Monday 13 November 2017

ناتمام بچہ کی سفارش

ناتمام بچہ کی سفارش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ایسی عورت کا حمل جو تین مہینے میں ضائع ہوجاتا ہو تو کیا یہ بچہ بھی اپنے ماں باپ کو جنت میں لیکر جاتا ہے ...؟
عن مُعاذِ بنِ جبلٍ رضيَ اللهُ عنه عن النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلم قالَ: (وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ إِنَّ السِّقْطَ لَيَجُرُّ أُمَّهُ بِسَرَرِهِ إِلَىْ الجَنَّةِ إِذَا احْتَسَبَتْهُ) رواه ابن ماجه (1609)
اس حدیث کی کیا توضیح ہے ؟
فنی اور اسنادی حیثیت سے اس کا کیا درجہ ہے؟
مدلل ومفصل جواب عنایت فرمائیں۔  
جزاک اللہ خیرا
محمد محسن۔
متعلم دار العلوم وقف دیوبند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
رحم مادر میں انسانی خلقت کے مراتب ومنازل قرآن و حدیث میں صراحت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔ ارشاد باری ہے:
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ
023:014
پھر ہم نے اس نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنایا پھر ہم نے اس خون کے لوتھڑے کو (گوشت کی) بوٹی بنایا پھر ہم نے اس بوٹی (کے بعض اجزا) کو ہڈیاں بنایا پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا پھر ہم نے (اس میں روح ڈال کر) اس کو ایک دوسری ہی (طرح کی) مخلوق بنادیا سو کیسی بڑی شان ہے اللہ کی جو تمام صناعوں سے بڑھ کر ہے).
ارشاد نبوی ہے:
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ قَالَ إِنَّ أَحَدَکُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا ثُمَّ يَکُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِکَ ثُمَّ يَکُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِکَ ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَکًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ کَلِمَاتٍ وَيُقَالُ لَهُ اکْتُبْ عَمَلَهُ وَرِزْقَهُ وَأَجَلَهُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْکُمْ لَيَعْمَلُ حَتَّی مَا يَکُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجَنَّةِ إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ کِتَابُهُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ وَيَعْمَلُ حَتَّی مَا يَکُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْکِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ
أخرجه البخاري  برقم 3036
. كتاب بدء الخلق. ومسلم برقم 2643. كتاب القدر. والترمذي برقم  2137.العمل بالخواتيم.وأبو داؤد برقم 4708
وأحمد في مسنده برقم 3617.
حسن بن ربیع، ابوالاحوص، اعمش، زید بن وہب، حضرت عبداللہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اور وہ صادق و مصدوق تھے کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش ماں کے پیٹ میں پوری کی جاتی ہے چالیس دن تک (نطفہ رہتا ہے) پھر اتنے ہی دنوں تک مضغہ گوشت رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل اس کا رزق اور اس کی عمر لکھ دے اور یہ (بھی لکھ دے) کہ وہ بد بخت (جہنمی) ہے یا نیک بخت (جنتی) پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے بیشک تم میں سے ایک آدمی ایسے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان (صرف) ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس کا نوشتہ (تقدیر) غالب آجاتا ہے اور وہ دوزخیوں کے عمل کرنے لگتا ہے اور (ایک آدمی) ایسے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان (صرف) ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اتنے میں تقدیر (الٰہی) اس پر غالب آجاتی ہے اور وہ اہل جنت کے کام کرنے لگتا ہے۔
قرآن وحدیث کی اس تصریح سے واضح ہے کہ ابتدائے حمل پہ ایک سو بیس روز یعنی تقریبا چار ماہ گزرنے کے بعد انسان اور ولد کی تخلیق رحم مادر میں ہوجاتی ہے۔چار ماہ سے پہلے رحم میں گوشت پوست کا جو مجموعہ تیار شدہ  ہوتا ہے۔ اسے انسان کہسکتے ہیں نہ ولد۔بلکہ وہ میت ہے اور بحکم گوشت کا لوتھرا ہے۔۔ایک سو بیس روز گزرنے  کے بعد سے حمل کی طبعی مدت پوری ہونے سے قبل یا بعد جو بچہ زندہ پیدا ہوکے مرجائے یا مردہ پیدا ہو ،یا حمل ساقط ہوجائے تو ان تمام صورتوں میں اس بچہ کو عربی میں"سقط" (ناتمام) کہتے ہیں۔اگر ماں اس کی موت پہ صبر کرلے تو ایسا  کامل الخلقت یا ناتمام بچہ والدین کے لئے سفارشی بنے گا اور ان کے لئے جہنم سے چھٹکارے کا سبب بنے گا۔۔۔ چار ماہ سے قبل والا حمل اگر ساقط ہوجائے اور اس میں انگلی ، بال اور ناخن کی پیدائش نہ ہوئی ہو تو اسے سقط نہیں کہیں گے نہ یہ مبعوث ہوگا اور نہ والدین کے لئے روز قیامت نافع بن سکے گا۔
السِّقْطُ لُغَةً: الْوَلَدُ - ذَكَرًا كَانَ أَوْ أُنْثَى - يَسْقُطُ قَبْل تَمَامِهِ وَهُوَ مُسْتَبِينُ الْخَلْقِ، يُقَال: سَقَطَ الْوَلَدُ مِنْ بَطْنِ أُمِّهِ سُقُوطًا فَهُوَ سِقْطٌ۔
(المصباح المنير ولسان العرب والقاموس المحيط.
(2) مغني المحتاج 1 / 349، والخرشي 2 / 142.)
1609 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمِ بْنِ مَرْزُوقٍ حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ السِّقْطَ ليجرامهُ بِسَرَرِهِ إِلَى الْجَنَّةِ إِذَا احْتَسَبَتْهُ
سنن إبن ماجة. كتاب الجنائز
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جن دو مسلمان میاں بیوی کے تین بچے فوت ہوجائیں، اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل و کرم سے جنت میں داخل فرما دے گا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ و سلم) اگر دو بچے ہوں تو؟
فرمایا ان کا بھی یہی حکم ہے انہوں نے پوچھا اگر ایک ہو تو ؟
فرمایا اس کا بھی یہی حکم ہے، پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، نامکمل حمل بھی اپنی ماں کو کھینچ کر جنت میں لے جائے گا بشرطیکہ اس نے اس پر صبر کیا ہو۔
"سرر"  (آنول نال) اس جھلی کو کہتے ہیں جو پیدا ہونے کے وقت بچہ کی ناف سے لٹکی ہوتی ہے۔ اور پیدائش کے بعد دایہ اسے کاٹ دیتی ہے۔
(والسَّرَرُ : ما تقطعه القابلة من السرة . كما في " النهاية في غريب الحديث " (3/99) .
"الموسوعة الفقهية" (25/80)
ارشاد گرامی  "لیجر امہ بسررہ" میں آنول نال سے بچہ اور اس کے ماں کے درمیان تعلق و علاقہ کی طرف اشارہ ہے کہ  گویا آنول نال رسی کی مانند ہو جائے  گی کہ جس کے ذریعے وہ اپنی ماں کو بہشت کی طرف کھینچے گا۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جب اس بچہ کے مرجانے کا اتنا ہی زیادہ ثواب ہے جو ابھی ناتمام ہی تھا اور جس سے ماں کو کوئی تعلق لگاؤ بھی پیدا نہیں ہوسکا تھا۔ تو اس بچہ کے مرجانے پر ماں کو کتنا کچھ ثواب ملے گا جو پلا پلایا اللہ کو پیارا ہو گیا ہو اور جس سے ماں کو کمال تعلق و لگاؤ بھی پیدا ن ہو چکا تھا۔
1608 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ أَبُو بَكْرٍ الْبَكَّائِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ قَالَ حَدَّثَنَا مَنْدَلٌ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ الْحَكَمِ النَّخَعِيِّ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ أَبِيهَا عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ السِّقْطَ لَيُرَاغِمُ رَبَّهُ إِذَا أَدْخَلَ أَبَوَيْهِ النَّارَ فَيُقَالُ أَيُّهَا السِّقْطُ الْمُرَاغِمُ رَبَّهُ أَدْخِلْ أَبَوَيْكَ الْجَنَّةَ فَيَجُرُّهُمَا بِسَرَرِهِ حَتَّى يُدْخِلَهُمَا الْجَنَّةَ
سنن إبن ماجة
حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا، "جب اللہ تعالیٰ سقط (یعنی ناتمام بچہ جو ماں کے پیٹ سے وقت سے پہلے گر گیا ہوگا) کے والدین کو دوزخ میں داخل (کرنے کا ارادہ) کرے گا تو وہ اپنے پروردگار سے جھگڑے گا، چنانچہ اس سے کہا جائے گا کہ پروردگار سے جھگڑنے والے اے ناتمام بچے! اپنی ماں کو جنت میں لے جاؤ، لہٰذا وہ ناتمام بچہ اپنے والدین کو اپنی آنول نال کے ذریعہ کھینچے گا یہاں تک کہ انہیں جنت میں لے جائے گا۔ (ابن ماجہ)
مذکورہ بالا تصریحات بتاتی ہیں کہ استقرار حمل پہ ایک سو بیس دن گزرجانے کے بعد (جبکہ بچہ میں روح ڈال دیجاتی ہے) بچہ پہ "انسان" کا اطلاق ہوجاتا ہے اس سے پہلے نہیں، اس لئے اس سے پہلے بدرجہ  شدید مجبوری عورت کے لئے  اسقاط حمل کی گنجائش رہتی ہے۔ اور چار ماہ سے پہلے سقوط کی صورت میں اس کے بعد  نکلنے والا خون نفاس نہیں ہوگا کہ مانع صحت صوم وصلات بن سکے۔ ایسے ناقص کو نہ غسل ہوگا۔ نہ کفن ہوگا۔ نہ مقبرہ میں دفن ہوگا۔ بلکہ جہاں چاہے گڑھے میں چھپادے۔ یہ مجتمع خون کے حکم میں ہے۔ بلکہ عام زخموں اور نکسیروں کے خون کی طرح اس کا حکم ہوگا۔
ایک سو بیس دن یا اس کے بعد والا حمل ساقط ہوجائے اور ماں صبر کرلے تو یہ سقط بروز قیامت مبعوث ہوگا اور  شافع والدین ہوگا۔ اس لئے اس کے غسل وکفن کا بھی حکم ہے۔
ناتمام بچہ کی سفارش کے حوالے سے آپ نے ابن ماجہ کی جو روایت ( 1609 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ هَاشِمِ بْنِ مَرْزُوقٍ حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ السِّقْطَ لَيَجُرُّ أُمَّهُ بِسَرَرِهِ إِلَى الْجَنَّةِ إِذَا احْتَسَبَتْهُ ۔
سنن إبن ماجة. كتاب الجنائز)

پیش فرمائی ہے تو حضرات محدثین کرام کا اس حدیث کی صحت کی بابت اختلاف ہے۔
علامہ نووی نے الخلاصة (1066/2)۔ علامہ عراقی مغنی (الأسفار 1/373). اور علامہ بوصیری  مصباح الزجاجة میں اسے ضعیف کہا ہے۔
جبکہ علامہ منذری نے الترغيب والترهيب (3/57) میں اسے حدیث حسن کہا ہے۔
دیگر مستند محدثین اور ہمارے اکابر واساتذہ نے اس حدیث کی تصحیح فرمائی ہے۔ اس لئے  ناتمام بچہ کا قیامت کے دن والدین کی نجات وشفاعت کا باعث بننا شرعا ثابت ودرست ہے۔۔
قال النووي رحمهُ الله:
"موتُ الواحدِ من الأولادِ حجابٌ منَ النار ، وكذا السقطُ" انتهى.
"المجموع" (5/287) . وانظر: " حاشية ابن عابدين " (2/228) .
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
مركز البحوث والدراسات الإسلامية العالمي . بيكوسرائے ۔

No comments:

Post a Comment