Tuesday 25 October 2016

شام؛ حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کا وطن ثانی

ایس اے ساگر

شام کا ذکر آتے ہی فضائل کی تعلیم سننے والوں کے ذہنوں میں حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کا واقعہ تازہ ہوجاتا ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد صدمہ سے بے حال آپ رضی اللہ عنہ مدینہ کی گلیوں میں یہ کہتے پھرتے کہ لوگو، تم نے کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے تو مجھے بھی دکھا دو، پھر کہنے لگے کہ اب مدینے میں میرا رہنا دشوار ہے، اور مکہ اور مدینہ کے بعد سب سے متبرک خطہ بلادِ شام کے شہر حلب میں چلے گئے۔ تقریباً چھ ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے :
ما هذه الجفوة، يا بلال! ما آن لک أن تزورنا؟
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 308
’’اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ (تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا)، کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا؟‘‘
خواب سے بیدار ہوتے ہی اونٹنی پر سوار ہو کر لبیک! یا سیدی یا رسول اﷲ! کہتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے مسجدِ نبوی پہنچ کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی نگاہوں نے عالمِ وارفتگی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ کبھی مسجد میں تلاش کرتے اور کبھی حجروں میں، جب کہیں نہ پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا تھا کہ آکر مل جاؤ، غلام حلب سے بہرِ ملاقات حاضر ہوا ہے۔ یہ کہا اور بے ہوش ہو کر مزارِ پُر انوار کے پاس گر پڑے، کافی دیر بعد ہوش آیا۔ اتنے میں سارے مدینے میں یہ خبر پھیل گئی کہ مؤذنِ رسول حضرت بلال رضی اللہ عنہ آگئے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے بوڑھے، جوان، مرد، عورتیں اور بچے اکٹھے ہو کر عرض کرنے لگے کہ بلال! ایک دفعہ وہ اذان سنا دو جو محبوبِ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں سناتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں معذرت خواہ ہوں کیونکہ میں جب اذان پڑھتا تھا تو اشہد ان محمداً رسول اﷲ کہتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا تھا۔ اب یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے کسے دیکھوں گا؟
بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما سے سفارش کروائی جائے، جب وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے لیے کہیں گے تو وہ انکار نہ کرسکیں گے۔ چنانچہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :
يا بلال! نشتهی نسمع أذانک الذی کنت تؤذن لرسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فی المسجد.
سبکی، شفاء السقام : 239
هيتمی، الجوهر المنظم : 27
’’اے بلال! ہم آج آپ سے وہی اذان سننا چاہتے ہیں جو آپ (ہمارے ناناجان) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مسجد میں سناتے تھے۔‘‘
اب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو انکار کا یارا نہ تھا، لہٰذا اسی مقام پر کھڑے ہوکر اذان دی جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات میں دیا کرتے تھے۔ بعد کی کیفیات کا حال کتبِ سیر میں یوں بیان ہوا ہے :
ذهبي، سير أعلام النبلاء، 1 : 2358
سبکي، شفاء السقام : 340
حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 308
’’جب آپ رضی اللہ عنہ نے (بآوازِ بلند) اﷲ اکبر اﷲ اکبر کہا، مدینہ منورہ گونج اٹھا (آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے جذبات میں اضافہ ہوتا چلا گیا)، جب اشھد ان لا الہ الا اﷲ کے کلمات ادا کئے گونج میں مزید اضافہ ہو گیا، جب اشھد ان محمداً رسول اﷲ کے کلمات پر پہنچے تو تمام لوگ حتی کہ پردہ نشین خواتین بھی گھروں سے باہر نکل آئیں (رقت و گریہ زاری کا عجیب منظر تھا) لوگوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد مدینہ منورہ میں اس دن سے زیادہ رونے والے مرد و زن نہیں دیکھے گئے۔
️قرآن مجید و احادیثِ رسولؐ کی روشنی میں
 اسلام کا مرکز
ابو تراب ندوی رقمطراز ہیں کہ ملک شام دنیا کا واحد ایسا خطہ ہے جو تینوں آسمانی مذاہب یہودیت، عیسائیت اور اسلام کا مرکز اور ان تینوں کے نزدیک یکساں طور پر محترم اور متبرک ہے۔ اردو میں جسے ہم ملک ’شام‘ کہتے ہیں آج دنیا اسے ’سیریا‘ Syria کے نام سے جانتی ہے۔
عرب اور اسلامی تاریخ میں جسے ملک شام کہا جاتا ہے وہ موجودہ چار ممالک فلسطین، اردن، لبنان اور موجودہ سیریا کا متحدہ علاقہ ہوا کرتا تھا، ملک شام کا یہ شیرازہ پہلی عالمی جنگ کے فوراً بعد صلیبی طاقتوں برطانیہ England اور فرانس نے پارہ پارہ کر دیا۔
محل وقوع کے اعتبار سے شام دنیا کے بہت ہی اہم اسٹراٹیجک خطوں میں شمار ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی مغرب و مشرق کی تہذیبی اور تجارتی راہ داری کے طور پر اسے بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں دنیا کی بڑی بڑی انسانی تہذیبیں اس سر زمین پر پروان چڑھیں۔ یونان و روما سے لیکر عرب کی عہد ساز تہذیبوں نے یہاں اپنے دیرپا نقوش چھوڑے۔ اس ملک کا چپہ چپہ قدیم انسانی تہذیب و تمدن کی نادر یادگاروں سے بھرا پڑا ہے، یہی وجہ ہے کہ مورخین اس ملک کو تاریخ عالم کا دروازہ کہتے ہیں۔
قرآن کریم میں شام کا مقام: دنیا کے نقشہ پر خطہ ازل سے ہی اہم مانا گیا ہے، اس پورے خطہ میں سب سے مقدس مسجد اقصیٰ اور فلسطین کا علاقہ ہے اور دوسرا موجودہ سیریا کی راجدھانی دمشق۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں سر زمین شام کے مغرب و مشرق کو بابرکت کہا ہے۔ سورہ اعراف، آیت 138 میں ارشاد ہوتا ہے: ’’اور ان کی جگہ ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور بناکر رکھے گئے تھے وارث بنا دیا، اس سر زمین کے مشرق و مغرب کا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا ہے۔ اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تمہارے رب کا وعدہ خیر پورا ہوا کیونکہ انھوں نے صبر سے کام لیا تھا۔ (۱)
ابن کثیر آیت کریمہ کے اس حصہ کی ’’اس سر زمین کے مشرق و مغرب کا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا ہے‘‘ تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں: حسن بصریؒ اور قتادہ کے نزدیک روئے زمین کا وہ حصہ جس کے مشرق و مغرب سب بابرکت بنائے گئے ہیں سے مراد ’شام‘ ہے۔ (۲)
سورہ اسراء میں ارشاد ہوتا ہے: ’’پاک ہے وہ ذات جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی، جس کے قرب و جوار کے علاقہ کو ہم نے بابرکت بنایا ہے‘‘۔ (۳)
قرآن کریم نے اسراء و معراج کے اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے بیت المقدس اور اس کے گرد و نواح کے علاقہ کو بابرکت کہا ہے۔
یہی سر زمین ابراہیم و لوط علیہما السلام کی منزل ہجرت تھی، سورہ انبیاء میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’انھوں نے ابراہیم کے خلاف سازش کی تو ہم نے انھیں بری طرح ناکام کر دیا، اور ہم اسے اور لوط کو بچا کر لے گئے، اس سر زمین کی طرف جس میں ہم نے دنیا والوں کیلئے برکتیں رکھی ہیں‘‘۔ (۱)
ابن کثیر بیان کرتے ہیں: ’’اللہ تبارک و تعالیٰ ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ اللہ نے انھیں اپنی قوم کی آگ سے بچالیا اور انھیں ان کے بیچ سے نکال کر شام کو ہجرت کرایا، اس کی مقدس سر زمین کی طرف‘‘۔
حضرت ابی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ ’’الی الا رض التی بارکنا فیہا للعالمین‘‘ (اس سر زمین کی طرف جس میں ہم نے دنیا والوں کیلئے برکتیں رکھی ہیں، سے مراد شام ہے)۔ (۲)
سورہ ’’التین‘‘ کی ابتدائی تین آیتوں پر نظر ڈالئے: وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنَ (۱) وَ طُوْرِ سِیْنِیْنَ (۲) وَ ہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْن(۳)۔
قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور طور سینا کی اور اس پر امن شہر (مکہ) کی۔ علماء و مفسرین کے ایک طبقہ کے نزدیک ’’التین‘‘ (انجیر) سے مراد دمشق (شام کی راجدھانی) ہے اور ’’الزیتون‘‘ سے بیت المقدس، اس لئے کہ دمشق ’انجیر‘ کیلئے جانا جاتا ہے تو بیت المقدس ’زیتون‘ کیلئے مشہور ہے۔ ان دونوں پھلوں سے دو مقامات کی طرف اشارہ اس سے اگلی آیت میں واضح ہے، جس میں دیگر دو مقامات کا ذکر آتا ہے، وہ ہیں طور سینا جہاں موسیٰ علیہ السلام کو نبوت ملی اور بلد الامین ’’مکہ‘‘ جو قبلہ اسلام ہے۔ (۳)
اس خطہ کی تاریخ جلیل القدر انبیائے کرامؑ کی سیرت سے مربوط ہے جن میں اسحق، ایوب، ذوالکفل، داؤد، سلیمان، زکریا، یحییٰ اور عیسیٰ علیہم السلام جیسے جیسے جلیل القدر انبیائے کرامؑ کے نام شامل ہیں۔
احادیث صحیحہ میں شام کی فضیلت: قرآن کریم کی متعدد آیات کے ساتھ ساتھ مختلف احادیث صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کرۂ ارضی پر مکہ و مدینہ کے بعد سب سے زیادہ فضیلت اللہ نے اسی خطہ کو بخشی ہے۔ حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’شام کی سعادت کا کیا کہنا، آپؐ نے یہ جملہ تین بار دہرایا، صحابہ کرامؓ نے پوچھا: وہ کیونکر یا رسولؐ اللہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رحمت کے فرشتوں نے شام پر اپنے پَر و بازو پھیلا رکھے ہیں۔
عبداللہ بن حوالہ ازدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (آخری زمانہ میں) تمہاری مختلف فوجیں ہوں گی، ایک شام میں، ایک عراق میں اور ایک یمن میں، تو حضرت عبداللہ نے پوچھا: یا رسولؐ اللہ ! مجھے کس فوج کو اختیار کرنا چاہئے؟ آپؐ نے فرمایا کہ تم لوگ شام کی فوج میں شامل ہونا اور جو یہ نہ کرسکے تو وہ یمن کی فوج سے جاملے اور ان کے چشموں کا پانی پئے (ن کے ساتھ بود و باش اختیار کرے)، ویسے اللہ نے میرے لئے (یعنی دین اسلام کیلئے) اہل شام (کے اخلاص و وفا) کی گارنٹی دی ہے‘‘۔
ابو داؤد اور احمد کی روایت میں صحیح سند کے ساتھ یہ اضافہ کیا ہے: ’’تم شام کی فوج میں شامل ہوجانا، اس لئے کہ شام اللہ کی اس روئے زمین کا بہترین ٹکڑا ہے، جہاں اللہ کے نیک بندے سمٹ کر جمع ہوجائیں گے۔ ربیعہ کہتے ہیں کہ ابو ادریس نے اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے کہاکہ ’’اللہ نے جس کی گارنٹی دی ہو، وہ ضائع نہیں ہوسکتا‘‘۔ العزا بن عبدالسلام کہتے ہیں کہ ’’یہ گواہی ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شام اور اہالیانِ شام کے شرف و فضیلت اور اس خطہ میں جاکر بسنے پر‘‘۔
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’یعنی قیامت سے پہلے لوگ اسی ملک میں جمع ہونے کی کوشش کریں گے یا مجبور کریں گے۔ اہل ایمان اس لئے کہ یہی سر زمین حق و باطل کے بیچ معرکہ آرائی کی رزمگاہ ہوگی اور اہل باطل حضرموت کی آگ کی وجہ سے جو قیامت سے قبل نمودار ہوگی اور لوگوں کا پیچھا کرے گی، یہاں تک کہ لوگ صرف شام کی طرف ہی جائے پناہ پائیں گے‘‘ جیسا کہ دیگر روایات سے پتہ چلتا ہے۔
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی ایک مشہور روایت ہے کہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’میں نے خواب دیکھا کہ فرشتے عمود الکتاب (یعنی ایمان) کو میرے تکیہ کے نیچے سے نکال کر لے گئے اور اسے شام میں ڈال دیا، جب فتنوں کا ظہور ہوگا تو ایسے وقت میں ایمان شام میں ہوگا‘‘۔
علماء کہتے ہیں کہ جب فتنے سر اٹھائیں گے اور مسلمان ان فتنوں کا شکار ہونے لگیں گے تو اہل شام حقیقی ایمان پر قائم ہوں گے، اس مضمون کی ایک دوسری حدیث میں آتا ہے: ’’اگر اہل شام بگڑ گئے تو پھر تم میں کوئی خیر باقی نہ رہے گا۔ وہاں ہمیشہ ہی ایک گروپ برسرپیکار رہے گا، اللہ کی فتح و نصرت ان کے ساتھ ہوگی، انھیں کسی کی پروا نہ ہوگی کہ انھیں کون رسوا کرتا ہے، یہاں تک کہ قیامت برپا ہوگی‘‘۔
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ علاقہ اسلام مخالف طاقتوں کا خاص نشانہ ہوگا (جیسا کہ صلیبی جنگوں میں ہوا) وہیں یہ علاقہ ہمیشہ ہی عالم اسلامی کی قیادت اور صحیح رہنمائی کا فرض بھی انجام دے گا۔ یہاں مسلمانوں کی ثبات قدمی، ایمان کی حفاظت کیلئے جاں نثاری اور اس کیلئے جان و مال کی قربانی پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے مشعل راہ ہوگی۔
اخیر زمانہ میں عظیم حادثات کا مرکز: احادیث صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اخیر زمانہ کے عظیم حادثات کا مرکز شام ہی ہوگا۔ متعدد راویوں اور احادیث کی مستند کتابوں کی مشہور روایت ’’ملحمہ کبری‘‘ جنگ عظیم (۱) سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اخیر زمانہ میں شام ہی اسلام کا مرکز و قلعہ ہوگا، جیسا کہ وہ ابتدا میں مرکز توحید اور مسکن انبیاء تھا۔ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنگ عظیم کے دن مسلمانوں کا ہیڈ کوارٹر غوطہ (۲) میں ہوگا، ایک شہر کے پاس جو دمشق کے نام سے مشہور ہے، جو شام کے بہترین شہروں میں ہے۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے: ’’جنگ عظیم کے دن مسلمانوں کا ہیڈ کوارٹر ایک ایسی سر زمین پر ہوگا جسے ’غوطہ‘ کہا جاتا ہے، اس میں ایک شہر ہے جو دمشق کے نام سے معروف ہے، اس دن وہ مسلمانوں کی بہترین منزل ہوگا۔
(۱) اس جنگ کا تذکرہ بائبل میں بھی آتا ہے۔ عیسائی اس جنگ کو Armageddon یا Hamragedon کے نام سے جانتے ہیں۔ آج کل مغربی ممالک میں اس جنگ کے بارے میں بہت سی باتیں لکھی جا رہی ہیں اور اس موضوع پر فلمیں بھی بن رہی ہیں۔
(۲) ابو داؤد، حاکم، احمد، یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ یہ روایت شامیوں اور رومیوں (یورپ) کی جنگوں کے بارے میں سب سے اعلیٰ درجہ کی صحیح روایت ہے، تخریج احادیث فضائل الشام و دمشق۔ البانی۔
(۳) غوطہ پھل دار درختوں اور میٹھے پانی والا وہ ہرا بھرا علاقہ ہے جو دمشق کو پورب، پچھم اور دکھن سے میلوں چوڑائی میں گھیرتا ہے، دنیا کی انتہائی زرخیز زمینوں میں اس کا شمار ہوتا ہے، زمانہ قدیم میں اسے دنیا کے عجائبات میں شمار کیا جاتا ہے۔
اس جنگ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ عظیم قرار دیا ہے۔ یہ جنگ قرب قیامت کی علامات میں سے ہے۔ زمانہ اخیر میں ایک وقت آئے گا جب مغربی طاقتیں 80 جھنڈوں کے تحت مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں گی۔ ہر جھنڈے کے تحت بارہ ہزار فوج ہوگی؛ یعنی اس وقت عیسائی فوج کی کل تعداد تقریباً ایک ملین ہوگی۔ (یاد رہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے خلاف بھی 12 یورپی ملکوں کی فوجوں نے مل کر مشترکہ حملہ کیا تھا۔ اس میں ان کے بڑے بڑے بادشاہوں نے بنفس نفیس شرکت کی تھی۔ یہ کہانی ایک بار پھر بڑے پیمانہ پر قرب قیامت سے پہلے دہرائی جائے گی)۔
٭ اس جنگ میں گھمسان کا رن پڑے گا اور بالآخر مسلمانوں کو فتح حاصل ہوگی۔
٭ اس جنگ کے بعد ہی دجال کا ظہور ہوگا۔
٭ عیسیٰ علیہ السلام دمشق کے ایک سفید منارہ کے پاس نازل ہوں گے۔
٭ وہیں مہدی علیہ السلام بھی موجود ہوں گے اور عیسیٰ علیہ السلام ان کی امامت میں نماز پڑھیں گے۔
ان سارے عظیم حادثات کا اسٹیج اور اسلام کا ہیڈ کوارٹر ہونے کا شرف اگر کسی خطہ کو حاصل ہے تو وہ سر زمین شام ہی ہے۔ اس حدیث مبارکہ میں ایک اور بڑی حقیقت کی طرف واضح اشارہ پایا جاتا ہے کہ 1096ء سے شروع ہونے والے وہ صلیبی حملے جو (1291ء) مسلسل دو سو سال تک عالم اسلام پر جھوٹے مذہبی جنون میں کئے گئے، جس میں اخلاق و انسانیت کی ساری حدیں پامال کر دی گئیں۔ ایک بار پھر ان صلیبی حملوں کی اعلانیہ شروعات پہلی عالمی جنگ (1914-1918ء) کے دوران برطانیہ و دیگر یورپی ممالک کے ذریعہ کی گئی اور 9 دسمبر 1917ء کو برطانوی کمانڈر ’ایڈمونڈایلنبی‘ نے بیت المقدس میں غاصبانہ طور پر داخل ہوتے ہوئے طاقت کے نشہ میں اپنا وہ مشہور جملہ کہا ’’آج صلیبی جنگیں مکمل ہوگئیں‘‘۔
وہ صلیبی جنگیں ابھی نہ تو ختم ہوئی ہیں اور نہ ہی مکمل۔ وہ یقینا اسی سر زمین پر ختم ہوں گی جہاں سے شروع ہوئی تھیں اور حبیب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اس دن مسلمان ہی ان جنگوں کو انجام تک پہنچائیں گے۔ صلیب سرنگوں ہوگا اور صلیبی ذلیل و خوار ہوں گے۔ حق و باطل کی اس کشمکش میں حق کی حتمی جیت اس دنیا کے اختتام سے پہلے ہوگی، اسی لئے اسے قرب قیامت یعنی دنیا کی انتہا کی علامتوں میں سے ایک علامت قرار دیا گیا ہے۔
مولانا طارق جمیل صاحب دامت برکاتہم اپنے ایک بیان میں فرماتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ دفن شام میں ہوئے ہیں لیکن جب روز قیامت نبی کریم صلی علیہ وسلم کے قدموں سے اٹھیں گے ....

No comments:

Post a Comment