو اجناس کی چنداں ضرورت بچی؛ کیونکہ فطرہ میں وصول کردہ اجناس کو سستے اور اونے پونے داموں میں وہ بیچتے نظر آتے ہیں، اور نہ معطیین کے دست رس میں اجناس بچیں؛ لہذا آج گندم، جو، کھجور سے زیادہ اہم اور قیمتی شئے نقود ہوگئے، تیسیر وتسہیل کے اصول کے پیش نظر امام ابوحنیفہ کے نزدیک اجناس کی بجائے اس کی قیمت دینا بھی جائز ہے، دیکھئے (مبسوط سرخسی 2/149)
اجناس کی بجائے قیمت کی ادائی کے جواز کی دلیل اوپر گزری ہوئی وہی حدیث ابی سعید خدری ہے جس میں مذکور ہے کہ کھجور، جو، اور کشمش کے بالمقابل گیہوں میں نصف صاع واجب کیا گیا کیونکہ اس وقت گیہوں کھجور وغیرہ کے بالمقابل کافی مہنگا تھا، تو کھجور و کشمش وغیرہ ایک صاع واجب تھا جبکہ گیہوں اس کا آدھا یعنی نصف صاع! اس سے معلوم ہوا کہ جنس سے زیادہ مالیت ملحوظ رکھی گئی. علاوہ ازیں مصنف عبدالرزاق کی یہ روایت بھی مستدل ہے:
عن قرة : قال: (جاءنا كتاب عمر بن عبدالعزيز في صدقة الفطر نصف صاع - أي من بُرّ - عن كل إنسان، أو قيمته نصف درهم)، وعن الحسن قال: لا بأس أن تعطى الدرهم في صدقة الفطر، وأبو اسحاق قال: (أدركتهم وهم يعطون في صدقة رضمان الدراهم بقيمة الطعام. يراجع: مصنف أبي شيبة (3/174)
تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں:
بدائع الصنائع (2/205) طد. دار إحياء التراث العربي ، ومؤسسة التاريخ العربي2000 م، وحاشية ابن عابدين (2/79) والشرح الكبير مع الدسوقي (1/805) ونهاية المطلب (3/420) والروضة (2/301) ومغني المحتاج (3/116) والفروع (2/540).
وجوب واحتیاط میں فرق ملحوظ رہے:
اصناف منصوصہ میں سے جس صنف سے بھی آسانی ہو مذکورہ مقدار میں صدقہ فطر ادا کردینے سے وجوب ساقط ہوجاتا ہے، تشریعی اور وجوبی طور پہ کسی ایک صنف کو دوسری پہ رجحان وفضیلت حاصل نہیں ہے لیکن چونکہ حنطہ کے مقدار واجب میں ائمہ کا اختلاف ہے، ہمارے یہاں آدھا صاع بھی کافی ہے جبکہ ائمہ ثلاثہ کے یہاں ایک صاع ہی ضروری ہے. لہذا اختلاف سے بچتے ہوئے اگر کوئی احتیاطی پہلو پر عمل کرلے اور فی کس ایک صاع یعنی ساڑھے تین کیلو گیہوں یا اس کی قیمت نکالنا چاہے تو بڑی اچھی بات ہے، اس طرح تمام دلیلوں اور تمام فقہی رایوں کے مطابق فطرہ درست ہوجائے گا۔
جن علاقوں میں اصناف منصوصہ موجود ہوں نہ وہاں ان کے استعمال کا رواج ہو تو وہاں کے لوگوں کا اپنی رائج غذاؤں میں سے کسی چیز کا صدقۂ فطر میں دے دینا کافی نہیں ہوگا؛ بل کہ منصوص اشیاء خمسہ میں سے کسی ایک صنف کی قیمت (آس پاس کے علاقوں میں دست یاب جنس کے نرخ کے اعتبار سے) دینا ہوگی ۔الدرالمختار‘‘میں ہے:
ومالم ینص علیه یعتبر فیه القیمة —-
جو چیزیں منصوص نہیں، ان میں قیمت کا اعتبار ہوگا (الدرالمختارمع الشامی: ۳/۳۱۹)
احناف کے یہاں صدقہ فطر:
کے وجوب کے لئے ”غناے شرعی“ ہونا ضروری ہے. یعنی نصاب زکات رکھنے والے شخص پر ہی صدقہ فطر بھی واجب ہے. جبکہ ائمہ ثلاثہ کے یہاں ایک دن رات کے اخراجات رکھنے والے غربا پر بھی صدقہ فطر ہے. ہمارے یہاں صاحب نصاب پر زکات اور صدقہ فطر دونوں واجب ہیں، لہذا یہ ضروری نہیں ہے کہ صدقہ فطر میں فقیر کو ہر اعتبار سے آسودہ کردینے کی بیجا فکر سوار کرلیا جائے. صدقہ فطر کے بہ نسبت زکات کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، مد زکات سے فقراء و مستحقین کی خاطر خواہ مالی مدد ممکن ہوتی ہے. آج کل ہمارے دیار کے عرف کے مطابق کھجور اور کشمش کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں جبکہ گیہوں اور جو بالکل سستا ہے۔ ایسے میں کھجور اور کشمش سے صدقہ فطر نکالنے پہ شدت آمیز بیجا زور صرف کرنا مناسب نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں شاید ہی کھجور و کشمش بطور عمومی غذا و خوراک کہیں استعمال ہوتے ہوں، جبکہ یہی مدار حکم ہے، پہر اس سے فطرہ نکالنے پہ اتنی توانائی صرف کیوں ہورہی ہے؟ اصناف منصوصہ میں کسی ایک کو دوسرے پہ فضیلت حاصل نہیں ہے. معطیین اپنی سہولت سے جس معیار کو چاہیں اپنائیں. وجوب فطرہ کو اصناف متعددہ میں دائر کرنے کی حکمت تیسیر وتسہیل فراہم کرنا ہے. کسی خاص صنف سے ادائی کی مہم چلانا یا اس بابت تیز وتند جملے کسنا درست رویہ نہیں ہے. فی کس نصف صاع گیہوں کی ادائی کی تفصیلات اوپر کی سطروں میں آپ پڑھ چکے ہیں، غالب قوت البلد مناط حکم ہے، جس آبادی میں کھجور و کشمش یا گیہوں عمومی اشیائے خوردنی نہ ہو وہاں کے لوگ آس پاس کے علاقوں میں دستیاب جنس کے نرخ کے مطابق اصناف منصوصہ کی قیمت ادا کریں. گیہوں کا بعینہ پہانکنا یا استعمال کرنا مراد نہیں ہے. بلکہ اس سے بنی جملہ چیزیں اسی کے حکم میں ہونگی، صدقہ فطر کے ذریعے ہی فقراء کو آسودہ کردینا ضروری نہیں، اگر ایسا ہوتا تو فی کس اتنی معمولی مقدار واجب نہ کی جاتی، خدا تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ صاع یا نصف صاع جیسی قلیل مقدار واجب کرنے میں کیا حکمت ومصلحت کار فرما ہے؟ زکات مال میں انہی فقراء کی دل کھول کر مدد کیجئے! صاحب ثروت لوگ زکات بدن میں بھی کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھجور و کشمش کی قیمتوں سے صدقہ فطر ادا کریں تو بڑی اچھی بات ہے. اس کی ترغیب وتحسین ہونی چاہئے، لیکن جو صاحب نصاب صاحب ثروت نہ ہو وہ گیہوں سے ایک صاع (احتیاطاً) یا نصف صاع (کفایۃً) ادا کرے تو اسے ہدف طعن بنانا اور نصف صاع گیہوں سے ادائی فطرہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر ثابت مان کر بیجا تشویش وتشکیک کی فضا ہموار کرنا محتاط رویہ نہیں ہے، وجوب الگ چیز ہے اور احتیاط الگ! حیثیتوں کے اس فرق کو ملحوظ رکھنا ازبس ضروری ہے،
واللہ اعلم
(شبِ ۲۳ رمضان ١٤٤٣ چار بجے شب)
------------------------------------------------------------
اسی موضوع پر دیگر تحریر:
------------------------------------------------------------
s_a_sagar#
http://saagartimes.blogspot.com/2022/04/blog-post_26.html
No comments:
Post a Comment