Thursday, 27 January 2022
شام میں حضرت حجر بن عدی رضی اللہ عنہ کی قبر کی بے حرمتی: حقیقت کیا ہے؟
أسانيد الصحاح الست
Friday, 21 January 2022
لا حول ولا قوۃ الا باللہ لا منجا من اللہ الا الیہ کی فضیلت کیا ہے؟
خودساز وعہد ساز شخصیت - مولانا محمد صابر نظامی القاسمی
Sunday, 16 January 2022
صحابئ رسول کو عذابِ قبر اس کے متعلق تحقیق
تحقیقات سلسلہ وار، بقلم ابواحمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجراتی
صحابئ رسول کو عذابِ قبر اس کے متعلق تحقیق
(تحقیقات سلسلہ نمبر 34)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(ایک صحابئ رسول کو عذابِ قبر کے متعلق تحقیق)
سوال:- ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک نیک،صالح اورمتقی صحابی کے دفن سے فارغ ہوئے تو آپ علیہ السلام کو ان پر عذاب قبر کا احساس ہوا تو آپ نے ان کے گھر والوں سے صورت حال دریافت فرمائی تو آپ کو بتلایا گیا کہ یہ بندۂ خدا بکریاں چراتے تھے، اور ان کے پیشاب سے بچنے کا اہتمام نہ فرماتے تھے، تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: إستنزهوا من البول فإن عامة عذاب القبر منه (پیشاب سے بچو،چونکہ عموما عذاب قبر اسی وجہ سے ہوتا ہے) اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے؟
فقط والسلام۔
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب:-
یہ واقعہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، حضرت مفتی سعید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھا ہے:
"لم أره و لو ثبت هذا لكان فصلا في الباب و حجة في مورد النزاع"
میں نے یہ حدیث نہیں دیکھی اور اگر یہ واقعہ صحیح سند سے ثابت ہو جائے تو بول ما یؤکل لحمہ کی طہارت و عدم طہارت کا جھگڑا ختم ہوجائے." ( تحفۃ الالمعی جلد۔١ صفحہ۔۳۱۷ زمزم پبلشرز کراچی) علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے العرف الشذی جلد ۱ صفحہ ۱۰۹ پر لکھا ہے:
"و أما ما ذكر في حاشية نورالأنوار عن مستدرك الحاكم قصة معاذ أنه كان يرعي الشياہ فسنده ضعيف فلا يصح حجة لنا"۔
ترجمہ۔ مصنف نورالانوار نے مستدرک حاکم کے حوالے سے حضرت معاذ جو بکریاں چراتے تھے کا جو قصہ نقل کیا ہے اس کی سند ضعیف ہے۔ ہمارے خلاف وہ واقعہ حجت اور دلیل نہیں بن سکتا۔ علامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی رحمہ اللہ نے اعلاء السنن میں جلد ۱ صفحہ ۳۸۸ حدیث نمبر ٤۰٦ پر لکھا ہے:
روي أنه عليه السلام لما فرغ من دفن صحابي صالح أبتلي من عذاب القبر جاء إلي امرأته فسئلها عن أعماله فقالت كان يرعى الغنم و لا يتنزه من بوله فحينئيذ قال عليه السلام إستنزهوا من البول فإن عامة عذاب القبر منه
كذا في نورالأنوار و عزاه في حاشيته إلي الحاكم
الحاكمة و قال في العرف الشذي.سنده ضعيف و لكنه يكفي تأييدا للعموم و إبقائه علي حاله
ترجمہ: ایک روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک نیک صحابی کی تدفین سے فارغ ہوئے جنہیں عذاب قبر میں مبتلا کیا گیا تھا تو آپ علیہ السلام ان صحابی کی اہلیہ کے پاس آئے اور ان سے ان صحابی کے معمولات کے متعلق دریافت فرمایا تو ان کی اہلیہ نے بتلایا کہ وہ بکریاں چراتے تھے اور پیشاب سے احتراز نہیں فرماتے تھے تو آپ علیہ السلام نے اس وقت یہ حدیث ارشاد فرمائی استنزہو الخ۔ پیشاب سے بچا کرو اس لیے کہ عموما عذاب قبر اسی وجہ سے ہوتا ہے. اسی طرح نورالانوار میں ہے اور صاحب نورالانوار نے اس کی نسبت مستدرک حاکم کی طرف کی ہے اور العرف الشذي میں لکھا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے لیکن عموم کی وجہ سے وہ مؤید بن سکتی ہے۔ حضرت مولانا یوسف صاحب بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے معارف السنن جلد ۱ صفحہ۔۲۷٦ پر اس حدیث کے متعلق لکھا ہے کہ:
"قال شيخنا و ما ذكره الشيخ أحمد الجونفوري في 'نور الأنوار' من قصة هذا الحديث أنه عليه السلام لما فرغ من دفن صحابي صالح ابتلي بعذاب القبر جاء إلي امرأته فسئلها عن أعماله فقالت كان يرعى الغنم و لا يتنزه من بوله فحينئذ قال عليه السلام إستنزهوا من البول فإن عامة عذاب القبر منه؛ فلم أره و لو ثبت هذا لكان فصلا في الباب و حجة في مورد النزاع"
معارف السنن میں مذکورہ بالا عبارت کے تحت حاشیہ میں لکھا ہے:
تنبيه. وقع في العرف الشذي هنا و كذا في فيض الباري(١_٣١٤) تصحيف و تحريف و الصحيح ما ذكرت فليتنبه.
نورالانوار (مکتبۂ بشری) میں صفحہ نمبر ۲۸۵-۲۸٦ پر یہ حدیث مذکور ہے اس عبارت میں مذکور ہے:
و قصة هذا الحديث الناسخ ما روي أنه عليه السلام لما فرغ من دفن صحابي صالح ابتلي بعذاب القبر جاء إلي امرأته فسألها عن أعماله فقالت كان يرعى الغنم و لا يتنزه من بوله فحينئذ قال عليه السلام إستنزهوا من البول فإن عامة عذاب القبر منه
اسی عبارت کے تحت لگے حاشیہ میں اشراق الابصار کے حوالہ سے لکھا ہے.
أما القصة فلم أجدها من هذا اللفظ..
ان ساری عبارات سے اس قصہ کی عدم صحت معلوم ہوتی ہے خلاصہ یہ کہ یہ قصہ صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے لہذا اس کے نشر میں احتیاط سے کام لینا چاہیے ۔۔۔۔ البتہ یہ بات واضح رہے کہ إستنزهوا من البول فإن عامة عذاب القبر منه اور اس جیسے الفاظ یہ مستقل الگ حدیث ہے اور وہ صحیح حدیث ہے۔ ملاحظہ ہو
[عن الحسن البصري:] استنزِهوا من البوْلِ، فإنَّ عامَّةَ عذابِ القبرِ من البوْلِ
ابن حجر العسقلاني (ت ٨٥٢)، التلخيص الحبير ١/١٥٨ • رواته ثقات مع إرساله • أخرجه سعيد بن منصور كما في «التلخيص الحبير» لابن حجر (١/٣١٢)، وابن سمعون الواعظ في «أماليه» (٢٩٦
- [عن أبي هريرة:] استنْزِهوا من البولِ
فإن عامّةَ عذابِ القبرِ منه
الدارقطني (ت ٣٨٥)، سنن الدارقطني ١/٣١٤ • الصواب مرسل • أخرجه الدارقطني
استنزِهوا من البولِ فإنَّ عامَّةَ عذابِ القبرِ منهُ
ابن الملقن (ت ٧٥٠)، البدرالمنير ٢/٣٢٣ • صحيح
اس تحقیق سے معلوم ہوگیا کہ بالا سوال میں مذکور واقعہ درست اور صحیح نہیں ہے، ہاں البتہ وہ دو صحابئ رسول جن میں سے ایک کو پیشاب سے اجتناب نہ کرنے اور دوسرے صحابی کو چغل خوری کرنے کی وجہ سے عذاب قبر کا ہونا صحیح روایات سے ثابت ہیں۔
مکمل تحقیق ملاحظہ فرمائیں 👇
213 حدثنا عثمان قال حدثنا جرير عن منصور عن مجاهد عن ابن عباس قال مر النبي صلى الله عليه وسلم بحائط من حيطان المدينة أو مكة فسمع صوت إنسانين يعذبان في قبورهما فقال النبي صلى الله عليه وسلم يعذبان وما يعذبان في كبير ثم قال بلى كان أحدهما لا يستتر من بوله وكان الآخر يمشي بالنميمة ثم دعا بجريدة فكسرها كسرتين فوضع على كل قبر منهما كسرة فقيل له يا رسول الله لم فعلت هذا قال لعله أن يخفف عنهما ما لم تيبسا أو إلى أن ييبسا [ص: 379]
(صحيح البخاري | كِتَابٌ: الْوُضُوءُ | بَابٌ: مِنَ الْكَبَائِرِ أَنْ لَا يَسْتَتِرَ مِنْ بَوْلِهِ)
ترجمہ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ یا مکہ کے قبرستانوں میں سے کسی قبرستان سے گزرے پس آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے دو انسانوں کی آواز سنی جنہیں قبر میں عذاب دیا جا رہا تھا تھا اور انہیں کسی گناہ کبیرہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا تھا پھر آپ نے فرمایا کیوں نہیں نہیں ان دونوں میں کا ایک اپنے پیشاب سے احتراز نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کھاتا تھا پھر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے کھجور کے درخت کی ایک ٹہنی منگوائی اور اس کے دو ٹکڑے کیے ہیں اور ہر قبر پر ایک کپڑا رکھ دیا بس آپ علیہ الصلاۃ والسلام سے دریافت کیا گیا اے اللہ کے رسول آپ نے یہ کیوں کیا آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا شاید ان دونوں سے ان ٹہنیوں کے خشک ہونے تک ان سے تخفیف کردی جائے۔ اس حدیث سے متعلق چند باتیں قابل ذکر ہیں. ایک تو یہ کہ ان قبروں میں کون مدفون تھا چنانچہ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 320 پر لکھا ہے کہ ان مدفونین کے نام حدیث میں مذکور نہیں، چنانچہ ان کی ٹوہ میں نہیں پڑنا چاہیے، البتہ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ ان مدفونین میں سے ایک تو حضرت حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ تھے یہ قول باطل ہے، اور اور اس کے بطلان پردلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کی تدفین میں شریک تھے، جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے البتہ مذکورہ مدفونین کے بارے میں مسند احمد کی ایک روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان مذکورہ حضرات کی تدفین میں شریک نہ تھے، چنانچہ مسند احمد میں 22292 نمبر پر یہ روایت ہے
22292 حَدَّثَنَا أَبُوالْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمٍ شَدِيدِ الْحَرِّ نَحْوَ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ، قَالَ: فَكَانَ النَّاسُ يَمْشُونَ خَلْفَهُ، قَالَ: فَلَمَّا سَمِعَ صَوْتَ النِّعَالِ وَقَرَ ذَلِكَ فِي نَفْسِهِ، فَجَلَسَ حَتَّى قَدَّمَهُمْ أَمَامَهُ لِئَلَّا يَقَعَ فِي نَفْسِهِ شَيْءٌ مِنَ الْكِبْرِ، فَلَمَّا مَرَّ بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ إِذَا بِقَبْرَيْنِ قَدْ دَفَنُوا فِيهِمَا رَجُلَيْنِ، قَالَ : فَوَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مَنْ دَفَنْتُمْ هَاهُنَا الْيَوْمَ ؟ ". قَالُوا : يَا نَبِيَّ اللَّهِ، فُلَانٌ وَفُلَانٌ. قَالَ : "إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ الْآنَ، وَيُفْتَنَانِ فِي قَبْرَيْهِمَا". قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِيمَ ذَاكَ ؟ قَالَ : " أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَتَنَزَّهُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ". وَأَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا، ثُمَّ جَعَلَهَا عَلَى الْقَبْرَيْنِ، قَالُوا : يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَلِمَ فَعَلْتَ ؟ قَالَ : "لِيُخَفَّفَ عَنْهُمَا". قَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَحَتَّى مَتَى هُمَا يُعَذَّبَانِ؟ قَالَ: "غَيْبٌ لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ ". قَالَ: "وَلَوْلَا تَمْرِيجُ قُلُوبِكُمْ، أَوْ تَزَيُّدُكُمْ فِي الْحَدِيثِ لَسَمِعْتُمْ مَا أَسْمَعُ".
حكم الحديث: إسناده ضعيف جدا. (مسند أحمد | مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ | حَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے ہے کہ اللہ کے رسول رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان حضرات کی تدفین کے وقت وہاں شریک نہ تھے اگر شریک ہوتے تو آپ یہ دریافت نہ فرماتے کہ ان قبروں میں کون مدفون ہے؟ اب وہ مدفونین کون تھے تو ابو موسی المدینی کا قول ہے کہ وہ دونوں دو کافروں کی قبریں تھیں اور انہوں نے مندرجہ ذیل حدیث سے استدلال کیا ہے:
[عن جابر بن عبدالله:] مرَّ نبيُّ اللهِ ﷺ على قبرَينِ مِن بني النَّجّارِ هلكا في الجاهليةِ فسمِعَهُما يعذبانِ في البولِ والنَّمِيمَةِ
أبوموسى المديني (ت ٥٨٠)، عمدة القاري ٣/١٧٩ • حسن وإن كان إسناده ليس بالقوي • أخرجه الطبراني في «المعجم الأوسط» (٤٦٢٨) باختلاف يسير
کہ یہ روایت گرچہ قوی نہیں، لیکن اس کا معنی درست ہے۔ بایں طور کہ یہ دونوں کافر تھے اگر مسلمان ہوتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت مؤمن کے حق میں صرف ٹہنی کے خشک ہونے تک نہ ہوتی بلکہ دائمی تخفیف ہو جاتی مگر آپ نے فرمایا کہ تخفیف ٹہنی کے خشک ہونے تک ہوگی اس سے ثابت ہوا کہ یہ دونوں مسلمان نہیں تھے یہ آپ علیہ السلام کی شفقت تھی ایک کافر کے ساتھ کہ آپ نے متعینہ مدت کے لیے عذاب میں تخفیف کی شفاعت کردی، حافظ اس کے بعد ابن عطار کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ ابن عطار کہتے ہیں کہ وہ دونوں مسلمان تھے اور وہ فرماتے ہیں کہ اس بات کا کوئی جواز ہی نہیں کہ انہیں کافر کہا جائے اس لئے کہ اگر وہ دونوں کافر ہوتے تو آپ علیہ السلام ان کے لئے نہ تخفیف عذاب کی دعا کرتے اور نہ ہی کوئی رحم کھاتے اور اگر یہ خصوصیات میں سے ہوتا تو جس طرح ابو طالب کی وضاحت کی اس طرح اس کی بھی وضاحت کر دیتے ابن حجر رحمت اللہ علیہ خود کی رائے پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ و ما قاله آخرا هو الجواب و ما طالب به من الجواب قد حصل و لا يلزم التنصيص على لفظ الخصوصية کہ ابن عطار کے مطلوبہ جوابات مل چکے، رہی بات خصوصیت کی تو خصوصیت کے لفظ کے ساتھ نص کا وارد ہونا ضروری نہیں، لیکن جس روایت سے ابو موسی نے استدلال کیا وہ ضعیف ہے جیسا کہ انہوں نے خود اس کا اعتراف کیا لیکن امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی نے ایک روایت نقل کی ہے ہے اور اسے صحیح علی شرط مسلم قرار دیا ہے البتہ ان دونوں مدفونین کا کافر ہونے کا احتمال ظاہر ہے لیکن ان دونوں کا مسلمان ہونا درست معلوم ہوتا ہے مذکورہ بالا حدیث کے جمیع طرق کو دیکھتے ہوئے اس طور پر کہ ابن ماجہ (قدیمی کتب خانہ ۔مقابل آرام گاہ کرانچی کا نسخہ) میں صفحہ نمبر ۲۹ پر یہ روایت اس طرح مذکور ہے.
حَدَّثَنَا أَبُوبَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَوَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْرَيْنِ جَدِيدَيْنِ، فَقَالَ: "إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ: أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَنْزِهُ مِنْ بَوْلِهِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ" حكم الحديث: صحيح
اس میں قبرین جدیدین کا لفظ ہے اس سے ان دونوں کا زمانۂ جاہلیت سے ہونا منتفی ہوگیا، نیز سابق میں مذکور مسند احمد کی ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں بقیع الغرقد کا نام مذکور ہے اور بقیع مسلمانوں کا قبرستان ہے اس سے بھی ان دونوں کا مسلمان ہونا معلوم ہوتا ہے، نیز ان دونوں کے مسلمان ہونا مسند احمد کی ایک اور صحیح روایت سے معلوم ہوتا ہے وہ روایت یہ ہے:
20373 حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ ، حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ مَرَّارٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرَةَ ، قَالَ : بَيْنَا أَنَا أُمَاشِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي وَرَجُلٌ عَنْ يَسَارِهِ، فَإِذَا نَحْنُ بِقَبْرَيْنِ أَمَامَنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ، وَبَلَى، فَأَيُّكُمْ يَأْتِينِي بِجَرِيدَةٍ "، فَاسْتَبَقْنَا فَسَبَقْتُهُ، فَأَتَيْتُهُ بِجَرِيدَةٍ، فَكَسَرَهَا نِصْفَيْنِ، فَأَلْقَى عَلَى ذَا الْقَبْرِ قِطْعَةً وَعَلَى ذَا الْقَبْرِ قِطْعَةً. وَقَالَ: "إِنَّهُ يُهَوَّنُ عَلَيْهِمَا مَا كَانَتَا رَطْبَتَيْنِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ إِلَّا فِي الْبَوْلِ وَالْغِيبَةِ ".
حكم الحديث: إسناده قوي.
اس میں الا فی البول و الغیبۃ کا حصر ہے اور یہ ان دونوں کے کافر ہونے کے منافی ہے بایں طور کہ کافر کو احکام اسلام کے ترک کا عذاب تو ہوتا ہے لیکن اس کے کفر کا عذاب تو مسلسل جاری رہتا ہے۔۔(دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ کافر ہوتے تو اولا اسلام لانے کے مکلف ہوتے پھر احکام اسلام پر عمل کے مگر وہ مسلمان تھے اس لئے انہیں احکام اسلام پر عمل کرنے کا مکلف بنایا گیا اور احکام اسلام کے ترک پر انہیں عذاب دیا جا رہا تھا) لہذا ان دونوں کا مسلمان ہونا زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔ انتہی. اسی طرح سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی اس طرح کی احادیث پیش کی جاتی ہے۔ مکمل تحقیق ملاحظہ فرمائیں 👇 (منقول) 1 سعید مقبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
لَمَّا دَفَنَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَعْدًا قَالَ: لَوْ نَجَا أَحَدٌ مِّنْ ضَغْطَۃِ الْقَبْرِ لَنَجَا سَعْدٌ، وَلَقَدْ ضُمَّ ضَمَّۃً اخْتَلَفَتْ مِنْہَا أَضْلَاعُہ، مِنْ أَثَرِ الْبَوْلِ.
”جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو دفن کردیا، تو فرمایا: اگر قبر کے دبوچنے سے کوئی بچ سکتا، تو وہ سعد تھا۔ اسے بھی قبر نے اس قدر دبایا کہ پسلیوں کا آپس میں اختلاط ہوگا، ایسا پیشاب کے چھینٹوں کی وجہ سے ہوا۔“ (الطبقات لابن سعد: ٣/٣٢٩)
تبصرہ: سند ”ضعیف“ اور ”منقطع“ ہے۔
1 سعید مقبری رحمہ اللہ تابعی براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں، لہٰذا یہ ”مرسل“ ہونے کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔
2 ابومعشر نجیح بن عبد الرحمن جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
علامہ بوصیری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَقَدْ ضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ.
”اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔“
(اتحاف المھرۃ: ٤/٥١١)
2 سعد رضی اللہ عنہ کے گھر والے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کَانَ یُقَصِّرُ فِي بَعْضِ الطَّہُورِ مِنَ الْبَوْلِ .
”سعد بسا اوقات پیشاب کرتے وقت چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔“ (دلائل النّبوۃ : ٤/٣٠، إثبات عذاب القبر کلاھما للبیھقي: ٩٤)
تبصرہ: سند ”ضعیف“ ہے۔ بعض اہل سعد، کون ہے؟ کوئی پتہ نہیں! نیز ان کو خبر دینے والا بھی مبہم ہے۔
3 سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے جنازہ کے موقع پر فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہٖ لَقَدْ سَمِعْتُ أَنِینَہ، وَرَأَیْتُ اخْتِلافَ أَضْلاعِہٖ فِي قَبْرِہٖ .
”اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میری جان ہے! میں نے سعد کے رونے کی آواز سنی ہے اور پسلیوں کا اختلاط دیکھا ہے۔“
(الموضوعات لابن الجوزي: ٣/٢٣٣)
تبصرہ: سند ”باطل“ ہے۔ قاسم بن عبدالرحمن انصاری ”ضعیف“ ہے۔ توثیق و عدالت ثابت نہیں۔ امام یحی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَیْسَ بِشَيْءٍ .
”کسی کام کا نہیں۔“
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے فرمایا:
ضَعِیفُ الْحَدِیثِ، مُضْطَرَبُ الْحَدِیثِ.
”اس کی حدیث ”ضعیف و مضطرب“ ہوتی ہے۔“
نیز امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ نے ”منکر الحدیث“ کہا ہے۔“
(الجرح والتّعدیل لابن أبي حاتم: ٧/١١٣)
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
ھٰذَا حَدِیثٌ لَّا یَصِحُّ، وَآفَتُہ، مِنَ الْقَاسِمِ.
”یہ حدیث ثابت نہیں ہے، وجہ ضعف قاسم (بن عبدالرحمن) ہے۔“
4 مشہور تابعی حسن بصری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّہ، ضُمَّ فِي الْقَبْرِ ضَمَّۃً حَتّٰی صَارَ مِثْلَ الشَّعْرَۃِ، فَدَعَوْتُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ أَنْ یُّرَفِّہَ عَنْہُ، وَذَالِکَ أَنَّہ، کَانَ لَا یَسْتَبْرِءُ مِنَ الْبَوْلِ.
”سعد پر قبر اس قدر تنگ ہوئی کہ وہ بال کی طرح باریک ہو گئے، میں نے اللہ سے دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے بارِ خاطر ہلکا کردے۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ سعد پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔“
(الموضوعات لابن الجوزي: ٣/٢٣٤)
تبصرہ:
سند سخت ”ضعیف“ ہے۔
1 سند ”منقطع“ ہے۔ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ھٰذَا حَدِیثٌ مَّقْطُوعٌ، فَإِنَّ الْحَسَنَ لَمْ یُدْرِکْ سَعْدًا.
”یہ حدیث ”منقطع” ہے، کیوں حسن بصری نے سعد کا زمانہ نہیں پایا۔“
2 ابوسفیان طریف بن شہاب صفدی جمہور کے نزدیک ”ضعیف و متروک“ ہے۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ سیدنا سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کو ضغطۃ القبر ”قبر کی پکڑ“ پیشاب کے چھینٹوں کی وجہ سے نہ تھا اور اس کے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں، جیسا کہ آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں۔
فائدہ: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:
لَہٰذَا الْعَبْدُ الصَّالِحُ الَّذِي تَحَرَّکَ لَہُ الْعَرْشُ، وَفُتِحَتْ لَہ، أَبْوَابُ السَّمَاوَاتِ، وَشَہِدَہ، سَبْعُونَ أَلْفًا مِّنَ الْمَلَائِکَۃِ لَمْ یَنْزِلُوا الْـأَرْضَ قَبْلَ ذَالِکَ، وَلَقَدْ ضُمَّ ضَمَّۃً ثُمَّ أُفْرِجَ عَنْہُ .
”یہ تو ایسی نیک شخصیت ہیں، کہ جن کی موت سے عرشِ الٰہی میں بھی جنبش آ گئی، ساتوں آسمانوں کے دروازے کھول دیے گئے اور ستر ہزار فرشتے جنازہ میں حاضر ہوئے، جو اس سے پہلے زمین پر نہ اترے تھے۔ پہلے ان پر قبر تنگ ہوئی ، پھر کشادہ ہوگئی۔
(الطبقات لابن سعد: ٣/٤٣٠، سنن النسائي: ٢٠٥٥، وسندہ، صحیحٌ)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ لِلْقَبْرِ ضَغْطَۃً، لَوْ کَانَ أَحَدٌ نَّاجِیًا مِّنْہَا نَجَا سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ .
”قبر ایک بار ضرور دبوچتی ہے، اگر اس سے کوئی بچ سکتا ہوتا، تو سعد ہوتے۔“
(مسند الإمام أحمد: ٦/٥٥ ،٩٨، وسندہ، صحیحٌ)
امام ابن حبان رحمہ اللہ (٣١١٢) نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”قوی“ کہا ہے۔
(سیرأعلام النّبلاء: ١/٢٩٠)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صلّٰی عَلٰی صَبِيٍّ أَوْ صَبِیَّۃٍ فَقَال: لَوْ نَجَا أَحَدٌ مِّنْ ضَمَّۃِ الْقَبْرِ لَنَجَا ہٰذَا الصَّبِيُّ.
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بچے یا بچی کا جنازہ پڑھایا اور فرمایا: قبر کی تنگی سے کوئی بچ سکتا ہوتا، تو یہ بچہ بچتا۔“
(الأوسط للطبراني : ٢٧٥٣، المَطالب العالیۃ لابن حجر: ٤٥٣٢، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”صحیح“ کہا ہے۔
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رَوَاہُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْـأَوْسَطِ، وَرِجَالُہ، مُوَثَّقُونَ.
ــ”یہ معجم الاوسط للطبرانی کی روایت ہے اور اس کے تمام راویوں کی توثیق کی گی ہے۔“
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: ٣/٤٧)
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ صَبِیًّا دُفِنَ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَوْ أَفْلَتَ أَحَدٌ مِّنْ ضَمَّۃِ الْقَبْرِ لََـأَفْلَتَ ہٰذَا الصَّبِيُّ.
”ایک بچے کی تدفین کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبر کے کھچاؤ سے کسی کی جاں خلاصی ہوسکتی ہوتی، تو اس بچے کی ہوتی۔“
(المعجم الکبیر للطبراني: ٤/١٢١، ح: ٣٨٥٨، صحیحٌ)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَرِجَالُہ، رِجَالُ الصَّحِیحِ .
”اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔“
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: ٣/٤٧)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ہٰذِہِ الضَّمَّۃُ لَیْسَتْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فِي شَيْئٍ، بَلْ ہُوَ أَمْرٌ یَّجِدُہُ المُؤْمِنُ، کَمَا یَجِدُ أَلَمَ فَقْدِ وَلَدِہٖ وَحَمِیمِہٖ فِي الدُّنْیَا، وَکَمَا یَجِدُ مِنْ أَلَمِ مَرَضِہٖ، وَأَلَمِ خُرُوجِ نَفْسِہٖ، وَأَلَمِ سُؤَالِہٖ فِي قَبْرِہٖ وَامْتِحَانِہٖ، وَأَلَمِ تَأَثُّرِہٖ بِبُکَاءِ أَہْلِہٖ عَلَیْہِ، وَأَلَمِ قِیَامِہٖ مِنْ قَبْرِہٖ، وَأَلَمِ الْمَوْقِفِ وَہَوْلِہٖ، وَأَلَمِ الْوُرُودِ عَلَی النَّارِ، وَنَحْوِ ذَالِکَ، فَہٰذِہِ الْـأَرَاجِیفُ کُلُّہَا قَدْ تَنَالُ الْعَبْدَ، وَمَا ہِيَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَلَا مِنْ عَذَابِ جَہَنَّم قَطُّ، وَلٰکِنَّ الْعَبْدَ التَّقِيَّ یَرْفُقُ اللّٰہُ بِہٖ فِي بَعْضِ ذَالِکَ أَوْ کُلِّہٖ، وَلَا رَاحَۃَ لِلْمُؤْمِنِ دُوْنَ لِقَاءِ رَبِّہٖ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: (وَأَنْذِرْہُم یَوْمَ الْحَسْرَۃِ)، وَقَالَ : (وَأَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْـآزِفَۃِ، إِذِ الْقُلُوبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ)، فَنَسْأَلُ اللّٰہَ تَعَالَی الْعَفْوَ وَاللُّطْفَ الْخَفِيَّ، وَمَعَ ہٰذِہِ الہَزَّاتِ، فَسَعْدٌ مِّمَّنْ نَّعْلَمُ أَنَّہ، مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ، وَأَنَّہ، مِنْ أَرْفَعِ الشُّہَدَاءِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، کَأَنَّکَ یَا ہٰذَا تَظُنُّ أَنَّ الْفَائِزَ لَا یَنَالُہ، ہَوْلٌ فِي الدَّارَیْنِ، وَلاَرَوْعٌ، وَلاَ أَلَمٌ، وَلاَ خَوْفٌ، سَلْ رَبَّکَ الْعَافِیَۃَ، وَأَنْ یَّحْشُرَنَا فِي زُمْرَۃِ سَعْدٍ.
”یہ تنگی اور پکڑ عذاب قبر نہیں ہے، بل کہ یہ تو ایک حالت ہے، جس کا سامنا مومن کو بہرصورت کرنا پڑتا ہے، جیسا کہ دنیا میں اپنے بیٹے یا محبوب کے گم ہو جانے پر پریشانی کا سامنا ہوتا ہے۔ اسی طرح اسے بیماری، جان نکلنے، قبر کے سوالات، اس پر نوحہ کرنے کے اثرات، قبر سے اٹھنے، حشر اور اس کی ہولناکی اور آگ پر پیشی وغیرہ جیسے حالات کی تکلیف بھی اٹھانی پڑتی ہے یا پڑے گی۔ ان دہشت ناک حالات سے انسان کا پالا پڑ سکتا ہے۔ یہ قبر کا عذاب ہے، نہ جہنم کا۔ لیکن اللہ تعالیٰ شفقت کرتے ہوئے اپنے متقی بندے کو بعض یا سب حالات سے بچا لیتے ہیں۔ مومن کو حقیقی و ابدی راحت اپنے رب کی ملاقات کے بعد ہی حاصل ہوگی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وَأَنْذِرْہُم یَوْمَ الْحَسْرَۃِ) (مریم: ٣٩) ‘آپ لوگوں کو حسرت والے دن سے خبر دار کردیں۔’ نیز فرمایا: (وَأَنْذِرْہُمْ یَوْمَ الْـآزِفَۃِ، إِذِ القُلُوبُ لَدَی الْحَنَاجِرِ) (المؤمن : ١٨) ‘آپ لوگوں کو تنگی اور بدحالی والے دن سے ڈرا دیں کہ جب کلیجے منہ کو آئیں گے۔’ ہم اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر ، لطف وکرم اور پردہ پوشی کا سوال کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ان جھٹکوں کے باوجود سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جنتی ہیں اور بلند مرتبہ شہدا میں سے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ کامیاب انسان کو دنیا و آخرت میں کسی قسم کی پریشانی، قلق، تکلیف، خوف اور گھبراہٹ کا سامنا نہیں ہو گا۔ اپنے رب سے دعا کریں کہ وہ ہمیں عافیت عطا فرمائے اور ہمارا حشر (سیدالانصار) سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کردے۔”
(سیرأعلام النّبلاء : ١/٢٩٠، ٢٩١)
خلاصۂ کلام:- کسی صحابی رسول کے متعلق صحیح روایات سے ثابت نہیں ہے کہ ان کو پیشاب سے پرہیز نہ کرنے کی وجہ سے عذابِ قبر ہوا ہو، سواء ایک حدیث کے "أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَتَنَزَّهُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ" وہ صحیح روایات سے ثابت ہے، لکین اس میں کسی صحابی کی تعیین مثلاً سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ یہ بھی درست اور صحیح نہیں ہے۔
فقط والسلام۔۔۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
رتبه: الطالب عبدالمتين من احمدآباد
جمعه: ابواحمد حسان بن شیخ یونس تاجپوری گجرات (الھند)
مدرس جامعہ تحفیظ القرآن اسلام پورہ گجرات
رابطہ نمبر:- 9428359610
https://saagartimes.blogspot.com/2022/01/blog-post_16.html