Wednesday, 10 September 2025

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں: قسط (۵)

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں
قسط (۵)
-------------------------------
-------------------------------
اسلام محض چند رسوم وظواہر کا نام نہیں، اس کا جوہر و خلاصہ اور اس کی غایتِ اولیٰ یہی ہے کہ انسان اپنے بھائی انسان کے لئے نفع رساں ہو ، یہ وہ امتیاز ہے جو اسلام کو دیگر تمام مذاہب سے جدا کرتا ہے۔ دنیا کے مذاہب میں کہیں بھی خدمتِ خلق کو براہِ راست عبادت کا درجہ عطا نہیں کیا گیا، مگر اسلام نے اسے عبادت و بندگی قرار دیا اور اعلان کیا کہ سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کے کام آئے، جو اپنی ذات کے حصار سے نکل کر اجتماعی مفاد کے لئے جئے۔
یہی وجہ ہے کہ خدمتِ خلق کو محبوبیتِ الٰہی تک پہنچنے کا سب سے نزدیک اور یقینی وسیلہ قرار دیا گیا۔ جو کسی کے غم کا بوجھ ہلکا کرے، اس کے عیب کو ڈھانپے، یا اس کی پریشانی کو دور کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے دکھوں کو سہل فرما دے گا۔ گویا خدمتِ انسانیت وہ پُل ہے جس کے ذریعے بآسانی بامِ مراد تک پہنچا جا سکتا ہے۔
تصوف کا اصل جوہر بھی یہی ہے۔ ہاتھ میں تسبیح اور تن پر گدڑی پہن لینے کا نام تصوف نہیں؛ بلکہ حقیقی تصوف یہ ہے کہ انسان مخلوق کی راحت رسانی کو اپنا شعار بنائے۔ اسی مقصد کے لیے اسلام نے بیت المال کا تصور دیا تاکہ کوئی فرد کسی دوسرے کا محتاج نہ ہو، بلکہ "پورا نظامِ امت" اس کا سہارا بن جائے اور اس کی دست گیری کرے۔
حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے جب اس رفاہی نظام کو وسعت عطا کی تو وہ تصور وڈھانچہ ایسا کامل ثابت ہوا کہ آج چودہ سو برس بعد بھی دنیا کی وہ اقوام جو اسلام کی سخت مخالف ہیں، اسی کو اپنے مسائل کا حل سمجھ رہی ہیں۔ 
"عدلِ جہانگیری" کا استعارہ بھی اسی خدمت گزاری کی ایک جھلک ہے، جس نے ایک بادشاہ کے عہد کو تاریخ کے اوراق پر محفوظ وثبت کر دیا۔
انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی حیاتِ مقدسہ اس تصور کی زندہ تفسیر ہے۔ وہ خود فاقے برداشت کرتے؛ لیکن دوسروں کو سیراب کرنا اپنی ترجیح بناتے۔ افسوس کہ آج جمہوری دنیا میں وہ رفاہی نظام قریباً ناپید ہے۔ ہر دور میں مسائل ومصاعب نئے لباس پہن رہے ہیں، کبھی قحط، کبھی وبا، کبھی کورونا، کبھی سیلاب، اور کبھی دینی مدارس کے معلمین کی قلیل تنخواہیں۔
اہلِ خیر نے ہمیشہ آزمائش کے لمحوں میں انسانیت کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دیا ہے۔ کورونا کی وبا ہو یا آبی آفات، ملت کے غیور فرزندوں نے بڑھ چڑھ کر اپنے حصے کا چراغ جلایا ہے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ مدارس کے وہ اساتذہ جو قلیل مشاہروں میں زندگی کی بے رحم چکی میں پِس رہے ہیں، ان کی حالت بھی کسی آفت زدہ یا سیلاب زدہ تباہ حال انسان سے کم نہیں۔
اصحابِ ثروت بیدار ہوں 
لسانی، علاقائی، ادارہ جاتی اور وطنی تنگنائیوں سے اوپر اٹھیں۔ محض علمِ دین کی خدمت کے جذبے سے ان دکھی دل معلمین کے لئے آگے بڑھیں۔ رفاہِ انسانیت اور راحت رسانی کے اس عظیم کام میں حصہ لیں، تاکہ دنیا دیکھے کہ یہ امت فی الواقع خیر امت ہے۔ یہی قربِ خداوندی کا سب سے قریبی زینہ ہے۔
میں نہیں جانتا کہ میری یہ آواز کن دلوں تک پہنچے گی؟  یہ نالہ صحراؤں میں کھو جائے گا؟ یا  کسی صاحبِ قلب کے دل ارجمند پر دستک دے سکے گا، ویسے بھی ظلمتِ شب کو ایک چراغ سے مٹانا ممکن نہیں، میں صرف اپنے حصے کا چراغ جلایا ہوں، اگر ہر شخص اپنے حصے کا دیا روشن کرے تو اندھیرا زیادہ دیر باقی نہیں رہ سکتا:
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
آج ضرورت ہے کہ اہلِ خیر باہمی مشورے اور تدبر سے مدرسین کے لیے رفاہی، فلاحی، یا مضاربت وغیرہ کا کوئی مضبوط ومستحکم اور محفوظ وشفاف نظام قائم کریں، اگر ہر شخص اپنی بساط کے مطابق اس عملِ خیر میں شریک ہو تو یقیناً حالات کی کٹھن گھڑیاں آسان ہو سکتی ہیں۔
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
(بدھ 17 ربیع الاوّل 1447ھ10 ستمبر 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر )

No comments:

Post a Comment