Tuesday 28 November 2017

برمی مسلمانوں کے ارتداد کا ذمہ دار کون؟

ایس اے ساگر
غربت  اور افلاس کے شکار مسلمان عیسائی مشنریوں کے لئے لقمہ تر ثابت ہورہے ہیں. تعلیم، طبی سہولیات اور دو وقت کی روٹی کے عوض ایسے بیکسوں کا ایمان خرید رہے ہیں. جس طرح مصر میں فلاحی سرگرمیوں کی آڑ میں عیسائی مشنریوں نے پنجے گاڑ لئے اور اسلامی مبلغین اور علمائے کرام پر حکومتی پابندیاں اور بڑھتی غربت اہم اسباب ہیں، اب میڈیا کے مطابق رسیوط، سوہاج، منیا، بنی سویف اور اشنا ارتدادی سرگرمیوں کے بڑے مراکز ہیں۔ غریب مسلمانوں میں نقدی، دوائیں اور راشن بانٹ کر ارتداد پر مائل کیا جاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں یہ تشویش ناک خبر پہلے ہی شائع ہوچکی ہے کہ "دہلی میں مقیم روہنگیائی مسلمانوں کے 150 افراد معاشی بدحالی کے سبب اپنا مذہب ترک کرکے عیسائی بن گئے ہیں ۔۔۔۔" دہلی اقلیتی کمیشن کے چیرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان 70 افراد کی تبدیلی مذہب کی تصدیق کرچکے ہیں ۔۔۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ نہ چرف ملی قیادت نے کوئی کروٹ لی اور نہ ہی اردو اخبارات میں اس کا کوئی ذکر نظر آیا. حتی کہ ملی تنظیم جمعیۃ علمائے ہند پر اس کا انکشاف 26 نومبر 2017 کو ہوا ہے. نوجوان صحافی شاہنواز بدر قاسمی کے بقول: 
"سب بے حس ہوگئے ہیں، کسی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔۔"
معروف صحافی ودود ساجد کے مطابق:
"دہلی میں رہتے ہوئے میں اس صورت حال سے ناواقف رہا اس پر مجھے ناقابل بیان شرمندگی ہے۔۔۔ہم ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے غیر ملکیوں کو روہنگیائی مسلمانوں کا مسیحا قرار دلوانے کی جنگ میں الجھے رہے اور یہاں ہماری ناک کے نیچے بدحال روہنگیائی مسلمان اسلام کو ہی خیرباد کہہ بیٹھے. 

لرزہ خیز صورتحال:
جمعیت علماء ہند کی پریس ریلیز کے مطابق ان کا "ایک وفد بتاریخ 26 نومبر 2017 بروز اتوار صبح گیارہ بجے شیو پوری دہلی میں کسمپرسی کے عالم میں زندگی گزارنے والے مہاجرین مظلومین روہنگیائیوں کے لئے سردی کی ضروریات کو پورا کرنے اور ان کے حال احوال دریافت کرنے کے لئے ان کے کیمپس کے پاس پہنچا، لیکن حیرت کی انتہا ہوگئی کہ وفد کو دیکھتے ہی ان لوگوں نے کیمپس کا دروازہ بند کردیا. گیٹ پر کھڑے ہوکر جب بات کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ لوگ انتہائی خوف زدہ نظر آئے. حقیقت حال جاننے کی کوشش کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ لوگ عیسائی مشنری کے دباؤ میں ہیں اور انھیں ان کی طرف سے سخت ہدایت ہے کہ آپ لوگ کسی سے ملاقات نہیں کرسکتے کہیں آجا نہیں سکتے، کسی کو کچھ بتا نہیں سکتے. واضح رہے کہ وفد محض انسانیت کی بنیاد پر تمام مظلومین کی طرح ان کے لئے بھی ضروریات معلوم کرنے کے لئے گیا تھا. اور کوئی مقصد پیش نظر نہیں تھا لیکن اس کے باوجود وہ لوگ ملنے اور اپنی ضرورت بتانے کی ہمت نہیں کرسکے.
ایسی صورت میں سوال یہ ہے کہ اگر آپ نے کسی کے لئے انسانیت کی بنیاد پر کچھ سہارا دیا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے اور لائق ستائش ہے لیکن اس کے عوض میں انھیں قیدی بناکر خوف و ہراس میں مبتلا کرنا اور طرح طرح کی پابندی عائد کرنا کہاں کی انسانیت ہے؟
واضح رہے کہ یہ لوگ برما سے ایمان ہی بچانے کی خاطر بھاگے تھے لیکن یہاں ان کی یہی بیش بہا خزانہ چھین کر ان کی زندگی سے سودا کرلیا گیا ہے اور اس پر مزید ظلم یہ ہے کہ کسی سے ملنے جلنے پر بھی پابندی لگا دی ہے..... کیا خدمت انسانیت کا یہی وطیرہ ہوتا ہے."
ایسی ہی صورتحال سے شام اور دیگر ملکوں کے مسلمان دوچار ہیں جو لبنان، جرمنی، یونان، سوئیڈن، آسٹریا، برطانیہ، آرمینیا، اطالیہ، بلغاریہ، کناڈا، برازیل، رومانیہ، ارجنٹینا، روس، فرانس، مقدونیہ، پولینڈ، کولمبیا، میکسیکو، امریکہ اور یوراگوئے جیسے ایشیائی، یوروپی، افریقی اور امریکی ممالک میں پناہ گزین ہیں، ان میں سے بہت سے دو وقت کی روٹی کی خاطر مرتد ہوکر عیسائیت قبول کر رہے ہیں۔ جمیعت علما کے وفد نے جس علاقہ کا حال بیان کیا ہے، وہاں 30 خاندان پر مشتمل 140 افراد مقیم ہیں.
زیر نظر تصویر میں بند گیٹ پر کھڑا جمعیۃ علماء ہند کا وفد.
۔۔۔۔۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔۔

George and Amal Clooney plan to help nearly 3,000 Syrian refugee children go to school this year in Lebanon, where hundreds of thousands are out of education.

Clooney and his wife, British human-rights lawyer Amal Alamuddin Clooney, who was born in Lebanon, said that their foundation will support seven schools in a bid to prevent thousands of young people from becoming "a lost generation."

More than one million Syrians - including over 500,000 children - are registered as refugees in Lebanon after fleeing the devastating war that has lasted more than six years in neighbouring Syria.
بند گیٹ پر کھڑا جمعیۃ علماء ہند کا وفد

No comments:

Post a Comment