Saturday 18 November 2017

کلما کی قسم سے بچاؤ کی شکل

کلما کی قسم سے بچاؤ کی شکل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت: زید نے کچھ عرصہ پہلے ایک قسم کھائی تھی اس کی قسم یہ ہے کہ =(میں کلما کی قسم کھاتا ہوں اب کبھی فلاں کام نہیں کروں گا، اگر آئندہ میں نے کبھی بھی یہ کام کیا تو جب بھی میں کسی عورت سے نکاح  کروں تو اسے طلاق) اس کے بعد بھی اس نے نادانی میں آکر وہ کام کیا تو کیا اس پر قسم واقع ہوگئی اور اگر قسم واقع ہوگئی تو اس کے نکاح کی کیا صورت ہوگی؟ اس کے گھر والوں نے اس کا ایک جگہ رشتہ بھی کردیا ہے. کیا وہ وہاں نکاح کرسکتا ہے؟ اس جگہ نکاح کرنے کی کوئی صورت ہوگی براہ مہربانی آپ اس سوال کا جواب جلدی دیں
حیان بیگ قاسمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
اُردو زبان میں محض بات بات پہ لفظ کلما کی قسم کھانے سے قسم منعقد نہیں ہوتی، کیونکہ یہ غیر اللہ کی قسم ہے، جس کا شریعت میں اعتبار نہیں ہے،
لہذا اس کی بات کا پہلا جزء اسی قبیل سے ہونے کی وجہ سے اس قسم کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
البتہ جب اس نے یہ کہہ دیا کہ، "اگر  آئندہ میں نے کبھی بھی یہ کام کیا تو جب بھی میں کسی عورت سے  نکاح  کروں تو اسے طلاق."
تو اس سے اب البتہ کلمہ کی قسم منعقد ہوگئی۔ جب بھی وہ خود سے کسی عورت سے نکاح کرے گا تو اس کی بیوی پہ طلاق ہوجائے گی۔ یعنی اب اس کے لئے از خود کسی عورت سے شادی کرنا مشکل ہے۔
نکاح کی  صورت یہ ہے کہ وہ خود سے ایجاب و قبول نہ کرے بلکہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی واقف کار شخص دو شرعی گواہان کی موجودگی میں اس کا نکاح بحیثیت فضولی  کسی عورت سےکروادے۔لڑکی یا اس کا ولی قبول کرلے۔ فضولی لڑکا سے کہے کہ  زبان سے کچھ بولے بغیر چپ چاپ مہر دین اداکردو۔ اگر لڑکا  کل مہر دین  یا اس کا کچھ حصہ لڑکی کو دیدے اور پھر لڑکی سے قریب ہوجائے تو اس کا نکاح صحیح ہے۔ اب کلمہ کی قسم کا کوئی اثر اس نکاح پہ نہیں پڑے گا۔
قسم کھانے والا یہ لڑکا وہ ممنوعہ کام کرنے سے پہلے ازخود بھی نکاح کرسکتا ہے۔ کیونکہ کلما کی یہ قسم ممنوعہ کام ایک مرتبہ کرلینے کے بعد منعقد ہوئی ہے۔ اس سے پہلے یہ قسم منعقد نہیں ہے۔
إذا قال کل امرأۃ أتزوجہا طالق فزوجہ فضولی فأجاز بالفعل بأن ساق المہر و نحوہ لا تطلق۔( فتح القدیر، کتاب الطلاق، باب الأیمان فی الطلاق، کوئٹہ ۳/۴۴۶، زکریا ۴/۱۰۶)
وینبغی أن یجیئ إلی عالم و یقول لہ: ما حلف و احتیاجہ إلی نکاح الفضولي فیزوجہ العالم امرأۃ و یجیز بالفعل فلا یحنث۔ (البحر الرائق کوئٹہ ۴/۷، زکریا دیوبند ۴/۱۰-۱۱)
حلف لا یتزوج فزوجہ فضولی، فأجاز بالقول حنث و بالفعل (تحتہ فی الشامیۃ) کبعث المہر أو بعضہ لا یحنث بہ یفتی۔ (الدر المختار مع الشامی، کراچی ۳/۸۴۶، زکریا ۵/۶۷۲، خانیہ زکریا ۲/۲۳، و علی ہامش الہندیۃ زکریا ۲/۳۴)
حلف لا یتزوج فزوجہ فضولی فأجاز بالقول حنث و بالفعل و منہ الکتابۃ خلافا لابن سماعۃ لا یحنث بہ یفتی۔ (در مختار، کتاب الأیمان، باب الیمین فی الضرب والقتل، کراچی ۳/۸۴۶، زکریا ۵/۶۷۲، قاضیخان زکریا جدید ۲/۲۳، و علی ہامش الہندیۃ زکریا ۲/۳۴، البحر الرائق زکریا ۴/۶۲۰، کوئٹہ ۴/۳۷، فتح القدیر، دار الفکر بیروت ۴/۱۱۹،)
(مستفاد: فتاوی محمودیہ قدیم ۱۱/۱۷۵، جدید ڈابھیل ۱۳/۷۸،۹۰، ۹۱، امداد المفتیین ۶۳۹ تا ۶۴۰)

واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment