Tuesday 31 October 2017

کیا فارمی مرغی اور انڈے کھاسکتے ہیں؟

ایس اے ساگر 
معروف تاریخ دان ابن خلدون نے اپنی کتاب المقدمہ میں لکھا ہے کہ عربوں کو اونٹ کا گوشت کھانے کی عادت ہے، اس لئے ان کی طبیعت میں نخوت، غيرت اور سختی کا عنصر بہت پایا جاتا ہے ... ترکوں کو گھوڑے کا گوشت کھانے کی عادت ہے اس لئے ان میں طاقت، جرأت اور اکڑپن کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے.... انگریزوں کو خنزیر کا گوشت کھانے کی عادت ہے، اس لئے ان میں فحاشی وغیرہ کا عنصر غالب ہوتا ہے .... حبشی افریقی بندر کھاتے ہیں، اس لئے ان میں ناچ گانے کی طرف میلان زیادہ پایا جاتا ہے.... ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: 
جس کو جس حیوان کے ساتھ انس ہوتا ہے اس کی طبیعت میں اس حیوان کی عادتیں غیر شعوری طور پر شامل ہوجاتی ہیں... اور جب وہ اس حیوان کا گوشت کھانے لگ جائے تو اس حیوان کے ساتھ مشابہت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے ....  ہمارے زمانے میں فارمی مرغی کھانے کا رواج بن چکا ہے... چنانچہ ہم بھی مرغیوں کی طرح صبح و شام چوں چوں تو بہت کرتے ہیں لیکن ایک ایک کرکے ہمیں ﺫبح کردیا جاتا ہے ... فارمی مرغی کا گوشت کھانے کی وجہ سے ہم میں سستی کاہلی کی، ایک جگہ ٹک کر بیٹھنے کی، سر جھکاکر چلنے کی اور پستی میں رہنے کی عادتیں پیدا ہوچکی ہیں...

اس کے باوجود چکن آج امیر غریب، چھوٹے بڑے سب کی پسندیدہ غذا بن چکی ہے۔ دو ڈھائی دہائیوں میں ہی اس کا رواج بڑھا ہے۔ اصل میں یہ چوزے یعنی Chicks ہیں ۔ اس لئے ان کے گوشت کو Chicken کہا جاتا ہے۔ مرغی تو Cock یا Hen ہے۔
اس چکن کی افزائش پہ اگر نظر ڈالیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ایک فارمی چوزہ صرف ڈیڑھ دو ماہ میں مکمل مرغی کے سائز کا ہو جاتا ہے۔ آخر کیوں؟ جبکہ دیسی چوزہ تو چھ ماہ میں مرغی جیسا ہوتا ہے مکمل مرغی تو وہ سال میں بنتا ہے۔ اس فارمی چوزے کو جو غذا دی جاتی ہے اس میں ایسے ہارمونز Steroids اور کیمیکل ڈالے جاتے ہیں جو ان کی افزائش کو غیر فطری بڑھا دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی فیڈ میں مختلف جانوروں کا خون جو مذبح خانوں سے مل جاتا ہے، جانوروں کی آلائش، مردار جانوروں کا گوشت اس فیڈ میں شامل کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک نجی ٹی وی چینل نے مذبح خانوں پر ایک دستاویزی فلم پیش کی تھی جس میں ان فارمی مرغیوں کی خوراک کے پارے میں بھی دکھایا گیا تھا۔ اس خوراک کا بیشتر حصہ خون، آنتیں اور دیکر فضلات پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ فیڈ کھاکر یہ نومولود چوزے 6 سے 8 ہفتوں میں ہمارے پیٹ میں پہنچنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ یہ چوزے بڑے ہونے کے باوجود بھاگنے اڑنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کا جسم پھولا اور سوجا ہوا ہوتا ہے۔ جوکہ اسٹئرائڈز کا کمال ہوتا ہے۔ اس طرح کے اسٹئرائڈز باڈی بلڈر اور پہلوان استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی آخری عمر بستر پہ گذرتی ہے۔ اس فارمی مرغی کے مقابلے میں دیسی چوزہ جوکہ 6۔8 مہینوں تک چوزہ ہی رہتا ہے کو پکڑنا چاہیں تو بڑے آدمی کو بھی دانتوں پسینہ آجاتا ہے جبکہ فارمی مرغی کو ایک بچہ بھی آسانی سے پکڑ لیتا ہے۔ یہ فارمی چکن ہمارے معاشرے میں ہائی پروٹین، کولیسٹرول فری گوشت کے نام سے رواج پاگیا ہے۔ حتٰی کہ ڈاکٹر حضرات بھی سارے گوشت بند کرکے فارمی چکن ہی تجویز کرتے ہیں۔ جوکہ خود بیماریوں کی وجہ ہے۔ اب اس ہائی پروٹین والے سفید گوشت کے نقصانات ملاحظہ فرمائیے:
♦1 : موٹاپا، جسم پر چربی خاص طور پہ گردوں اور جگر پر۔
♦2: جوروں کا درد، خاص طور پہ ہڈیوں کا بھر بھرا ہوجانا۔
♦3: بچے بچیوں میں جلد بلوغت کے آثار۔
♦4 : اسٹیرائزڈ مرغیوں کا گوشت کھانے کی وجہ سے جسم کا مدافعتی نظام کا شدید کمزورپڑجانا جس کی وجہ سے آئے دن بیمار رہنا۔
♦5: مردوں میں کمزوری اور خواتین میں ایام کی بے قاعدگی کی شکایت۔
یہ چند چیدہ چیدہ نقصانات ہیں جو کسی میں جلد اور کسی میں کچھ عرصے بعد ظاہر ہوتے ہیں۔ زبان کا ذائقہ اور جلد پک جانے کی سہولت اس کے نقصانات کے مقابلے میں بہت ہی حقیر فائدے ہیں۔
جیسی غذا ہم کھاتے ہیں ویسی ہی صحت ہم پاتے ہیں۔ غذا میں دالوں سبزیوں کا استعمال بڑھائیں ۔
گوشت میں بلترتیب مچھلی ، بکرے یا دنبہ، اونٹ اور آخر میں بڑے کے گوشت کی افادیت ہے۔ کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ اپنے لئے، اپنی آئندہ صحت مند نسلوں کے لئے ہم اپنی خوراک پہ نظر ثانی کریں؟

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/%D9%81%D8%A7%D8%B1%D9%85%DB%8C-%DA%86%DA%A9%D9%86.61792 
اور لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ مارکیٹ میں آنے والا چکن کس طرح تیار ہوتا ہے۔ اس بارے میں مہم چلانے والے کہتے ہیں کہ گوشت کو بہتر طریقے سے لیبل کرنا ضروری ہے۔ تو ہم ان مرغیوں کے بارے میں کیا جانتے ہیں جس کا گوشت ہماری پلیٹوں تک پہنچتا ہے۔ شاید اتنا ہی کہ یہ لوہے کے لمبے لمبے شیڈز میں پلتی ہیں، بڑے بڑے پلاسٹک کے ڈرموں سے دانہ کھاتی ہے، وہاں پائپ اور چمنیاں لگی ہوتی ہیں۔ 

چبھتی ہوئی بدبو:
عام آدمی کے لئے یہ بالکل ایک کیمیکل پلانٹ جیسا ہی لگتا ہے۔ برطانیہ کے پیک ڈسٹرکٹ جیسے خوبصورت علاقے میں مرغیاں پالنے کے پلانٹ بالکل عجیب سے لگتے ہیں۔ صرف ایک چیز اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ ان کے اندر کوئی زندہ چیزیں بھی رہ رہی ہیں اور وہ ہے ایکسٹریکٹر فین سے نکلنے والی چبھتی ہوئی بدبو۔ یہ پلانٹ کوئی روغن یا کھاد کی فیکٹری نہیں ہے۔ اسے لوئر فارم کہتے ہیں اور یہاں چکن پیدا کئے جاتے ہیں۔ یہ چکن صرف 33 یا 38 دنوں میں بڑھ کر اوسطاً 2.2 کلو گرام کے ہوجاتے ہیں۔ ذبح کے لئے بالکل تیار۔ یہاں سے چکن کبھی باہر نہیں نکلتے، ہر چیز چار بڑے شیڈز کے اندر ہی ہوتی ہے۔ 
بند دروازوں کے پیچھے:
شیڈز کے اندرونی حصے کی ہر وقت فلم بندی کی جاتی ہے اور اہم اعداد و شمار ریکارڈ کئے جاتے ہیں کہ کس پرندے نے کتنا پانی پیا، فیڈر کے ذریعے دیا گیا دس کلوگرام فیڈ کا کتنا حصہ کھایا، کون سے پرندے کا کتنا وزن ہے، وغیرہ وغیرہ۔ لوئر فارم میں ہر سال ساڑھے 12 لاکھ چکن پیدا کئے جاتے ہیں۔ برطانیہ میں بیچا جانے والا چکن کم و بیش اسی قسم کے فارموں سے آتا ہے۔ خیراتی ادارے کمپیشن ان ورلڈ فارمنگ (سی ڈبلیو ایف) کے کیمپین ڈائریکٹر ڈل پییلنگ کے بقول: ’اس طرح کی بڑے پیمانے پر کی جانے والی چکن فارمنگ بند دروازوں کے پیچھے ہوتی ہے۔ یہ لوگوں سے چھپائی جاتی ہے۔ ان کے ذہنوں میں آج بھی فارم میں دانہ چگتے ہوئے چکن کا تصور ہے۔‘ برٹش پولٹری کونسل کے مطابق ملک میں فری رینج چکن پانچ فیصد پیدا ہوتا ہے، اورگینک ایک فیصد، جبکہ باقی 94 فیصد شیڈز میں پالے گئے پرندوں سے آتا ہے۔ 
فری رینج اور اورگینک چکن گوشت:
یہ انڈوں سے قدرے مختلف ہے جہاں فری رینج اور اورگینک انڈے برطانیہ کی پیداوار کا تقریباً 45 فیصد ہیں۔ انڈے پیدا کرنے والی اور چکن کا گوشت پیدا کرنے والی دو مختلف صنعتیں ہیں۔ 1950 سے دو طرح کی چکن فارمنگ کی جاتی رہی ہے۔ ایک وہ جو انڈے دینے والی مرغیوں کی فارمنگ کرتی اور دوسری گوشت کے لیے برائلر چکن کی پیداوار کرتی ہے۔ اگرچہ یہ دونوں مختلف صنعتیں ہیں لیکن پھر بھی لوگ فری رینج انڈے خریدنا تو پسند کرتے ہیں لیکن فری رینج چکن پر کوئی اتنی خاص توجہ نہیں دیتے۔ ایک برائلر کی اوسط عمر 39 دن ہوتی ہے۔ اسی لئے حال ہی میں سی ڈبلیو ایف نے 39 دنوں کی ایک مہم چلائی کہ چکن کی پیداوار کے طریقے کو بیچتے ہوئے اچھی طرح لیبل کرنا چاہئے۔ ہوسکتا ہے کہ قیمتِ خرید اس کی بنیادی وجہ ہو۔ فری رینج اور اورگینک چکن کے گوشت کی قیمتوں میں فری رینج انڈوں کی نسبت زیادہ فرق ہوتا ہے۔ جو 6.95 پاؤنڈ سے لے کر 19 پاؤنڈ تک کا ہے۔ لیکن انڈے چونکہ نسبتاً سستے ہوتے ہیں اس لئے ان کی قیمتوں میں تھوڑی بہت کمی بیشی کا پتہ نہیں چلتا۔ جبکہ فری رینج اور برائلر چکن کے گوشت میں فرق بہت واضح ہے۔ انڈوں کی صنعت میں بیٹری فارمنگ یعنی بہت ہی محدود جگہ میں اور برے حالات میں مرغیوں سے انڈے پیدا کروانے کے عمل کی اتنی مذمت کی گئی کہ 2012 کے دوران اس پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ بعض ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر لوگ یہ دیکھ لیں کہ کس طرح سستے چکن پیدا کئے جاتے ہیں تو شاید وہ چکن کھانا ہی چھوڑ دیں۔ اسی لئے اس صنعت سے وابستہ زیادہ تر افراد عام لوگوں کو چکن فارمز کے دورے کروانے سے کتراتے ہیں۔ برٹش پولٹری کونسل سے طویل مذاکرات کے بعد بالآخر لوئر فارم کے دورے کا بندوبست کیا گیا۔
مرغیوں کا سفید سمندر؟
اگر آپ باہر والی عمارت کے پہلے دروازے میں داخل ہوں تو آپ اپنے آپ کو کنٹرول روم میں پائیں گے جہاں سی سی ٹی وی کیمرے سے منسلک ٹی وی اسکرینیں لگی ہوئی ہیں۔ آپ کو شیڈ کے اندر مرغیوں کا ایک ازدحام نظر آئے گا۔ وہاں اس وقت 33,426 مرغیاں ہیں۔ ایک دن پہلے وہاں 45,000 تھیں، باقیوں کو ذبح کردیا گیا ہے۔ ادھر موجود مرغیوں کی عمر 34 دن ہے۔ آپ ذرا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوں تو آپ اپنے آپ کو مرغیوں کے سفید سمندر میں پائیں گے۔ اندر حالات اتنے برے نہیں جتنے 2012 سے پہلے تھے۔ قدرتی روشنی کھڑکیوں سے اندر آ رہی ہے اور چکن تھوڑی بہت حرکت کرسکتے ہیں۔ لکڑی کے چورے اور مرغیوں کی بیٹ کی وجہ سے فرش نرم ہے۔ فرش کے نیچے ہیٹنگ سسٹم ہے۔ ہر سال مرغیوں کی سات کھیپیں یہاں تیار کی جاتی ہیں جو کہ تعداد میں تقریباً 310,000 بنتی ہیں۔ اس دوران تقریباً 3.3 فیصد پرندے قدرتی موت مرجاتے ہیں۔ ہر کھیپ کے بعد لکڑی کا چورا اور فضلہ اکٹھا کیا جاتا ہے اور پوری جگہ کو ڈس انفیکٹ کیا جاتا ہے۔ ابھی اندر آئے ہوئے دس منٹ ہی ہوئے ہیں لیکن بدبو برداشت سے باہر ہے۔ یہ مرغیوں کی بیٹوں سے پیدا ہونے والے امونیا کی بو ہے۔ شیڈ میں ہوا کے اخراج کا بندوبست ہے تاکہ اس گیس کو انتہائی حد تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ شیڈ کے مالک ڈیوڈ سپیلر کہتے ہیں کہ انھیں اس بو کی عادت پڑ گئی ہے۔
’ہم نے امونیا، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گیسوں کے لیول کو مانیٹر کیا ہے اور حقیقت میں یہ بہت زیادہ نہیں ہیں۔ لیکن یہ دوسری طرح کی بو ہے۔‘ 
’ایٹنگ اینیملز‘
باہر سورج چمک رہا ہے۔ کیا سپیلر کے دل میں نہیں آتا کہ وہ مرغیوں کو باہر جاکے دانا چگنے دیں؟ اس سوال پر وہ ہنس دیے اور کہا کہ ’ڈربی شائر کی پہاڑیوں پر سال کے زیادہ تر حصے میں تو پرندے نہیں بچیں گے۔‘ سپیلر کہتے ہیں کہ جینیاتی طور پر اکثر فری رینج پرندے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتے، اگرچہ ان کی مٹی میں چیزیں چگنے کی صلاحیت ان کے گوشت میں ذرا مختلف مزہ ضرور پیدا کرتی ہے۔ باہر یہ جانور جب کیڑے مکوڑے، لیڈی برڈ اور بھنورے کھاتے ہیں تو ان کے گوشت کا ذائقہ ضرور بدلتا ہے۔ لیکن ’بند دروازوں میں رہنے والے پرندوں کو جانوروں کی پروٹین نہیں دی جاسکتی۔‘ کتاب ’ایٹنگ اینیملز‘ کے امریکی مصنف جوناتھن سفران فوئر کہتے ہیں کہ جانوروں کی پروٹین کبھی اتنی سستی نہیں تھی۔ امریکی اب 80 سال پہلے کی نسبت 150 گنا زیادہ چکن کھاتے ہیں۔ اگر چین اور انڈیا بھی اسی تناسب سے چکن کھانے لگیں تو تیزی سے تیار کئے گئے پرندوں کی تعداد سالانہ ایک ارب تک پہنچ جائے گی۔
http://www.bbc.com/urdu/world/2014/10/141023_chicken_meat_as
صیہونی سازشیں اور کدّو کے فوائد:
اے مسلمانو، خدارا کچھ کھانے سے پہلے تحقیق کرلیجئے۔ عراق پر امریکی حملے کے دوران بغداد کی ایک قدیم عمارت بمباری سے ملبے کا ڈھیر بن گئی۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد شہر کی صفائی شروع ہوئی تو اس عمارت کا ملبہ ہٹاتے ہوئے گہرائی سے ایک قدیم عمارت کے آثار دریافت ہوئے۔ یہ کسی درس گاہ کے آثار تھے۔ وہاں سے ایک قدیم قلمی نسخہ مکمل حالت میں دستیاب ہوا جس کا نام "تحفة الاغانی" تھا۔ مصنف کا نام عبداللہ بن طاہر البغدادی رضوی تھا۔ کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف عالم دین اور صوفی تھے۔ یہ کتاب ان کے کشف پر مبنی پیشینگوئیوں پر مبنی ہے۔ اس میں ایک باب خاص طور پر ہند یعنی ہندوستان کے بارے میں ہے۔ اس میں حضرت لکھتے ہیں کہ ہند کے کچھ علاقوں پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگی لیکن ایک طویل عرصہ تک یہ ملک افراتفری اور بے چینی کا شکار رہے گا۔ اس کی جو وجہ اس کتاب میں بیان کی گئی وہ بہت ہولناک ہے۔ حضرت لکھتے ہیں کہ اس علاقے کے مسلمان خنزیر نما خوراک کھانے کے عادی ہوں گے اور یہی سبب ہوگا کہ وہ بتدریج دین سے دور ہوتے جائیں گے۔ یہ بہت عجیب بات تھی کیونکہ پاکستان میں لوگ بظاہر ایسی کوئی چیز نہیں کھاتے۔ 2011 میں یونیورسٹی آف مشیگن کے پروفیسر اسٹورٹ جونز جو ڈپارٹمنٹ آف بائیو ٹکنولوجی کے سربراہ ہیں، انہوں نے اپنی ریسرچ میں ثابت کیا کہ برائلر چکن اور خنزیر کے گوشت میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں۔ برائلر جس ٹکنالوجی سے پیدا کیا گیا اس میں خنزیر کے ماڈل کو ہی فالو کیا گیا تھا۔ اس تحقیق کے سامنے آتے ہی اس پر پابندی لگا دی گئی اور ڈاکٹر جونز کو نفسیاتی مریض قرار دے کر ذہنی امراض کے ہسپتال میں ڈال دیا گیا۔ نومبر 2015 میں ڈاکٹر سٹورٹ جونز کا اسی اسپتال میں پراسرار حالات میں انتقال ہوگیا۔ اگر یہ تحقیق منظر عام پر آجاتی تو مغرب کی ملٹی بلین ڈالر برائلر چکن انڈسٹری تباہ ہوجاتی۔ اس انڈسٹری کے بَل پر انھوں نے مسلم ممالک میں اپنے ایجنٹس کو جیسے ارب پتی کیا، وہ سلسلہ بھی ختم ہوجاتا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمان حرام گوشت کھاکے جن روحانی امراض کا شکار ہو رہے ہیں، اس سے نجات مل جاتی۔انہی دنوں تل ابیب یونیورسٹی میں کدّو کے خواص پر ایک ریسرچ پیش کی گئی۔ ڈاکٹر موشے ڈیوڈ جو پولینڈ سے ہجرت کرکے اسرائیل میں آئے تھے، وہ پچھلے بائیس برس سے کدّو کے خواص پر تحقیق کررہے تھے۔ 2014 کے موسم گرما میں یہ تحقیق مکمل کرکے یونیورسٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں پیش کی گئی۔ اس ریسرچ پیپر میں یہ انکشاف کیا گیا کہ کدّو ایک ایسی مکمل غذا ہے جس کی مثال کسی اور غذا میں نہیں ملتی۔ اگر ایک انسان روزانہ دو وقت کدّو کھائے تو اس کی غذائی ضروریات بالکل پوری ہوجاتی ہیں۔ کدّو میں ایسے اجزاء شامل ہیں جو انسان کو ہر قسم کی بیماری سے بچالیتے ہیں۔ کینسر اور ایڈز کے مریضوں کو تجرباتی طور پر ایک مہینہ کدّو کھلائے گئے تو وہ بالکل بھلے چنگے ہوگئے۔ کدّو کے جوہر سے ہر قسم کی بیماری کے علاج کی ویکسین تیار کرنے کا تجربہ بھی کیا گیا اور نتائج حیران کن تھے۔ کسی بھی بیماری کے آخری اسٹیج کے مریض کو بھی کدّو ویکسین لگائی گئی تو وہ ایک دن کے اندر پوری طرح صحت مند ہوگیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ڈاکٹر موشے ڈیوڈ کو بھی اس کے بعد منظر عام سے غائب کردیا گیا۔ تل ابیب ٹائمز میں ڈاکٹر ڈیوڈ کی بیوی مارشا ڈیوڈ کا انٹرویو بھی چھپا جس میں انھوں نے اپنے خاوند کی پراسرار گمشدگی پر سوالات اٹھائے اور اس کا تعلق ان کی ریسرچ سے جوڑتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اصل حقائق کو سامنے لایا جائے۔ یہ معاملہ بھی بعد میں وقت کی گرد میں گم ہوگیا۔ اس ریسرچ کو اگر آفیشلی طور پر سامنے لایا جاتا تو اسلام کی حقّانیت کھل کر پوری دنیا کے سامنے واضح ہوجاتی اور یہود و ہنود کا کفر روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتا۔ درج بالا دو واقعات سے ہر مسلمان مرد و زن پر لازم ہے کہ وہ اس تحریر کو سبحان اللہ کہہ کے شئیر کرے اور اپنے مسلمان بھائی بہنوں کو حرام کھانے سے بچائے اور کدّو کے فوائد سے رو شناس کروائے۔ جزاکم اللہ
بشکریہ: شاہراہ ہدایت بخدمت گرامی قدر مفتی صاحب۔ امید ہے کہ مزاج گرامی بعافیت ہونگے؟ اوپر کا میسیج میرے عزیز دوست مولوی راشد اعظمی (ابن مولانا افضال الحق جوہر القاسمی) نے بھیجا ہے ۔اسے ملاحظہ فرمائیں اور بتائیں کہ برائلر چکن کے بارے میں جس تحقیق کا ذکر کیا گیا ہے، اس کے بارے میں ایک مسلمان کیا رخ اختیار کرے؟
اس طرح کے میسیج کو نہ تو مکمل طور پر جھٹلایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس پر یقین کرکے اسے کسی حکم شرعی کا مدار بنایا جاسکتا ہے؛ البتہ خواصِّ اشیاء میں ماہر دین داردو مسلمان ڈاکٹروں سے اگر ”برائلر“ چکن کا تجزیہ کرالیا جائے اور وہ پوری ایمان داری کے ساتھ تحلیل وتجزیہ کرکے اس تحقیق کی تصدیق کردیں تو احتیاطا اور از روئے تقویٰ لوگوں کو نہ کھانے کی ترغیب دی جاسکتی ہے؛ لیکن برائلر چکن کے ناجائز ہونے کا فتوی پھر بھی نہیں دیا جاسکتا؛ کیوں کہ یہ از قبیل ”مرغ“ ہے اور مرغی ہی کا سہارا اس کو پیدا کرنے میں لیا گیا ہے؛ لہٰذا اس پر مرغ، مرغی ہی کا حکم لگے گا اگرچہ پیدا کرنے کے طریقہٴ عمل میں غیرشرعی چیزوں کا بھی استعمال کیا گیا ہو۔
یستفاد مما في الفتاوی الہندیة وغیرہ: فإن کان متولّدًا من الوحشي والإنسي فالعبرة للأمّ، فإن کانت أہلیة تجوز وإلا فلا، وقیل: إذا نزا ظبي علی شاة أہلیة فإن ولدت شاةً تجوز التضحیة وإن ولدت ظبیًا لا تجوز (فتاوی ہندیة ۵/ ۲۹۷، ط: زکریا) وفي الدر مع الرد․․․ لأن المعتبر في الحلّ والحرمة الأم فیما تولد من مأکول وغیر مأکول (درمختار مع الشامي ۹/ ۴۴۲، ط: زکریا) وفیہ (۹/ ۴۹۱) ․․․ حلّ أکل جدي غذي بلبن خنزیر؛ لأن لحمہ لا یتغیر وما غذي بہ یصیر مستہکلا لا تبقی لہ أثرً إلخ (درمختار مع الشامي ۹/ ۴۹۱، ۴۹۲، ط: زکریا)
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Food--Drinks/146490

........
فارمی مرغی کی اصل گدھ ہے، ہمیں اس کی تحقیق نہیں ہے، جہاں تک فارمی مرغی کے کھانے کا سوال ہے تو اس کا کھانا فی نفسہ جائز ہے اگرچہ بہ تحقیق یہ بات ثابت ہوجائے کہ اس کو پیدا کرنے میں گدھ یا کسی اور حرام جانور کا مادہ شامل کیا گیا ہے؛ کیونکہ یہ از قبیل مرغ ہے اور مرغی ہی کا سہارا اس کو پیدا کرنے میں لیا جاتا ہے، نیز اس کی ظاہری شکل وصورت بھی حلال پرندے کی ہے؛ باقی اگر کوئی شخص ذاتی طور پر کسی وجہ سے احتیاط کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،
یستفاد مما في الفتاوی الہندیة: فإن کان متولدا من الوحشي والإنسي فالعبرة للأم، فإن کانت أہلیة تجوز وإلا فلا․․․․إذا نزا ظبی علی شاة أہلیة، فإن ولدت شاة تجوز التضحیة، وإن ولدت ظبیا لا تجوز(ہندیہ: ۵/۲۹۷، ط: زکریا) وعن ابن عباس قال: نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن کل ذي ناب من السباع وعن کل ذي مخلب من الطیر (مسلم، رقم: ۱۹۳۴)
...........
# فقہیات #
فارمی مرغی اور انڈے کا حکم:
اس وقت فارمی مرغی اور اس کے انڈے ایک بڑی تعداد میں عوام کی عمومی غذا کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں کہ اس کو بطور غذا استعمال بھی کیا جارہا ہے اور بطور مال اس کی خرید و فروخت بھی کی جاتی ہے، تاہم آئے دن اس کے متعلق کچھ باتیں سننے کو ملتی ہیں اس لئے اس کی بابت کچھ احکام شرعیہ فتاوی کی روشنی میں پیش خدمت ہیں۔ (✍ : سفیان بلند)
1- پہلے: یہ سمجھیں کہ تمام اشیاء میں اصل اباحت ہے سوائے گوشت کے کہ اس میں اصل حرمت ہے جب تک کہ دلیل حلّت (حلال ہونے کی دلیل قائم نہ ہوجائے) چنانچہ مرغی کے گوشت کو بھی اس بھی اسی اعتبار سے دیکھا جائے گا اور اس کے انڈے کا مدار بھی اس کے گوشت پر ہے۔
2- دوسرا: کسی بھی حلال چیز کو حرام قرار دینے یا حرام چیز کو حلال قرار دینے سے قبل احتیاط کی ضرورت ہے، مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ معارف القرآن میں لکھتے ہیں:
کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کی تین صورتیں ہیں جنکا مفصل ذکر سورة مائدہ کی (آیت) یا ایھا الذین امنوا لاتحرمو طیبت ما احل اللہ لکم، کے تحت معارف القران جلد سوم میں آچکا ہے جسکا خلاصہ یہ ہے کہ:
ایک، اگر کوئی شخص کسی حلال قطعی کو عقیدةً حرام قرار دے تو یہ کفر اور گناہ عظیم ہے۔
دوسرا، اگر عقیدةً حرام نہ سمجھے مگر بلا کسی ضرورت و مصلحت کے قسم کھا کر اپنے اوپر حرام کرلے تو یہ گناہ ہے اس قسم کو توڑنا اور کفارہ ادا کرنا اس پر واجب ہے جسکا ذکر آگے آتا ہے اور کوئی ضرورت و مصلحت ہو تو جائز، مگر خلاف اولیٰ ہے۔
تیسرا، یہ ہے کہ نہ عقیدةً حرام سمجھے، نہ قسم کھا کر اپنے اوپر حرام کرے مگر عملاً اس کو ہمیشہ ترک کرنے کا دل میں عزم کرلے، یہ عزم اگر اس نیت سے کرے کہ اس کا دائمی ترک باعث ثواب ہے، تب تو یہ بدعث اور رہبانیت ہے جو شرعاً گناہ اور مذموم ہے اور اگر ترک دائمی کو ثواب سمجھ کر نہیں بلکہ اپنے کسی جسمانی یا روحانی مرض کے علاج کے طور پر کرتا ہے تو بلا کراہت جائز ہے، بعض صوفیائے کرام سے جو ترکِ لذائذ کی حکایتیں منقول ہیں وہ اسی صورت پر محمول ہیں۔
(معارف القرآن سورہ تحریم)
3- تیسرا: یہ ہے کہ اگر کوئی حلال چیز ہو مگر وہ طبی اعتبار سے مضر سمجھی جاتی ہو تو وہ قابل ترک تو قرار دی جاسکتی ہے تاہم اس کو حرام قرار دینا کسی طرح شرعا جائز نہیں جب تک اس پر شرعی دلیل سے حرمت قائم نہ ہوجائے۔
4- چوتھا: کسی بھی چیز کو حلال و حرام قرار دینا دیانات سے تعلق رکھتا ہے اور دیانات میں مسلم کی خبر کا اعتبار ہے، غیر مسلم کی بات کا اعتبار نہیں۔
5- پانچواں: اگر کسی چیز کی حقیقت و ماہیت اس طور پر بدل جائے کہ اس کا نام و خواص اور شکل و صورت و اوصاف بالکلیہ بدل جائیں تو اس کو فقہاء کی اصطلاح میں تبدیل ماہیت اور انقلاب حقیقت کہا جاتا ہے اور ایسی صورت میں اگر وہ حرام چیز حلال بن جائے تو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں، یہ بات واضح رہے کہ انقلاب حقیقت ممکن ہے جیسا کہ حضرت علامہ شامی رحمہ اللہ کے نزدیک دلائل کی رو سے یہی بات ثبوت تک پہنچتی ہے:
”وَالظَّاہِرُ أنَّ مَذْہَبَنَا ثُبُوْتُ اِنْقِلاَبِ الْحَقَائِقِ بِدَلیلٍ مَا ذَکَرُوْہُ فِي انْقِلاَبِ عَیْنِ النِّجَاسَةِ کَاِنْقِلاَبِ الْخَمْرِ خَلًّا وَالدَّمِ مِسْکاً وَنَحْوِ ذٰلِکَ وَالله اعلم․ (رد المحتار: 239/1، رشیدیہ، بحر، فتح القدیر)
ترجمہ: اور ظاہر سی بات ہے کہ ہمارا مسلک انقلابِ ماہیات کے ثبوت کا ہے، اس دلیل کی وجہ سے جو فقہائے کرام نے عین نجاست کے بدلنے میں ذکر فرمائی ہے، جیسے شراب کا سرکہ بن جانا اور خون کا مشک بن جانا اور اس جیسی دوسری چیزیں (رد المحتار) تو ہم نے سمجھ لیا کہ عین کا بدلنا اس وصف کے ختم ہوجانے کے تابع ہے جو اس (عین) پر مرتب ہوتا ہے۔
● حضرت مفتی اعظم حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
انقلابِ حقیقت سے مراد کیا ہے؟ تو واضح ہوکہ انقلابِ حقیقت سے مرادیہ ہے کہ وہ شے فی نفسہ اپنی حقیقت چھوڑ کر کسی دوسری حقیقت میں متبدل ہوجائے، جیسے شراب سرکہ ہوجائے یا خون مشک بن جائے یا نطفہ گوشت کا لوتھڑا وغیرہ کہ ان صورتوں میں شراب نے فی نفسہ اپنی حقیقت خمریہ اور خون نے اپنی حقیقت دمویہ اور نطفہ نے اپنی حقیقت منویہ چھوڑدی اور دوسری حقیقتوں میں متبدل ہوگئے، حقیقت بدل جانے کا حکم اسی وقت دیا جاسکتا ہے کہ حقیقت اولیٰ منقلبہ کے آثار مختصہ اس میں باقی نہ رہیں۔(کفایت المفتی و فتاوی مظاہر علوم)
● حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب رحمہ اللہ نے انقلابِ ماہیت کو اپنے الفاظ میں اس طرح تعبیر فرمایا ہے:
”قلبِ ماہیت یہ ہے کہ سابق حقیقت معدوم ہوکر نئی حقیقت ونئی ماہیت بن جائے، نہ پہلی حقیقت وماہیت باقی رہے، نہ اس کا نام باقی رہے، نہ اس کی صورت و کیفیت باقی رہے، نہ اس کے خواص وآثار و امتیازات باقی رہیں؛ بلکہ سب چیزیں نئی ہوجائیں، نام بھی دوسرا، صورت بھی دوسری، آثار وخواص بھی دوسرے، اثرات و علامات اور امتیازات بھی دوسرے پیدا ہوجائیں، جیسے: شراب سے سرکہ بنالیا جائے۔ (منتخبات نظام الفتاویٰ: ۱/۲۶، ۲۷، اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی)
● حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہم فرماتے ہیں کہ :
صورت اور اوصاف سہ گانہ (رنگ، بو، مزہ) کی تبدیلی سے تحویلِ حقیقت ہو جاتی ہے، گو کسی شئی کا قوام اور مادہ باقی رہے، جیسے شراب سرکہ بن جائے تو اصل مادہ باقی رہتا ہے، اوصاف اور اثرات میں تبدیلی آتی ہے۔(قاموس الفقہ 94/2)
اب اس کے بعد فارم کی مرغیوں اور اس کے انڈوں کی بابت فتاوی کی روشنی میں اجمالی عرض ہے کہ فارمی مرغی اور اس کے انڈے از روئے شرع حلال ہیں البتہ اس مرغی کے استعمال سے اجتناب لازم ہے جو گندگی کھاتی ہو جس کی وجہ سے اس کا گوشت بدبو دار ہوجائے.
تفصیلی فتاوی ملاحظہ فرمائیں:
فارمی مرغی کے کھانے کا حکم:
● آج کل تقریباً ہر ملک میں مشینی سفید مرغی کا کاروبار عام ہے اور مرغیوں کی پرورش کے لئے ایسی خوراک دی جاتی ہے جس میں خون کی آمیزش کی جاتی ہے، جس سے مرغی جلد جوان ہوتی ہے اور اس غذا کی وجہ سے مرغی کے اندر خود بخود انڈے دینے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے تو ایسی صورت میں اس قسم کی مرغی کا حکم یہ ہے کہ اگر مرغی کی غذا کا غالب حصہ اگر حرام ہو تو اس کا کھانا مکروہ ہے، اس کو تین دن بند رکھا جائے اور حلال غذا دی جائے، اس کے بعد کھایا جائے، اور ان کی خوراک میں حلال غالب ہو تو کھانا جائز ہے۔(فتاوی یوسفی جلد ١٠)
● اگر پولٹری فارم میں مرغیوں کو خنزیر کی چربی یا اس طرح کی چیزوں سے تیارشدہ کھانا کھلایا جائے تو ایسی مرغیوں کو کھاسکتے ہیں، البتہ اگر ان مرغیوں سے خنزیر کی بو آرہی ہو تو عارضی طور پر ان کو کچھ دن الگ رکھ کر حلال غذا کھلائی جائے اور جب ان سے بو زائل ہوجائے اس وقت ان کو ذبح کرکے کھایا جائے۔ (جواب : 25162 دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
● فارم والی مرغی حلال ہے، حرام غذا کا اثر(مستہلک) ختم ہونے کے بعد کراہت بھی ختم ہوجاتی ہے، در مختار میں ہے کہ:
{حل أکل جدي غذی بلبن خنزیر لأن لحمه لا یتغیر وما غذي به یصیر مستہلکا لا یبقی له أثر } (جواب: 46011 دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
● کسی جانور کا خون اگرچہ مال متقوم نہیں کہ اس کو فروخت کیا جائے لیکن بسا اوقات عرف کی وجہ سے ضرورت کے تحت ایک غیر مال بھی مال بن جاتا ہے اور فقہاء اسلام نے اس کی بیع کو جائز قرار دیا ہے، مثلاً گوبر وغیرہ تو صورتِ مسئولہ کے مطابق آجکل جانوروں کے خون سے چونکہ فارمی مرغیوں کی خوراک بنتی ہے اور ضرورت کے تحت عموماً اس کا کاروبار ہوتا ہے، اس لئے بناء بر عرف اس کو مال سمجھا جائے گا اور مذکورہ صورت میں تو وہ خون خون ہی نہیں رہتا بلکہ جل کر راکھ بن جاتا ہے، اس لیے جلے ہوئے خون کی تجارت بلا شک و شبہ جائز ہے۔
لما قال العلامۃ ظفراحمد العثمانی رحمہ اللہ:
یہ بیوپار جائز ہے...... ان اقوال کا مقتضاء یہ ہے کہ اگر کسی وقت خون کی قیمت بھی عرفاً ہوجائے تو اس کی بیع وشراء صحیح ہے اور خون کی راکھ تو پاک ہے، اس کی بیع صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں۔
(امدادالاحکام :٣٥٤،٣٥٥/٣ کتاب البیوع)
(فتاویٰ حقانیہ : ٥٦/٦)
(از فتاوی فریدیہ، عنوان: خون کے جل کر راکھ ہو جا نے پر اس کی تجارت کا حکم)
فارمی مرغی کے انڈے کا شرعی حکم:
کسی بھی جانور کے حلال و حرام ہونے میں اس کی ماں کا اعتبار ہوتا ہے اور یہی حکم اس کے انڈے کا ہے، اگر اس کی ماں حلال ہے تو وہ بھی حلال ہے اور اگر اس کی ماں حرام ہے تو وہ بھی حرام ہے، جب یہ بات واضح ہوگئی کہ فارمی مرغی حلال ہے تو اس کے انڈے بھی حلال ہونگے۔
● حضرت مفتی اعظم ہند مفتی محمود الحسن گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
جانوروں میں بچہ ماں کے تابع ہوتا ہے، یعنی اگر ماں حلال ہے تو بچہ بھی حلال ہے، اگر ماں حرام ہے تو بچہ بھی حرام ہے، اگر گدھی کے ساتھ گھوڑا وطی کرے اس سے خچر پیدا ہو تو وہ ماں کے تابع ہو کر حرام ہوگا، اگر گائے کے ساتھ گدھا وطی کرے تو اس سے بچھڑا پیدا ہوا ہو تو وہ ماں کے تابع ہو کر حلال ہوگا، اب امید ہے کہ امریکن گائے کا سوال اور اس پر اشکال بھی حل ہوجائے گا۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم
(دارالعلوم دیوبند ١٤٠١/٦/١٠)
● حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم لکھتے ہیں:
مرغی اور اس کے انڈے کا حلال ہونا حدیث سے ثابت ہے (الجامع للترمذي ، حدیث نمبر : ۱۸۲٤ ۔ محشی) اور اس پر امت کا اجماع اور اتفاق ہے (المغنی :١٠١/١ محشی) اس میں کوئی تفریق نہیں کہ نر کے اختلاط کے بعد انڈے ہوئے ہوں، یا اس کے بغیر، اگر تنہا مرغی سے بھی انڈا حاصل ہو تو ظاہر ہے کہ یہ انڈا مرغی کا جزو ہے، پھر اس انڈے سے بچہ ہو تو وہ بچہ بھی اس مرغی کا جزو قرار پایا، اور جب مرغی خود پاک اور حلال ہے تو اس سے حاصل ہونے والے اجزاء سوائے پیشاب، پائخانہ اور خون کے وہ بھی پاک ہونگے، اس لئے جیسے فطری نظام کے تحت ہونے والے انڈے اور بچے حلال ہیں، اسی طرح یہ بھی حلال ہیں۔
(کتاب الفتاوی جلد ٤)
● فتاوی بینات جلد ٤ میں ہے:
جس شبہ کا سائل نے اظہار کیا ہے کہ *باہر ممالک میں مرغیوں کی خوراک میں خنزیر کی چربی و فضلہ کا استعمال ہوتاہے* تو یہ کئی وجوہ سے حرمت کی وجہ نہیں ہوسکتی :
1- اس وجہ سے کہ مرغیوں کی خوراک میں ان اشیاء کا استعمال قلیل مقدار میں ہوتا ہے، جبکہ دیگر اشیاء غالب ہوتی ہیں اور اعتبار غالب ہی کا ہوتا ہے۔
2- اس وجہ سے کہ مرغیوں کے نجاست کھانے کے بعد اس کی ماہیت اور حقیقت بدل جاتی ہے جس کی بناء پر حرمت کا حکم نہیں لگایا جاسکتا، البتہ اگر نجس غذا کی وجہ سے گوشت میں بدبو پیدا ہوجائے تو گوشت کا کھانا جائز نہیں ہوگا، 
کما فی الشامیة :
{تحبس الجلالة حتی یذھب نتن لحمہا وقدر بثلاثة ایام لدجاجة.... ولو أکلت النجاسة وغیرها بحیث لم ینتن لحمها حلت کما حل اکل جدی غذی بلبن خنزیر لان لحمہ لایتغیر وما غذی به یصیر مستہلکا لایبقی له اثر}
(قولہ:حلت) وعن هذا قالوا: لابأس باکل الدجاج لانه یخلط ولا یتغیر لحمه
(الدر المختارمع رد المحتار، کتاب الحظر و الاباحة:٣٤٠،٣٤٢/٦)
{لایکون نجسا.... ولاملح کان حماراً او خنزیرا ولا قذر وقع فی بئر فصار حمأۃ لانقلاب العین وبه یفتی، وفی الشامیة: لان الشرع رتب وصف النجاسة علی تلک الحقیقة وتنتفی الحقیقة بانتفاء بعض اجزاء مفہومها فکیف بالکل؟۔۔۔ ونظیرہ فی الشرع : النطفة نجسة وتصیر علقة وهی نجسة وتصیر مضغة فتطہر}
(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطهارۃ ،باب الانجاس:۱؍۳۲۵،۳۲۷۔ط: ایچ ایم سعید کراچی)
مرغی کو ذبح کرنے کے بعد چند احتیاط :
مرغی کو ذبح کرنے کے بعد اگر اس کی آلائش اور گندگی نکالنے سے پہلے کھولتے ہوئے گرم پانی میں اتنی دیر ڈال دیا جائے کہ جس سے اس کی نجاست گوشت میں سرایت کرجائے تو ایسی صورت میں مرغی کا گوشت ناپاک ہوجائے گا اور اس کا کھانا جائز نہیں ہوگا، گویا گوشت کا ناپاک ہونا دو شرطوں کے ساتھ مقید ہے :
1- پانی کا غلیان (جوش) کی حد تک گرم ہونا۔
2- مرغی کو اتنی دیر پانی میں رکھنا کہ نجاست کا اثر گوشت میں سرایت کرجائے، لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر مرغی بیچنے والے اس طرح سے مرغیاں ذبح کرتے ہیں کہ جس میں مذکورہ دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں، تو ان کا یہ عمل غیر شرعی ہوگا اور اس طریقے پر جو مرغیاں ذبح کی جائیں گی، ان کا گوشت کھانا جائز نہیں ہوگا۔ 
{قال الحصکفي: وکذا دجاجة ملقاة حالة علی الاء للنتف قبل شقہا - قال ابن عابدین: والعلةُ -اللہ اعلم- تشربها النجاسة بواسطة الغلیان، وعلیه اشتہر أن اللحم السمیط بمصر نجس، لکن العلة المذکورة لا تثبت مالم یمکث اللحم بعد الغلیان زمانا یقع فی مثلہ التشرب والدخول فی باطن اللحم- إلخ} (الدر المختار مع رد المحتار: ٥٤٤/١ ط: زکریا)
(دارالافتاء دارالعلوم دیوبند)
ناشر: دارالریان کراتشی
.........

گذشتہ دنوں دارالافتاء میں برائلر چکن کے متعلق سوال کیا گیا تھا جس میں مرغی کی غذا کے تعلق سے تشویش کا اظہار کیا گیا تھا، چنانچہ مرغی کی غذا کے بارے مکمل اور صحیح معلومات لینے کے لیے ہم نے پولٹری فارم کے مالک مولانا شمس العارفین صاحب ملی سے درخواست کی تھی، اور الحمدللہ مولانا نے مکمل معلومات حاصل کرکے ہمیں اس سے مطلع کیا، جس کے لیے ہم ان کے ممنون ہیں،
جزاھم اللہ خیرا
ذیل میں ان کی ارسال کردہ معلومات من وعن درج کی جاتی ہیں.
جس شخص سے میں نے معلومات حاصل کیں، اس نے بتایا کہ برائلر کی غذا تیار کرنے میں ان چیزوں کا استعمال ہوتا ہے.
مکئی
باجرہ
گیہوں
چاول
سویا
اور اس میں فیٹ fat بڑھانے کے لئے ہڈی کا چورا یا پاوڈر
بڑے کی چربی
اور سردی کی دوا
مہاراشٹر میں بہت ساری کمپنیاں ہیں جو یہ تیار کرتی ہیں اور جو زیادہ مشہور ہیں وہ یہ ہیں اور انھیں کا مال مالیگاؤں میں زیادہ آتا ہے
Baramati
suguna
CP
avee
vanky
anand negro
simran
khadkeshwra
jhapa
ان میں سے صرفbaramati  (شرد پوار کی) ایک ایسی کمپنی ہے جو ویج veg ہے، لیکن اس میں بھی "الانا" کمپنی جو بڑے کی بہت بڑی کمپنی ہے، اس سے ہڈی کا چورا یا پاوڈر لے کر اس میں ڈالتی ہے، باقی سب کمپنیاں خنزیر کی ہڈی اور چربی استعمال کرتی ہیں. ان میں سب سے زیادہ ان کا استعمال suguna (جئے للیتا کی کمپنی)  اور سی پی CP کمپنی کرتی ہے. اور ہمارے یہاں کی عوام  suguna کا مال ڈھونڈکر کھاتے ہیں. یہ معلومات میں نے ایک ایسے آدمی سے لی ہے جو سی پی CP میں کام کرتا ہے لیکن اس نے بھی بہت زیادہ کھل کر نہیں بتایا بلکہ ڈھکے چھپے انداز میں بتایا، لیکن اس معلومات کے باوجود مجھے ایک چیز جو کھٹک رہی ہے وہ یہ کہ خنزیر کی چربی بہت مہنگی ہوتی ہے اور اتنی مقدار میں ملنا ذرا مشکل لگ رہا ہے  اور اگر مل بھی جائے تو اتنی مہنگی چربی کمپنی استعمال کیوں کرے گی جبکہ بڑے کی چربی سستی مل جاتی ہو. مذکورہ بالا معلومات کی روشنی میں جواب لکھا جارہا ہے.

.......................................................
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق:
ایسی مرغیاں جن کی صرف نجس غذا ہی سے پرورش کی جاتی ہے اور کوئی حلال چیز اُن کی غذا میں شامل نہیں ہوتی، تو ایسی مرغیاں 'جلّالہ' کے درجہ میں ہیں، ان کا حکم یہ ہے اُن کا کھانا مکروہِ تحریمی ہے، البتہ اگر تین روز اُنہیں صرف حلال غذا کھلاکر ذبح کیا جائے، تو اسے کھانے میں کوئی کراہت نہ ہوگی. اور اگر مرغیوں کی غذا میں حرام اجزاء کے ساتھ حلال اشیاء بھی شامل ہوں، اور حلال اشیاء کی مقدار زیادہ ہو تو اُن کا کھانا بلاکراہت جائز ہے، پھر بھی اولیٰ یہ ہے کہ اُنہیں کچھ دن حلال غذا پر رکھ کر ذبح کریں. مذکورہ بالا معلومات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمارے یہاں دوسری قسم کی برائلر مرغیاں دوکانوں پر ملتی ہیں، لہٰذا اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے.
عن ابن عمر أنہ کان یحبس الدجاجۃ الجلالۃ ثلاثًا۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۵؍۱۴۸ رقم: ۲۴۶۰۸، )
و في التجنیس: إذا کان علیہا نجاسۃ تحبس الدجاجۃ ثلاثۃ أیام۔ (شامي، کراچي۶/۳۰۶، زکریا۹/۴۴۴)
إذا خلط بین أکل العذرۃ وغیرہا لیست بجلالۃ یحل أکلہ۔ أما الدجاجۃ المخلاۃ فلا بأس بأکلہا؛ لأنہا تخلط بین العذرۃ وغیرہا۔ (الولوالجیۃ، دارالإیمان سہارن پور۳/۵۶)
لا بأس بأکل الدجاجۃ؛ لأنہا تخلط ولا یتغیر لحمہ۔ (البحر الرائق، کتاب الکراہیۃ، فصل في الأکل والشرب، زکریا ۸/۳۳۵، کوئٹہ ۸/۱۸۳)
لایکرہ أکل الدجاجۃ المخلي، وإن کان یتناول النجاسۃ؛ لأنہ لایغلب علیہ أکل النجاسۃ؛ بل یخلطہا بغیرہا، وہوالحب (بدائع الصنائع، کتاب الذبائح والصیود، زکریا۴/۱۵۴، کراچي۵/۴۰)
فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی 

.................

انڈیا میں چکن کو ایسے اینٹی بایوٹک دئے جاتے ہیں جو شدید بیمار لوگوں کی آخری امید ہوتی ہے. 

Chickens in India dosed with antibiotics which is 'last hope' for critically ill
Chickens raised in India for food have been dosed with some of the strongest antibiotics -"antibiotic of last resort"- that could have repercussions throughout the world, a study by the Bureau of Investigative Journalism has found. According to reports, the antibiotics 'colistin' only used in the most extreme cases of sickness - are shipped to India each year to be used, without medical supervision.

The Bureau of Investigative Journalism study said that hundreds of tonnes of colistin, described as an antibiotic of last resort, have been shipped to India for the routine treatment of animals, mainly chickens, on farms.

"The medicines are antibiotics, given to the birds to protect them against diseases or to make them gain weight faster so more can be grown each year at greater profit. One drug typically given this way is colistin. Doctors call it the “last hope” antibiotic because it is used to treat patients who are critically ill with infections which have become resistant to nearly all other drugs.

"The World Health Organisation has called for the use of such antibiotics, which it calls “critically important to human medicine”, to be restricted in animals and banned as growth promoters. Their continued use in farming increases the chance bacteria will develop resistance to them, leaving them useless when treating patients", the study said.

"At least five animal pharmaceutical companies are openly advertising products containing colistin as growth promoters in India.

"One of these companies, Venky’s, is also a major poultry producer. Apart from selling animal medicines and creating its own chicken meals, it also supplies meat directly and indirectly to fast food chains in India such as KFC, McDonald’s, Pizza Hut and Dominos", the study said.

Timothy Walsh, a global expert on antibiotic resistance, called the Bureau’s findings about the ready availability of colistin in India “deeply worrying” and described the use of colistin in poultry farming as “complete and utter madness”.

Walsh, who is Professor of Medical Microbiology at Cardiff University, and his Chinese colleagues discovered a colistin-resistant gene in Chinese pigs in 2015. The gene, mcr-1, could be transferred within and between species of bacteria. That meant that microbes did not have to develop resistance themselves, they could become resistant just by acquiring the mcr-1 gene.

The discovery was met with worldwide panic in the medical community as it meant the resistance could be passed to bugs which are already multi-drug resistant, leading to untreatable infections. Rampant use of the drug in livestock farming has been cited as the most likely way mcr-1 was spread.

It has been detected in bacteria from animals and humans in more than 30 countries, spanning four continents. Another four colistin resistant genes (mcr-2 to mcr-5) have been discovered since. Colistin-resistant bacteria, once rare, are now widespread.

“Colistin is the last line of defence”, said Professor Walsh, who is also an adviser to the UN on antimicrobial resistance. “It is the only drug we have left to treat critically ill patients with a carbapenem-resistant infection. Giving it to chickens as feed is crazy.”

“Colistin-resistant bacteria will spread on the chicken farms, in the air surrounding them, contaminate the meat, spread to the farm workers, and through their faeces flies will spread it over large distances”, he continued.

He added: “Colistin should only be used on very sick patients. Under any other circumstances it should be thought of and treated as an environmental toxin. It should be labelled as such. It should not be exported all over the world to be used in chicken feed.”

Professor Dame Sally Davies, England’s chief medical officer, also called for a worldwide ban on the use of not just colistin but all antibiotics as growth promoters. “If we have not banned growth promotion within five years we will have failed the global community”, she told the Bureau.
http://ummid.com/news/2018/February/03.02.2018/what-chickens-are-fed-india-togain-weight.html
#.Wnc6PqR47Gg.whatsapp
Chickens in India dosed with antibiotics which is 'last hope' for critically ill





No comments:

Post a Comment