کیا اللہ تعالی ہر جگہ موجود ہیں؟
ذات باری تعالی جسم وجہات اور ازمنہ وامکنہ سے یکسر پاک اور غیرمحدود و لامتناہی ہے. اس کی ذات پوری دنیا اور دنیا کے ذرے ذرے کو تھامے ہوئے اور محیط ہے، وہ قیّوم السماوات والارض ہے. مخلوقات کے وجود کے لئے حیزوحلول ضروری ہے. جبکہ ذات باری تعالی کے ہر جگہ وجود کے لئے تحیز، حلول وتکیّف کی ضرورت نہیں؛ بلکہ وہ بحیثیت "قیوم" کائنات کے ذرے ذرے کو محیط ہے. اس پہ ایک دو نہیں متعدد نصوص موجود ہیں:
"وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ"
میں "واسع" کا مفہوم یہی ہے کہ ذات باری تعالی کو شرق وغرب جیسی محدود جہات میں بند کردینا درست نہیں. اس کا وجود کائنات کے ذرے ذرے کو محیط ہے۔
اللّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لاَ تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلاَ نَوْمٌ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ مَن ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَاء وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ وَلاَ يَؤُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (سورة البقرة (2)، الآية: 255)
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِن ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيم (سورة المجادلة (58)، الآية: 7)
يَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلاَ يَسْتَخْفُونَ مِنَ اللّهِ وَهُوَ مَعَهُمْ إِذْ يُبَيِّتُونَ مَا لاَ يَرْضَى مِنَ الْقَوْلِ وَكَانَ اللّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطًا (سورة النساء (4)، الآية: 108)
هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاء وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (سورة الحديد (57، الآية: 4)
آیات مبارکہ میں "وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ" سعت وجود باری تعالی کو صراحت کے ساتھ بتایا گیا ہے، استوی علی العرش کے ذیل میں ذات باری تعالی کو یک گونہ محدود کردینے والے احباب "وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ" جیسی آیات سے سے احاطہ علمی مراد لیتے ہیں اور سعت وجود کا انکار کرتے ہیں جو درست نہیں ہے؛ کیونکہ احاطہ علمی کو "أحاط بكل شيء علماً" جیسی آیت میں بطور خاص بیان کردیا گیا ہے، تو پھر ان آیتوں میں بھی وہی احاطہ علمی کے تکرار در تکرار کے کیا معنی؟
طول، عرض اور عمق (ابعاد ثلاثہ) سے مرکب موجود مادی وحسی کے وجود کے لئے تحیز وتکیف درکار ہوتا ہے. موجود غیرمادی کے وجود کے لئے تحیز وتکیف یا جہات کی قطعی ضرورت نہیں ہوتی. بعض نصوص میں ذات باری تعالی کے لیے جہت فوق وسماء کی نسبت جہت علو کے ذاتی تفوق کے لئے کی گئی ہے تحدید جہت مخصوصہ مراد نہیں۔ یہ کہنے کی بات نہیں ہے کہ وجود باری غیر مادی ہے، لہذا ہر جگہ موجود ہونے کے لئے تحیز وتکیف کی ضرورت ہے نہ سمات نقص کا تحقق ہوگا. سعت وجود باری کو عام فہم انداز میں بتانے کے لیے "اللہ ہر جگہ موجود ہے" جیسی تعبیر اختیار کی گئی ہے. اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے. جمہور علماء وارباب افتاء اسے استعمال کرتے چلے آئے ہیں. ان سب کا ایک غلط و باطل عقیدے پہ مجتمع ہونا محال ہے. عقیدے کا مسئلہ ویسے ہی انتہائی حساس و نازک ہے، منطقی و کلامی موشگافیوں کے ذریعے اسے طول دینا اور لاطائل بحثوں کا لامتناہی سلسلہ دراز کرتے رہنا صالح ذہانتوں کو انتشار کا شکار کرنا ہے جو مفید نہیں. فقط
https://saagartimes.blogspot.com/2022/01/blog-post_67.html
No comments:
Post a Comment