Thursday 6 October 2016

حضرت رابعہ بصریہ رحمہ اللہ علیھا

ایس اے ساگر

کیا کبھی آپ کے دل میں یہ خیال گذرا ہے کہ حضرت رابعہ بصریہ رحمہ اللہ کس کی مریده تھیں، ان کو یا کسی اور  عورت کو مرید کرنے کی اجازت ملی یا نهیں یعنی خواتین میں سے کوئی عورت خلیفہ ہوئی یا نهیں، اگر ہوئی تو کون اور کس کی؟ اہل علم حضرات کے نزدیک،  
فإن رابعة العدوية امرأة من أتباع التابعين، وقد توفيت سنة ثمانين ومائة، وكانت مشهورة بالعبادة والزهد، ولم يكن التصوف معروفا في ذلك العصر باسمه ولا ميزاته المعروفة الآن، وإنما كان هناك عباد تميزوا بزهدهم وورعهم، وكان أئمة السلف يثنون على رابعة منهم: سفيان الثوري وغيره، وقد أثنى عليها ابن الجوزي في صفة الصفوة، وألف في سيرتها جزءا خاصا، وقد اتهمها بعضهم بالحلول، وأنكر ذلك الذهبي في السير، قال الذهبي في سير أعلام النبلاء عند ترجمتها: رابعة العدوية البصرية الزاهدة العابدة الخاشعة، رابعة بنت إسماعيل أم عمر ولاؤها للعتكيين، ولها سيرة في جزء لابن الجوزي، وذكر أنه قال ابن أبي الدنيا: حدثنا محمد بن الحسين حدثني عبيس بن ميمون العطار حدثتني عبدة بنت أبي شوال وكانت تخدم رابعة العدوية قالت: كانت رابعة تصلي الليل كله، فإذا طلع الفجر هجعت هجعة حتى يسفر الفجر، فكنت أسمعها تقول: يا نفس كم تنامين, وإلى كم تقومين، يوشك أن تنامي نومة لا تقومين منها إلا ليوم النشور... وقال أبو سعيد بن الأعرابي: أما رابعة فقد حمل الناس عنها حكمة كثيرة، وحكى عنها سفيان وشعبة وغيرهما ما يدل على بطلان ما قيل عنها وقد تمثلته بهذا.
ولقد جعلتك في الفؤاد محدثي  وأبحت جسمي من أراد جلوسي.
فنسبها بعضهم إلى الحلول بنصف البيت، وإلى الإباحة بتمامه. قلت ـ والقول للذهبي ـ فهذا غلو وجهل، ولعل من نسبها إلى ذلك مباحي حلولي ليحتج بها على كفره كاحتجاجهم بخبر: كنت سمعه الذي يسمع به. انتهى.
قرونِ اولیٰ کی اس معروف صوفی شخصیت کی پیدائش 95ھ سے 99ھ کے دوران عراق کے شہر بصرہ میں ہوئی۔ آپ کی ابتدائی زندگی کی زیادہ تر تفصیلات شیخ فریدالدین عطار نے بیان کی ہیں۔ اسلامی ادب میں رابعہ بصری سے جڑی بےشمار روحانی کرامات کے واقعات ملتے ہیں، جن میں سے کچھ خود ساختہ بھی ہیں۔ رابعہ بصری رحمہ اللہ علیھا نے خود کوئی تحریری کام نہیں چھوڑا، چنانچہ ان سے متعلق زیادہ تر شیخ فریدالدین عطاررحمہ اللہ علیھ کی طرف سے بیان کی گئی معلومات و حوالہ جات کو مستند مانا جاتا ہے، جو ان کے بعد کے زمانے کے ولی اور صوفی شاعر ہیں۔
حضرت رابعہ بصری رحمہ اللہ علیھا آدھی قلندر تھیں۔ وہ اپنے والدین کے ہاں پیدا ہونے والی چوتھی بیٹی تھیں اس لئے ان کا نام رابعہ رکھا گیا اور بصرہ شہر میں متولد ہوئیں اس لئے بصری کہلائیں۔ آپ بہت زیادہ عابدہ، زاہدہ، صابرہ شاکرہ اور کشف و کرامت والی تھیں۔ بڑے بڑے اولیاء اللہ آپ کی مجلس میں اکتساب فیض کے لئے حاضر ہوتے تھے۔ حضرت رابعہ رضی اللہ عنہا کی زندگی خواتین کے لئے مشعل راہ ہے جس پر چل کر وہ نہ صرف دنیا بلکہ اپنی عاقبت بھی سنوار سکتی ہیں۔ آپ ایک متقی اور متوکل بزرگ حضرت شیخ اسماعیل رضی اللہ عنہ کے ہاں پیدا ہوئیں۔ آپ کی ولادت کے وقت گھر میں فاقوں کی نوبت تھی۔ لہذا آپ کی والدہ نے شیخ اسماعیل سے کہا کہ کچھ پڑوس سے قرض لے لیں تاکہ یہ مشکل وقت گزر جائے۔ آپ کے والد محترم نے مجبوری کے عالم میں آدھی رات کو پڑوسی کے دروازے پر دستک دی کیونکہ غیراللہ سے سوال کرنا ان کی غیرت ایمانی کو گوارہ نہ تھا۔ پڑوسی نیند میں تھا اس نے دروازہ کھٹکھنے کی نہ آواز سنی، نہ دروازہ کھولا۔ پس آپ خالی ہاتھ واپس لوٹے تو آپ کی والدہ بہت پریشان ہوئیں۔ شیخ صاحب پریشانی کے عالم میں سوگئے۔ خواب میں سرکار کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ بیٹی کی ولادت پر مبارک باد دی اور فرمایا اسماعیل پریشان نہ ہو تیری یہ بچی عارفہ کامل ہوگی۔ اگر مالی پریشانی ہے تو صبح حاکم بصرہ عیسیٰ زردان کے پاس جانا۔ میری طرف سے ایک خط لکھ لینا کہ تم مجھ پر ہر روز سو مرتبہ اور ہر جمعرات کو چار سو مرتبہ درود بھیجتے ہو۔ اس جمعرات کو تحفہ دینا بھول گئے۔ اس لئے چار سو دینار بطور کفارہ خط دینے والے کو دے دو۔
صبح جب شیخ صاحب خط لے کر حاکم بصرہ عیسیٰ کے پاس گئے تو اس نے نہایت مودبانہ انداز میں شیخ صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ آپ کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یاد فرمایا۔ اسی خوشی میں ایک ہزار دینار غرباء میں تقسیم کئے اور چار سو دینار شیخ صاحب کو دیے۔
جب حضرت رابعہ بصری رحمہ اللہ علیھا پانچ سال کی ہوئیں تو والدین کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ آٹھ برس کی عمر میں بصرہ سخت قحط کا شکار ہوگیا اور کسی شقی القلب نے پکڑ کر آپ رضی اللہ عنہا کو بصرہ کے متمول شخص عتیق کے ہاتھوں بیچ دیا۔ آپ کا حاکم بہت ظالم تھا جس کی وجہ سے حضرت رابعہ بصری رضی اللہ عنہا کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ نے ہر دکھ کو صبر و استقامت سے برداشت کیا۔ ایک رات چھوٹے سے کمرے میں مٹی کے دیئے کی روشنی میں ایک خوبصورت بالغ لڑکی بارگاہ ایزدی میں نہایت خشوع و خضوع سے محو ذکر و فکر تھی کہ اس کے آقا کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے کمرے میں روشنی دیکھی تو اٹھ کر ایک چھوٹے سے سوراخ سے اندر جھانکنے لگا۔ اس وقت وہ لڑکی جس کا نام رابعہ تھا نہایت عجزو انکساری سے کہہ رہی تھی۔
اے احکم الحاکمین! میں یتیم و مبتلائے و مصیبت ہوں، غلامی کی زنجیروں نے مجھے جکڑ رکھا ہے۔ دکھ درد اور جورو ستم برداشت کررہی ہوں لیکن اس کے باوجود صبر میرا منشاء و مقصود تیری رضا جوئی ہے۔ اے رب العزت میں قلب و روح سے تیری اطاعت کی تمنائی ہوں۔ مجھے رات کو سکون تیری عبادت سے میسر آتا ہے مگر بے بس و لاچار ہوں۔ میں ایک لمحہ بھی تیرے ذکر سے نہ ہٹتی مگر تم نے مجھے ایک پتھر دل انسان کے ہاتھوں میں سونپ رکھا ہے۔
اس کے آقا نے جب یہ الفاظ سنے تو لرزہ براندام ہوکر تڑپ اٹھا۔ اس نے دوبارہ روزن سے اندر کی جانب جھانکا تو یوں محسوس ہوا جیسے رابعہ کے سر پر کوئی نورانی چراغ روشن ہو جس سے سارا کمرہ بقعہ نور بنا ہو۔ وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو رابعہ اٹھ کھڑی ہوئی آقا نے دلگیر آواز میں کہا۔ رابعہ میں اپنی خطائوں کی معافی مانگتا ہوں۔ اب سے تو آزاد ہے دل چاہے تو میرے پاس رہ سکتی ہو اور اگر کہیں جانا چاہتی ہو تو مالک و مختار ہو۔
حضرت رابعہرحمہ اللہ علیھا کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی فریاد سن لی۔ تاجر عتیق کی غلامی سے آزاد ہونے کے بعد سیدہ رابعہ بصرہ سے ایک بڑے علمی مرکز کوفہ چلی گئیں جہاں اس وقت کے بڑے بڑے علماء موجود رہتے تھے۔ وہاں آپ نے قرآن حفظ کیا۔ اسرار فقہ و حدیث و تفسیر کو خوب سمجھا بہت سی احادیث مبارکہ ازبر کیں کیونکہ ان دنوں حفظ و حدیث کی بنیاد تعلیم و تعلم تھی۔
تعلیم سے فراغت کے بعد وہ دل وجان سے عبادت و ریاضت میں مشغول ہوگئیں۔ جب وہ سوتیں تو تھوڑی ہی دیر بعد بڑبڑا کر اٹھ بیٹھتی تھیں۔ آنسو آنکھوں سے بہنے لگتے، نفس کو ملامت کرنے لگتیں کہ وہ اتنی دیر اپنے رب ودود سے کیوں غافل رہی۔ بعد از نماز عشاء چھت پر جاکر ہاتھ پھیلا کر کہتیں:
اے پروردگار مہ و نجوم روشن ہوگئے، تیری مخلوق بستروں پر دراز ہے، امراء اور بادشاہوں نے اپنے دروازے قفل کرلئے ہیں۔ ہر دوست اپنے دوست سے محو خلوت ہے اور میں تیرے سامنے کھڑی ہوں۔
تمام رات عبادت میں مصروف رہتیں بوقت فجر قرآن مجید کی تلاوت کرتیں اور دن چڑھنے تک مناجات کرتی رہتیں پھر کہتیں۔ میرے اللہ رات بیت گئی، کاش مجھے معلوم ہوتا کہ تو نے میری صلوۃ قبول فرمالی ہے تیری عزت کی قسم میرا یہی طریقہ رہے گا جب تک تو مجھے جواب نہ دے گا۔ اگر تو مجھے اپنے در سے دھتکار بھی دے گا تو میں نہ ہٹوں گی کیونکہ میرا دل تیری محبت میں گھر گیا ہے۔
اللہ کے عشق و محبت نے اسے دنیا کی ہر چیز سے بے رغبت کردیا تھا۔ وہ تھوڑی سی غذا اور تن ڈھانپنے کے کپڑوں پر قناعت کرتی تھیں۔ اپنی جوانی رضائے الہٰی کے لئے وقف کردی۔ حضرت رابعہ دن رات میں ہزار رکعت نماز پڑھتی تھیں۔ لوگوں نے اس کی وجہ دریافت کی تو فرمایا میرا منشاء ثواب حاصل کرنا نہیں میں ہادی برحق محبوب الہٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش کرنے کے لئے ایسا کرتی ہوں تاکہ وہ دوسرے انبیاء سے فرماسکیں کہ میری امت کی اس عورت کی طرف دیکھو اس کا عمل کیا ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ رضائے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت رابعہ بصری کا مقصود تھا اور روز جزاء ملاقات کی متمنی تھیں۔ اکثر کہا کرتی تھیں کہ میں جنت کے لئے عبادت نہیں کرتی بلکہ محبت کی وجہ سے کرتی ہوں۔
حضرت رابعہ بصری رحمہ اللہ علیھا نے جب زاہدانہ زندگی کی ابتداء کی تھی تو اس وقت اور بعد میں بھی شادی کے پیغامات آتے رہے لیکن آپ نے انکار کردیا۔ ایک مرتبہ حضرت عبدالواحد بن زید نے جو علم تصوف میں حضرت رابعہ کا ہم پلہ تھے شادی کا پیغام دیا تو آپ نے اسے عرصے تک اپنے گھر نہیں آنے دیا۔ کسی نے شادی نہ کرنے کی وجہ دریافت کی تو جواب دیا کہ جو مجھے تین باتوں سے چھڑا دے تو میں اس سے شادی کرلوں گی۔ استفسار پر فرمایا کہ پہلی بات یہ ہے کہ کیا میں اپنا ایمان سلامت لے جائوں گی، دوسری بات کہ کیا قیامت کے دن مجھے میرا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اور تیسری بات یہ ہے کہ جب روز حشر داہنے ہاتھ والے بطرف جنت اور بائیں ہاتھ والے بجانب جہنم جائیں گے تو میں کن لوگوں میں شامل ہوں گی۔ پوچھنے والے نے کہا کہ اس کا علم تو صرف باری تعالیٰ کو ہے تو حضرت رابعہ بصری رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
بس یہی بات ہے اور مجھے ان باتوں کی فکر ہے لہذا میں اپنے شوہر کے لئے کیونکر وقت نکال سکتی ہوں۔ حضرت رابعہ بصری رضی اللہ عنہا کے ایمان و استقلال کی جو کیفیت تھی اس کو ایک تحریر میں بیان کرنا مشکل ہے۔ ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہا دوران نماز سوگئیں اتنے میں ایک چور آگیا اور چادر اٹھا کر چل دیا مگر اسے دروازہ نظر نہ آیا اس نے گھبرا کر چادر رکھ دی تو دروازہ نظر آگیا۔ تین دفعہ ایسا ہی ہوا چور کو آواز آئی اب بھی تو باز نہ آیا تو دائمی اندھے ہوجائو گے۔ اس گھر کی مالکہ ہماری دوست ہے، اس نے اپنے آپ کو ہماری حفاظت میں دے رکھا ہے۔ ایک دوست سورہا ہے تو دوسرا جاگ رہا ہے۔
حضرت رابعہ بصری رحمہ اللہ علیھا نے قرآن مجید کو اپنی زندگی میں عملاً نافذ کیا۔ ایک بار آپ کے ہاں پانچ درویش حاضر ہوئے اتفاق سے وہ کھانے کا وقت تھا۔ حضرت رابعہ بصری رضی اللہ عنہا نے اپنی خادمہ کو الگ بلا کر پوچھا:
مہمانوں کی تواضع کے لئے گھر میں کچھ کھانے کو ہے۔ خادمہ نے بتایا کہ صرف ایک روٹی موجود ہے۔ حضرت رابعہ نے فرمایا کہ ایک روٹی سے کیا ہوگا؟ مہمانوں کے حصے میں ایک ایک ٹکڑا ہی آئے گا۔ یہ کہہ کر آپ مہمان درویش کے پاس تشریف لے آئیں۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک سوالی نے در پر صدا دی۔ حضرت رابعہ بصری نے فرمایا کہ وہ روٹی اس ضرورت مند کو دے دوجو دروازے کے باہر کھڑا ہے۔ خادمہ نے آپ کے حکم کی تعمیل کی اور حضرت رابعہ بصری مہمانوں کے ساتھ مصروف گفتگو ہوگئیں کچھ دیر بعد خادمہ حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا: ایک شخص کھانا لے کر آیا ہے۔ ’’کتنی روٹیاں‘‘؟ حضرت رابعہ بصری نے خادمہ سے پوچھا:
جب خادمہ نے بتایا کہ دو روٹیاں تو آپ نے فرمایا کہ اسے واپس کردو وہ شخص غلطی سے ہمارے گھر آگیا ہے اور وہ کھانا ہمارا نہیں۔ خادمہ نے روٹیاں واپس کردیں۔ تھوڑی دیر بعد خادمہ نے اطلاع دی کہ ایک اور شخص کھانا لے کر آیا ہے حضرت رابعہ بصری نے روٹیوں کی تعداد پوچھی تو آپ کو بتایا گیا کہ پانچ روٹیاں ہیں۔
حضرت رابعہ بصری نے جواباً فرمایا اس بار بھی کھانا لانے والے سے غلطی ہوگئی۔ اس سے کہہ دو کہ وہ کھانا ہمارا نہیں ہے۔ پھر تیسری بار ایک شخص اور کھانا لے کر آیا پھر جب خادمہ نے آپ کو بتایا کہ گیارہ روٹیاں ہیں تو حضرت رابعہ نے مسرت کے لہجے میں فرمایا ہاں یہ کھانا ہمارا ہی ہے اسے قبول کرلو۔ خادمہ نے کھانا لاکر درویش مہمانوں کے سامنے سجادیا۔ پھر جب درویش کھانا کھاچکے تو ایک مہمان نے عرض کیا کہ تین مختلف اشخاص کھانا لے کر آئے دو افراد کو آپ نے واپس کردیا مگر تیسرے شخص کے لائے ہوئے کھانے کو قبول فرمالیا۔ آخر یہ کیا راز ہے۔ حضرت رابعہ نے درویش کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایک کے بدلے دس اور آخرت میں ستر دوں گا۔ اس حساب کتاب کی بنیاد پر میں نے دو آدمیوں کو واپس لوٹادیا اور ایک شخص کا کھانا قبول کرلیا۔ میں نے اللہ کی راہ میں سوالی کو ایک روٹی دے کر رزاق عالم سے سودا کیا تھا۔ پھر ایک شخص دو روٹیاں اور دوسرا پانچ روٹیاں لے کر آیا میں نے جان لیا کہ یہ حساب درست نہیں ہے۔ تیسرا شخص گیارہ روٹیاں لے کر آیا تو میں نے کسی تردد کے بغیر انہیں قبول کرلیا کہ یہ عین حساب کے مطابق ہے اور دینے والے کی شان رزاقی کو ظاہر کررہا تھا۔ دس روٹیاں میری ایک روٹی کے بدلے میں تھیں اور جو روٹی میں نے سوالی کو دی تھی اللہ تعالیٰ نے وہ بھی واپس کردی تھی۔
حضرت رابعہ رضی اللہ عنہا کی صبرو قناعت اور توکل کی شان دیکھ کر تمام درویش حیرت زدہ ہوگئے۔ ایک مرتبہ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہا کو ایک سوئی، ایک بال اور ایک موم کا ٹکڑا بھیجا اور کہلوا بھیجا کہ موم کی طرح جہاں کو روشن کرو اور خود کو جلائو، سوئی کی طرح ہمیشہ اپنی جگہ پر رہو اور کام کرتے جائو اور پھر بال کی طرح سیدھے رہو تاکہ تمہارے سب کام درست ہوں۔ حضرت رابعہ فرماتی ہیں: عورت وہ ہے جو خدا سے دل طلب کرے اور جب دل مل جائے تو دل کو اسے واپس کردے تاکہ وہ اس کی حفاظت کرے۔
ایک مرتبہ کچھ بزرگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ تم اللہ کی عبادات کس غرض سے کرتے ہو ایک نے کہا آتش دوزخ کے خوف سے دوسرے نے کہا جنت کے لئے آپ نے فرمایا یہ خوف و طمع کی عبادت تو بہت بری ہے۔ پوچھا پھر آپ کس لئے عبادت کرتی ہیں کیا آپ کو کوئی طمع نہیں ہے؟ فرمایا: پہلے ہمسائے کی تلاش کرو پھر گھر کی تلاش ہونی چاہئے۔ اس لئے جنت و دوزخ کا عدم وجود برابر ہے۔ اگر جنت و دوزخ نہ ہوتیں تو اس کی عبادت ہی نہ کی جاتی کتنا ہی اچھا ہو کہ اس کی عبادت اسی کے لئے کی جائے۔ سب خاموش ہوگئے۔ آپ ایک مرد کامل کی سی عقل رکھتی تھیں۔ دقیق مسئلہ بھی آسانی سے حل کردیا کرتی تھیں۔ آپ کی محفلوں میں بڑے بڑے بزرگ تشریف لایا کرتے تھے جن میں حضرت سفیان ثوری، حضرت مالک بن دینار، حضرت صالح، حضرت شقیق بلخی رحمۃ اللہ علیہم قابل ذکر ہیں۔ ایک مرتبہ جب رغبت دنیا پر گفتگو ہورہی تھی تو حضرت رابعہ بصری رضی اللہ عنہا نے حضرت سفیان ثوری رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
تم بہتر صوفی ہوتے اگر دنیا کی محبت نہ ہوتی۔ حضرت سفیان رحمہ اللہ علیھ نے پوچھا:
آپ نے کس چیز میں رغبت دیکھی ہے تو آپ رحمہ اللہ علیھا نے فرمایا کہ تم باتیں بہت کرتے ہو۔ اس سے حضرت رابعہ رضی اللہ عنہا کی مراد یہ تھی کہ دنیا کی باتیں کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا جو عام لوگ کرتے رہتے ہیں۔ آپ کی علالت کی خبر پاکر حضرت سفیان ثوریرحمہ اللہ علیھ آپؒ کی عیادت کے لئے گئے۔ آپ کی اتنی ہیبت تھی کہ آپ خاموش رہے اور زبان سے کچھ نہ نکلا۔ آخر آپ کے فرمانے پر سفیان ثوری رضی اللہ عنہ نے کہا آپ اپنی صحت کے لئے دعا کیجئے۔ فرمایا کہ جانتے ہو کہ علالت اس کے حکم کے بغیر ممکن نہیں اور پھر ایسا کہتے ہو میں اس کی مرضی کے خلاف اس سے کیوں درخواست کرسکتی ہوں کہ دوست کی مرضی کے خلاف کرنا درست نہیں۔ پوچھا کس چیز کی خواہش ہے فرمایا: بارہ برس سے ترکی خرمے کھانے کو دل چاہتا ہے جو بہت ارزاں فروخت ہوتے ہیں لیکن میں نے نہیں کھائے کہ کنیز ہوں اور کنیز کی کوئی آرزو نہیں ہوسکتی۔ دراصل سچا عاشق تو محبوب کی مرضی میں ہی اپنی خوشی تلاش کرتا ہے۔
حضرت رابعہ بصریہ رحمہ اللہ علیھا نے ایک نوجوان کو دیکھا کہ سر پہ پیلی پٹی باندھے ہوئے ہے ۔ آپ رحمہ اللہ علیھا نے پٹی باندھنے کیوجہ پوچھی تو نوجوان نے کہا کہ اماں جان میرے سر میں شدید درد ہے ۔
رابعہ بصریہ رحمہ اللہ علیھا نے پوچھا کہ اس سے پہلے کبھی درد ہوا؟ نوجوان نے کہا کہ نہیں اماں جان ، کبھی نہیں ۔ آپ رحمہ اللہ علیھا نے پوچھا کہ تیری عمر کتنی ہے ؟ تو نوجوان نے کہا کہ پچیس سال ۔ رابعہ بصریہ رحمہ اللہ علیھا نے فرمایا : اے نوجوان ! افسوس ہے تجھ پر کہ اتنے سال شکر کی پٹی نہ باندھی اور جیسے ہی درد ہوا تو فوراً شکوے کی پٹی باندھ لی ۔
اسلئے
ہمیشہ صبر شکر کرتے رہو الله کی نعمت اور احسانات انگنت اور بے شمار ہیں ....الله پاک ہمیں صبر شکر کرنے والا بنا دے ۔۔ آمین
تعلق الٰہی کی چادر میں ڈھکی اوراخلاص کے پردہ میں چھپی حضرت رابعہ بصریہؒ کے انتقال کے بعد کسی نے خواب میں پوچھاکہ آپ نے منکرنکیر کے سوالات کاکیا جواب دیا؟
فرمایا کہ جب منکرنکیر نے سوال کیا
’مَنْ رَبُّکَ؟‘
تو میں نے ملائکہ سے کہا کہ میں تو اس کو تمام عمراپنا رب کہتی رہی، مجھ سے کیاپوچھتے ہو، مجھے تو یہ بتائو کہ اس نے بھی کبھی مجھکو اپنی بندی کہا یا نہیں، اجی; ہم تمام عمررب کہتے رہیںتوکیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ بھی ہم کو اپنی بندی کہتے ہیں یا نہیں؟
(پہلی تقریر سیرت ص ۴۸)
حضرت رابعہ بصری رحمہ اللہ علیھا نے ایک سے زائد حج کئے لیکن ان کا زمانہ متعین کرنا دشوار ہے کیونکہ اس ضمن میں تاریخ خاموش ہے۔ وصال سے قبل آپ پر نقاہت و ناتوانی غالب آگئی ہر وقت گریہ کا عالم طاری رہتا تھا اور دعا کرتی تھیں کہ جو مرض مجھے لاحق ہے اس کا علاج کسی طبیب کے پاس نہیں اس لئے مجھے موت دے دے۔ ہفتہ بھر میں تھوڑا سا کھاتی تھیں۔ گوشہ تنہائی میں ذکر الہٰی میں مصروف رہتی تھیں۔ ایک چھوٹے سے بانس پر اپنا کفن لٹکا رکھا تھا۔
رابعہ بصری نے تقریباً اٹھاسی (88) سال کی عمر پائی۔ آپ نے آخری سانس تک عشق الٰہی کی لذت و سرشاری کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ یہاں تک کہ اپنی آخری سانس تک معبودِ حقیقی کی محبت کا دم بھرتی رہیں۔ آخری وقت آپ نے اپنے ولی اور صوفی ساتھیوں کو بتایا کہ ”میرا محبوب و معبود ہمیشہ سے میرے ساتھ ہے۔
آخری ایام میں کھانا بالکل چھوڑ دیا تھا جب موت قریب آگئی تو خادمہ سے کہا کہ میری وفات کا علم عام نہ ہو۔ بالوں کا جبہ جو میں پہنتی تھی اور سامنے لٹکا ہوا ہے اسی کا کفن دیا جائے اور سر کو سیاہ چادر سے ڈھانپ دیا جائے اور جب آپ کی روح مبارک قفس عنصری سے پرواز ہوئی تو وہ کلمہ شہادت پڑھ رہی تھیں چنانچہ تجہیز و تکفین کے بعد عاشقہ صادقہ کو بصرہ میں ہی سپرد خاک کردیا گیا۔
آپ کی زندگی سے یہ سبق ملتا ہے کہ معرفت الہٰیہ کے دروازے مردو عورت سب کے لئے کھلے ہیں۔ اس کی راہ پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں چلنا ہمارا کام ہے۔ باقی فضل و کرم کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے کہ وہ سجدوں کو شرف قبولیت بخشے۔

No comments:

Post a Comment