Monday 16 October 2017

زندہ اور مردہ بچوں کے کفن دفن کے احکام

زندہ اور مردہ بچوں کے کفن دفن کے احکام

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل  کے بارے میں
(۱) اگر بچہ زندہ پیدا ہوا، اور پیدا ہوتے ہی مرگیا تو اس کو غسل دیا جائیگا؟ اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائیگی یا نہیں؟
(۲) اسی طرح اگر کوئی بچہ مردہ پیدا ہوا تو اسکا کیا حکم ہے آیا اس کو غسل دیا جائیگا یا نہیں اور اسی طرح اسکی نماز جنازہ پڑھی جائیگی یا نہیں؟  اور اسی طرح اگر مردہ بچہ پیدا ہو، تو اس کو قبرستان میں دفن کرسکتے ہیں یا نہیں؟ یا قبرستان کے باہر والے حصہ میں دفن کرنا ہوگا، اگر قبرستان میں دفن کیا جائے، تو اس میں
کوئی حرج تو نہ ہوگا؟
المستفتی: عبداللہ 

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
اگر بچہ زندہ پیدا ہوا اور رونے کی آواز نکالنے کے بعد مرگیا تو اس کو غسل دیا جائے گا، نماز پڑھی جائے گی اور نام بھی رکھا جائے گا، اور باقاعدہ کفن بھی دیا جائے گا۔
أخرج الترمذي عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الطفل لا یصلی علیہ، ولا یرث ولا یورث حتی یستہل صارخاً۔ (سنن الترمذي، الجنائز / باب ما جاء في ترک الصلاۃ علی الطفل حتی یستہل ۱؍۲۰۰ رقم: ۱۰۳۷)
أخرج البیہقي عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما أنہ کان لا یصلي علی السقط حتی یستہل صارخاً۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي ۵؍۳۰۷ رقم: ۶۸۹۱)
وأخرج ابن حبان وابن ماجۃ عنہ مرفوعاً قال: إذا استہل الصبي صلي علیہ وورث۔ (صحیح ابن حبان، الفرائض / ذکر الأخبار بأن من استہل من الصبیان عند الولادۃ ۵؍۴۵۳ رقم: ۶۰۴۱، سنن ابن ماجۃ، الجنائز / باب ما جاء في الصلاۃ علی الطفل ۱؍۱۰۸ رقم: ۱۵۰۸)
وروي عن أبي حنیفۃ أنہ قال: إذا استہل المولود سمي وغسل وصلي علیہ… ویکفن۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۱۰ رقم: ۳۵۹۹ زکریا)
ومن ولد فمات یغسل ویصلي علیہ ویرث ویورث ویسمیٰ إن استہل۔ وفي الشامي: أي ویکفن۔ (شامي ۲؍۲۲۷ کراچی، شامي ۳؍۱۲۹ زکریا)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۷؍۱۲۱؍۱۴۱۴ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ

مردہ بچہ کی تدفین اور نام وغیرہ رکھنے کا حکم

اگر بچہ مردہ پیدا ہو، تو نام رکھا جائے، اور غسل دے کر، ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیا جائے، بہتر یہ ہے کہ قبرستان کے کسی کونہ میں گڑھا کھودکر دفن کردیں ــ
(۱) وإن لم يستهل أدرج في خرقة " كرامة لبني آدم "ولم يصل عليه" لما روينا. ويغسل في غير الظاهر من الرواية لأنه نفس من وجه وهو المختار".(الهداية في شرح بداية المبتدي-علي بن أبي بكر، الفرغاني المرغيناني، أبو الحسن برهان الدين (م:۵۹۳هـ):۱؍۹۱،باب الجنائز، فصل في الصلاة على الميت، ت: طلال يوسف، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)
قوله: "وإن لم يستهل" مثله ما إذا استهل فمات قبل خروج أكثره وأما الاستهلال في البطن فغير معتبر بالأولى قوله: "وإن لم يتم خلقه" فيغسل وإن لم يراع فيه السنة وبهذا يجمع بين من أثبت غسله وبين من نفاه فمن أثبته أراد الغسل في الجملة ومن نفاه أراد الغسل المراعي فيه وجه السنة والمتبادر منه أنه ظهر فيه بعض خلق وأما إذا لم يظهر فيه خلق أصلا فالظاهر أنه لا يغسل ولا يسمى لعدم حشره وحرره. (حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح- أحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي الحنفي (م:۱۲۳۱هـ)، ص: ۵۹۸، فصل السلطان أحق بصلاته، ت: محمد عبد العزيز الخالدي، ط : دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے:
الاختيار لتعليل المختار-ابن مودود الموصلي البلدحي، مجد الدين أبو الفضل الحنفي (م:۶۸۳هـ):۱؍۹۵،باب الجنائز، فصل الصلاة على الجنازة،ت: الشيخ محمود أبو دقيقة [من علماء الحنفية ومدرس بكلية أصول الدين سابقا]، ط: مطبعة الحلبي - القاهرة تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشِّلْبِيِّ- عثمان بن علي بن محجن البارعي، فخر الدين الزيلعي الحنفي (م:۷۴۳ هـ):۱؍۲۴۳، کیفیۃ= = صلاۃ الجنازۃ،ط: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق- القاهرة الجوهرة النيرة-أبو بكر بن علي بن محمد الحدادي العبادي الزَّبِيدِيّ اليمني الحنفي (م: ۸۰۰هـ):۱؍۱۱۰، باب الجنائز، قبیل باب الشھید،ط: المطبعة الخيرية٭ الفتاوی الھندیۃ:۱؍۱۵۹، کتاب الصلاۃ، الباب الحادي و العشرون في الجنائز، الفصل الثاني في غسل المیت، ط: دار الفکر- بیروت)

درج ذیل عبارت میں ہے کہ نام رکھا جائے، امام طحاوی رحمہ اللہ نے اس قول کو امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی جانب منسوب کیا ہے:
(وإن لم يستهل) غسل في المختار. هداية. و (أدرج في خرقة ولم يصل عليه) وكذا يغسل السقط الذي لم يتم خلقه في المختار، كما في الفتح والدراية، ويسمى كما ذكره الطحاوي عن أبي يوسف، كذا في التبيين.
"وإن لم يستهل غسل" وإن لم يتم خلقه "في المختار" لأنه نفس من وجه "وأدرج في خرقة"وسمي "ودفن ولم يصل عليه". (مراقي الفلاح شرح متن نور الإيضاح-حسن بن عمار بن علي الشرنبلالي المصري الحنفي (م:۱۰۶۹هـ)، ص:۲۲۲، الصلاۃ علیہ،ت: نعيم زرزور،ط: المكتبة العصرية) فتاوی فلاحیہ جلد ۳ صفحہ ۲۴۵

کتبہ: عبدالواحد مظفرنگری

2 comments:

  1. کفن کتنا دینا چاہیے یہ تو بیان کر دیتے جناب

    ReplyDelete