لا حول ولا قوۃ الا باللہ لا منجا من اللہ الا الیہ کی فضیلت کیا ہے؟
حدثنا ابوكريب، حدثنا ابوخالد الاحمر، عن هشام بن الغاز، عن مكحول، عن ابي هريرة، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اكثر من قول لا حول ولا قوة إلا بالله، فإنها كنز من كنوز الجنة قال مكحول: فمن قال: لا حول ولا قوة إلا بالله ولا منجا من الله إلا إليه كشف عنه سبعين بابا من الضر ادناهن الفقر". قال ابو عيسى: هذا حديث ليس إسناده بمتصل، مكحول لم يسمع من ابي هريرة.
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”«لا حول ولا قوة إلا بالله» کثرت سے پڑھا کرو، کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے“۔ مکحول کہتے ہیں: جس نے کہا:
«لا حول ولا قوة إلا بالله ولا منجا من الله إلا إليه»
تو اللہ تعالیٰ اس سے ستر طرح کے ضرر و نقصان کو دور کردیتا ہے، جن میں کمتر درجے کا ضرر فقر (و محتاجی) ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:
اس کی سند متصل نہیں ہے، مکحول نے حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے نہیں سنا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14621) (صحیح) (سند میں مکحول اور ابوہریرہ کے درمیان انقطاع ہے، اس لئے مکحول کا قول، سنداً ضعیف ہے، لیکن مرفوع حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، الصحیحة 105، 1528)»
---------
راوی: وعن مكحول عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: "أكثر من قول: لا حول ولا قوة إلا بالله فإنها من كنزالجنة". قال مكحول: فمن قال: لا حول ولا قوة إلا بالله ولا منجى من الله إلا إليه كشف الله عنه سبعين بابا من الضر أدناها الفقر . رواه الترمذي. وقال: هذا حديث ليس إسناده بمتصل ومكحول لم يسمع عن أبي هريرة
حضرت مکحول رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "لاحول ولاقوۃ الا باللہ"
کثرت سے پڑھا کرو کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے! حضرت مکحول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص یہ کہے:
"لا حول ولا قوۃ الا باللہ ولا منجأ من اللہ الا الیہ"
یعنی ضرر ونقصان کو (دفع کرنے کی) قوت اور نفع حاصل کرنے کی طاقت اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی قدرت کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات اسی (کی ورضا ورحمت کی توجہ) پر منحصر ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے ضرر و نقصان کی ستر قسمیں دور کر دیتا جس میں ادنی قسم (فقر ومحتاجگی ہے) امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس روایت کی سند متصل نہیں ہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت مکحول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سماعت ثابت نہیں ہے۔
تشریح: ارشاد گرامی "جنت کا خزانہ" کا مطلب یہ ہے کہ
"لا حول ولا قوۃ الا باللہ"
جنت کا ایک ذخیرہ ہے جس سے کہ اس کو پڑھنے والا اس دن (یعنی قیامت کے دن) نفع وفائدہ حاصل کرے گا جس دن نہ دنیا کا کوئی خزانہ مال کا کام آئے گا اور نہ اولاد اور دوسرے عزیز واقا رب نفع پہنچائیں گے۔
فقر (محتاجگی) سے مراد دل کا فقر اور قلب کی تنگی ہے جس کے متعلق ایک حدیث یوں ہے فرمایا کہ
"کاد الفقر ان یکون کفرا"
فقر کفر کے قریب پہنچا دیتا ہے. لہٰذا جو شخص ان کلمات کو پڑھتا ہے تو اس کی برکت سے دل کی محتاجگی دور ہوتی ہے کیونکہ جب وہ ان کلمات کو زبان سے ادا کرتا ہے اور پھر ان کلمات کے معنی ومفہوم کا تصور کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ یقین واعتماد پیدا ہوا جاتا ہے کہ ہر امر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے ہر چیز اسی کے قبضہ قدرت کے زیر اثر ہے کسی کو نفع وفائدہ آرام و راحت دنیا میں بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اور کسی کو تکلیف ومصیب اور ضرر ونقصان میں مبتلا کر دینا بھی اسی کی طرف سے ہے پس وہ شخص بلاء ومصیبت پر صبر کرتا ہے، نعمت و راحت پر شکر کرتا ہے اپنے تمام امور اللہ ہی کی طرف سونپ دیتا ہے اور اس طرح قضا وقدر الٰہی پر راضی ہوکر حق تعالیٰ کا محبوب بندہ اور دوست بن جاتا ہے۔
حضرت شیخ ابوالحسن شاذلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اپنی ایک سیاحت کے دوران جن صاحب کی رفاقت و صحبت مجھے حاصل رہی. انہوں نے مجھے نیکی وبھلائی کی وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ خوب اچھی طرح جان لو! اعمال نیک کے لئے اقوال وکلمات میں تو
"لاحول ولاقوۃ الا باللہ"
کے برابر کوئی قول وکلمہ اور افعال میں اللہ کی طرف جھکنے اور اس کے فضل کی راہ کو اختیار کرنے کے برابر کوئی فعل ممد و معاون نہیں۔ آیت
(ومن یعتصم باللہ فقد ھدی الی صراط مستقیم)
جس شخص نے اللہ کی راہ دکھائی ہوئی کو اختیار کیا تو بلاشبہ اسے مضبوط راہ کی ہدایت بخشی ہوگی۔
امام ترمذی کے قول کے مطابق اگرچہ اس حدیث کی سند متصل نہیں اور اس طرح یہ حدیث منقطع ہے لیکن اس حدیث کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ روایت صحیح ثابت کرتی ہے جو صحاح ستہ میں بطریق مرفوع منقول ہے کہ:
"لا حول ولا قوۃ الا باللہ فانہا کنز من کنوز الجنۃ"
اسی طرح حدیث کی توثیق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت مرفوع سے بھی ہوتی ہے جسے نسائی اور بزاز نے نقل کیا ہے:
"لا حول ولا قوۃ الا باللہ"
اور اس میں
"لا منجا من اللہ الا الیہ کنز من کنوز الجنۃ"
بھی ہے لہٰذا حضرت مکحول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث اگرچہ اسناد کے اعتبار سے منقطع ہے مگر مفہوم ومعنی کے اعتبار سے قابل اعتماد ہے. (تسبیح، تحمید تہلیل اور تکبیر کے ثواب کا بیان جلد دوم مشکوۃ شریف. جلد دوم ۔ تسبیح، تحمید تہلیل اور تکبیر کے ثواب کا بیان ۔ حدیث 850. لاحول ولاقوۃ کی فضیلت) (صححہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2022/01/blog-post_80.html
No comments:
Post a Comment