سماج میں تیزی سے پھیلتا ہوا ایک اخلاقی ناسور
---------------------------------
----------------------------------
اہلیت، صلاحیت، قابلیت اور لیاقت سے آنکھیں موند کر، اپنوں، چہیتوں، رشتہ داروں اور اعزہ واقارب کے ساتھ ترجیحی سلوک اپناتے ہوئے انہیں نوازنا، معاشرتی، اجتماعی، دینی وسماجی عہدے ومناصب پہ براجمان کردینا آج کے دور کی بے قابو وباء ہے۔
اسے اقرباء پروری کہتے ہیں، اپنے اثر ورسوخ کا بیجا استعمال کرتے ہوئے اہل، قابل اور محنتی افراد کے ہوتے ہوئے نا اہلوں کو نوازنے؛ یعنی اقرباء پروری کی رسمِ بد، معاشرہ کے "ارتقائی سفر" کو ریورس گِیَر لگادیتی ہے؛ کیونکہ زبانِ رسالتِ مآب میں اسے "علامت قیامت" (انتظار قیامت) کہا گیا ہے (إذا ضُيِّعَتِ الأمانَةُ فانْتَظِرِ السَّاعَةَ قالَ: كيفَ إضاعَتُها يا رَسولَ اللَّهِ؟ قالَ: إذا أُسْنِدَ الأمْرُ إلى غيرِ أهْلِهِ فانْتَظِرِ السَّاعَةَ. عن أبي هريرة.صحيح البخاري: 6496–حضرت بوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب امانت ضائع کی جائے تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! امانت کس طرح ضائع کی جائے گی؟ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: ’’جب کام نااہل لوگوں کے سپرد کردیئے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو‘‘۔ (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب رفع الأمانۃ)۔
اکثر میدانوں میں شعوری یا لاشعوری طور پہ دبے پائوں یہ بیماری سرایت کرچکی ہے. اچھے اچھے صاحبان جبہ ودستار کو خودانتفاعی کی یہ وباء قابو کرچکی ہے۔
ترقی کی راہ میں یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ نتائج وعواقب سے بے پروا ہوکر، جفاکشی، جواں مردی، جرأت اور عزم وحزم کے ساتھ بر وقت اس ناسور پہ قابو پانے کی سخت ضرورت ہے۔
۱۱جنوری ۲۰۲۲
https://saagartimes.blogspot.com/2022/01/blog-post_14.html
No comments:
Post a Comment