Wednesday 29 November 2017

دوران وضو سلام کرنے کا حکم؟

دوران وضو سلام کرنے کا حکم؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں مسئلہ ذیل کے بارے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) وضو کرنے والوں سےسلام کیاجاسکتا ہے یا نہیں؟ اگر کیا جاسکتا ہے تو جواب دینا کیسا ہے؟
(2) مسجد میں جماعت شروع ہونے سے پہلے سلام کرنا کیسا ہے؟
امجد اللہ صدیقی۔
بوکاروی
جامعہ عربیہ نور العلوم سیدپور۔
بیگوسرائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
بیس یا اکیس مقامات کے علاوہ سلام کا جواب دینا واجب ہے جبکہ خود سلام کرنا سنت ہے۔
ذیل کی اکیس جگہوں میں سلام نہ کیا جائے۔ بعض جگہوں پہ سلام کرنا ناجائز ہی نہیں، بلکہ باعث  گناہ بھی ہے۔
اگر کوئی پھر بھی سلام کرلے تو فی الفور اسی حال میں اس کا جواب دینا واجب نہیں ہے۔
ان ممنوع احوال ومقامات میں وضو کرنے کی حالت نہیں ہے۔ لہذا اگر متوضی دعاؤں میں مشغول نہ ہو تو اسے دوران وضو سلام کرنا جائز ہے۔ ممانعت یا کراہت کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ دعاؤں میں مشغول ہو تو پھر اب سلام کرنا مکروہ ہوگا۔
(۱) نماز پڑھنے کےدوران۔
(۲) کھانے کے دوران۔
(۳) پانی پینے کے دوران۔
(۴) تلاوتِ قرآن کے دوران۔
(۵) ذکر و اذکاراور دعا کے دوران۔
(۶) خطبہ کے دوران۔
(۷) تلبیہ کے دوران۔
(۸) استنجاء کے دوران۔
(۹) اقامت کے دوران۔
(۱۰) اذان کے دوران۔
(۱۱) بچے کے سلام پر۔
(۱۲) مدہوش کے سلام پر
(۱۳) جوان عورت کے سلام پر۔
(۱۴) فاسق کے سلام پر۔
(۱۵) اونگھنے کی حالت میں۔
(۱۶) سونے کی حالت میں۔
(۱۷) جماع کی حالت میں۔
(۱۸) فیصلے کے دوران۔
(۱۹) غسل خانے میں۔
(۲۰) مجنون کے سلام پر۔
(۲۱) مسائلِ فقہیہ کی تعلیم کے دوران۔
في شرح الشرعة: صرح الفقهاء بعدم وجوب الرد في بعض المواضع: القاضي إذا سلم عليه الخصمان، والأستاذ الفقيه إذا سلم عليه تلميذه أو غيره أوان الدرس، وسلام السائل، والمشتغل بقراءة القرآن، والدعاء حال شغله، …. اهـ. وفي البزازية: لا يجب الرد على الإمام والمؤذن والخطسيب عند الثاني، وهو الصحيح اهـ…، وقد نظم الجلال السيوطي المواضع التي لا يجب فيها رد السلام ونقلها عنه الشارح في هامش الخزائن ،
فقال:
رد السلام واجب إلا على
من في الصلاة أو بأكل شغلا
أو شرب أو قراءة أو أدعيه
أو ذكر أو في خطبة أو تلبيه
أو في قضاء حاجة الإنسان
أو في إقامة أو الآذان
أو سلم الطفل أو السكران
أو شابة يخشى بها افتتان
أو فاسق أو ناعس أو نائم
أو حالة الجماع أو تحاكم
أو كان في الحمام أو مجنونا
فواحد من بعدها عشرونا
(ردالمحتار علی الدر المختار:۱؍۶۱۸،كتاب الصلاة،باب مايفسد الصلاة ومايكره فيها،مطلب المواضع التي لا يجب فيها رد السلام،ط: دار الفکر- بیروت)
والأظہر کما ذکر النووي: أنہ إن کان مستغرقًا بالدعاء مجمع القلب علیہ، فالسلام علیہ مکروہ للمشقۃ التي تلحقہ من الرد، والتي تقطعہ عن الاستغراق بالدعاء۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ ۲۵؍۱۶۴) (فتاویٰ محمودیہ ۵؍۲۳۰، فتاویٰ رحیمیہ ۱؍۱۲۴)
مسجد میں داخل ہونے کی جو دعا حدیث میں وارد ہوئی ہے۔ داخلے کے وقت اسے پڑھا جائے۔
سلام کرنا مسجد میں داخل ہونے یا تکبیر تحریمہ سے پہلے کی دعا نہیں ہے۔ لہذا عمومی طور پہ اس کی ترویج درست نہیں۔
لیکن اگر مسجد میں لوگ نماز، تلاوت، اوراد ووظائف  میں مشغول نہ ہوں تو سلام کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
سلام کیا جاسکتا ہے۔
عن أبی أسید قال: قال رسول اللہ ﷺ: إذا دخل أحدکم المسجد فلیقل أللہم افتح لی أبواب رحمتک۔ (صحیح مسلم، باب ما یقول إذا دخل المسجد، النسخۃ الہندیۃ ۱/۲۴۸، بیت الأفکار رقم۷۱۳، سنن الدارمی، دار المغنی ۲/۸۷۶، رقم: ۱۴۳۴، ۳/۱۷۶۱، رقم: ۲۷۳۳)
عن عبد اللہ بن عمرو بن العاص عن النبی ﷺ: أنہ کان إذا دخل المسجد قال: أعوذ باللہ العظیم، وبوجہہ الکریم وسلطانہ القدیم من الشیطان الرجیم۔ (سنن أبی داؤد، باب فیما یقولہ الرجل عند دخولہ المسجد، النسخۃ الہندیۃ ۱/۶۷، دار السلام رقم: ۴۶۶)
یکرہ السلام علی العاجز عن الجواب … إلی … کالمشغول بالصلاۃ وقراء ۃ القرآن۔ (رد المحتار، مطلب: المواضع التی لا یجب فیہا رد السلام زکریا ۲/۳۷۶، کراچی ۱/۶۱۷)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے

No comments:

Post a Comment