Tuesday 3 October 2017

چرم قربانی کی رقم میں حیلہ تملیک؟

تعمیر مدرسہ کے لئے چرم قربانی کی رقم میں حیلہ تملیک ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم،
اللہ آپ کی زندگی کو سلامت رکھے، آمین،  سوال. میری بستی میں ایک مدرسہ ہے، تعلیم القرآن. تقریبا چارسال سے بہار بورڈ سے منسلک ہے. مدرسہ کا نہ تو کوئی رسید ہے نہ ہی مطبخ. قربانی کے کھال کی رقم کے سلسلہ میں ہر سال عوام کےدرمیان کشیدگی پیدا ہوتی ہے.  کیا ایسے مدرسے میں دو بچوں کے وظيفہ كا حيلہ بناكر كهال کی رقم یا صدقہ کی رقم لے کر مدرسہ کی تعمیرو توسیع میں لگانا شرعا درست ہے یا نہیں؟ قرآن وحديث كي روشنی میں جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں،
تقی الدین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
قربانی کی کھالیں فروخت سے قبل امیر غریب سب کو ہدیہ کے طور پہ دی جاسکتی ہیں۔ لیکن فروخت کے بعد ان میں غرباء ومساکین کے حقوق وابستہ ہوجاتے ہیں۔ اب قیمت کو غرباء ومساکین پہ صدقہ کرنا واجب اور ضروری ہے۔
عام احوال میں اس رقم کو مدرسہ کی تعمیر میں صرف کرنا جائز نہیں ہے۔ اور نہ ہی بلا ضرورت شدیدہ حیلہ بہانہ کے ذریعہ (تملیک) تعمیر میں صرف کرنا جائز ہے، کیونکہ اس صورت میں صاحب حق کی حق تلفی لازم آئے گی جو شرعا ناجائز ہے۔
ہاں کوئی اقامتی مدرسہ (نہ کہ مکتب وغیرہ ) ہو۔ وہاں واقعتا طلبہ دین تعلیم حاصل کرتے ہوں۔ ان کی درسگاہوں اور اقامتی ہاسٹلوں کا خاطر خواہ کوئی نظم نہ ہو تو اس واقعی شدید ضرورت کے پیش نظر شرعی حیلہ تملیک (مستحق زکات بالغ طلبہ کو زکات یا چرم کی رقم کا مالک اور خود مختار بنادیا جائے اور پھر وہ اپنی رضاء ورغبت سے مکمل رقم یا اس میں سے کچھ پھر مدرسہ کو ہبہ کردیں)
کے ذریعہ تعمیرات میں چرم کی رقم کے استعمال کی گنجائش ہے ۔۔۔ محض شوقیہ تعمیرات کے لئے اس قسم کا حیلہ قطعی ناجائز ہے۔ الضرورة تتقدر بقدرها.
شامی میں ہے:
ویتصدق بجلدہا أو یعمل منہ نحو غربال و قربۃ … فإن بیع اللحم أو الجلد بہ أی بمستہلک أو بدراہم تصدق بثمنہ وتحتہ فی الشامیۃ: لقولہ علیہ السلام لعلیؓ: تصدق بجلالہا و خطامہا ولا تعط أجر الجزار منہا شیئا۔ (در مختار مع الشامی، کتاب الأضحیۃ، زکریا ۹/ ۴۷۵، کراچی ۶/۳۲۸، ہدایہ اشرفی ۴/۴۵۰، مجمع الأنہر، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۴/۱۷۴، مصری قدیم ۲/۵۲۱)
ولا تدفع الزکاۃ لبناء مسجد؛ لأن التملیک شرط فیہا ولم یوجد، وکذا بناء القناطر وإصلاح الطرقات وکری الأنہار والحج والجہاد، وکل ما لا تملیک فیہ، وإن أرید الصرف إلی ہٰذہ الوجوہ صرف إلی فقیر، ثم یأمر بالصرف إلیہا فیثاب المزکی والفقیر۔ (مجمع الأنہر ۱؍۲۲۲ دار إحیاء التراث بیروت)
لا یصرف إلی بناء نحو مسجد کبناء القناطر والسقایات، وإصلاح الطرقات وکری الأنہار، والحج والجہاد، وکل ما لا تملیک فیہ۔ (شامي ۳؍۲۹۱ زکریا)
أما الاحتیال لإبطال حق المسلم فإثم وعدوان ، وقال النسفی فی الکافی عن محمد بن الحسن قال: لیس من أخلاق المؤمنین الفرار من أحکام اللہ بالحیل الموصلۃ إلیٰ إبطال الحق ۔(عمدۃ القاری ، داراحیاء التراث العربي۲۴/۱۰۹، زکریا دیوبند۱۶/۲۳۹، تحت رقم الحدیث: ۶۹۵۳)
وفی التملیک إشارۃ إلیٰ أنہ لا یصرف إلیٰ مجنون وصبی غیر مراہق إلا إذا قبض لہما من یجوز لہ قبضہ کالأب والوصی وغیرہما۔ (شامی، کتاب الزکاۃ، باب المصرف ،کراچی۲/۳۴۴، زکریا۳/۲۹۱)

واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment