Saturday, 15 January 2022

کیا برش و ٹوتھ پیسٹ مسواکِ مسنون کا بدل ہوسکتا ہے؟

کیا برش و ٹوتھ پیسٹ مسواکِ مسنون کا بدل ہوسکتا ہے؟

---------------------------------
----------------------------------

اسلام دین فطرت ہے، اس میں باطنی طہارت کے ساتھ جسمانی طہارت ونظافت کا اتنا لحاظ رکھا گیا ہے کہ پاکی وصفائی کو آدھا ایمان قرار دیا گیا. استنجاء، وضوء، غسل، کلی، ناک اور دانت ومنہ کی صفائی کا اولیں حکم دیا گیا ہے. اعضائے جسمانی میں بطورخاص منہ انسانی حسن و جمال کا مرکز ہے، اسی سے تبسم کی لہریں نکلتی ہیں، یہیں سے الفاظ کے پھول جھڑتے ہیں، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ ودانت کی صفائی کو تمام انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی سنت اور اسے دس امورفطرت میں شمار کیا، رضائے الہی کا ذریعہ اور منہ کی طہارت و پاکیزگی کا باعث بتایا. اسی پر بس نہیں؛ بلکہ اپنی تریسٹھ سالہ معیاری زندگی کے شب وروز میں پانچ نمازوں، نوافل کے وقت سونے سے پہلے اور سونے کے بعد، کھانے کے بعد اور لوگوں سے ملنے سے پہلے؛ حتی کہ مرض الوفات تک میں یہ عمل کرکے دکھلایا ہے۔ مسواک کے بارے میں اس قدر تاکیدی حکم دیا گیا کہ بعض صحابہ (کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کو یہ گمان ہونے لگا تھا کہ کہیں اِس بارے میں مجھ پر قرآن کریم نہ نازل ہوجائے۔
مسواک کی لغوی حقیقت:
جس چیز سے بھی دانتوں کو رگڑا جائے اور مَل کر صاف کیا جائے. اسے عربی لغت کے اعتبار سے ”سِواك“ (سین کے کسرہ کے ساتھ) کہتے ہیں۔ یہ لفظ، ساكَ  یسوكُ سوكًا سے ماخوذ ہے۔ عربی زبان میں لفظ ”سواک“ فعل سواک (معنی مصدری) (استاك، يستاك، استياكاً: مسواک کرنا) اور آلہ (مسواک، اسم آلہ) دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ البتہ لفظ سواک سے جب آلہ (مسواک) مراد ہوگا. اس وقت اس کی جمع سُوُكٌ آئے گی، جیسے کتاب کی جمع کُتُبٌ۔ علامہ زبیدی تاج العروس میں تحریر فرماتے ہیں:
"ساكَ الشَّيءَ يَسُوكُه سَوْكًا: دَلَكَه، ومِنْهُ أُخِذَ المِسواكُ" (تاج العروس" (27/215) 
[سوك]: ساك الشيء يسوكه سوكا: دلكه، ومنه أخذ المسواك، وهو مفعال منه، قاله ابن دريد (الجمهرة 3 / 48 ). وساك فمه بالعود يسوكه سوكا وسوكه تسويكا، واستاك استياكا، وتسوك قال عدي بن الرقاع:
وكأن طعم الزنجبيل ولذة * صهباء ساك بها المسحر فاها (التهذيب واللسان) ولا يذكر العود ولا الفم معهما أي مع الاستياك والتسوك. والعود: مسواك وسواك، بكسرهما وهو ما يدلك به الفم قال ابن دريد: وقد ذكر المسواك في الشعر الفصيح، وأنشد:
إذا أخذت مسواكها ميحت به رضابا كطعم الزنجبيل المعسل (الجمهرة 3 / 48 ونسبه لذي الرمة).
(الزبيدي /تاج العروس 13/588، الصحاح (4/ 1593)، النهاية في غريب الحديث (2/ 425)، تهذيب الأسماء واللغات (3/ 157)، المصباح المنير (2/350)، لسان العرب (10/ 446)، القاموس المحيط (3 / 318)، المعجم الوسيط (1/ 465) 
اگر فعل سواک یعنی معنی مصدری (بمعنی مسواک کرنا) مراد لیا جائے تو اس وقت مطلق رگڑنے کے معنی مراد لئے جاتے ہیں، یعنی لغوی تعریف میں عود (لکڑی) یا "منہ" رگڑنے کے ذکر کی حاجت نہ ہوگی:
ولا يذكر العود ولا الفم معهما أي مع الاستياك والتسوك. (الزبيدي /تاج العروس 13/588) جبکہ بعض اہل لغت سواک کی لغوی تعریف میں لکڑی کی قید بھی ملحوظ رکھتے ہیں:
لسان العرب میں ہے:
[سوك] 
سوك: السوك: فعلك بالسواك والمسواك، وساك الشيء سوكا: [ص: 307] دلكه، وساك فمه بالعود يسوكه سوكا
[سوك] 
(لسان العرب، حرف السين سوك ج 7)
علامہ ابن الاثیر نہایہ میں لکھتے ہیں:
السِّوَاكُ بِالْكَسْرِ، والْمِسْوَاكُ: مَا تُدْلَكُ بِهِ الأسْناَن مِنَ العِيدانِ. يُقَالُ سَاكَ فَاه يَسُوكُهُ إِذَا دَلَكه بالسِّواك. فَإِذَا لَمْ تَذْكُر الفمَ قُلْتَ اسْتَاكَ. (ص 425 - ج 2 كتاب النهاية في غريب الحديث والأثر- سوك)-
سواک کی فقہی واصطلاحی تعریف:
سواک کی فقہی واصطلاح تعریف میں مذاہب اربعہ کے مابین قدرے اختلاف ہے. حنفیہ کے یہاں وہ لکڑی جس سے دانتوں کو رگڑا جائے اسے اصطلاحا ًسواک کہتے ہیں:
"اسم لخشبة معينة للاستياك (العناية شرح الهداية مع شرح فتح القدير" (1/24، البحرالرائق 1/ 21، عمدة القاري 3/ 184)۔
مالکیہ کے یہاں لکڑی یا کسی بھی سخت وکھردری چیز سے دانتوں کی زردی اور منہ کی بدبو زائل کردی جائے تو اسے سواک کہہ سکتے ہیں:
"استعمال عود أو نحوه في الأسنان لإذهاب الصفرة والريح" (مواهب الجليل (1/264) وأوجزالمسالك (1/368)
جبکہ شوافع وحنابلہ کے ہاں بالکل عموم ہے، جس چیز کے ذریعہ بھی دانتوں کی صفائی عمل میں لائی جائے اسے سواک کہا جائے گا:
"استعمال عود أو نحوه في الأسنان لإذهاب التغير ونحوه" (المجموع (1/270) وشرح مسلم (3/177) ومغني المحتاج (1/55) والمبدع (1/68) وكشاف القناع (1/70)
سواک کے کون سے معنی مراد ہیں؟
مذاہب اربعہ کے  فقہاء کے ہاں سواک کے اصطلاحی معنی کی تعیین کے بابت تفصیل آچکی ہے. اب یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ سنن وضوء وصلوۃ کے ذیل میں جس سواک کا ذکر روایتوں میں آتا ہے. تو وہاں سواک کے کون سے معنی مراد ہوتے ہیں؟ چنانچہ صحیحین کی روایت ہے: 
"لَوْلَا أنْ أشُقَّ علَى أُمَّتي أوْ علَى النَّاسِ لَأَمَرْتُهُمْ بالسِّوَاكِ مع كُلِّ صَلَاةٍ. أخرجه البخاري (887)، ومسلم (252– 
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ارشاد نبی صلی الله علیہ وسلم منقول ہے کہ ”اگر میں مسلمانوں کے حق میں مشقت محسوس نہ کرتا اور مجھے مشقت کا ڈر نہ ہوتا تو میں ان کے لئے ہر نماز کے وقت مسواک کو ضروری قرار دیتا)۔ یہاں نماز کے وضوء یا قیام نماز (علی اختلاف التقدیر) سے پہلے جس سواک کے ضروری قرار دیئے جانے کا تذکرہ ہے تو احناف سمیت تمام فقہاء کا ماننا ہے کہ یہاں سواک سے مراد آلہ سواک نہیں؛ بلکہ فعل سواک یعنی معنی مصدری بمعنی مسواک کرنا یعنی دانت اچھی طرح رگڑکر صاف کرنا مراد ہے: مراقی الفلاح میں ہے: 
"والسواك" بكسر السين اسم للاستياك والعود أيضا والمراد الأول لقوله صلى الله عليه وسلم: "لولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بالسواك عند كل صلاة" (طحطاوي على المراقي: 67)
اسی طرح جب لکڑی یا اس کے مشابہ کوئی چیز دست یاب نہ ہوسکے تو شوافع کے سوا ائمہ ثلاثہ کا اتفاق ہے کہ فعل سواک کی سنیت اور اجر و ثواب انگلی پھیر دینے سے بھی ادا ہوجائے گی: 
تُجْزِی الاَصَابِعُ مَجْزَی السِّوَاکَ. (بيهقی، السنن الکبری، 1: 41، رقم : 178– انگلیاں مسواک کے قائم مقام ہیں۔‘‘
ایک اور حدیث  میں ہے: 
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ رَجُلاً مِنَ الأَنْصَارِ مِنْ بَنِى عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ رَغَّبْتَنَا فِى السِّوَاكِ، فَهَلْ دُونَ ذَلِكَ مِنْ شَىْءٍ؟ قَالَ: «إِصْبَعَاكَ سِوَاكٌ عِنْدَ وُضُوئِكَ تُمِرُّهُمَا عَلَى أَسْنَانِكَ، إِنَّهُ لاَ عَمَلَ لِمَنْ لاَ نِيَّةَ لَهُ وَلاَ أَجْرَ لِمَنْ لاَ حِسْبَةَ لَهُ» (ضعيف: أخرجه البيهقي في سننه 1/ 41 في كتاب الطهارة باب السواك بالأصابع، وفيه رجل غير مسمى—— 
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار کے قبیلہ بنوعمرو بن عوف میں سے ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے ہمیں مسواک کرنے کی ترغیب دی ہے، کیا اس کے علاوہ بھی کوئی چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارے وضو کے وقت تمہاری دو انگلیاں مسواک ہیں جن کو تم اپنے دانتوں پر پھیرتے ہو۔ بغیر نیت کے کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا اور ثواب کی نیت کے بغیر کوئی اجر نہیں ہوتا۔‘‘ (بيهقی، السنن الکبری، 1: 41، رقم: 179)
اس سے بھی پتہ چلتا ہے بوقت ضرورت ومجبوری مسواک کے مفہوم سے لکڑی کی قید ختم ہوجاتی ہے اور جس چیز سے بھی منہ کی صفائی و پاکیزگی حاصل ہوجائے مسواک کی سنت وفضیلت اس سے ادا ہوجائے گی. البحرالرائق میں ہے:
"وَتَقُومُ الْأُصْبُعُ أَوْ الْخِرْقَةُ الْخَشِنَةُ مَقَامَهُ عِنْدَ فَقْدِهِ أَوْ عَدَمِ أَسْنَانِهِ فِي تَحْصِيلِ الثَّوَابِ لَا عِنْدَ وُجُودِهِ وَالْأَفْضَلُ أَنْ يَبْدَأَ بِالسَّبَّابَةِ الْيُسْرَى ثُمَّ بِالْيُمْنَى وَالْعِلْكُ يَقُومُ مَقَامَهُ لِلْمَرْأَةِ لِكَوْنِ الْمُوَاظَبَةِ عَلَيْهِ تُضْعِفُ أَسْنَانَهَا فَيُسْتَحَبُّ لَهَا فِعْلُهُ." ا.هـ وكذا في فتح القدير." وَعِنْدَ فَقْدِهِ يُعَالِجُ بِالْأُصْبُعِ ا.هـ
قال ابن عابدين في الحاشية: قوله (أو الأصبع) قال في الحلية ثم بأي أصبع استاك لا بأس به والأفضل أن يستاك بالسبابتين يبدأ بالسبابة اليسرى ثم باليمنى وإن شاء استاك بإبهامه اليمنى والسبابة اليمنى يبدأ بالإبهام من الجانب الأيمن فوق وتحت ثم بالسبابة من الأيسر كذلك ا.ه (البحرالرائق مع منحة الخالق 21/1)
اگر سواک کی تعریف اصطلاحی میں لکڑی کی قید لازمی ہوتی تو انگلی پھیرنا اس کا بدل کسی طور نہ ہوسکتا تھا۔ (شرح فتح القدير 1/ 22، حاشية ابن عابدين 1/ 115، التمهيد 7/ 202، مواهب الجليل 1/ 265، المغني 1/ 137، الإنصاف 1/ 118) وهو اختيار النووي (ينظر: المجموع 1/ 382) وابن قدامة (ينظر: المغني 1/ 137)
مسواک کی فضیلت کی بنیاد منہ کی صفائی ہے یا کوئی خاص لکڑی؟
پھر نسائی شریف کی اس حدیث میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سواک کی غیر معمولی فضیلت کی بنیاد دانت منہ کی طہارت وصفائی یعنی فعل استیاک ہے، محض چوب وخشب اس کی بنیاد نہیں:
السِّواكُ مَطهرةٌ للفمِ، مَرضاةٌ للرَّبِّ (النسأي 5— دانتوں کی صفائی یعنی مسواک کرنا منہ کی پاکیزگی اور رب کی خوشنودی کا ذریعہ ہے)
سواک کی شرعی حیثیت: 
مسواک کرنے کی سنیت پہ ائمہ اربعہ کا تو اتفاق ہے؛ لیکن اختلاف اس بارے میں ہے کہ وضو کی سنت ہے یا نماز کی؟۔ شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک سنن وضو اور سنن صلوٰة دونوں میں سے ہے۔ احناف کے مشہور قول کے مطابق صرف وضو کی سنتوں میں سے ہے۔ نماز کی سنتوں میں سے نہیں ہے۔ لیکن ایک قول ہمارے ہاں بھی سنن صلوۃ کا ہے، جیسا کہ علامہ ابن الہمام نے لکھا ہے کہ ہمارے یہاں مسواک کرنا پانچ اوقات میں مستحب ہے: 
ويستحب عندنا في خمسة مواضع:
1..عندإصفرار الأسنان (جب دانت پیلے ہو جائیں)
2..عند تغیر الرائحة (جب منھ میں بو پیدا ہو جائے)
3..عندالقیام من النوم (نیند سے بیدار ہوتے وقت)
4..عندالقیام إلى  الصلوٰة (نماز کے لئے کھڑے ہوتے وقت)
5..عندالوضوء (وضو کے وقت)
لہٰذا اس قول کی بنا پر احناف کے نزدیک مسواک کرنا وضو کے وقت سنت موکدہ ہے اور نماز کے وقت سنت غیرموکدہ، مستحب ہے. (فتح القدیر 25/1) .
مسواک کس چیز کی ہو؟
متعدد روایات میں مسواک کرنے کی تاکید آئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی اسے عملاً کرکے بتایا؛ حتی کہ مرض وفات میں بھی اسے ترک نہیں فرمایا، آپ کے زمانے میں جس چیز کی مسواک  دست یاب تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اوقات میں مختلف مسواک استعمال فرمائے ہیں، ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) کی روایت میں پیلو کی مسواک کا ذکر ہے:
عنِ ابنِ مسعودٍ رَضِيَ اللهُ عنه, أنَّه كان يَجْتني سواكًا مِنَ الأراكِ، وكان دَقيقَ الساقَيْنِ، فجعلَتِ الرِّيحُ تَكْفَؤُهُ؛ فضحِكَ القومُ منه، فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وعلى آلِه وسلَّمَ: مِمَّ تَضحَكونَ؟ قالوا: يا نبيَّ اللهِ، مِن دِقَّةِ ساقَيْهِ، فقال: والذي نفْسي بيدِهِ، لَهما أثقَلُ في الميزانِ مِن أُحُدٍ.الصحيح المسند. (849.—حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کہ وہ پیلو (مسواک کے درخت) پر مسواک توڑنے چڑھے اور وہ پتلی پنڈلیوں والے تھے تو ہوا انہیں ادھر ادھر جھکانے لگی، اس پر قوم (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) ہنسنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم لوگ کس لئے ہنس رہے ہو؟ تو انہوں نے جواب دیا: اے اللہ کے نبی! ان کی پنڈلیوں کی باریکی کی وجہ سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبصے میں میری جان ہے، یہ دونوں پنڈلیاں میزان میں احد پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہیں)۔
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت میں کھجور کی تازہ ٹہنی کی مسواک کا ذکر ہے:
دَخَلَ عبدُالرَّحْمَنِ بنُ أبِي بَكْرٍ علَى النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ وأنا مُسْنِدَتُهُ إلى صَدْرِي، ومع عبدِ الرَّحْمَنِ سِواكٌ رَطْبٌ يَسْتَنُّ به، فأبَدَّهُ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بَصَرَهُ، فأخَذْتُ السِّواكَ فَقَصَمْتُهُ، ونَفَضْتُهُ وطَيَّبْتُهُ، ثُمَّ دَفَعْتُهُ إلى النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فاسْتَنَّ به، فَما رَأَيْتُ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ اسْتَنَّ اسْتِنانًا قَطُّ أحْسَنَ منه، فَما عَدا أنْ فَرَغَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ رَفَعَ يَدَهُ أوْ إصْبَعَهُ ثُمَّ قالَ في الرَّفِيقِ الأعْلَى. ثَلاثًا، ثُمَّ قَضَى، وكانَتْ تَقُولُ: ماتَ بيْنَ حاقِنَتي وذاقِنَتِي. صحيح البخاري. 4438.—-
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ عبدالرحمٰن بن ابى بکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنےسینے کے ساتھ سہارا دے رکھا تھا۔ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ میں کھجور کی تازہ ٹہنی کی مسواک لئے اسے کررہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل مسواک کی طرف دیکھا، تو میں نے مسواک لے کر اسے دانتوں سے چبایا اور اچھی طرح سے قابل استعمال بناکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھادی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مسواک جتنی اچھی طرح سے کی، اس طرح سے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی مسواک کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ مسواک سے فارغ ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ یا اپنی انگلی اٹھائی اور فرمایا۔ ”فی الرفیق الاعلیٰ“ (اے اللہ! مجھے رفیق اعلی میں پہنچا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا تین دفعہ کہا اور پھر وفات پاگئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ہنسلی اور ٹھوڑی کے مابین تھا۔ ان روایات سے واضح ہے کہ موقع محل کے اختلاف سے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مسواک مختلف ہوتی تھی. حضور صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی حدیث میں مسواک کو کسی مخصوص آلے کے ساتھ لازمی محدود و مقید نہیں فرمایا. کسی مخصوص لکڑی کا انتخاب واستعمال اُس وقت کے  عرف وعادت یا بعض جزوی طبعی خصوصیت کی بنیاد پر تھا، اس کا یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ احادیث میں مذکور لکڑیوں کے علاوہ دیگر چیزوں کی مسواک ممنوع قرار پاجائے! اسی لئے مذاہب اربعہ کا اتفاق ہے کہ لکڑی کی مسواک بیشک افضل وبہتر ہے: "الموسوعة الفقهية" (4/140) میں ہے:
 "اتَّفَقَ فُقَهَاءُ الْمَذَاهِبِ الأْرْبَعَةِ عَلَى أَنَّ أَفْضَلَهُ جَمِيعًا: الأْرَاكُ، لِمَا فِيهِ مِنْ طِيبٍ، وَرِيحٍ، وَتَشْعِيرٍ يُخْرِجُ وَيُنَقِّي مَا بَيْنَ الأْسْنَانِ" انتهى.
فقہ حنفی کے لئے: (حاشية الطحطاوي) (ص 44)، (حاشية ابن عابدين) (1/115).
فقہ مالکی کے لئے (مواهب الجليل) للحطاب (1/382)، (التاج والإكليل) للمواق (1/263).
فقہ شافعی کے لئے (المجموع)  للنووي (1/282)، (الحاوي الكبير)) للماوردي (1/86).
اور فقہ حنبلی کے لئے (الإنصاف) (1/119)، (الفروع) لابن مفلح (1/146) دیکھیں!
لیکن عذر وحرج اور کلفت ومشقت کے وقت دانتوں کی صفائی اور منہ کی پاکیزگی جس چیز سے بھی حاصل ہوجائے اس سے مسواک کی سنیت  ادا ہوجائے گی، اصل تو یہی ہے کہ آلہ سواک میں بھی حتی الوسع اتباع نبی کی کوشش کرے، لیکن عذر وحرج کے وقت لکڑی طرز کی سخت اور کھردری چیز مثلا برش اور ٹوتھ پیسٹ وغیرہ سے اچھی طرح دانت ومنہ صاف کرلئے جائیں تو اگرچہ یہ آلہ مسنونہ کا مستقل بدل تو نہیں بن سکتا؛ لیکن مسواک مسنون کی فضیلت و ثواب نیت کرلینے کے بعد اس سے حاصل ہوسکتی ہے، سواک کی فضیلت فعل سواک یعنی طہارت وصفائی میں مبالغے کے باعث ہے، کسی درخت کی مخصوص لکڑی کے باعث ستر درجے کی فضیلت نہیں ہے۔ ہاں جراثیم کش ہونے میں بعض لکڑیوں کی طبعی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے، یہ استحباب وافضلیت میں یقیناً مؤثر ہوگی جس سے کسی کو انکار نہیں! اس ذیل میں خوب اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ عذر کے حالات میں عارضی طور پہ مسواک مسنون کی نیت کے ساتھ برش و ٹوتھ پیسٹ سے دانت کی اچھی طرح صفائی کرنے سے مسواک مسنون کی فضیلت کا حصول صرف گنجائش کی حد تک ہی ہے. باقی لکڑی کے جن مسواک کو سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرت کے دس امور میں شامل فرمایا ہے اور انہیں سنن انبیاء کہا ہے. ان کی فضیلت اپنی جگہ مسلم ہے، جملہ احکام، فوائد اور نمازوں کے ثواب میں اضافے میں پلاسٹک برش و ٹوتھ پیسٹ ان کا بدل نہیں بن سکتا۔ ہذا ما عندی والصواب عند اللہ۔
15  جنوری 2022
https://saagartimes.blogspot.com/2022/01/blog-post_15.html

No comments:

Post a Comment