Wednesday 29 November 2017

لائے ہیں دل کے داغ نمایاں کئے ہوئے

جس طرح نبوت ورسالت کسبی نہیں کہ جو چاہے اپنی ریاضت ومحنت سے حاصل کرلے، ٹھیک اسی طرح اس کے علوم بھی کسبی نہیں بلکہ خالص عطیہ خداوندی اور موہبت ربانی ہیں۔
خدا تعالی نے علوم نبوت کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے:
"وعلمناه من لدنا علما"
ان علوم کے حاملین کا انتخاب بھی منجانب اللہ ہوتا ہے۔
من يرد الله به خيرا يفقه في الدين .
قرآن وحدیث کے علوم کی تحصیل کے لئے جن کا انتخاب ہوجائے وہ قسمت کے دھنی اور بڑے خوش نصیب ہیں۔
اس علم کی عظمت ورفعت شان کا تقاضہ ہے کہ اسے ہر چیز سے ماوراء ہوکے حاصل کیا جائے۔
کیونکہ بغیر قلبی جمعیت اور ذہنی یکسوئی کے  اس علم کی تحصیل تقریبا ناممکن ہے۔ ذہنی انتشار اور ماورائے علم سے روابط و تعلقات  محرومی کا باعث بنتی ہیں۔
ہمہ تن مصروف عمل ہوئے بغیر مقصد میں درک وکمال مشکل ہے۔۔۔۔ 
لايعطيك علم بعضه حتى تعطيه كلك.
حضرت مولانا اشرف علی  تھانوی رحمہ اللہ  نے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے دور طالب علمی میں بیعت کی درخواست کی تھی جسے حضرت گنگوہی نے رد فرماتے ہوئے  ختم کتب وفراغت پہ موقوف فرمادیا۔
امام مسلم رحمہ اللہ  ایک حدیث کی تلاش وجستجو میں کھجور کا پورا ٹوکڑا کھاگئے اورعشق مقصد میں انہماک نے احساس تک نہ ہونے دیا اور پھر یہی "کمال جستجو" موت کا سبب بھی بنا۔
علامہ  عبد الحی فرنگی محلی دوران مطالعہ انڈی کا تیل پی گئے اور پتہ تک نہ چلا۔ شاہ عبد القادر رائے پوری دور طالب علمی میں گھر سے آئے خطوط ایک گھڑا میں جمع کرتے رہے اور کبھی چند سطری خط پڑھنے تک کی زحمت نہ فرمائی۔
مفتی محمد شفیع صاحب دیوبند کے رہائشی ہونے کے باوجود دیوبند کی سڑکوں تک سے مکمل واقف نہ تھے۔ احاطہ مولسری اور آستانہ شیخ الہند کے سوا ساری چیزوں سے بیگانہ تھے۔۔۔
ہمارے اکابر علماء دین واسلاف کرام نے اسی امتیازی شان کے ساتھ علوم نبویہ کی تحصیل میں لگے اور پھر ایسے محقق، محدث، مفسر، متکلم، قاضی، مفتی اور مصنف ومولف امت کو ملے جن کی فکر آفاقی، نگاہ افلاکی اورپرواز لولاکی تھی۔
علوم ومعرفت کے بحر ناپیدا کنار، غور وتدبر، استنباط واستخراج کی صلاحیتوں سے مالا مال۔ عشق مقصد میں کمال جنون کا یہ عالم کہ "پانے کا خمار ہو نہ کھونے کا آزار" شوق کمال نہ خوف زوال۔
جن کی جوتیوں میں سلاطین ونواب وقت "گنج گرانمایہ" نچھاور کردینے کو فخر سمجھیں۔
جن کی تحقیق وتدقیق اور تلاش وجستجو ایسی کہ "قطرے میں دجلہ اور ذرے میں صحراء" کا گمان ہوچلے۔
پر شومی قسمت اور حالات کی ستم ظریفی کہ اب سوز عشق اور جستجوئے پیہم سے عاری طلبہ کی بعض ایسی ٹیم (افراد کی بات ہے۔ کلیات کی نہیں) "ارزاں وفراواں" نظر آتی ہے جو علم وتحقیق کو "حرز جاں" اور "ورد زبان" بنانے کی بجائے حدیث وفقہ پڑھنے والی تپائیوں کے اوٹ میں ہی  فیس بک ، ٹوئیٹر ، وہاٹس ایپ اور دیگر سماجی روابط کی سائٹس کے پیچھے  "مثل شمع " پگھل رہے ہیں۔
درسیات میں پختگی، خوش سے "خوش تر کی تلاش" صلاحیت ولیاقت میں استحکام،   اور مطالعہ وکتب بینی میں شب گزاری کی جگہ "فیس بک پہ تبصرے، ٹوئیٹر پہ چٹ پٹے اور چٹخارے ٹوئٹ اور ٹرینڈ چلانے پہ ساری توانائیاں صرف ہورہی ہیں۔۔اپنے درجہ میں  امتیازی نمبرات وپوزیشن لانے کی جستجو کی بجائے  سوشلستان میں تعارف اور تشہیر کا خطرناک رجحان پنپ رہا ہے ۔اسی کا نتیجہ ہے کہ اب بعض "بونے اور کوتاہ قامت" ایسے فضلاء سے ملاقات ہوجاتی ہے جو فراغت کے بعد  "روشن خیالی" کا سارا نزلہ اچانک "ڈاڑھی اور ٹوپی" ہی پہ اتارڈالتے ہیں!
اسمارٹ موبائل کے پرستار طلبہ دین میں سوشلستان کی سیر (سیر جہاں) جنون، کافی تشویشناک بلکہ انتہائی خطرناک ہے۔
ضرورت کو ضرورت کے دائرے میں رکھتے ہوئے استفادہ کی راہ تلاش کی جائے۔جن علمائے دیوبند سے انتساب کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے دور طالب علمی میں "بیعت" تک سے منع کردیا۔ انہی کے نام لیوا آج فیس بک اور ٹوئیٹر پہ متحرک وفعال رہ کے علمی کمال کیسے حاصل کرسکتے ہیں؟  کیا اس صورت حال میں کبھی "اوجز"اعلاء السنن"  بذل المجہود جیسا کارنامہ انجام پاسکتا ہے؟؟
ہر کام کے لئے آدمی ہے۔ اور ہر آدمی کے لئے کام ہے۔ خدارا اس تقسیم کو سمجھتے ہوئے  اپنا قبلہ درست کیجئے!
شکیل منصور القاسمی۔
بیگوسرائے

No comments:

Post a Comment