Saturday 29 October 2016

صحافت کے اصول

ایس اے ساگر

بعض نے نقل کیا ہے کہ افلاطون اپنے اُستاد سقراط کے پاس آیا اور کہنے لگا،
"آپ کا نوکر بازار میں کھڑے ہو کر آپ کے بارے میں غلط بیانی کر رہا تھا."
سقراط نے مسکرا کر پوچھا
"وہ کیا کہہ رہا تھا۔۔۔؟"
افلاطون نے جذباتی لہجے میں جواب دیا،
"آپ کے بارے میں کہہ رہا تھا...۔۔!"
اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی سقراط نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش کروایا اور کہا،
"تم یہ بات سنانے سے پہلے اِسے تین قسم کی کسوٹی پر پرکھو،
اس کا تجزیہ کرو، اور اس کے بعد فیصلہ کرو کیا تمھیں یہ بات مجھے بتانی چاہئے، یا نہیں."
افلاطون نے عرض کیا،
"یا استاد، تین کی کسوٹی کیا ہے؟"
1. سقراط بولا،
"کیا تمھیں یقین ہے تم مجھے جو یہ بات بتانے لگے ہو یہ بات سو فیصد سچ ہے۔۔۔؟"
افلاطون نے فوراً انکار میں سر ہلا دیا۔
سقراط نے ہنس کر کہا،
"پھر یہ بات بتانے کا تمھیں اور مجھے کیا فائدہ ہو گا؟"
اب دوسری کسوٹی کی طرف آتے ہیں۔_
2. "مجھے تم جو یہ بات بتانے لگے ہو کیا یہ اچھی بات ہے۔۔۔؟"
افلاطون نے انکار میں سر ہلا کر جواب دیا،
"جی نہیں یہ بُری بات ہے۔۔۔!"
سقراط نے مسکرا کر کہا،
"کیا تم یہ سمجھتے ہو تمھیں اپنے اُستاد کو بُری بات بتانی چاہئے۔۔؟"
افلاطون نے پھر انکار میں سر ہلا دیا۔
سقراط نے ذرا سا رک کر کہا،
3. "اور آخری کسوٹی، یہ بتاؤ یہ جو بات تم مجھے بتانے لگے ہو کیا یہ میرے لئے فائدہ مند ہے۔۔؟"
افلاطون نے انکار میں سر ہلایا اور عرض کیا،
"یا استاد! یہ بات ہرگز ہرگز آپ کے لئے فائدہ مند نہیں ہے۔۔!"
سقراط نے ہنس کر کہا،
"اگر یہ بات میرے لئے فائدہ مند نہیں، تو پھر اس کے بتانے کی کیا ضرورت ہے۔۔؟"
افلاطون پریشان ہو کر دائیں بائیں دیکھنے لگا۔
سقراط نے صحافت کے یہ تین اصول آج سے ہزاروں سال قبل وضع کر دئے تھے،
1۔ "کیا یہ بات سو فیصد درست ہے؟"
2۔ "کیا یہ بات اچھی ہے؟" اور
3۔ "کیا یہ بات سننے والے کے لیے مفید ہے؟"*
سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا آج ہمارے معاشرے میں صحافت کو بھی اِسی 3 کی کسوٹی پر پرکھنے کی بہت ضرورت نہیں ہے؟
پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک چینلس، کیا ہر طرف فضول نقطہ چینی، چغل خوری، تہمت بیانی اور گمراہ کن باتوں کا دور دورہ نہیں ہے اور ہر فرد دوسرے کے لئے زبان کے تیر چلانے کی تاک میں بیٹھا ہوا نہیں ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کی نوبت کیوں آئی؟ 
کہاں گئی پیشہ وارنہ گھسائی؟ 
معروف تجزیہ کار وسعت اللہ خان رقمطراز ہیں کہ جب اخبارات و رسائل اتنے زیادہ نہیں تھے تو جو بھی نیا لڑکا یا لڑکی صحافت کے پیشے میں قدم رکھتا اسے بہت سے تجربہ کار صحافیوں کی تربیتی معاونت میسر ہو جاتی۔ اس ماحول میں نوزائیدہ صحافی کو خبر کی زبان، تبصراتی تکنیک، رپورٹنگ کے بنیادی آداب جیسے گر سیکھنے کا موقع ملتا اور ایک آدھ برس کی ’پیشہ ورانہ گھسائی‘ کے بعد وہ دشتِ صحافت میں اڑنے کے قابل ہوجاتا۔
الیکٹرانک میڈیا کے کرتوت :
لیکن پھر صحافت میڈیا کہلانے لگی اور میڈیا ’الیکٹرونک‘ ہوگیا۔ ہر تیرے میرے کو پس منظر اور تجربہ دیکھے بغیر چینل کا لائسنس ملنے لگا تو صحافت کی بستی میں ہڑ بونگ مچنا لازمی تھا۔ نووارد اہلِ سرمایہ کو اپنی سرمایہ کاری پر فوری منافع چاہئے تھا۔ فوری منافع اشتہارات سے جڑا تھا۔ اشتہارات کمانے کا دارومدار اس پر تھا کہ کس چینل کو کتنے لوگ دیکھتے یا سنتے ہیں۔
اناڑیوں کی فوج:
چنانچہ تربیت یافتہ صحافیوں کو رجھانے کی لپا ڈکی شروع ہوگئی۔ مگر صحافیوں کی تربیت یافتہ قسم چونکہ کمیاب تھی اور چینلز کی بھوک کہیں زیادہ۔ لہٰذا منڈی میں سے ہر طرح کا مال اٹھایا جانے لگا اور وہ بھی اچھے پیسوں پر۔ یہاں تلک بھی ٹھیک تھا۔ جنگ کا اصول ہے کہ جب باقاعدہ فوج کم پڑنے لگتی ہے تو پھر ہر وہ شخص جو بظاہر صحت مند دکھائی دے اسے دو تین ہفتے کی تربیت دے کر بندوق تھما محاذ جنگ پر بھیج دیا جاتا ہے۔ چینلوں میں بھی یہی جنگی فارمولا استعمال ہونے لگا اور جو جاذبِ نگاہ چہرہ، جو چرب زبان، جو دبنگ شخصیت کا مالک، جو چلتا پرزہ جوڑ توڑیا، جو زیادہ چیخنے والا دستیاب ہوا اسے ایک مختصر تعارفی تربیت سے مسلح کر کے کیمرے کے آگے بٹھایا گیا، کیمرے کے پیچھے کھڑا کیا گیا یا پھر خبر کے تعاقب میں مائیکروفون کی تلوار تھما کے روانہ کر دیا گیا۔
معیارگرنے کا سبب:
خبر لاؤ، بھلے کسی کے گھر میں کودو، کسی دفتر میں بغیر اپائنٹمنٹ گھسو، ہوٹل کے کمروں کے دروازے توڑو، خبر نہیں تو ایجاد کرو، اصل کردار نہ ملے تو ایکٹر استعمال کرو، کرین پے جھول جاؤ یا دھماکے کی جگہ اہم ثبوت بچانے کے لئے لگائی حفاظتی پٹی پھاندو، ملبے میں پھنسے زخمی سے پوچھو اس وقت آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں، ریپ وکٹم کو جھما جھم اسٹوڈیو میں لاؤ اور اس کی راہ میں ماتم بچھائے چلے جاؤ۔ میت کے سامنے کھڑے ہو کر بیپر دینا بھی جائز ہے اور خالی قبر میں لیٹ کر لائیو رپورٹنگ بھی حلال۔ کچھ بھی کرو مگر خبر لاؤ، اچھوتی، ایکسکلیوسیو، سنسنی خیز، دھماکے دار خبر۔ تمہاری تنخواہ چینل کی ریٹنگ سے جڑی ہے۔ نو ریٹنگ نو سیلری ۔۔۔
جھوٹ سچ طے کرنے یا خبر کے سب کرداروں سے رابطے کا وقت نہیں، سٹوری لکھنے اور ایڈٹ کرنے کا ٹائم نہیں۔ بس فوراً، کسی بھی قیمت پر بریکنگ نیوز پیدا کرو۔ تصدیق و تصیح و تردید بعد میں ہوتی رہے گی۔
نیا آئین صحافت :
چنانچہ بھارت ہو کہ پاکستان، صحافت انفوٹینمنٹ سے گزر کر دیکھتے ہی دیکھتے کمیلے میں بدل گئی۔ جانور لاؤ، لٹاؤ، چھری پھیرو، گوشت بیچو۔ افرادی قوت کی تربیت پر زیرو سرمایہ کاری کئے بغیر زیادہ سے زیادہ مال، اثر و رسوخ اور دبدبہ کیسے پیدا کیا جائے۔ یہ ہے نیا آئینِ صحافت۔ چنانچہ رپورٹر اب وہ گئو رکھشک بن چکا ہے جو ہر ٹرک روک روک کے دیکھتا ہے کہ کہیں گئو ماتا تو اسمگل نہیں ہو رہی۔ ٹی وی چینل اور پیلے ایوننگر میں کون زیادہ زرد ہے کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ اور اس ماحول میں کسی ایک دن جب ایک خاتون چینل رپورٹر کو ایک باوردی سنتری تھپڑ مار دیتا ہے تو آزادیِ صحافت خطرے میں پڑ جاتی ہے اور عورت پر ہاتھ اٹھانے کی بحث شروع ہو جاتی ہے۔
سرجیکل اسٹرائک :
کیا آپ نے کبھی سنا کہ اگلے مورچے پر لڑتی کوئی خاتون سارجنٹ دشمن کی گولی سے زخمی ہوگئی ہو اور یہ شور مچ گیا ہو کہ یہ کیسا بزدل دشمن ہے جو عورت پر گولی چلاتا ہے۔ جب صحافت ایک سرجیکل اسٹرائیک میں، قلم خنجر میں، مائیکرو فون بندوق میں، کیمرہ مشین گن میں اور رپورٹر کمانڈو میں بدل دیا جائے تو پھر رپورٹر عورت ہے یا مرد کیا فرق پڑتا ہے۔ سامنے والے سے بنیادی اخلاقیات کی توقع تب تک جائز ہے جب تک آپ بنیادی پیشہ ورانہ اخلاقیات پر قائم رہیں۔ بصورتِ دیگر آپ احتجاج نہیں کر سکتے کہ میں نے تو صرف ایک تھپڑ مارا تھا سامنے والے نے جواب میں دو گھونسے کیوں جڑ دیے۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
اب کیا کریں ؟ 
کرنے کا کام یہ ہے کہ صحافتی مالکان پیشہ ورانہ تربیت و اخلاقیات پر بھی کچھ رقم اور وقت خرچ کریں۔ تاکہ صحافت، صحافت رہے۔ مگر صحافت کو میڈیا انڈسٹری کہنے والے بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کرنے لگے؟ انڈسٹری میں تو صنعتی حادثات ہوتے ہی رہتے ہیں۔

کلمتہ حق یرید بہ الباطل:
کرائے کا سانڈ پر وضاحت علامہ محمود دریابادی تین طلاق، حلالہ وغیرہ کے سلسلے میں بعض اہل قلم اپنی انشا پردازی کی پوری مہارت بلکہ کاریگری کا کچھ ایسا استعمال کرتے ہیں کہ بظاہر تائید کرتے ہوئے بھی بین السطور میں تردید نظر آتی ہے. ایسے موقع پرعربی کا مقولہ ..کلمتہ حق یرید بہ الباطل..یاد آجاتا ہے.
طلاق وحلالہ کے سلسلے میں رضی الاسلام ندوی کی تحریر سے بھی کچھ ایسی ہی کاریگری جھلکتی ہے. آج کل باقاعدہ سروے ہوچکا پے مسلمانوں میں طلاق کی شرح دیگر اقوام سے بہت کم ہے..رضی الاسلام صاحب ذرا گرد وپیش نظر ڈال کر بتائیں کہ ان طلاقوں میں جس طرح کے حلالہ کا ذکر کیا جاتا ہے اس کی شرح کتنی ہے.؟میں پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ ایک ہزار شادیوں میں اگر ایک طلاق ہوتی ہے تو ایک ہزار طلاق میں بمشکل ایک حلالہ مذموم حلالہ ہوتا ہوگا. اس طرح تقریبا دس لاکھ شادیوں میں ایک کا اوسط پڑتا ہے....
اس کے باوجود تمام دشمنان اسلام اور کچھ ہمارے نادان یا جدیدیت سے مرعوب افراد ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ اس وقت مسلمانوں ہی کا نہیں بلکہ پورے عالم کا سلگتا ہوا مسئلہ اگر کوئی ہے تو وہ تین طلاق اور حلالہ ہے.....
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف.
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی.

No comments:

Post a Comment