Friday, 24 December 2021

حقیقت تبلیغ، طریقۂ تبلیغ، تبلیغی جماعت کی تاسیس، شرعی حیثیت، اس کے مساعی وکارنامے اور ابن سلمان کا جبر!

 حقیقت تبلیغ، طریقۂ تبلیغ، تبلیغی جماعت کی تاسیس، شرعی حیثیت، اس کے مساعی وکارنامے اور ابن سلمان کا جبر!

---------------------------------
----------------------------------

دین اسلام میں اصل تبلیغ یعنی اللہ کے بندوں تک اللہ کا آخری دین واحکام پہنچانا ہے۔ قرآن حدیث میں صراحت کے ساتھ اس کا حکم دیا گیا ہے۔ یایھا الرسول بلغ ماانزل الیک من ربک المائدہ 67۔۔۔ بخاری شریف میں حضور علیہ السلام کا فرمان ہے:

قَالَ اللَّهُمَّ اشْهَدْ فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ فَإِنَّهُ رُبَّ مُبَلِّغٍ يُبَلِّغُهُ لِمَنْ هُوَ أَوْعَى لَهُ فَكَانَ كَذَلِكَ قَالَ لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ (صحيح البخاري. كتاب الفتن رقم الحديث 6667.۔ 

باقی تعلیم، تدریس، تصنیف و تالیف خلافت وحکومت وغیرہ سب اسی تبلیغ دین کے آلات وذرائع ہیں۔ اسلام ابتدا ہی سے ایک تبلیغی مذہب رہا. جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے رہنے والوں کی وحشیانہ عادات چھڑواکر انھیں مسلمان بنایا ہے تو نہ ان کے پاس طاقت تھی نہ دولت۔ بلکہ صرف ایک آلۂ تبلیغ تھا جسے زبان کہتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عقیدۂ توحید پر صرف ایک ہی طریقہ سے زور دے سکتے ہیں اور وہ یہ تھا کہ بت پرستی کی خوف ناک سزاؤں سے متنبہ کریں۔ اور ان انبیا کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی تعلیمات کو یاد دلائیں جو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہر زمانہ میں اللہ رب العزت کا پیغام لے کر مبعوث ہوئے تھے، البتہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جاں نثار انصار کی ایک ایسی جماعت مل گئی جو آپ پر سے اپنی جانیں قربان کرنے اور ایک آزاد حکومت کے قیام کی بنا ڈالنے کے لئے تیار تھی۔ اگرچہ اس وقت اس کی حیثیت بالکل بدل گئی تھی، مگر اس کے باوجود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تبلیغِ اسلام کا وہی طریقہ جاری رہا کہ افراد کو نیکی کی ترغیب دے کر قبولِ اسلام پر راضی کیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم تک پہنچنے والے دین کے بنیادی طور پر دو حصے ہیں: ایک حصہ تو وہ ہے جس کی مخصوص ہیئت و شکل مطلوب ومعین ہے اس میں حالات زمانہ کے لحاظ سے کمی بیشی کی اجازت قطعا کسی کو نہیں جیسے وضوء  نماز اور حج وغیرہ وغیرہ۔ دوسری صورت وہ ہے جس میں نفس شئے تو مطلوب ہے لیکن بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں کی بنیاد پر اس کی شکل اور صورت متعین نہیں کی گئی جیسے جہاد فی سبیل اللہ۔ دعوت الی اللہ، علم ودین کے سلسلے کو چلانا، احکام شریعت دوسروں تک پہنچانا وغیرہ؛ کہ جہاد، دعوت، تعلیم وتبلیغ تو مطلوب ہے' لیکن اس عمل کو انجام دینے کی کوئی مخصوص ہیئت متعین نہیں کی گئی؛ بلکہ امت کے باکمال افراد کی صلاحیتوں اور عقل سلیم پہ اس کی تعیین کو چھوڑ دیا گیا۔ مثلا مساجد کی تعمیر مطلوب ہے۔ پاکی صفائی اور ان میں ذکراللہ بھی مطلوب ہے لیکن ان کی تعمیر کا کوئی خاص وضع وطرز متعین و مطلوب نہیں۔ اسی لئے  عالم اسلام میں مختلف وضع کی مسجد پائی جاتی ہے۔ اور گنبد ومینار وغیرہ مسجد کے لئے شرائط میں سے نہیں ہیں۔ ہند-پاک میں دو مینار بنانے کا رواج ہے۔ خلیج میں عموما ایک مینار ہوتا ہے جبکہ دنیا کی سب سے قدیم  واول مسجد بیت اللہ میں ایک بھی مینار نہیں تھا۔ نوح علیہ السلام کی دعوت (انی دعوت قومي ليلا ونهارا سورة نوح 5) واضح لفظوں میں بتارہی ہے کہ  دعوت الی اللہ کی مختلف شکلیں ہیں۔ انفرادی، اجتماعی، علانیہ وخلوت، کوئی بھی شکل دعوت کے لئے متعین نہیں۔ دعوت وتبلیغ کا کام کرنے والے ہر فرد کو اختیار ہے کہ ماحول، وقت، حالات وتقاضے کے مطابق دعوت دین کے جس طریقہ کو صحیح، مفید، مؤثر اور دوررس سمجھے اسے اختیار کرے۔ اس سلسلہ میں کسی کو کسی پر روک لگانے یا اس کے طریقہ کار پہ نکیر کرنے کا کوئی حق نہیں جب تک کہ اس میں کوئی شرعی منکر یا مقاصد دینیہ سے متضاد کوئی عنصر شامل نہ ہوجائے۔ احکام دین کے منصوص اور غیرمنصوص طریقوں کو خلط ملط کردینے یا غیرمنصوص، اجتہادی، تجرباتی اور انتظامی طریقہ دعوت کو منصوص کا درجہ دیدینے کی وجہ سے دین کی خدمت کررہے دیگر مختلف اداروں اور جماعتوں میں تنازع، تصادم اور تقابل کی شکل پیدا ہوتی ہے۔ حالانکہ اگر چشم حقیقت وا کئے ان میں فرق سمجھ لیا جائے تو انگنت تنازعات کا سد باب ہوسکتا ہے اور ہم سینکڑوں ذہنی الجھنوں اور کشمکش سے نجات پاسکتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار کی گنجائش یقینا نہیں ہے کہ دعوت الی اللہ کی مخصوص شکل اور طرز کی افادیت وتاثیر کی وضاحت عمدہ سے عمدہ طریقہ سے کیجاسکتی ہے' لیکن کسی کو اپنے طرز و تجربہ کا اس طرح پابند نہیں بنایا جاسکتا جیسے احکام قطعیہ اور نصوص قرآنیہ کا۔ دین کی دعوت وخدمت کرنے والی کوئی جماعت 'اصول دین ومنہج اسلاف سے ہم آہنگ کسی بھی طریق کار کو اختیار کرتی ہے تو یہ اس کا حق ہے اور وہ اس میں حق بجانب ہے۔ لیکن ان کے طرزدعوت سے فرق رکھنے والے دیگر شعبہائے دین کی تحقیر، تنقیص، تقلیل شان یا ان کی افادیت ونافعیت کا انکار کرنا بالکل غلط ہے۔ دعوتی طریقہ کار کی بعض چیزیں تو منصوص ہوتی ہیں لیکن دیگر متعدد چیزیں  محض انتظامی ہوتی ہیں جو قرآن وحدیث اور حیات صحابہ سے مستنبط ہوتی ہیں. ایسی چیزوں اور شکلوں کی ہیئت کذائی کی تنفیذ پہ منصوص طریقے جیسا اصرار کرنا اور دوسروں پہ زبردستی تھوپنا صحیح نہیں ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نفس تبلیغ پہ ہر زمانہ میں عمل ہوتا رہا ہے۔البتہ حالات وزمانے کے اعتبار سے طریقے مختلف رہے ہیں۔ حضور علیہ السلام کی وفات کے بعد ہفتہ میں ایک یا دو مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس لوگ جمع ہوتے اور احادیث سناتے اور انہیں مسائل بیان کرتے تھے۔ بخاری میں ہے:

[ص: 39] بَاب مَنْ جَعَلَ لِأَهْلِ الْعِلْمِ أَيَّامًا مَعْلُومَةً 

70 حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ كَانَ عَبْدُاللَّهِ يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَوَدِدْتُ أَنَّكَ ذَكَّرْتَنَا كُلَّ يَوْمٍ قَالَ أَمَا إِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنْ ذَلِكَ أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُمِلَّكُمْ وَإِنِّي أَتَخَوَّلُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ كَمَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا بِهَا مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا (صحيح البخاري. كتاب العلم)

حضرت ابوہریرہ ہفتہ میں ایک دفعہ مسجد نبوی میں منبر کے قریب کھڑے ہوکے احادیث سنایا کرتے تھے۔ حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ ہر جمعہ کو خطبہ شروع ہونے سے پہلے احادیث سنایا کرتے تھے۔ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ مستقلا تبلیغ کیا کرتے تھے۔ (اسدالغابہ فی معرفة الصحابہ 55/3۔ رقم 2789)

حضرت سعد بن ابی وقاص کی درخواست پہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ڈیڑھ ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کوفہ تبلیغ کے لئے بھیجا۔ (اسدالغابہ 3/283۔ رقم 3177۔ کذا فی الاصابہ 201/4۔ رقم 4970)۔۔

معقل بن یسار رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ، عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی جماعت کو بصرہ اور عبادہ بن صامت اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کی جماعت کو ملک شام بھیجا۔ (اسدالغابہ 294/3۔ الاصابہ 307/4۔ رقم 3197)۔

اس کے بعد پھر ایک وقت آیا کہ احادیث کتابی شکل میں لکھی گئیں۔ جگہ جگہ حدیث سنانے کے حلقے لگتے۔ بعض محدثین کے حلقہ میں ایک لاکھ یا اس سے زائد آدمی موجود رہتے۔ (مرقات المفاتیح 57/1۔ رشیدیہ)۔

پھر ایک وقت آیا کہ مشائخ نے تصوف اور توجہ باطن کے ذریعہ تبلیغ کی۔پہر علماء نے مدارس قائم کئے۔ واعظین نے وعظ کہے۔ مناظرین نے مناظرے کئے۔ درس وتدریس، تصنیف و تالیف، رسائل وجرائد، ارشاد وتلقین کا سلسلہ شروع ہوا۔ اور یہ تمام طرق تبلیغ دین کے لئے اختیار کئے گئے۔ غرض یہ امت کبھی بھی مجموعی حیثیت سے نفس تبلیغ سے غافل نہیں رہی۔اور ہر ہر طریقہ تبلیغ نہایت موثر ومفید ثابت ہوا (محمودیہ ملخصا 200/4)۔

 دین کی بنیادی تعلیم، عقائد، اخلاق واعمال کی اصلاح ضروری و فرض عین ہے۔ خواہ جس ذریعہ سے بھی اس کا حصول ممکن ہو! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا دین سیکھنا سکھانا اور اس پر عمل کرنا فرض ہے۔ دین سکھنے کے لئے جس کو سہولت ہے کہ مدارس دینیہ میں داخل ہوکر باقاعدہ نصاب پڑھے تو وہ یہی صورت اختیار کرلے۔ جس کے پاس اتنا وقت نہیں یا اتنی مالی وسعت نہیں یا عمر زائد ہوچکی ہو یا حافظہ وذہن ایسا نہیں کہ تو خواہ وہ خود آہستہ آہستہ اہل دین سے زبانی سیکھے یا کتاب کے ذریعہ سیکھے یا اہل علم کی تقاریر سے سیکھے غرض جو صورت بھی قابو میں ہو اس کو اختیار کرے۔جب تک اس میں کوئی قبح ومفسدہ نہ ہو۔ مختلف استعداد رکھنے والوں کے لئے کوئی خاص صورت اسہل وانفع ہوتو اس کا انکار مکابرہ ہے اور اس خاص صورت کو ہر شخص کے لئے لازم قرار دینا بھی تضییق وتحجیر ہے۔ پھر سیکھے ہوئے دین کو دوسروں تک پہنچانا فرض کفایہ ہے۔

تبلیغی جماعت کا مقصد تاسیس: 

دہلی واطراف کے میو علاقے کے عمومی بے دینی کو دیکھ کے مولانا محمد الیاس کاندھلوی نے یہ طے کرلیا تھا کہ لادینیت کے اس عمومی سیلاب کے روک تھام کے لئے اسی سطح کی عمومی محنت کی ضرورت ہے۔اور انہوں نے اپنے طویل تجربہ اور بالغ نظری سے یہ سمجھ لیا تھا کہ اپنے ماحول میں اور مشاغل میں گھرے رہ کر غریبوں اور کاشتکاروں کا دین سیکھنے کے لئے اتنا وقت نکالنا کہ جس سے ان کی اصلاح ہوجائے ناممکن ہے۔ اور ان سے ابھی یہ مطالبہ کرنا بھی صحیح نہیں ہے کہ تمام کی تمام اس عمر میں مکاتب کے طالبعلم بن جائیں اور ان سے یہ توقع بھی صحیح نہیں کہ صرف وعظ ونصیحت سے ان کی اصلاح ودرستگی کا انقلاب ان کی بگڑی ہوئی زندگیوں میں بپا ہوجائے. مگر ان تمام مشکلات کے ہوتے ہوئے مولانا کاندھلوی کے نزدیک ان لوگوں کی زندگیوں میں یہ اصلاحی انقلاب بپا کرنا ضروری بھی تھا۔ آپ کو اس کی یہ تدبیر سمجھ میں آئی کہ یہ لوگ کچھ مدت کے لئے جماعتوں کی شکل میں دینی علوم کے مرکزوں کی طرف نکلیں۔ اور وہاں کے عوام وجہلاء کو کلمہ ونماز کی تبلیغ کریں اور اس طرح اپنا پڑھا ہوا سبق پختہ کریں۔ اور وہاں کے اہل علم حضرات کی مجالس میں بیٹھ کر ان علماء کی باتوں کو مکمل غور وفکر کے ساتھ سنیں اور ان اہل علم کی زندگیوں کو دیکھ کر اپنی زندگی کی اصلاح کریں اور اس طرح علمی وعملی زندگی حاصل کریں۔ علماء کی براہ راست تشکیل نہ کریں، وہ حضرات علماء جن دینی مشاغل میں لگے ہوئے ہیں انکو تو وہ خوب جانتے ہیں اور ان کے منافع کا وہ تجربہ رکھتے ہیں۔ دعاء لینے واستفادہ کے لئے ان کی خدمت میں حاضری کی تلقین فرمائی۔ تاکہ اس کام کو علماء کرام کی سرپرستی حاصل رہے۔

تبلیغی جماعت کا بانی: 

حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ اللہ (بانیِ تبلیغی جماعت) کی دینی تعلیم اور تربیتِ اخلاق کی ابتداء قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کے دربارگوہر بارسے ہوئی، پہلی بیعت کا شرف بھی حضرت گنگوہی سے ہی حاصل ہوا۔ حضرت گنگوہی کے فیض صحبت اور پھر بعد میں حضرت مولانا خلیل احد سہارنپوری رحمہ اللہ کی تعلیم وتربیت نے مولانا محمد الیاس صاحب کو شریعت وطریقت کا جامع اور ظاہر وباطن کا مصلح اور مربی بنادیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے ان دونوں شیوخ اور مربیوں کے فیوض وبرکات کو مولانا مرحوم کے ذریعہ عالم اسلام کے بڑے حصہ میں پہنچادیا. تبلیغی جماعت کی کاوشیں اور کوششیں بارآور و مثمر ہوئیں۔ اور لاکھوں مسلمانوں کو اس جماعت کے ذریعہ اپنی اصلاح کے مواقع میسر ہوئے، یہ تمام تر ان کے شیوخ اورمربیوں کا ہی فیض ہے، حضرت مولانا خلیل احمد سہانپوری نے تو خاص اس تبلیغ کے سلسلہ میں میوات کا دورہ فرمایا تھا اور ایک بہت بڑے جلسہ قصبہ نوح تحصیل ہول ضلع گڑگانوہ میں بنفس نفیس شرکت فرمائی تھی، اور اس وقت اس جلسہ سے اس خاص طرز ِتبلیغ کی ابتداہوئی تھی اور اس کے بعد بھی تمام ہمعصر اکابر نے اس کے استحسان اور عمومی نفع کی تائید فرمائی، اس طرح یہ جماعت تمام اکابر دیوبند کی مشترکہ مساعی جمیلہ اور کوششوں کا نتیجہ اور ثمرہ ہے. اگرچہ بطورِ بانی ِاول ہونے کی وجہ سے حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کی طرف اس کی نسبت بجاطور پر ہورہی ہے، لیکن حقیقت میں ان کے تمام ہمعصر اکابر علماء اور مشائخ رحمہم اللہ کی توجہات ِعالیہ اور دعواتِ صالحہ اس کارِتبلیغ میں شامل حال رہی ہیں، خاص کر محدثِ کبیر حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور آں موصوف کے تعلیم یافتہ اور تربیت حاصل کرنے والے مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور کے مدرسین اور منتظمین نے ہمیشہ اس جماعت کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اوراس کو اپنی جماعت میں شامل فرمایا۔

تبلیغی جماعت اور اکابر دارالعلوم دیوبند: 

جماعت تبلیغ کے بانی اور پہلے بزرگ حضرت مولانا محمد الیاس کاندہلوی رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتہ اور حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ کے بہت ہی قابل اعتماد شاگر تھے۔دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری کے ممبر بھی رہے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صا حب رحمہ اللہ نہ صرف اس جماعت کی تائید فرمائی بلکہ بڑے اہتمام سے اس کے اجتماعات میں شریک ہوتے رہے۔ سہارنپور کے اجتماع میں چھ نمبروں پر ہی تقریر فرمائی اور ہر نمبر کو قرآن وحدیث سے ثابت کرکے ارشاد فرمایا کہ اس دور میں یہ طریقہ نہایت جامع ہے۔ ہمہ گیر یے۔ انتہائی مفید ہے۔ دہلی نظام الدین خط لکھ کر خود بھی اجتماعات میں شرکت کی اور دارالعلوم دیوبند جماعتیں بھیجنے کی فرمائش کی۔ اور آج دارالعلوم میں جماعتوں کی آمد ورفت کا سلسلہ جاری ہے. فخرالمحدثین حضرت مولانا فخرالحسن صاحب صدر مدرس دارالعلوم دیوبند بھی اجتماعات میں شرکت فرماتے رہے۔ اور حضرت مولانا الیاس صاحب کے ساتھ بارہا میوات کے علاقہ میں تشریف لے گئے۔ حضرت مولانا ارشاد صاحب مبلغ دارالعلوم نے جماعت کی مدافعت کے لئے مناظرے کئے۔ اور بارہا اس مقصد کے لئے طویل طویل سفر فرمایا۔ شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے بھی بھرپور تائید فرمائی۔ اور بعض عوامی ذہن رکھنے والے لوگوں کی غلو آمیز باتوں پہ مشفقانہ انداز میں تنبیہ فرمائی۔ شامی وقت مفتی اعظم ہند فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی قدس سرہ کی فتاوی محمود یہ اس کی تائید سے بھڑی پڑی ہے۔جماعت کے تمام ہی انتظامی اعمال کو حدیث وتاریخ سے  جس محققانہ انداز میں مفتی اعظم نے مدلل فرمایا ہے وہ کسی اور کے حصہ میں نہ آئی۔ حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیری رحمہ اللہ سالانہ امتحان کے موقع سے طلبہ کو جمع کرکے باہر نکلنے پہ ترغیب دیتے رہے ہیں۔ ان کے علاوہ سید سلیمان ندوی، مولانا وصی اللہ صاحب۔ مفکراسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، مولانا محمد منظور نعمانی۔ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی. صاحب اعلاء السنن علامہ ظفر احمد عثمانی، مولانا اسعد اللہ صاحب، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندہلوی، مولانا عبدالرحمن صاحب، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی۔ مولانا یوسف لدھیانوی شہید، مفتی فرید صاحب نقشبندی، علامہ تقی عثمانی صاحب جیسے اکابر علماء دیوبند وارباب بصیرت کی طرف سے تحریری وتقریری طور پہ بھرپور اس جماعت کی تائید کی گئی اور اس کام کی نافعیت پہ اطمنان کا اظہار کیا گیا۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کو ابتداء بے اطمینانی تھی کہ میوات کے بےعلم لوگ بغیر علم کے فریضہ تبلیغ کیسے انجام دے سکیں گے؟؟ لیکن جب مولانا ظفر احمد عثمانی نے بتایا کہ یہ مبلغین ان چیزوں کے سوا جن کا ان کو حکم ہے (چھ نمبر) کسی اور چیز کا ذکر نہیں کرتے اور کچھ اور نہیں چھیڑتے تو حضرت کو مزید  اطمینان ہوا اور فرمایا کہ الیاس نے یاس کو آس سے بدل دیا۔ ان ہی اکابر کی تائید وتوثیق کا نتیجہ تھا کہ یہ جماعت دیکھتے ہی دیکھتے ایک عالمگیر اصلاحی ودعوتی تحریک بن گئی۔

جماعت کے مساعی وکارنامے: 

اس جماعت میں ان پڑھ، کاشتکار، مزدور، تاجر، ملازمت پیشہ، اہل صنعت کار، خانہ دار، اہل علم گریجویٹ، ڈاکٹر انجنیئر ہر طبقہ کے لوگ اپنے مصارف سے سفر کرتے ہیں، جس کو جتنا وقت ملا نکلا۔ ہر فرد اپنے سے بڑے سے سیکھتا ہے اور چھوٹے کو سکھاتا ہے۔ کسی نے کلمہ نماز سیکھا، کسی نے قرآن کی سورتیں سیکھیں۔ کسی نے ترجمہ ومطلب سیکھا۔ کسی نے حدیثیں یاد کیں۔ پھر یہ لوگ گشت کے لئے نکلتے ہیں اور اپنے بھائیوں کے پاس جاکر نہایت ہمدردی ودلسوزی سے ان کی خوشامد کرکے ان کو مسجد لاتے ہیں۔ دین کی اہمیت بتلاتے ہیں۔ نماز کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ کوئی وضوء کرواتا ہے۔ کوئی الحمدللہ کوئی قل ھواللہ یاد کرواتا ہے کوئی تشہد یاد کراتا ہے۔ اعتکاف کی نیت سے عموما مسجدوں میں قیام کرتے ہیں۔ نوافل پڑھتے ہیں۔ تہجد کا سب کو عادی بناتے ہیں. دعاء میں روتے ہیں۔ پیدل سفر کرتے ہیں۔ گاؤں درگاؤں پھرتے ہیں۔ بس اور ٹرین پہ سفر کرتے ہیں۔ ہر جگہ اپنا مشغلہ سیکھنا سکھانا جاری رکھتے ہیں۔ موسم حج میں حجاج میں بھی کام کرتے ہیں. بندرگاہ پر، جدہ میں، مکہ مکرمہ، منی، عرفات، مدینہ منورہ میں سب جگہ یہ جماعتیں کام کرتی ہیں دنیا کے سینکڑوں ملکوں میں پہیل کے کام کررہے ہیں۔ ان کی مساعی سے بہت بڑی تعداد نمازی بن گئی۔ بہت بڑی تعداد نے پورا علم دین حاصل کرلیا۔ باقاعدہ زکات دینے لگی۔ صحیح طریقہ پہ حج کرنے لگی۔ اس جماعت کی بدولت بہت سی بدعات ختم ہوگئیں۔ سنت پر لوگوں کا عمل شروع ہوگیا۔ بہت سے ان پڑھ عالم نہ ہونے کے باوجود سینکڑوں حدیثوں کے مفہوم یاد کرلئے اور گھنٹوں گھنٹہ تقریریں کرنے لگے۔ یوروپ میں اس کام کو اتنا عروج ملا کہ مسجدیں تنگ پڑگئیں توچرچ وکلیسا کو کرایہ پہ حاصل کرکے مسجد کا کام لیا جارہا ہے۔ اسے چھ نمبر یاد کروائے جاتے ہیں. لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے الفاظ صحیح سے یاد کرواکے اس کا مطلب وضاحت سے سمجھایا جاتا ہے۔ نماز علم ذکر اکرام مسلم تصحیح نیت ترک مالایعنی کو سمجھنے، ذہن نشین کرنے عملی مشق کرنے اور دوسرے بھائیوں تک پہنچانے کے لئے جماعتیں نکلتی ہیں کیونکہ اپنی جگہ اور اپنے مشاغل میں رہتے ہوئے ان امور کی تکمیل دشوار ہے۔ جماعت بناکر نکلنے میں ناموافق لوگوں کے اخلاق وافعال پر صبرو تحمل، رفقاء کے لئے ایثاروہمدردی، عام مخلوق کے لئے خیرخواہی واحسان، بڑوں کا اعزاز واحترام، چھوٹوں پر شفقت و مہربانی، امیر کی اطاعت وفرمانبرداری، ماتحتوں کی نگرانی وغمگساری، باہمی مشورہ کی اہمیت کی اہمیت وعادت وغیرہ وغیرہ بے شمار اخلاق وتعلیمات نبویہ کی آہستہ آہستہ مشق ہوجاتی ہے۔ اور رفتہ رفتہ تمام دین کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق ہوتی ہے۔ اور دین کی خاطر سر کھپانے، محنت کرنے کا جذبہ مستحکم ہوتا ہے. (محمودیہ ملخصا 226/4)۔

غرضیکہ اس جماعت کی پرخلوص مساعی سے عالمگیر اصلاح کی فضاء قائم ہوئی جس کا انکار مشکل ہے۔

محمد بن سلمان مصطفی کمال اتاتُرک کے نقشِ قدم پر: 

معتدل اور لچکدار اسلام کے بانی مبانی محمد بن سلمان مصطفی کمال اتاتُرک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سالوں پہلے سے  دینی روح او اسلامی جذبہ رکھنے والی تحریکوں کو پابندسلاسل کرنے اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرنے کے گھناونے کھیل و منصوبے کا آغاز کردیا تھا، جبکہ خالص ہندو کلچر "یوگا" کھیل کو قومی طور پر منظوری دی گئی۔ سعودی عرب کو نئے شہزادے نے ببانگ دہل تمام مذاہب کے پیروکاروں اور دنیا کے ہر فرد کے لئے کھلا رکھنے کا اعلان کردیا؛ لیکن سیاست، فرقہ واریت، مسلکی اختلافات  وتنگ نائیوں سے مکمل عاری و خالی، صرف کلمے کی بنیاد پر دنیا کے تمام مسلمانوں کو سو فیصد اللہ کے احکام اور پیغمبراسلام کے طریقوں کے مطابق زندگی گزارنے کی محنت کرنے والی بے لوث تحریک "تبلیغی جماعت" پہ پابندی عائد کردی گئی۔ کس قدر شرمناک امر ہے کہ وہاں ایسے ایسے ریستوران کھل چکے ہیں جہاں عورتیں اور مرد مخلوط طور پر بلا روک ٹوک بیٹھ کے عیاشیاں کرسکتے ہیں۔ وہاں تیز موسیقی بھی بجتی ہے۔ مغربی معاشرے میں پروان چڑھنے والے اور وہاں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے واپس آنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اب سعودی عرب میں بلا روک ٹوک گاڑیاں چلارہے ہیں، مدینہ منورہ سینما ہالز بھی کھل چکے ہیں، صحرائی ریس میں عورتیں اور مرد دونوں شریک ہورہے ہیں۔ کرونا کا بہانہ بناکر حرمین شریفین کو تو لمبے عرصے تک بند کردیا گیا؛ لیکن بے حیاء رقاصاؤں کو بلابلا کر، کرونا ایس اوپیز کا خیال کئے بغیر، حرمین کی مقدس سرزمین میں رقص وسرود کی محافل منعقد کی گئیں۔ احادیث رسول کی ایسی من مانی اور مغربی آقاؤں کی من پسند تشریح وتوضیح کرنے کی اکیڈمی قائم کی گئی  جس سے 'سخت گیر' اور اسلام پسند نظریہ کا قلع قمع کیا جاسکے۔ نہی عن المنکر کے لئے سعودی عرب کی گلیوں میں جو مذہبی پولیس (المطوع) گشت کرتی نظر آتی تھی۔ اس ٹیم کو بھی اب معتدل اسلام کے بانی مبانی شہزادے نے "غار سر من رأی" میں بھیج دیا ہے۔ یعنی امربالمعروف ونہی عن المنکر کے ادارے کو کالعدم کرکے اس کو "جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی" کے گھٹیا ادارے سے بدل دیا گیا ہے۔ ارض توحید پہ الحاد جدید کی چو طرفہ یلغار ہے. دین بیزار وزارت مذہبی امور نے امن وآشتی کی داعی تبلیغی جماعت پہ جو حالیہ پابندی عائد کی ہے. اس کے اس شرمناک و گھناؤنے کرتوت اور خطرناکیوں کو سوشلستان میں اجاگر کرنے کے ساتھ مساجد کے ائمہ وخطباء جمعہ کے خطبوں میں بیان کریں، ملی ومذہبی قائدین متحد ہوکے سعودی سفارت خانے کے سامنے پر امن مظاہرہ کرکے اپنا احتجاج درج کروائیں، اس شرمناک اقدام کی مذمت کریں، عربی وانگلش میں مذمتی تحریر وکلپس تیار کرکے سماجی رابطے کی سائیٹس پہ عام کی جائے۔ یہ سب کچھ صہیونیوں کی منظم سازش کے زیراثر ممکن ہوا ہے، اسے دلیل بناکر اب شرپسند عناصر بھی اندرون ملک اس پہ شکنجہ کسنے کی تیاری میں ہوں گے، وقت کا تقاضہ ہے کہ اصحاب قلم وملی تنظیموں کے قائدین معاملے کی نزاکت وحساسیت کا بروقت ادراک کرتے ہوئے متحد ہوکر اس کے خلاف آواز بلند کریں؛ تاکہ سعودی حکومت کو اس پہ نظرثانی کرنے پر مجبور کیا جاسکے۔

شکیل منصور القاسمی

بیگوسرائے

https://saagartimes.blogspot.com/2021/12/blog-post_40.html



پیغامِ کرسمس ڈے

پیغامِ کرسمس ڈے 
----------------------------------
----------------------------------
امن، پیار، محبت، عفت، حیاء، پاکدامنی، تقوی اور پرہیز گاری کے سراپا داعی، پیغمبرِخدا حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش (کرسمس ڈے <کیتھولک مسیحیوں کی رسم>) کو ڈانس، موسیقی، شراب وکباب، عیاشی، فحاشی، فضول خرچی، رقص وسرود، خرمستیوں، ہلّے گُلّے اور مارکاٹ کی نذر کردینے والے "مسیحی بھائیوں" کی ہدایت کی دعاء کرتا ہوں اور اس موقع سے انہیں "مفتاح الجنة" یعنی "دین اسلام" میں مکمل داخل ہوجانے کی دعوت دیتا ہوں۔ انسانیت کی نجات صرف اور صرف اسلام میں ہے:
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُون (003:064)
ترجمہ: کہہ دیجئے! اے اہل کتاب! ایک بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ ہم کسی کو اس کے ساتھ شریک کریں اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا معبود نہ بنائے پھر اگر وہ اس بات کو نہ مانیں تو کہہ دیں کہ گواہ رہو یہ کہ ہم فرمانبردار ہیں.
۲۵ دسمبر کا عیسائی مذہب کے ساتھ حقیت میں کوئی رشتہ ہی نہیں ہے، صرف مٹرگشتیوں اور  نمود ونمائش  کے لئے اس حیاء باختہ رسمِ بد کو عیسائیت کے ساتھ زبردستی نتھی کردیا گیا ہے۔
درحقیقت یہ تقریبِ کرسمس (خدا کے بیٹے عیسی کا یوم ولادت) عقیدۂ تثلیث کا علمبردار ہے، جو (عیسی کا خدا کا بیٹا ہونا) قرآن اور اسلامی نظریئے کے سراسر خلاف ہے، ان تقریبات میں مسلمانوں کا شرکت کرنا، کیک کاٹنا“ میری کرسمس کہنا یا اس لفظ سے دوسرے کو مبارکباد دینا ناجائز وحرام ہے.
وَقالُوا اتَّخَذَ الرَّ‌حمـٰنُ وَلَدًا ﴿٨٨﴾ لَقَد جِئتُم شَيـًٔا إِدًّا ﴿٨٩﴾ تَكادُ السَّمـٰو‌ٰتُ يَتَفَطَّر‌نَ مِنهُ وَتَنشَقُّ الأَر‌ضُ وَتَخِرُّ‌ الجِبالُ هَدًّا ﴿٩٠﴾ أَن دَعَوا لِلرَّ‌حمـٰنِ وَلَدًا ﴿٩١﴾... سورة مريم)
''اور اُنہوں نے کہا کہ رحمٰن نے کوئی اولاد بنالی ہے، بلاشبہ تم ایک بہت بھاری بات (گناہ) تک آپہنچے ہو۔ قریب ہے کہ اس بات سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ گِرپڑیں کہ انہوں نے رحمٰن کے لیے کسی بیٹے کا دعویٰ کیا۔"
٢٤ دسمبر  ٢٠٢١
جمعة
https://saagartimes.blogspot.com/2021/12/blog-post_24.html


Thursday, 23 December 2021

اعضاءِ وضو سے پانی کے قطرات ٹپکنا ضروری ہے

اعضاءِ وضو سے پانی کے قطرات ٹپکنا ضروری ہے

سوال: مفتی صاحب ایک ویڈیو آپ کو بھیجا ہوں دیکھ کر بتائیں کیا اس طرح وضو ہوجائے گا؟ جیسا اس ویڈیو میں بتایا گیا ہے، یہ تو مسح کی صورت سمجھ آرہی ہے۔ (المستفتی: مولوی سفیان، مالیگاؤں)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب وباللہ التوفيق: 

قرآنِ کریم میں اعضاء وضو کو دھونے کا حکم دیا گیا ہے اور شرعاً دھونے کا مفہوم اس وقت تک متحقق نہ ہوگا جب تک کہ کم از کم وضو کے عضو کو تر کرنے کے بعد اس سے دو قطرے نہ ٹپکیں، اگر اس قدر بھی تقاطر نہیں ہوا تو دھونے کا فرض ادا نہیں ہوگا۔ مثلاً کسی شخص نے برف وغیرہ سے ہاتھ پیر کو تر کرلیا اور کوئی قطرہ نہیں ٹپکا تو یہ کافی نہیں۔ آپ کی ارسال کردہ ویڈیو بغور دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ اُن صاحب نے نصف گلاس پانی میں جو وضو کیا ہے وہ درست نہیں ہے، اس لئے کہ اس میں اعضاء وضو پر صرف پانی مَل لیا گیا ہے، اعضاء وضو سے پانی کے قطرات بالکل بھی ٹپکے نہیں ہیں، لہٰذا اگر کوئی اس طرح وضو کرلے تو اس کا وضو ہوگا ہی نہیں اور نہ ہی اس وضو سے پڑھی گئی نماز ہوگی۔ 

نوٹ : یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی دنوں سے گردش میں ہے، لہٰذا حتی الامکان اس کی تردید کرنا اور صحیح مسئلہ سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہم سب کی شرعی ذمہ داری ہے۔

قَالَ اللہُ تَعَالٰی : یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِذَا قُمْتُمْ إِلیَ الصَّلوٰۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلیَ الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُؤُوْسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ إِلیَ الْکَعْبَیْنِ۔ (سورۃ المائدہ، آیت: ٦)

غسل الوجہ أی إسالۃ الماء مع التقاطر ولو قطرۃ۔ وفی الفیض : أقلہ قطرتان فی الأصح۔ (درمختار) وفی الشامی: یدل علیہ صیغۃ التفاعل ثم لا یخفیٰ أن ہٰذا بیان للفرض الذی لا یجزئ أقل منہ لأنہ فی صدد بیان الغسل المفروض۔ (شامی زکریا ۱؍۲۰۹ بیروت ۱؍۱۸۷-۱۸۸، مراقی الفلاح ۳۲/ بحوالہ کتاب المسائل)

فقط واللہ تعالٰی اعلم محمد عامر عثمانی ملی (#S_A_Sagar)

13 رمضان المبارک 1440 - مئی 19, 2019سوال: برفیلے علاقوں میں برف باری کے بعد اگر پانی میسر نہ ہو یا بہت ٹھنڈا ہو، تو پانی کے بجائے برف سے وضو یا تیمم کرنا جائز ہے؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیراجواب: سوال میں پوچھی گئی صورت میں برف سے عضو کو دھوتے ہوئے، اگر برف جسم سے لگنے کے بعد جسم کی حرارت کی وجہ سے پگھل جائے، اور عضو گیلا ہونے کے بعد اس سے کم از کم دو قطرے ٹپک جائیں، تو اس برف سے وضو کرنا صحیح ہوگا، لیکن اگر جسم پر برف ملنے سے جسم گیلا ہوکر اس سے پانی نہیں ٹپکتا، تو اس برف سے وضو کرنا صحیح نہیں ہوگا، اس صورت میں اگر پانی کا متبادل انتظام نہ ہوسکے، یا پانی تو موجود ہو، لیکن بہت ٹھنڈا ہو، اور گرم کرنے کا کوئی انتظام نہ ہو، اور اس ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے میں بیماری یا ہلاکت کا قوی اندیشہ ہو، تو اس صورت میں تیمم کرنا جائز ہوگا۔

دلائل

الدرالمختار: (95/1،ط: سعید)

(غسل الوجه) أي إسالة الماء مع التقاطر ولو قطرة. وفي الفيض أقله قطرتان في الأصح.

الدرالمختار وردالمحتار: (234/1،ط: دارالفکر)

أو برد) يهلك الجنب أو يمرضه ولو في المصر إذا لم تكن له أجرة حمام ولا ما يدفئه، وما قيل إنه في زماننا يتحيل بالعدة فمما لم يأذن به الشرع، نعم إن كان له مال غائب يلزمه الشراء نسيئة وإلا لا.

(قوله يهلك الجنب أو يمرضه) قيد بالجنب؛ لأن المحدث لا يجوز له التيمم للبرد في الصحيح خلافا لبعض المشايخ كما في الخانية والخلاصة وغيرهما. وفي المصفى أنه بالإجماع على الأصح، قال في الفتح وكأنه لعدم تحقيق ذلك في الوضوء عادة. اه. ....

أقول: المختار في مسألة الخف هو المسح لا التيمم كما سيأتي في محله - إن شاء الله تعالى - نعم مفاد التعليل بعدم تحقيق الضرر في الوضوء عادة أنه لو تحقق جاز فيه أيضا اتفاقا، ولذا مشى عليه في الإمداد؛ لأن الحرج مدفوع بالنص، هو ظاهر إطلاق المتون.

الفتاوی الھندیۃ:(28/1، ط: دارالفکر)

وإذا خاف المحدث إن توضأ أن يقتله البرد أو يمرضه يتيمم. هكذا في الكافي واختاره في الأسرار لكن الأصح عدم جوازه إجماعا كذا في النهر الفائق والصحيح أنه لا يباح له التيمم. كذا في الخلاصة وفتاوى قاضي خان.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

دارالافتاء الاخلاص، کراچی

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

دارالافتاء الاخلاص، کراچی (صححہ: #ایس_اے_ساگر)

سوال: برفیلے علاقوں میں برف باری کے بعد اگر پانی میسر نہ ہو یا بہت ٹھنڈا ہو، تو پانی کے بجائے برف سے وضو یا تیمم کرنا جائز ہے؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا

جواب: سوال میں پوچھی گئی صورت میں برف سے عضو کو دھوتے ہوئے، اگر برف جسم سے لگنے کے بعد جسم کی حرارت کی وجہ سے پگھل جائے، اور عضو گیلا ہونے کے بعد اس سے کم از کم دو قطرے ٹپک جائیں، تو اس برف سے وضو کرنا صحیح ہوگا، لیکن اگر جسم پر برف ملنے سے جسم گیلا ہو کر اس سے پانی نہیں ٹپکتا، تو اس برف سے وضو کرنا صحیح نہیں ہوگا، اس صورت میں اگر پانی کا متبادل انتظام نہ ہوسکے، یا پانی تو موجود ہو، لیکن بہت ٹھنڈا ہو، اور گرم کرنے کا کوئی انتظام نہ ہو، اور اس ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے میں بیماری یا ہلاکت کا قوی اندیشہ ہو، تو اس صورت میں تیمم کرنا جائز ہوگا۔


دلائل:




الدرالمختار:(95/1،ط:سعید)

(غسل الوجه) أي إسالة الماء مع التقاطر ولو قطرة. وفي الفيض أقله قطرتان في الأصح.


الدرالمختار وردالمحتار:(234/1،ط:دارالفکر)

أو برد) يهلك الجنب أو يمرضه ولو في المصر إذا لم تكن له أجرة حمام ولا ما يدفئه، وما قيل إنه في زماننا يتحيل بالعدة فمما لم يأذن به الشرع، نعم إن كان له مال غائب يلزمه الشراء نسيئة وإلا لا.

(قوله يهلك الجنب أو يمرضه) قيد بالجنب؛ لأن المحدث لا يجوز له التيمم للبرد في الصحيح خلافا لبعض المشايخ كما في الخانية والخلاصة وغيرهما. وفي المصفى أنه بالإجماع على الأصح، قال في الفتح وكأنه لعدم تحقيق ذلك في الوضوء عادة. اه. ....

أقول: المختار في مسألة الخف هو المسح لا التيمم كما سيأتي في محله - إن شاء الله تعالى - نعم مفاد التعليل بعدم تحقيق الضرر في الوضوء عادة أنه لو تحقق جاز فيه أيضا اتفاقا، ولذا مشى عليه في الإمداد؛ لأن الحرج مدفوع بالنص، هو ظاهر إطلاق المتون.


الفتاوی الھندیۃ:(28/1،ط:دارالفکر)

وإذا خاف المحدث إن توضأ أن يقتله البرد أو يمرضه يتيمم. هكذا في الكافي واختاره في الأسرار لكن الأصح عدم جوازه إجماعا كذا في النهر الفائق والصحيح أنه لا يباح له التيمم. كذا في الخلاصة وفتاوى قاضي خان.


واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

دارالافتاء الاخلاص،کراچی

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

دارالافتاء الاخلاص، کراچی

سوال: برفیلے علاقوں میں برف باری کے بعد اگر پانی میسر نہ ہو یا بہت ٹھنڈا ہو، تو پانی کے بجائے برف سے وضو یا تیمم کرنا جائز ہے؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا


جواب: سوال میں پوچھی گئی صورت میں برف سے عضو کو دھوتے ہوئے، اگر برف جسم سے لگنے کے بعد جسم کی حرارت کی وجہ سے پگھل جائے، اور عضو گیلا ہونے کے بعد اس سے کم از کم دو قطرے ٹپک جائیں، تو اس برف سے وضو کرنا صحیح ہوگا، لیکن اگر جسم پر برف ملنے سے جسم گیلا ہو کر اس سے پانی نہیں ٹپکتا، تو اس برف سے وضو کرنا صحیح نہیں ہوگا، اس صورت میں اگر پانی کا متبادل انتظام نہ ہوسکے، یا پانی تو موجود ہو، لیکن بہت ٹھنڈا ہو، اور گرم کرنے کا کوئی انتظام نہ ہو، اور اس ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے میں بیماری یا ہلاکت کا قوی اندیشہ ہو، تو اس صورت میں تیمم کرنا جائز ہوگا۔


دلائل:




الدرالمختار:(95/1،ط:سعید)

(غسل الوجه) أي إسالة الماء مع التقاطر ولو قطرة. وفي الفيض أقله قطرتان في الأصح.


الدرالمختار وردالمحتار:(234/1،ط:دارالفکر)

أو برد) يهلك الجنب أو يمرضه ولو في المصر إذا لم تكن له أجرة حمام ولا ما يدفئه، وما قيل إنه في زماننا يتحيل بالعدة فمما لم يأذن به الشرع، نعم إن كان له مال غائب يلزمه الشراء نسيئة وإلا لا.

(قوله يهلك الجنب أو يمرضه) قيد بالجنب؛ لأن المحدث لا يجوز له التيمم للبرد في الصحيح خلافا لبعض المشايخ كما في الخانية والخلاصة وغيرهما. وفي المصفى أنه بالإجماع على الأصح، قال في الفتح وكأنه لعدم تحقيق ذلك في الوضوء عادة. اه. ....

أقول: المختار في مسألة الخف هو المسح لا التيمم كما سيأتي في محله - إن شاء الله تعالى - نعم مفاد التعليل بعدم تحقيق الضرر في الوضوء عادة أنه لو تحقق جاز فيه أيضا اتفاقا، ولذا مشى عليه في الإمداد؛ لأن الحرج مدفوع بالنص، هو ظاهر إطلاق المتون.


الفتاوی الھندیۃ:(28/1،ط:دارالفکر)

وإذا خاف المحدث إن توضأ أن يقتله البرد أو يمرضه يتيمم. هكذا في الكافي واختاره في الأسرار لكن الأصح عدم جوازه إجماعا كذا في النهر الفائق والصحيح أنه لا يباح له التيمم. كذا في الخلاصة وفتاوى قاضي خان.


واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

دارالافتاء الاخلاص،کراچی


واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

دارالافتاء الاخلاص، کراچی

https://saagartimes.blogspot.com/2021/12/blog-post_90.html







نعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس گھرپر لگانا

نعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس گھرپر لگانا
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے ایسی نعلین کا کوئی ثبوت نہیں ہے 
اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے برکت حاصل کرنے کے قول سے رجوع کرلیا تھا۔
تحفۃ الالمعی
نعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عکس گھرپر لگانا
سوال: آج کل آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف نعلین پاک کی ایک مخصوص شبیہ منسوب ہے، کیا درست ہے کہ آپ علیہ السلام کے نعلین اسی طرح تھے؟ اور اگر کوئی اس کو بطورِ تبرک گھر وغیرہ میں لگائے ربیع الاول کے بارہ دن کی تخصیص کیے بغیر کیا یہ درست ہے؟ اور کسی شخص نے یہ کہا کہ تاریخ کی تعیین کے بغیر سارا سال گھر وغیرہ میں لگانا بغیر تبرک کے درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیا اس شخص کا یہ قول درست ہے؟
جواب: جہاں تک آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان آثارِمتبرکہ کا تعلق ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر استعمال رہے ہوں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمِ اطہر سے مس ہوئے ہوں، ان سے تبرک یا انہیں بوسہ دینا یا سر پر رکھنا متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علمائے متقدمین سے ثابت ہے۔ البتہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان آثار متبرکہ کی کوئی تصویر بنائی جائے یا اس کا کوئی نقشہ بنایا جائے تو وہ اگرچہ اصل آثار کے مساوی نہ ہوگا، لیکن چوں کہ اصل کے ساتھ مشابہت اورمشاکلت کی وجہ سے اس کو حضورِاقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے فی الجملہ ایک نسبت حاصل ہے؛ اس لیے اگر کوئی شخص اپنے شوقِ طبعی اور محبت کے داعیہ سے اسے بوسہ دے، یا آنکھوں سے لگائے تو فی نفسہ اس کی ممانعت پر بھی کوئی دلیل نہیں، لہذا فی نفسہ ایسا کرنا مباح ہوگا، بلکہ جس محبت کے داعیہ سے ایسا کیا جارہا ہے وہ محبت ان شاء اللہ موجبِ اجر بھی ہوگی، بشرطیکہ اس خاص عمل کو بذاتہ عبادت نہ سمجھا جائے، کیوں کہ عبادت کے لیے ثبوت شرعی درکار ہے۔
یہ تو مسئلہ کی اصل حقیقت تھی، لیکن چوں کہ ان نازک حدود کو سمجھنا اور ان نزاکتوں کو ملحوظ رکھنا عوام کے لیے مشکل معلوم ہوتا ہے، اور اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس میں حدود سے تجاوز نہ ہو جائے، مثلاً یہ کہ ان اعمال کو بذاتہ عبادت سمجھا جانے لگے یا ادب و تعظیم میں حدود سے تجاوز ہوکر مشرکانہ افعال یا اعتقادات اس کے ساتھ نہ مل جائیں۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ ان نقشوں کی عمومی تشہیر اور ان کی طرف ترغیب وغیرہ سے اجتناب ہی کرنا چاہئے۔ البتہ اگر کوئی اپنے عقیدے کو درست رکھ کر اور تاریخ کی تعیین کے بغیر اپنے پاس یہ نقشہ رکھے یا گھر  میں لگائے خواہ تبرک کے لئے ہو، لیکن لازم اور عبادت نہ سمجھے تو اسے بدعت نہیں کہا جائے گا۔
’’کفایت المفتی‘‘  میں نعلِ مبارک کے نقشہ پر حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور حضرت مفتی کفایت اللہؒ کی تفصیلی خط و کتابت کے بعد حضرت مفتی کفایت اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ لکھا ہے:
’’حضرت اقدس حکیم الامت مولانا تھانوی مدظلہ کے رسالہ ’’نیل الشفا‘‘ سے اس اعلانِ  رجوع کا مطلب یہ ہے کہ رسالہ نیل الشفا سے یہ سمجھا جاتا تھا کہ نقشہ نعل شریف سے استبراک و توسل کی مسلمانوں کو تلقین و ترغیب اور نقشہ کی تشہیر و اشاعت کی تحریض مقصود ہے۔ اب حضرت مولانا دام فیوضہم نے عوام کے تجاوز عن الحد اور غلو کو مدنظر رکھ کر استبراک و توسل کی ترغیب اور تشہیر و اشاعت کی تلقین سے رجوع فرمالیا ہے۔ رہا کسی عاشقِ صادق اور مجذوبِ محبت کا والہانہ طرزِعمل تو وہ بجائے خود مذموم نہیں، بلکہ مسکوت عنہ ہے۔ اسی طرح نفسِ مسئلہ میں تردد پیدا ہوجانے کا جو ذکر ہے، اس کا حاصل بھی بجائے جزمِ جوازِ سابق کے عدمِ جزمِ جواز ہے، نہ کہ جزمِ عدمِ جواز،  پس عشاق پر طعن نہ کیا جائے‘‘۔ (کفایت المفتی، ۲ / ۹۸، دارالاشاعت) 
فقط واللہ اعلم

https://saagartimes.blogspot.com/2021/12/blog-post_70.html

إذا ما قال لي ربي: جب میرا رب مجھ سے پوچھے گا

جب میرا رب مجھ سے پوچھے گا: کیا میری نافرمانی .....

(کہتے ہیں کہ یہ نظم سن کر امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اس قدر روئے کہ انکے شاگرد کو خدشہ لاحق ہوگیا کہ کہیں جان ہی نہ دے دیں۔۔۔ اور واقعی پڑھنے والے نے جس دردناک انداز میں پڑھی ہے، کلیجہ پھٹ جاتا ہے۔ خاموشی اور تنہائی میں سنیں اور دعاؤں میں یاد رکھیں).

إذا ما قال لي ربي .. أما استحييت تعصيني

وتخفي الذنب عن خلقي .. وبالعصيان تأتيني

جب میرا رب مجھ سے پوچھے گا: “کیا میری نافرمانی کرتے ہوئے تمہیں حیا نہ آئی؟”

کیا تم میری مخلوق سے اپنے گناہ چھپاتے اور اب نافرمانی کرکے میرے پاس آتے ہو؟

فكيف أجيب يا ويحي .. ومن ذا سوف يحميني

أسلي النفس بالآمال .. من حين إلى حين

پھر کیسے جواب دوں گا؟ ہائے افسوس مجھ پر!!! اور کون مجھے بچائے گا؟

میں وقتاً فوقتاً اپنے دل کو آرزوؤں کے ساتھ تسلی دیتا ہوں

وأنسى ما وراء الموت .. ماذا بعد تكفيني

كاني قد ضمنت العيش .. ليس الموت يأتيني

اور میں بھول جاتا ہوں کہ موت کے بعد کیا پیش آنے والا ہے؟۔۔۔ میرے دفنانے کے بعد کیا ہونے والا ہے؟

گویا کہ مجھے زندگی کی ضمانت دی گئی ہے اور موت مجھے آنی ہی نہیں

وجاءت سكرة الموت الشديدة من سيحميني

نظرت إلى الوجوه أليس منهم من سيفديني

اور جب موت کی شدید ترین بیہوشی آن پہنچی تو کون مجھے بچائے گا؟

میں نے لوگوں کے چہروں کی طرف دیکھا۔ کیا ان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو مجھے چھڑالے؟

سأسأل ما الذي قدمت في دنياي ينجيني

فكيف إجابتي من بعد ما فرطت في ديني

عنقریب مجھ سے سوال کیا جائے گا کہ میں نے اپنی دنیا میں کیا آگے بھیجا جو مجھے نجات دلوائے

اس سوال کا میں کیسے جواب دونگا جبکہ میں اپنے دین میں کوتاہی کرتا رہا

ويا ويحي ألم أسمع كلام الله يدعوني 

ألم أسمع لما قد جاء في ق و يس

اور افسوس مجھ پر!! کیا میں نے اللہ کا کلام نہ سنا جو مجھے اپنی طرف بلاتا تھا

کیا میں نے نہیں سنا جو (سورۃ) ق اور یٰس میں کہا گیا؟

ألم أسمع بيوم الحشر يوم الجمع والدين

ألم أسمع منادي الموت يدعوني يناديني

کیا میں نے یوم حشر، جمع کئے جانے والے دن، روز جزاء کے بارے میں نہیں سنا؟

کیا میں نے موت کے منادی کی آواز نہیں سنی جو مجھے پکارتا اور آواز دیتا تھا؟

فيا رباه عبد تائب من ذا سيؤويه 

سوى رب غفور واسع للحق يهديني

اے میرے رب یہ تیری بارگاہ میں ایک توبہ کرنے والا بندہ ہے۔ کون ہے جو مجھے پناہ دے؟

سوائے اس رب کے جس کی مغفرت بہت وسیع ہے، جو مجھے حق کی طرف ہدایت دیتا ہے

أتيت إليك فارحمني وثقل في موازيني

وخفف في جزائي أنت أرجى من يجازيني

میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں۔ تو مجھ پر رحم فرما اور میرے میزان کو بھاری کردے

اور میرا حساب ہلکا کردے۔ تو ہی وہ بڑی ذات ہے جس سے امید کی جاسکتی ہے، جو مجھے جزا دے گا۔ #S_A_Sagar

https://saagartimes.blogspot.com/2021/12/blog-post_23.html





Thursday, 16 December 2021

شریعت اسلامیہ میں مرد وعورت کلئے ”غض بصر“ کے حکم کا تحقیقی جائزہ

شریعت اسلامیہ میں مرد وعورت کیلئے ”غض بصر“ کے حکم کا تحقیقی جائزہ

 اسلام پاک وصاف معاشرے کی تعمیر اور انسانی اخلاق وعادات کی تہذیب کرتا ہے اور اپنے ماننے والوں کی تہذیب اور پُرامن معاشرے کے قیام کے لیے جو اہم تدیبر کرتا ہے، وہ انسانی جذبات کو ہر قسم کے ہیجان سے بچاکر پاکیزہ زندگی کا قیام ہے. چنانچہ اسی سلسلے میں اسلام نے حفاظتِ نظر پر زور دیا ہے؛ چونکہ بدنظری تمام فواحش کی بنیاد ہے، اس لئے قران وحدیث سب سے پہلے اس کی گرفت کرتے ہیں۔

ارشاد باری تعالی ہے:

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ (۱)

ترجمہ: ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کو بھی محفوظ رکھیں، یہ ان کے لئے بہت پاکیزہ ہے، بیشک اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔ اور اسی طرح عورتوں کو بھی غض بصر کا حکم دیاگیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ (۲)

ترجمہ: اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں!

حقیقت یہ ہے کہ ”بدنظری“ ہی ”بدکاری“ کے راستے کی پہلی سیڑھی ہے۔ اسی وجہ سے ان آیات میں نظروں کی حفاظت کے حکم کو ”حفاظتِ فرج“ کے حکم پر مقدم رکھا گیا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ نے ”بدنظری” سے منع کیا اور اس کا فائدہ یہ بتایا کہ اس سے شہوت کی جگہوں کی حفاظت ہوگی نیز یہ چیز تزکیہٴ قلوب میں بھی معاون ہوگی ۔ ”غضِ بصر“ کا حکم ہر مسلمان کو دیا گیا ہے۔ نگاہ نیچی رکھنا فطرت اور حکمتِ الٰہی کے تقاضے کے مطابق ہے؛ اس لئے کہ عورتوں کی محبت اور دل میں ان کی طرف خواہش فطرت کا تقاضا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاءِ (۳)

”لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت نے فریفتہ کیا ہوا ہے جیسے عورتیں“۔ آنکھوں کی آزادی اور بے باکی خواہشات میں انتشار پیدا کرتی ہے۔ ایک حدیث میں بدنظری کو آنکھو ں کا زنا قرار دیا گیا. ارشاد نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

فَزِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ (۴) ”آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے“۔

راستے میں مجلس جماکر بیٹھنے سے اسی وجہ سے منع کیا گیا ہے کہ وہ عام گزر گاہ ہے، ہرطرح کے آدمی گزرتے ہیں، نظر بے باک ہوتی ہے ،ایسا نہ ہو کہ کسی پر نظر پڑے اور وہ برائی کا باعث بن جائے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ایک دفعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ راستوں پر بیٹھنے سے پرہیز کرو! صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنی مجبوری پیش کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تم کو جب کوئی مجبوری ہو تو راستہ کا حق ادا کرو! صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سوال کیا راستہ کا حق کیا ہے؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

غَضُّ الْبَصَرِ وَکَفُّ الْأَذَی وَرَدُّ السَّلَامِ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّہْیُ عَنْ الْمُنْکَرِ (۵)

”نگاہ نیچی رکھنا، اذیت کا رد کرنا، سلام کا جواب دینا، اور بھلی بات کاحکم دینا اور بری بات سے منع کرنا“۔ حدیث میں نظر کو شیطانی زہرآلود تیر قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

النَّظْرَةُ سَہْمٌ مَسْمُومٌ مِنْ سِہَامِ إبْلِیسَ مَنْ تَرَکَہَا مِنْ مَخَافَتِی أَبْدَلْتہ إیمَانًا یَجِدُ حَلَاوَتَہُ فِی قَلْبِہِ (۶)

”بدنظری شیطان کے زہرآلود تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے، جو شخص اس کو میرے خوف کی وجہ سے چھوڑ دے، میں اس کو ایک ایسی ایمانی قوت دوں گا، جس کی شیرینی وہ اپنے دل میں پائے گا“۔ نگاہ کا غلط استعمال بہت سارے فتنوں اور آفتوں کا بنیادی سبب ہے ۔چونکہ دل میں تمام قسم کے خیالات و تصورات اور اچھے بُرے جذبات کا برانگیختہ و محرک ہونا، اسی کے تابع ہے؛ اس لئے اسلام میں نگاہوں کو نیچا رکھنا اور ان کی حفاظت کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ بدنظری کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس سے حسرت وافسوس اور رنج وغم کی کیفیت ہوجاتی ہے۔ کئی دفعہ نظر کا تیر دیکھنے والے کو خود ہی لگ کر اس کے دل ودماغ کو زخمی کردیتا ہے۔

حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ (م ۷۵۱ھ) لکھتے ہیں:

کُلُّ الْحَوَادِثِ مَبْدَاُہَا مِنَ النَّظَرِ

وَمُعْظَمُ النَّارِ مِنْ مُسْتَصْغَرِ الشَّرَرِ

کَمْ نَظْرَةٍ بَلَغَتْ فِی قَلْبِ صَاحِبِہَا

کَمَبْلَغِ السَّہْمِ بَیْنَ الْقَوْسِ وَالْوَتَرِ

یَسُرُّ مُقْلَتَہُ مَا ضَرَّ مُہْجَتَہُ

لَا مَرْحَبًا بِسُرُورٍ عَادَ بِالضَّرَرِ

یَا رَامِیًا بِسِہَامِ اللَّحْظِ مُجْتَہِدًا 

أَنْتَ الْقَتِیلُ بِمَا تَرْمِی فَلَا تُصِبِ

یَا بَاعِثَ الطَّرْفِ یَرْتَادُ الشِّفَاءَ لَہُ        

اِحْبِسْ رَسُولَکَ لَا یَأْتِیکَ بِالْعَطَبِ (۷)

ترجمہ: تمام حادثات کی ابتدا نظر سے ہوتی ہے، اور بڑی آگ چھوٹی چنگاریوں سے ہوتی ہے، کتنی ہی نظریں ہیں جو نظروالے کے دل میں چبھ جاتی ہیں، جیساکہ کمان اور تانت کے درمیان تیر ہوتا ہے، اس کی آنکھ ایسی چیز سے خوش ہورہی ہے جو اس کی روح کے لئے نقصان دہ ہے۔ ایسی خوشی جو ضرر کو لائے، اس کے لئے خوش آمدید نہیں ہے۔ اے نظر کا تیر چلانے میں کوشش کرنے والے! اپنے چلائے ہوئے تیر سے توہی قتل ہوگا! اے نظر باز! تو جس نظر سے شفا کا متلاشی ہے، اپنے قاصد کو روک! کہیں یہ تجھی کو ہلاک نہ کردے۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کا کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا کہ نگاہ کا غلط استعمال انسان کے لئے نقصان دہ ہے۔ اسی لئے شریعت نے عفت وعصمت کی حفاظت کے لئے ”غضِ بصر“ کا حکم دیا ہے۔ قرآن کریم میں مردوں اور عورتوں دونوں کو ”غضِ بصر“ کا حکم دیا گیا؛ مگر جمہور فقہا ء نے اس حکم میں مرد وعورت کے درمیان فرق کیا ہے. پہلے مردوں کے لئے غض بصر کے حکم میں اہل علم کا موقف ذکر کرکے پھر عورتوں کے لئے اس حکم کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔

مردوں کے لئے غضِ بصر کا حکم:

(۱) اس پر اجماع ہے کہ مرد کے لئے دوسرے مرد کے ستر کے علاوہ پورے جسم کی طرف نظر کرنا جائز ہے۔(۸)

(۲) اس پر بھی اہل علم کا اجماع ہے کہ بے ریش لڑکے کو لذت اور اس کی خوبصورتی سے متمتع ہونے کے ارادہ سے دیکھنا حرام ہے۔ (۹)

مردوں کا عورتوں کی طرف دیکھنے کی تین صورتیں ہیں:

(۱) مرد کا اپنی بیوی کو دیکھنا جائز ہے۔

(۲) مرد اپنی ذی محرم عورتوں کے مواضع زینت کو دیکھ سکتا ہے اور حنفیہ کے نزدیک مواضعِ زینت میں، سر، چہرہ، کان، گلا، سینہ، بازو، کلائی، پنڈلی، ہتھیلی اور پاؤں شامل ہے۔ (۱۰)

(۳) مرد کا اجنبیہ عورت کی طرف نظر کرنا، اس میں تفصیل ہے:

$   اگر مرد کسی عورت سے شادی کا ارادہ رکھتا ہے تو اُس کے لئے اس عورت کا چہرہ دیکھنا جائز ہے.

امام کاسانی رحمۃ اللہ علیہ (م ۵۸۷ھ) لکھتے ہیں:

وکذا إذا أراد أن یتزوج امرأة فلا بأس أن ینظر إلی وجہہا (۱۱)

”اور اسی طر ح جو شخص کسی عورت سے شادی کرنا چاہتا ہو تو اس کے لئے کوئی حرج نہیں کہ وہ اس عورت کے چہرے کی طرف دیکھے“؛ بلکہ ایسی عورت کے چہرہ کی طرف نظر کرنے میں جمہور فقہاء کا اتفاق ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ (م ۶۷۶ ھ) مخطوبہ کی طرف جواز نظر والی حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

وفیہ استحباب النظر إلی وجہ من یرید تزوجہا وہو مذہبنا ومذہب مالک وأبی حنیفة وسائر الکوفیین وأحمد وجماہیر العلماء (۱۲)

”اور اس حدیث میں اس عورت کے چہرے کی طرف نظر کرنا اس شخص کے لئے مستحب ہے جو نکاح کا ارادہ رکھتا ہو اور یہی ہمارا مذہب ہے اور مالک، ابوحنیفہ، تمام اہلِ کوفہ اور احمد سمیت جمہور علماء کا ہے.

$   طبیب بغرضِ علاج اجنبیہ کو دیکھ سکتا ہے۔

امام رازی رحمۃ اللہ علیہ (م ۶۰۶ ھ) لکھتے ہیں:       

یجوز للطبیب الأمین أن ینظر إلیہا للمعالجة (۱۳)

”شریف الطبع طبیب کے لئے عورت کی طرف بغرضِ علاج نظر کرنا جائز ہے“۔  

$   گواہ عورت کے خلاف گواہی دیتے وقت اور قاضی عورت کے خلاف فیصلہ کرتے وقت اس کا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔ علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ (م ۱۰۸۸ ھ) لکھتے ہیں:

فإن خاف الشہوة أو شک امتنع نظرہ إلی وجہہا ․․․․․․․․ إلا النظر لحاجة کقاض وشاہد یحکم ویشہد علیہا (۱۴)

”پس اگر شہوت کا خوف ہو یا شہوت کا شک ہو تو اس صورت میں عورت کے چہرے کی طرف دیکھنا ممنوع ہے؛ البتہ ضرورت کے وقت، دیکھنا جائز ہے، مثلا قاضی کا فیصلہ سناتے یا گواہ کا گواہی دیتے وقت دیکھنا“۔

$   ہنگامی حالات میں، مثلا کوئی عورت پانی میں ڈوب رہی ہے یا آگ میں جل رہی ہے تو اس کی جان بچان کے لئے اس کی طرف دیکھا جاسکتا ہے۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

لو وقعت فی غرق أو حرق فلہ أن ینظر إلی بدنہا لیخلصہا (۱۵)

”اگر عورت پانی میں ڈوب رہی ہو یا آگ میں جل رہی ہو تو اس کی جان بچانے کے لئے اس کے بدن کی طرف دیکھنا جائز ہے.“ اور اسی کے ساتھ لاحق کرتے ہوئے مزید یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ زلزلہ وسیلاب، چھتوں کا گرجانا، آسمانی بجلی کا گرنا، چوری ڈکیتی کے وقت بھی افراتفری کے عالم میں یہی حکم ہوگا۔

 $   معاملہ کرتے وقت یعنی، اشیاء کے لینے و دینے اور خریدوفروخت کے وقت بھی عورت کے چہرے کی طرف نظر کی جاسکتی ہے۔ امام کاسانی لکھتے ہیں:

لأن إباحة النظر إلی وجہ الأجنبیة وکفیہا للحاجة إلی کشفہا فی الأخذ والعطاء (۱۶)

”اشیاء کے لینے اور دینے کی ضرورت کی وجہ سے اجنبیہ کے چہرے کی طرف نظر کرنا جائز ہے“۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

جواز النظر للحاجة عند البیع والشراء (۱۷)

”خرید وفروخت کی ضرورت کے وقت عورت کی طرف نظر کرنا جائز ہے“۔ اور اس کی وجہ یہی ہے کہ بائع یا مشتری معاملہ کرتے وقت اس عورت کو پہچان لے؛ تاکہ اگر کسی وجہ سے چیز واپس کرنی پڑے کسی نقصان وضرر کے وقت، یا بعد میں قیمت وصول کرنی ہو تو دوسر ی عورتوں سے الگ شناخت کی جاسکے۔ (۱۸) جبکہ بعض اہل علم کی رائے میں خرید وفروخت کے وقت عورت کا چہرہ کھولنا یا مرد کا دیکھنا جائز نہیں ہے؛ اس لئے کہ یہ ایسی ضرورت نہیں ہے کہ جس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو؛ چونکہ عورتیں بیع وشرا نقاب وحجاب کے ساتھ بھی کرسکتی ہیں (۱۹)۔ اور یہی بات عصرِحاضر کے لحاظ سے زیادہ مناسب ہے؛ اس لئے کہ آج کل تو باقاعدہ خریدی ہوئی چیز کی رسید مل جاتی ہے، جس سے اس چیز کے واپس کرنے میں مزید کسی شناخت کی ضرورت نہیں ہے. مذکورہ بالا صورتوں کے علاوہ بغیر کسی حاجت اور ضرورت کے اجنبیہ کی طرف دیکھنے میں جمہور فقہاء اور حنفیہ کے درمیان اختلاف ہے۔ حنفیہ کے نزدیک فتنہ اور شہوت سے بے خوف ہونے کی صورت میں اجنبیہ عورت کی طرف دیکھنا جائز ہے؛ مگر ائمہٴ ثلاثہ کے نزدیک فتنہ اور شہوت کا خوف ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں بلاضرورت اجنبیہ عورت کی طرف دیکھنا ناجائز ہے۔ ائمہ کے موقف کی تفصیل اور دلائل کے نقل کرنے سے پہلے ضرور ی ہے کہ فتنہ اور شہوت کا مفہوم واضح کیا جائے؛ تاکہ با ت کا سمجھنا آسان ہو۔

فتنہ کا معنی:

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ (م ۱۲۵۲ ھ) لکھتے ہیں:

(قولہ بل لخوف الفتنة) أی الفجور بہا قاموس أو الشہوة (۲۰) فتنہ سے مراد گناہ یا شہوت ہے۔

شہوت کی تعریف:

علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

أنہا میل القلب مطلقا (۲۱)

”شہوت دل کے مائل ہونے کا نام ہے.“ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

بیان الشہوة التی ہی مناط الحرمةأن یتحرک قلبُ الإنسان ویمیلَ بطبعہ إلی اللذة (۲۲)

”شہوت کا بیان جس پر حرمت کا مدار ہے، وہ یہ کہ انسان کے دل میں حرکت پیدا ہو اور طبیعت لذت کی طرف مائل ہوجائے“ ۔

مذکورہ بالا تعریفات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ کسی خوبصورت چہرے کی طرف دیکھنے سے (خواہ وہ عورت کا ہو یا بے ریش لڑکے کا) دل کی کیفیات کا متحرک ہونا اور قلبی میلان ورجحان کے ساتھ طبیعت کا حصول لذت کی طرف مائل ہونا شہوت کہلاتا ہے۔ جمہور علماء کا تفصیلی موقف درج ذیل ہے۔

مالکیہ کاموقف:

علامہ ابن رشد مالکی (م ۵۲۰ ھ)

ولا یجوز لہ أن ینظر إلی الشابة إلا لعذر من شہادة أو علاج (۲۳)

”اور مرد کے لئے جائز نہیں کہ وہ نوجوان عورت کی طرف نظر کرے سوائے گواہی یا علاج وغیرہ کی مجبوری حالت کے۔

قاضی امام ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ مالکی (م ۵۴۳ھ) لکھتے ہیں:

لا یحل للرجل ان ینظر الی المرأة (۲۴)

” آدمی کے لئے حلال نہیں کہ وہ عورت کی طرف دیکھے“۔

شوافع کا موقف:

امام ابواسحاق شیرازی رحمۃ اللہ علیہ (م ۴۷۶ھ) لکھتے ہیں:

وأما من غیر حاجة فلا یجوز للأجنبی أن ینظر إلی الأجنبیة (۲۵)

”اور بہرحال بلاضرورت اجنبی کے لئے جائز نہیں کہ وہ اجنبیہ کی طرف دیکھے“۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ (م ۵۰۵ ھ) لکھتے ہیں:

نظر الرجل الی المراة․․․․ وان کانت اجنبیة حرم النظرالیہا مطلقا (۲۶)

”اگر عورت اجنبیہ ہو تو اس کی طرف نظر کرنا مطلقاً حرام ہے.“

حنابلہ کا موقف:

شیخ الاسلام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ (م۶۲۰ھ) لکھتے ہیں:

فأما نظر الرجل إلی الأجنبیة من غیر سبب فإنہ محرم إلی جمیعہا فی ظاہر کلام أحمد (۲۷)

”امام احمد کے ظاہری کلام کے مطابق آدمی کا اجنبیہ عورت کے پورے جسم کی طرف بلاوجہ دیکھنا حرام ہے.“ 

جمہور فقہاء کے دلائل:

۱- آیت کریمہ:

ِقُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ (۲۸)

”ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں“۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ (م ۲۰۴ھ ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

فرض اللہ علی العینین أن لا ینظر بہما إلی ماحرم اللّٰہ، وأن یغضہما عما نہاہ (۲۹)

”اللہ تعالی نے آنکھوں پر فرض کیا کہ وہ نہ دیکھیں اس چیز کو جس کا دیکھنا اللہ نے حرام قرار دیا، اور جس کے دیکھنے سے منع کیا، وہاں آنکھوں کو جھکایا جائے“۔

۲- آیت کریمہ:

وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسَْلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَاء ِ حِجَابٍ (۳۰)

”اور جب تمہیں ان (نبی کی بیویوں) سے کوئی چیز مانگنا (یا کچھ پوچھنا) ہو تو تم پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ امام قرطبی (م ۶۷۱ ھ) لکھتے ہیں:

فی ہذہ الآیة دلیل علی أن اللّٰہ تعالی أذن فی مسألتہن من وراء حجاب، فی حاجة تعرض، أو مسألة یستفتین فیہا، ویدخل فی ذلک جمیع النساء بالمعنی (۳۱)

”یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالی نے ازواج مطہرات سے ضرورت پڑنے پر پردے کے پیچھے سے سوال کرنے یا مسئلہ پوچھنے کی اجازت دی ہے۔ اور اس حکم میں تمام مسلمان عورتیں داخل ہیں“۔ معلوم ہوا مردوں کے لئے عورتوں کو دیکھنا جائز نہیں؛ اسی لئے پردے کی آڑ میں عورتوں سے سوال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

۳- حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ کی روایت:

إنَّ اللَّہَ إذَا کَتَبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ حَظَّہُ مِنْ الزِّنَا أَدْرَکَ ذَلِکَ لَا مَحَالَةَ فَالْعَیْنَانِ تَزْنِیَانِ، وَزِنَاہُمَا النَّظَرُ، وَالْیَدَانِ تَزْنِیَانِ وَزِنَاہُمَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلَانِ تَزْنِیَانِ وَزِنَاہُمَا الْمَشْیُ؛ وَالنَّفْسُ تَمَنَّی وَتَشْتَہِی وَالْفَرْجُ یُصَدِّقُ ذَلِکَ أَوْ یُکَذِّبُہُ (۳۲)

”بے شک اللہ تعالی نے ابن آدم پر زنا کا حصہ لکھ دیاہے جس کو وہ یقینا پائے گا ۔پس آنکھیں زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا دیکھنا ہے اور ہاتھ زنا کرتے ہیں ان کا زنا پکڑنا ہے۔ اور پاؤں زنا کرتے ہیں ان کا زنا چلنا ہے اور نفس زنا کی تمنا کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب“ ۔

۴- نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:       

یَا عَلِیُّ لَا تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ، فَإِنَّ لَکَ الْأُولَی وَلَیْسَتْ لَکَ الآخِرَةُ (۳۳)

”اے علی! نظر کی پیروی مت کر؛ اس لئے کہ پہلی نظر تو جائز ہے؛ مگر دوسری نگاہ جائز نہیں“۔ 

۵- حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:

أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم َأَرْدَفَ الْفَضْلَ فَاسْتَقْبَلَتْہُ جَارِیَةٌ مِنْ خَثْعَمٍ فَلَوَی عُنُقَ الْفَضْلِ فقَالَ اَبوُہ الْعَبَّاسُ لَوَیْتَ عُنُقَ ابْنِ عَمِّکَ قَالَ رَأَیْتُ شَابًّا وَشَابَّةً فَلَمْ آمَنِ الشَّیْطَانَ عَلَیْہِمَا (۳۴)

”بے شک نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھایا آپ کو قبیلہ خثعم کی ایک لڑکی ملی، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل رضی اللہ عنہ کی گردن دوسری طرف پھیردی، اس پر ان کے والد عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ نے اپنے چچازاد بھائی کی گردن کیوں پھیردی؟ آپ نے صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا میں نے نوجوان مرد اور عورت کو دیکھا تو میں ان پر شیطان سے بے خوف نہیں ہوا۔

۶- حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اچانک نظر پڑجائے تو کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا:

أَنْ أَصْرِفَ بَصَرِی (۳۵)

”میں اپنی نظر پھیرلوں“ 

۷- وہ احادیث جن میں نکاح سے پہلے عورت کی طرف دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ (۳۶) اگر عورتوں کی طرف نظر کرنا مطلقاً مباح ہوتا تو پھر نکاح کے ارادہ کے ساتھ دیکھنے کی تخصیص کیوں کی گئی؟ (۳۷)

یہ تمام دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اجنبیہ عورت کی طرف بلاضرورت دیکھنا ناجائز ہے؛ چنانچہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مردوں کے لئے غض بصر کا حکم لازمی ہے. اور استثنائی صورتوں کے علاوہ اجنبیہ عورت کے چہرے کی طرف دیکھنا مطلقاً حرام ہے۔ فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

ومنہم من جوز النظر الی الوجہ حیث تومن الفتنة․․․․․ وہو بعید لان الشہوة وخوف الفتنة امر باطن فالضبط بالأنوثة التی ہی من الاسباب الظاہرة أقرب الی المصلحة (۳۸)

”بعض حضرات نے فتنہ سے امن میں ہونے کی صورت میں عورت کا چہرہ دیکھنے کو جائز قرار دیا ہے اور وہ بعید ہے؛ اس لئے کہ شہوت اور فتنہ کا خوف باطنی معاملہ ہے، لہٰذا موٴنث کے ساتھ حکم کو منضبط کرنا یہ اسباب ظاہرہ میں سے ہے اور مصلحت کے زیادہ قریب ہے“۔ اما م غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی مذکورہ عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر عورت کی طرف نظر کرنے کو فتنہ سے امن میں ہونے کی صورت میں جائز قرار دیا جائے تو ایسا ممکن نہیں ہے؛ اس لئے کہ شہوت اور فتنہ کے خوف کا تعلق انسان کے ظاہر سے نہیں؛ بلکہ باطن سے ہے اور کسی کے باطن میں کیا ہے؟ کو ئی دوسرا فرد نہیں جانتا؛ چنانچہ فتنہ کے خوف کو ضابطہ بنانے کی بجائے اگر یہ ضابطہ بنایا جائے کہ عورت کی طرف بلاوجہ نظر کرنا ہی جائز نہیں، یہ اسباب ظاہرہ اور مصلحت کے زیادہ قریب ہے۔ مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ دیوبندی احکام القرآن للتھانوی میں لکھتے ہیں:

”اور اجنبیہ عورت کے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف نظر کرنا، مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک حرام ہے۔ خواہ فتنہ کا خوف ہو یا نہ ہو۔ اور ان حضرات کا خیال ہے کہ خوبصورت چہرے کی طرف دیکھنا فتنہ کو لازم کرتا ہے اور عام طور پر دل میں میلان پیدا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا، اجنبیہ کی طرف نظر کرنا، خود فتنہ کے قائم مقام ہے. جس طرح کہ نیند کو خروج ریح کے احتمال کی وجہ سے اس کے قائم مقام کردیا گیا ہے. اور محض سونے سے وضو کے ٹوٹنے کا حکم لگادیا جاتا ہے خواہ ریح کا خرو ج ہو یا نہ ہو اور اسی طرح خلوت صحیحہ عورت کے ساتھ وطی کے قائم مقام ہے تمام احکام میں (۳۹) عام ازیں کہ اس خلوت میں وطی پائی گئی ہو یا نہ پائی گئی ہو“ (۴۰)۔ 

(’’خلوتِ صحیحہ‘‘  بعض احکام میں وطی (صحبت) کے قائم مقام ہے اور بعض میں نہیں ہے، خلوتِ صحیحہ مہر کی تاکد، نسب کے ثبوت، عدت، نفقہ، سکنی، منکوحہ کی بہن سے نکاح کی حرمت، چار عورتوں کی موجودگی میں پانچویں سے نکاح، عورت کے حق میں طلاق کے وقت کی رعایت، خلوت کے بعد عدت میں دوسری طلاق کے واقع ہونے وغیرہ میں وطی (صحبت) کے قائم مقام ہے۔ جب کہ غسل کے وجوب، زنا میں محصن ہونے کے لئے، منکوحہ کی بیٹیوں سے نکاح حرام ہونے میں، تین طلاق کے بعد پہلے شوہر کے لئے حلال ہونے میں، رجوع اور میراث وغیرہ میں ’’خلوتِ صحیحہ‘‘ وطی کے قائم مقام نہیں ہے. حوالہ: ▪الفتاوى الهندية (1/ 306) ▪الدرالمختار مع ردالمحتار 3/117 ▪فتوی جامعہ بنوری ٹاون کراچی 144008201307 (صححہ: #ایس_اے_ساگر) معلوم ہوکہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مرد کے لئے عورت کے چہرے کی طرف بلاضرورت نظر کرنا جائز نہیں، اور اس کی وجہ یہ ذکر کی گئی ہے کہ اکثر حالات میں خوبصورت عورت کا چہرہ دیکھ کر انسان اس کی طرف مائل ہوکر فتنہ میں واقع ہوسکتا ہے۔ لہٰذا جس طرح، نیند کو خروج ریح کے قائم مقام قرار دے کر وضو ٹوٹنے کا حکم لگادیا جاتا ہے خواہ ہوا خارج ہو یا نہ ہو۔ اور خلوت صحیحہ (۴۱) میں وطی نہ پائی گئی ہو؛ مگر اس خلوت کو وطی کے قائم مقام کرکے احکام جاری کئے جاتے ہیں (۴۲) اسی طرح عورت کی طرف نظر کرنے سے انسان فتنہ میں پڑسکتا ہے، لہٰذا اجنبیہ کی طرف نظر کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص فتنہ میں واقع ہوجائے۔

حنفیہ کا مؤقف:

حنفیہ کے نزدیک بلاشہوت اجنبیہ عورت کے چہرہ اور ہتھیلی کی طرف نظر کرنا جائز ہے۔ امام ابوبکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ (م۳۷۰ھ) لکھتے ہیں:

جاز للأجنبی أن ینظر من المرأة إلی وجہہا ویدیہا بغیر شہوة (۴۳)

”اجنبی کے لئے جائز ہے کہ وہ بغیر شہوت کے عورت کے چہرہ اور ہتھیلیوں کی طرف دیکھے“۔ امام کاسانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

فلا یحل النظر للأجنبی من الأجنبیة الحرة إلی سائر بدنہا إلا الوجہ والکفین (۴۴)

”اجنبی کے لئے آزاد جنبیہ کے چہرہ اور ہتھیلیوں کے علاوہ باقی بدن کی طرف نظر کرنا حلال نہیں ہے“۔ صاحب ہدایہ علامہ مرغینانی رحمۃ اللہ علیہ (م ۵۹۳ ھ) لکھتے ہیں:

ولا یجوز أن ینظر الرجل إلی الأجنبیة إلا وجہہا وکفیہا (۴۵)

”اور آدمی کے لئے جائز نہیں کہ وہ اجنبیہ کی طرف دیکھے سوائے چہرہ اور ہتھیلی کے“۔

حنفیہ کے دلائل:

۱- ارشاد باری تعالی ہے:

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ (۴۶)

”ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں“۔ اس آیت میں مردوں کو غض بصر کا حکم دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اجنبیہ کی طرف دیکھنا بالکل جائز نہیں؛ مگر حنفیہ نے سورة النور کی درج ذیل آیت کی وجہ سے چہرے اور ہتھیلیوں کا استثناء کیا ہے۔

وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا (۴۷)

”اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں؛ مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے“۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ”اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا“ کی تفسیر سرمہ اور انگوٹھی سے کی ہے (۴۸)۔ سرمہ چونکہ آنکھ میں ڈالا جاتا ہے اور انگوٹھی ہاتھ میں ہوتی ہے؛ لہٰذا زینت ظاہر ہ سے مراد چہرہ اور ہتھیلی ہے۔ اور حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ سے دوسری روایت بھی ہے جس میں آپ نے ”اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا“ کی تفسیر ہتھیلی اور چہرہ سے کی ہے (۴۹)۔ چہرہ اور ہتھیلیوں کے علاوہ باقی اعضاء اسی نہی کے حکم میں داخل ہیں (۵۰)۔ چنانچہ اجنبی مرد کے لئے اجنبیہ کے چہرے اور ہتھیلیوں کے علاوہ باقی جسم کی طرف نظر کرنا حلال نہیں؛ لیکن اگر عورت کی طرف نظر کرنے میں شہوت کا اندیشہ ہو تو پھر عورت کے چہرے کو دیکھنا حلال نہ ہوگا۔ امام شمس الائمہ سرخسی (م ۴۸۳ ھ) اس مسئلہ پر بڑی تفصیلی بحث کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

وہذا کلہ إذا لم یکن النظر عن شہوة فإن کان یعلم أنہ إن نظر اشتہی لم یحل لہ النظر إلی شیء منہا․․․․․ وکذلک إن کان أکبر رأیہ أنہ إن نظر اشتہی لأن أکبر الرأی فیما لا یتوقف علی حقیقتہ کالیقین (۵۱)

”اور یہ ساری تفصیل اس وقت ہے جب مرد کی وہ نظر شہوت سے نہ ہو؛ لیکن اگر وہ یہ جانتا ہو کہ اگر اس نے عورت کی طرف نظر کی تو اس کے دل میں اس کی طرف رغبت پیدا ہوجائے گی تو ایسی صورت میں اس مرد کے لئے عورت کے کسی عضو کو بھی دیکھنا حلال نہ ہوگا۔ یہی حکم اس صورت میں ہے جب مرد کی غالب رائے یہ ہو کہ اگر اس نے عورت کی طرف نظر کی تو اس کے دل میں اس کی طرف میلان ہوجائے گا؛ کیونکہ جس چیز کی حقیقت پر مطلع نہ ہوسکتے ہوں، اس کے اندر غالب رائے یقین کا درجہ رکھتی ہے“۔ امام کاسانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

إنما یحل النظر إلی مواضع الزینة الظاہرة منہا من غیر شہوة فأما عن شہوة فلا یحل لقولہ علیہ الصلاة والسلام اَلْعَیْنَانِ تَزْنِیَانِ (۵۲) ولیس زنا العینین إلا النظر عن شہوة ولأن النظر عن شہوة سبب الوقوع فی الحرام فیکون حراما إلا فی حالة الضرورة (۵۳)

”بے شک زینت ظاہرہ کی جگہوں کی طرف نظر اس وقت حلال ہے جب وہ بغیر شہوت کے ہو اور اگر وہ نظر شہوت سے ہو تو پھر حلال نہ ہوگی ،اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آنکھیں زنا کرتی ہیں“ اور آنکھوں کا زنا شہوت والی نظر سے ہوتا ہے۔ اور شہوت بھری نظر حرام میں واقع ہونے کا سبب ہے، لہٰذا وہ حرام ہوگی سوائے مجبوری کی حالت میں۔

۲- نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من نَظرَ إِلَی محَاسِن امْرَأَة أَجْنَبِیَّة عَن شَہْوَة صُبَّ فِی عَیْنَیْہِ الآنک یَوْمَ القِیَامَةِ (۵۴)

”جس شخص نے شہوت کے ساتھ کسی اجنبی عورت کے محاسن کی طرف نظر کی تو قیامت کے دن اس کی آنکھوں میں سیسہ ڈالا جائے گا“۔ مذکورہ بالا دلائل کی بناء پر حنفیہ کے نزدیک فتنہ اور شہوت کا خوف نہ ہونے کی صورت میں عورت کے چہرہ کی طرف نظر کی جاسکتی ہے. اور اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو پھر عورت کا چہرہ دیکھنا منع ہوگا اس لئے کہ عورت کی اصل خوبصورتی تو اس کے چہرہ میں ہوتی ہے۔ امام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

ولأن حرمة النظر لخوف الفتنة وعامة محاسنہا فی وجہہا فخوف الفتنة فی النظر إلی وجہہا أکثر منہ إلی سائر الأعضاء (۵۵)

”اور بے شک دیکھنے کی حرمت فتنہ کے خوف کی وجہ سے ہے اور عورت کے اکثر محاسن اس کے چہرے ہی میں ہوتے ہیں؛ اس لئے دوسرے اعضاء کی طرف دیکھنے کے مقابلے میں چہرہ کی طرف دیکھنے میں فتنہ کا خوف زیادہ ہے“۔ اور اگر فتنہ کاخوف نہیں ہے تو پھر عورت کی طرف دیکھنا بھی حرام نہیں ہے؛ مگر چونکہ اس زمانے میں بے راہ روی اور عریانی وفحاشی کاسیلاب نہایت تیزی کے ساتھ بڑھتاجارہا ہے اور اس شرط کا فی زمانہ پایا جانا مشکل ہے؛ اس لئے متاخرین حنفیہ (۵۶) نے مطلقاً عورت کے چہرے کی طرف دیکھنے سے منع کیا ہے۔ علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

فإن خاف الشہوة أو شک امتنع نظرہ إلی وجہہا فحل النظر مقید بعدم الشہوة وإلا فحرام وہذا فی زمانہم وأما فی زماننا فمنع من الشابة قہستانی وغیرہ إلا النظر لحاجة کقاض وشاہد یحکم ویشہد علیہا (۵۷)

”پس اگر شہوت کا خوف ہو یا شہوت کا شک ہو تو اس صورت میں عورت کے چہرے کی طرف دیکھنا ممنوع ہے۔ پس نظر کاحلال ہونا مقید ہے شہوت نہ ہونے کے ساتھ وگرنہ حرام ہے۔ یہ حکم ان پہلے فقہاء کے زمانے کا ہے۔ اور جہاں تک ہمارے اس دور کا تعلق ہے، اس میں تو نوجوان عورت کی طرف نظر کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے. قہستانی وغیرہ؛ البتہ ضرورت کے وقت، دیکھنا جائز ہے، مثلا قاضی کا فیصلہ سناتے وقت دیکھنا یا گواہ کا عورت کے خلاف گواہی دیتے وقت دیکھنا “۔ مذکورہ بالا بحث سے معلوم ہوا کہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مرد کے لئے عورت کی طرف بلاضرورت دیکھنا ناجائز نہیں، اور متقدمین حنفیہ کے نزدیک فتنہ سے مامون ہونے کی صورت میں مرد کے لئے عورت کی طرف دیکھنا جائز ہے؛ مگر چونکہ اب وہ حالات نہیں رہے، عریانی اور فحاشی بڑھتی جارہی ہے؛ اس لئے متاخرین حنفیہ کے نزدیک بلاضرورت مرد کا اجنبی عورت کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے؛چنانچہ اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب جمہور فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مرد کے لئے بلاضرورت عورت کی طرف دیکھنا ناجائز ہے۔

--------------------------

حواشی وحوالہ جات:

(۱) القرآن، النو:۳۰۔

(۲) القرآن، النور۳۱۔

(۳) القرآن،آل عمران:۱۴۔

(۴) البخاری ،محمد بن اسماعیل ا، الجامع الصحیح، بیروت، دار ابن کثیر الیمامہ ،۱۴۰۷ھ، جلد۵ ، صفحہ ۲۳۰۴۔

(۵) مسلم بن حجاج، امام، الصحیح، بیروت ،داراحیاء التراث العربی، جلد۴،صفحہ ۱۷۰۴۲۳۰۴۔

(۶) المنذری، عبدالعظیم، الترغیب والترھیب، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۷ھ ، جلد۳، صفحہ ۱۵۳۔

(۷) ابن قیم الجوزیہ، الجواب الکافی لمن سال عن الدواء الشافی، دارالمعرفت، ۱۴۱۸ھ، جلد۱، صفحہ ۱۵۳-۱۵۴۔

(۸) عبداللہ بن محمود الموصلی الحنفی ، الاختیار لتعلیل المختار، قاہرہ، مطبعہ الحلبی، ۱۳۵۶ ھ، جلد ۴، صفحہ ۱۵۴۔

الغزالی، محمد بن محمد، ابوحامد، الوسیط فی المذھب، قاہرہ، دارالسلام، ۱۴۱۷ھ، جلد ۵، صفحہ۲۹۔

(۹) شامی ابن عابدین، محمدامین، رد المحتار (حاشیہ ابن عابدین) بیروت، دارلفکرللطباعةوالنشر، جلد ۶، صفحہ ۳۷۱۔

(۱۰) برہان الدین محمود بن احمد، المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی، بیروت، دارلکتب العلمیہ، ۱۴۲۴ھ، جلد ۵، صفحہ ۳۳۱-۳۳۲، ابن قدامہ، عبداللہ بن احمد، المغنی، مکتبة القاہرہ، ۱۳۸۸ھ، جلد ۷، صفحہ ۹۸-۱۰۰، الخطیب الشربینی، محمد بن احمد الشافعی، مغنی المحتاج الی معرفة معانی الفاظ المنہاج، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ھ، جلد۴، صفحہ۲۱۴،۲۱۷۔الغزالی، الوسیط فی المذھب، جلد۵،صفحہ۳۱-۳۲، ابن جزی کلبی، محمد بن احمد،القوانین الفقیہ،ناشر نامعلوم، س ن، جلداول، صفحہ۲۹۴، محمد بن محمدالطرابلسی، المالکی، مواھب الجلیل فی شرح مختصر خلیل،بیروت، دارالفکر،۱۴۱۲ھ، جلد۳، صفحہ۴۰۶۔

(۱۱) الکاسانی، علاوالدین، البدائع والصنائع فی ترتیب الشرائع، بیروت، دارالکتاب العربی، ۱۹۸۲/، جلد ۵، صفحہ ۱۲۲، ابن قدامہ، المغنی، جلد ۷، صفحہ ۹۶، الطرابلسی، المالکی، مواھب الجلیل فی شرح مختصر خلیل، جلد ۳، صفحہ ۴۰۵، الشیرازی، ابراہیم بن علی، ابواسحاق، المہذب فی فقہ الامام الشافعی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، س ن، جلد۲، صفحہ ۴۲۴۔

(۱۲) لنووی، شرح صحیح مسلم، جلد ۹، صفحہ ۲۱۰۔

(۱۳) رازی، محمد بن عمر بن حسین ، ابوعبداللہ ، تفسیرالفخرالرازی، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ھ، جلد۲۳،صفحہ۳۶۲، الطرابلسی،المالکی، مواھب الجلیل فی شرح مختصر خلیل،جلد۳،صفحہ۴۰۵، حصکفی، علاوالدین ،درمختار ،بیروت، دارالفکر، ۱۳۸۶ ھ، جلد۶، صفحہ۳۷۰، ابن قدامہ،المغنی،جلد۷،صفحہ۱۰۱۔

(۱۴) حصکفی، الدرالمختار، جلد۶، صفحہ۳۷۰، الطرابلسی، المالکی، مواھب الجلیل فی شرح مختصر خلیل،جلد۳،صفحہ۴۰۵، الشیرازی، ابواسحاق ، المھذب، جلد ۲، صفحہ۴۲۵، ابن قدامہ، المغنی،جلد۷،صفحہ۱۰۱۔

(۱۵) رازی، تفسیر الفخرالرازی، جلد۲۳، صفحہ۳۶۲۔

(۱۶) الکاسانی، البدائع والصنائع ،جلد۵،صفحہ۱۲۲۔

(۱۷) النووی ،شرح صحیح مسلم ،جلد۹،صفحہ۲۱۰۔

(۱۸) درویش مصطفی حسن،فصل الخطاب فی مسئلة الحجاب والنقاب،قاہرہ ،دارالاعتصام،س ن،صفحہ ۷۳۔

(۱۹) ایضا، صفحہ ۷۳۔

(۲۰) شامی، ردالمحتارعلی الدرالمختار، جلد۱، صفحہ ۴۰۷۔

(۲۱) شامی، ردالمحتار علی الدرالمختار، جلد۱، صفحہ ۴۰۶۔

(۲۲) شامی،ردالمحتارعلی الدرالمختار،جلد۱،صفحہ۴۰۷۔

(۲۳) ابن رشد الجد،محمدبن احمد،المقدمات المھدات، بیروت، دارالغرب الاسلامی،۱۴۰۸ھ،جلد۳،صفحہ۴۶۰۔

(۲۴) ابن عربی،محمدبن عبداللہ، احکام القرآن، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۲۴ھ، جلد۳، صفحہ ۳۸۰۔

(۲۵) الشیرازی،ابو اسحاق ، المھذب ، جلد۲، صفحہ ۴۲۵۔

(۲۶) الغزالی، الوسیط فی المذھب، جلد۵، صفحہ۳۲۔

(۲۷) ابن قدامہ، المغنی،جلد۷، صفحہ۱۰۲۔

(۲۸) القرآن، النور:۳۰، الشیرازی،ابو اسحاق، المھذب، جلد ۲، صفحہ۴۲۵، ابن عربی، احکام القرآن، جلد ۳، صفحہ ۳۷۹، ابن رشد، البیان والتحصیل، جل د۱۸، صفحہ ۵۵۹۔

(۲۹) الشافعی، محمد بن ادریس ،تفسیرالامام الشافعی، المملکة العربیہ السعودیہ، دارالتدمریة، ۱۴۲۷ھ، جلد ۳، صفحہ ۱۱۳۷۔

(۳۰) القرآن، الاحزاب: ابن قدامہ، عبداللہ بن احمد، ابومحمد، المغنی، مکتبة القاہرہ، ۱۳۸۸ھ، جلد ۷، صفحہ ۱۰۲۔

(۳۱) القرطبی، محمد بن احمد بن ابی بکر، الجامع لاحکام القرآن، قاہرہ، دارالکتب المصریہ، ۱۳۸۴ھ، جلد ۱۴، صفحہ ۲۲۷۔

(۳۲) ابن عربی،احکام القرآن، جلد۳، صفحہ۳۸۰؛  مسلم، الصحیح، جلد۴، صفحہ ۲۰۴۷۔

(۳۳) ابن قدامہ، المغنی، جلد۷،صفحہ۱۰۲؛ ابن عربی،احکام القرآن،جلد۳،صفحہ۳۸۰؛ ابوداؤد،جلد۲،صفحہ۲۴۶؛ ابن ابی شیبہ، عبداللہ بن محمد،الکتاب المصنف فی الاحادیث والآثار، ریاض، مکتبة الرشید، ۱۴۰۹ھ،جلد۶،صفحہ۳۶۷۔

(۳۴) الشیرازی، ابواسحاق ، المھذب ، جلد۲،صفحہ۴۲۵؛ ابن رشد، البیان والتحصیل،جلد۱۸،صفحہ۵۵۹؛ ابن قدامہ، المغنی، جلد۷، صفحہ ۱۰۲؛ الترمذی ،ابوعیسی محمد بن عیسی،السنن،مصر،مطبع مصطفی البابی الحلبی،۱۳۹۵ھ، جلد۳،صفحہ۲۲۳؛ احمد بن حنبل، المسند، بیروت،موسسہ الرسالة، ۱۴۲۱ھ، جلد۲، صفحہ۶۔

(۳۵) ابن قدامہ، المغنی، جلد۷، صفحہ ۱۰۲؛ مسلم، جلد۳، صفحہ ۱۶۹۹۔

(۳۶) ابوداؤد، السجستانی، سلیمان بن اشعث ،بیروت، المکتبہ العصریہ ،جلد۲، صفحہ۲۲۸۔ ابن ماجہ ، محمد بن یزید ،دار احیاء الکتب العربیہ، جلد۱،صفحہ۶۰۰۔

(۳۷) ابن قدامہ،المغنی،جلد۷، صفحہ۱۰۲۔

(۳۸) الوسیط فی المذھب،جلد۵،صفحہ۳۲۔

(۳۹) مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ”سائرالاحکام“ لکھنا ”تسامح“ہے؛ اس لیے کہ خلوت صحیحہ تمام احکام میں وطی کے قائم مقام نہیں ہے؛بلکہ بعض احکا م میں ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ (۴۰) مفتی محمدشفیع دیوبندی، احکام القرآن، جلد ۳، صفحہ ۴۶۸۔

(۴۱) خلوت صحیحہ سے مراد نکاح کے بعد مرد وعورت کی ایسی تنہائی کی ملاقات ہے، جہاں پر وطی سے کوئی حسی، شرعی اور طبعی مانع نہ ہو، حسی سے مراد وہاں پر کوئی اور ان کے علاوہ موجود نہ ہو اور شرعی سے مراد عور ت ماہواری کے ایام میں نہ ہو یا فرض روزہ نہ رکھا ہو ،اور طبعی سے مراد مردوعورت دونوں میں سے کسی کو ایسی بیماری نہ ہو جو وطی کرنے سے مانع ہویا ضرر کااندیشہ ہو،جس خلوت میں یہ رکاوٹیں موجود نہ ہوں، وہ خلوت صحیحہ کہلاتی ہے۔ فتاوی ہندیہ المعروف عالمگیریہ میں یہی تعریف کی گئی ہے: والخلوة الصحیحة أن یجتمعا فی مکان لیس ہناک مانع یمنعہ من الوطء حسا أو شرعا أو طبعا (فتاوی ہندیہ ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۱ھ ، جلداول ،صفحہ۳۰۴)

(۴۲) ایسی خلوت صحیحہ جس میں مرد نے عورت سے وطی نہ کی تو اس عورت پر بعض احکام وہ لاگو ہونگے جو ایسی عورت پر لاگوہوتے ہیں جس کے ساتھ خلوت صحیحہ میں وطی ہوچکی ہو ،فتاوی ہندیہ میں ہے: وأصحابناأقاموا الخلوة الصحیحة مقام الوطء فی حق بعض الاحکام دون البعض فاقاموہا مقامہ فی حق تاکد المہر وثبوت النسب والعدة والنفقة والسکنی فی ہذہ العدة وحرمة نکاح اختہاواربع سواہا (جلد اول ،صفحہ۳۰۶) ہمارے اصحاب رحمہم اللہ نے کہا خلوت صحیحہ (جس میں وطی نہ ہوئی ہو) بعض احکام میں وطی کے قائم مقام ہے اور بعض میں نہیں ہے۔ پس وہ وطی کے قائم مقام ہے مہرکے لازم ہونے میں، ثبوت نسب میں، اور عدت میں ، اور دوران عدت نفقہ اور سکنی کی مستحق ہونے میں ،اور عدت کے دوران اس کی بہن سے نکاح کے حرام ہونے میں ،اور اس کی عدت میں مزید چار عورتوں کے ساتھ نکاح کی حرمت میں۔ اور خلوت صحیحہ بعض احکام میں وطی کے قائم مقام نہیں ہے۔ مثلا وطی کے بعد غسل فرض ہوتاہے؛ مگر ایسی خلوت جس میں وطی نہ ہو اس کے بعد غسل فرض نہیں ہوگا، اور ایسی خلوت کے بعد اگر طلاق ہوگئی تو وہ زوج اول کے لیے حلا ل نہیں ہوگی ،مرد یا عورت محصن نہ ہونگے،رجعت کا حق نہ ہوگا ،وغیرہ اور بھی مسائل ہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں۔ (فتاوی ہندیہ ، جلداول ، صفحہ۳۰۶ ) حالانکہ جب اس عورت کے ساتھ وطی نہیں کی گئی تو اس پر یہ احکام لاگو نہیں ہونے چاہئیں؛ مگر فقہاء نے خلوت صحیحہ کو وطی کے قائم مقام کرکے وہی احکام جاری کیے ہیں ۔ائمہ ثلاثہ کہتے ہیں اسی طرح بدنظری چونکہ عورت کی طرف میلان اور وقوع فتنہ کا سبب ہے؛ اس لیے یہ فتنہ کے قائم مقام ہے اورحرام ہے ۔

(۴۳) الجصاص، ابوبکر، احکام القرآن، بیروت، دارالکتب العلمیہ ،۱۴۱۵ھ ،جلد۵،صفحہ۱۷۳۔

(۴۴) کاسانی، بدائع الصنائع ،جلد۵،صفحہ۱۲۲۔

(۴۵)المرغینانی ،علی بن ابی بکر ، الہدایہ فی شرح بدایة المبتدی، بیروت، داراحیاء التراث العربی، س ن، جلد ۴، صفحہ ۳۶۸۔

(۴۶) القرآن،النور:۳۰۔

(۴۷) القرآن، النور:۳۱۔

(۴۸) الطبری، محمد بن جریر ،جامع البیان فی تاویل القرآن، ھ، بیروت، موسسة الرسالہ، ۱۴۲۰ھ، جلد ۱۹، صفحہ ۱۵۶۔

(۴۹) ابن ابی شیبہ،ا المصنف ،جلد۳،صفحہ۵۴۶۔

(۵۰) کاسانی،بدائع الصنائع ،جلد۵، صفحہ۱۲۱، ۱۲۲۔

(۵۱) السرخسی ،محمد بن ابی سھل ،المبسوط،بیروت ، دارالمعرفت، ۱۴۱۴ھ ،جلد۱۰،صفحہ۱۵۳۔

(۵۲) ابوبکر احمد بن عمروالبزار،مسند البزارالمنشور باسم البحرالزخار،المدینة المنورة ،المکتبة العلوم والحکم،۱۹۸۸/، جلد۵، صفحہ۳۳۲۔

(۵۳) کاسانی، بدائع الصنائع ، جلد۵، صفحہ۱۲۲۔

(۵۴) السرخسی، المبسوط، جلد ۱۰، صفحہ ۱۵۳؛ المرغینانی، الہدایہ، جلد۴، صفحہ ۳۶۸۔

(۵۵) السرخسی، المبسوط، جلد ۱۰، صفحہ ۱۵۔

(۵۶) متقدمین سے مراد وہ حضرات ہیں جنہوں نے امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کا زمانہ پایا، اور ان سے فیض حاصل کیا اور جنہوں نے ان ائمہ ثلاثہ کا زمانہ نہیں پایا وہ متاخرین کہلاتے ہیں۔ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے میزان میں، متقدمین اور متاخرین کے درمیان حد فاصل تیسری صدی کا شروع قرار دیا ہے۔ تیسری صدی ہجری سے پہلے تک کہ علماء متقدمین اور تیسری صدی کے آغاز سے متاخرین کہلاتے ہیں۔ (مشتاق علی شاہ، تعارف فقہ، گوجرانوالہ، مکتبہ حنفیہ، س ن، صفحہ۶۳)

(۵۷) حصکفی، الدرالمختار، جلد۶، صفحہ ۳۷۰۔

از: غازی عبدالرحمن قاسمی

لیکچرار گورنمنٹ ولایت حسین اسلامیہ ڈگری کالج S_A_Sagar# 

https://saagartimes.blogspot.com/2021/12/blog-post_16.html



Sunday, 12 December 2021

روزی کے وعدہ اور ​​ایک غلط فہمی کا ازالہ

روزی کے وعدہ اور ​​ایک غلط فہمی کا ازالہ  
بعض لوگ وعظ تقریر میں کہا کرتے ہیں کہ روزی پہنچانے کا خدا نے وعدہ کیا ہے، لیکن مسلمانوں کو اللہ پر بھروسہ نہیں اور گھبراتے ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ ضعف ایمان کا حکم لگاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اگر کوئی مخلوق دعوت کر دے تو اس پر تو پورا بھروسہ ہوتا ہے اور اس وقت کے رزق سے بے فکری ہوجاتی ہے۔ اور حق تعالٰی کے وعدے پر بھروسہ نہیں سو خوب سمجھ لینا چاہئے کہ یہ ایمان کی کمزوری نہیں بلکہ طبیعت کی کمزوری ہے، کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کو خدا پر بھروسہ نہ ہو، اور یہ جو مثال بیان کی جاتی ہے وہ بالکل غلط ہے اور اللہ تعالٰی کے وعدہ کا قیاس مخلوق کے وعدہ پر صحیح نہیں، کیونکہ جو شخص وعدہ کرتا ہے وہ یہ بتلادیتا ہے کہ فلاں وقت کی دعوت ہے جس سے پورے طور پر یہ حال معلوم ہوجاتا ہے کہ ہمارے کھانے کا اس وقت پورا انتظام ہوگیا ہے۔ اور اگر ایسا ہی تفصیلی وعدہ اللہ تعالٰی کا ہوتا تو مسلمان کو مخلوق سے زیادہ اللہ پر اعتماد ہوتا۔ مگر خداوند تعالٰی کا یہ وعدہ نہیں ہے کہ دونوں وقت دیں گے، پاؤ بھر دیں گے، ناغہ نہ کریں گے بلکہ مبہم وعدہ ہے کہ روزی دیں گے، اس کی کیفیت (کہ کیسے دیں گے) اور کمیت (کہ کتنا دیں گے) نہیں بتلائی گئی ـ ممکن ہے کہ تیسرے روز ملےـ 
اور اس شخص کا وعدہ اس طرح کا ہے کہ اس نے شام کا وقت بتلادیا ہے تو یہ ایمان کی کمزوری کی وجہ سے تردد نہیں بلکہ اس کی کیفیت اور مقدار نہ معلوم ہونے کی وجہ سے تردد ہےـ جس کی وجہ طبعی کمزوری ہے ـ اگر دعوت کرنے والے کا بھی ایسا وعدہ ہو تو اس سے زیادہ تردد ہوجائےـ البتہ اگر یہ وعدہ ہوتا کہ دونوں وقت پکی پکائی مل جایا کرے گی اور پھر بھی تردد ہوتا تب بے شک ایمان کی کمزوری سمجھی جاتی....ہاں ایک ایمان کی کمزوری اور ہے وہ یہ کہ معصیت سے رزق ملے گا اور نیکی سے نہ ملے گاـ باقی طبعی طور پر اللہ کے بہت سے بندے بھی تنگی میں پریشان ہوجاتے ہیں اور بعض کافر تنگی کے باوجود بالکل مستقل مزاج بے فکر ہوتے ہیں ان پر اثر بھی نہیں ہوتا سو یہ طبعی ضعف اور طبعی قوت ہے نہ کہ ایمانی ضعف اور ایمانی قوت ـ 
بعض اولیاء اللہ نے اسباب معیشت اختیار فرمائے ہیں اس لئے کہ وہ کمزور طبعیت کے تھے، ایمان کا قوی ہونا اور چیز ہے طبیعت کا قوی ہونا اور چیز ہےـ
(شعبان ملحقہ حقیقت عبادت ص: ۴۷۸)
رزق کے باب میں جس قدر طبیعت ضعیف ہوگی تردد اور احتمالات بہت ہوں گے، اور یہ ایمان کمزور ہونے کی دلیل نہیں، ہاں ایمان کمزور ہونے کی یہ دلیل ہے کہ رزق حاصل کرنے میں اس طرح منہمک ہو کہ حلال و حرام کی پروا نہ کرے ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کتاب: مال کمانے اور خرچ کرنے کے شرعی احکام (صفحہ ۴۲، ۴۴ ) 
انتخاب و ترتیب: محمد زید مظاہری ندوی 
ناقل: عبدالرحمن 
بسلسلہ: کتب سے اقتباسات ٹیلی گرام چینل 
ناقل: دلاورحسین
-----------------------------


اس دنیا کو اللہ نے ترتیب سے بنایا ہے اللہ چاہتا تو ایک ہی امر کن سے اس دنیا کو قائم کرتا لیکن انسانوں کے لیے یہ مثال ہے کہ ہر کام ترتیب سے کیا جائے۔ بلا ترتیب کام کا کوئی معیار نہیں ہوتا۔ اپنے وقت کو منظم کریں اور کاموں کو ترتیب وار کریں۔۔
https://saagartimes.blogspot.com/2021/12/blog-post_88.html

جھگڑتے تھے لیکن نہ جھگڑوں میں شر تھا

جھگڑتے تھے لیکن نہ جھگڑوں میں شر تھا 
--------------------------------------
--------------------------------------
مولانا سعد کاندھلوی صاحب  سے پھر کبھی جی بھرکے لڑلیجئے گا، ہم بھی آپ کا ساتھ دیں گے، بحث و مباحثے کے لئے پورا وقت باقی ہے لیکن اِس وقت شخص واحد نہیں، ہمارا متاع گراں مایہ تبلیغی جماعت، یہودی وفسطائی یلغار کی زد میں ہے، دعوت وتبلیغ دین  پہ میلی آنکھیں اٹھ رہی ہیں، ملی غیرت وحمیت کا تقاضہ ہے ان کا ساتھ دیں! نظریاتی اختلاف کی وجہ سے شادیانے بجانے کا نہیں، مکمل ملی ہم آہنگی دکھانے اور بڑے دل کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا وقت ہے۔ خدارا ٹکڑوں میں بٹ کر دشمن کا دست وبازو نہ بنئے! کلمے کی بنیاد پر ایک آواز اور ایک طاقت بنئے!
مولانا سعد سے ہمارا اختلاف اتنا شدید نہیں، جتنا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا اختلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ سے تھا، (نوعیت اختلاف مختلف تھی) ذرا یاد کیجئے! جب  بادشاہ قیصر نے ان اختلافات سے فائدہ اٹھانا چاہا اور شام کے سرحدی علاقوں پہ لشکرکشی کرنے کا پلان تیار کیا، حضرت معاویہ کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے قیصرروم کو جو  ردعمل دیا وہی رد عمل آج ہمیں قیصر عرب "ابن سلمان اینڈ کمپنی" کو دینے کی ضرورت ہے.
حضرت معاویہ نے لکھا:
"مجھے اس بات کا علم ہوا ہے کہ تُم سرحد پہ لشکرکشی کرنا چاہتے ہو، یاد رکھو! اگر تم نے ایسا کیا تو میں اپنے ساتھی (حضرت علی) سے صلح کرلوں گا اور ان کا لشکر جو تم سے لڑنے کے لئے روانہ ہوگا اس کے ہراول دستے میں  شامل ہوکر قسطنطینیہ کو تہس نہس کردوں گا."
آج ہمیں یہی جواب یہودی مہرہ ابن سلمان  کو دینا ہے.
فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں 
موج ہے دریا میں، اور بیرون دریا کچھ نہیں 
اگر اختلاف ان میں باہم دگر تھا 
تو بالکل مدار اس کا اخلاص پر تھا 
جھگڑتے تھے لیکن نہ جھگڑوں میں شر تھا 
خلاف آشتی سے خوش آئند تر تھا 
یہ تھی موج پہلی اس آزاد گی کی 
ہرا جس سے ہونے کو تھا باغ گیتی 
 آج ہمیں بھی نظریاتی اختلافات کے وقت اصحاب رسول کی زندگیوں سے اسی طرح روشنی کشید کرنے اور رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے، کسی فردسے اختلاف و ناپسندیدگی کا جذبہ ہمیں اس کی مخالفت و عداوت پہ ہرگز آمادہ نہ کرسکے. وما توفيقي إلا بالله. 
مركز البحوث الإسلامية العالمي .
٦جمادى الأولي ١٤٤٣هج
https://saagartimes.blogspot.com/2021/12/blog-post_12.html