Wednesday 19 October 2016

ایک گھڑی کا انصاف

ایس اے ساگر

ایک گھڑی کا انصاف ہزار برس کی عبادت سے افضل ہے. دنیا بھر میں ایک طرف ناانصافیاں اور  بدامنی پنپ رہی ہے تو دوسری جانب سعودی عرب میں قانون کی بالادستی کی روشن مثال بھی قائم ہوئی ہے. ڈاکٹرطارق ایوبی ندوی رقمطراز ہیں کہ "اسلام ایک مکمل دین ہے، اس کی حکومت خلوتوں پر بھی ہے اور جلوتوں پر بھی، انسانی زندگی کا کوئی حال اس سے خالی نہیں کہ اس میں اسلام کی رہنمائی نہ ملتی ہو، شرعی قوانین اس کی رہنمائی کے لئے موجود نہ ہوں، یہ ہماری کمزوری ہے کہ ہم نے شریعت کو پس پشت ڈال دیا، ظاہر ہے کہ ہم ہندوستان جیسے دار العہد میں رہتے ہیں، یہاں کی اپنی مجبوریاں ہیں، فقہی طور پر بہت سی گنجائشیں موجود ہیں" ، لیکن سعودی عرب میں صورتحال قطعی مختلف ہے

کیا ہے راز؟

6:59 م - 18 أكتوبر 2016 الحادث وقع نتيجة مشاجرة 'الداخلية' تنفذ حكم القصاص بحقالأمير تركي بن سعود الكبير في الرياضالرياض، الوئام - واس، أصدرت وزارة الداخلية اليوم بيانًا حول تنفيذ حكم القتل قصاصاً بأحد الجناة فيما يلي نصه :ـقال الله تعالى )يا أيها الذين آمنوا كتب عليكم القصاص في القتلى ( الآية .وقال تعالى ) ولكم في القصاص حياة يا أولي الألباب لعلكم تتقون ( .أقدم تركي بن سعود بن تركي بن سعود الكبير ـ سعودي الجنسية ـ على قتل عادل بن سليمان بن عبدالكريم المحيميد سعودي الجنسية وذلك بإطلاق النار عليه على إثر مشاجرة جماعية .وبفضل من الله تمكنت سلطات الأمن من القبض على الجاني المذكور وأسفر التحقيق معه عن توجيه الاتهام إليه بارتكاب جريمته وبإحالته الى المحكمة العامة وصدر بحقه صك يقضي بثبوت ما نسب إليه والحكم عليه بالقتل قصاصاً , وأُيد ذلك من محكمة الاستئناف ومن المحكمة العليا , وصدر أمر ملكي بإنفاذ ماتقرر شرعاً وأُيد من مرجعه بحقالجاني المذكور .وقد تم تنفيذ حكم القتل قصاصاً بالجاني تركي بن سعود بن تركي بن سعود الكبيرسعودي الجنسيه اليوم الثلاثاء الموافق 17 /1/ 1438هـ بمدينة الرياض بمنطقة الرياض .ووزارة الداخلية إذ تعلن عن ذلك لتؤكد للجميع حرص حكومة خادم الحرمين الشريفين ـ حفظه الله ـ على استتباب الأمن وتحقيق العدل وتنفيذ أحكام الله في كل من يتعدى على الآمنين ويسفك دماءهم وتحذر في الوقت ذاته كل من تسول له نفسه الإقدام على مثل ذلك بأن العقاب الشرعي سيكون مصيره .والله الهادي الى سواء السبيل .رابط الخبر بصحيفة الوئام:“الداخلية” تنفذ حكم القصاص بحق الأمير تركي بن سعود الكبير في الرياض

عدل و انصاف کی مثال:

ایک سعودی کو قتل کرنے کے جرم میں اپنے ہی بھتیجے ترکی بن سعود الکبیر کو قصاصا قتل کروا دیا۔ جبکہ تین سال قبل شہزادہ ترکی بن سعود کی گولی سے ان کا دوست عادل المحیمید قتل ہو گیا اور عدالت نے شہزادے کو قصاصا قتل کرنے کے احکام جاری کر دیے، اور معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا، مقتول کے ورثاء دیت لینے پر رضا مند نہیں تھے، حالانکہ مقتول کے ورثاء کو شاہی خاندان کی طرف سے بہت بڑی بڑی پیشکشیں کی گئیں تھیں لیکن مقتول کے ورثاء نے سب کو جوتے کی نوک پر ٹھکرا دیا، اس پر سپریم کورٹ نے قصاصا قتل کے فیصلے پر تصدیق کر دی اور آج 18 اکتوبر 2016 کو شہزادہ ترکی بن سعود کو قتل کر دیا گیا۔ شاہ سلمان کے اس فیصلے پر سعودی معاشرے میں بالخصوص اور دیگر مسلمانوں میں بالعموم خوشی کا اظہار کیا گیا ہے کہ مملکت سعودی عرب میں اللہ کی حدود اور اسلامی قانون سے کوئی بھی مستثنی نہیں ہے، چاہے اس کا تعلق شاہی خاندان سے ہی کیوں نہ ہو۔ واضح رہے کہ شاہ سلمان نے گزشتہ برس جدہ میں منعقد ہونے والی اینٹی کرپشن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی بھی شخص میرے یا میرے خاندان کے کسی بھی فرد کے خلاف دعوی دائر کر سکتا ہے۔v

#شاہ_سلمان
خبر کی تصدیق کیلیے لنک:
https://goo.gl/e5dm1P

کتاب و سنت پر عمل :

کتاب وسنت پر عمل یقینا امن اماں کا ضامن ہے. ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی رقمطراز ہیں کہ " ذرا غور کیجئے کہ قرآن مجید کے کتنے حصے پر ہم عمل پیرا ہیں اور کتنے حصے پر نہیں، کیا قرآن مجید کے جس قدر حصےپر اور اس کی جتنی تعلیمات پر ہم عمل کر سکتے ہیں اس پر ہمارا عمل ہے، پھر ذرا بلاد اسلامیہ میں موجود طاغوت کے مظاہر پر نظر ڈالیے، تباہی کے مناظر پر غور کیجئے اور بتائیے کہ کیا طاغوت کی حکمرانی اور طاغوتی قانون کی بالا دستی کے ساتھ ان کتنم مومنین کی شرط پوری ہو رہی ہے، جب یہ شرط ہی نہیں پوری ہوگی تو
وانتم الاعلون کا وعدہ کس طرح اور کیوں کر پورا ہوگا، عملی انحرافات کی مثالیں توصاف نظر آتی ہیں،
کہیں بالقصد، کہیں مجبوری اس کا سبب ہے، لیکن اب تو فکری انحراف بھی بالکل صاف نظر آتا ہے، اسلامی تعلیمات کا بڑا حصہ لوگوں کے ذہن سے غائب ہے، کہیں احساس کمتری، کہیں مرعوبیت اور کہیں طاغوتی قانون کی بالا دستی اس کا سبب ہے۔

آج ہمارا معاشرہ مکمل طور پر غیر اسلامی رنگ میں رنگا ہوا ہے، شادی بیاہ سے لے کر نکاح وطلاق اور معاشرت ومعاملات میں غیر شرعی رسوم ورواج کا دور دورہ ہے، ہمارے باہمی معاملات آپسی تنازعات سے عدالتیں پٹی پڑی ہیں،
وہ عدالتیں جہاں خدا کا قانون نہیں چلتا، بلکہ وہ خدائی قانون سے واقف بھی نہیں اور خدا کے قانون کی منکر بھی ہیں، اس صورت میں مسلمانوں کا ان عدالتوں میں فیصلے لے جانا کیوں کر درست ہو سکتا ہے،
چہ جائیکہ خالص مذہبی اور ملی مسائل پردیندار لوگ ان طاغوتی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائیں، یقینا یہ عذر پیش کیا جاسکتا ہے کہ ہم ہندوستان میں ہیں،
یہاں اسلامی حکومت نہیں، تو قانون و فیصلہ کے نفاذ کی ذمہ داری کس کی ہوگی، دو فریق جو مسلمان ہوں انہیں اس قدر باشعور ہونا چاہیے، اور بنانا چاہیے کہ وہ اپنے ہر تنازعہ اور قضیہ میں خواہ قضیہ عقیدہ، معاشرت، معاملات کسی بھی شعبہءزندگی سے بھی متعلق ہو،
”فیما شجر بینھم“ میں سب داخل ہیں، شریعت سے رجوع کریں اور شریعت کے فیصلہ کو تسلیم کریں، اگر ایسا نہیں ہے تو ہندوستان جیسے ممالک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں اور حکومت اسلامی نہ ہو،
ہاں اس بات کا جواز ہے کہ دنیا کی طاغوتی عدالتوں میں بغرض انصاف جایا جائے،
لیکن واقعہ یہ ہے کہ اکثر ان عدالتوں میں جانے کابڑا سبب یہ ہے کہ لوگ اپنی غلطی کو جانتے ہوئے محض اس لیے جاتے ہیں کہ وہاں سے کسی طرح ناحق فیصلے حاصل کیے جائیں، منافقین کی یہ عام روش بیان کی گئی ہے کہ جس مقدمہ میں ان کو خدشہ ہوتا کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوگا اسے لے کر وہ محمد ﷺ کے پاس جاتے اور جس مسئلہ میں انہیں اپنے ناحق ہونے کا یقین ہوتا اس کو وہ رسول کے پاس لانے سے انکار کر دیتے اور طاغوتی عدالتوں سے رجوع کرتے۔

غور کرنے کا مقام ہے کہ ہم کس قدر اپنے ذاتی اور، باہمی معاملات میں شریعت کی حکمرانی تسلیم کرتے ہیں، بالخصوص وہ لوگ غور کریں جو اپنے مومن ہونے کے دعویدار ہیں، اورایسے لوگوں کو مزید شدت کے ساتھ غور کرنا چاہیے کہ جب دو فریق ہوں اور دونوں حامل شریعت اور عالم علوم شریعت ہوں پھر بھی وہ اسلام کے نظام قضاسے رجوع نہ ہوکر، شریعت کا حکم نہ معلوم کرکے طاغوتی عدالتوں کے چکر کاٹیں،
ظاہر ہے اس صورت میں پہلا شخص ناحق ہونے کی صورت میں اصل مجرم ہوگا،
کیوں کہ وہ ناحق ہوتے ہوئے گیا جبکہ دوسرا تو اب جانے پر مجبور ہوا، لیکن اگر پہلا حق پر ہے اور دوسرا ناحق ہے، تو پہلے کے جانے کی وجہ یہ ہے کہ دوسرا فریق بغیر عدالتی چارہ جوئی کے حق تسلیم کرنے کو تیار نہیں اس صورت میں یہ دوسرا فریق اصل مجرم ہے،
خدا وند قدوس کا ارشاد عالی ہے
فلا وربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما (نساء۵۶)
*آیت کے الفاظ پر غور کیجئے فرمایا جار ہا ہے کہ اے محمد آپ کے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ یہ اپنے باہمی معاملات میں تم کو حکم وفیصل نہ مان لیں اور پھر آپ جو فیصلہ فرمادیں اس سے اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ محسوس کریں*
بلکہ آپ کے فیصلہ پر سر تسلیم خم نہ کر دیں،
غور کیجئے ویسلمو تسلیماکہا گیا ہے، سر بسر تسلیم کر لیں، عملی غفلت و کوتاہی اور شریعت کی خلاف ورزی اور چیز ہے لیکن ناحق کے حصول کے لیے، بالقصد اور بسا اوقات فریقین کے علم شریعت سے واقف ہونے کے باوجود طاغوت کی عدالت میں حاضری اور چیز ہے، ظاہر ہے کہ یہ حکم خداوندی حضور کی حیات مبارکہ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تا قیامت آپ کے ہر ثابت شدہ عمل کو ماننے یا نہ ماننے پر مومن ہونے اور نہ ہونے کا انحصار ہے، آپ کی حیات میں بلا واسطہ آپ سے رجوع کرنے کا حکم تھا اور آپ کے بعد آپ کی شریعت سے رجوع کرنے کا حکم ہے،
حکم شریعت ہی درحقیقت حکم رسول ہے، حضرت معید بن جیرفرماتے ہیں کہ جس شخص کو قرآن پہنچ گیا وہ ایسا ہو گیا جیسے اس نے محمد کی زیارت کر لی، ایک حدیث میں آپ نے فرمایا کہ جس شخص کو قرآن پہنچ گیا میں اس کا نذیر ہوں، اس لحاظ سے یہ حکم تاقیامت جاری و ساری رہے گا، اسی کو تو اس حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے
لا یومن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لما جئت به گویا جان بوجھ کر،
*بدون عذر اپنے مقدمات میں شریعت کے علاوہ کسی کو فیصل وحکم بنانا حاکمیت الہ کے ساتھ حضور کی قانونی اور تشریعی حیثیت کا انکار ہے!!*، خداوندقدوس نے بے شمار آیات میں حضور کی اطاعت کا حکم دینے کے بعد اس آیت کریمہ میں قسم کھاکر یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جو رسول کے فیصلہ کو کھلے دل سے قبول نہ کرے وہ مومن ہی نہیں منافق ہے،
مفتی محمد شفیع دیوبندی ؒاس آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں:
  ” اول یہ کہ وہ شخص مسلمان نہیں ہے جو اپنے ہر جھگڑے اور ہر مقدمے میں رسول کریم ﷺ کے فیصلہ پر مطمئن نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ حضرت فاروق اعظمؓ نے اس شخص کو قتل کر ڈالا جو آنحضرت ﷺ کے فیصلہ پر راضی نہ ہوا اور پھر معاملہ کو حضرت عمرؓ کے پاس لے گیا، اس مقتول کے اولیاءنے رسول اللہ ﷺ کی عدالت میں حضرت عمرؓ پر دعویٰ کر دیا کہ انہوں نے ایک مسلمان کو بلا وجہ قتل کر دیا، جب یہ استغاثہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ہواتو بیساختہ حضور ﷺ کی زبان مبارک سے نکلا:
ما کنت اظن ان عمر یجبترئعلی قتل رجل مؤمن
(یعنی مجھے یہ گمان نہ تھا کہ عمر کسی مرد مومن کے قتل کی جراءت کریں گے)
اس سے ثابت ہوا کہ حاکم اعلیٰ کے پاس اگر کسی ما تحت حاکم کے فیصلہ کی اپیل کی جائے تو اس کو اپنے حاکم ما تحت کی جانب داری کے بجائے انصاف کا فیصلہ کرنا چاہیے،
جیسا اس واقعہ میں آیت نازل ہونے سے پہلے آنحضرت ﷺ نے حضرت عمرؓ کے فیصلہ پر اظہار ناراضی فرمایا پھر جب یہ آیت نازل ہوئی تو حقیقت کھل گئی کہ اس آیت کی رو سے وہ شخص مؤمن ہی نہیں تھا۔

دوسرا مسئلہ اس آیت سے یہ نکلا کہ لفظ
فیما شجر صرف معاملات اور حقوق کے ساتھ متعلق نہیں،
عقائد اور نظریات اور دوسرے نظری مسائل کو بھی حاوی ہے،
(بحرمحیط)
اس لئے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جب بھی کسی مسئلہ میں باہم اختلاف کی نوبت آئے توباہم جھگڑتے رہنے کے بجائے دونوں فریق رسول اللہ ﷺ کی طرف اور آپ کے بعد آپ کی شریعت کی طرف رجوع کرکے مسئلہ کا حل تلاش کریں۔“ (معارف القرآن ج۱ ص۲۱۱-۳۱۱)

اس مسئلہ کی مزید وضاحت کے لیے ضروری ہے کہ اس سے پہلے کی آیات پر نظر ڈالی جائے
: الم تر الی الذین یزعمون انھم آمنوا بما انزل الیک وما انزل من قبلک یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت وقد امروا ان یکفروا بہ، ویرید الشیطان ان یضلھم ضلٰلا بعیدا۔ واذا قیل لھم تعالوا الی ما انزل اللہ والی الرسول رأیت المنافقین یصدون عنک صدودا۔ (سورة النسائ، آیت ۰۶،۱۶)

(ترجمہ: کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا، جو دعوے کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ پر نازل ہوا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا، وہ اسے مانتے ہیں، اور چاہتے یہ ہیں کہ طاغوت (جاہلانہ اور کافرانہ نظام) کی طرف اپنے مقدمات میں رجوع کریں، جبکہ حکم یہ ہے کہ ان کا انکار کیا جائے، اور شیطان یہ چاہتا ہے کہ ان کو بھٹکا کر دور نکال دے۔ ان لوگوں سے جب کہاجاتا ہے کہ آؤاللہ کے نازل کردہ (قانون) کی طرف اور رسول کی طرف (یعنی انہیں اسلامی عدالتوں اور قرآن و حدیث کی بنیاد پر فیصلوں کی طرف دعوت دی جاتی ہے) تو آپ ان منافقین کو دیکھیں گے کہ یہ آپ سے کترا کر نکل جائیں گے۔ )

عام طور پر مفسرین نے اس آیت کے ضمن میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ بشر نامی ایک منافق کا ایک یہودی کے ساتھ جھگڑا ہوگیا، یہودی نے کہا چل محمد سے فیصلہ کرواتے ہیں، کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ وہ حق پر ہے اور محمد کی عدل پروری سے اس کو اس کا حق ملے گا اگرچہ اس کا مقابل منافق (بظاہر مسلمان) ہے، منافق بشر کو معلوم تھا کہ وہ حق پر نہیں ہے اس لئے اس نے کہا کہ کعب بن اشرف یہودی سے فیصلہ کراتے ہیں، اسی کو کہا گیا ہے کہ
یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت وقد امروا ان یکفروا بہ
یہودی حق پر تھا اس لیے اسے اپنے سردار کعب بن اشرف سے زیادہ حضورکے عدل وانصاف پر اعتماد تھا، اور منافق غلطی پر تھا اس لئے جانتا تھا کہ حضور کا فیصلہ اس کے خلاف ہوگا، اس لیے وہ طاغوتی طاقت سے فیصلہ کرانے پر مصر تھا، قصہ مختصر دونوں میں باہمی گفتگو سے یہ طے پایا کہ حضور سے فیصلہ کرائیں،
حضور نے تحقیقات کے بعد یہودی کے حق میں فیصلہ کر دیا، منافق اس فیصلہ پر راضی نہ ہوا، ا س نے ایک نئی ترکیب سوچی کہ حضرت عمرؓ کفار کے معاملہ میں بہت سخت ہیں اس لئے اگر اپنے فریق کو کسی طرح اس پر راضی کر لیا جائے کہ اس معاملہ کا فیصلہ وہ کریں تو میرا کام بن سکتا ہے، بہرحال یہودی کسی طرح اس پر بھی راضی ہوگیا اور معاملہ حضرت عمرؓ کے پاس پہنچ گیا، یہودی نے ان کو سارا قصہ سنایا اور حضور کے فیصلہ سے باخبر کیا اور یہ بھی بتایا کہ یہ میرا فریق رسول کے فیصلہ سے مطمئن نہیں ہے، حضرت عمر نے منافق سے پوچھا یہی معاملہ ہے؟ اس نے تائید و تصدیق کی، فرمایا ذرا ٹہرو، گھر کے اندر گئے اور تلوار لے کر آئے اور منافق کی گردن مار دی، اور ارشاد فرمایا کہ جو شخص رسول کا فیصلہ نہ تسلیم کرے اس کا یہی فیصلہ ہے،
متعدد مفسرین نے اس واقعہ کے بعد مقتول منافق کے وارثین کی طرف سے حضرت عمر کے خلاف دعویٰ دائر کرنے کی تفصیل بھی لکھی ہے، کہ وارثوں نے یہ دعوی کیا کہ انہوں نے ایک مسلمان کو بغیر کسی دلیل شرعی کے قتل کرنے کا ارتکاب کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اس شخص کے نفاق کی قلعی کھول کر حضرت عمر کو بری فرمادیا اور اس طرح اس کے وارثین کا دعوی خارج کر دیا گیا۔

ان آیات میں غور کرنے کے بعد جب اپنی حقیقت حال پر نظر جاتی ہے تو شک سا ہونے لگتا ہے، دیکھیے تو صحیح انداز قرآنی، اس شخص کو دیکھو جسے ایمان کا دعوی بھی ہے اور اپنے جھگڑوں، معاملات، نزاعات و نظریاتی اختلافات کا فیصلہ طاغوت کے پاس لے جانا چاہتا ہے، جبکہ اسے طاغوت کے انکار کا حکم دیا گیا تھا، لیکن کتاب وسنت کو ترک کرکے، طاغوت کی عدالت میں پہنچا کر شیطان نے اسے گمراہیوں کے گہرے دلدل میں پھنسا دیا،
جب منافقین کی پول کھول دی گئی تو پھر حاضر خدمت ہوکر قسمیں کھانے لگے اور بے جا تاویلیں پیش کرنے لگے،
شریعت کی موجودگی اور اس پر عمل کرنے کے مواقع موجود ہونے اور اس کے لیے حالات سازگار ہونے کے باوجود بھی اگر اس پر عمل نہ کیا جائے تو پھر یہ کسی طرح نفاق سے کم نہیں، اور اس پر بے سر پیر کی تاویل یا عذر لنگ قابل قبول نہیں، دیکھیے آگے قرآن مجید نے کس انداز بے جا تاویلوں کی حقیقت بیان کی ہے، شریعت ہے ہی اس لیے کہ اس پر عمل کیا جائے ، رسول کی بعثت ہوئی ہی اس لیے کہ ان کا اتباع کیا جائے، پھر بھی طاغوت کی عدالت میں جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ فیصلہ کا قانونی حق تو حضور کو ہی حاصل ہے مگر ہم تو دوسروں کے پاس اس لیے گئے کہ شاید فریقین کے لیے کوئی اچھا حل نکل آئے، بھلائی کا کوئی سرا ہاتھ آجائے فکیف إذا اصابتھم مصیبة بما قدمت ایدیھم ثم جاءواک یحلفون باللہ ان اردناإلااحسانا وتوفیقا۔ اولئک الذین یعلم اللہ ما فی قلوبھم فاعرض عنھم وعظھم وقل لھم فی انفسھم قولا بلیغا۔ (نساءآیت۲۶۔۳۶)

(ترجمہ: پھر ان کا کیا حال ہوتا ہے، جب ان پر کوئی مصیبت اپنے کرتوتوں کی وجہ سے آتی ہے، تو یہ آپ سے آکر قسمیں کھاتے ہیں کہ ہمارا ارادہ تو بہتری اور آپس میں جوڑ کا تھا۔ ان لوگوں کے دلوں کا حال اللہ خوب جانتا ہے اس لئے ان سے گریز کیجئے اور انہیں نصیحت کیجئے اور ان سے ایسی بات کہیے جو ان کے دلوں تک پہنچ سکے )

اس آیت میں حضور کو ایسے دل ودماغ کے مریضوں سے جو عملا اور صراحتاً شریعت کی مخالفت بھی کریں اور پھر بیکار کی باتیں بنائیں، ان سے اعراض کرنے کے ساتھ موثر ودلپذیر انداز میں نصیحت کرنے کا حکم دیا گیا، کہ ان لوگوں کو حاکمیت الہ، شریعت کی بالا دستی، رسول اللہ کی قانونی حیثیت اور جملہ اسلامی تعلیمات کو بلیغ ومؤثر انداز میں اس طرح سمجھا یا جائے کہ وہ ان کے دلوں میں اتر سکے، وعظھم پر غور کیجئے، جو ذمہ داری رسول کی تھی وہ اب علوم نبوت کے وارثین وحاملین پر ہے لہذا !!
*انہیں چاہیے کہ وہ اپنے قول وفعل اور کردار وعمل سے عام مسلمانوں کو اس طرح نصیحت کریں کہ وہ ملک میں موجود اسلامی نظام قضا سے رجوع کرنے کے عادی ہوجائیں،*
آپسی معاملات میں وہ قطعی طاغوتی طاقتوں کو حکم نہ بنائیں، اس طرح وہ جھوٹ، فریب اور ضیاع وقت کے ساتھ ساتھ ضیاع مال سے بھی بچیں گے اور ان آیات میں موجود وعیدوں سے بھی انہیں نجات حاصل ہوگی،
*راقم یہ سمجھتا ہے کہ وعظھم وقل لھم فی انفسھم قولا بلیغا میں اس طرح نصیحت کرنے کا مطالبہ ہے کہ بات دلوں میں اتر جائے، خواہ یہ سمجھا بجھا کر، ذاتی تجربہ پیش کرکے ہو، عملی کردار کا نمونہ پیش کرکے ہو جس طرح بھی ممکن ہو مؤثر انداز میں شریعت سے دور رہنے والوں کو شریعت کی بالا دستی تسلیم کرنے کی نصیحت کی جائے،!*
لحاظ رہے کہ حضور کی سیرت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی عمل پر ابھارنے، نصیحت کے پھلنے اور تحریک کے پھیلنے میں عملی کردار کا بڑا دخل رہا ہے، چنانچہ ضرورت ہے کہ اسلامی دارالقضاءکے نظام کو مزید خوب تر وفعال بنایا جائے اور اپنے تنازعات کو وہاں حل کراکر عملی نظیر پیش کی جائے،
*راقم کے ان آیات میں غور کرنے کے بعد اس کا یہ احساس شدید تر ہوگیا کہ جو لوگ علوم شریعت کے حامل ہوں، قرآن وسنت کے علم کے دعویدار بلکہ سند یافتہ ہوں ان کا دارالعہد میں رہنے کے باوجود آپس میں، مذہبی، ملی، ادارتی بلکہ ذاتی معاملات میں شریعت کو چھوڑ کر دنیا کے قانون اور جھوٹ کا سہارا لینا وکیلوں پر پیسہ خرچ کرنا حرام نہیں حرام تر ہے!!!*
کیوں کہ یہاں تو یہ خطرہ ہی نہیں کہ فریق مخالف اگر فیصلہ سے راضی نہ ہوا تو پھر نافذ کون کرے گا، کیوں کہ دونوں حق وناحق اور حکم شریعت سے واقف ہیں، چہ جائیکہ عام مسلمانوں کے لیے بھی یہی حکم ہے۔
چنانچہ جن ممالک میں شریعت اسلام کے مطابق زندگی گزاری جا سکتی ہے اور شرعی نظام کے نفاذ کے تمام امکانات موجود ہیں وہاں اگر شریعت پر عمل نہیں تو پھر تاویلات کا جس قدر بھی سہارا لیجئے مگر قرآن کے الفاظ بہت صریح ہیں
ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدیٰ ویتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ماتولی ونصلہ جنھم وساءت مصیرا (نساء۵۱۱)
(ترجمہ: اور جو رسول سے کٹ کر اپنی ڈگر بنائے گا، جبکہ ہدایت اس کے سامنے کھل کر آچکی ہے، اور ایمان والوں کے راستہ سے ہٹ کر کوئی راستہ اپنائے گا، تو ہم اسے اسی رخ پر چلنے دیں گے، اور پھر جہنم میں جھلسا دیں گے، اور اس کا بہت برا انجام ہوگا۔ )

  جن ممالک میں مسلمانوں کے لیے اس قدر گنجائش موجود ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل کر سکیں وہاں انہیں اپنے حدود میں رہتے ہوئے شریعت اسلامی کے دائرے کو وسعت دینی چاہیے، اسلامی نظام قضا، اسلامی نظام تعلیم، اسلامی نظام معاشرت اور اسلامی نظام تجارت پر اگر اس ملک کے مسلمان عمل کریں تو انہیں کون روک رہا ہے، اسلامی تعلیم تو ہے لیکن اسلامی نظام تعلیم بڑی حد تک مفقود، اسلامی دار القضا تو ہے مگر خود ہماری بے اعتنائی سے شاکی ومعطل، ضرورت ہے کہ ان شعبوں کو فعال بنایا جائے اور قرآن کے ان تیوروں سے بھی لوگوں کو واقف کرایا جائے ،

اب صورت حال بایں جارسید کہ عام لوگ جس نظام میں زندگی گزار رہے ہیں اس پر اس لیے راضی بہ رضا ہیں کہ وہ اسے اسلامی نظام نہیں تو ایسا نظام ضرور شمار کرتے ہیں جس سے اسلام راضی ہے-
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1164863660237892&id=120477478009854

No comments:

Post a Comment