حقیقت تبلیغ، طریقۂ تبلیغ، تبلیغی جماعت کی تاسیس، شرعی حیثیت، اس کے مساعی وکارنامے اور ابن سلمان کا جبر!
دین اسلام میں اصل تبلیغ یعنی اللہ کے بندوں تک اللہ کا آخری دین واحکام پہنچانا ہے۔ قرآن حدیث میں صراحت کے ساتھ اس کا حکم دیا گیا ہے۔ یایھا الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک المائدہ 67۔۔۔ بخاری شریف میں حضور علیہ السلام کا فرمان ہے:
قَالَ اللَّهُمَّ اشْهَدْ فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ فَإِنَّهُ رُبَّ مُبَلِّغٍ يُبَلِّغُهُ لِمَنْ هُوَ أَوْعَى لَهُ فَكَانَ كَذَلِكَ قَالَ لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ (صحيح البخاري. كتاب الفتن رقم الحديث 6667.۔
باقی تعلیم، تدریس، تصنیف و تالیف خلافت وحکومت وغیرہ سب اسی تبلیغ دین کے آلات وذرائع ہیں۔ اسلام ابتدا ہی سے ایک تبلیغی مذہب رہا. جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے رہنے والوں کی وحشیانہ عادات چھڑواکر انھیں مسلمان بنایا ہے تو نہ ان کے پاس طاقت تھی نہ دولت۔ بلکہ صرف ایک آلۂ تبلیغ تھا جسے زبان کہتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عقیدۂ توحید پر صرف ایک ہی طریقہ سے زور دے سکتے ہیں اور وہ یہ تھا کہ بت پرستی کی خوف ناک سزاؤں سے متنبہ کریں۔ اور ان انبیا کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی تعلیمات کو یاد دلائیں جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہر زمانہ میں اللہ رب العزت کا پیغام لے کر مبعوث ہوئے تھے، البتہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جاں نثار انصار کی ایک ایسی جماعت مل گئی جو آپ پر سے اپنی جانیں قربان کرنے اور ایک آزاد حکومت کے قیام کی بنا ڈالنے کے لئے تیار تھی۔ اگرچہ اس وقت اس کی حیثیت بالکل بدل گئی تھی، مگر اس کے باوجود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تبلیغِ اسلام کا وہی طریقہ جاری رہا کہ افراد کو نیکی کی ترغیب دے کر قبولِ اسلام پر راضی کیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم تک پہنچنے والے دین کے بنیادی طور پر دو حصے ہیں: ایک حصہ تو وہ ہے جس کی مخصوص ہیئت و شکل مطلوب ومعین ہے اس میں حالات زمانہ کے لحاظ سے کمی بیشی کی اجازت قطعا کسی کو نہیں جیسے وضوء نماز اور حج وغیرہ وغیرہ۔ دوسری صورت وہ ہے جس میں نفس شئے تو مطلوب ہے لیکن بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں کی بنیاد پر اس کی شکل اور صورت متعین نہیں کی گئی جیسے جہاد فی سبیل اللہ۔ دعوت الی اللہ، علم ودین کے سلسلے کو چلانا، احکام شریعت دوسروں تک پہنچانا وغیرہ؛ کہ جہاد، دعوت، تعلیم وتبلیغ تو مطلوب ہے' لیکن اس عمل کو انجام دینے کی کوئی مخصوص ہیئت متعین نہیں کی گئی؛ بلکہ امت کے باکمال افراد کی صلاحیتوں اور عقل سلیم پہ اس کی تعیین کو چھوڑ دیا گیا۔ مثلا مساجد کی تعمیر مطلوب ہے۔ پاکی صفائی اور ان میں ذکراللہ بھی مطلوب ہے لیکن ان کی تعمیر کا کوئی خاص وضع وطرز متعین و مطلوب نہیں۔ اسی لئے عالم اسلام میں مختلف وضع کی مسجد پائی جاتی ہے۔ اور گنبد ومینار وغیرہ مسجد کے لئے شرائط میں سے نہیں ہیں۔ ہند-پاک میں دو مینار بنانے کا رواج ہے۔ خلیج میں عموما ایک مینار ہوتا ہے جبکہ دنیا کی سب سے قدیم واول مسجد بیت اللہ میں ایک بھی مینار نہیں تھا۔ نوح علیہ السلام کی دعوت (انی دعوت قومي ليلا ونهارا سورة نوح 5) واضح لفظوں میں بتارہی ہے کہ دعوت الی اللہ کی مختلف شکلیں ہیں۔ انفرادی، اجتماعی، علانیہ وخلوت، کوئی بھی شکل دعوت کے لئے متعین نہیں۔ دعوت وتبلیغ کا کام کرنے والے ہر فرد کو اختیار ہے کہ ماحول، وقت، حالات وتقاضے کے مطابق دعوت دین کے جس طریقہ کو صحیح، مفید، مؤثر اور دوررس سمجھے اسے اختیار کرے۔ اس سلسلہ میں کسی کو کسی پر روک لگانے یا اس کے طریقہ کار پہ نکیر کرنے کا کوئی حق نہیں جب تک کہ اس میں کوئی شرعی منکر یا مقاصد دینیہ سے متضاد کوئی عنصر شامل نہ ہوجائے۔ احکام دین کے منصوص اور غیرمنصوص طریقوں کو خلط ملط کردینے یا غیرمنصوص، اجتہادی، تجرباتی اور انتظامی طریقہ دعوت کو منصوص کا درجہ دیدینے کی وجہ سے دین کی خدمت کررہے دیگر مختلف اداروں اور جماعتوں میں تنازع، تصادم اور تقابل کی شکل پیدا ہوتی ہے۔ حالانکہ اگر چشم حقیقت وا کئے ان میں فرق سمجھ لیا جائے تو انگنت تنازعات کا سد باب ہوسکتا ہے اور ہم سینکڑوں ذہنی الجھنوں اور کشمکش سے نجات پاسکتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار کی گنجائش یقینا نہیں ہے کہ دعوت الی اللہ کی مخصوص شکل اور طرز کی افادیت وتاثیر کی وضاحت عمدہ سے عمدہ طریقہ سے کیجاسکتی ہے' لیکن کسی کو اپنے طرز و تجربہ کا اس طرح پابند نہیں بنایا جاسکتا جیسے احکام قطعیہ اور نصوص قرآنیہ کا۔ دین کی دعوت وخدمت کرنے والی کوئی جماعت 'اصول دین ومنہج اسلاف سے ہم آہنگ کسی بھی طریق کار کو اختیار کرتی ہے تو یہ اس کا حق ہے اور وہ اس میں حق بجانب ہے۔ لیکن ان کے طرزدعوت سے فرق رکھنے والے دیگر شعبہائے دین کی تحقیر، تنقیص، تقلیل شان یا ان کی افادیت ونافعیت کا انکار کرنا بالکل غلط ہے۔ دعوتی طریقہ کار کی بعض چیزیں تو منصوص ہوتی ہیں لیکن دیگر متعدد چیزیں محض انتظامی ہوتی ہیں جو قرآن وحدیث اور حیات صحابہ سے مستنبط ہوتی ہیں. ایسی چیزوں اور شکلوں کی ہیئت کذائی کی تنفیذ پہ منصوص طریقے جیسا اصرار کرنا اور دوسروں پہ زبردستی تھوپنا صحیح نہیں ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نفس تبلیغ پہ ہر زمانہ میں عمل ہوتا رہا ہے۔البتہ حالات وزمانے کے اعتبار سے طریقے مختلف رہے ہیں۔ حضور علیہ السلام کی وفات کے بعد ہفتہ میں ایک یا دو مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس لوگ جمع ہوتے اور احادیث سناتے اور انہیں مسائل بیان کرتے تھے۔ بخاری میں ہے:
[ص: 39] بَاب مَنْ جَعَلَ لِأَهْلِ الْعِلْمِ أَيَّامًا مَعْلُومَةً
70 حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ كَانَ عَبْدُاللَّهِ يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَوَدِدْتُ أَنَّكَ ذَكَّرْتَنَا كُلَّ يَوْمٍ قَالَ أَمَا إِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنْ ذَلِكَ أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُمِلَّكُمْ وَإِنِّي أَتَخَوَّلُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ كَمَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا بِهَا مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا (صحيح البخاري. كتاب العلم)
حضرت ابوہریرہ ہفتہ میں ایک دفعہ مسجد نبوی میں منبر کے قریب کھڑے ہوکے احادیث سنایا کرتے تھے۔ حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ ہر جمعہ کو خطبہ شروع ہونے سے پہلے احادیث سنایا کرتے تھے۔ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ مستقلا تبلیغ کیا کرتے تھے۔ (اسدالغابہ فی معرفة الصحابہ 55/3۔ رقم 2789)
حضرت سعد بن ابی وقاص کی درخواست پہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ڈیڑھ ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کوفہ تبلیغ کے لئے بھیجا۔ (اسدالغابہ 3/283۔ رقم 3177۔ کذا فی الاصابہ 201/4۔ رقم 4970)۔۔
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ، عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی جماعت کو بصرہ اور عبادہ بن صامت اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کی جماعت کو ملک شام بھیجا۔ (اسدالغابہ 294/3۔ الاصابہ 307/4۔ رقم 3197)۔
اس کے بعد پھر ایک وقت آیا کہ احادیث کتابی شکل میں لکھی گئیں۔ جگہ جگہ حدیث سنانے کے حلقے لگتے۔ بعض محدثین کے حلقہ میں ایک لاکھ یا اس سے زائد آدمی موجود رہتے۔ (مرقات المفاتیح 57/1۔ رشیدیہ)۔
پھر ایک وقت آیا کہ مشائخ نے تصوف اور توجہ باطن کے ذریعہ تبلیغ کی۔پہر علماء نے مدارس قائم کئے۔ واعظین نے وعظ کہے۔ مناظرین نے مناظرے کئے۔ درس وتدریس، تصنیف و تالیف، رسائل وجرائد، ارشاد وتلقین کا سلسلہ شروع ہوا۔ اور یہ تمام طرق تبلیغ دین کے لئے اختیار کئے گئے۔ غرض یہ امت کبھی بھی مجموعی حیثیت سے نفس تبلیغ سے غافل نہیں رہی۔اور ہر ہر طریقہ تبلیغ نہایت موثر ومفید ثابت ہوا (محمودیہ ملخصا 200/4)۔
دین کی بنیادی تعلیم، عقائد، اخلاق واعمال کی اصلاح ضروری و فرض عین ہے۔ خواہ جس ذریعہ سے بھی اس کا حصول ممکن ہو! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین سیکھنا سکھانا اور اس پر عمل کرنا فرض ہے۔ دین سکھنے کے لئے جس کو سہولت ہے کہ مدارس دینیہ میں داخل ہوکر باقاعدہ نصاب پڑھے تو وہ یہی صورت اختیار کرلے۔ جس کے پاس اتنا وقت نہیں یا اتنی مالی وسعت نہیں یا عمر زائد ہوچکی ہو یا حافظہ وذہن ایسا نہیں کہ تو خواہ وہ خود آہستہ آہستہ اہل دین سے زبانی سیکھے یا کتاب کے ذریعہ سیکھے یا اہل علم کی تقاریر سے سیکھے غرض جو صورت بھی قابو میں ہو اس کو اختیار کرے۔جب تک اس میں کوئی قبح ومفسدہ نہ ہو۔ مختلف استعداد رکھنے والوں کے لئے کوئی خاص صورت اسہل وانفع ہوتو اس کا انکار مکابرہ ہے اور اس خاص صورت کو ہر شخص کے لئے لازم قرار دینا بھی تضییق وتحجیر ہے۔ پھر سیکھے ہوئے دین کو دوسروں تک پہنچانا فرض کفایہ ہے۔
تبلیغی جماعت کا مقصد تاسیس:
دہلی واطراف کے میو علاقے کے عمومی بے دینی کو دیکھ کے مولانا محمد الیاس کاندھلوی نے یہ طے کرلیا تھا کہ لادینیت کے اس عمومی سیلاب کے روک تھام کے لئے اسی سطح کی عمومی محنت کی ضرورت ہے۔اور انہوں نے اپنے طویل تجربہ اور بالغ نظری سے یہ سمجھ لیا تھا کہ اپنے ماحول میں اور مشاغل میں گھرے رہ کر غریبوں اور کاشتکاروں کا دین سیکھنے کے لئے اتنا وقت نکالنا کہ جس سے ان کی اصلاح ہوجائے ناممکن ہے۔ اور ان سے ابھی یہ مطالبہ کرنا بھی صحیح نہیں ہے کہ تمام کی تمام اس عمر میں مکاتب کے طالبعلم بن جائیں اور ان سے یہ توقع بھی صحیح نہیں کہ صرف وعظ ونصیحت سے ان کی اصلاح ودرستگی کا انقلاب ان کی بگڑی ہوئی زندگیوں میں بپا ہوجائے. مگر ان تمام مشکلات کے ہوتے ہوئے مولانا کاندھلوی کے نزدیک ان لوگوں کی زندگیوں میں یہ اصلاحی انقلاب بپا کرنا ضروری بھی تھا۔ آپ کو اس کی یہ تدبیر سمجھ میں آئی کہ یہ لوگ کچھ مدت کے لئے جماعتوں کی شکل میں دینی علوم کے مرکزوں کی طرف نکلیں۔ اور وہاں کے عوام وجہلاء کو کلمہ ونماز کی تبلیغ کریں اور اس طرح اپنا پڑھا ہوا سبق پختہ کریں۔ اور وہاں کے اہل علم حضرات کی مجالس میں بیٹھ کر ان علماء کی باتوں کو مکمل غور وفکر کے ساتھ سنیں اور ان اہل علم کی زندگیوں کو دیکھ کر اپنی زندگی کی اصلاح کریں اور اس طرح علمی وعملی زندگی حاصل کریں۔ علماء کی براہ راست تشکیل نہ کریں، وہ حضرات علماء جن دینی مشاغل میں لگے ہوئے ہیں انکو تو وہ خوب جانتے ہیں اور ان کے منافع کا وہ تجربہ رکھتے ہیں۔ دعاء لینے واستفادہ کے لئے ان کی خدمت میں حاضری کی تلقین فرمائی۔ تاکہ اس کام کو علماء کرام کی سرپرستی حاصل رہے۔
تبلیغی جماعت کا بانی:
حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ اللہ (بانیِ تبلیغی جماعت) کی دینی تعلیم اور تربیتِ اخلاق کی ابتداء قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کے دربارگوہر بارسے ہوئی، پہلی بیعت کا شرف بھی حضرت گنگوہی سے ہی حاصل ہوا۔ حضرت گنگوہی کے فیض صحبت اور پھر بعد میں حضرت مولانا خلیل احد سہارنپوری رحمہ اللہ کی تعلیم وتربیت نے مولانا محمد الیاس صاحب کو شریعت وطریقت کا جامع اور ظاہر وباطن کا مصلح اور مربی بنادیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے ان دونوں شیوخ اور مربیوں کے فیوض وبرکات کو مولانا مرحوم کے ذریعہ عالم اسلام کے بڑے حصہ میں پہنچادیا. تبلیغی جماعت کی کاوشیں اور کوششیں بارآور و مثمر ہوئیں۔ اور لاکھوں مسلمانوں کو اس جماعت کے ذریعہ اپنی اصلاح کے مواقع میسر ہوئے، یہ تمام تر ان کے شیوخ اورمربیوں کا ہی فیض ہے، حضرت مولانا خلیل احمد سہانپوری نے تو خاص اس تبلیغ کے سلسلہ میں میوات کا دورہ فرمایا تھا اور ایک بہت بڑے جلسہ قصبہ نوح تحصیل ہول ضلع گڑگانوہ میں بنفس نفیس شرکت فرمائی تھی، اور اس وقت اس جلسہ سے اس خاص طرز ِتبلیغ کی ابتداہوئی تھی اور اس کے بعد بھی تمام ہمعصر اکابر نے اس کے استحسان اور عمومی نفع کی تائید فرمائی، اس طرح یہ جماعت تمام اکابر دیوبند کی مشترکہ مساعی جمیلہ اور کوششوں کا نتیجہ اور ثمرہ ہے. اگرچہ بطورِ بانی ِاول ہونے کی وجہ سے حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کی طرف اس کی نسبت بجاطور پر ہورہی ہے، لیکن حقیقت میں ان کے تمام ہمعصر اکابر علماء اور مشائخ رحمہم اللہ کی توجہات ِعالیہ اور دعواتِ صالحہ اس کارِتبلیغ میں شامل حال رہی ہیں، خاص کر محدثِ کبیر حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور آں موصوف کے تعلیم یافتہ اور تربیت حاصل کرنے والے مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور کے مدرسین اور منتظمین نے ہمیشہ اس جماعت کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اوراس کو اپنی جماعت میں شامل فرمایا۔
تبلیغی جماعت اور اکابر دارالعلوم دیوبند:
جماعت تبلیغ کے بانی اور پہلے بزرگ حضرت مولانا محمد الیاس کاندہلوی رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتہ اور حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ کے بہت ہی قابل اعتماد شاگر تھے۔دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے ممبر بھی رہے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صا حب رحمہ اللہ نہ صرف اس جماعت کی تائید فرمائی بلکہ بڑے اہتمام سے اس کے اجتماعات میں شریک ہوتے رہے۔ سہارنپور کے اجتماع میں چھ نمبروں پر ہی تقریر فرمائی اور ہر نمبر کو قرآن وحدیث سے ثابت کرکے ارشاد فرمایا کہ اس دور میں یہ طریقہ نہایت جامع ہے۔ ہمہ گیر یے۔ انتہائی مفید ہے۔ دہلی نظام الدین خط لکھ کر خود بھی اجتماعات میں شرکت کی اور دارالعلوم دیوبند جماعتیں بھیجنے کی فرمائش کی۔ اور آج دارالعلوم میں جماعتوں کی آمد ورفت کا سلسلہ جاری ہے. فخرالمحدثین حضرت مولانا فخرالحسن صاحب صدر مدرس دارالعلوم دیوبند بھی اجتماعات میں شرکت فرماتے رہے۔ اور حضرت مولانا الیاس صاحب کے ساتھ بارہا میوات کے علاقہ میں تشریف لے گئے۔ حضرت مولانا ارشاد صاحب مبلغ دارالعلوم نے جماعت کی مدافعت کے لئے مناظرے کئے۔ اور بارہا اس مقصد کے لئے طویل طویل سفر فرمایا۔ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے بھی بھرپور تائید فرمائی۔ اور بعض عوامی ذہن رکھنے والے لوگوں کی غلو آمیز باتوں پہ مشفقانہ انداز میں تنبیہ فرمائی۔ شامی وقت مفتی اعظم ہند فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی قدس سرہ کی فتاوی محمود یہ اس کی تائید سے بھڑی پڑی ہے۔جماعت کے تمام ہی انتظامی اعمال کو حدیث وتاریخ سے جس محققانہ انداز میں مفتی اعظم نے مدلل فرمایا ہے وہ کسی اور کے حصہ میں نہ آئی۔ حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیری رحمہ اللہ سالانہ امتحان کے موقع سے طلبہ کو جمع کرکے باہر نکلنے پہ ترغیب دیتے رہے ہیں۔ ان کے علاوہ سید سلیمان ندوی، مولانا وصی اللہ صاحب۔ مفکراسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مولانا محمد منظور نعمانی۔ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی. صاحب اعلاء السنن علامہ ظفر احمد عثمانی، مولانا اسعد اللہ صاحب، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندہلوی، مولانا عبدالرحمن صاحب، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی۔ مولانا یوسف لدھیانوی شہید، مفتی فرید صاحب نقشبندی، علامہ تقی عثمانی صاحب جیسے اکابر علماء دیوبند وارباب بصیرت کی طرف سے تحریری وتقریری طور پہ بھرپور اس جماعت کی تائید کی گئی اور اس کام کی نافعیت پہ اطمنان کا اظہار کیا گیا۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کو ابتداء بے اطمینانی تھی کہ میوات کے بےعلم لوگ بغیر علم کے فریضہ تبلیغ کیسے انجام دے سکیں گے؟؟ لیکن جب مولانا ظفر احمد عثمانی نے بتایا کہ یہ مبلغین ان چیزوں کے سوا جن کا ان کو حکم ہے (چھ نمبر) کسی اور چیز کا ذکر نہیں کرتے اور کچھ اور نہیں چھیڑتے تو حضرت کو مزید اطمینان ہوا اور فرمایا کہ الیاس نے یاس کو آس سے بدل دیا۔ ان ہی اکابر کی تائید وتوثیق کا نتیجہ تھا کہ یہ جماعت دیکھتے ہی دیکھتے ایک عالمگیر اصلاحی ودعوتی تحریک بن گئی۔
جماعت کے مساعی وکارنامے:
اس جماعت میں ان پڑھ، کاشتکار، مزدور، تاجر، ملازمت پیشہ، اہل صنعت کار، خانہ دار، اہل علم گریجویٹ، ڈاکٹر انجنیئر ہر طبقہ کے لوگ اپنے مصارف سے سفر کرتے ہیں، جس کو جتنا وقت ملا نکلا۔ ہر فرد اپنے سے بڑے سے سیکھتا ہے اور چھوٹے کو سکھاتا ہے۔ کسی نے کلمہ نماز سیکھا، کسی نے قرآن کی سورتیں سیکھیں۔ کسی نے ترجمہ ومطلب سیکھا۔ کسی نے حدیثیں یاد کیں۔ پھر یہ لوگ گشت کے لئے نکلتے ہیں اور اپنے بھائیوں کے پاس جاکر نہایت ہمدردی ودلسوزی سے ان کی خوشامد کرکے ان کو مسجد لاتے ہیں۔ دین کی اہمیت بتلاتے ہیں۔ نماز کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ کوئی وضوء کرواتا ہے۔ کوئی الحمدللہ کوئی قل ھواللہ یاد کرواتا ہے کوئی تشہد یاد کراتا ہے۔ اعتکاف کی نیت سے عموما مسجدوں میں قیام کرتے ہیں۔ نوافل پڑھتے ہیں۔ تہجد کا سب کو عادی بناتے ہیں. دعاء میں روتے ہیں۔ پیدل سفر کرتے ہیں۔ گاؤں درگاؤں پھرتے ہیں۔ بس اور ٹرین پہ سفر کرتے ہیں۔ ہر جگہ اپنا مشغلہ سیکھنا سکھانا جاری رکھتے ہیں۔ موسم حج میں حجاج میں بھی کام کرتے ہیں. بندرگاہ پر، جدہ میں، مکہ مکرمہ، منی، عرفات، مدینہ منورہ میں سب جگہ یہ جماعتیں کام کرتی ہیں دنیا کے سینکڑوں ملکوں میں پہیل کے کام کررہے ہیں۔ ان کی مساعی سے بہت بڑی تعداد نمازی بن گئی۔ بہت بڑی تعداد نے پورا علم دین حاصل کرلیا۔ باقاعدہ زکات دینے لگی۔ صحیح طریقہ پہ حج کرنے لگی۔ اس جماعت کی بدولت بہت سی بدعات ختم ہوگئیں۔ سنت پر لوگوں کا عمل شروع ہوگیا۔ بہت سے ان پڑھ عالم نہ ہونے کے باوجود سینکڑوں حدیثوں کے مفہوم یاد کرلئے اور گھنٹوں گھنٹہ تقریریں کرنے لگے۔ یوروپ میں اس کام کو اتنا عروج ملا کہ مسجدیں تنگ پڑگئیں توچرچ وکلیسا کو کرایہ پہ حاصل کرکے مسجد کا کام لیا جارہا ہے۔ اسے چھ نمبر یاد کروائے جاتے ہیں. لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے الفاظ صحیح سے یاد کرواکے اس کا مطلب وضاحت سے سمجھایا جاتا ہے۔ نماز علم ذکر اکرام مسلم تصحیح نیت ترک مالایعنی کو سمجھنے، ذہن نشین کرنے عملی مشق کرنے اور دوسرے بھائیوں تک پہنچانے کے لئے جماعتیں نکلتی ہیں کیونکہ اپنی جگہ اور اپنے مشاغل میں رہتے ہوئے ان امور کی تکمیل دشوار ہے۔ جماعت بناکر نکلنے میں ناموافق لوگوں کے اخلاق وافعال پر صبرو تحمل، رفقاء کے لئے ایثاروہمدردی، عام مخلوق کے لئے خیرخواہی واحسان، بڑوں کا اعزاز واحترام، چھوٹوں پر شفقت و مہربانی، امیر کی اطاعت وفرمانبرداری، ماتحتوں کی نگرانی وغمگساری، باہمی مشورہ کی اہمیت کی اہمیت وعادت وغیرہ وغیرہ بے شمار اخلاق وتعلیمات نبویہ کی آہستہ آہستہ مشق ہوجاتی ہے۔ اور رفتہ رفتہ تمام دین کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق ہوتی ہے۔ اور دین کی خاطر سر کھپانے، محنت کرنے کا جذبہ مستحکم ہوتا ہے. (محمودیہ ملخصا 226/4)۔
غرضیکہ اس جماعت کی پرخلوص مساعی سے عالمگیر اصلاح کی فضاء قائم ہوئی جس کا انکار مشکل ہے۔
محمد بن سلمان مصطفی کمال اتاتُرک کے نقشِ قدم پر:
معتدل اور لچکدار اسلام کے بانی مبانی محمد بن سلمان مصطفی کمال اتاتُرک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سالوں پہلے سے دینی روح او اسلامی جذبہ رکھنے والی تحریکوں کو پابندسلاسل کرنے اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کے گھناونے کھیل و منصوبے کا آغاز کردیا تھا، جبکہ خالص ہندو کلچر "یوگا" کھیل کو قومی طور پر منظوری دی گئی۔ سعودی عرب کو نئے شہزادے نے ببانگ دہل تمام مذاہب کے پیروکاروں اور دنیا کے ہر فرد کے لئے کھلا رکھنے کا اعلان کردیا؛ لیکن سیاست، فرقہ واریت، مسلکی اختلافات وتنگ نائیوں سے مکمل عاری و خالی، صرف کلمے کی بنیاد پر دنیا کے تمام مسلمانوں کو سو فیصد اللہ کے احکام اور پیغمبراسلام کے طریقوں کے مطابق زندگی گزارنے کی محنت کرنے والی بے لوث تحریک "تبلیغی جماعت" پہ پابندی عائد کردی گئی۔ کس قدر شرمناک امر ہے کہ وہاں ایسے ایسے ریستوران کھل چکے ہیں جہاں عورتیں اور مرد مخلوط طور پر بلا روک ٹوک بیٹھ کے عیاشیاں کرسکتے ہیں۔ وہاں تیز موسیقی بھی بجتی ہے۔ مغربی معاشرے میں پروان چڑھنے والے اور وہاں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے واپس آنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اب سعودی عرب میں بلا روک ٹوک گاڑیاں چلارہے ہیں، مدینہ منورہ سینما ہالز بھی کھل چکے ہیں، صحرائی ریس میں عورتیں اور مرد دونوں شریک ہورہے ہیں۔ کرونا کا بہانہ بناکر حرمین شریفین کو تو لمبے عرصے تک بند کردیا گیا؛ لیکن بے حیاء رقاصاؤں کو بلابلا کر، کرونا ایس اوپیز کا خیال کئے بغیر، حرمین کی مقدس سرزمین میں رقص وسرود کی محافل منعقد کی گئیں۔ احادیث رسول کی ایسی من مانی اور مغربی آقاؤں کی من پسند تشریح وتوضیح کرنے کی اکیڈمی قائم کی گئی جس سے 'سخت گیر' اور اسلام پسند نظریہ کا قلع قمع کیا جاسکے۔ نہی عن المنکر کے لئے سعودی عرب کی گلیوں میں جو مذہبی پولیس (المطوع) گشت کرتی نظر آتی تھی۔ اس ٹیم کو بھی اب معتدل اسلام کے بانی مبانی شہزادے نے "غار سر من رأی" میں بھیج دیا ہے۔ یعنی امربالمعروف ونہی عن المنکر کے ادارے کو کالعدم کرکے اس کو "جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی" کے گھٹیا ادارے سے بدل دیا گیا ہے۔ ارض توحید پہ الحاد جدید کی چو طرفہ یلغار ہے. دین بیزار وزارت مذہبی امور نے امن وآشتی کی داعی تبلیغی جماعت پہ جو حالیہ پابندی عائد کی ہے. اس کے اس شرمناک و گھناؤنے کرتوت اور خطرناکیوں کو سوشلستان میں اجاگر کرنے کے ساتھ مساجد کے ائمہ وخطباء جمعہ کے خطبوں میں بیان کریں، ملی ومذہبی قائدین متحد ہوکے سعودی سفارت خانے کے سامنے پر امن مظاہرہ کرکے اپنا احتجاج درج کروائیں، اس شرمناک اقدام کی مذمت کریں، عربی وانگلش میں مذمتی تحریر وکلپس تیار کرکے سماجی رابطے کی سائیٹس پہ عام کی جائے۔ یہ سب کچھ صہیونیوں کی منظم سازش کے زیراثر ممکن ہوا ہے، اسے دلیل بناکر اب شرپسند عناصر بھی اندرون ملک اس پہ شکنجہ کسنے کی تیاری میں ہوں گے، وقت کا تقاضہ ہے کہ اصحاب قلم وملی تنظیموں کے قائدین معاملے کی نزاکت وحساسیت کا بروقت ادراک کرتے ہوئے متحد ہوکر اس کے خلاف آواز بلند کریں؛ تاکہ سعودی حکومت کو اس پہ نظرثانی کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔
بیگوسرائے
https://saagartimes.blogspot.com/2021/12/blog-post_40.html